اتوار، 21 اگست، 2011

جیو ٹی وی کی ایک اور ناپاک اور شرانگیز حرکت


جیو ٹی وی شروع سے  پاکستان میں انتہائی منافقانہ کردار ادا کرتا چلا آرہاہے۔ اس کی اجمل قصاب کے والدین اور گاؤں کے متعلق   خود ساختہ اور بے بنیاد کہانی پر مشتمل   ڈاکو مینٹری فلم، امن کی آشا کے نام پر  ہندوانہ  کلچر  اور  انڈین فحاشی کے سیلاب کی پاکستان درآمد، اسکی ننگی فلموں ڈراموں کی اپنے چینلز سے اوپن نشریات   جیسی بہت سی مثالیں پچھلے چند سالوں میں سامنے آئیں ہیں،   اس کے علاوہ غیر وں کا ایجنٹ یہ  مافیا گروپ پچھلے چند سالوں سے اسلام پر بھی  انتہائی غیر محسوس طریقے سے ڈائریکٹ  وار کرتا چلا آرہا ہے۔ شروع میں اس  کا نا اہل لوگوں کو اکٹھا کرکے اسلام پر تبصرے کرانے والا  پروگرام جاہل  آن لائن ،  حدود آرڈینینس کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ مہم، ’خدا کے لیے ’ جیسی عوام میں دینی  آزادی اور بے راہروی پھیلانی والی فلموں کی تشہیر اور   چند سال پہلےرمضان میں  توہین رسالت پر مشتمل فلم ”دی میسج"   اور اب اس رمضان میں اسی فلم کے  طرز پر ایک ڈرامہ سیریل  " تمثیل حیات طیبہ " نشر کرنا چند مثالیں ہیں۔ 

 پہلے فلم  "دی میسج"اور اب اسی طرز کے  ڈرامہ "تمثیل حیات طیبہ" کی تشہیر  میں میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ یہ حقیقی واقعات پر مبنی  ہیں۔لوگ  انہیں ثواب کی نیت سے اور مقدس سمجھ کردیکھ رہے ۔ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی  ہے یا یہ نیا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں ‘ وہ اس کو بُرا سمجھنے پر بھی تیار نہیں ہیں‘ اگر سمجھاؤ‘ تو کہتے ہیں: ”اس میں تو سچے مناظر دکھائے جارہے  ہیں۔“ بعض کا کہنا ہے کہ : ”اگر کسی کو پڑھنا نہ آتا ہو‘ تو وہ انہیں  دیکھ کر ہی اسلام کے ابتدائی حالات و واقعات کا مطالعہ کرسکتا ہے۔کچھ کا کہنا ہے کہ: "بے شک ان میں سیّدنا ابوبکرصدیق‘ ابو سفیان‘ حضرت بلال‘ حضرت ابو ایوب انصاری اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا کردار ادا کیا گیا ہے‘ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں بھی بولتے ہوئے نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی واضح شکل دکھائی گئی ہے۔" گویا ان لوگوں کے نزدیک اس فلم میں کوئی قابل ممانعت بات ہی نہیں پائی جاتی‘انہیں اس کا کچھ احساس ہی نہیں ہے   کہ وہ  اپنے مذہب کی مقدس شخصیات کی  اتنی بڑی توہین برداشت کررہے ہیں۔

