جمعرات، 22 مارچ، 2012

بچوں کی دینی تعلیم کیلئے تحقیق کی ضرورت

دینی تعلیم اور پھر اس کے لیے مدارس کا قیام ،معاشرے کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ؟ اس سے ہر باشعور انسان آگاہ ہے ۔حقیقت میں مدرسہ ہی  وہ سب سے بڑی کار گاہ ہے،جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتےہیں ،مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر(پاؤر ہاؤس)ہے،جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں ایمانی بجلی تقسیم ہوتی ہے، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہےکہ اگر یہ مدرسے نہ رہے تو ہماری نسلوں کا دین بدل جائے گا، ان اداروں نے کام چھوڑ دیا  تو ہماری آنے والی نسلوں کا دین کیا ہوگا وہ کس مذہب سے وابستہ ہونگی اس بارے میں کچھ نہیں  کہا جاسکتا، ہندوپاک میں موجودہ دینی فضا اور دیانت داری کی ساری شکلیں انہی مدارس اور علمأ کی مرہونِ منت ہیں۔بحمداللہ! مدارس کی اس کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہاں دینی مراکز قائم ہیں‘مساجد و مدارس آباد ہیں‘ لوگوں کے چہروں پر سنت رسول کی شادابی ہے‘ خواتین ستروحجاب سے مزین ہیں‘ دینی اسکول اور حفظِ قرآن کے مدارس میں لاکھوں مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اسی کو دیکھتے ہوئے  شروع سے  ہمارے  دین کے دشمنوں کی یہی کوشش  رہی ہے کہ  ہر طرف سے پراپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کوانکی دینی درسگاہوں ایسے دور کرددیا جائے کہ جس کے بعد ان پر اپنی تعلیم و تہذیب مسلط کرنا آسان ہوجائے گا۔عالمی اور ملکی سطح پردین ِ اسلام ،قرآن کریم اورمدارس دینیہ کے خلاف جس قدر طوفان بدتمیزی برپا ہوتا چلا گیا  ہے یہ شاید اسی کا ردعمل  ہے  کہ اسی  تیزی سے دین سے وابستگی ،مدارس کی طرف رجوع اور حفظ قرآن کریم کے رجحان میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ صرف بی بی سی کے مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق ان مدارس میں مجموعی طور پر رواں سال کے لیے ایک لاکھ پچپن ہزار سے زائد طلباء و طالبات کا اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں پہلے پہل یہ تاثر تھاکہ جو بچے بالکل غریب وناد ار ہوتے ہیں ،جسمانی طور پر کمزور یا معذور ہوتے ہیں انہیں ہی مدارس میں بھیجا جاتا ہے،لیکن اب ایک عرصے سے یہ ”ٹرینڈ“ بالکل تبدیل ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب الحمد للہ بہت باصلاحیت ،ذہین وفطین اورکھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کی بڑی تعداد حفظ قرآن کی سعادت حاصل کر رہی ہے  ۔اب تو فكر آخرت ركھنے والے باشعورلوگوں كى اكثريت اپنے بچوں كو دونوں طرح كى تعليم خود دلا رہی ہے ۔ ایک دو نسلیں  پہلے   قوم سے کوتاہی ہوئی کہ اچھے اور ذہین گھرانوں کے لوگوں نے اپنے بچے اتنی تعداد میں مدارس میں نہیں بھیجے جتنی تعداد میں بھیجنے چاہیے تھے، لوگوں کا رویہ کچھ ایسا رہا کہ  جو بچہ سکول میں پڑھ نہیں پاتاتھا  یا کسی طرح سے جسمانی نقص والا ہوتا ، اسے حافظ قران بنانے کے لیے مدرسہ میں ڈال دیتے ،  یوں ہمارے ملک کی کریم یعنی بہترین ذہن رکھنے والے طلبا انگلش میڈیم سکولوں میں چلے جاتے ہے۔