جمعرات، 26 مئی، 2011

کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے ۔؟

وساوس
مسلمانوں اور ہندوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان کعبہ کی۔ 
کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی   بتوں کی پوجا کرنے  کی طرح ہے ۔
ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟ 

جواب :
یہ غلطی فہمی جس کو مختلف وساوس کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ’ہندوستان میں مسلمانوں کے قبضہ اور اقتدار کے پہلے دور سے چلی آرہی ہے۔   ہندوؤں کی طرف سے پیدا کیے گئے ان وساوس کا جواب اسی  دور کے علما نے دے دیا تھا، لیکن  دینی علم اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ابھی بھی لوگ اس وسوسہ کا شکار ہے اور کچھ لوگ جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں وہ اس کو باقاعدہ اسلام کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔  

اس وسوسہ کے جواب کے لیے ان  چند پوائنٹس پر غور کر لیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

1. اسلام میں اصل  اہمیت اللہ کے  حکم کی ہے۔ وہ جو چاہیے، جیسے چاہے اپنی حکمت کے مطابق انسانوں کے لیے مقرر کردے، میں اس کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں

پہلی مثال :

ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے تک  مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر  جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا۔ قرآن میں دوسرے سپارے کی پہلی آیات میں تحویل قبلہ کا ذکر ہے۔

"بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔" (سورۃ البقرہ، آیت 142،143)

حکمت خداوندی واضح  ہے  کہ قبلہ کی حیثیت محض ایک سمت کی ہے  اصل چیز تو حکم خداوندی ہے’ ۔  اسی کا اللہ نے اوپر آیت میں ذکر بھی کیا کہ سب سمتیں  خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب اللہ ہی کی ملک ہیں ، اسے اختیار ہے جس سمت کو چاہے مقرر فرمادے۔  ہم دیکھیں گے کہ   کون ہمارے حکم کی پیروی کرتا اور  پیغمبر کے تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔


دوسری مثال :



حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : 
میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا ۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا " (اے پتھر!) اگر تجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا " اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں تعظیم پتھر کی نہیں بلکہ نبی کے فرمان کی ہورہی ہے۔ یہی بات شیطان کو سمجھ نہ آئی اور راندہ درگاہ ہوا۔


2. استقبال قبلہ کا ایک  راز یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا گیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی گئی ہے, ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا.  ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں  عبادت کی روح’  دلجمعی اور یکسوئی ہے ،  مطلب دلجمعی اور یکسوئی کے بغیر  عبادت کی صورت ہی رہ جاتی ہے، اس میں روح نہیں پائی جاتی ، اب اگر نماز میں ایک خاص جہت/سمت  مقرر نہ ہوتی تو کوئی کسی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا ، کوئی کسی طرف، اس اختلاف جہات  و ہیئات سے تفرق قلب ہوتا ۔ اس خاص سمت کو مقررکرنے  نے اس فساد اور تفریق کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور مسلمانوں کو ایک اللہ ، ایک قرآن کے ساتھ ایک کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے پر جمع کردیا ہے۔

3. کسی کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے  کہ کعبہ ہی کو  سمت کے لیے کیوں مقرر کی گیا کسی اور کو کیوں نہیں  ؟  اسکی اور بہت سی  جغرافیائی  وجوہات کے علاوہ  ایک طالب علم کے لیے کعبہ  ہی کے تعین کے پیچھے یہ ہے کہ  تجلیات  الہی  روح کعبہ اور حقیقت کعبہ ہیں۔ اللہ  کی توجہ کعبہ کی طرف ذیادہ ہے  یعنی اللہ نے اپنی تجلیات کا مرکز کعبہ کو بنا کرخود انسانوں کو اس طرف رخ کرکے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ آسان الفاظ میں حقیقت میں  مسلمان  کعبہ کی دیواروں کا استقبال نہیں کرتے ، بلکہ تجلی الہی کا استقبال کرتے ہیں ۔ اگر کعبہ کی دیواروں  کا استقبال، طواف ، عبادت ہوتی تو  کعبہ کی چھت پر نماز  جائز نہ ہوتی ۔ 

4. مسلمان خود کعبہ کی معبودیت کی نفی کرتے ہیں ،کوئی بت پرست اپنے معبود کی معبودیت کی نفی نہیں کیا کرتا۔

5. بت پرست اپنی عبادت میں بت کی طرف متوجہ رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو نماز کے دورا ن  کعبہ کی عبادت  کا خیال بھی نہیں آتا۔

6. بت پرست  بت کے بغیر عبادت نہیں کرتا،  جبکہ  مسلمانوں پر نماز کعبہ کے بغیر بھی فرض رہے گی ، نماز کے ٹائم اس طرف منہ کرلیا جائے گا، مطلب مسلمان  پتھر یا اینٹ کو نہیں پوجتے  ورنہ انہدام کعبہ کے بعد نماز موقوف ہوجاتی ،۔

7. مسلمان کعبے کے اوپر چڑھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ، جبکہ پت پرستوں کے ہاں ایسے عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہ گستاخی اور  بے ادبی ہے۔

 ان  پوائنٹس سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کا اللہ کی عبادت کے لیے  کعبہ کی طرف رخ کرنے نماز پڑھنا اور کسی بت پرست کی بت کی پوجا آپس میں کسی قسم کی  کوئی مماثلت  نہیں رکھتے ۔ اللہ ہمیں شرح صدر عطا فرمادے۔



مکمل تحریر >>

پیر، 23 مئی، 2011

کیا قرآن پچھلی کتابوں سے کاپی شدہ انسانی کلام ہے ؟

  یہ بہتان سب سے پہلے مکہ کے کفار و مشرکین نے قرآن پر لگایا تھا، اللہ نے قرآن  ہی میں انکے ان تمام وساوس کا جواب دے دیا تھا، پھر بھی بعد میں یہود ونصاری نے باوجود اپنی کتابوں میں ہی اس کتاب کے سچی ہونے کی گواہیوں کے’ محض اپنے عناد و تکبر کی وجہ سے  اسے دوہرایا اور آج بھی  انکے پیروکار جان بوجھ کر یا جہالت میں ان وساوس کو کاپی کرتے آرہے ہیں۔


کفار ومشرکین  کی  قرآن پر تہمت

کفار نے  قرآن پر جو تہمت لگائی تھی اسکو خود قرآن نے کئی جگہ ذکر کیا ہے، چند آیات درج ذیل ہیں۔

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ۔  
(سورۃ الانفال ایت اکتیس)
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں اس میں پہلو ں کے قصے کے سوا اور کچھ نہیں۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے ، جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہوں، اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو۔(ھود 13)

وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ۔ (سورہ النحل آیت چوبیس)
اور جب ان سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے کہتے ہیں پہلے لوگوں کے قصے ہیں

لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ۔  
(سورۃ المومنون، آیت تریاسی)
اس کا تو ہم سے اوراس سے پہلے اور ہمارے باپ دادا سے وعدہ ہوتا چلاآیا ہے یہ صرف اگلےلوگوں کی کہانیاں ہیں

حتّى إذا جاؤوك يجادلونك يقول الذين كفروا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين۔ 
(سورہ الانعام، آیت 25)
یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں

قرآن کا چیلنج:

