سرسید احمد خان ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں کے لیےانتہائی محترم ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک وہ دنیا کی ایک مخصوص "برادری" کے متحرک فرد تھے، خود ہمارے سامنے سکولوں کالجوں میں سرسید احمدخان کو ایک عظیم قائدکے طور پر پیش کیا گیا، آج بھی انکی تصویر ہر سکول کالج میں لٹکی نظر آتی ہے، جسے ہماری قوم کا ہر بچہ آتے جاتے دیکھتا ہے اور صبح شام ان کی عظمت کا قائل ہوتا جاتا ہے ۔کئی دفعہ ان کی معتبر شخصیت اور تاریخی کارناموں پر لکھنے کا ارادہ کیا لیکن توفیق نہ ہوسکی ۔ چند دن پہلے خان صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خود خان صاحب نے اپنا نظریہ، اپنے خیالات و افکار نہایت خوبی سے بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب کی مدد سے ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ اس لیے پختہ ہوتا گیا کہ ایک متنازع شخصیت کے متعلق فیصلہ کرنا عام طور پر کافی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں انکی اپنی تحریر جو بدست خود بقلم خود تھی ’ ہاتھ آگئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں خود وہ اپنی تحریروں کے بین السطور میں اپنا تعارف کس انداز میں کرواتے ہیں۔ جناب کی تحریر کردہ کتاب " مقالات سرسید" کے مندرجات اس مخمصے سے نکلنے میں یقینا ہماری مدد کریں گے۔
۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں
" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:
۔(مقالات سرسید، صفحہ 41)۔
انگریز سرکار کے متعلق سرسید صاحب کے دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔
" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔
اس کے عوض میں جناب کو کیا ملا، پڑھیے
مسکین خدمت کے مقابلے میں حد سے ذیادہ انعام و اکرام کے اقرار کی روداد تو آپ نے " بقلم خود" سن لی۔ انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر تمام محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین مسلط سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ کی خبر بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔
سبحان اللہ ! یہ تو تھا جذبہ جاں سپاری۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر حال یہ تھا کہ خاں صاحب اپنی جان کو اتنا ہلکا اور گوری چمڑی والے گماشتے فرنگیوں کو اتنا قیمتی سمجھتے تھے کہ خود کو ان پر بے دریغ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ ارشاد فرماتے ہیں :
" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔
انگریز حکام کی طرف سے خاں صاحب پر یہ کرم نوازیاں محض وقتی نہ تھیں، انہیں باقاعدہ پنشن کا مستحق سمجھا گیا اور یوں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی خدمت اور خیر خواہی کا صلہ دشمنان ملت سے پاتے رہے۔ ثبوت حاضر ہیں:
" دفعہ پنجم رپورٹ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ایام غدر میں کارگذاری سید احمد خان صاحب صدر امین کی بہت عمدہ ہوئی، لہذا ہم نے ان کے واسطے دوسو روپیہ ماہواری کی پنشن کی تجویز کی ہے۔ اگرچہ یہ رقم ان کی نصف تنخواہ سے ذیادہ ہے، مگر ہمارے نزدیک اس قدر روپیہ ان کے استحقاق سے ذیادہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری تجویز کو مسلم رکھیں۔ اس واسطے کہ یہ افسر بہت لائق اور قابل نظر عنایت ہے۔ دستخط شیکسپیئر صاحب، مجسٹریٹ کلکٹر"
۔(مقالات سرسید، صفحہ 54)۔
۔(مقالات سرسید، صفحہ 54)۔
