ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

کیا ہم انقلاب کے مخالف ہیں...؟؟

انقلاب،   ترقی، شعور کی بیداری کی جدوجہد،  ظلم و جبر کے خلاف آواز ،  اپنا حق لینے کے لیے کوشش اور ایسی کوشش کرنے والوں کا حصہ بننا،  انکا ساتھ دینا ، انکی جانی و مالی مدد کرنا  ایسا احسن کام ہے جسکی کوئی عام آدمی مخالفت نہیں کرسکتا ہے، دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اِک جہاد ہے.  ایسی کوشش کرنے والوں کو تاریخ نے بھی یاد رکھا اور وہ لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ ہیں۔. 
قوموں کی ترقی،  اٹھان،  غلبہ، قوت ایسے ہی لوگوں کی مرہون منت رہی ، یہ لوگ عام لوگوں کی طرح ہی تھے لیکن انکی سوچ، ویژن، مقصد عام لوگوں سے مختلف تھا اس لیے   یہ جس زمانے اور قوم میں آئے سب سے پہلے انکی اپنی قوم نے  ہی انکی مخالفت کی، ان کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا،  ان کا مذاق اڑایا، انکو پاگل دیوانہ کہا، بعضوں کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن کوئی چیز انکو انکے مقصد سے نا ہٹا سکی، بلکہ انکے خلوص نیک مقصد، صاف بات، کهرے پن، قربانی نے آہستہ آہستہ انکے قدم جمانے شروع کر دیے  انکی آواز پھیلنا شروع ہوگئی، یہ اک فرد سے جماعت اور معاشرے میں تبدیل ہوگئے، امیروں کو اپنے کاروبار عیاشیوں سے فرصت کہاں تھی اس لیے ہر دور میں انکی تحریک کو غریبوں نے ہی سہارا دیا،  یہ غریبوں کی ہی آواز بنے. یہ خود بھی اپنا مال و دولت عزت شرف سرداری نسبت (اگر کوئی تھی )  اپنے مقصد پر قربان کر چکے تھے اس لیے اس طبقے کو بھی ان سے کوئی فرق محسوس ہوا نہ ہی کوئی تکلیف. یہ جب ان میں بیٹھے ہوتے تو کوئی انکو پہچان نہ سکتا تھا.
انکا نعرہ  ہی ایساتھا کہ چھوٹے سے چھوٹے ظالم کو بھی اپنا وجود اور کاروبار خطرے میں محسوس ہوا، پہلے انہیں  مال و دولت کی پیشکش کی گئی، پھر عہدے سرداری کا لالچ دیا گیا یہ چاہتے تو اس طاقت، خوشحالی، مال و دولت  اور عہدے کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے تھے لیکن ان چیزوں سے بہلائے نہیں جاسکے،  انکی تو پہلی آواز ہی اس ظالمانہ نظام اور اس کے رکھوالوں  کے خلاف تھی ان کا سہارا کیسے لے سکتے تھے، یہ کسی شارٹ کٹ  انقلاب سے واقف تھے نا کسی عارضی تبدیلی کی قائل. انکے نزدیک انقلاب محض حکومتی تبدیلی کا نام نہیں تھا بلکہ یہ  تبدیلی انسانوں کے  اخلاق و اعمال کی تبدیلی کی تھی، یہ انقلاب کے فطری راستے  پر چلے جو  دشواریوں اور صعوبتوں کا راستہ تھا لیکن اس سے آنے والی تبدیلی بھی پائیدار تھی ۔ انہوں نے جان بوجھ کر  مشکلات اور آزمائشوں کی راہ اختیار کی،  پهر حالات کی تجربہ گاہوں میں آزمائے بھی گئے، ظلم کی چکیوں میں سب سے پہلے انکے قائد کو پیسا گیا، انکے خلاف سکیمیں بنائی گئی اور انکی اپنی زمین ان پر تنگ کر دی گئی لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری،  دیار غیر میں بھی  اپنے مقصد سے نہیں ہٹے. قوت طاقت مال و دولت ملک جگہ جائیداد جو کچھ انکے پاس تھا وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہاں انکے پاس دینے کے لیے صرف اپنی جان تھی اور دکھانے اور پیش کرنے کے لیے اپنا کردار. لمبی چوڑی تقریر کرنے کی نہ کبھی انہیں ضرورت پڑی نہ انہوں نے کی. انکی اس عزیمت و قربانی کے نتیجے میں جو تبدیلی اور انقلاب آیا اس کے آثارآج صدیوں بعد بھی محسوس ہورہے ہیں۔.
ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اپنی زندگی میں اپنی محنتوں کے ثمرات نہیں دیکھ سکے لیکن انکی محنتیں خون، جدوجہد رائیگاں نہیں گئی،  اپنی قوم کو ایک شعور دے گئے، بعد کے آنے والوں، کوشش کرنے والوں کا کام آسان کر گئے، محنت کرنے والوں کو طریقہ بتا گئے کہ تبدیلی اور انقلاب کی محنت کیسے کی جاتی ہے۔.
ہم اور ہماری قوم انقلاب کے صرف اسی مطلب اور اسی طریق کو جانتے ہیں اور اسی سے مانوس ہیں.ہم  ایسی کسی تحریک  کو انقلابی تحریک تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو سرمایہ داریت کی کوکه سے نکلے، جس کی بنیادیں عصبیت و نفرت کی ہوں، جس کے لیڈر عورت کو سرعام نچوائیں، جس کے سپورٹر ظالم بدکار چوروں کے سردار ہوں، دھوکے باز لٹیرے ہوں۔سردار وڈیرے جن کے وزیر، مشیر اور ساتھی ہوں، وہ جو محلات میں رہیں اور بات غریب کی کریں. جن کے پاس پیش کرنے کے لیے صرف دوسروں کی خامیاں ہوں، وہی فرسودہ بہانے اور افسانے  گهڑیں.....ہم ایسے کسی شخص کو انقلابی ماننے کو تیار نہیں، چاہے یہ عمرانی نام کے ہوں یا شریفی، کهلے ہوئے منافق ہوں یا چھپے ہوئے، دنیاوی رنگ میں ہوں یا دینی، یہ انقلابی نہیں دھوکے باز ہیں، فراڈی لٹیرے ہیں ، یہ وارداتی ہیں جو اپنی کرسی اقتدار کے لیے سور کا گوشت بکرے کے نام سے بیچنے لائے ہیں، جو شراب کو آب زمزم کی بوتلوں میں پیش کررہےہیں، جو عوام کا اعتماد لینے کے لیے اپنے چہرے پر انقلاب کا نقاب چڑھا کر آئے ہیں،
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
 ہم اتنے بچے اور بهولے نہیں  ہیں کہ انہیں صرف اس وجہ سے  اپنا چارہ گر سمجھ بیٹھیں کہ یہ نعرہ انقلاب کا لگارہے. ہمارے لیے انقلابی نعرے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، ہم  انقلاب کے آنے کے طریقہ کار اور انقلابیوں کی صفات سے واقف ہیں. ہماری تاریخ انقلابیوں کی ہی تاریخ ہے، ہمیں خوشنما نعرے دے کر، اچھے خواب دکھلا کر،بہترین تقریریں کرکے بہلایا نہیں جاسکتا۔..

مکمل تحریر >>