منگل، 16 دسمبر، 2014

جنید جمشید اور قانون توہین رسالت

جنید جمشید   اک سابقہ مشہور سنگر ۔ ۔  سترہ سال پہلے  محض اللہ کی رضا کے لیے  میوزک کی دنیا کو چھوڑ کر ایک جائز کاروبار شروع کیا  ۔۔۔۔۔ ایک تبلیغی تحریک سے وابستگی  ۔ ۔ ۔۔ ان لوگوں کے لیے ایک زندہ جواب جو یہ کہتے تھے کہ غریبوں کو کچھ کھانے کے لیے نہیں ملتا اس لیے مولوی بن جاتے ہیں، ان کو یہ چمک دمک، عیاشیاں دکھاؤ پھر  دیکھنا  یہ کیسے ملانے بنتے ہیں ۔ !!!
دوسال پہلے  ایک جگہ اپنے ایک تبلیغی بیان میں عورت کی فطری کمزوریوں پر بات کرتے ہوئے وہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق  اس صحیح حدیث کی وضاحت ایسے بناوٹی  انداز میں  کر گیا    جس سے حضرت عائشہ کی توہین کا پہلو نکلتا نظر آتا تھا۔  یہ زبانی لغزش تھی جس کا اندازہ نا اسے  ہوا اور نہ وہاں کسی سننے والے کو ہوا ۔
دو سال بعد ایک پلان کے تحت اسکی  اس ویڈیو کے اس مخصوص کلپ کو  سوشل میڈیا پر گستاخی کے تعارف سے لایا گیا اور   اسے ایک گستاخ کے طور پر مشہور کردیا گیا۔ ۔ بیان میں یہ واضح تھا کہ جنید نے یہ الفاظ   جان بوجھ کر یا  کسی غلط عقیدے  کی وجہ   سے نہیں  کہے  بلکہ یہ  اسکی سبقت لسانی اور زبانی لغز ش تھی ۔  اس لیے  جیسے ہی اسے اسکی غلطی پر متنبع کیا گیا   اس نے بغیر کسی حیل و حجت کے  معافی مانگ لی۔لیکن اس سب کے باوجود    مخالف  فرقے  اور سوچ کے لوگوں نے اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا ۔
قانون توہین رسالت

  اس دوران اس قانون توہین رسالت کے متعلق  سوشل میڈیا پر ایک کنفیوز کرنے والی بحث بھی دیکھی ، کنفیوزین یہ تھی کہ کیا  ایک کافر اور مسلمان کی گستاخی میں کوئی فرق ہے اور کیا دونوں کے متعلق شریعت کا  ایک  جیسا  حکم ہے ؟
 رسالت  کے قانون کو دیکھا جائے تو اسکے دو   حصے   ہیں ۔ ایک  کافر کے متعلق جو  غصہ، تعصب ، دشمنی اسلام  میں جان بوجھ کر   شان رسالت میں گستاخی کرے ۔
 دوسرا کوئی مسلمان جو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و گستاخی کرے۔
اول الذکر کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ  اس کی گستاخی اگر ثابت ہوجائے  تو اس کی کوئی معافی نہیں  ، تعزیرات پاکستان میں بھی اس کی سزا موت  لکھی گئی ہے اور یہ سزا دینا قاضی  کا کام ہے  ۔
مسلمان کی گستاخی کے دو پہلو ہیں ۔
1.    بندہ صاحب ایمان اور عقیدہ  ہو لیکن زوال عقل یا زوال اختیار (نزع کی حالت ،  کبر سنی، سبقت لسانی، جہالت ، غلبہ خوشی، فرط محبت   میں  ) بے اختیار   زبان سے کفریہ الفاظ نکل جائیں یا  قصد کچھ اور ہو لیکن زبان سے کچھ اور نکل جائے ۔ پھر  ہوش میں آنے پر یا غلطی پر متنبع ہونے کے بعد توبہ استغفار کر لے۔
2.    دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ   بدعقیدہ ہو  اور جان بوجھ  کر اور پورے ہوش و حواس میں شان رسالت میں غلط کلمات کہے ۔
ان دونوں کے احکامات الگ ہیں ۔
 پہلے شخص کے متعلق ہر مسلک    کے علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص نہ مرتد ہوا اور نا اس کے لیے تجدید ایمان اور تجدید  نکاح  ضروری  ہے۔۔۔!!  فقہائے احناف کی رائے دیکھنے کے لیے  ملاحظہ فرمائیے  فتاوی قاضی خان  3/576-77،    فتاوی ھندیہ  2/276، فتاوی الشامیہ  4/239