ہماری روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر اس فریضہ عادلہ کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔
" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟ شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)
جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں :۔
" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو " (مقالات سرسید، صفحہ 94)۔
آہستہ آہستہ وہ اپنی رو میں بہتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ مفتی اور مصلح کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ تمام علما اور مجاہدین، تمام محب وطن ہندوستانی انگریز کے خلاف سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، جان مال لٹا رہے تھے اور خان صاحب انہیں مبلغ اعظم اور مصلح وقت بن کر سمجھا رہے تھے:۔
یعنی انگریز کی بدعہدی کے باوجود اس سے بغاوت جائز نہیں۔ مسلمان انگریز کی وفاداری واطاعت کریں ورنہ اپنا ملک چھوڑ دیں، اپنے حق کے لیے انگریز سے لڑنا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو تعلیمی تحریک انہوں نے برپا کی وہ انگریز ی حکومت کے لیے بابو پیدا کرنے کی کوشش تھی یا مسلمان قوم کو دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی " عظیم خدمت" تھی؟؟؟
اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
" اس ہنگامہ میں برابر بدعہدی ہوتی رہی۔ سپا نمک حرام عہد کر کر پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کرکر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔
مقالات سرسید، صفحہ 99)۔)
مقالات سرسید، صفحہ 99)۔)
خان صاحب نے اس یادواشت نما کتابچے میں اور بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک پیش کیا جائے۔ اس ڈر سے کہ مضمون کی طوالت عموما قارئین میں بددلی پیدا کرتی ہے،آخری پیرگراف پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں سرسید مسلمانوں کو تہذیب سکھلا رہے ہیں:۔
" اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی وجہ اسکی کارتوس تھا۔ کارتوس میں کاٹنے سے مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ؟ہمارے مذہب میں اہل کتاب کاکھانا درست ہے، انکا ذبیحہ ہم پر حلال ہیں (چاہیں سور کھلادیں: راقم) ہم فرض کرتے ہیں کہ اس میں سور کی چری ہوگی۔ تو پھر بھی ہمارا کیا نقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہوچکا ہے کہ جس چیز کی حرمت اور ناپاکی معلوم نہ ہو، وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے( کارتوس میں تو معلوم تھی جناب: راقم) اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا۔ صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا، سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا، ان گناہوں سے جو اس غدر میں بدذات مفسدوں نے کیے"۔
گویا سور جیسی ناپاک چیز کا استعمال اتنا ذیادہ گناہ نہیں جتنا انگریز جیسے غمخوار حاکم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس قسم کی تحریروں سے خان صاحب کی تعلیمی تحریکوں کا ہدف اور اصلاحی تحریروں کا اصل مشن سامنے آجاتا ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ مسلمانان برصغیر کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کا ہدف اور انہیں جدید تعلیم کے نام پر انگریز کی لامذہب تہذیب میں رنگنے کا مشن انہوں نے کس لگن سے انجام دیا۔ انکی " تحریک علی گڑھ" میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے نام پر یورپ کے فرسودہ اور ناکارہ نظریات ہندوستان کے آزادی پسندوں کو پڑھائے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ممالک کے باشندے آج تک تعلیمی ترقی کے نام پر یورپ کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوچکے ہیں، لیکن ترقی ابھی تک سراب ہی ہے۔ یہ تو برصغیر کے باشندوں کی ذاتی ذہانت و قابلیت ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلیں ورنہ جدید تعلیم یافتہ حضرات تو محض بابو گیری سیکھ کر یورپ کی نقالی تک محدود رہے۔اس جدید ترقی سے ہمیں بس اتنا حصہ ملا ہے کہ ہمارے ذہین دماغ اور قابل نوجوان امریکا و یورپ کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے پڑھ کر مغربی زندگی کی چکا چوند کے سحر میں ایسے آئے کہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔
سرسید کی تعلیمی تحریک کے سیل رواں میں خس و خاشاک کی طرح مشرق کے باسیوں کے بہنے کے باوجود انکے حصے میں وہی پرانا مٹکا آیا، بلوریں جام تو ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ مغربی محققین کے لیے جو تعلیم وتحقیق فرسودہ ہوجاتی ہے تو وہ ڈسٹ بن میں پھینکنے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں بھجوادیتے ہیں اور اصل ٹیکنالوجی اور اس کے حصول کے ذرائع کی ہوا نہیں لگنے دیتے، لہذا ہمارے ہاں سائنس نے کبھی رواج پایا نہ ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کا مزاج بنا۔ البتہ ہماری نسل کی نسل "ہمٹی ڈمٹی" ٹائپ کے نیم مشرقی نیم مغربی ہندوستانیوں میں تبدیل ہوگئی اور بابوؤں کی کھیپ کی کھیپ پیدا ہوکر شکل وصورت کے ہندوستانی اور فکرو طرز زندگی کے لحاظ سے انگلستانی بنتے گئے۔ اس سارے کارنامہ کا کریڈٹ خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی دلی خواہش پوری ہوئی ان کے تعلیمی اداروں نے انگریز کی حکومت کے لیے وفادار کلرک اور بابو تیار کر کر کے فراہم کیے ، یہ وفادار ملازم انگریز کی غلامانہ اطاعت تو کرسکتے تھے، اس سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
تحریکات سیاسی ہوں یا تعلیمی۔۔۔۔ ان کو ان شخصیات کے نظریات کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے جنہوں نے انہیں برپا کیا اور کسی شخصیت کے نظریات کی ترجمانی اس کی اپنی تحریرات سے ذیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر ہم نے خاں صاحب کی برپا کردہ تحریک کو اس مضمون میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ، شاید کہ ہماری قوم حقیقت اور سراب کا فرق سمجھ لے، جدید تعلیم کو جدید تہذیب سے الگ کرکے دیکھنا شروع کردے اور ترقی کی خواہش میں مغرب کی ایسی نقالی نہ کرے کہ اپنی چال بھول جائے۔
18 comments:
ڈپٹی نذیر احمد کا ایک ناول ہے
ابن الوقت
اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ناول سر سید احمد خان پر لکھا گیا ہے۔
معلوماتی تحریر ہے
شکریہ
بہت زبردست کام کیا ہے جناب آپ نے۔۔۔
لوگ پتہ نہیں کیوں سمجھتے نہیں۔۔۔
شکریہ
واہ جی واہ ۔۔۔۔۔۔۔ یار میں نے بھی ایسا کچھ کہا تھا تو ۔۔۔۔۔ کسی نے مجھے کک ہی دیا:) ویسے میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ان کا بھی بہت بڑا ھاتھ ہے روشن خیالی کٖ فروغ میں اور دین میں بگاڑ پیدا کرنے میں
روشن خیالی کے فروغ اور دین میں بگاڑ پیدا کرنے میں خان صاحب امام اعظنم ہیں
سعید
بہت خوب۔ یہ اچھے نمونے پیش کئے آپ نے۔ اب کوئی مقالات سر سید کے اس نسخے پہ ہی تحریف کا الزام لگا دے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟
نہایت عمدہ تحقیق ہے. معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا...
