ہفتہ، 3 دسمبر، 2011

سنت نبوی اور ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی بیہودہ تاویلیں

لارڈ میکالے کے نظام تعلیم   اور جدید تہذیب  نے   مسلمانوں کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ، اس کی عجیب عجیب مثالیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں،  یہود ونصاری نے ہمارے جوانوں کی اس حد تک برین واشنگ کردی ہے کہ  یہ    نہ صرف جدید تہذیب و ثقافت  کو اپنی بنیادی ضرورت سمجھ چکے ہیں بلکہ کچھ   نے تو اس تہذیب و ثقافت کو اس حد تک مقدس جان لیا   کہ اس کو  انبیا   کے لیے بھی لازمی قرار دینے پر اتر آئے ہیں ۔ ایک صاحب لکھتے ہیں  
" اگر نبی پاک یورپ میں پیدا ہوتے تو کیا ان کا لباس اس ثقافت جیسا نہ ہوتا. . . . . . . . .جناب ثقافت سے بچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ موجودہ بڑے بڑے مشاہیر اور علمائے پاک و ہند کو لے لیجئے کیا وہ نبی پاک والا لباس پہنتے ہیں؟ نہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کے زوال کی۔ ہم نے اسلام کو موجودہ دور کے مطابق ڈھالا ہی نہیں۔ وہی پرانی باتیں اور پرانے قصے "
اپنی ثقافت و لباس کو شاید اتنا مقدس تو یورپ والوں نے خود نہیں جانا ہوگا جتنا یہ لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں، صاحب  نے کس دیدہ دلیری سے  اس ننگ دھڑنگ اور بے حیا  ثقافت کوانبیا کے لیے واجب قراردے دیا (اللہ انہیں معاف فرمائے)،   ثقافت نہ ہوئی آسمانی شریعت ہوگئی۔  جب سے  مغرب  نے   مذہب کو سیاست و معاشرت سے علیحدہ کرکے ذاتی مسئلہ بنایا ، انکا دین عبادت گاہوں تک محدود ہوگیا ، ان کی دیکھا دیکھی ہمارے  کچھ لوگوں  نے بھی یہ سوچنا شروع کردیا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس صرف عبادات میں اسوئہ حسنہ ہے‘ باقی حیات طیبہ کے احوال‘ عادات‘ معاملات‘ معاشرت اسوہ حسنہ نہیں ‘ یعنی ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ عمل نہیں ہیں‘ اپنے باطل دعوے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ معاشرتی امور میں‘ عادات و ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تابع تھے‘ عرب کا جو عرف و عادت اور رسم و رواج تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رعایت کرتے تھے‘ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھی‘ چونکہ وہاں کا ماحول تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنتے تھے‘ چونکہ ٹوپی کا رواج تھا‘ یعنی یہ امور ماحول و رواج کے طور پر تھے‘ اس لئے ان امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع باعث ِ ثواب نہیں۔ یہی بات ہمارے دوست   کے ذہن میں ہے انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ  اگر حضور یورپ میں پیدا ہوتے تو وہ بھی ان جیسا لباس نعوذبااللہ پینٹ شرٹ ، ٹائی  پہن کرپھرتے ان جیسے انہوں نے  بھی شیو کروائی ہوتی ۔ استغفراللہ۔ ایسے لوگوں کو اگر نظر صحیح اور نور بصیرت سے کچھ حصہ ملا ہوتا اور انہوں نے اخبار ، ناول ، پوئٹری کی کتابوں کے علاوہ کبھی اپنے نبی کی سیرت کی کتابوں کو کھول کر  بھی دیکھا ہوتاتو ان کو نظر آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی زندگی میں ماحول اور رواج کی مخالفت کی ہے۔ آپ کا  ماحول تو کفر‘ شرک‘ ظلم‘ تشدد لوٹ مار کا تھا‘ زنا اور بے حیائی کا رواج تھا‘ شعروشاعری اور قمار بازی کا دور دورہ تھا‘ ننگے اور برہنہ طواف کرنے کا عام رواج تھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ماحول کی موافقت اور اسی جاہلیت کے طور طریقہ پر اپنے آپ کو اور صحابہ کرام رضوان اللہ کو ڈھالا؟ یا ان خرافات اور واہیات سے بچنے اور ان سے علیحدہ رہنے کی راہ دکھائی؟  کیا اس زمانے کی سپر پاور  قیصر وکسری کی سلطنتین  نہیں تھیں ، کیا آپ نے ان کے طور طریقوں کو اپنایا ؟