بحرحال اس کے نتیجے میں   مدارس میں پھر ہر طبقہ کے لوگ آئے، ہر نوعیت کے ادارے بن گئے، پھر اس میں ہر قسم کی   تربیت  لے کر  لوگ فارغ بھی ہوگئے،  اس نتیجے میں کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت کمی  رہ گئی اور جب یہ لوگ گلی محلوں میں اساتذہ کی شکل میں سامنے آئے تو انہوں نے اپنی نفسیات کے مطابق کارنامے بھی کیے۔ اورکچھ  تلخ  حوصلہ شکن واقعات بھی سامنے آئے۔ یہ واقعات مدارس کے ساتھ خاص نہیں سکولوں  میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت عام سنائی دیتی رہتی ہے، چند دن پہلے اسی طرح کی  ایک خبر نظر سے گزری جس میں نویں جماعت کی  طالبہ کے ساتھ سکول کے پرنسپل کی جنسی  ذیادتی کرنے کی کوشش  کا تذکرہ تھا ، اس طرح کے اور کئی واقعات اخباروں میں آتے رہتے ہیں۔ یہ آج میرا موضوع نہیں۔ میں  آج مدرسے سے  متعلق  اپنے  ایک دوست کے سنائے گئے ایک اسی طرح کے واقعہ کو بطور مثال  پیش کرکے اس پر بات کروں گا۔

ایک پاکستانی بھائی چھ ماہ پہلے بچوں کی "اسلامی تربیت" کی خاطر جاپانی بیوی بچوں کو لیکر پاکستان چلے گئے ،چند دن بعد معلوم پڑا واپس جاپان آگئے ہیں ، ہم نے ان سے وجہ پوچھی تو بولے ہم نے  یہیں مرنے کا ارادہ کر لیا،ہم لوگ تو چھ ماہ  پاکستان  رہے  کافی تنگ تھے لیکن بچوں کیلئے ہم میاں بیوی نے یہی سوچا کہ برداشت کرتے ہیں،اور جیسا بھی ہے پاکستان میں رہتے ہیں،آٹھ سالہ بچے کو قریبی مسجد میں قرآن پڑھانے بھیجنا شروع کردیا۔بچہ بنچ پر سپارہ رکھ کر پڑھتا تھا اور قاری صاحب نیچے سے بچے   کی پیشاب والی جگہ  کو ہاتھ میں لے لیتے ۔جاپا نی بچہ تھا، اس نے گھر میں آکر بتا دیا کہ مولوی صاحب ایسا کرتے ہیں اس لئے میں یہاں نہیں پڑھوں گا۔بچے کے باپ کو غصہ آیا قاری صاحب سے دست گریبان ہوئے لیکن قاری صاحب نے قرآن ہاتھ میں اٹھا لیا اور بچے کو جھوٹا کہہ دیا۔جاپانی آٹھ سالہ بچہ اور جھوٹا۔۔ یہ تو ناممکن تھا۔بحر حال لوگوں کو جمع کیا گیا اور جب دوسرے بچوں سے تصدیق کی گئی تو کچھ نے شرماتے شرماتے بتا دیا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔جتنی دیر میں بچوں سے تصدیق کی جارہی تھی قاری صاحب اتنی دیر میں رفو چکر ہو گئے۔ان میاں بیوی کو ایسا شاک لگا کہ یہ بھی بوریا بسترا گول کرکے جاپان واپس آگئے۔

یہ واقعہ سن کر مجھے بھی بہت افسوس ہوا۔ واقعہ ہے ہی قابل افسوس۔ اس کو تحریر کرتے ہوئے بھی شرم  آئی لیکن جس مقصد کے لیے اس کو لکھا اسکو میں بہت ضروری سمجھتا ہوں   اس لیے تحریر کررہا ہوں۔
یہ سب ہمارے سامنے ہے کہ آج کل جس طرح گلى گلى جعلى يونيورسٹیاں ،سكول، كالج ،نرسريز اور آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ بنے ہوئے ہيں اسی طرح گلی محلوں میں  کچھ ایسی  مساجد بھی ہیں جہاں مسجد کے ساتھ مدرسہ کے نام پر  چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دو تین ہزار تنخواہ پر ایک قاری نما  آدمی  کو بٹھا دیا جاتا ہے،اور اس بات کی تحقیق نہ مسجد کی انتظامیہ کرتی ہے اور نہ  اپنے بچوں کو اس مولوی کے پاس بھیجنے والے والدیں کرتے ہیں  کہ آیا یہ بندہ مکمل قاری بھی ہے؟  کسی اچھے مدرسے سے فارغ التحصیل  بھی ہے،؟اسکا کریکٹر کیسا ہے؟کہیں جرائم پیشہ تو نہیں؟کہاں سے تعلق رکھتا ہے؟