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جس علاقے میں اس نے اپنا کوئی بنی اور رسول بھیجا ہے اس کو اپنی بات کی تائید میں کوئی ایسا معجزہ بھی دیا ہے جو اس علاقے کے لوگوں کی ذہنی ،  عقلی،  علمی اور تمدنی سطح کے مطابق تھا۔ جس علاقے میں جس علم اور فن کا چرچا اور مہارت مسلمہ ہوتی تھی اس علاقے میں مبعوث ہونے والے نبی کو ایسا معجزہ دیا جاتا تھا جو اس علاقے اعلیٰ ترین انسانی کمال اور فن سے ماورا اور بہت اعلیٰ درجے کا ہوتا تھا، تاکہ لوگ اس کو آسانی سے تسلیم کر لیں کہ یہ چیز انسانی بس سے باہر ہے اور اس کو پیش کرنے والا شخص ضرور اللہ کی طرف سے پیش کر رہا ہے ۔مثلاً، حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں طب یونانی کا چرچا تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دست مسیحائی کا معجزہ دیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو  اور جادوگروں کا چرچا تھا ۔ جادو کا فن اپنے عروج پر تھا اور اسی جادو کی بنیا د پر معاشرے میں لوگوں کا مقام متعین کیا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عصائے موسوی عطاء کیا گیا ، جس کے معجزات دیکھ کر ماہر فن جادوگر پکا ر اٹھے کہ یہ ضرور اللہ کی طرف سے ہے اور وہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کے دربار میں سجدہ ریز ہو گئے ۔قرآن مجید اللہ تعالی کا ایک زندہ معجزہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی نبوت کے ثبوت اور اس کی تائید میں عطا  کیا گیا تھا۔جب عربوں نے اس قرآن کو انسانی کلام اور پچھلی قوموں کی قصے کہانیاں کہا تو  اللہ تعالیٰ نے عربوں کو جنھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا، چیلنج دیا کہ اس جیسی کوئی ایک صورت ہی بنا لاؤ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
  ’’ قل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون  بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظہیرا۔
 (بنی اسرائیل)
     ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ دیجیے کہ اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیساکوئی کلام لے آئیں تو اس جیسا کلام ہرگز نہ لا سکیں گے ، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار   ہوں ۔‘‘

ایک اور جگہ پھر مقابلے کی دعوت ان الفاظ سے دی ہے

      ’’ وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعو شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔‘‘
( سورۃ البقرۃ ۲:۲۳)
     ’’ اگر تم اس چیز میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کسی قسم کے شک میں ہو  تو پھر تم اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا  لاو ، اور اللہ کو چھور کر اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘

پورے قرآن میں ایک سو چودہ چھوٹی بڑی سورتیں ہیں اور اس جگہ لفظ سورۃ بغیر الف لام کے لانے سے اس طرف اشارہ  ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اس چیلنج میں شامل ہے کہ اگر تمہیں اس قرآن کے کلام الہی ہونے میں کوئی تردد ہے اور یہ سمجھتے ہوں کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی  دوسرے انسان نے خود بنالیا ہے تو اس کا فیصلہ بڑی آسانی سے اس طرح ہوسکتا ہے کہ تم بھی اس قرآن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنالاؤ، اگر تم اس کی مثال بنانے میں کامیاب ہوگئے تو بیشک تمہیں حق ہوگا کہ اس کو بھی کسی انسان کا کلام قرار دو۔
قرآن کے اس چیلنج کے  پہلے مخاطب عرب کے تمام فصحاء و بلغاء اور شاعر و خطیب تھے ، جن کی گھٹی میں فصاحت و بلاغت تھی۔ جن کا بچہ بچہ شعر گوئی کے فن سے آشنا تھا۔ جو قوم اسلام اور قرآن کی مخالفت اور اسکو گرانے مٹانے کے لیے اپنی جان، مال آبرو، اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے تلی ہوئی تھی ، اس  کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا کہ  قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی صورت کی مثال بنا لاتے، مگر وہ لوگ اپنی پوری کوشش کے باوجود قرآن جیسا کوئی ایک لفظ یا فقرہ بھی نہ بنا سکے،  قرآن نےپھر  اگلی آیت میں ان کو  خبردار کیا۔

  فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکٰفرین۔‘‘  (سورۃ البقرۃ:۲:۲۴
  پس اگر تم ایسا نہ کر سکو اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ، پس تم اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آگ اور پتھر ہوں گے ۔‘‘

سرداران قریش کے صلاح مشورے

1.     قریش نے ایک گھر میں اجتماع کیا اور مشورے کے بعد عتبہ بن ربیعہ کو رسول اکرم کے پاس بھیجا  ۔عتبہ نے آکر کو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم وقبیلے والے کہتے  ہیں کہ آپ  ایک عجیب و غریب امر لے کر آئے ہیں کہ آپ کے آباء و اجداد بھی اس آئین و دین پر نہ تھے اور ہم میں سے بھی کوئی فرد اس پر اعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی اس امر میں اتباع کرنے کو تیار ہیں ، یقینا آپ کو کسی نہ کسی چیز کی ضرورت و احتیاج ہے کہ جس کو ہم پورا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ آپ کو جس قدر مال و دولت چاہیے ، عورت چاہیے ۔ہم دیں گے آپ فقط اس کام سے ہاتھ اٹھالیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے   یہ آیات تلاوت فرمانی شروع کیں ۔
  بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حم۔ تنزیل من الرحمن الرحیم۔ کتاب فصلت آیاتہ قرآنا عربیا لقوم یعلمون ۔ ۔فان اعرضوا  فقل انذرتکم صاعقة مثل صاعقة عاد و ثمود۔ ۔
عتبہ ان آیات کو سننے کے بعد قریش کی جانب واپس ہوا اور سارا ماجرا ان کو سنایا اور کہا  کہ
" انہوں نے مجھ سے کچھ ایسا کلام کیا کہ جو نہ شعر تھا اور نہ سحر و جادو بلکہ
 وہ ایک عجیب کلام تھا ، وہ انسانی کلام بھی نہیں تھا" ۔

2.      عربوں نے بھی اسلوب قرآن کی اس استقامت اور ہم آہنگی کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے فصحاء و بلغاء  کو اس  کی تاثیرات کا یقین تھا۔ اسی لیےجب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ سن اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنیں گے تو فریفتہ ہوجائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لیے قریش نے  عرب کے بڑے بڑے سرداروں کا اجلاس بلایا۔ ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں سب سے ممتاز سمجھے جاتے تھے، سب نے ولید کے سامنے یہ بات رکھی کہ اطراف سے آنے والے لوگ جب  محمد کے بارے میں ہم سے پوچھیں  گے تو ہم کیا کہیں ؟
 لوگوں نے  مجنون،  شاعر، کاہن کہنے کی تجویز رکھی، ولید نے کہا  لوگ جب اس سے گفتگو کریں گے ، اس کا کلام سنیں گے تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ مجنون کا کلام ہے ، نا شاعر کا اور نہ کسی کاہن کا۔ وہ پھر تمہیں ہی جھوٹا سمجھیں گے۔اس کے  ولید بن مغیرہ  نے کہا:
"خدا کی قسم تم جانتے ہو شعر و شاعری، رجز خوانی و قصیدہ خوانی میں میرے پائے کا کوئی آدمی نہیں ہے ۔ خدا کی قسم اس کلام میں خاص حلاوت ہے اور ایک خاص رونق ہے، جو میں کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا"
پھر لوگوں نے اس  کہا کہ آپ ہی بتلائیے  پھر ہم کیا کہیں  ۔ ولید نے کہا کہ ''مجھے سوچنے دو"۔
ولید نے سوچ کر کہا:
"تم اسے ساحر کہو کہ یہ اپنے جادو سے باپ بیٹے  اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتا ہے"۔
قوم اس سے مطمئن ہوگئی، مگر خدا کا چراغ پھونکوں سے بجھنے والا نہ تھا ، اطراف عرب سے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہوگئے اور آہستہ آہستہ سارے اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا (خصائص کبری)

سرداران قریش کا چھپ چھپ کر قرآن سننا :

