جمعرات، 8 مارچ، 2012

آسکر ایوارڈ برائے تذلیل مسلماں

پچھلے دو ہفتوں سے ہر طرف ایک  ہی شور سن رہے ہیں کہ ایک  پاکستانی عورت نے آسکر ایوارڈ جیت  کر پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کردیا ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آسکر ایوارڈ جیتنے پر شرمین عبید چنائے کو اس کارنامے کی وجہ سے سو ل ایوارڈ دینے کا کہا ہے، سارا میڈیا رٹے لگا رہا ہے  کہ یہ اعزاز ہمارے ملک و قوم کے لئے  ایک بہت ہی فخر کی بات ہے ،  اخبارات میں رنگین سپلیمنٹس شائع ہورہے ہیں ، میگزین اس کی تصویریں اپنے  فرنٹ پیج پر لگارہے کہ  اس عورت نے اپنی محنت سے پاکستان  کو ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا ہے.۔
ہم  انگشت بدنداں ہے کہ یاالہی اس عورت نے  آخر ایسا کیا   ہمالیائی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے  جسکی اتنی تعریف کی جارہی ہے ؟ کیا  دنیا میں دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب  گرانے سے  بڑا ظلم عورتوں کے ساتھ کہیں نہیں ہوا  اورکیا  اس ظلم پر کوئی ڈاکومینڑی موجود نہیں۔۔؟ کیا اس موضوع پر  شرمین سے بڑا  کارنامہ کوئی  اور فلمساز آج تک نہیں سرانجام دے سکا۔ ۔  ؟  ہمارے ناقص علم کے مطابق صرف امریکہ محکمہ انصا ف کی رپورٹ  ہے کہ  امریکہ میں ہر پانچ منٹ میں  ایک عورت کے ساتھ ریپ کی واردات ہوتی ہے، یورپ میں ہزاروں لڑکیاں ریپ کے بعد قتل کردی جاتیں ہیں، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ  فلسطین میں اسرائیلی ، کشمیر میں انڈین ، عراق  اور  افغانستان  نیٹو فوجوں نے  عورتوں کے ساتھ کیا  سلوک کیا اور کررہے ہیں    ؟  امریکی حکومت نے پندرہ لاکھ سے ذیادہ عراقی اور افغانی معصوم شہریوں کے خون میں ہاتھ رنگے ،   افغانستان اور عراق  کی  ہزاروں  جوان لڑکیاں انہی یورپ ، امریکہ کے بازار حسن میں بک گئیں ،   بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہنوں کے ساتھ ریپ کیے گئے، بمباری سے   لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم اور معذور   ہوگئے اور ہورہے ہیں، خود  اسی پاکستان میں ہزاروں بچے، عورتیں ،بوڑھے ڈرون حملوں میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں ،  'انسانوں کا غم رکھنے والے ان منافقوں نے یہود  کے ایک ہولوکاسٹ کے واقعے پر کئی سو ڈاکو منٹریاں  تو بنا لیں  ان  پر کوئی فلم کیوں نہیں بنائی،  ویت نام پر امریکہ  نے  تاریخی مظالم  کیے  تھے اس پر کوئی ڈاکو مینٹری نہیں بنی۔ اس آسکر  ایوارڈ دینے والی تنظیم کی منافقت اور  تعصب سے خود انکے اپنے لوگ آگاہ ہیں   ۔یہی وجہ تھی کہ فلم دی گاڈ فادر  کے ہیرو مارلن برانڈو نے  اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا وہ جانتا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے  یہاں کے اصلی باشندوں ریڈ اندین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں    اور  ہالی وڈ کی فلمیں  الٹا انہی مظلوموں کو  ظالم شو کررہی  ہیں   ۔ ادارکار جارج سکاٹ  نے اپنی فلم پر یہ کہہ کر آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ یہ انتہائی بدیانت تنظیم ہے۔دنیا کے کئی اہم موضوعات اور مظالم پر  کئی  حساس دل لوگوں نے  دستاویزی فلمیں بنائیں ہیں   ان کو آسکر ایوارڈ دینا تو دور کی بات ان کو فلموں کی لسٹ میں ہی نہیں رکھا جاتا۔خود شرمین کی فلموں پر نظرڈالیں تو  کئی فلمیں ایسی ہیں جن میں  انسانی کرائسز دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب گرائے جانے کے واقعہ سے بھی ذیادہ شدید ہیں ۔  