کدھر سے آیا ہے؟۔ مسجد کمیٹی  والوں کو ایک داڑھی والا آدمی چاہیے ہوتا ہے جو کچھ صورتیں اچھے لہجے میں پڑھ سکے اور اس بندے کو شہر میں ٹھکانہ ۔ دونوں کا کام چل جاتا ہے ۔ یہاں سے پھر بدبختی ان لوگوں کی آجاتی ہے جو اپنے بچوں کو نیک نیتی کے ساتھ قرآن پڑھانے کے لیے اس کے پاس بٹھا دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے پہلے ایک تھریڈ میں لکھا کہ محلے کی مسجد کی کمیٹیوں کے صدر اور ذمہ دار ذیادہ تر گورنمنٹ اداروں کے منشی ،  آفسر ریٹائرڈ ہوتے ہیں ،   وہ عام طور پر     اس قابل  ہی نہیں ہوتے   کہ محلے کی دینی ضروریات  کو سمجھ سکیں اور پھر  اسکے مطابق  انتظا م کرسکیں ، انکی اپنی نمازیں ، قرآن تک ٹھیک نہیں ہوتا،    انکا کام بس یہی ہوتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد جمع شدہ چندے کے پیسے گننا یا   مسجد کے خادم کے پیچھے لگے رہنا کہ تم نے موٹر کیوں نہیں چلائی،  مسجد کی صفائی صحیح کیوں نہیں کی ، اذان وقت پر کیوں نہیں دی،   وہ     مدرسے اور تعلیم و تربیت کے کاموں میں دلچسپی لیتے ہی نہیں   ۔  اکثروبیشتر تمام تر ذمہ داری اپنی مرضی سے منتخب کردہ اسی    نیم مولوی ،حافظ پر ڈال دیتے ہیں۔  پھر جب اس  ایک آدمی کے ہاتھ میں سارا انتظام و انصرام آ جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہش سے سپیکر کو بھی استعمال کرتا ہے ،  اسی انداز میں اپنے طالب علموں کی تربیت بھی کرتا ہے اور اسکی ساری تقریریں بھی اسکی ذاتی  سائیکی کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں ، یہاں پھر  خرابیوں کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محلے داروں اوراچھے مدارس کے  معلمین کے کمبی نیشن سے ادارے چلائے جائیں اور مدرسے کے کام کو دینی فریضہ سمجھ کر باہمی مشاورت سےسرانجام دیا جائے۔ مساجد میں موجود مدارس کے آئمہ کی تنخواہیں اچھی  رکھی جائیں  ۔ دینی تعلیم کے لیے  اچھے سے اچھے عالم ، قاری کو  رکھا جائے ، اس کےلیے اچھے مدارس سے رجوع کیا جائے وہ  اپنی ذمہ داری پر ایسے بندے کو بھیجیں جس کی زبان پر ہی نہیں دل میں بھی قرآن ہو اور وہ خوف خدا بھی رکھتا اور بچوں کی  دینی تربیت کا طریقہ بھی جانتا ہو۔مساجد کے آئمہ کے لیے عالم یا مفتی ہونا لازم قرار پانا چاہیے ، صرف حافظ کو امام بنا دینا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے بلکل بھی درست نہیں ۔محلے کی مسجد کے امام اور مدرس کے لیے شادی شدہ ہونا بھی ایک شرط ہونا چاہیے ، کیونکہ اُنکو زیادہ تر امرد بچوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے اور شیطان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ۔امام کے لیے ضروری ہو کہ وہ نہ صرف کسی شیخ سے بیعت ہو بلکہ خود بھی مسجد میں ہفتہ وار اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔
 دوسری طرف والدین کی بھی یہ ذمہ داری  بنتی ہے کہ وہ  کم ازکم  بچہ   کو مدرسے میں داخل كروانے سے پہلے اس بات کی  تحقیق  كر لیں  کہ آیا   ادارہ رجسٹرڈ بھی  ہے يا مدرسے کے  كسى بورڈ سے الحاق شدہ بھی  ہے یا نہیں۔ اس کے اساتذہ  کا اخلاق کیسا ہے  ؟ وہ کہاں سے پڑھ کر آئے ہیں  ؟ ان کا رکھ رکھاؤ کیسا ہے ۔؟ یہ فتنہ کا دور ہے  ہمیں اس  اندھے اعتماد کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمارے لوگ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لیے تو  اپنے دوستوں سے ارد گرد کے لوگوں سے شہر کے سکولوں کے متعلق  مشورے کرتے ہیں کہ بچہ بڑا ہورہا ہے اسکو کس سکول میں داخل کرایا جائے  ؟ پھر پوری تحقیق کے بعد  شہر کے اچھے سے اچھے  سکول کا انتخاب کرتے ہیں ،فیسیں بھی دیتے ہیں، ٹیوشن کے لیے بھی اچھے سے اچھا ٹیوٹر ڈھونڈ کر گھر ٹیوشن لگا کردیتے ہیں  اور  دینی تعلیم کے لیے اتنی لاپرواہی برتے ہیں کہ  اپنی گلی کی مسجد کے مفت پڑھانے والے نیم  مولوی کے پاس بٹھا دیتے ہیں اور پھر بعد میں شکوہ بھی کرتے ہیں ۔ ۔    ضروری ہے کہ دینی تعلیم کے لیےبھی   مدرسہ اور استاد کے انتخاب  میں    مناسب تحقیق کی جائے۔جس طرح اوپر بیان کیے گئے واقعہ میں   ہم نے یہ دیکھا ان جاپان سے آنے والے صاحب نے  اپنے  بچوں کی دینی تربیت کے لیے ملک ، نوکری، آسائش  سب کچھ چھوڑ دیا  اور پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں آبسے  ۔ اب جس چیز کے لیے اتنی قربانی دی اس کے حصول میں بعد میں اتنے لاپرواہ ہوگئے کہ بغیر کسی تحقیق کے اندھا اعتبار کرتے ہوئے اپنے بچے کو کسی مولوی نما بھیڑے کے پاس پڑھنے بٹھا دیا ۔ پھر اسی لاپرواہی کے نتیجے میں جو واقعہ ہوا ، اسکے بعد بھی کسی سے کوئی مشورہ نہیں کیا ، بلکہ سارے مدارس کو  بھی اس طرح کا سمجھ کر جذبات میں دوبارہ     واپس چلے گئے۔  ایک اچھی بات  جو اس واقعہ میں نظر آئی وہ یہ کہ  والدین  کو اپنے بچوں کی   اپنے طور  پربھی  تربیت اس طرح  کرنی چاہیے  کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو بھی تو بچے شرما کر بات چھپائیں نہیں بلکہ اس بچے کی طرح والدین کو بتائیں تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
 جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہماری اجتماعی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے واقعات شاذوناذر  ہوجاتے ہیں،  لیکن ہمارے میڈیا کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ایسا کوئی  واقعہ کہیں پیش آجائے اس کو اچھالا اس طرح جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہی مدارس کا روزمرہ کا معمول ہے،  ہمارے روشن خیال مبصرین ، کالم نگار حضرات ان کالی  بھیڑیوں کی مثالیں دیتے ہوئے سارے مدارس کو ہی قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں ، جب  ہمارے  ہاں جعلى كلينكوں اور عطائى ڈاكٹروں كا نام لے كر ميڈيكل پروفيشن كو لعن طعن كرنا درست نہيں  سمجھا جاتا  پھر   ان چند  واقعات  كو لے كر سب دينى مدارس و جامعات كى محنت پر پانى پھيرنا  کہاں کا انصاف ہے ۔؟ہمارے ہاں جعلی ڈاکٹروں نے کیا کیا کارنامے کیے ہیں وہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی آج تک   ان عطائی  ڈاکٹروں کی وجہ سے کسی نے سپیشلسٹ ڈاکٹر کو برا نہیں کہا، کسی فٹ پاتھ بیٹھے جراح کے  غلط ہڈی جوڑنے کی وجہ سے آج تک کسی نے یہ نںجا کہا کہ میڈیکل کالج بند کردیئے جائیں۔ کچھ کمی ہمارے  لوگوں میں اس سلسلے میں بھی   ہے کہ وہ دیندار لوگوں پر اندھا اعتماد رکھتے ہوئے ہر مولوی نما آدمی کو ولی اللہ  سمجھ لیتے  ہیں،  حالانکہ  دین کے نام پر دو نمبریوں کے واقعات  بھی ہمارے اسی معاشرے میں  عام ہیں ، کئی لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں جو  صرف  اپنی کسی ذاتی غرض یا سیاست کے لیے نیک نامی حاصل کرنے کے لیے داڑھی رکھ لیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد ان کا شمار بھی دینی لحاظ سے اچھے ناموں میں ہونے لگتا ہے، اس طرح کئی  بد عورتیں  برقعہ پہن کر  اپنا دھندا  کرتی دکھائی دیتی ہیں  ۔ اب انکو دیکھ کر کوئی   سارے دیندار لوگوں اور برقعہ پہننے والی عورتوں کو غلط سمجھنےلگ جائے   ، یہ ایسے ہی جیسے ایک بندہ  کسی  ڈاکٹر   جیسا حلیہ بنا لے  اورلوگوں کا علاج کرتا   پھرے  پھر بعد میں ہم  اسکے گناہ یہ کہہ کر اس  سپیشلسٹ ڈاکٹر  پر ڈال دیں  کہ اسکی شکل تم سے ملتی ہے وہ جو کچھ کرے گا تم بھی اس کے ذمہ دار ہوگے۔ یہ   کہاں انصاف کی  بات ہوگی ۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 8 مارچ، 2012

آسکر ایوارڈ برائے تذلیل مسلماں

پچھلے دو ہفتوں سے ہر طرف ایک  ہی شور سن رہے ہیں کہ ایک  پاکستانی عورت نے آسکر ایوارڈ جیت  کر پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کردیا ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آسکر ایوارڈ جیتنے پر شرمین عبید چنائے کو اس کارنامے کی وجہ سے سو ل ایوارڈ دینے کا کہا ہے، سارا میڈیا رٹے لگا رہا ہے  کہ یہ اعزاز ہمارے ملک و قوم کے لئے  ایک بہت ہی فخر کی بات ہے ،  اخبارات میں رنگین سپلیمنٹس شائع ہورہے ہیں ، میگزین اس کی تصویریں اپنے  فرنٹ پیج پر لگارہے کہ  اس عورت نے اپنی محنت سے پاکستان  کو ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا ہے.۔
ہم  انگشت بدنداں ہے کہ یاالہی اس عورت نے  آخر ایسا کیا   ہمالیائی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے  جسکی اتنی تعریف کی جارہی ہے ؟ کیا  دنیا میں دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب  گرانے سے  بڑا ظلم عورتوں کے ساتھ کہیں نہیں ہوا  اورکیا  اس ظلم پر کوئی ڈاکومینڑی موجود نہیں۔۔؟ کیا اس موضوع پر  شرمین سے بڑا  کارنامہ کوئی  اور فلمساز آج تک نہیں سرانجام دے سکا۔ ۔  ؟  ہمارے ناقص علم کے مطابق صرف امریکہ محکمہ انصا ف کی رپورٹ  ہے کہ  امریکہ میں ہر پانچ منٹ میں  ایک عورت کے ساتھ ریپ کی واردات ہوتی ہے، یورپ میں ہزاروں لڑکیاں ریپ کے بعد قتل کردی جاتیں ہیں، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ  فلسطین میں اسرائیلی ، کشمیر میں انڈین ، عراق  اور  افغانستان  نیٹو فوجوں نے  عورتوں کے ساتھ کیا  سلوک کیا اور کررہے ہیں    ؟  امریکی حکومت نے پندرہ لاکھ سے ذیادہ عراقی اور افغانی معصوم شہریوں کے خون میں ہاتھ رنگے ،   افغانستان اور عراق  کی  ہزاروں  جوان لڑکیاں انہی یورپ ، امریکہ کے بازار حسن میں بک گئیں ،   بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہنوں کے ساتھ ریپ کیے گئے، بمباری سے   لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم اور معذور   ہوگئے اور ہورہے ہیں، خود  اسی پاکستان میں ہزاروں بچے، عورتیں ،بوڑھے ڈرون حملوں میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں ،  'انسانوں کا غم رکھنے والے ان منافقوں نے یہود  کے ایک ہولوکاسٹ کے واقعے پر کئی سو ڈاکو منٹریاں  تو بنا لیں  ان  پر کوئی فلم کیوں نہیں بنائی،  ویت نام پر امریکہ  نے  تاریخی مظالم  کیے  تھے اس پر کوئی ڈاکو مینٹری نہیں بنی۔ اس آسکر  ایوارڈ دینے والی تنظیم کی منافقت اور  تعصب سے خود انکے اپنے لوگ آگاہ ہیں   ۔یہی وجہ تھی کہ فلم دی گاڈ فادر  کے ہیرو مارلن برانڈو نے  اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا وہ جانتا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے  یہاں کے اصلی باشندوں ریڈ اندین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں    اور  ہالی وڈ کی فلمیں  الٹا انہی مظلوموں کو  ظالم شو کررہی  ہیں   ۔ ادارکار جارج سکاٹ  نے اپنی فلم پر یہ کہہ کر آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ یہ انتہائی بدیانت تنظیم ہے۔دنیا کے کئی اہم موضوعات اور مظالم پر  کئی  حساس دل لوگوں نے  دستاویزی فلمیں بنائیں ہیں   ان کو آسکر ایوارڈ دینا تو دور کی بات ان کو فلموں کی لسٹ میں ہی نہیں رکھا جاتا۔خود شرمین کی فلموں پر نظرڈالیں تو  کئی فلمیں ایسی ہیں جن میں  انسانی کرائسز دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب گرائے جانے کے واقعہ سے بھی ذیادہ شدید ہیں ۔  اسکی ایک فلم ‘ عراق دی لاسٹ جنریشن  ہے  جس  میں انہی  آسکر ایوارڈ دینے والوں کے ملک اور انکی   اتحادی فوجوں کے   محض عراق کے ذخائر  پر قبضہ کے لیے کئے گئے حملوں سے عراق میں آنے والے تباہی  اور ساری عوام خصوصا مہاجرین کی  افسوسناک حالت کو دکھایا گیا ہے  , شرمین نے تو اس  مغربی دہشت گردی پر ایک لفظ نہیں بولا بلکہ الٹا دفاع کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ فسادا ت کانتیجہ قرار دیا ۔ یہ چیز  دیکھنے والا اپنے طور پر  محسوس کرسکتا ہے کہ مغربی  اتحادی  فوجوں نے اس قدر درندگی کا مظاہر ہ کیا ہے  کہ نہتی عوام کو بھی نہیں بخشا ۔  ایک اور فلم جس کا نام ہائی وے آف ٹئیررز ہے۔ اس میں کینڈا  میں گمشدہ ہونے والی درجنوں عورتوں اور انکے گھرانوں کا تذکرہ ہے۔ آسکر ایوارڈ والوں کو دوپاکستانی مسلم عورتوں کے چہروں پر گرائےگئے   تیزاب  پر بننے والی ڈاکومینڑی اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے آسکر ایوارڈ کا حق دار سمجھ لیا،      انہیں  اسی ڈائریکٹر کی عراق میں بننے والی فلم نظر کیوں نہیں آرہی جس میں  انہی کی فوجوں کی بمباری سے بچوں  ، عورتوں،  بوڑھوں  کے صرف چہرے نہیں پورے پورے جسم  جلے  ،  مسخ  اور معذور  ہوئے دکھائی دیتے  ہیں    اور وہ  مہاجر کیمپوں میں سخت حالات میں زندگی گزار رہے ہےجہاں سیونگ فیس کا نہیں سیونگ لائف کا مسئلہ ہے۔  ؟ اگر ان لوگوں کو دنیا کی عورتوں کا اتنا ہی احساس ہے تو یہ   کینیڈا میں  اغوا ہونے والی درجنوں عورتوں پر بننے والی ڈاکومینڑی کو کیوں اگنور کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟  دنیا میں مختلف انتہائی اہم ٹاپک پر ہزاروں فلمیں بن چکیں ہیں  ، آخر وہ فلمیں آسکر ایوارڈ کی حق دار کیوں نہیں ٹھہرتیں ۔ ۔ ؟ شرمین کی  اس سیونگ فیس  فلم سے پہلے 2002میں اس  کی فلم ٹیررز چلڈرن پر اسے  کئی بین الاقوامی ایوارڈ دیے گئے۔۔ 