منگل، 2 جون، 2015

شب برات کی فضیلت - ایک غلط فہمی کا ازالہ

یہ تحریر  بلاگ پر پہلی دفعہ ہفتہ، 16 جولائی، 2011 کو پوسٹ کی تھی ، ابھی دوبارہ اسکو ریفریش کرنے کی   دو وجوہات ہیں  ، ایک یہ کہ اس میں پوسٹ کی گئی پکچر کرپٹ ہوگئی  تھیں  جس کی وجہ سے  اس تحریر کے کمنٹ میں اور جہاں اسکا لنک پیسٹ کیا گیا تھا وہاں  پڑھنے والوں نے  ری پوسٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں   مفتی تقی عثمانی صاحب کے اس جملے " اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، " پر    بہت سی جگہوں پر عجیب و غریب تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ایک صاحب نے لکھا "
 Zaif+zaif=Zaif he hoti hay "
 ایک اور جگہ یہ تبصرہ دیکھا
"  kesay 1 mamlay per sari ki sari hadeesain kamzoor hon us ko ap deen ka hesa bana sakty hain.... kuch tou khayal karain "
ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے   کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے  ہیں۔   یہ جملے  بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں   کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو  شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے  لوگ بغیر علم کے  احادیث  پر  تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں  کسی  راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے،  ان تبصرے کرنے والوں نے بھی اس بات کو اگنور تو کیا ہی کہ  جو بندہ  یہ بات بیان کررہا ہے (مفتی تقی عثمانی صاحب) وہ چالیس سال سے حدیث پڑھا رہا ہے۔ ۔ حدیث پر بھی فارمولا ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔

ضروری وضاحت

ضعیف نا کہ من گھڑت :
پہلی بات یہ کہ  ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ  لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ  بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف'  کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں  مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو،  اس حدیث کے خلاف کوئی  صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس  میں حدیث صحیح وحسن  کی  شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے  اسباب ہوں جو  کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے  ہیں،  اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ  متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)
کیا  اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو  تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ  کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح  اگر  حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی  قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔         (نزھۃ النظر:۲۹)
ضعیف حدیث  کی اقسام
 ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا  کمی   کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔  مشہور قسمیں  ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث  کا کم ترین درجہ ہے۔
ضعیف  حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ   حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری  اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری  یہ کہ  عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ   اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں  اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔             (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔     (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ  حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث  کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔
شب برات کے متعلق ضعیف احادیث: 
 مفتی تقی عثمانی صاحب نے  شب برات کی احادیث کے متعلق   لکھا  کہ
" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔"
اس پہرہ گراف  سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں۔
1- شب برات کے متعلق احادیث ضعیف  لیکن کئی سندوں سے مروی   ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا۔
2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں  اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3-  اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ  اعمال صحابہ  بھی موجود ہیں۔
ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان  سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔

رسالہ '' شبِ براء ت کی حقیقت از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب " یہاں  سے  ڈاؤنلوڈ  کیا جاسکتا ہے۔


12 comments:

Irfan Rustam نے لکھا ہے کہ

Thanks for this contribution.
R
Irfan

عمران اقبال نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ سعد بھائی۔۔۔ اتنی اچھی معلومات شیر کرنے کے لیے بہت شکریہ۔۔۔

Sir Shahid nadeem نے لکھا ہے کہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔ (مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)

Sir Shahid nadeem نے لکھا ہے کہ

حضرت عثمان بن محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھاجاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔ (الجامع لاحکام القرآن‘جلد16‘صفحہ126 ‘شعب الایمان ‘لبیہقی‘ جلد3صفحہ386) چونکہ یہ رات گزشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش ہونے اورآئندہ سال ملنے واالی زندگی اوررزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لئے اس رات میںعبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کاباعث ہے اورسرکاردوعالمﷺکی یہی تعلیم ہے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

"اس نے ہماری بیت الخلا سے لے کر بیت اللہ"
یہ اس شخص "بنیاد پرست" کاحال ہے اور ہمیں دین بتارہا ہے۔ تمھیں اور کوئی لفظ نہیں ملا بیت اللہ سے ملانے کیلئے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