اسکی ایک فلم ‘ عراق دی لاسٹ جنریشن  ہے  جس  میں انہی  آسکر ایوارڈ دینے والوں کے ملک اور انکی   اتحادی فوجوں کے   محض عراق کے ذخائر  پر قبضہ کے لیے کئے گئے حملوں سے عراق میں آنے والے تباہی  اور ساری عوام خصوصا مہاجرین کی  افسوسناک حالت کو دکھایا گیا ہے  , شرمین نے تو اس  مغربی دہشت گردی پر ایک لفظ نہیں بولا بلکہ الٹا دفاع کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ فسادا ت کانتیجہ قرار دیا ۔ یہ چیز  دیکھنے والا اپنے طور پر  محسوس کرسکتا ہے کہ مغربی  اتحادی  فوجوں نے اس قدر درندگی کا مظاہر ہ کیا ہے  کہ نہتی عوام کو بھی نہیں بخشا ۔  ایک اور فلم جس کا نام ہائی وے آف ٹئیررز ہے۔ اس میں کینڈا  میں گمشدہ ہونے والی درجنوں عورتوں اور انکے گھرانوں کا تذکرہ ہے۔ آسکر ایوارڈ والوں کو دوپاکستانی مسلم عورتوں کے چہروں پر گرائےگئے   تیزاب  پر بننے والی ڈاکومینڑی اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے آسکر ایوارڈ کا حق دار سمجھ لیا،      انہیں  اسی ڈائریکٹر کی عراق میں بننے والی فلم نظر کیوں نہیں آرہی جس میں  انہی کی فوجوں کی بمباری سے بچوں  ، عورتوں،  بوڑھوں  کے صرف چہرے نہیں پورے پورے جسم  جلے  ،  مسخ  اور معذور  ہوئے دکھائی دیتے  ہیں    اور وہ  مہاجر کیمپوں میں سخت حالات میں زندگی گزار رہے ہےجہاں سیونگ فیس کا نہیں سیونگ لائف کا مسئلہ ہے۔  ؟ اگر ان لوگوں کو دنیا کی عورتوں کا اتنا ہی احساس ہے تو یہ   کینیڈا میں  اغوا ہونے والی درجنوں عورتوں پر بننے والی ڈاکومینڑی کو کیوں اگنور کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟  دنیا میں مختلف انتہائی اہم ٹاپک پر ہزاروں فلمیں بن چکیں ہیں  ، آخر وہ فلمیں آسکر ایوارڈ کی حق دار کیوں نہیں ٹھہرتیں ۔ ۔ ؟ شرمین کی  اس سیونگ فیس  فلم سے پہلے 2002میں اس  کی فلم ٹیررز چلڈرن پر اسے  کئی بین الاقوامی ایوارڈ دیے گئے۔۔ 2003 میں اس کی دستاویزی فلم   ری انوینٹنگ  دی طالبان کو  چار مختلف بین الاقوامی ایوارڈز ملے ۔  2010  میں پاکستانی طالبان/ جنریشن  چلڈرن آف دی طالبان پر  اسے  ایمی ایوارڈ  دیا گیا ۔ ان تین فلموں  میں کیا دکھایا گیا ہوگا وہ ان کے نام سے ہی ظاہر  ہورہا ہے ۔ ۔ ۔؟  آخر کیا وجہ ہے کہ ایوار ڈ کے لیے ہمیشہ  مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ فلمز  اور  مسلم معاشرے کے منفی پہلو کو اجاگر کرنے والی ڈاکومینڑی  ہی منتخب ہوتیں ہیں۔ ۔ ؟اسکا جواب یہی ہے  کہ یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کے کیے گئے  ان انسانیت کش کارناموں پر  بننے والی فلموں پر ایوارڈ   دے کر دنیا کے سامنے اپنے لوگوں کو ذلیل کیوں کروائیں  ۔ ۔ ؟ ان  فلسطین ، عراق، افغانستان میں  پر بننے والی فلموں  میں تو ان  مسیحاؤں کی اپنی فوجیں یہ  سب  کارنامے کررہی ہیں ۔ ۔۔ ؟  اس  سے تو  خود ان   انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنوں کے چہروں سےخوشنما نقاب اتر جائیں گے ۔ ۔ ۔  ان منافقوں کی اپنی  حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ ۔ ۔  اس ایوارڈ کی ذیادہ حقدار تو  وہ فلمیں ہیں جن میں ظالم مسلمانوں کو شو کیا گیا ہے ۔  ۔ ۔ یہ   ایوارڈ تو  انہوں نے  مسلمانوں کے معاشرے کے منفی پہلو اجاگر کرنے والے اپنے پسندید ہ فلمسازوں کو دینا ہے   ، جیسے انہوں نے شرمین کی چند عورتوں کے تیزاب سے جلنے والی فلم پر ایوارڈ دیا، تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ  انہیں مسلمان عورتوں کی کتنی  فکر ہے۔ ۔ ۔ ? وہ ظالموں کے خلاف اور  ان مظلوم عورتوں کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔  اس سے ان کے  چہرے پر شرمندگی بھی نہیں ہوگی  اور انہیں دنیا میں انسانوں کا خیر خواہ بھی کہا جائے گا۔ 
