اظہار الحق صاحب ہمارے بلاگستان کے ایک قابل اور عوام کا درد رکھنے والے قلم کار ہیں، انکی باتیں چونکہ دل سے نکلتیں ہیں اس لیے جو جو پڑھتا ہے اس کے دل پر اثر کرتیں جاتیں ہیں، ، ہر ٹاپک پر بڑی سنجیدگی اور وقار سے بات کرتے ہیں ۔ چند دن پہلے انہوں نے ایک کالم لکھا " اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے" کالم کیا ہے عوام کا درد رکھنے والے ایک حساس آدمی کی پکار ہے، اس کالم میں انہوں نے ان (عوامی بیماریوں منافقت، جھوٹ، کرپشن ) کا تذکرہ کیا جنکی وجہ سے ہمارا معاشرہ اور ملک تنزل کا شکار ہے ۔ ہمارے معاشرے میں واعظین اور ناصح چونکہ علما ہیں ا س لیے انہوں نے علما سے بھی شکوہ کیا اور انکے اس طبقہ میں شامل کالی بھیڑوں کا ذکر بھی کیا۔ کالم ہر لحاظ سے مکمل تھا لیکن ایک صاحب جنہیں علماء دشمنی کا فوبیا ہے انہیں شاک گزار کہ اظہار صاحب نے علما کے متعلق اتنی کم بات کیوں کی۔اس پر انہوں نے اپنے طور پر " اظہار الحق سے اظہار یکجہتی "کے نام پر علما و مدارس کے خلاف پورا ایک آرٹیکل لکھ مارا اور جی بھر کرمدارس اور علمائے کرام پر طعن وتشنیع کے نشتر برسائے اور گالیاں دیں ۔ ایسی معاشرتی برائیاں جن کے علما ذمہ دار نہیں انہیں بھی علما کے سر تھونپ کر اپنے قلب و جگر کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔
اظہار صاحب میرے بزرگ ہیں اور میرے اساتذہ کی جگہ ہیں، میں یہ تو نہیں لکھ سکتا کہ انہوں نے غلط لکھا ہے، نہ ان کے کوٹ کیے گئے ایک مولوی کی کرپشن کے واقعہ کا انکار کرتا ہوں ۔ میں تو ایک ادنی ، نا تجربہ کار طالب علم ہوں جسے اردو بھی صحیح نہیں لکھنی آتی ، میں بس اس مسئلہ کو ایک الگ زاویہ سے دیکھتا ہوں اس کے متعلق سوال و جواب کی شکل میں کچھ بات کروں گا.
کیا مسجد کا مولوی حقیقی معنوں میں عالم بھی ہے ؟
میرے خیال میں اگر ہم واقعی اصلاح چاہتے ہیں اور مسئلے کی تحت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ تحقیق کرنا ہوگی کہ جن لوگوں کو ہم مولوی کہہ رہے ہیں کیا وہ حقیقت میں عالم بھی ہیں ۔؟
حدیث میں آتا ہے
العلماء و رثۃ الانبیاء ۔ علما انبیا کے وارث ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ جو انبیا کے حقیقی وارث ہیں وہ کرپٹ نہیں ہوسکتےاورجہاں کرپشن ہوئی وہاں حقیقت میں علم کو منبر تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔ منبر رسول جب نااہل لوگوں کے حوالے کردیا گیا، تو پھر وہ ان مقاصد کے لیے استعمال ہوا جن کے لیے نہیں ہونا چاہیے تھا ، لازم ہے اس کے ذمہ دار علما اور دینی مدارس قطعا نہیں.