سر سید پڑھے لکھے آدمی تھے، لیکن تھے تو حکومتی ملازم۔۔۔ نبی یا پیغمبر تو نہیں تھے، اس لئے انکی تمام باتیں من و عن تسلیم کرنا حماقت ہو گی۔۔۔ البتہ اُس زمانے میں جدید علوم کے حصول کی جانب توجہ دلانے والے چند ہی لوگ تھے۔۔۔ اور ایسے لوگوں کو کریڈٹ مِلنا چاہیئے۔۔۔
انگریزوں نے یہاں سو سال تن تنہا حکومت کی، اور مغلوں نے کوئ تین سول سال کے لگ بھگ۔۔۔ بابر سے بہادر شاہ ظفر تک۔۔۔ اس سے قبل بھی بہت مسلمان حکمران رہ کر گئے۔۔۔ لیکن انگریز نے جاتے جاتے یہاں بڑے گہرے بیج بو دیئے۔عین ممکن ہے کہ سرسید بھی انہیں بیجوں میں سے ایک بیج ہوں۔۔۔ کوئی غور کرے تو اور بھی بہت ساری جڑی بوٹیوں کا شجرہ انگریزی بیجوں سے جا مِلے گا۔۔۔
آجکل اگر آپ سر سید کو فارغ ثابت کر بھی لیتے ہیں تو کیا مِلے گا؟ کوئی فائدہ ہے؟ کیا ایسا کرنے سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی، روٹی سستی ہو گی، علاج معالجہ عام ہو گا، یا ڈرون حملے بند ہو جائیں گے؟
یہ اسی انجینئر شدہ "مطالعہ پاکستان" کا حصہ ہے جسے چودھویں تک رٹا لگانا ہمارے لیے مرد ناحق کے دور سے لازمی ٹھہرا ہے۔ یار لوگوں نے بڑی خوبصورتی سے ٹوٹے اکٹھے کر کے ایک عدد "تاریخ" تیار کی ہے۔
آپ سر سید کو گولی ماریں لیکن یہ جو رویہ مولوی حضرات نے اب اپنایا ہو ہے کہ سائنسی مضامیں سے بلا کا بیر حتی کہ آپ کہ ممدوح طالبان تو لڑکیوں کے اسکول ہی اڑا دیتے ہیں کبھی ان پر بھی کچھ غور کریں۔
خاصی بھاری بھرکم تحریر ہے جو بہت سے لوگوں کو شاید آسانی سے ہضم نہیں ہو گی۔ مگر حقیقت یہی ہے جو نعیم اکرم ملک صاحب نے بیان کی ہے۔ اب تو آوے کا آوا ہی سرسید کی پیروی پر لگا ہوا ہے۔
یاسر خوامخواہ جاپانی @:۔ جی میں نے بھی سنا تھا، ویسے خاں صاحب کے متعلق اکبر الہ آبادی جیسے شعرا نے جو مزاحیہ اشعار کہے ہیں وہ بہت مزے کے ہیں ۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اکبر اور اس زمانے کے اور بہت سے شعرا سرسید کے تعلیمی نظام کی ’برکات’ کو ابتدا میں ہی محسوس کرچکے تھے۔ بات نکلی ہے تو کچھ مزاحیہ اشعار پیش کرتا ہوں۔
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
(اکبرالٰہ آبادی)
ابتدا کی جنابِ سیّد نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پہ ہوئی
قوم کا کام اب تمام ہوا
(اکبرالٰہ آبادی)
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی ، کلرکی کر ، خوشی سے پھول جا
یہ موجودہ طریقے راہی ملکِ عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہو گی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
عقائدپرقیامت آئے گی ترمیمِ ملت سے
نیا کعبہ بنے گا، مغربی پتلے صنم ہوں گے
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے ہسپتال جا کر
(اکبر الٰہ آبادی)
ہوائے مغربی ہے تجھ میں کتنا جذبِ پنہانی
دھرم ہندو کا غائب اور مسلماں کی مسلمانی
سمندر پھاند کر اک لہر ایسی ہند میں آئی
پہنچ کر جس نے ٹھنڈا کر دیا سب جوشِ ایمانی
مساوات اس کو کہتے ہیں نئی تہذیب کیا کہنا
کہ یکساںہو گئی صورت زنانی اور مردانی
(ظریف لکھنوی)
مزید
’’پیرِ نیچر‘‘ سے پھر کرو بیعت
چوم لو دوڑ کر گلا بھاری
کوٹ پتلون لے کے ایک کبڑی
لال ٹوپی کی اس پہ دمداری!