2003 میں اس کی دستاویزی فلم   ری انوینٹنگ  دی طالبان کو  چار مختلف بین الاقوامی ایوارڈز ملے ۔  2010  میں پاکستانی طالبان/ جنریشن  چلڈرن آف دی طالبان پر  اسے  ایمی ایوارڈ  دیا گیا ۔ ان تین فلموں  میں کیا دکھایا گیا ہوگا وہ ان کے نام سے ہی ظاہر  ہورہا ہے ۔ ۔ ۔؟  آخر کیا وجہ ہے کہ ایوار ڈ کے لیے ہمیشہ  مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ فلمز  اور  مسلم معاشرے کے منفی پہلو کو اجاگر کرنے والی ڈاکومینڑی  ہی منتخب ہوتیں ہیں۔ ۔ ؟اسکا جواب یہی ہے  کہ یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کے کیے گئے  ان انسانیت کش کارناموں پر  بننے والی فلموں پر ایوارڈ   دے کر دنیا کے سامنے اپنے لوگوں کو ذلیل کیوں کروائیں  ۔ ۔ ؟ ان  فلسطین ، عراق، افغانستان میں  پر بننے والی فلموں  میں تو ان  مسیحاؤں کی اپنی فوجیں یہ  سب  کارنامے کررہی ہیں ۔ ۔۔ ؟  اس  سے تو  خود ان   انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنوں کے چہروں سےخوشنما نقاب اتر جائیں گے ۔ ۔ ۔  ان منافقوں کی اپنی  حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ ۔ ۔  اس ایوارڈ کی ذیادہ حقدار تو  وہ فلمیں ہیں جن میں ظالم مسلمانوں کو شو کیا گیا ہے ۔  ۔ ۔ یہ   ایوارڈ تو  انہوں نے  مسلمانوں کے معاشرے کے منفی پہلو اجاگر کرنے والے اپنے پسندید ہ فلمسازوں کو دینا ہے   ، جیسے انہوں نے شرمین کی چند عورتوں کے تیزاب سے جلنے والی فلم پر ایوارڈ دیا، تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ  انہیں مسلمان عورتوں کی کتنی  فکر ہے۔ ۔ ۔ ? وہ ظالموں کے خلاف اور  ان مظلوم عورتوں کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔  اس سے ان کے  چہرے پر شرمندگی بھی نہیں ہوگی  اور انہیں دنیا میں انسانوں کا خیر خواہ بھی کہا جائے گا۔ 
آسکر ایوار ڈ والوں کی  طرح کی یہی منافقت مغرب کے ہر شعبہ میں نظر آتی ہے۔   انکا میڈیا  اپنے  مسلمان ملکوں پر حملہ آور ظالم فوجیوں کو  مظلوم اور شہید ہونے والے معصوم مسلمانوں کو دہشت گرد اور ظالم بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ۔ ۔ انکے نيشنل چينل پر نشر ہونے والي  اسلام اور مسلمانوں كے متعلق ۸۵ فيصد خبريں مسلمانوں كے خلاف اور منفي ہوتي ہيں۔فلسطين و عراق ميں ناجائز قبضہ ، وحشيانہ حملوں اور مسلمانوں كے اپني سر زمين كے حق دفاع سے چشم پوشي كرتے ہوئے ، حملہ آور  دشمنوں كے مقابلہ میں مسلمانوں كي طرف سے ہونے والي مزاحمت كے مناظر كو دہشت گردی كے عنوان سے نشر كيا جاتا ہے
 غیر وں سے متعلق تو ہماری مذہبی کتابوں نے بھی پہلے سے  گواہی دے رکھی تھی  کہ یہ یہود ونصاری مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے، ہماری  انسانی حقوق کی ملکی تنظیموں کا کردار بھی ان یہودیوں سے مختلف نہیں ہے، ہماری اس  نام نہاد معمار پاکستان، دخترپاکستان ، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ  عورت  شرمین  نے  تین  سے زائد فلمیں  طالبان کے حملوں اور انکے بچوں پر  تو بنا دیں ، جن  میں  دکھایا گیا ہے کہ اس نے  وہاں کےمہاجر کیمپوں  کے  دورے کیے ، وہاں کے بچوں سے انٹرویو لیے اور  ایک پلاننگ کے تحت مدارس کو خود کش حملہ آوروں کی ٹریننگ کے مراکز شو کیا  اور  طالبان کے حملوں سے چند تباہ شدہ سکولوں کی ویڈیو دکھائیں( ملکی اخبارات میں شایع شدہ رپورٹس کے مطابق کئی جگہوں پر ٹھیکیداروں نے خود سکول تباہ کروائے تاکہ بعد میں انہیں تعمیرات کیلئے ٹینڈر مل سکیں) ۔  