اگر مسجد کا ملا ٹھیک نہیں تو اسکا ذمہ دار کون ہے ؟
مساجد میں محض چندہ کی باتوں، کافر کافر کے کھیل، فرقہ پرستی کی باتوں، کرپشن، غیر ضروری مسائل پر تقریروں کے ذمہ دار اگر علما و مدارس بھی نہیں تو پھر کون ذمہ داراہے؟
اس کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان مولویوں کا انتخاب کون کرتا ہے ؟ کون یہ طے کرتا ہے کہ اس منبر پر کون بیٹھے گا ؟
ہم میں سے ہر بندہ جانتا ہے کہ یہ انتخاب اس علاقے کی مسجد کے وہ ریٹائرڈ سرکاری بابو کرتے ہیں ، جنکو سرکاری دفتروں سےیہ کہہ کر فارغ کردیا جاتا ہے کہ آپ اب ایکسپائر ہوگئے اور مزید کام کے نہیں رہے ،وہ پھر مسجد کی کمیٹیوں کی صدارت پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ہمارے ایک دوست کے مطابق انکے علاقہ کی ایک مسجد میں امام وخطیب کے لیے تین مہینے تک اماموں کے انٹرویو ہوتے رہے ۔ پانچ چھے ریٹائرڈ حضرات بیٹھ کر ایک امام کو بلاتے دوسرے کو بلاتے،تین مہینہ بعد آخر میں امامت و خطابت کے لیے ایک بائیس سال کے لڑکے کا انتخاب کیا گیا اور وجہ انتخاب یہ بتائی گئی کہ اس کی آواز بہت اچھی ہے ۔ اب ہمیں اس نوعمر سے کیا توقع رکھنی چاہیے کہ جب وہ ممبر پر بیٹھے گا تو کیا گفتگو کرے گا ؟
ہمارے لوگوں کا معیار انتخاب ہی یہی ہے کہ انہیں صرف اچھی آواز سننی ہے، انہیں وہ مولوی چاہیے جو نعتیں اچھی پڑھ سکتا ہوں، تھوڑے سر لگا سکتا ہو ۔ ۔ ۔ جب یہ اچھے سر لگانے والے گویے مولوی بن کر منبرپر بیٹھیں گے تو پھر منبر ومحراب کا تقدس اسی طرح ہی پامال ہوگا جس طرح ہمارے گلی محلے کی مسجد میں ہوتا نظر آتا ہے۔
طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ جو لوگ انتخاب کررہے ہیں ا ن کے اندر انتخاب کرنے کی اہلیت بھی ہے یا نہیں۔ ؟ جب ایک پرائمری پاس آدمی یونیورسٹیوں کے پروفیسر منتخب کرنا شروع کردے گا تو اس یونیورسٹی کی تعلیم کا کیا حال ہوگا ؟ جب ایک کمپوڈر ڈاکٹروں کا انتخاب کرنا شروع کردے گا کہ کس آپریشن کے لیے کونسا ڈاکٹر مناسب ہے اس ہسپتال کے مریض کا حال کیا ہوگا ؟ جب کچہریوں کے اندر بیٹھے ہوئے منشی سپریم کورٹ کے ججوں کا انتخاب کرنا شروع کردیں گے تو مقدمات کا حال کیا ہوگا ؟
جہاں پر انتخاب ٹھیک ہوا ، منبر اہل افراد کو سپرد کیا گیا ان کی برکت سے بہتری بھی آئی ہے ، وہاں کے نمازی سلجھے ہوے اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، معاشرے میں ہمیں جو تھوڑی بہت دین کی جھلک نظر آتی ہے یہ انہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ اس کےلیے ہمیں اپنی قوم میں شعور پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اس فیلڈ کے ماہر حضرات کی نگرانی میں اپنے منبر و محراب کیلئے واعظ امام کا انتخاب کریں۔
حقیقی عالم کی موجودگی اور وعظ و نصیحت کے باوجود معاشرے میں برائی کیوں ہے ؟
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں ہمیں جو برائیاں نظر آرہی ہیں ان کے ذمہ دار علما اور واعظین ہیں ۔ دلیل میں مسلمانو ں کے پہلے دور کی مثالیں دیتے ہیں کہ اس دور میں مساجد سے حکومتیں چلائی جاتیں تھیں، عوام کے فیصلے مساجد میں ہوتے تھے ، اظہار صاحب نے بھی اپنی تحریر کے آخر میں کچھ تجاویز دیں ۔