اچھا جی میں نے یہاں بیت الخلا کو بیت اللہ سے ملایا ہے۔ محترم آپ نے یہ جملے تو سنے ہونگے 'جنت سے لے کر جہنم تک' ، 'شیطان سے لے کر فرشتوں تک' ۔ کیا ان سے جنت کی اور فرشتوں کی توہین کا پہلو کبھی نے نکالا ہے؟

سراغِ زندگی (ڈاکٹر نعمان احمد) نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم
Please muje ye essay email kr den q k page thk se open nahi ho raha. thanks
ahmadnuaman@gmail.com

Unknown نے لکھا ہے کہ

السلام و علیکم -

اسلام کی مشہور فقیہہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا احادیث رسول صل الله علیہ و آ له وسلم کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ نبی کریم سے منسوب وہ روایت جو قران کریم کے صریح نصوص سے ٹکراے گی اس کی یا تو تاویل کی جائے گی یا اس کو رد کردیا جائے گا -شب براء ت سے متعلق اکثر روایات یا تو ضعیف ہیں یا قران کی صریح نص کے مخالف ہیں- جیسے سوره دخان کی آیت ٣ میں الله کے امر حکیم سے متعلق واضح ہے کہ یہ رات لیلته القدر کی رات ہے جس میں انسانوں کے مقدر کے فیصلے کیے جاتے ہیں نہ کہ شعبان کی پندھرویں کی رات - ویسے بھی شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور براء ت عربی زبان کا لفظ ہے - اس مناسبت سے اسے "لیلته براء ت" کہنا چاہیے تھا نہ کہ شب براء ت- لیکن ہمارے نام نہاد علماء نے اس کو مزید بگاڑ کر شب برات (شادی والی برات) بن دیا - جب کے اصل میں یہ لیلته براء ت ہے جس کے معنی ہیں نجات کی رات - اور یہ نجات کی رات لیلته القدر ہے جوصحیح احادیث نبوی کی رو سے رمضان کے آخری عشرے میں بتائی گئی ہے-

Unknown نے لکھا ہے کہ

شب برأت احادیث کی روشنی میں:
--------------------------------------------------
مغفرت کی رات :
------------------
شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمارلوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث:-
(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
حدیث:-
(٢) حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، ''شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے''۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠)
حدیث:-
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے''۔
(ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
حدیث:-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالی کی رحمت آسمان پر نازل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:‘‘ کوئ مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے“۔
(ابن ماجہ صفحہ100،شعب الایمان للبیہقی جلد3صفحہ378،مشکوتہ شریف جلد1 صفحہ278)

Out Spoken نے لکھا ہے کہ

ہممم ... شب برات اور شب معراج پورے عرب میں نہیں منائی جاتیں لیکن برصغیر میں منائی جاتی ہیں ...سوشل میڈیا کے آنے سے بہت سی دوسری باتوں کے علاوہ اس موضوع پر بھی بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ہے ... ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہدرست عمل ہے .. بعض لوگ انتہا پر پہنچ جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی لگا دیتے ہیں ...
جو منانا چاہتے ہیں اور ان کا دل اس پر مطمعین ہے وہ منانئیں ... جن کا دل مطمعین نہیں وہ نہ منائیں .. کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے جس پر تمہارا دل راضی ہو اسے اپنا لو اور جس پر تمہیں شک ہے اسے چھوڑ دو. ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ دین میں جبر نہیں ..
پر اس پر ایک دوسرے کو کافر نہ کہو ... یاد رہے عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور سزا و جزا اللہ دے گا

Sana Zia نے لکھا ہے کہ

my article on
شب برات اور اس کی حیثیت
http://www.referislam.com/2016/05/blog-post.html

rahmani نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج عالی بخیر ہوگا،بہت دنوں کےبعد دوبارہ بلاگ کی دنیا میں قدم رکھاہے،توپھر سے آپ کی یاد آئی ،آپ کے مضامین تقریباسبھی اچھے ہیں۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