  فلم دی میسج جس کو جیو نے اپنے چینل اور اخبارات سے بھرپور تشہیر کے بعد کئی بار چلایا ’  کو بنانے والا مصطفی عکاظ ایک لادین مستشرق تھا اور اس نے اپنے آقاؤں کے اشارہ پر توہینِ رسالت و توہینِ صحابہ پر مبنی یہ بدنام زمانہ فلم بنائی اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کو دنیا جہان کے کنجروں اور بدمعاشوں کی شکل میں دکھا کر مسلمانوں کے ایمان و عمل کو غارت کرنے اور ان مقدس شخصیات کی توہین و تنقیص کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ  ڈرامہ سیریل  " تمثیل حیات طیبہ " بھی  کسی دوسری زبان سے  اردو ترجمہ  کیا گیا لگتا ہے ۔ ان  دونوں میں    نہ صرف اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کے دور کی منظر کشی کی گئی ہے‘ بلکہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم‘ مثلاً: حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دیگر مقدس ہستیوں کا مختلف اداکاروں نے باقاعدہ کردار ادا کیا ہے،حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اذان دینا‘ ان پر کافروں کی جانب سے سختیاں کیا جانا‘ وغیرہ ‘حتی کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کا بھی کسی ملعون اداکار نے کردار ادا کیا ہے‘فلم میں اس آدمی کا چہرہ تو واضح نہیں ہے‘ لیکن اسے چلتے پھرتے دکھایا گیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ شریف ہجرت کے واقعہ کی نعوذباللہ منظر کشی کی گئی ہے‘ دکھایا گیا ہے کہ دف بجائے جارہے ہیں‘ لوگ انتظار میں کھڑے ہیں‘ ایک شخص جس کا چہرہ واضح نہیں ہے‘ سفید اونٹ پر سوار آرہا ہے ( استغفراللہ)۔فلم کی ایک اور جھلکی میں دکھایا گیا ہے کہ بت رکھے ہوئے ہیں‘ ایک شخص چھڑی کی مدد سے بتوں کو گراکر توڑ رہا ہے۔جن  لوگوں نے فلم" دی میسج" دیکھی  ‘ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت میں یہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اوپر فلم بنائی گئی ہے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینے ہجرت کرجانے کے دوران غار میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قیام کرنا‘ غار کے منہ پر مکڑی کا جالا بننا‘ کبوتر کا انڈے دینا‘ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اینٹیں اٹھا اٹھا کر لانا‘ حضرت ابو ایوب انصاری  رضی اللہ عنہ کے گھر قیام کرنا وغیرہ‘ باقاعدہ ڈائیلاگ کے ساتھ فلمایا گیا ہے۔ نعوذباللہ۔

افسوس صد افسوس ۔اسلام میں تو  کسی عام  پیغمبر، نبی ، صحابی  کی شبہیہ ، تصویر، خاکہ  تک بنانا حرام ہے اور یہاں  کافروں‘ مشرکوں‘ ملحدوں ، زانیوں ، شرابیوں  کو امام الانبیا  حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم  اور انکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کے طور پر پیش کیا  جارہا ہے اور  وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں  وہ نہ صرف اس کو دیکھ رہے ، اسکی  تعریف کررہے ہیں بلکہ  باقاعدہ اسکا دفاع بھی کررہے ہیں۔کیا کوئی  حقیقی مسلمان سوچ سکتا ہے کہ فلم انڈسٹری کے کسی حیا باختہ انسان کو حضرت حمزہ، حضرت بلال، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نام د یا جائے؟  ظلم کی انتہا جو کام آج تک اسلام کے ازلی دشمن نہیں کرسکے تھے ۔ وہ اب مسلمانوں کے ہاتھوں‘ مسلمانوں کے ملک میں اور مسلمانوں کے سامنے کیا جارہا ہے‘ اور طرفہ تماشایہ کہ اس کو اشاعتِ اسلام کا نام دے کر اسے دیکھنا ‘دکھانا اور اس کی نشرو اشاعت کو نیکی کا نام دیا جارہا ہے۔

کیا یہی باتیں مسلمانوں پر اجتماعی طور پر  آئے ہوئے اللہ کے عذاب کے لیے کافی نہیں۔اللہ ہمیں معاف فرمادیے۔ جن لوگوں نے اس فلم کو صحیح جان کر دیکھا ہے یا اس ڈرامہ کو تحسین کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ‘ ان کو بارگاہ الٰہی میں اس سے توبہ کرنا چاہئے۔ 
 جیو ٹی وی کا یہ عمل سراسر غلط‘ ناجائز‘ لائقِ صد نفرت اور گستاخانہ ہے‘ ہمیں  اس توہینِ رسالت کی سازش کے خلاف بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔

احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے کچھ نمبر :
 جیو گروپ سے ا حتجاج    اس نمبر اور میل پر ریکارڈ کرائیں
111-436-111 
feedback@aag.tv
feedback@geo.tv

