پیر، 31 اکتوبر، 2011

چھوڑو فساد کو بس تم الله الله کرو



ایماں کو بسا لو دل میں کچھ غور تم کرو
نبی کا جو طریقہ ہے   اسی پر   تم  چلو
جو ہٹ کر دکھے اس سے فورا پرے کرو
چھوڑو فساد کو      بس تم   الله الله   کرو

قرآن کو سر پہ رکھو دجل و فریب سے تم بچو
راستہ جو  اصحاب    کا ہے    اسی پر تم چلو
آسرے اپنے سارے     رحمان پر   تم رکھو
چھوڑو فساد کو            بس تم الله الله کرو

ادھر ادھر دیکھو گے سرے سے بھٹک جاؤگے
گرو گے اس طرح     پھر الٹے لٹک جاؤگے
رب کا جو حکم ہے   صرف  اسی پر تم چلو
چھوڑو فساد کو            بس تم    الله الله کرو

یہ دور کم نہیں کسی طرح بھی قیامت سے
جہنم کا راستہ مت لینا تم اپنی قیادت سے
چاہت و نفرت کا اپنی    قبلہ درست کرو
چھوڑو فساد کو      بس تم   الله الله   کرو

شرک سے بچو نہ ملاوٹ دین میں کچھ کرو
مت بناؤ یہ بت     روح کو تم تندرست کرو
صراط مستقیم پر جما کے قدم آگے تم بڑھو
چھوڑو   فساد  کو     بس تم  الله الله    کرو
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 29 اکتوبر، 2011

سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ

سرسید احمد خان  ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں کے لیےانتہائی محترم ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک وہ دنیا کی ایک مخصوص "برادری" کے متحرک فرد تھے،  خود  ہمارے سامنے سکولوں کالجوں میں سرسید احمدخان کو ایک عظیم قائدکے طور پر پیش کیا گیا، آج بھی  انکی تصویر ہر سکول کالج میں لٹکی نظر آتی ہے،   جسے ہماری قوم کا ہر بچہ آتے جاتے دیکھتا ہے اور صبح شام ان کی عظمت کا قائل ہوتا جاتا ہے ۔کئی دفعہ ان کی معتبر شخصیت اور تاریخی کارناموں  پر لکھنے کا ارادہ کیا  لیکن  توفیق نہ ہوسکی ۔ چند دن پہلے  خان صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خود خان صاحب نے اپنا نظریہ، اپنے خیالات و افکار نہایت خوبی سے بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب کی مدد سے ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ  اس لیے پختہ ہوتا گیا کہ ایک متنازع شخصیت کے متعلق فیصلہ کرنا  عام طور پر کافی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں  انکی اپنی تحریر جو بدست خود بقلم خود تھی ’ ہاتھ آگئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں خود وہ اپنی تحریروں کے بین السطور میں اپنا تعارف کس انداز میں کرواتے ہیں۔ جناب کی تحریر کردہ کتاب " مقالات سرسید" کے مندرجات اس مخمصے سے نکلنے میں یقینا ہماری مدد کریں گے۔

۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی  قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں

" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے  پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں  مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:

انگریز سرکار کے متعلق  سرسید صاحب کے  دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔

" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ  (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر  مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔

اس کے عوض میں جناب کو کیا ملا، پڑھیے





مسکین خدمت کے مقابلے میں حد سے ذیادہ انعام و اکرام کے اقرار کی روداد تو آپ نے " بقلم خود" سن لی۔ انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا  جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر  تمام   محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین  مسلط  سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ  کی خبر  بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔

سبحان اللہ ! یہ تو تھا جذبہ جاں سپاری۔  اس سے بھی آگے بڑھ کر حال یہ تھا کہ خاں صاحب اپنی جان کو اتنا ہلکا اور  گوری چمڑی والے گماشتے فرنگیوں کو اتنا قیمتی سمجھتے تھے کہ خود کو ان پر بے دریغ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ ارشاد فرماتے ہیں :

" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا  میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں  تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔

انگریز حکام کی طرف سے خاں صاحب  پر یہ کرم نوازیاں محض وقتی نہ تھیں، انہیں باقاعدہ پنشن کا مستحق سمجھا گیا اور یوں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی خدمت اور خیر خواہی کا صلہ دشمنان  ملت سے پاتے رہے۔ ثبوت حاضر ہیں:

" دفعہ پنجم رپورٹ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ایام غدر میں کارگذاری سید احمد خان صاحب صدر امین کی بہت عمدہ ہوئی، لہذا ہم نے ان کے واسطے دوسو روپیہ ماہواری کی پنشن کی تجویز کی ہے۔ اگرچہ یہ رقم ان کی نصف تنخواہ سے ذیادہ ہے، مگر ہمارے نزدیک اس قدر روپیہ ان کے استحقاق سے ذیادہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری تجویز کو مسلم رکھیں۔ اس واسطے کہ یہ افسر بہت لائق اور قابل نظر عنایت ہے۔ دستخط شیکسپیئر صاحب، مجسٹریٹ کلکٹر" 
۔(مقالات سرسید، صفحہ 54

ہماری روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد  کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر  اس فریضہ عادلہ کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔

" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟  شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)

جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے   ہیں۔ فرماتے ہیں :۔

" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو "   (مقالات سرسید، صفحہ 94

آہستہ آہستہ وہ اپنی رو میں بہتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ مفتی اور مصلح کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ تمام علما اور مجاہدین، تمام محب وطن ہندوستانی انگریز کے خلاف سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، جان مال لٹا رہے تھے اور خان صاحب انہیں مبلغ اعظم اور مصلح وقت بن کر سمجھا رہے تھے:۔


یعنی انگریز کی بدعہدی کے باوجود اس سے بغاوت جائز   نہیں۔ مسلمان   انگریز کی وفاداری واطاعت کریں ورنہ اپنا ملک چھوڑ دیں، اپنے حق کے لیے انگریز سے لڑنا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو تعلیمی تحریک انہوں نے برپا کی وہ انگریز ی حکومت کے لیے بابو پیدا کرنے کی کوشش تھی یا مسلمان قوم کو دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی " عظیم خدمت" تھی؟؟؟

اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر  نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری  نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

" اس ہنگامہ میں برابر بدعہدی ہوتی رہی۔ سپا نمک حرام عہد کر کر پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کرکر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت  فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔
 مقالات سرسید، صفحہ 99)۔)

 خان صاحب نے اس یادواشت نما کتابچے میں اور بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک پیش کیا جائے۔ اس ڈر سے کہ مضمون کی طوالت عموما قارئین میں بددلی پیدا کرتی ہے،آخری پیرگراف پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں سرسید مسلمانوں کو تہذیب سکھلا رہے ہیں:۔

" اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی وجہ اسکی کارتوس تھا۔ کارتوس میں کاٹنے سے  مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ؟ہمارے مذہب میں اہل کتاب کاکھانا درست ہے، انکا ذبیحہ ہم پر حلال ہیں (چاہیں سور کھلادیں: راقم) ہم فرض کرتے ہیں کہ اس میں سور کی چری ہوگی۔ تو پھر بھی ہمارا کیا نقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہوچکا ہے کہ جس چیز کی حرمت اور ناپاکی معلوم نہ ہو، وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے( کارتوس میں تو معلوم تھی جناب: راقم) اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا۔ صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا، سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا، ان گناہوں سے جو اس غدر میں بدذات مفسدوں نے کیے"۔