حقیقت میں ہمارا نظری‘بصری میڈیا‘ قومی اخبارات اور لادین رسائل و مجلات بھی نہایت عیاری‘ ہوشیاری اور غیر محسوس انداز میں نئی نسل کو الحاد‘ زندقہ‘ اور لادینیت و دہریت کے گہرے غاروں میں دھکیلنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں، بلکہ سادہ لوح عوام اور نئی نسل کے قلوب میں دین ومذہب سے نفرت وبیزاری کا بیچ بوکر انہیں قرآن وسنت اور دین وملت سے متنفر کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہیں،میں نے خود  ایک مشہور  دانشور کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ   اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے‘ یہ مولویوں کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے‘ اسلام میں چہرے کا پردہ ہے نہ سرکا‘ یہ محض معاشرتی رواج ہے‘ حجاب صرف نبی کی ازواج کے لئے تھا‘اگرچہ داڑھی سنت ہے‘ لیکن حضور کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں داڑھی رکھتے تھے۔ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن میں موجود نہیں‘ یہ تصور فقہاء حضرات کا ہے “۔یہی باتیں بی اے ، ایم اے کرکے دینی مسائل پر بحثین کرنے والے تمام  نام نہاد  پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور حضرات  کررہے ہیں۔ 
 اگر انکی بات کو مان لیا جائے کہ    بالفرض اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ نعوذباللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟ اور جو شخص اسلام، پیغمبرِ اسلام، قرآن اور سنت کے خلاف ایسی فکر و سوچ رکھتا ہو وہ کیا کہلانے کا مستحق ہے؟
 ایک طرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ  کی یہ گواہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو پیدائش سے موت اور مابعد الموت تک کے ہر ہر مرحلہ میں پیش آنے والے تمام معاملات کی نشاندہی فرمائی تھی، حتی کہ پیشاب ،پاخانہ استنجا اور وضو کا طریقہ بھی آپ نے سکھلایا اور بتلایا ہے، دوسری طرف ہمارے دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو ناقص و نامکمل ضابطہٴ حیات دے گئے۔ کیا کہا جائے کہ اسلام کی تکمیل کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کی گواہی معتبر ہے یا پندرھویں صدی کے ایک نام نہاد ملحد کی ثولیدہ فکری؟
دراصل  یہ لوگ زندگی بھر مغربی تعلیم گاہوں اور ملحد اساتذہ کے زیر تربیت رہے جن کے الحاد و زندقہ نے ان کے قلب و دماغ میں جگہ پکڑلی ہے، اس لئے اب  یہ ان کی اسی ملحدانہ فکر سے سوچتے، ان کی آنکھوں سے دیکھتے اور انہیں کی زبان سے بولتے ہیں۔ اس لیےان کو مسلمانوں کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی بلکہ ان کی مغربی عینک میں ہر چیز ناقص و نامکمل نظر آتی ہے، حتی کہ ان کو اسلام بھی نامکمل و ناقص دکھائی دیتا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسلمان خالص قرآن و سنت پر عمل کرکے پکا سچا مسلمان کہلائے، بلکہ ان کے نزدیک اسلام اور اسلامی دستور اور قانون وہی معتبر ہے، جس پر مغرب اور مغربی آقاؤں کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ اس کے برعکس جس دین، مذہب کی تکمیل و تتمیم پر اللہ، رسول، قرآن، حدیث ، صحابہ کرام رضوان اللہ، تابعین رحمہ اللہ، ائمہ مجتہدین رحمہہ اللہ، اجماع امت اور پوری امت مسلمہ کے عملی تواتر کی سند موجود ہو، وہ ان کے نزدیک ناقص و نامکمل ہے۔ 