پی ٹی اے کو کمپلینٹ کریں
0800-55055
complaint@pta.gov.pk

 باوجود تنبیہ کے بھی اگر یہ ٹی وی چینل  اس بدترین کردار سے باز نہ آئے‘ تو اُسے اس حرکت سے باز رکھنے یا سبق سکھانے کے لئے‘ احتجاجا اس کا بائیکاٹ کیا جائے‘ کیونکہ آخری درجہ میں ہم اتنا ہی کرسکتے ہیں۔ 

مکمل تحریر >>

پیر، 1 اگست، 2011

خصائص ماہ رمضان اور اس کی تین قیمتی ترین گھڑیاں

الله تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے مخلوق میں سے بعض کوبعض پرفضیلت دی ہے ، اسی طرح الله تعالی نے بعض اوقات ومقامات کوبعض پرفضیلت ومرتبہ دیا ، اوراوقات وزمانہ میں  ماہ رمضان کودیگرمہینوں پرفضیلت دی ، پس  رمضان بمنزلہ چاند ہے ستاروں کے درمیان ۔یہ  مہینہ شهرالعبادات والخیرات ہے ، ایسا مہینہ جس میں لیلۃ القدر کی عظیم رات ہے ، سیئات ومعاصی سے غسل کا مہینہ ، گناهوں کوحسنات میں بدلنے کا مہینہ ، رحمت وغفران کا مہینہ، جہنم سے آزادی کا مہینہ ، جنت کے حصول کا مہینہ ، بے شمار فضائل وبرکات ورحمات کا مہینہ ،حسنات جمع کرنے کی ایک عظیم ترین فرصت اورغنیمت کبری ہے ۔

.     رمضان ارکان اسلام میں سے اہم رکن ہے ، جس بغیرآدمی کا ایمان واسلام پورا نہیں ہوتا ، لہذا اس کی فرضیت کا منکردائره اسلام سے خارج ہے ، اوربلاعذر تارک سخت ترین گناهگار ہے ۔
قال تعالى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
 [البقرة:۱۸۳] 
وقال عليه الصلاة والسلام بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت الحرام
 [متفق عليه]. 

2. رمضان میں جنت کے دروازے کهول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے  ہیں۔
إذا دخل رمضان فتحت أبواب السماء، وغلقت أبواب جهنم، وسلسلت الشياطين ، 
وفي رواية: إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة
 [البخاري]

3. رمضان میں جس نے کسی روزه دار کوافطارکرایا تواس کوبهی روزه دار جتنا اجرملتا ہے 
من فطر صائماً فله مثل أجره من غير أن ينقص من أجر الصائم شيء 
[حسن صحيح رواه الترمذي وغيره]

4.  رمضان میں ليلة القدر کی عظیم رات بهی ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے جواس کےاجروثواب سے محروم ره گیا وه خير كثيرسے محروم ره گیا ۔

فيه ليلة خير من ألف شهر، من حرم خيرها فقد حرم
[أحمد والنسائي وهو صحيح]


 اور جس نے ایمان اورثواب کی نیت سے اس رات میں عبادت کی تواس کے اگلے پچهلے سب گناه معاف ہوجائیں گے ۔ 
 من قام ليلة القدر إيماناً واحتساباً غفر له ما تقدم من ذنبه 
 [متفق عليه]

5. رمضان میں فرشتوں کا بکثرت نزول ہوتا ہے  اور خصوصا ليلۃ القدر کی عظیم رات میں۔ 
 قال تعالى: تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا
[القدر:۴]

6. رمضان میں سحری ایک عظیم برکت والا عمل ہے ۔
وقال عليه الصلاة والسلام: تسحروا فإن في السحور بركة 
 [متفق عليه]

7. رمضان میں غزوة بدر اور  مکہ فتح  ہوا ان میں الله تعالی نے اپنے رسول عليه الصلاة والسلام کی نصرت کی اورلوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے ، اور مكہ مكرمہ دار اسلام بنا اوراس کے بعد ہرجگہ فتوحات الإسلاميہ کا دور شروع ہوا۔

8. رمضان میں عمره کا ثواب  حج کرنے کے برابرہوجاتا ہے ۔
ففي الصحيحين قال عليه الصلاة والسلام
[ عمرة في رمضان تعدل حجة  أو قال حجة معي]

