موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ پورے عالم میں جس دینی و دنیاوی انحطاط واضمحلال کا شکار ہے‘ اس کی مثال پوری تاریخِ اسلامی میں نہیں ملتی ،امت جب زندہ تھی‘ اور اپنے فرائض منصبی دعوت الی اللہ‘ امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور ہدایت رسانی خلق کی ادائیگی میں مصروف ومشغول تھی‘یہ لافانی اور جاودانی امت حیات تازہ پاتی تھی‘ بارہا سیاسی فاتحین کو امت کے داعیانہ مزاج اور تبلیغی جہد وہمت اور روحانی تصرفات ومزایانے مفتوح اور دین کا خادم بنادیا‘ جس کی سب سے نمایاں اور مشہور مثال تاتاری ومنگول ہیں‘ جو دولِ اسلامیہ اور خلافتِ عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے کچھ عرصہ بعد اسلام کے داعیانہ اثر سے مسلمان ہوتے ہیں اور ترکانِ عثمانی اور ترکانِ تیموری کے نام سے پانچ سوسال تک اسلام اور مسلمانوں کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔
جب سے امت کا دعوتی اور ملی شیرازہ بکھرا اور امت اپنے منصب اور اس سے پیدا شدہ تقاضوں اور مسائل کو بھلا بیٹھی‘ اور اپنے آپ کو دنیا کی عام اقوام کی طرح ایک قوم سمجھنے لگی، امت بانجھ ہوگئی‘ اقوام کا داخلہ اسلام میں من حیث الجماعة بند ہوگیا‘ بلکہ پوری امت پر مردنی چھاگئی‘ مسلمان بے یقینی‘ عقائد میں متزلزل اور کردار واعمال کی خرابی کا شکار ہو گئے کہ امت کا نفسِ ناطقہ‘ اس کا ایمانی شعور ‘ اس کا دینی ذمہ داری کا احساس اور اس کا داعیانہ حاسہ تھا‘ جس کی پژمردگی نے اس باغ کو مرجھا کررکھ دیا:
متاعِ دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا غمزہٴ خون ریز ہے ساقی
امت کی اس غفلت وکوتاہی اور فرض ناشناسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا عالم اسلامی قیادت وامامت‘ الٰہی رہنمائی اور نبوی تعلیمات سے محروم ہوگیا‘ اور انسان کی عقلی وذہنی‘ روحانی ومادی قیادت‘ خدانا آشنا‘ آخرت فراموش‘ روح ناشناس‘ بے یقین‘ مردہ دل‘ دنیا طلب‘ مادہ پرست مغربی اقوام کے ہاتھ میں آگئی۔ مغرب کے مادی وملحدانہ مزاج کی بناء پروہ تمام علوم وفنون جنہوں نے ان کے دل ودماغ سے فروغ پایا‘ اپنے اندر مادیت والحاد اور لادینیت کے اثرات کو سموئے ہوئے ہیں۔ ۔ آج مغرب کا سیاسی وذہنی اقتدار وسیاسست پورے عالم پر محیط ہے‘ مشکل یہ ہے کہ مغربی افکار وعقائد علوم وفنون‘ تہذیب وتمدن‘ سیاست ومعاشرت‘ اقتصادیات ومعاشیات‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو اور اس سے متعلقہ علم کی بنیاد نری مادیت اور ظواہر پر ہے‘ یہاں تک کہ نام نہاد مغربی روحانی اور مابعد الطبیعاتی افکار وتصورات بھی مادی آلائشوں سے پاک نہیں‘ بلکہ انہیں کا ثمرہ ونتیجہ ہیں۔ روحانی اقدار اور غیبی قویٰ سے انکار عصر حاضر کا خلاصہ وامتیاز ہے
بقول حضرت سید الملة سلیمان الندوی قدس سرہ۔
۔”تعلیم جدید کی نئی آب وہوا نے تفرنج وفرنگی مآبی کا وہ زہر پھیلادیا ہے جس سے دین‘ عقائد واعمال کی ہر چیز پر مردنی چھاگئی ہے‘ اور جہاں دین کا کچھ خیال زندہ بھی ہے‘ شکوک وشبہات کی کثرت اور شدت نے اس پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا ہے۔ یورپ کے تمدن اور سیاست کی نقالی ہماری اسلامی سلطنتوں کا فخر ہے۔ ہمارے دار السلطنتوں کے سامنے پیرس کے خاکے ہیں۔ ہماری خواتین کے سامنے انگلستان وفرانس کی عریانی ورنگینی وبے حجابی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں میں رقص وسرود اور ظاہری پوشاک ووضع وطرز ماند وبود میں فرنگی مآبی زندگی کی کامیابی کا سب سے اعلیٰ تخیل ہے۔ علم وفن پر غور کیجئے تو ہماری قدیم تعلیم اب تک یونان کی تقویم پارینہ کی پرستش میں اور تعلیم جدید یورپین ضلالت وگمراہی خیال کی عکاسی میں مصروف ہے اور سوائے تقلید ونقالی کے کوئی مجتہدانہ تصور ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جب اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ سلطنت داری کا تخیل آتا ہے تو یورپ کی ایک ایک سلطنت اپنی پوری ہوش ربائی اور باطل آرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت ہمارے سامنے سے گم ہوجاتی ہے کہ اسلام کا تصور سیاست اور تصور تمدن اور تصور علم وفن اپنا خاص ہے‘ اسی کو دوبارہ پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے لانا ہماری قومی وملی غرض وغایت ہے“۔
حالاتِ حاضرہ پر قناعت موت ہے
حقیقت میں جس طرح امت اپنی معاشرت وتمدن تہذیب وشعائر سے دور ہوتی جا رہی ہے اور جس طرح اسلامی اخلاق ومعاملات مٹ رہے ہیں‘ عبادات تک میں بے اعتنائی عام ہو چکی ہے‘ امہاتِ عقائد تک میں تزلزل آگیا ہے اور جس طرح دنیا طلبی‘ دین سے بے رغبتی‘ الحاد ودہریت غفلت وبدعملی امت پر اپنا سایہ ڈالتی چلی جاتی ہے‘ اگر امت نے کمال چابک دستی‘ سبک رفتاری‘ بلند ہمتی‘ عزم راسخ سے اپنی جملہ استعدادوں‘ توانائیوں ‘ ظاہری وباطنی مادی وروحانی قوتوں کو‘ حفاظتِ دین‘ اعلاء کلمة اللہ اور دعوت وتبلیغ ‘ افراد امت کی شخصی واجتماعی اصلاح کی طرف مرکوز نہ کیا تو خاکم بدہن اندیشہ ہے کہ العیاذ باللہ! اسلام کی نام لیوا موجودہ امت مٹاکر نہ رکھ دی جائے اور یہ امانت دوسروں کے سپرد کردی جائے۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خاک ہوجائے گے افسانوں میں ڈھل جاؤگے
اب تو چہروں کے خدوخال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤگے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے
دے رہیں ہیں تمھیں تو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاؤگے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بِھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤگے
ہمسفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤگے تو خود ہی سنبھل جاؤگے
تم ہو اک زندہ جاوید روایت کہ چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے
صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤگے
2 comments:
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔۔۔۔مرض کی تشخیص تو کردی لیکن دوا نہیں بتائی گئی۔۔۔معنون و عنوان میں مطابقت نظر نہیں آئی۔۔۔جسارت پر معزرت۔
تحریر میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ کون سے کام تھے جو ہم نے چھوڑے اور زوال پذیر ہوئے۔ میرا خیال ان کاموں کو دوبارہ اختیار کرنے کی علیحدہ سے دعوت کی ضرورت نہیں تھی۔ پہلے پہرہ گراف میں لکھا کہ "جب سے امت کا دعوتی اور ملی شیرازہ بکھرا اور امت اپنے منصب اور اس سے پیدا شدہ تقاضوں اور مسائل کو بھلا بیٹھی‘ اور اپنے آپ کو دنیا کی عام اقوام کی طرح ایک قوم سمجھنے لگی، امت بانجھ ہوگئی" اسی طرح آخری پہرہ گراف میں بھی اسی کی طرف دعوت دی گئی ہے۔
آپ کے بلاگ پر تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کا شکریہ۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