گویا سور جیسی ناپاک چیز کا استعمال اتنا ذیادہ گناہ نہیں جتنا انگریز جیسے غمخوار حاکم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس قسم کی تحریروں سے خان صاحب کی تعلیمی تحریکوں کا ہدف اور اصلاحی تحریروں کا اصل مشن سامنے آجاتا ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ مسلمانان برصغیر کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کا ہدف اور انہیں جدید تعلیم کے نام پر انگریز کی لامذہب تہذیب میں رنگنے کا مشن انہوں نے کس لگن سے انجام دیا۔ انکی " تحریک علی گڑھ" میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے نام پر یورپ کے فرسودہ اور ناکارہ نظریات ہندوستان کے آزادی پسندوں کو پڑھائے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ممالک کے باشندے آج تک تعلیمی ترقی کے نام پر یورپ کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوچکے ہیں، لیکن ترقی ابھی تک سراب ہی ہے۔ یہ تو برصغیر کے باشندوں کی ذاتی ذہانت و قابلیت ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلیں ورنہ   جدید تعلیم یافتہ حضرات تو  محض بابو گیری سیکھ کر یورپ کی نقالی تک محدود رہے۔اس جدید ترقی سے ہمیں بس اتنا حصہ ملا ہے کہ ہمارے ذہین دماغ اور قابل نوجوان امریکا و یورپ کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے پڑھ کر مغربی زندگی کی چکا چوند کے سحر میں ایسے آئے کہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔

سرسید کی تعلیمی تحریک کے سیل رواں میں خس و خاشاک کی طرح مشرق کے باسیوں کے بہنے کے باوجود  انکے حصے میں وہی پرانا مٹکا آیا، بلوریں جام تو ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ مغربی محققین کے لیے جو تعلیم وتحقیق فرسودہ ہوجاتی ہے تو وہ ڈسٹ بن میں پھینکنے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں بھجوادیتے ہیں اور اصل ٹیکنالوجی اور اس کے حصول کے ذرائع کی ہوا نہیں لگنے دیتے، لہذا ہمارے ہاں سائنس نے کبھی رواج پایا  نہ ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کا مزاج بنا۔ البتہ ہماری نسل کی نسل  "ہمٹی ڈمٹی" ٹائپ کے نیم مشرقی نیم مغربی ہندوستانیوں میں تبدیل ہوگئی اور بابوؤں کی کھیپ کی کھیپ پیدا ہوکر شکل وصورت کے ہندوستانی اور فکرو طرز زندگی کے لحاظ سے انگلستانی بنتے گئے۔ اس  سارے کارنامہ کا کریڈٹ  خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی دلی خواہش پوری ہوئی ان کے تعلیمی اداروں نے  انگریز کی حکومت کے لیے وفادار کلرک اور بابو  تیار کر کر کے فراہم کیے ، یہ وفادار ملازم انگریز کی غلامانہ اطاعت تو کرسکتے تھے، اس سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

تحریکات سیاسی ہوں یا تعلیمی۔۔۔۔ ان کو ان شخصیات کے نظریات کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے جنہوں نے انہیں برپا کیا اور کسی شخصیت کے نظریات کی  ترجمانی اس کی اپنی تحریرات سے ذیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر ہم نے خاں صاحب کی برپا کردہ تحریک کو اس مضمون میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی  ، شاید کہ ہماری قوم حقیقت اور سراب کا فرق سمجھ لے، جدید تعلیم کو جدید تہذیب سے الگ کرکے دیکھنا شروع کردے اور ترقی کی خواہش میں مغرب کی ایسی نقالی نہ کرے کہ اپنی چال بھول جائے۔

مکمل تحریر >>

پیر، 17 اکتوبر، 2011

فکر بالغ نہیں تو عزم جواں کو کیا کرنا



فکر بالغ نہیں تو عزم جواں کو کیا کرنا
کردار و عمل نہ ہو تو زور بیاں کو کیا کرنا

پہچان کے بغیر علم کا سمندر بھی لاحاصل ہے 
اپنا آشیاں ہی بکھر جاتے تو کہکشاں کو کیا کرنا

گر قدم ہی ڈگمگانے لگیں تلاش منزل میں 
پھر آہ و زاری کو اور لب پہ فغاں کو کیا کرنا

گریبان اوروں کے مت دیکھ تلاش اپنا گوہر کر 
جو دشمن بنے خود اپنا تو پاسباں کو کیا کرنا

زندگی کا مقصد ہی جو گنوا بیٹھے اپنے ہاتھوں سے 
بلند پرواز ہی نہ ہو تو اونچے آسماں کو کیا کرنا

تاریخ کے یہ اوراق ہیں واسطے نصیحت کو تیری 
راہ جس سے نہ ملے اس داستاں کو کیا کرنا

جب تڑپ ہی نہ رہے جو مطلوب تھی دل و جگر کو 
جو لاتعلق امت سے رہے اس مسلماں کو کیا کرنا