میں اس متعلق یہ کہو ں گا کہ علما کا منصب صرف تلقین کا ہے وہ صرف نصیحت کرسکتے ہیں ، نصیحت پر عمل درآمد کرانے کے ادارے دوسرے ہیں۔ اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج ایک اچھے سے اچھے عالم کی اتھارٹی بھی صرف اتنی ہے کہ وہ صرف اپنی مسجد میں آنے والے چند بندوں کے سامنے وعظ کرسکتا ہے ۔ بعض مساجد میں تو اسے کھل کر بات کرنے پر مساجد سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔گستاخی معاف جب اسکی اتھارٹی کا یہ حال ہے تو پھر ہم کیسے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو ذلیل کرے گا، تجاوزات قائم کرنے والوں کو جوتے مارے گا۔
رہی یہ بات کہ اسے عوام سے مخاطب ہونے کا سب سے ذیادہ موقع ملتا ہے پھر اس کی وعظ ونصیحت کے باوجود معاشرے میں برائی کیوں ہے ؟ اس سوال کے جواب میں میں بھی ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اقبال ہمارا قومی شاعر ہیں ، انکی شاعری ہمارے سکولوں کالجوں میں ایک لازمی مضمون اردو میں باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے، اقبال نے خودی کی تعلیم سب سے ذیادہ دی ، آپ مجھے بتائیں ہمارے ملک میں خودی کتنے لوگوں میں ہے۔؟ اگر پیغام کے اتنے ویلڈ طریقے سے پہنچنے کے باوجود خودی لوگوں میں موجود نہیں ہے تو اس میں اقبال کا کیا قصور ہے ؟ قائد اعظم کے اقوال ہمارے سامنے ہیں، آئین کی دفعات ہمارے سامنے ہیں ، ہمارے سیاست دانوں اور قوم نے ان پر کتنا عمل کیا ؟
نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سوسال تبلیغ کی صرف اسی لوگ ایمان لے کر آئے ، کیوں ؟ کیا انہوں نے وعظ و نصیحت میں کوئی کمی کی ؟کیا وہ فرقہ واریت کی تعلیم دیتے تھے ؟ نبی سے ذیادہ اچھے طریقہ سے وعظ کون کرسکتا ہے ؟کیا وہ باقی لوگوں کی گمراہی کے ذمہ دار ہیں؟
میں اپنی بات پھر دہراؤں گا کہ جو صحیح معنوں میں عالم اور مولوی ہیں انہوں نے بات پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، جو وراثت نبوت ان تک نسل درنسل چلتی ہوئی پہنچی تھی اس وراثت کا پورا خیال رکھتے ہوئے کمال ایمانداری کے ساتھ اسے مزید آسان کرکے عوام تک پہنچایا ہے۔ پچھلے سو سالوں میں قرآن وحدیث کے مسائل پر جو تحقیق ہوئی ہے اسکی مثال پچھلی تین صدیوں میں نہیں ملتی ۔
فکر پاکستان صاحب کی تحریر پر تبصرہ کرنے کا دل تو نہیں کررہا کیوں کہ وہ محض ضد اور تعصب میں علما کے خلاف لکھتے ہیں ۔ ملاحظہ کریں
یہ (مولوی)بیچارے کبھی یہ تک نہیں بتانے کے صفائی نصف ایمان ہے، کیوں کے وہ خود جانتے ہیں کے وہ خود گندگی کے ڈھیر پر چوری کی جگہ پر قبضے کی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ خود مسجد کے بیت الخلا میں ناک پر ہاتھہ رکھے بغیر نہیں جاسکتے تو وہ کس منہ سے لوگوں کے بتائیں گے کے صفائی نصف ایمان ہےِ؟۔۔۔ ۔ ۔ تمام لوگ اپنے اپنے علاقے کی مساجد کا جائزہ لیں انہیں خود اندازہ ہوجائے گا کے پاکستان میں ستر فیصد مساجد چوری اور قبضے کی زمین پر بنی ہوئی ہیں، اب چوری کی مسجد میں نماز ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اسکا فیصلہ قاری خود کرلیں۔۔۔۔۔۔
حد ہوگئی مبالغہ آرائی اور نفرت کی ۔ انکی بددیانتی اور جھوٹ کا یہ عالم ہے اور اظہار یکجہتی کس کے ساتھ کرنے نکلے ہیں ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ذات دی کرکلی تے شہتیراں نال جپھے۔جناب آپ کا اظہار الحق صاحب کے ساتھ کسی قسم کا کوئی جوڑ نہیں ہے ۔ آپ کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے۔ انکے دل میں درد ہے اور آپ کے دل میں علما اور مدارس کے خلاف سخت نفرت اور غصہ ہے اس لیے جب بھی آپ کو موقع ملتا ہے آپ علما اور مدارس کے بارے میں اپنے اندر جمع کیا گند اور زہر باہر نکال پھینکتے ہیں ۔ اظہار صاحب نے تو لکھا ہے