 دوسری قسم کے  شخص کے متعلق علماء کی رائے مختلف ہے بعض  اس پر عام مرتد کا حکم لگاتے ہیں  ۔ انکی رائے میں  ایسا شخص مرتد ہوگیا ہے ،  اس پر اسلام پیش کیا جائے  اگروہ تسلیم کرلے اور مکمل شرائط کے ساتھ توبہ کرلے    تو  اسے  چھوڑ دیا جائے اگر وہ انکار کرے   تواسکو قتل کردیا جائے۔ فقہ حنفی کے مشہور  اِمام ابویوسف ”کتاب الخراج“ میں لکھتے ہیں”جس مسلمان نے رسول اللہ اکی توہین کی، یا آپ  کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر ومرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ (کرکے اسلام ونکاح کی تجدید) کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ “(کتاب الخراج ص:۱۹۷، ۱۹۸)
کچھ  علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص کا حکم عام مرتد کا نہیں اس کے گناہ کی معافی اسکے قتل کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔
کیا شریعت کی نظر میں  جنیدجمشید واقعی گستاخ  رسول ہے ؟
جنید جمشید کی غلطی کو دیکھا جاءے تو  یہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق  نہیں بلکہ ام المومنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی بھی بہت بڑا گناہ ہے لیکن  اس پر وہ حد لاگو نہیں ہوتی جو گستاخ رسول پر ہوتی ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانے والوں  میں منافقین کے علاوہ چند صحابہ  کا بھی نام تھا ، انکی معافی و توبہ  کو قبول کیا گیا   ۔ نا کسی منافق کو گستاخ رسول والی سزا دی گئی اور نا ان صحابہ  کو کسی نے مرتد  کہا ۔ بلکہ قرآن میں سورۃ النور میں ان  میں سے ایک صحابی  کا ذکر بھی آتا ہے  جنکی اس واقعہ کے  بعد جب  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مالی مدد کرنا چھوڑ دی  تو اللہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو   ان صحابی  کو معاف کرنے اور امداد جاری رکھنے کا  حکم دیا۔ اس مسئلے کی وضاحت ایک مشہور مقرر نعمان علی خان نے بھی کی ،انکی ویڈیو یہاں ملاحظہ فرمائیے۔
یہ بات تو واضح ہے لیکن بالفرض   اگر جنید جمشید  کو گستاخ رسول بھی قرار دے  دیا جائے تو  وہ واضح پہلی صورت  کا کیس ہے کہ وہ مرتد نہیں ۔ اسکا وہی عقیدہ ہے جو   اصحاب و امہات رضوان اللہ  کے بارے میں اہل سنت والجماعت  کا  عقیدہ ہے۔ اس ویڈیو سے پہلے اس نے کبھی   کوئی گستاخی کی نا اس کے بعد اب تک جبکہ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔
ردعمل میں سامنے آنے والے  دو قسم کے لوگ :۔
پاکستان میں قانون توہین رسالت کے خلاف سالوں سے کوششیں جاری  ہیں ،  اس کے لیے جہاں  حکومتی عہدیداروں کو  استعمال کیا گیا ،  این جی  اوز اور  میڈیا کے ذریعے  بھی اس کے خلاف باقائدہ مہم  بھی چلائی گئی  اور بہانے بہانے سے چلائی  جارہی ہے۔  پہلے سلمان تاثیر کا کیس پھرکوٹ  رادھا کشن کا واقعہ اور اب   جنید جمشید کی دو سال پرانی ویڈیو کو لے کر    قانون توہین رسالت کے خلاف ایک پورے پلین کے تحت طوفان کھڑا کرنا      اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ایک پوری لابی اس کام میں مصروف ہے ۔ یہ لوگ پہلے    عوامی جذبات کو ابھارتے ہیں  پھر  عوام میں سے کسی کے  غلط ردعمل پر قصور وار قانون  توہین رسالت کو قرار  دے دیتے ۔  حالانکہ  جس طرح عدالتی قانون کی موجودگی میں کسی کا قانون کو ہاتھ میں  لینا  پاکستانی لاء  کا قصور نہیں   ٹھہرایا جاتا اسی طرح    کسی کا  اپنے طور پر کسی کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے کر قتل کرنے کا ملبہ بھی قانون توہین  پر نہیں گرایا جاسکتا ۔ یہ بات بھی بعید نہیں کہ جنید جمشید کو گستاخ ٹھہرانے میں جن لوگوں کو استعما ل کیا گیا وہی ساون و شبنم میسح جیسے واقعے میں ملوث ہوں۔ !!