اسکو  انہی علاقوں میں ڈرون اٹیک سے زخمی ہونے والے بچوں ، عورتوں کا انٹرویو کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا،  ڈرون حملوں سے تباہ شدہ گھروں کی ویڈیو بنانے سے اسے کس نے روکا۔ ہماری نظر میں ایک  مستند رپورٹ کے مطابق ان  ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 2711 ہے۔ ہلاک شدگان میں سیکڑوں عورتیں ہیں اور 178 معصوم بچے بھی شامل ہیں ۔ ان  جل کر راکھ ہونے والے ان ہزاروں بچوں، عورتوں کے متعلق   اس عورت نے یا کسی اور نے کوئی فلم کیوں نہیں بنائی ۔ ?? یہاں ان  معماروں ، پاکستان کا درد رکھنے والوں کی زبانیں، قلم ، کیمرے کیوں رک جاتے ہیں ؟
جنگ کے معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب    مغرب اور انکے پسند یدہ لوگوں  کی اسی مخصوص مکروہ ذہنیت اور کام کے طریقہ کار  کے  متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں  لکھتے ہیں۔
ایک تاثر تو یہ ہے کہ آسکر ہو یا کوئی اور عالمی اعزاز صرف اسی صورت میں کسی پاکستانی شخصیت، ادارے، تنظیم یا این جی او کا مقدر بنتا ہے جب زیر نظر فلم، تخلیق، کارنامے یا ادب پارے میں پاکستانی معاشرے کی کوئی گھناؤنی، متعفن اور نفرت انگیز تصویر پیش کی گئی ہو۔ یوں پاکستان کی کسی شخصیت ادارے، تنظیم یا این جی او کے سینے پر ایک تمغہ سجا کر بظاہر پاکستان کو شاباش دی جاتی ہے لیکن درحقیقت پاکستان کا تیزاب زدہ مسخ چہرہ ساری دنیا کو دکھا کر ، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان، درندوں کی کمین گاہ ہے جہاں اس نوع کے بھیانک جرائم معمولات حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ عزتیں بانٹنے والے یہ بڑے بڑے ادارے، کسی تخلیق کو جانچنے کی اپنی کسوٹی رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ من پسند موضوعات اور پرکشش نعرے بھی ہیں۔ لازم ہے کہ تخلیق کا نفس مضمون ان موضوعات اور ان نعروں سے ہم آہنگ ہو اور اُن وسیع تر مقاصد کی آبیاری کرتا ہو جو اعزازت کے عالمی تقسیم کاروں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 3 مارچ، 2012

کیا مسلمانوں کی علمی پسماندگی کے ذمہ دار امام غزالی ہی ہیں؟

چند ہی دن پہلے ایک جگہ کسی کا اعتراض پڑھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے علمی زوال میں امام غزالی کا اہم کردار ہے۔

دو وجوہات نے مجھے اس معاملے کی تہہ میں جانے پر اکسایا۔ ایک تو یہ کہ اس طرح مجھے تاریخ کے متعلق کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ دوم یہ کہ اتنی بڑی بات کو بغیر تحقیق قبول کر لینا کوئی علم دوست رویہ نہیں۔

پہلا مرحلہ تھا دعوے کا تجزیہ کرنا جس کے نتیجے میں اپنی آسانی کے لیے میں نے اسے ان دو حصوں میں تقسیم کیا۔
اول یہ کہ امام غزالی نے ریاضی کو ایک شیطانی کھیل قرار دیا۔
دوم یہ کہ امام غزالی کی وجہ سے مسلمان سائنس سے دور ہو گئے۔
مکمل تحریر پڑھنے کے لیے  اس لنک پر کلک کریں 
مکمل تحریر >>