" اچھے بُرے عناصر ہر شعبے میں ہیں۔ مدارس چلانے والے بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور خراب بھی‘ جو بات یہاں سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ناظم مدرسہ‘ سابق کونسلر اور پولیس.... کوئی بھی جھوٹ اور فریب دہی کو برا نہیں سمجھ رہا۔ "
انہوں نے اس واقعہ میں تینوں کو قصور وار ٹھہرایا اور آپ صرف علما کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑ پڑے اور ایسی برائیوں کا ذمہ دار بھی علما کو ٹھہرا دیا جنکے وہ ذمہ دار نہیں ۔ جناب مجھے بتائیں۔کیا مسجد کے باتھ روموں میں گند مولوی مچاتا ہے؟ مساجد سے جوتیاں اور باتھ روموں سے ٹوٹیاں علما چوری کرتے ہیں ؟ کس بندے سے اسکی زمین زبردستی چھین کر یا چوری کرکے ستر فیصد مساجد بنائی گئی ہیں ؟
ہم مانتے ہیں کہ عوام اور انتظامیہ کی اجتماعی غفلت سے پیدا ہونے والی اس فرقہ پرستی کی نحوست نے کچھ شہروں میں یہ پھول بھی کھلائے ہیں کہ کچھ جگہ مساجد پر قبضہ بھی کیا گیا لیکن جس کو آپ غیر قانونی اور چوری کی زمین کہہ رہے ہیں وہ جگہ شملات دہ تھی ۔ وہ بھی اکا دکا کیس ہیں ستر فیصد مساجد نہیں ۔۔
جہاں مساجد پر قبضے ہوئے ہیں وہ بھی عوام کی سپورٹ سے ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات شملات دہ رقبہ پر مسجد کی تعمیر کی ہے اس کے لیے عرض ہے کہ ایک مسلم ملک میں عوام کی جہاں مسلمانوں کی جسمانی ضرورت کے لیے سکول کالج ،سرائے، روڈ ، ہسپتال ، پارک بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے وہیں انکی روحانی اور دینی ضرورت کے لیے مسجد و مدرسہ بنا نا بھی حکومت کے ہی ذمہ ہوتا ہے، عوام کو دینی معاملات میں سہولت دینے کے متعلق آئین پاکستان میں بھی لکھا ہے ۔ اب جہاں حکومت نے عوام کی دینی ضرورت پوری کرنے میں غفلت کی وہاں چند دین دار مسلمانوں نے عوام کی اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے اپنے طور پر شملات دے جگہوں پرمساجد بنادیں ۔ آپ کو ان جگہوں پر بننے والی مساجد و مدارس پر اعتراض ہے سکولوں ، کالجوں اور سراؤں پر اعتراض کیوں نہیں ؟
ہم کیا سمجھیں آپ کو اصل میں تکلیف کس سے ہے ؟
آگے فرماتے ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کے ان بیچاروں کے خود کچھ نہیں پتہ ہوتا، جو کچھ انہیں درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے اس کے باہر انہیں ایک لفظ کی بھی معلومات نہیں ہوتیں۔ ۔ کبھی کسی بڑے سے بڑے مولوی مفتی عالم کے منہ سے نہیں سنا کے قرآن میں سینکڑوں آیات مبارکہ کا تعلق تسخیر کائینات سے ہے، غور و فکر کرنے سے ہے، اللہ کی اس کائینات کے اسرار و رموز جاننے سے ہے، زمین کے اوپر زمین کے اندر سمندر کی تہہ میں چھپی اللہ کی نشانیوں سے ہے ان سب میں چھپے قدرت کے خزانوں سے ہے،۔۔یہ اسلئیے نہیں بتاتے کے انکی خود کوئی اوقات نہیں کے یہ سب کر سکیں اسکے لئیے پڑھنا پڑتا ہے یہ سب سینکڑوں سال پرانے درس نظامی پڑھنے سے نہیں ملنے والا۔
فَکر پاکستان کچھ تو خدا کا خوف کیجئے! کچھ تو عقل و شعور کے ناخن لیجئے! درس نظامی میں قرآن و حدیث پڑھایا جاتا ہے یا