9. رمضان معاصی وگناهوں کا کفاره ہے ۔
 الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان الى رمضان مكفرات لما بينهن إذا اجتنبت الكبائر
 [مسلم]

10. رمضان میں فرشتے مومنین صائمين کے لیئے مغفرت کی دعا کرتے ہں ۔
 وتستغفر لهم الملائكة حتى يفطروا
 [رواه الإمام أحمد ]

11.  رمضان ذكر ودعاء کا مہینہ ہے ۔ الله تعالی نے آيات الصيام کے بعد فرمایا 
 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
 [البقرة، الآية: ۱۸۶]
جس میں دلالت ہے کہ صيام ودعاء کے مابین خصوصی ربط وتعلق ہے ۔

12. رمضان میں صدقہ کی فضیلت بہ نسبت دیگرایام کے بڑھ جاتی ہے ۔
 عن النبي ، صلى الله عليه وسلم ، سئل أي الصدقة أفضل ؟ قال صدقة في رمضان وثبت في 
[الترمذي]

13. رمضان شهر القرآن ہے 
شَهْرُ رمضان الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ
 [البقرة، الآية: ۱۸۵]

14. صائمین مخلصین کے لیئے جنت کا خصوصی دروازه تیارکیا گیا هے جس کو باب الريان کہتے ہیں۔ 
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( من كان من أهل الصيام دعي من باب الريان)

15. رمضان میں سرکش شیاطین کوقید کرلیاجاتا ہے ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( إذا دخل رمضان فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النار وسلسلت الشياطين ) 
[متفق عليه]

16. رمضان کا أول حصہ رحمہ اورأوسط مغفرة اورآخری عشره جہنم سے آزادی کا ہے ۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة وآخره عتق من النار.)
 [رواه ابن خزيمة في صحيحه وقال صحيح ورواه البيهقي وابن حبان] .

17. رمضان دعاوں کی قبولیت کا مہینہ ہے ۔
و فى الحديث الصحيح عنه عليه الصلاة والسلام انه قال لكل مسلم دعوة مستجابة يدعوا بها فى رمضان )...
 [رواه الأمام أحمد بسند صحيح] 

18.  رمضان کے تمام لمحات دعاوں کی قبولیت کا وقت هے لیکن خصوصی طور پر افطارسے تهوڑا پہلے قبولیت دعا کا خصوصی وقت ہے ۔
حيث قال صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا ترد دعوتهم الإمام العادل ، والصائم حتى يفطر ودعوة المظلوم يرفعها الله فوق الغمام وتفتح لها أبواب السماء ويقول الرب وعزتي وجلالي لأنصر نكى ولو بعد حين ).يقول النبى صلى الله عليه وسلم كما
 [فى حديث ابن ماجه بسند صحيح] 


19. رمضان بکثرت قراءة القرآنِ کا مہینہ ہے ۔
كان جبريلُ يُعارضُ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم القُرْآنَ في رمضان كلَّ سنةٍ مرّةً. فَلَمَّا كان العامُ الَّذي تُوُفِّي فيه عارضَه مرَّتين تأكيداً وتثبيتاً


رمضان المبارک میں تین قیمتی ترین ساعات

یقینا رمضان کا ہرلمحہ انتہائ برکات وفضائل کا حامل ہے لیکن کچھ لمحات کوان میں سے خصوصی ومزید فضیلت حاصل ہے۔ ان لمحات کی روحانیت ونورانیت مزید بڑھ جاتی ہے لہذا یہ لمحات ضائع نہیں ہونے چائیے۔

1. سحری کا وقت 
سحری کا وقت فجر سے تهوڑا پہلے کا وقت ہے ، اللہ نے قرآن میں اس وقت کی فضیلت بیان کی ہے۔
 قال تعالى ( والمستغفرين بالأسحار ).
اور وه لوگ جوسحری کے وقت استغفارکرتے ہیں ۔