مورخ ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ سرداران قریش، ابوسفیان بن حرب، ابوجہل بن ہشام، اخنس بن شریق اور ابن وہب الثقفی یہ چاروں ایک رات الگ الگ نکلے تاکہ چھپ کر قرآن کی تلاوت سنیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران اپنے گھر میں کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر شخص نے اپنے لئے ایک ایک جگہ مقرر کر لی اور بیٹھ کرآپ کی تلاوت سننے لگا۔ ہر شخص دوسرے کی موجودگی سے بے خبر تھا۔ اس طرح انہوں نے ساری رات گزاردی اور پھر اپنی اپنی راہ لی۔ راستے میں سب جمع ہوگئے۔ سب ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ہر ایک نے دوسرے سے کہا دیکھو دوبارہ ایسا نہ کرنا اگر کم عقل لوگوں نے دیکھ لیا تو وہ کیا خیال کریں گے، پھر وہ سب لوٹ گئے۔ جب دوسری رات ہوئی تو وہ چاروں پھر اپنی اپنی جگہ پر تلاوت سننے واپس آگئے اور جب وہ تلاوت سن کر واپس ہوئے تو پھر سب جمع ہوگئے۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو پھر ویسے ہی کہا جیسے پہلے کہا تھا یہ کہہ کر سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ لیکن جب تیسری رات ہوئی تو پھر وہ اپنی اپنی جگہ آپہنچے اور واپسی پر پھر اسی طرح باہم مل گئے تب انہوں نے کہا:ہماری یہ عادت نہیں چھوٹے گی، جب تک ہم عہد یہ نہ کرلیں کہ ہم دوبارہ ایسا نہیں کرینگے اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

قرآن کو غیرمسلموں کا خراج عقیدت:۔

اگر یورپ کے مستشرقین کے قرآن کے بارے میں مقالات جمع کیے جائیں تو ایک مستقل کتاب ہوجائے، حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ نے  اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بنام شہادۃ الاقوام علی صدق الاسلام تحریر فرمائی ہے، اس سے چند حوالے نقل کرتا ہوں۔

مسٹر وڈول جنہوں نے قرآن کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا ’ لکھتے ہیں  :
جتنا بھی ہم اس کتاب (یعنی قرآن) کو الٹ پلٹ کر دیکھیں، اسی قدر پہلے مطالعہ میں اسکی خوبی  نئے  نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، لیکن  فورا ہمیں مسخر کرلیتی ہے، متحیر بنادیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کراکر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با اعتبار اس کے مضامین و اغراض کے عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جابجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں ، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا زور اثر دکھاتی رہے گی" (شہادہ الاقوام، ص 13)۔

کونٹ ہنروی  کی کتاب الاسلام  کا ترجمہ مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بگ زاغلول نے کیا، اصل کتاب فرنچ زبان میں تھی، اس میں مسٹر کونٹ ہنروی قرآن کے متعلق  لکھتے ہیں  :
" عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہو جو بالکل امی تھا،  تمام مشرق نے اقرار کر لیا ہے کہ نوع انسانی  لفظا اور معنی ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ، یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشا پردازی نے عمر بن خطاب ک مطمئن کردیا، ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا، یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسی علیہ السلام کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ کے بادشاہ کے دربار میں پڑھے تو اسکی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری ہوگئے، اوربشپ چلا اٹھا کہ یہ کلام اسی سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسی علیہ السلام کا کلام نکلا تھا "(شہادہ الاقوام، ص 14)۔

ڈاکٹر گستاولی بان نے اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھتے ہیں  :
"اس پیغمبر اسلام ، اس نبی امی کی بھی  ایک حیرت انگیز سرگذشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہجار کو جو اس وقت تک کسی ملک گیر کے زیر حکومت نہ آئی تھی، رام کیا اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیروزبر کر ڈالا اور اس وقت بھی وہی نبی امی اپنی قبر کے اندر سے لاکھوں بندگان خدا کو کلمہ اسلام پر قائم رکھے ہوئے ہیں 

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جلد 16، ص 599  میں لکھا ہے :
" قرآن کے مختلف حصص کے مطالب ایک دوسرے  سے بالکل متفاوت ہیں، بہت سی آیات دینی واخلاقی خیالات پر مشتمل ہیں، مظاہر قدرت ، تاریخ الہامات انبیا  کے ذریعے خدا کی عظمت ، مہربانی اور صداقت کی یاد دلائی گئی ہے، بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے خدا کو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیا گیا ہے ، بت پرستی اور مخلوق پرستی کو بلا لحاظ ناجائز قرار دیا گیا ہے، قرآن کی نسبت یہ بالکل بجاکہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھری کی موجودہ کتابوں میں سے سب سے ذیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے "


قرآن میں پچھلی قوموں  کے تذکرے کی وجہ:

قرآن نے خود اس حقیقت کو اپنی بہت سی آیات میں بیان کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللّهِ وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴿٣٧﴾ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (سورۃ یونس 37،3 )
ترجمہ :یہ قرآن ایسا کلام نہیں کہ اللہ کے سوا اور کی طرف گھڑا ہوا ہو بلکہ یہ تو اپنے پہلے سی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہے اور تفصیل ہے شریعت کی کتاب کی جس کے اللہ رب العالمین کی طرف سے ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں،   کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور خدا کے سوا جن کو تم بلا سکو بلا بھی لو۔


وَكُلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ۔ وَقُل لِّلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ۔ وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ۔
اور ہم رسولوں کے حالات تیرے پاس اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے تیرے دل کو مضبوط کر دیں اور ان واقعات میں تیرے پاس حق بات پہنچ جائے گی اور ایمانداروں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ۔ ہم اپنی جگہ عمل کیے جاتے ہیں۔  اور (نتیجہٴ اعمال کا) تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔


إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ۔ (سورۃ نمل ، آیت 76)۔
بےشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر باتیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں، بیان کر دیتا ہے

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ۔( سورۃ یوسف، آیت 111)۔
البتہ ان لوگو ں کے حالات میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے کوئی بنائی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اس کلام کے موافق ہے جو اس سے پہلے ہے اور ہر چیز کا بیان اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لاتے ہیں۔


وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلاَتِهِمْ يُحَافِظُونَ۔(سورۃ  انعام، آیت 92)۔

اور یہ کتاب جسے ہم نے اتارا ہےبرکت والی ہے ان کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے تھیں اور تاکہ تو مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس والوں کو ڈرائے اور جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اور وہی اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔

اختتام ’ امام غزالی رحمہ اللہ  کاتبصرہ :

مجھے نہیں لگتا کہ ایک شخص جس کا ضمیر اور جس کی فکر سلامت ہے، وہ قرآن مجید کا مطالعہ کرے اور اس سے متأثر ہوئے بغیر رہ جائے۔ قرآن مجید اپنے انوکھے انداز سے ہر کسی کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے، وہ ہر ایک کی کمی اور کوتاہی سے واقف ہوتا ہے اورجب بندہ اس کی جانب رجوع کرتا ہے تو وہ اس کی اصلاح کا کفیل ہوتا ہے‘‘۔(نظرات فی القرآن)




مکمل تحریر >>

منگل، 17 مئی، 2011

قرآنی اور سائنسی نظریہ ارتقا کا موازنہ اور ایک دہریہ کا قبول اسلام


پانچ فطری اصول :