مکمل تحریر >>

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2011

ایم کیو ایم کا مکروہ چہرہ

  ہمارے ہمسائے میں ہفتے پہلے نئے کرایہ دار آئے، نہایت شریف اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں ان کے ایک بیٹے کا نام کاشف ہے ، کاشف سے کل پہلی دفعہ میری ملاقات ہوئی۔ اس سے میں نے کاروبار کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں کپڑے کی دوکان ہے، پہلے کراچی میں رہتے تھے وہاں بھی ہمارا کپڑے کا بہت اچھا کاروبار تھا، تین سال پہلے یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ میں نے تفصیل پوچھی تو پتا چلا کہ ان کا گھرانہ بھی  اس دہشت گرد تنظیم کا ڈسا ہوا ہے، اس نے بتایا کہ ہم بیس سال کراچی میں رہے ہیں، وہاں والد صاحب کی اس کاروبار سے اچھی آمدن تھی، چند سالوں سے  ایم کیو ایم والوں نے بہت تنگ کرنا شروع  کیا ہوا تھا،  ہم مجبورا انہیں ہر مہینے  بھتہ بھی دیتے تھے اور قربانی کی کھالیں، فطرانہ وہ ہم سے زبردستی لے جاتے تھے، جو واقعہ  اسلام آباد شفٹ ہونے کی وجہ بنا وہ یہ ہے  ایک دن میں  گھر آیا تو میرے چھوٹے دونوں بھائی غائب تھے، آگے پیچھے پتا کیا کچھ معلوم نہیں ہوا، میں سخت پریشانی میں تین گھنٹے پھرتا رہا، رات کے بارہ بج گئےاور  بھائی گھر نہ آئے، گھر والے بھی سارے پریشان کہ پتا نہیں کہاں چلے گئے،  ان کا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے بھی نہیں تھا اور نہ انکی رات کو باہر گھومنے پھرنے کی عادت تھی۔  آخر رات کے ایک بجے وہ  دونوں  خود گھر آگئے، اور بتایا کہ ایم کیو ایم والے اپنے جلسے میں زبردستی لے گئے تھے اور جلسہ میں بٹھائے رکھا، آتے ہوئے  انہوں نے ہمیں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ آئندہ  تم دونوں کو اس طرح ایم کیو ایم کے جلسوں میں لانا نہ پڑے اگر خود جلسوں میں نہ پہنچے تو پھر تمہیں دوبارہ گھر جانا نصیب نہ ہوگا۔۔۔۔۔ والد صاحب نے اسی دن فیصلہ کرلیا کہ  ہم نے اب یہاں نہیں رہنا اور دو مہینے میں وہاں سے کاروبار کی کلوزنگ کی اور اسلاآباد شفٹ ہوگئے ،  یہاں بھی کپڑے کا کاروبار شروع کیا ہے ، شروع میں پریشانی رہی ، اب اللہ کا شکر ہے کہ گزارہ چل رہا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ایم کیو ایم کے جلسوں میں رش اور انگلینڈ میں بیٹھے مسخرے کے ٹیلی فونک خطاب میں معزز لوگوں  کی  موجودگی  کا بھی  یہی راز ہے،  انہیں بھی اپنے اور اپنے گھر والوں کی جان عزیز ہوگی۔
اس جماعت  کی بدمعاشیوں کے متعلق ویسے بھی  تقریبا روز ہی اخبارات اور ٹیلی ویژن پر چلنے والی خبریں نظر سے گزرتیں رہتیں ہیں کہ کس طرح یہ  غنڈہ گرد جماعت بھتہ خوری، بدمعاشی اور قتل و غارت  سے کراچی  کے لوگوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے۔  اب تو یہ بات مشاہدہ میں بھی ہے کہ  اس جماعت کا وجود صرف لوگوں کے غصب کیے ہوئے مال کی وجہ سے قائم ہے اور یہ جماعت  اقتدار میں رہے بغیر  چل ہی نہیں سکتی، مشرف دور کی اور موجودہ  استعفوں کی سیاست اس بات کی گواہ ہے۔

مکمل تحریر >>