خوب گزرے گی چین سے دنیا
ایک ذرا سی ہے دین کی خواری
ارے کیسا عذاب کیسا ثواب
’’پیرِ نیچر‘‘ کی ہے عملداری
کبھی مسجد میں جا کے وعظ کہے
سر پہ عمامہ باندھ کے بھاری
کبھی گرجا میں بن کے جنٹل مین
پادری صاحبوں سے ہو یاری
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے
خالد حمید..@۔
ہمارا کام ہے واضح کر دینا، پہنچا دینا آگے کوئی نی مانتا اسکی مرضی
نورمحمد ابن بشیر @۔
جزاک اللہ
ضاءالحسن خان @۔
روشن خیال برادری یہی کچھ ہی کرسکتی ہے جی، دین میں بگاڑ اور روشن خیالی کے فروغ کے بارے میں آپ نے صحیح سنا ہے۔ یہ بندہ اس فتنے کے فروغ کے لیے ہندوستان میں انگریز کا پہلا ایمبیسڈر تھا۔ اگلی فرصت میں خاں صاحب کی " دینی اور اصلاحی" خدمات کا جائزہ پیش کروں گا۔ انشا اللہ
سعید @۔
آپ نے صحیح فرمایا۔
منیر عباسی @۔
ہوسکتا ہے اس پر سوچا جا رہا ہوں،پر مسئلہ تو حل نہیں ہوگا کیونکہ ریفرینس میں دیے گئے لنک الگ نسخے کے ہیں ۔
Dr Jawwad Khan said.@۔
جزا ک اللہ ڈاکٹر صاحب ۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ
Naeem Akram Malik said.@.
آپ کے پہلے دو پیراگراف تو آپس میں ہی ٹکرا رہے ہیں جناب۔ہمیں شاید ان پر تبصرہ کرنےکی ضرورت نہیں , ویسے اتنا ضرور عرض کردیتا ہوں کہ دینی و ملی غیرت کے لیے بندے کا نبی ہونا ضروری نہیں، یہ تو چیز تو ایک ادنی چپڑاسی میں بھی آپ کو مل جائے گی۔ باقی سرسید کو فارغ ثابت کرنا ہمارا مقصد نہیں ہماری تحریر کی آخری لائنز پڑھ لیں وہی ہمارا مقصد ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، ڈرون حملے شاید سرسید کے ہی شاگردوں کے کارنامے ہیں۔ سرسید کی آخر تک یہ خواہش تھی کہ انگریز سرکار کے آگے اکڑا نہ جائے، چاہے وہ اپنے وعدے سے مکر جائے یا دغا کرے، اگر مسلمان کو ملک چھوڑنا پڑے یا سور کھانا پڑے، برداشت کرلے ، سر نہ اٹھائے۔۔۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے کہنے پر بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھانا اور ڈرون حملے کرنے کی اجازت دینا شاید سرسید ہی کی وصیتوں پر عمل ہے۔
Muhammad Shakir Aziz said.@
صحیح فرمایا۔ ویسے مرد حق کے بعد نامرد جنرل (وہ جو قوم کو مکے دکھاتا تھا اور ایک کال پر لما پے گیا تھا ) نے جو نصاب میں تبدیلیاں کروائی تھیں وہ ذیادہ نالائق تحسین ہیں۔
farigh said.@.
پاکستانی طالبان کے ممدوح اور سائنسی مضامین سے بلا کا بیر رکھنے والے ہمارے مولوی حضرات کے نام اور انکی تحریروں کے حوالے بھی پیش فرما دیں۔ جناب سائنسی مضامین کے پڑھنے پڑھانے سے ہمارے کسی عالم نے منع کیاہے اور نہ وہ طالبان جن سے پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں کو منسوب کیا جاتا ہے کی ’ ہمارے کسی عالم نے سپورٹ کی ہے۔ہم ظالم کی تعریف نہیں کرتے چاہے وہ نام نہاد طالبان ہوں یا ہماری فوج ۔
میرا پاکستان @..