۱:… سائنس کی بنیاد مشاہدہ و تجربہ پر ہے، اور جو چیزیں مشاہدہ یا تجربہ سے ماورا ہیں وہ سائنس کی دسترس سے باہر ہیں، ان کے بارے میں سائنس دانوں کا کوئی دعویٰ لائقِ التفات نہیں، جبکہ وحی اور نبوّت کا موضوع ہی وہ چیزیں ہیں جو انسانی عقل، تجربہ اور مشاہدہ سے بالاتر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اُمور میں وحی کی اطلاع قابلِ اعتبار ہوگی۔
۲:… بہت سی چیزیں ہمارے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کے مخفی علل و اسباب کا مشاہدہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ان کے علم کے لئے ہم کسی صحیح ذریعہٴ علم کے محتاج ہوتے ہیں، ایسے اُمور کا محض اس بنا پر انکار کردینا حماقت ہے کہ یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آرہیں۔
۳:… دو چیزیں اگر آپس میں اس طرح ٹکراتی ہوں کہ دونوں کو بیک وقت تسلیم کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں صحیح ہوں، لامحالہ ایک صحیح ہوگی اور ایک غلط ہوگی۔ ان میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس کا ثبوت یقینی و قطعی ذریعہ سے ہوا ہے؟ اور کس کا ظن و تخمین کے ذریعہ؟ پس جس چیز کا ثبوت کسی یقینی ذریعہ سے ہو وہ حق ہے اور دُوسری باطل یا موٴوّل۔
۴:… جو بات اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہو اور کسی سچے خبر دینے والے نے اس کی خبر دی ہو، اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، اور اس کا انکار کرنا محض ضد و تعصب اور ہٹ دھرمی ہے، جو کسی عاقل کے شایانِ شان نہیں۔
۵:… انسانی عقل پر اکثر و بیشتر وہم کا تسلط رہتا ہے، بہت سی چیزیں جو قطعاً صحیح اور بے غبار ہیں، لوگ غلبہٴ وہم کی بنا پر ان کو خلافِ عقل تصوّر کرنے لگتے ہیں، اور بہت سی چیزیں جو عقلِ صحیح کے خلاف ہیں، غلبہٴ وہم کی وجہ سے لوگ ان کو نہ صرف صحیح مان لیتے ہیں بلکہ ان کو مطابقِ عقل منوانے پر اصرار کرتے ہیں۔

ڈارون کا نظریہ ارتقا حقیقت کے آئینہ میں  :۔
سوال یہ ہے کہ انسان کی آفرینش کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور کسی اندازے اور تخمینے کی بنا پر اس بارے میں کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جاسکتی۔ موجودہ دور کا انسان نہ تو ابتدائے آفرینش کے وقت خود موجود تھا کہ وہ جو کچھ کہتا چشمِ دیدہ مشاہدہ کی بنا پر کہتا، نہ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تجربے نے اس کی تصدیق کی ہو، ورنہ ہزاروں برس میں کسی ایک بندر کو انسان بنتے ہوئے ضرور دیکھا ہوتا، یا کسی ایک بندر کو انسان بنادینے کا اس نے تجربہ ضرور کیا ہوتا۔ پس جب یہ نظریہ مشاہدہ اور تجربہ دونوں سے محروم ہے تو اس کی بنیاد اَٹکل پچو تخمینوں، اندازوں اور وہم کی کرشمہ سازیوں پر ہی قائم ہوگی۔ اس کے مقابلے میں خود خالقِ کائنات کا قطعی، غیرمبہم اور دوٹوک ارشاد ہے ۔ اب دادِ انصاف دیجئے کہ ایک مسئلے میں، جو انسانی مشاہدہ و تجربہ سے ماورا ہے، مسٹر ڈارون اور ان کے مقلدوں کا اَٹکل پچو تخمینہ لائقِ اعتبار ہے یا خدائے علام الغیوب کا ارشاد․․․؟ اگر وحیٴ الٰہی نے اس مسئلے میں ہماری کوئی راہ نمائی نہیں کی ہوتی تب بھی عقل کا تقاضا یہ تھا کہ ہم ڈارون کے غیرمشاہداتی اور غیرتجرباتی تیرتکوں کو قبول نہ کرتے، کیونکہ اہلِ عقل، عقل کی مانا کرتے ہیں، غیرعقلی قیاسات اور تخمینوں پر اندھادُھند ایمان نہیں لایا کرتے۔ پس نظریہٴ ارتقا کے حامیوں کا انسان کے سلسلہٴ نسب کو بندر سے ملانا، جبکہ وحیٴ الٰہی اور مشاہدہ و تجربہ اس کی تکذیب کرتے ہیں، تو یہ نظریہ اہلِ عقل کے نزدیک کیسے لائقِ التفات ہوسکتا ہے؟

   نظریہٴ ارتقا کے موجدوں نے انسان کا سلسلہٴ نسب بندر تک پہنچاکر انسانی عقل کی جو مٹی پلید کی ہے، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانِ اوّل کے بارے میں ان کے دیگر تخمینوں اور قیاسات میں کتنی جان ہوگی، خصوصاً ان کا یہ کہنا کہ: “انسانِ اوّل کو جنت سے نہیں اُتارا گیا تھا، بلکہ اسی زمین پر بندر سے اس کی جنس تبدیل ہوئی تھی”، یا یہ کہ: “حوا اس کی بیوی نہیں بلکہ ماں تھی”۔ کون نہیں جانتا کہ جنت و دوزخ عالمِ غیب کے وہ حقائق ہیں جو اس عالم میں انسانی مشاہدہ و تجربہ سے بالاتر ہیں، اور جن کے بارے میں صحیح معلومات کا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل شدہ وحی۔ پس جو غیبی حقائق کہ انسان کے مشاہدہ و تجربہ کی دسترس سے قطعاً باہر ہیں اور مشاہدہ کی کوئی خوردبین ان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی، خود ہی سوچئے کہ ان کے بارے میں وحیٴ الٰہی پر اعتماد کرنا چاہئے یا ان لوگوں کی لاف گزاف پر جو وہم و قیاس کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایک ایسے میدان میں ترکتازیاں کرنا چاہتے ہیں جو ان کے احاطہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے․․․؟
سائنس کے دقیق اسرار و رموز کے بارے میں ایک گھسیارے کا قول جس قدر مضحکہ خیز ہوسکتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر ان لوگوں کے اندازے اور تخمینے مضحکہ خیز ہیں جو وحیٴ الٰہی کی روشنی کے بغیر اُمورِ الٰہیہ میں تگ و تاز کرتے ہیں۔ یہ مسکین نہیں سمجھتے کہ ان کی تحقیقات کا دائرہ مادّیات ہیں، نہ کہ ما بعد الطبعیات، جو چیز ان کے دائرہٴ عقل و ادراک سے ماورا ہے اس کے بارے میں وہ جو قیاس آرائی کریں گے اس کی حیثیت رجم بالغیب اور اندھیرے میں تیر چلانے کی ہوگی۔ قطعاً ممکن نہیں کہ ان کا تیر صحیح نشانے پر بیٹھے، وہ خود بھی مدة العمر وادیٴ ضلالت کے گم گشتہ مسافر رہیں گے اور ان کے مقلدین بھی۔ مسلمانوں کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ان وادیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں، بحمداللہ ان کے پاس آفتابِ نبوّت کی روشنی موجود ہے، اور وہ ان اُمورِ الٰہیہ کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، دن کی روشنی میں کہتے ہیں۔

فلاسفہ طبیعیین نے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ محض اٹکل مفروضے ہیں، جن کی حیثیت اوہام و ظنون کے سوا کچھ نہیں، اور ظن و تخمین کی حق و تحقیق کے بازار میں کوئی قیمت نہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے
:
وَمَا لَھُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ، اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ، وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔” (النجم:۲۸)۔
ترجمہ:…”اور ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں، صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بے اصل خیالات امر حق کے مقابلے میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔
 یہ نظریہ اب سائنس کی دُنیا میں بھی فرسودہ ہوچکا ہے، اس لئے اس طویل عرصے میں انسان نے کوئی ارتقائی منزل طے نہیں کی، بلکہ ترقیٴ معکوس کے طور پر انسان تدریجاً “انسان نما جانور” بنتا جارہا ہے۔

 جو قومیں نورِ نبوت سے محروم ہیں، وہ اگر قبل از تاریخ کی تاریک وادیوں میں بھٹکتی ہیں تو بھٹکا کریں، اور ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑاتی ہیں تو دوڑایا کریں، اہل ایمان کو ان کا پس خوردہ کھانے اور ان کی قے چاٹنے کی ضرورت نہیں! ان کے سامنے آفتابِ نبوت طلوع ہے، وہ جو کچھ کہتے ہیں دن کی روشنی میں کہتے ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی نے ظن و تخمین سے بے نیاز کردیا ہے۔