آسکر ایوار ڈ والوں کی  طرح کی یہی منافقت مغرب کے ہر شعبہ میں نظر آتی ہے۔   انکا میڈیا  اپنے  مسلمان ملکوں پر حملہ آور ظالم فوجیوں کو  مظلوم اور شہید ہونے والے معصوم مسلمانوں کو دہشت گرد اور ظالم بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ۔ ۔ انکے نيشنل چينل پر نشر ہونے والي  اسلام اور مسلمانوں كے متعلق ۸۵ فيصد خبريں مسلمانوں كے خلاف اور منفي ہوتي ہيں۔فلسطين و عراق ميں ناجائز قبضہ ، وحشيانہ حملوں اور مسلمانوں كے اپني سر زمين كے حق دفاع سے چشم پوشي كرتے ہوئے ، حملہ آور  دشمنوں كے مقابلہ میں مسلمانوں كي طرف سے ہونے والي مزاحمت كے مناظر كو دہشت گردی كے عنوان سے نشر كيا جاتا ہے
 غیر وں سے متعلق تو ہماری مذہبی کتابوں نے بھی پہلے سے  گواہی دے رکھی تھی  کہ یہ یہود ونصاری مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے، ہماری  انسانی حقوق کی ملکی تنظیموں کا کردار بھی ان یہودیوں سے مختلف نہیں ہے، ہماری اس  نام نہاد معمار پاکستان، دخترپاکستان ، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ  عورت  شرمین  نے  تین  سے زائد فلمیں  طالبان کے حملوں اور انکے بچوں پر  تو بنا دیں ، جن  میں  دکھایا گیا ہے کہ اس نے  وہاں کےمہاجر کیمپوں  کے  دورے کیے ، وہاں کے بچوں سے انٹرویو لیے اور  ایک پلاننگ کے تحت مدارس کو خود کش حملہ آوروں کی ٹریننگ کے مراکز شو کیا  اور  طالبان کے حملوں سے چند تباہ شدہ سکولوں کی ویڈیو دکھائیں( ملکی اخبارات میں شایع شدہ رپورٹس کے مطابق کئی جگہوں پر ٹھیکیداروں نے خود سکول تباہ کروائے تاکہ بعد میں انہیں تعمیرات کیلئے ٹینڈر مل سکیں) ۔  اسکو  انہی علاقوں میں ڈرون اٹیک سے زخمی ہونے والے بچوں ، عورتوں کا انٹرویو کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا،  ڈرون حملوں سے تباہ شدہ گھروں کی ویڈیو بنانے سے اسے کس نے روکا۔ ہماری نظر میں ایک  مستند رپورٹ کے مطابق ان  ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 2711 ہے۔ ہلاک شدگان میں سیکڑوں عورتیں ہیں اور 178 معصوم بچے بھی شامل ہیں ۔ ان  جل کر راکھ ہونے والے ان ہزاروں بچوں، عورتوں کے متعلق   اس عورت نے یا کسی اور نے کوئی فلم کیوں نہیں بنائی ۔ ?? یہاں ان  معماروں ، پاکستان کا درد رکھنے والوں کی زبانیں، قلم ، کیمرے کیوں رک جاتے ہیں ؟
جنگ کے معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب    مغرب اور انکے پسند یدہ لوگوں  کی اسی مخصوص مکروہ ذہنیت اور کام کے طریقہ کار  کے  متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں  لکھتے ہیں۔
ایک تاثر تو یہ ہے کہ آسکر ہو یا کوئی اور عالمی اعزاز صرف اسی صورت میں کسی پاکستانی شخصیت، ادارے، تنظیم یا این جی او کا مقدر بنتا ہے جب زیر نظر فلم، تخلیق، کارنامے یا ادب پارے میں پاکستانی معاشرے کی کوئی گھناؤنی، متعفن اور نفرت انگیز تصویر پیش کی گئی ہو۔ یوں پاکستان کی کسی شخصیت ادارے، تنظیم یا این جی او کے سینے پر ایک تمغہ سجا کر بظاہر پاکستان کو شاباش دی جاتی ہے لیکن درحقیقت پاکستان کا تیزاب زدہ مسخ چہرہ ساری دنیا کو دکھا کر ، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان، درندوں کی کمین گاہ ہے جہاں اس نوع کے بھیانک جرائم معمولات حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ عزتیں بانٹنے والے یہ بڑے بڑے ادارے، کسی تخلیق کو جانچنے کی اپنی کسوٹی رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ من پسند موضوعات اور پرکشش نعرے بھی ہیں۔ لازم ہے کہ تخلیق کا نفس مضمون ان موضوعات اور ان نعروں سے ہم آہنگ ہو اور اُن وسیع تر مقاصد کی آبیاری کرتا ہو جو اعزازت کے عالمی تقسیم کاروں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔


18 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

مجھے تو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہیں آئی کہ نام پاکستان کا روشن کیسے ہوا ؟ شرمین کینڈا کی شہری ہے اور پاکستان کے آئنی مذہب سے بھی اس کو کوئی واسطہ سوائے تذلیل کے نہیں اور انعام بھی اُسے پاکستان کی تذلیل کرنے پر ملا ہے

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

اب آسکر ایوارڈ کو بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
ہر مسلمان جو امت کا درد رکھتا ہے وہ اس جنگ کے اثرات بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ کیا بین القوامی اور کیا لوکل میڈیا سب کے سب اس جنگ میں حصہ دار ہیں۔

نعمان محمد نے لکھا ہے کہ

یہاں یہ نقطہ بھی قابلِ غور ہے کہ یوں تو غیر مُسلم بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے بھرپور میڈیا رپورٹس اور ڈاکومینٹریز بناتے ہیں مگر جب کوئی پاکستانی یا پاکستان سے متعلقہ شخص کچھ ایسا کرتا ہے تو یہ پروپیگنڈہ کو چار چاند لگا دیتا ہے، یعنی وہ اسے میڈیا میں "گھر کی گواہی " کے مصداق پیش کرتے ہیں۔ اسی لیے ایوارڈ بھی ایسی فلموں کو ملتا ہے تاکہ میڈیا میں ایسی گھر کی گواہی کو پروجیکشن ملے یعنی ایوارڈ پروموشن کے نام پر دیا جاتا ہے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

گزشتہ ہفتے ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک ميٹينگ ميں شامل تھا جہاں ايک سينير امريکی اہلکار نے ازراہ مذاق کہا کہ کم از کم اس ہفتے تو پاکستانيوں کی جانب سے امريکہ پر کی جانے والی نکتہ چينی ميں کچھ کمی آئ ہو گي۔ ان کا اشارہ لاس اينجلس کی تقريب ميں پاکستان کی پہلی خاتون فلم ميکر کو ديا جانے والا آسکر ايوارڈ تھا۔ ميں نے اس موقع پر اپنے تحفظات کا اظہار کيا کيونکہ ميں سازشی سوچ اور بغير حقائق جانے صرف تنقيد براۓ تنقید کے طرزعمل سے بخوبی واقف ہوں۔

ليکن خود ميرے ليے بھی اردو فورمز پر پاکستان کی ايک فلم ميکر کو آسکر ايوارڈ ديے جانے کے بعد شديد ردعمل اور بے شمار پيغامات حيران کن تھے۔ کچھ راۓ دہندگان اسے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانيوں کو بالخصوص بدنام کرنے کے ليے امريکی سازش اور جامع منصوبہ بندی قرار دے رہے ہيں۔ پاکستان کے مشہور کالم نگار اوريا مقبول جان کا اس حوالےسے لکھا جانے والا آرٹيکل بغير حقائق کی تحقيق کيے مقبول عام جذبات کو ايک خاص رخ پر ڈالنے کے ضمن ميں ايک واضح مثال ہے۔