  باطل کی یہ محنتیں رنگ لائیں  آج ہمارے معاشرے کے عام لوگوں  کی بھی یہی  سوچ بنتی جارہی ہے؟ اکثریت اپنے روزمرہ کے معمولات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کرتی‘ کھانا‘ پینا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ جاگنا‘ چلنا‘ پھرنا‘ شادی‘ بیاہ‘ خوشی‘ غمی‘ سیرت‘ صورت‘ وضع قطع ‘ لباس‘ پوشاک ہر چیز میں نفس اور خواہش کی اتباع ہوتی ہے۔ خود کو مسلمان کہنے والے حضرات    اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بے وقوف ، گھٹیا  اور ڈانس سیکھنے والوں کو تعریف کے لائق ․ دھوکے باز کو ذہین ،    سنت پر چلنے والوں کو بے وقوف اور کم تر  اور خلافِ سنت کام کرنے والوں کو معزز  سمجھتے ہیں ،یہود و نصاریٰ کے طریقوں  اور  لباس کی مشابہت  کرنے والوں اور  داڑھی مونڈنے والوں کو معزز اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے، باریک لباس تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین اور باپردہ اور سادہ باحیا لباس پہننے والیوں کو بے وقوف اور قدامت پسند  کہا  جاتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
 سنت لباس 
 ہمارے نبی کا لباس کیا تھا ؟ کیا وہ اسی جاہلیت کے زمانے کی ثقافت کے مطابق تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص وضع قطع کے کپڑے کے پابند نہ تھے بلکہ ہر وہ کپڑا جو ستر کو پوری طرح ڈھانک سکے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے استعمال فرمایا ہے۔ آپ نے اچھے سے اچھے کپڑے بھی پہنے ہیں اور معمولی سے معمولی بھی ، یہاں تک کہ پیوند لگے کپڑے بھی پہنے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوپی، عمامہ، کرتا یا جبہ، اور تہبند ، پائجامہ کو پسند فرمایا ہے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر بدن پر بجائے جبہ وغیرہ کے ایک چادر استعمال فرماتے تھے اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کندھے پر ایک چادر مزید رکھتے تھے۔اس کے علاوہ کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں تناول فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ کھانے اور سونے کیلئے زمین ہی استعمال فرماتے تھے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ شریعت مطہرہ نے لباس کی کوئی خاص شکل یا ہیت متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں،بلکہ  ہر مقام، ماحول کی ضروریات، ثقافت اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عرب وعجم میں مسلمانوں کا لباس مختلف ہے۔البتہ شرعیت نے  کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں جنکی پابندی ضروری ہے  اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی جو وضع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ مثلا  اس میں کافروں اور فاسقوں کی مشابہت نہ کی جائے، لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ وہ اعضاء ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے، مردوں کا لباس عورتوں کے، اور عورتوں کا مردوں کے مشابہ نہ ہو، فخر و تکبر اور دِکھلاوا مقصود نہ ہو،  مردوں اصلی ریشم نہ پہنیں وغیرہ ۔
 (مجبوری کی حالت کے علاوہ) اس بات میں شک نہیں  ہے  کہ آدمی کے دِل میں جس کی عظمت ہوتی ہے اس کی وضع قطع کو اپنانا پسند کرتا  ہے،   یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو  اسلامی لباس کے بجائے انگریزی لباس اور وضع قطع کی پابندی  کی جاتی ہے وہ یہود و نصاریٰ رہن سہن، طور طریقوں کی عظمت  کی وجہ سے ہے۔ ہمارے اسلاف صحابہ کے جذبات  تو یہ تھے کہ جو چیزحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو  محبوب ہوتی وہ آپ کی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی محبوب ہوجاتی، کدو آپ کو نہایت مرغوب تھا، اس لئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی اس کو نہایت پسند فرماتے تھے؛ چنانچہ ایک روز کدو کھارہے تھے تو بول اُٹھے،اے درخت اس بنا پر کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت تھی ،تو مجھے کس قدر محبوب ہے۔