قرآن اور  ایک سابقہ دہریہ کے تاثرات :۔
میرے ایک دوست ہیں ، عبدالفتاخ انکا نام ہےبلجییم  کے رہنے والے ہیں ،  جدید سائنسی علوم  میں انہیں بہت رسوخ حاصل ہے، وہ پہلے    ایتھیسٹ  (دہریے) تھے اور پھر 2005 میں انہوں نے اسلام قبول کیا ، اسلام سے پہلے وہ دہریوں کی طرف سے بہت بڑے مناظر بھی رہے تھے۔ کسی مسلمان  دوست کے باربار قرآن پڑھنے کی درخواست کرنے پر قرآن پڑھنا شروع کیا، اور گائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا۔ وہ  قرآن کے بارے میں اپنے اس وقت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"  I was shocked by the profoundness and deepness of the words. I was also intrigued by how the book felt psychologically custom made for the human mind. Sometimes it even felt as if it was written just for me, since it was so applicable, as if the book interacts with me on a personal level and has anticipated all the reactions I have, and replies to them appropriately. It knows me better then I know myself, and answers all my questions. It knows science better then scientists. As I started reading I feeling emotions so profound, like I had never felt before in my life. Almost as if they were being rushed down trough me with a high pressure hose. Levels of fear but at the same time security, the most deepest of sadnesses but at the same time the most profound joy. I didn't even knew that such emotions existed. Next to all that, even though I was just reading a translation one can still see the traces of a magnificent poetic order and symphony that is complete in tune with the content of the text without such a thing compromising any of the other mentioned qualities. In summary, the book seemed like pure perfection on every level and aspect. "
 اسلام قبول کرنے کے بعد  انہوں نے ماڈرن سائنس اور ایتھیسٹ کے نظریات پر تنقیدی سٹائل میں  لکھنا شروع کیا،  اور دہریت کے تمام سائنسی نظریات پر لاجواب تحریریں لکھیں ،ان کو میں خود کئی سائنسی علم رکھنے والے  ایتھیسٹ کو میل کرچکا ہوں، کوئی بھی ان کو جھٹلا نہیں سکا۔انہوں نے اپنی ان تحریروں کو اپنی سائیٹ پر بھی دیا ہے۔ یہ انکی سائیٹ کا بینر اور لنک ہے۔


 آپ کو اگر انکی کسی تحریر پر اشکال ہو توانہوں نے سائیٹ پر فورم کا لنک بھی دیا ہوا ہے، آپ وہاں ان سے وضاحت لے سکتے ہیں۔

مکمل تحریر >>

پیر، 16 مئی، 2011

انبیاء کرام ہی معصوم عن الخطاء اور مقدس کیوں ؟

عصمت کا مطلب ہے گناہوں سے معصوم ہونا، اہلسنت کا اس پر اجماع  ہے کہ نبی  معصوم ہوتا ہے،  وہ ظاہر وباطن‘ قلب وقالب‘ روح وجسد ہراعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے‘ وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطرت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء ومشیتِ الٰہی کے تابع ہوتی ہیں‘ ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے‘ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہردم اس کی نگرانی کرتی ہے‘اس کی ہرحرکت وسکون پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ بٹھادیا جاتا ہے اور وہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتا ہے‘ ایسی شخصیت سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال وممتنع ہے‘ اسی کا نام عصمت ہے اور ایسی ہستی کو معصوم کہا جاتا ہے‘ عصمت لازمہٴ نبوت ہے۔
چونکہ نبوت کے لئے حق تعالیٰ جل ذکرہ  خودایک ایسی برگزیدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتاہے ،ظاہر ہے کہ جب حق تعالیٰ کا علم محیط نبوت ورسالت کے لئے کسی شخصیت کو منتخب کرے گا تو اس میں کسی نقص کے احتمال کی گنجائش نہیں رہ جاتی‘ اس منصب کے لئے جس مقدس ہستی پر حق تعالیٰ کی نظر انتخاب پڑے گی اور جسے تمام انسانوں سے چھانٹ کر اس عہدہ کے لئے چنا جائے گا‘ وہ اپنے دور کی کامل ترین‘ جامع ترین‘ اعلیٰ ترین اور موزوں ترین شخصیت ہوگی.

 مزید نبوت ورسالت محض عطیہٴ الٰہی ہے‘ کسب واکتساب سے اس کا تعلق نہیں کہ محنت ومجاہدہ اور ریاضت ومشقت سے حاصل ہوجائے‘ دنیا کا ہر کمال محنت ومجاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے ،لیکن نبوت ورسالت حق تعالیٰ کا اجتبائی عطیہ ہے ،وہ جس کو چاہتاہے اس منصب کے لئے چن لیتا ہے‘ قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ تصریحات موجود ہیں:
”اللہ یصطفی من الملائکة رسلاً ومن الناس“ ( الحج:۷۵)
یعنی اللہ چن لیتا ہے فرشتوں سے پیغامبر اور انسانوں سے

اگر ہم ایک منٹ کے لیے نبوت سے عصمت  کو  جدا کرتے ہیں تو اس کے  معنی یہ ہوئے کہ عین اس وقت نبی کی حیثیت ایک ایسی شخصیت کی نہیں ہوتی جو امت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو‘ اور جسے امین ومامون قرار دیا گیا ہو‘ اس وقت اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہوگی یا زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہئے کہ: عین اس حالت میں جبکہ نبی سے عصمت اٹھالی جاتی ہے وہ نبوت اور لوازم نبوت سے موصوف نہیں ہوتا ‘ ظاہر ہے کہ اگر یہ غلط منطق تسلیم کرلی جائے تو سارا دین ختم ہوجاتا ہے ۔نبی اور رسول کی ہر بات-- معاذ اللہ-- مشکوک ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی قول وعمل اور تلقین وتعلیم قابل اعتماد نہیں رہتی۔
جو لوگ بھول چوک اور ”معصیت“ کے درمیان فرق نہیں کرسکتے وہ ان نازک علمی مباحث میں الجھ کر ”ضلوا فأضلوا“ (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا) کا مصداق بنتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھول چوک اور خطا ونسیان خاصہٴ بشریت ہے‘ مگر گناہ ومعصیت مقتصائے بشریت نہیں‘ بلکہ خاصہٴ شیطانیت ہے‘ انسان سے گناہ ہوتا ہے تو محض تقاضائے بشریت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ شیطان کے تسلط واغوا سے ہوتا ہے‘ انبیا چونکہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتا ہے‘ اس لیے ان  سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن ہوتا  ہے۔،  یہاں ایک اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے کہ  اجتہادی خطا کا صدور انبیا سے بھی ممکن ہے، اب حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام کی غلطی، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق فیصلہ  اجتہادی غلطی تھی۔انبیا  پر چونکہ وحیِ الٰہی اور عصمت کا پہرہ رہتا ہے اس لئے انہیں خطاء اجتہادی پر بھی قائم نہیں رہنے دیا جاتا، بلکہ وحی الٰہی فوراً انہیں متنبہ کردیتی ہے۔
اللہ ہمیں ہدایت اور صحیح سمجھ  عطا فرمادے۔


مکمل تحریر >>

اتوار، 15 مئی، 2011

سائنسی علوم کے ساتھ علوم وحی لازم ملزوم کیوں ....?