فزکس، کیمسٹری کی کتابیں پڑھائی جاتیں ہیں ؟ آپ کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ جو قرآن و حدیث پڑھائے جاتے ہیں وہ محض ٹائم کا ضیاع ہے اور ان میں کام کی کوئی چیز نہیں ۔!! جناب سے میں پہلے بھی ایک دفعہ درس نظامی میں شامل کتابوں پر کافی لمبی بات کرچکا ہوں کہ درس نظامی میں کیا اور کیوں پڑھایا جاتا ہے ۔ ابھی دینی مدارس کے نظام تعلیم کے معیار کی دلیل کے متعلق صرف ایک بات کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہمارے پاکستان میں ایک گلی محلے کے پرائمری سکول سے لے کر شہر کی بڑی یونیورسٹی تک کو چلانے کے لیے فنڈ ، اساتذہ کی تنخواہیں ، کرسیاں، میزیں تک حکومت دیتی ہے لیکن پھر بھی انکی کیا حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ، دوسری طرف مدارس کے متعلق حکومتی رویہ کیا ہے وہ بھی ہم جانتے ہیں ، انکی مدد کے بجائے ان کے خلاف بیانات روز اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ان مدارس کے تعلیمی نظام کا معیار دیکھیں کہ دوسرے ممالک سے طلبا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ حکومت کی سخت شرائط اور پابندیوں کے باوجود اس وقت صرف کراچی کے چار مدارس کے اندر چالیس کے قریب ممالک کے طلبا دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اگر مدارس کا تعلیمی نظام (درس نظامی)اتنا ہی خراب اور بے فاعدہ اور فرسودہ ہوتا تو دوسرے اسلامی ممالک کو چھوڑ کر غیر ملکی طلبا پاکستان کے مدارس میں آکر فرش پر بیٹھ کر اور دال روٹی کھا کر گزارہ کرکے اسکی تعلیم حاصل نہ کرتے ۔ دوسری طرف ہماری یونیورسٹیوں کی کیا حالت ہے یہاں باہر سے کسی نہ آکر کیا پڑھنا ، ہمارے اپنے طلبا یہاں پڑھنا نہیں چاہتے اور باہر کی یونیورسٹیوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔ آخری بات اظہار صاحب نے بھی اپنے کالم میں یہ بات کی آج یونیورسٹیوں ، کالجوں میں بھی جو باریش نوجوان اور باپردہ لڑکیاں نظر آتیں ہیں وہ درس نظامی پڑھنے والے انہی علما کی اسی وعظ ونصیحت کا اثر ہیں ۔
قدرت اللہ شہاب کی زبان میں
بقول قدرت اللہ شہاب یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے حوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک ۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد،ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھاہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے ، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے ، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے ، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتاہے، یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں ،برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچنے کہ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟
کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟
:علما اور دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ کی اصل وجہ
:علما اور دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ کی اصل وجہ