جنید جمشید کے اس کیس   سے ایک فائدہ بھی ہوا کہ اس  بہانے معاشرے میں موجود مذہبی اور غیر مذہبی فتنہ باز قوتیں  پوری طرح   بے نقاب ہوگئیں  ۔
مذہبی طبقہ :۔
مذہبی طبقے میں  چند لوگ ایسے ہیں جو اپنی جہالت، مذہب فروشی    کی وجہ سے مشہور ہیں   یہی وہ لوگ  ہیں جواکثر مذہبی طبقے کی بدنامی کا باعث بنتے  رہتے  ہیں اور ان کے مذہب کے نام پر کے گئے فراڈ کے  طعنے ہر  دیندار آدمی کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ ان میں بریلوی مسلک  سے تعلق رکھنے والی   کراچی  کی ایک نام نہاد مذہبی جماعت بھی ہے' جسکا شمار کراچی کی بڑی بھتہ مافیا تنظیموں میں بھی ہوتا ہے اور آئے روز کراچی کی مقامی اخباروں میں اسکے  کارکنوں کی قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کی خبریں چھپتے رہتی ہیں  ہیں۔
 اس جماعت کے لوگوں  نے اپنے فرقہ  وارانہ تعصب  میں ناصرف کراچی میں جنید جمشید  اور اسکے مسلک کے خلاف فرقہ وارنہ نعروں اور قتل کے فتووں پر مشتمل وال چاکنگ کی بلکہ اسکے خلاف  تھانے میں خلاف   ایف آئی آر بھی  کٹوادی۔ جنید جمشید کے خلاف  اصل طوفان انہی نے برپا کیا ۔ انکے کئی  پیشواؤں   کی سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی  دیکھی جاسکتی ہیں۔ میڈیا پر سب سے ذیادہ شور انکے  جس بندے نے کیا اس میں ایک انکے پیر مظفر علی شاہ  صاحب ہیں ۔ انکی یہ چھوٹی سی ویڈیو دیکھیے اور سر دھنیے۔،
  صاحب فرماتے ہیں، جنید جمشید ایک مراثی کی اولاد ہے، اسے کس نے حق دیا کہ یہ نعتیں پڑھے،  گے فرماتے ہیں  محمد یوسف پہلے عیسائی تھا پھر مرتد هوگیا۔۔"
 جب  نفرت پہلے سے  اس درجے کی ہے  پھر تو جنید کی گستاخی  کرنا نہ کرنا برابر ہے ،  یہ ویڈیو  تو ایک بہانہ  ہے ، جنید اور محمد یوسف تو  پہلے ہی انکے نزدیک مرتد اور گستاخ ہیں کیونکہ وہ انکے مسلک کے نہیں ہیں ۔۔  ایک اور  زهر اگلنے والی مشین کی ویڈیو  دیکھیے۔ 
صاحب   جنید جمشید کو کافر مطلق کہہ رہے اور اس کے لیے  "سر تن سے جدا “  کے فتوے دے  رہے  ہیں۔ ان کے علاوہ  ایک اور مشہور مداری بھی ہیں جو عموما  رمضان میں شو لگاتے ہیں انکی ویڈیو یہاں دیکھی جاسکتی ہیں فرماتے ہیں جو عاءشہ کا نہ ہوا فاحشہ سے ہوا ۔۔  موصوف کو خیال ہی  نہیں رہا اور اپنے ہی بھائیوں، رشتہ داروں کو گالی دے بیٹھے ۔
سیکولر اور لبرل :۔
اس فرقے کے بلاوجہ کے شور  ، گستاخی اور  قتل کے فتوؤں کا  بھرپورفائدہ دہریوں سیکولروں نے  اٹھایا، یہ وہ منافق  گروہ  ہے  جو پاکستان اور اسلام   کے متعلق ہر  مثبت بات میں سے بھی  منفی پہلو  تلاش کرتا رہتا ہے ۔ اس بہانے  اسے   اسلام اور علماء کو کوسنے کا بھرپور موقع ملا ۔عام حالات میں یہ  لوگ کسی مستند  اور محقق عالم   کو بھی ویلیو نہیں دیتے بلکہ سوشل میڈیا پر اسکا بھی  مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ' اس مسئلے میں  انہوں نے اس  ایک جاہل فرقہ پرست   گروہ  کی طرف سے دیے گئے گستاخی کے  فتوے کو بھی سند اسلام بنایا  اور شروع ہوگئے اپنا چورن بیچنے۔
ملحدین نے جنید جمشید کے کیس کو اٹھا کے سب سے ذیادہ شور جس کے لیے کیا وہ آسیہ مسیح اور سلمان تاثیر کا کیس ہے ۔ آسیہ کے کیس کی حقیقت یہ ہے کہ عید پر کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کو دینا حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے انتہائی غلط اور گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے ، بعد میں اس نے اپنی اس گستاخی کو تسلیم کیا، اور ایڈیشنل سیشن جج نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آسیہ مسیح کو سزائے موت کی سزا سنادی۔ اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کوبے گناہ قرار دیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ اُنہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوا دیں گے۔بعد میں  وہ قانون توہین رسالت کے خلاف باقاعدہ کوششیں کرتے اور اسکے لیے غلط الفاظ کا استعمال بھی  کرتے نظر آئے۔