            (ترمذی ،کتاب الاطعمہ ،بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الدُّبَّاءِ،حدیث نمبر:۱۷۷۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صحابی کو ایک رنگین چادر اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ وہ سمجھ گئے کہ آپ نے ناپسند فرمایا،فوراً گھر میں آئے اوراس کو چولہے میں ڈال دیا۔      
  (ابوداؤد، کتاب اللباس ،باب فی الحمرۃ)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سےایسی محبت تھی کہ اگر کسی وجہ سے آپ کو رنج ہوتا تو تمام صحابہ کو بھی رنج ہوتا، آپ کو خوشی ہوتی تو تمام صحابہ رضوان اللہ بھی اس میں شریک ہوتے، آپ نے ایک مہینے کے لئے ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی تو تمام صحابہ رضوان اللہ نے مسجد میں آکر گریہ وزاری شروع کردی۔          
  (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل  کامیابی کا  زینہ 
 لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ حضور اور صحابہ کے پاس پیسہ ہے ہی نہیں تھا وہ  قیصر کسری جیسے مہنگے  لباس کیسے پہنتے ، اعلی کھانے کیسے کھاتے، اعلی سواریوں پر کیسے گھومتے ، جدید ٹیکنالوجی سے کیسے فاعدہ اٹھاتے۔؟ یہ کہنا بھی غلط ہےکیوں کہ الله تعالیٰ کی طرف سے تو  رسول پاک کو پیش کش تھی  کہ مکہ کے پہاڑ کو سونا چاندی اور ہیرے بنا دیں ، لیکن رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے یہ منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ ایک دن کھانا ملے گا تو کھا کر شکر کروں گا دوسرے دن اگر کھانا نہ ملے تو صبر کر لوں گا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب اسلام اور مسلمانوں کو شوکت عطا ہوئی اور چہار اطراف سے مالِ غنیمت کے انبار چلے آنے لگے۔ اس حال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ لاکھوں دینار آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چند گھنٹوں میں ضرورت مندوں کو عطا کردیتے اور خود ہاتھ جھاڑ کر اٹھ جاتے۔ اس زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دو دو تین تین ماہ تک چولہا نہ جلتا۔ 
آپ عموماً فقر وفاقہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، ایک بار حضرت عمررضی اللہ عنہ کا شانۂ نبوت میں تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں جس پر کوئی بستر نہیں ہے، جسم مبارک پر تہبند کے سوا کچھ نہیں پہلو میں بدھیاں پڑ گئی ہیں، توشہ ٔخانہ میں مٹھی بھر جو کے سوا اورکچھ نہیں، آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل آئے، ارشاد ہوا کہ عمررضی اللہ عنہ کیوں روتے ہو؟ عرض کیا  کیوں نہ رؤں آپ کی یہ حالت ہے، اور قیصروکسریٰ دنیا کے مزے اُڑارہے ہیں، فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے آخرت اوران کے لئے دنیا ہو۔                
   (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)