حق تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کو دو قسم کے علم عطا کئے گئے ہیں۔
ایک کائنات کے اسرار و رموز، اشیاء کے اوصاف و خواص اور فوائد و نقصانات کا علم جسے “علمِ کائنات” یا “تکوینی علم” کہا جاتا ہے، تمام انسانی علوم اور ان کے سینکڑوں شعبے اسی “علمِ کائنات” کی شاخیں ہیں، مگر معلوماتِ خداوندی کے مقابلے میں انسان کا یہ کائناتی علم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کی اور پہاڑ کی مقابلے میں ایک ذرّہ کی نسبت بھی نہیں رکھتا۔
اور دُوسرا وہ علم جو خالقِ کائنات کی ذات و صفات، اس کی مرضیات و نامرضیات اور انسان کی سعادت و شقاوت کی نشاندہی کرتا ہے، اسے “علم الشرائع” یا “تشریعی علوم” سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

یہ دونوں علم حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے ہی بندوں کو عطا کئے جاتے ہیں، مگر دونوں کے ذرائع الگ الگ ہیں۔ قسمِ اوّل کے لئے احساس، عقل، تجربہ اور فہم و فراست عطا کئے گئے ہیں، اور جہاں انسانی عقل و خرد کی رسائی نہیں ہوسکتی، وہاں وحی اور اِلہام سے اس کی راہ نمائی کی جاتی ہے، چنانچہ انسان کی دُنیوی زندگی سے متعلقہ تمام علوم کے مبادیات وحی و اِلہام کے ذریعہ سکھائے گئے: “وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمَآءَ کُلَّھَا”۔ مزید براں انسان کی فطرت میں عقلی و تجرباتی علوم میں ترقی کی وافر استعداد رکھی گئی۔
دوسری قسم کے علم میں خالقِ کائنات کی ذات و صفات کی معرفت اور اس کی مرضیات و نامرضیات کی پہچان چونکہ انسانی ادراک سے بالاتر تھی، بنابریں اس کا مدار محض عقل و تجربے پر نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کی تعلیم کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک مستقل سلسلہ جاری کیا گیا، جس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو معرفتِ ذات و صفات، مبداء و معاد، سعادت و شقاوت، فضائل و رذائل، عذاب و ثواب کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کیا گیا۔ ان کے سامنے حق تعالیٰ تک پہنچنے کا صاف ستھرا راستہ کھولا گیا، ان کو اس صراطِ مستقیم کی دعوت پر مأمور کیا گیا، اور ان حضرات کو اولادِ آدم کا مقتدا بناکر پوری انسانیت کی سعادت و شقاوت کو ان کے قدموں سے وابستہ کردیا گیا۔
انبیائے کرام علیہم السلام پر جو علوم کھولے گئے ہیں، وہ صرف انہیں کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانیت ان کی محتاج ہے، اس لئے کہ دُنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دانشور، حکیم، سائنس دان اور فلاسفر ان علوم کو انبیاء علیہم السلام کی وساطت کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عام انسانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ ان علومِ نبوّت کا کچھ حصہ ان حضرات کے ذریعہ حاصل کرسکیں، نہ وہ تمام علومِ نبوّت کا احاطہ کرسکتے ہیں، اور نہ انبیاء علیہم السلام سے مستغنی ہوکر انہیں علومِ نبوّت کا کوئی شمہ نصیب ہوسکتا ہے۔

علمائے سائنس کی حقیقت کبری سے محرومی اور دہریت کی طرف رغبت کی وجہ :.

اللہ کی معرفت کے حصول کے دو طریقے ہیں ایک تو خبرجو انبیا ورسل اورکتب سماویہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور دوسرا اللہ کی پیدا کی ہوئی اس کائنات پر غوروفکر جسے قرآن مجید تفکرکا نام دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انسانوں کو بار بار اس کائنات، اپنے ماحول، زمین وآسمان اور اپنی ذات میں تفکر اور غور وفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ انسان اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے خالق اور محسن حقیقی کی معرفت حاصل کر ے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إن فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار لآیات لأولی الألباب۔الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموات والأرض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔(آل عمران : ۱۹۰۔۱۹۱

بلاشبہ زمین وآسمان کی پیدائش میں اور دن ورات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔جو لوگ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہوئے اللہ کا ذکرکرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں[یہ کہتے ہوئے] اے ہمارے رب! آپ نے اس کو باطل پیدا نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

فلسفہ و سائنس کے ماہرین، علم و دانش اور عقل و فہم کے جس مرتبے پر فائز ہیں اس کی وجہ سے کائنات کی بوقلمونیوں سے بہ نسبت دُوسروں کے زیادہ واقف اور فطرت کی نیرنگیوں کے سب سے زیادہ شناسا ہیں، ان سے یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ وہ قدرتِ خداوندی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوں گے، رسالت و نبوّت کی ضرورت و اہمیت اور انبیائے کرام علیہم السلام کی قدر و منزلت سب سے زیادہ انہی پر کھلے گی، وحیٴ الٰہی سے جو انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل ہوتی ہے ’ سب سے زیادہ استفادہ وہی کریں گے، انبیائے کرام علیہم السلام سے وفاداری و جاں نثاری اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر انہی کی جانب سے ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سائنسدان معرفت کے دروازے پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے، انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی اطاعت کو عار سمجھا اور تعلیماتِ نبوّت سے استغنا کا مظاہرہ کیا، یوں ارشادِ خداوندی:
(“وَأَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ”) (اور گمراہ کردیا اس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے) ان پر صادق آیا۔

انبیائے کرام علیہم السلام کے مقابلے میں سائنس دانوں کی اس متکبرانہ رَوِش کا سبب مادّیت کا غلط نشہ تھا، علمائے سائنس نے یہ فرض کرلیا کہ مادّیت کا یہ عروج، یہ برق اور بھاپ، یہ سیارے اور طیارے، یہ ایٹم اور قوّت انسانیت کا کمال بس انہی چیزوں کی خیرہ سامانی ہے، فضاوٴں میں اُڑنا، دریاوٴں میں تیرنا، چاند پر پہنچنا، سورج کے طول و عرض کو ناپنا اور زہرہ و مشتری کی خبریں لانا، بس یہی انسانیت کی آخری معراج ہے، اور یہ ترقی چونکہ انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں نہیں ہوئی اس لئے نہ صرف یہ کہ سائنسی دور، دورِ نبوّت سے افضل ہے، بلکہ یہ ترقی یافتہ لوگ خود تمام انسانوں سے بڑھ کر ہیں، اور اس کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا گیا کہ آج بہت سے مسلمان بھی موجودہ دور کو “مہذب دور” سے اور دورِ قدیم کو (جو انبیاء علیہم السلام کا دور تھا) “تاریک دور” سے تعبیر کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انا لله وانا الیہ راجعون!

بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو

حقیقت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے دور میں خود ان کے ہاتھوں مادّی ترقی کے نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ ان کا دور آج کے دور کی بہ نسبت معاذ اللہ تاریک اور غیرمہذب تھا اور انسانیت نے ارتقا کی ابتدائی منزلیں ابھی طے نہیں کی تھیں، بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ان کے بلند ترین منصب اور عظیم تر مشن کے مقابلے میں مادّیت کا یہ سارا کھیل بازیچہٴ اطفال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام “ایٹم” کی دریافت کے لئے نہیں آتے، بلکہ وہ اس ذاتِ عالی سے انسانیت کو آشنا کرتے ہیں جن کے ادنیٰ اشارہ “کُنْ” کے سامنے ہزار سورج کی طاقت ہیچ ہے، ان کی نگہِ بلند صرف کائنات کے باہمی ربط میں کھوکر نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ اس پر غور کرتے ہیں کہ کائنات کا، خالق کی قدرت سے کیا ربط ہے؟ ان کا موضوع چیزوں کی محنت نہیں ہوتا، بلکہ انسان سازی کی محنت ہوتا ہے، ان کے نزدیک ان چیتھڑوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو دُنیا کے نابالغوں نے بڑی خوبصورتی سے الماریوں میں سجا رکھا ہے، ان مٹی کے گھروندوں کی کوئی قیمت نہیں جن کو یہ نادان بچے نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں، اور دُنیا کی ظاہری زرق برق میں ان کے لئے کوئی کشش نہیں جس پر یہ طفلانِ بے شعور ریجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟

ما بعد الطبعیات سے اندھی بہری سائنس، جس کے نزدیک کسی چیز کو تسلیم کرنے کے لئے اس کو مشاہدے کے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھنا شرط ہے، چونکہ اس حقیقت کو سمجھنے سے عاجز ہے اس لئے وہ “ایمان بالغیب” کے تمام سرمایہٴ نبوّت کو ایک خندہٴ استہزاء کی نذر کردیتی ہے، اور یہاں سے اس کی ملحدانہ شفقت کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہی  جہل و غرور   کی وجہ سے “نبوّت” سے کیا جانے والا  انحراف  سائنس دانوں کی تمام تر محرومی کا باعث ہے۔ اگر ان پر کائنات کی اندرونی حقیقت کھل جاتی تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ کائنات صرف یہی نہیں جس کا تعلق موت سے قبل کے مشاہدے سے ہے، بلکہ یہ تو اصل کائنات کا ایک حقیر ذرّہ ہے، اور اس ایک ذرّہ کی حقیقت کا بھی ایک ذرّہ آج تک ان پر منکشف نہیں ہوا، اگر اصل کائنات اور پھر کائنات سے آگے خالقِ کائنات کا راز ان پر کھل جائے تو انہیں معلوم ہوجائے کہ کھربوں ڈالر خرچ کرکے چاند سے چار سیر مٹی لے آنا ترقی کی علامت نہیں، بلکہ سفاہت و کم عقلی کا نشان ہے۔ دامنِ نبوّت سے کٹ کر سائنس کی اس “سفیہانہ محنت” نے انسانیت کو بے قراری و بے چینی اور کرب و اضطراب کا “تحفہ” عطا کیا، اوراس بے چینی کی وقتی تسکین کے لئے مختلف قسم کی مصنوعی تفریحات اور منشیات کا نسخہ تجویز کیا۔ آج کا مفلوج انسان جن اخلاقی، رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی امراض کا تختہٴ مشق بن کر رہ گیا ہے، اہلِ عقل کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان میں “سائنسی ترقی” کا حصہ کتنا ہے؟

راقم الحروف کا ایمان ہے کہ جب تک سائنس کی تگ و دو نبوّت کے تابع نہیں ہوجاتی، جب تک سائنس کا رُخ دُنیا سے آخرت کی طرف نہیں مڑجاتا اور جب تک سائنس دان انبیائے کرام علیہم السلام کے سامنے اپنے علمی عجز کا اعتراف نہیں کرتے، تب تک سائنس بدستور ملحد رہے گی اور اس کا سارا ترقیاتی کارنامہ انسانیت کی ہلاکت اور بربادی کے کام آئے گا۔

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 7 مئی، 2011

عقیدہ ظہور امام مہدی کی اسلام میں حیثیت

ایک بلاگر نے اپنے بلاگ پر امام مہدی کے بارے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے  کچھ کمنٹس دیے.
 " میں تو سمجھتی تھی کہ یہ امام مہدی کا چکر شیعوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن اسکی جڑیں سنیوں میں پائ جاتی ہیں"۔

ایک  مبصر کے متوجہ کرنے پر  کہ امام مہدی کا تذکرہ تو  احادیث میں بکثرت موجود ہے ’کے جواب میں  لکھا   کہ
"  کسی چیز کا منبع اگر قرآن میں موجود نہیں ہے تو کیا احادیث سے اسکا حوالہ کافی ہے ؟ ایمان کی دو بنیادی شرائط ہیں اللہ کی وحدت اور رسول کی نبوت ۔اسکے علاوہ ایمان مفصل یا ایمان مجمل دونوں میں امام مہدی پہ ایمان لانے کا تذکرہ نہیں۔" 

 اس کے بعد کچھ  ملحد قسم کے   تبصرہ نگاروں نے اپنی  ازلی بدبختی کا اظہار کرتے ہوئے   امام المجاہدین  شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ  کے بارے میں اپنی بدبو دار ذہنیت کا اظہار کیا ہی ، ساتھ حضرت امام مہدی کے بارے میں بھی زبان درازی کی،   ایک   بد بخت نے امام مہدی  کو طنزیہ انداز میں پیر مہدی اور عیسی علیہ السلام کو نعوذبااللہ مسیح ری لوڈڈ کہہ کر اپنی  کفر اور منافقت کا کھلم کھلا اظہار کیا۔

یہ طبقات تو محض اپنی روشن  خیالی اور دین بیزاری کی وجہ سے صحیح احادیث  میں تواتر کے ساتھ بیان کیے گئے اور اہل سنت والجماعت کے اہم عقیدہ  " عقیدہ امام مہدی" سے بے خبر ہو نے کی وجہ سے  اس بارے زبان درازی کرتے ہیں، ان کے علاوہ بھی  ایک  طبقہ  ہے جو بظاہر دیندار کہلاتا ہے لیکن   امام مہدی کے بارے میں لکھی گئی کتابوں اور انکے اخیر زمانہ میں ظہور اور مسلمانوں کی نشاط ثانیہ میں کردار کی احادیث اور واقعات کو محض فکشن سمجھتا ہے اس کو ایک غیر اہم موضوع قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث جن کی تشریح وتطبیق  نہیں بلکہ الفاظ ان واقعات کے شہادت دیے رہے ہیں  ’ کا ظاہری طور پر انکار کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ امام مہدی کا ظہور  صرف قیامت کی ایک نشانی ہوگی بس، باقی  سب غلط تطبیق اور تشریحات ہیں۔

میں کوشش کروں گا کہ اس مسئلہ پر اسلامی ذخائر علوم کے مستند حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالوں۔


دین میں حدیث کا مقام

امام مہدی کے متعلق مستند احادیث سے کچھ لکھنے سے پہلے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں  کہ  قرآن و حدیث  اتباع اور  حجت کے اعتبار سے ایک ہی درجہ میں ہیں ،کتاب وسنت دونوں ہی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں اور ان کی اتباع واجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا :
اور نہ تو وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ (  النجم 3 -4)

اور مقدام بن معدی کرب بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خبردار بیشک مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس کی مثل بھی دی گئی ہے، ہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے اور ایک آدمی ناقص العقل اپنے گاؤ تکیہ پر بیٹھا ہو اور تمہیں یہ کہے کہ صرف اس قرآن پر ہی عمل کرو اس میں جو حلال ہے اسے حلال جانو اور جو حرام ہے اسے حرام جانو ۔
(ابو داؤد حدیث نمبر (4604)

اس لیے علما ئے اہل سنت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حدیث  کا منکر، اسکو کمتر سمجھنے والا اوراسکا مذاق اڑانے والا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

احادیث کی تطبیق

احادیث کی مناسب تطبیق خود صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں


حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جیسا کہ وعظ و خطبہ کیلئے کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ وعظ فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فتنوں سے آگاہ فرمایا جو اس وقت سے لیکر قیامت تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں، ان سب کو ذکر فرمایا اور ان میں سے کوئی چیز بیان سے چھوڑی نہیں، ان باتوں کو یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور جو بھولنے والے تھے وہ بھول گئے اور بعض لوگوں نے فراموش کردیا. میرے یہ دوست (یعنی صحابہ) اس واقعہ سے واقف ہیں لیکن ان میں‌سے بعض ان باتوں‌کو جانتے ہیں اور بعض کو تفصیل کے ساتھ یاد نہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کا طاری ہوجانا انسانی خواص سے ہے، میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کی خبر دی تھی اور جن باتوں‌کو میں بھول گیا ہوں اگر ان میں‌سے کوئی بات پیش آجاتی ہے تو میں اس کو دیکھ کر اپنا حافظہ تازہ کرلیتا ہوں جس طرح کہ جب کسی غائب شخص کا چہرہ نظر آجاتا ہے تو وہ چہرہ دیکھ کر اس شخص کو پہچان لیا جاتا ہے. (بخاری ومسلم بحوالہ مظاہر حق جدید شرح مشکوۃ شریف جلد چہارم کتاب الفتن الفصل الاول حدیث نمبر 1)