ایک مومن روزه دار کو ضروری ہے کہ اس قیمتی ترین وقت کو کثرت استغفار ودعا میں صرف کرے یہاں تک فجرکی اذان ہوجائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتو کم ازکم تہجد کا اہتمام کرلیا جائے جو رمضان میں پڑھنا ویسے بھی بہت آسان ہوجاتا، سحری کے لیے تو اٹھنا ہوتا ہی ہے، بندہ دس منٹ پہلے اٹھ جائے اور آرام سے تہجد پڑھ لے۔ الله تعالی نے انہی قیمتی لمحات کوتسحیٹ وتحليل میں صرف کرنے کی تاکید کی ہے ۔
 وقال تعالى :  وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها ومن آناء الليل فسبح وأطراف النهار لعلك ترضى۔
وقال تعالى :  وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها ومن الليل فسبحه وأدبار السجود۔

حضرت حسن بصری رحمہ الله کا ارشاد ہے ۔
دنیا صرف تین دن ہیں۔ ایک توکل گذشتہ کا دن وه توگذر گیا ہے ، ایک آنے والا دن ہے شاید کہ تواس کونہ پاسکے ، ایک آج کا دن ہے پس یہی تیرا دن ہے اسی میں عمل کرو ۔


2. دن کا ابتدائی وقت یعنی صلاة الفجر کے بعد کا وقت

 الإمام النووي رحمه الله اپنی ( كتاب الأذكار ) میں فرماتے ہیں
 اعلم أن أشرف أوقات الذكر في النهار الذكر بعد صلاة الصبح۔
 خوب جان لوکہ دن میں ذکرکے بہترین اوقات میں سے سب سے بہتروقت صبح کی نمازکے بعد کا وقت ہے۔ 
وأخرج الترمذي عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (من صلى الفجر في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس ثم صلى ركعتين كانت له كآجر حجة وعمرة تامة تامة تامة [رواه الترمذي وقال حديث حسن ]

اور الإمام الترمذي رحہر الله نے حضرت أنس رضي الله عنہ سے روایت نقل کی کہ حضور صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے فجرکی نماز باجماعت پڑھی ، پهربیھذ کرطلوع شمس تک الله کا ذکرکرتا رہا ، پهردو رکعت نمازپڑهی ، تواس ایک کوکامل حج وعمره کا اجروثواب ملے گا ۔ یہ کلمہ حدیث میں تین مرتبہ فرمایا (تامة تامة تامة )

 حضور صلى الله عليه وسلم صبح کی نمازکے بعد اپنی نمازکی جگہ پربیٹهے رہتے یہاں تک کہ سورج خوب طلوع ہوجائے ۔فقاوء نے یہ تصریح کی ہے کہ اس ساعت کوذكر الله کے ساتھ مُزین کیا جائے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے ۔ 
ایک  اورحدیث میں ہے ۔
اللهم بارك لأمتي في بكورها
اے الله میری امت کو اس کے پہلے پہرمیں برکت عطا فرما ۔

صبح کی نمازکے بعد نیند مکروه ہے کیونکہ اس وقت میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ خامی ہم میں  سے اکثر  مسلمانوں میں پائی جاتی ہے کہ یا تو وہ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے ہی نہیں ، سحری کھا کر نماز گھر میں ہی پڑھ کر سوجاتے ہیں یا نماز پڑھ کر آکر فورا سوجاتے ہیں۔ اس وقت میں نیند مناسب نہیں ، بلکہ ذكر ودعاء ( وغیره اعمال صالحہ ) سے اس وقت کومشغول کرنا چائیے ، اور خاص کر رمضان میں تو اجر وثواب بھی دوگنا ہوجاتا ہے ۔

3. دن کا آخری وقت یعنی غروب سے پہلے کا وقت 

حدیث میں اس وقت میں دعا کی قبولیت کی بشارت وارد ہوئی ہے ۔لہذا افطارسے پہلے کا یہ وقت ذکرودعا میں صرف کرنا چائیے اور پورے رمضان میں بمع اہل وعیال اس وقت میں دعا کوایک خاص وظیفہ کے طورپرکرنا چائیے ، اورسلف صالحین بهی اس قیمتی وقت کوانتہائی اہتمام کے ساتھ ذکرودعا میں مشغول کرتے تهے ۔

( ثلاث مستجابات :دعوة الصائم ،ودعوة المظلوم ، ودعوة المسافر ) [رواه الترمذي ]

مکمل تحریر >>