یہ انتہائی غلط طریقہ تھا جو شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر نے اختیار کیا ، اگر یہ اپنی دانست میں آسیہ بی بی کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو ان کے پاس مناسب راستہ موجود تھاکہ یہ کسی اچھے وکیل کا انتظام کرتے اور آسیہ بی بی کے خلاف سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیتے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائی کورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو رہا کردیا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ انہوں نے ایسا کچھ کرنے کے بجائے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے ناصرف آسیہ بی بی کو بچانے بلکہ  ۲۹۵سی کو ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ دو سو پچانوے سی جس کے تحت توہین رسالت کی سزا موت پر نہ صرف بریلوی، دیوبندی، اہل تشیع اور اہل حدیث کے جید فقہا اور علماء کا اتفاق ہے بلکہ یہ قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بھی منظور شدہ ہے۔ ۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ قرارداد منظور ہوئی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہئے۔ اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید کی بجائے موت مقرر کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بھرپور بحث ہوئی جس کے بعد ۲۹۵سی کی منظوری ہوئی۔
بحرحال قانون توہین رسالت کے خلاف  سلمان و شہباز کی   ان کوششوں کا بالاخر انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنی جان سے گئے ۔سلمان تاثیر کے کیس کو دیکھا جائے تو وہ گستاخ رسول ہونے  سے ذیادہ قانون توہین رسالت کے خلاف اپنی کوششوں کی وجہ سے نشانہ بنتے نظر آتے ہیں ۔ یہی حال اقلیتی وزیر شہباز بھٹی کا ہے۔
دوسرا بڑا کیس جس پر جنید جمشید کے بہانے   شور کیا گیا وہ شبنم اور ساون مسیح کا تھا جنہیں چند ماہ پہلے ایک وڈیرے نے چند مقامی لوگوں کو ملا کر گستاخی رسول کے الزام میں جلایا تھا ۔ ملحدین نے اس بہانے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ سب اسی قانون کی وجہ سے ہوا ،یہ جملے پڑھنے کو ملے کہ یہ دونوں اس قانون کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ جنید جمشید آزاد پھر رہا ہے ۔  یہ ہے اس قانون کی حقیقت اور ان مولویوں کی منافقت جو اسکا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔۔
غور کیا جائے تو یہ اعتراضات بالکل بچگانہ ہیں کیونکہ ان دونوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس بستی کے لوگوں کا ذاتی فعل تھا جس کی مذمت خو د ہر مکتبہ فکر کے علماء نے کی تھی ۔ مزید نہ مستند علماء میں سے کسی نے اپنے طور پر کسی کو گستاخ کہہ کر قتل کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور نہ قانون میں ایسی کوئی بات موجود ہے بلکہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے سخت سزا قانون میں موجود ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اس فعل کا ذمہ دار علماء کو یا قانون کو ٹھہرانا اور پھر اسے جنید جمشید کے کیس کے ساتھ ملانا بالکل غلط ہے ۔
شائستہ واحدی کا کیس بھی زیربحث آیا ۔ شائستہ واحدی نے اپنےایک  پروگرام میں قوالی  کے دوران وینا ملک کو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کے شوہر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے روپ میں پیش کیا۔ اس کی معافی  ہوسکتی تھی  لیکن اس سے پہلے یہ اپنے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسلامی اقدار کے خلاف  اوٹ پٹنگ حرکتیں کرتی  رہی تھی اور  جیو چینل کا بھی اس حوالے سے پہلے سے  ریکارڈ خراب تھا اس لیے شائستہ واحدی اور جیو چینل کے خلاف احتجاج دیکھنے میں آئے لیکن شائستہ پر کسی بھی عالم نے فتویٰ قتل وغیرہ نہیں لگایا تھا ۔  جیو کی طرف سے فوجی سربراہان اور اداروں کے خلاف چلائی گئی میڈیا مہم بھی اس ردعمل  کی  ایک وجہ تھی اسی وجہ سے  انکو اب تک مختلف کیسز بشمول توہین رسالت کیس میں سمن بھیجے جارہے ہیں
نوٹ : راقم کا جنید جمشید کے ہر فعل سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مکمل تحریر >>