حضرت عمر کے زمانے میں باوجود کہ مال بے انتہا آیا لیکن حضرت عمر نے سادگی پر سب کچھ باقی رکھا۔ پیسہ کتنا ہی ہو، لیکن زندگی سادہ اور جب عمر نے انتقال فرمایا تو چھیاسی ہزار کا قرضہ ان پر تھا اور بیٹے کو ادا کرنے کی وصیت کی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ  کے سامنے ایک بچی آئی تو پوچھا یہ کس کی بچی ہے جو اتنی کمزور ہے ؟ صاحبزادوں نے کہا حضرت! آپ کی بچی ہے ۔ فرمایا کیوں اتنی کمزور ہو گئی؟ کہنے لگے آپ کی وجہ سے ، آپ زیادہ تنگی کرتے ہیں ۔ فرمایا اپنی کمائی سے اس کا علاج کرو۔ اس انتظار میں مت رہنا کہ اجتماعی مال سے دوں گا، منع کر دیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکانات پکے بن گئے ، مسجد نبوی پکی بن گئی ۔ کھانا لوگوں کا بڑھیا بن گیا، مگر ان کی اپنی زندگی خود سیدھی سادی تھی۔ حضرت علی کوفے میں ہیں او رایک چادر میں ہیں اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ حضرت بڑے بڑے کمبل آئے ہیں اوران میں سے ایک لے لیں۔ فرمایا جو چادرمیں نے لی ہے وہ مدینہ سے آئی ہے ۔ 
سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں۔ وہ فاتح بیت المقدس ہیں۔ لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر پورے جنوبی ایشیا کے حکمران تھے اور ان کا دورِ حکومت پچاس سال پر محیط ہی، لیکن وہ ذاتی گزربسر کے لیے ٹوپیاں سیتے تھے اور طغرے بناتے تھے۔
حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سادہ زندگی اور بے تکلف زندگی ان لوگوں کے سامنے تھی،  حقیقت میں جب تک یہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن نقوش اور پاکیزہ سنتوں پر عمل کرتی رہی‘ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کا مقدر بنیں اور جب سے آپ کی سنتوں کی اتباع اور پیروی میں سستی اور کاہلی در آئی‘ اس وقت سے امت فتنہ و فساد اور ظلم کی لپیٹ میں آگئی ، آج اگر کوئی  یہ کہے کہ مسلما ن تعلیم اور ٹیکنا لوجی  حاصل نہ کرنے کی وجہ سے یا مال ودولت کی کمی کی وجہ سے قیادت وسیادت سے ہاتھ کھو بیٹھا ہے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے، کیا   جن مسلم ممالک  نے تعلیم وٹیکنالوجی حاصل کی وہ آج تک ترقی کو پہنچ سکے ہیں ؟، کیا ہم نے تر کی اور ایران، ملیشیا، ترکستان، پاکستان، لیبیا،شام کونہیں دیکھا، کیا انہوں نے ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا میں اپنا مقام بنایا؟ کیا روشن خیالی اورمغربیت کے نعرے نے ترکی کو کسی بھی میدان میں عزت سے ہم کنار کیا 
امام مالک رحمہ اللہ کا ارشاد ہےاس  امت کے آخری دور کے افراد کی فلاح وصلاح اسی چیز سے ہو سکتی ہے، جس سے پہلے لوگو ں کی ہوئی ۔ ذراصحابہ اور اسلاف کی تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کامیابی کاراز سنت نبوی کے علاوہ اوراسوہٴ نبوی کے علاوہ کوئی چیز تھی ؟کیا ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس کوئی ٹیکنالوجی تھی؟ نہیں نہیں! و ہ اس زمانے کے صحیح ہتھیاروں سے بھی عاری تھے، مگر سنت پر چل کر ا ن کی دو سو کی جماعت بھی ہزار کو، دس ہزارکی جماعت اس زمانہ کی سُپر پاور قیصر وکسریٰ کی مسلح فوجوں کو شکست وہزیمت سے دوچار کر دیتی تھی۔ 
فتح بیت المقدس کے بعد جب حضرت عمرضی اللہ عنہ شہر کے قریب  پہنچے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور سرداران فوج استقبال کو نکلے تو دیکھا کہ مسلمانوں کا بادشاہ جن کے نام کے غلغلہ سے روم و شام کانپ رہے تھے، بالکل معمولی لباس پہنے یا پیادہ آرہے ہیں تو ان کو محض اس خیال سے شرم معلوم ہوئی کہ ہمارے بادشاہ کو دیکھ کر عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی گئی۔ آپ نے فرمایا:
’’خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے، وہ صرف اسلام کی وجہ سے دی ہے اور وہی عزت ہمارے لئے کافی ہے۔‘‘

مکمل تحریر >>