عقیدہ امام  مہدی اور شیعہ

امام مہدی کا عقیدہ خالص اہل سنت کا عقیدہ ہے،   شیعہ مذہب کے وجود میں آنے سے تیس سال پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں   امام مہدی کے بارے  تفصیل بتادی تھی،  اہل سنت کا عقیدہ امام مہدی انہی احادیث پر  مشتمل ہے، شیعہ کی امام  مہدی کے بارے میں بیان کی گئی روایتوں کا بغور مطالعہ کرنے والا آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ شیعہ کا امام مہدی حقیقت میں وہی ہے جسے دجال کہا جاتا ہے، مثلا  شیعہ  کی کتابوں کے مطابق انکا امام مہدی  (اصل قرآن) لے کر غار میں چھپا بیٹھا ہے  اور قیامت کے قریب اس غار سے خروج کرے گا اور دجال کے متعلق بھی روایتوں میں یہی کچھ لکھا ہے کہ وہ غار میں چھپا ہوا ہے، اور  شیعہ کی  کتابوں کے مطابق یہ بھی خدائی کاموں پر کنٹرول رکھتا ہوگا اور دجال کے متعلق بھی احادیث میں یہی بیان کیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔  خلاصہ یہ کہ کسی شیعہ، قادیانی، بہائی فرقہ کے امام مہدی کے متعلق عقیدہ  کا  احادیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ “مسئلہ مہدی” کے بارے میں اہل حق کا نظریہ بالکل صحیح اور متواتر ہے اور اہل باطل نے اس سلسلہ میں تعبیرات و حکایات کا جو انبار لگایا ہے نہ وہ لائق التفات ہے اور نہ اہل حق کو اس سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے۔


 حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ


امام مہدی کے متعلق جن صحابہ کی روایات احادیث کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت  ابن عباس  رضی اللہ عنہ، حضرت  ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ ،  حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  وغیرہ جیسے جلیل القدر صحابہ و صحابیات شامل ہیں۔

اہل سنت ولجماعت  عقیدہ کی مستند کتاب عقیدہ  سفارینی اور شارع  نے امام مہدی کی تشریف آوری کے متعلق معنوی تواتر کا دعوی کیا ہے اس کو اہل سنت والجماعت کے عقائد میں شمار کیا ہے، لکھتے ہیں:
" امام مہدی کے خروج کی روایتیں اتنی کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ اس کو معنوی تواتر کی حد تک کہا جاسکتا ہے اور یہ بات علمائے اہل سنت کے درمیان اس درجہ مشہور ہے کہ اہل سنت کے عقائد میں ایک عقیدے کی حیثیت سے شماری کی گئی ہے" ( شرح عقیدہ سفارینی ص 79)


امام مہدی کے متعلق امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا موقف :

شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں :

" ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے اور وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں اور وہ زمین کو عدل وانصاف کے ساتھ بھر دیں  گے جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی تھی۔ ۔ ۔  پس  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد سے امام مہدی کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی اور امام مہدی کی پیروی کرنا ان امور مین واجب ہوا جو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا، لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدی کا ظہور ہوگا اور حجر اسود اور مقام ابراھیم کےدرمیان ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگی۔
(ازالۃ الخفا  جلد 1، صفحہ 6)


حضرت امام مہدی احادیث کی روشنی میں

حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے اسی طرح وہ شکل و شباہت اور اخلاق و شمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا۔ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔


خلاصہ

اس عقیدہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تمام سلف صالحین، صحابہ و تابعیناور ائمہ مجددین معتقد رہے ہیں۔  آخری زمانے میں ایک خلیفہ عادل کے ظہور کی احادیث صحیح مسلم، ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ اور دیگر کتب احادیث میں مختلف طرق سے موجود ہیں۔ یہ احادیث اگرچہ فرداً فرداً آحاد ہیں مگر ان کا قدر مشترک متواتر ہے۔ آخری زمانے کے اسی خلیفہ عادل کو احادیثِ طیبہ میں “مہدی” کہا گیا ہے، جن کے زمانے میں دجال اعور کا خروج ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر اسے قتل کریں گے۔ بہت سے اکابر امت نے احادیثِ مہدی کو نہ صرف صحیح بلکہ متواتر فرمایا ہے اور انہی متواتر احادیث کی بنا پر امتِ اسلامیہ ہر دور میں آخری زمانے میں ظہورِ مہدی کی قائل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے عقائد پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں بھی “علاماتِ قیامت” کے ذیل میں ظہورِ مہدی کا عقیدہ ذکر کیا گیا ہے،


کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر   اما م مہدی  کے  انتظار میں بیٹھ جانا چاہیے ؟

احادیث میں اخیر زمانہ میں امام مہدی کا نجات دہندہ بن کر نکلنے کا یہ مطلب نہیں کہ  ہم سب کچھ چھوڑ پر بس انکے انتظار میں لگ جائیں، بلکہ  اپنے عقائد، اعمال اور نظریات کی فکر کرتے رہیں  اور اعلا کلمتہ اللہ کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے رہیں ۔ احادیث میں  یہ بات منقول ہے کہ  امام مہدی سے لڑنے کے لیے روانہ ہونے والا پہلا لشکر مسلمانوں کا ہی ہوگا، یہ کون لوگ ہوں گے؟ حقیقت میں    یہ وہ نام نہاد مسلمان ہوں گے جو فکری ارتداد کا شکار ہوچکے ہوں گے اور ان کو حضرت مہدی کے رفقا دہشت گرد ، شدت پسند اور بنیاد پرست نظر آرہے ہوں گے۔

یہ بات مجرب ہے کہ  فکری ارتداد کی یہ  لہر جو  آج کل  خصوصا نوجوان طبقہ میں اٹھ رہی ہے  یہ ان فتنہ باز پروفیسروں ، ڈاکٹروں اور سکالروں کے مذاکرے اور مباحثے سننے کا نتیجہ ہے  جس سےعوام میں فکری آزاد خیالی اور کفریہ نظریات پیدا ہورہے ہیں  ، یہ کفریہ نظریات کا کانٹا ایسا ہے کہ لاکھ سمجھاؤ دل سے نہیں نکلتا۔ یہ ایمان کے ڈاکو اتنے چالباز ہیں کہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ متاع عزیز لوٹ لیتے ہیں، پروگرام ختم نہیں ہوتا کہ ایمان ٹھکانے لگ چکا ہوتا ہے ۔ چونکہ حضرت مہدی بنیادی طور پر ایک جہادی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں گے اور پوری دنیا میں طاغوت کے خلاف جدوجہد کا اعلان کریں گے، اس لیے عموما ان نام نہاد ڈاکڑوں، فتنہ باز  پروفیسروں اور اس دجالی میڈیا کا ہدف   جہاد اور مجاہدین ہوتے  ہیں، آج امت کے اس طبقہ کے خلاف اس طریقے سے پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اب یہ بات یقینی لگتی ہے کہ اگر آج امام مہدی کا ظہور ہوجائے تو ان گمراہ لوگوں اور میڈیا کو سننے، دیکھنے والے مہدی کی علامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی انکا ساتھ نہ دیں گے بلکہ اپنے گھروں میں بیٹھے علما،  طالبان اور مجاہدین پر تبصرے کرتے رہیں گے۔    اگر ہم نے اس فتنہ کے دور میں اپنا ایمان بچانا ہے تو قرآن کی نصیحت " کونو مع الصدقین" سچو ں، ایمان والوں کے ساتھ ہوجاؤ ’  ہی ایک نجات کا   ذریعہ ہے۔  انبیا کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے ، ہاں ا ن کے سچے وراثین اب بھی موجود ہیں، ہم ان سے تعلق بنائے رکھیں اور وساوس کے حل کے لیے ان سے رجوع کرتے رہیں ۔


عقیدہ امام مہدی  پر چند اہم کتابیں :


اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے یہ کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ العرب والعجم شیخ السلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کتاب 


نواسہ حضرت کاشمیری مولانا مفتی ابولبابہ شاہ منصور مدظلہ العالی کی کتاب
مکمل تحریر >>