جمعرات، 31 جولائی، 2014

درس قرآن وحدیث کیسے دیں ۔۔۔؟

قرآن و حدیث کی واضح نصوص اس کی دلیل ہیں اور چودہ صدیوں پر پھیلی اسلامی تاریخ کا ہر ہر ورق بھی اس کا زندہ ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی کا ایک اہم سبب ” قرآن کریم“ سے دوری، بے رغبتی، غفلت اور روگردانی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان  بھی واضح پیغام اور کھلی تنبیہ ہے  کہ : ” ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“ بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن کے ذریعہ بہت سی اقوام کو سر بلند فرماتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں.
درس قرآن کی روایت شروع سے مسلمانوں میں عام رہی ہےاور ہر دور میں علماء نے عوام کی تربیت اور تعلیم کے لیے اسکے حلقے لگائے رکھے، ہمارے آج کے علماء بھی اسی انداز میں یہ کام کررہے ہیں. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   ان علماء اور ائمہ مساجد کے پاس ہر سہولت موجود ہے،  علم بھی ہے اور سننے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ بھی لیکن پھر بھی ان جیسی رونق  اور اثر کیوں نہیں ۔؟. ایک جواب یہ دیا جاسکتا ہے  اخلاص، درد اور کڑھن کی کمی ہے. بالکل یہ موجود ہے.  لیکن بعض جگہ اخلاص گوکہ ان اسلاف کے درجے کا نہیں' کے باوجود بھی فاعدہ نظر نہیں آیا. ایک بڑی کمی جو عام نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ جتنا علم انکے پاس موجود ہوتا ہے یہ  اس سے بھرپور فاعدہ اٹھانہیں سکتے، اسکو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتے کہ  عوام تک  صحیح انداز میں بات پہنچ جائے. اس طرف بالکل  توجہ نہیں کی جاتی کہ  مجمع کا علمی لیول اور انکی ضرورت کیاہے،    وہ جو ٹائم نکال کر سننے بیٹھے ہیں اس ٹائم کو کس طرح بھرپور استعمال کیا جائےاور کس انداز میں استعمال کیا جائے کہ درس قرآن سننے والوں میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ قرآن کے پیغام کو سمجھنا بھی شروع کریں. درس قرآن میں  آیت کی تلاوت اور ترجمہ کے بعد  بات کا رخ ذیادہ سے ذیادہ علمی نکات، بزرگوں کے واقعات اور فقہی ابحاث  کی طرف چلا جاتا ہے اور اسی پر پھر اختتام بھی ہوجاتا ہے.ظاہر ہے ایسی حالت میں درس قرآن کی محفلیں کب بارونق ہو سکتی ہیں اور جدید مسائل سے دو چار انسانوں کے مسائل کب حل ہو سکتے ہیں اور ان کی پیاس کب بجھ سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ  جو خالص انگریزی ماحول میں پلے بڑھے، جن کو کبھی عربی زبان وادب سے واسطہ نہیں پڑا، انہوں نے اردو تفاسیر سے ترجمہ دیکھ کر فہم قرآن کے نام سے عوام الناس میں اپنا مشن ونظریہ پھیلانا شروع کیا پھر بھی لوگ انکو سنتے ہیں. انکا حلقہ بڑھتا گیا اور جارہا ہے.  وجہ دیکھی جائے تو سب سے بڑی یہی نظر آتی ہے کہ وہ عوام کے لیول اور پسند ناپسند جانتے ہیں. وہ یہ جانتےہیں کہ عوام کی توجہ کیسے حاصل کی جاسکتی اور برقرار رکھی جاسکتی ہے جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اسکو اچھی طرح پریزنٹ کرنا جانتے ہیں.
علماء میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف تجربہ کار علماء نے  بہت اچھے انداز میں لکھا اور علماء کو کورس کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا. حال  ہی میں جامعۃ الرشید کے ایک مشہورعالم مفتی ابولبابہ شاہ صاحب کی اس موضوع پر ایک کتاب " درس قرآن کیسے دیں" کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے.یہ علماء کی اس مسئلے میں  تربیت پر ایک شاندار کتاب ہے. ہم اس تحریر میں اس کتاب کا خلاصہ انہی کا ترتیب دیا ہوا قارئین کے لیے پیش کرنے جارہے ہیں.
























اس تحریر سے اصل فاعدہ علماء ہی اٹھا سکتے ہیں. غیر عالم دوستوں سے درخواست یہ ہے اگر وسعت ہو تواسکا پرنٹ نکال کر اسکی فوٹو کاپیاں کروا کر اپنے علاقے کے علماء حضرات کوپیش کریں..خیر کا کام جس درجہ میں ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔.یہ  پی ڈی ایف فارم میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے.
مکمل تحریر >>