بھئی سرسید کی تعلیم کا کچھ تو اثر ہونا ہےنا. باقی یہ تحریر نظام انہضام کے لیے نہیں نظام اعصاب کو درست کرنے کے لیے پیش کی گئی تھی۔۔:)۔
baat bilkul sahi hai. Sir Syed ka Aik aur qusoor, unhon ne Apni kitaab Asaar-e-Sanaadeed ke aglay edition mai akhri chapter nikaal diya jis mai Syed Ahmed Shaheed ka zikr tha kion ke ibtada mai Sir Syed bhi Syed Badshah ke Qaflay ke Haami thay mgr aglay edition mai Syed Ahmed Shaheed aur un ke Rufaqah ka Zikr nikalna kia mA'ani rakhta hai? yaqeenan Angrez ka wazeefa mil gaya hoga. in tamam baaton ke ba wajood Sir Syed Angrezon ke Agent nhi balke un se intehai maroob thay warna woh Itni khuli tehreerain hurgiz na likhtay. bus Angrez zehn ki maroobiyta ne un ko badnaam kiya aur woh is laaiq bhi hain. mazeed unhon ne sirf 5 hazaar angrezon ki khatir 5 crore Hindustani awam ko zabardasti angrezi parh wa kar jaahil bana diya aur parhain farsi bechain tail ki maisaal samnay ayee.
السلام علیکم محترم
آپ کی دو تحریریں بہت پسند آئيں اور اپنے بلاگ پر آپ کی ویب کے حوالے سے پوسٹ کردی ہیں۔
امید کہ برا مت منائيں گے۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم
وعلیکم السلام۔
بھئی میری تحریر کاپی رائیٹ فری ہے۔اور کوئی بھی اسے میرے بلاگ کے حوالہ کے ساتھ کسی بھی جگہ پر لگانے کے لئے مکمل آزاد ہے۔ ہمیں تو خوشی ہے کہ آپ ہمارا یہ پیغام پھیلانے میں ہماری مدد کررہے ہیں ۔
سر سید کےتعلیمی نظام کی برکات میں سب سے بڑی وہ ہے جسے ہم سب پاکستان کہتے ہیں۔ اس کے رد میں بھی پھر ایک تحریر لکھ ڈالیے کیونکہ جب بیج ہی غلط تھا تو پھر جو پھل کھا رہے ہیں ہم اس کے بارے میں بھی آپ کو ضرور شکوک و شبہات ہونگے۔۔۔
حمزہ نیاز@
پاکستان سرسید کے تعلیمی نظام کی برکت نہیں ہے پاکستان کے لیے ہر طبقے کے لوگوں نے محنت کوشش کی تھی۔ پاکستان کا تعلیمی نظام اسکا منتخب کیا ہوا ہےاور اسی کی برکات سے ہم ساٹھ سال سے مستفید ہورہے اسی پر تحریر میں بات ہوئی۔
سرسید نے مغربی اثرات کو مسلمانون میں راسخ کر دیا۔ وہ ہی جدید اسلام کے زندقے کے بانی ہیں۔ وہ مغرب کے اور انگریزی سامراج کے بہت بڑے حامی بھی تھے۔ لیکن وہ انگریزوں کے "زرخرید غلام" نہیں تھے۔ اس کے حق میں کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ سرسید احمد خان نے نہایت اخلاص سے سامراج کی خدمت کی اور اپنے تئیں انگریزون سے خوشگوار تعلقات قائم کر کے مسلمانوں کو سامراجی غیظ و غضب سے بچانے کی کوشش کی۔ ہمارے خیال میں یہ سب کام نہایت غلط تھا، اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے انتہائی ضرر رساں ثابت ہوا۔ اسی سے انکار حدیث جیسے فتنے پیدا ہوئے۔ غلام احمد پرویز اور جاوید غامدی وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ۔ اس اختلاف کے باوجود جو مسلمانوں کو سر سید احمد خان سے ہے، اس مین کوئی شک نہیں کہ سر سید نے یہ سب کوشش اخلاص کے ساتھ کی، اور مسلمانوں کے خیرخواہی کے لیے کی۔ ان کی دیانت پر کوئی الزام کبھی نہیں لگا، نہ انہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیے انگریزون سے کوئی فائدہ اٹھایا۔ انہیں انگریزوں کا "زرخرید" کہنا صریح ناانصافی ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