دینی مدارس کا سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور گزشتہ صدی میں ہندوستان میں انہی دینی مدارس کے دم سے علوم نبوت زندہ و تابندہ ہیں‘ انہی کی وجہ سے استعمار کے جبر و استبداد کا خاتمہ ہوا‘ یہی وہ قلعے تھے جن سے دین اسلام کا دفاع ہوا‘ یہی وہ نظریاتی چھاؤنیاں تھیں‘ جنہوں نے اسلامی نظریہ کی حفاظت کی‘ دینی مدارس ہی آب حیات کے وہ پاکیزہ چشمے تھے‘ جنہوں نے مسلمانوں میں دینی زندگی باقی رکھی۔اسلام دشمن اور عالمی دہشت گرد امریکا کے خلاف دنیا بھر میں جہاں کہیں امت مسلمہ نے مزاحمت کی‘ اس کی قیادت و سیادت دینی مدارس سے وابستہ علمأ کرام کے حصہ میں آئی‘ اسی لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے دینی مدارس کا خالص علمی‘ تحقیقی ماحول اور آزاد نظامِ تعلیم اربابِ اقتدار کی نگاہوں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قائم ہونے والا مدرسہ کفر کی نگاہ میں کھٹکتا تھا‘ اسی طرح آج بھی پاکستان اور دنیا بھر کے دینی مدارس اسلام دشمنوں کی نگاہوں میں خار بنے ہوئے ہیں‘ چنانچہ بے سروسامانی کے عالم میں دین حق کی شمع کو روشن کرنے والے مدارس کو دین دشمن اپنے لئے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں‘ اس لئے دین دشمن قوتیں اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان مدارس کو ختم کرنے‘ انہیں کمزور کرنے‘ ۔مسلمانوں کا ان سے تعلق توڑنے اور ان کی حریت و آزادی کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں‘ ۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان کا آزاد تعلیمی نظام حکومتی تحویل میں نہیں آجاتا‘ اس وقت تک اس سے فارغ ہونے والے علمأ کو نکیل نہیں ڈالی جاسکتی‘ اور نہ ہی ان سے اپنی منشا کے مطابق دین و مذہب میں تحریف اور کتروبیونت کرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے امریکا‘ مغرب اور یہودی لابی نے دینی مدارس کے خلاف مذموم پراپیگنڈا مہم شروع کی ہوئی ہے اور انہیں بدنام کرنے اور دنیا کو ان سے متنفر کرنے کے لیے باقاعدہ مہم اور منصوبے کے تحت مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں ۔۔ ہر حکومت کو دینی مدارس کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ امریکی ہدایات پر ہر حکومت نے مدارس میں مداخلت کا کی ‘ ہر موقع پر اربابِ اقتدار نے مدارس کے خلاف زہر اگلا‘ رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا‘ غیر ملکی طلبہ کے خلاف ملک بدری کا ظالمانہ فیصلہ کیا‘ مدارس کی اسناد کو بے وقعت کرنے کی کوششیں بھی اسی ایجنڈے کا تسلسل تھیں‘۔
اس مکروع پراپیگنڈے میں صرف حکومتی ارکان ملوث نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا میں خصوصی طور پر منافقین کی ایک جماعت کو امریکن سفارتخانہ سے سور کے بدلے ہائر کیا گیا ہے(میرے مخاطب اظہار الحق جیسے مصلح قوم صحافی نہیں) یہ بیروپیے کبھی کہتے ہیں موجودہ دینی مدارس سے صرف علمأ پیدا ہورہے ہیں‘ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے جس طرح علمأ پیدا ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ڈاکٹر‘ انجینئر اور وکلاء بھی پیدا ہوں اور ہماری خواہش و کوشش ہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والے علمأ ہر شعبہٴ زندگی میں خدمات انجام دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں ‘ جب ان عقل بندوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ: اگر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں سے انجینئر اور وکلاء پیدا کرنے کی فرمائش نہیں کی جاتی تو دینی مدارس سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے؟ پھر کہتے ہیں : دینی مدارس میں انگلش‘ سائنس اور دوسرے مضامین کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟ حالانکہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ دینی مدارس میں پہلے سے ہی میٹرک کا نصاب زیر تعلیم ہے اور کسی دینی مدرسہ کا نظامِ تعلیم کسی بھی عصری اور سرکاری اسکول کے معیارِ تعلیم سے کم نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ اس کے علاوہ پراپیگنڈہ بازی کی قسطیں چلاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی انہیں ملکی ترقی کی راہ میں حارج قراردیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گرد ، کبھی انہیں فسادی کہا جاتا ہے تو کبھی تشدد پسند ، کبھی کسی داڑھی والے کے برے عمل کو اچھا ل کر اسے علما کا نمائندہ بناتے ہوئے سارے علما پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، تو کبھی جعلی مولویوں، قاریوں اور پیرو ں کے مکروع اعمال اور حرکتوں کی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کرکے علما او ر صوفیا سے نفرت عوام کے دلو ں میں بٹھائی جاتی ہے۔ غرض اس وقت طعن وتشنیع اور توہین وتضحیک کی تمام توپوں کا رخ ملا، مولوی، دینی مدارس اور طالبان ( طلبہ) کی طرف ہے ، صرف یہی نہیں ! بلکہ اب تو حکومتی امریکی ایجنٹ اور یہ منافق بیروپیے پوری قوم کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کررہے ہیں کہ اگر ملکی سلامتی اور امن وامان درکار ہے تو ان ” مولویوں“ سے جان چھڑانی ہو گی او ران کے خلاف منظم جدوجہد کرنی ہو گی ، چناں چہ اس ناپاک منصوبہ کو پروان چڑھانے کے لیے علمأ کی گرفتاریاں اور مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں ، کسی مسجد، مدرسہ اور علمی مرکز پر بمباری کرکے ان معصوموں کو خاک وخون میں تڑپایا جاتا ہے اور اس کے بعد بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ : ” اس جگہ مظلوم انسانوں کو ذبح کیا جاتا تھا، یایہاں جہادی تربیت کا مرکز اور اسلحہ کا ذخیرہ تھا وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح کہیں دھماکا کرکے یہ کہانی گھڑ لی جاتی ہے کہ: یہ طالبان کا اڈہ تھا اور یہاں بارود کا ذخیرہ تھا، جو قبل از وقت پھٹ گیا۔ اور ابھی چند دن پہلے رحمان ملک کا اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے تاریخی جھوٹ بولنا کہ بینظر کے قاتلین مدرسہ حقانیہ میں رہے تھے اسی گیم کا حصہ ہے۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان کا آزاد تعلیمی نظام حکومتی تحویل میں نہیں آجاتا‘ اس وقت تک اس سے فارغ ہونے والے علمأ کو نکیل نہیں ڈالی جاسکتی‘ اور نہ ہی ان سے اپنی منشا کے مطابق دین و مذہب میں تحریف اور کتروبیونت کرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے امریکا‘ مغرب اور یہودی لابی نے دینی مدارس کے خلاف مذموم پراپیگنڈا مہم شروع کی ہوئی ہے اور انہیں بدنام کرنے اور دنیا کو ان سے متنفر کرنے کے لیے باقاعدہ مہم اور منصوبے کے تحت مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے رہے ہیں ۔۔ ہر حکومت کو دینی مدارس کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ امریکی ہدایات پر ہر حکومت نے مدارس میں مداخلت کا کی ‘ ہر موقع پر اربابِ اقتدار نے مدارس کے خلاف زہر اگلا‘ رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا‘ غیر ملکی طلبہ کے خلاف ملک بدری کا ظالمانہ فیصلہ کیا‘ مدارس کی اسناد کو بے وقعت کرنے کی کوششیں بھی اسی ایجنڈے کا تسلسل تھیں‘۔
اس مکروع پراپیگنڈے میں صرف حکومتی ارکان ملوث نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا میں خصوصی طور پر منافقین کی ایک جماعت کو امریکن سفارتخانہ سے سور کے بدلے ہائر کیا گیا ہے(میرے مخاطب اظہار الحق جیسے مصلح قوم صحافی نہیں) یہ بیروپیے کبھی کہتے ہیں موجودہ دینی مدارس سے صرف علمأ پیدا ہورہے ہیں‘ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے جس طرح علمأ پیدا ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ڈاکٹر‘ انجینئر اور وکلاء بھی پیدا ہوں اور ہماری خواہش و کوشش ہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والے علمأ ہر شعبہٴ زندگی میں خدمات انجام دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں ‘ جب ان عقل بندوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ: اگر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں سے انجینئر اور وکلاء پیدا کرنے کی فرمائش نہیں کی جاتی تو دینی مدارس سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے؟ پھر کہتے ہیں : دینی مدارس میں انگلش‘ سائنس اور دوسرے مضامین کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟ حالانکہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ دینی مدارس میں پہلے سے ہی میٹرک کا نصاب زیر تعلیم ہے اور کسی دینی مدرسہ کا نظامِ تعلیم کسی بھی عصری اور سرکاری اسکول کے معیارِ تعلیم سے کم نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ اس کے علاوہ پراپیگنڈہ بازی کی قسطیں چلاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی انہیں ملکی ترقی کی راہ میں حارج قراردیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گرد ، کبھی انہیں فسادی کہا جاتا ہے تو کبھی تشدد پسند ، کبھی کسی داڑھی والے کے برے عمل کو اچھا ل کر اسے علما کا نمائندہ بناتے ہوئے سارے علما پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، تو کبھی جعلی مولویوں، قاریوں اور پیرو ں کے مکروع اعمال اور حرکتوں کی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کرکے علما او ر صوفیا سے نفرت عوام کے دلو ں میں بٹھائی جاتی ہے۔ غرض اس وقت طعن وتشنیع اور توہین وتضحیک کی تمام توپوں کا رخ ملا، مولوی، دینی مدارس اور طالبان ( طلبہ) کی طرف ہے ، صرف یہی نہیں ! بلکہ اب تو حکومتی امریکی ایجنٹ اور یہ منافق بیروپیے پوری قوم کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کررہے ہیں کہ اگر ملکی سلامتی اور امن وامان درکار ہے تو ان ” مولویوں“ سے جان چھڑانی ہو گی او ران کے خلاف منظم جدوجہد کرنی ہو گی ، چناں چہ اس ناپاک منصوبہ کو پروان چڑھانے کے لیے علمأ کی گرفتاریاں اور مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں ، کسی مسجد، مدرسہ اور علمی مرکز پر بمباری کرکے ان معصوموں کو خاک وخون میں تڑپایا جاتا ہے اور اس کے بعد بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ : ” اس جگہ مظلوم انسانوں کو ذبح کیا جاتا تھا، یایہاں جہادی تربیت کا مرکز اور اسلحہ کا ذخیرہ تھا وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح کہیں دھماکا کرکے یہ کہانی گھڑ لی جاتی ہے کہ: یہ طالبان کا اڈہ تھا اور یہاں بارود کا ذخیرہ تھا، جو قبل از وقت پھٹ گیا۔ اور ابھی چند دن پہلے رحمان ملک کا اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے تاریخی جھوٹ بولنا کہ بینظر کے قاتلین مدرسہ حقانیہ میں رہے تھے اسی گیم کا حصہ ہے۔