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ جو کوئ بھی ان انتہائ پيچيدہ اور طويل مراحل سے واقف ہے جو اس ايوارڈ کے ضمن ميں وضع کيے گۓ ہيں وہ اس حقيقت سے انکار نہيں کر سکے گا کہ امريکی حکومت، ہماری خارجہ پاليسی اور يہاں تک امريکی عوام کی خواہشات اور امنگوں کا بھی حتمی نتائج پر اثرانداز ہونے کا کوئ امکان نہيں ہوتا۔ ہزاروں کی تعداد ميں فلم کے متعلقہ شعبوں سے منسلک ماہرين، اساتذہ اور تکنيکی معلومات کو سمجھنے والے اہم افراد اس سارے عمل ميں شامل ہوتے ہيں۔ ايوارڈ کی تقريب سے قبل کسی کو بھی جيتنے والوں کے ناموں کا علم نہيں ہوتا۔ يہ تاثر کہ امريکی حکومت سميت کوئ بھی ايک مخصوص لابی اپنے مخصوص سياسی ايجنڈے يا خارجہ پاليسی کے حوالے سے عوام کی راۓ کو ايک خاص رخ پر ڈالنے کے ليے اس ايوارڈ کے نتائج ميں ردوبدل کر سکتی ہے، بالکل غلط اور بے بنياد ہے۔

ماضی ميں ايسی درجنوں مثالیں موجود ہيں جب آسکر ايوارڈ جيتنے والی فلموں کے موضوعات اور ان کو بنانے والے ماہرين نے برملا امريکی حکومت کی پاليسيوں پر شديد تنقيد کی ہے، بلکہ بعض موقعوں پر تو ايسے موضوعات بھی سامنے آۓ جو مقبول عوامی راۓ سے متصادم اور روايات کے برخلاف تھے۔ ليکن ان فلموں اور ان کو بنانے والے ماہرين کو موضوعات کی وجہ سے نہيں بلکہ تکنيکی مہارت اور بہترين کاوش کی بدولت ايوارڈ سے نوازا گيا۔

ايک پاکستانی فلم ميکر کا اس ايوارڈ کو جيتنا ان اصولوں سے ہٹ کر نہيں ہے۔ انھيں اپنی قابليت اور بہترين تکنيکی صلاحيتوں کو کاميابی سے بروۓ کار لانے کی بدولت ايوارڈ ديا گيا۔ امريکی حکومت کی جانب سے ان کے کام کی پشت پنائ يا حمايت کا اس سارے عمل سے کوئ تعلق نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

umme talha نے لکھا ہے کہ

es tahreer k ly Allah apko jaza e khair day...great work..

وقاراعظم نے لکھا ہے کہ

واہ جی واہ کیا بات ہے۔ حد ہوتی ہے بے شرمی کی بھی۔ چوری اور پھر سنیہ زوری بھی۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کا قتل کرنے کے بعد بھی تمہارے دلوں میں ٹھنڈ نہیں پڑی اور چاہتے ہو کہ اس سب کے باوجود پاکستانی امریکیوں سے محبت کرنے لگیں؟

آسکر ایوارڈ کا ماضی گواہ ہے اس بات پر کہ یہ کس بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ ہمیں 82 اکیڈمی ایوارڈ کی تقریب بھی یاد ہے جب سال کی بہترین فلم اویٹار جسے دیکھ کر ایسا لگا کہ شاید افغانستان کی کہانی ہو کی جگہ دی ہارٹ لاکر کو ایوارڈ دیا گیا جس کی کہانی مقبوضہ عراق میں امریکی قابض فوج کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں کی نام نہاد بہادری کے گرد گھومتی ہے۔ پہلے یہ انقلاب مخالف ایرانی فلم میکرز کو نوازتے تھے اب انہوں نے اپنے پاکستانی چمچوں کو بھی نوازنا شروع کردیا ہے۔

ممبئی کی کچرا کنڈی اور بھوکے ننگے لوگوں پر بنی "سلم ڈاگ ملینئر" سے "سیونگ فیس" تک تم امریکیوں کو صرف یہاں تیسری دنیا کے ممالک میں بھوکے ننگے اور منفی چیزیں ہی نظر آتی ہیں۔

اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ مسلمان تم سے محبت کرنے لگیں تو ہمارے ملکوں سے نکل جائو۔ ہر اس ملک سے نکل جائو جسے تم امریکیوں نے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ گو امریکہ اینڈ امریکی چمچوں گو بیک تو یور لینڈ

وہ سرزمیں جو تم نے معصوم ریڈانڈین کے قتل عام کے ذریعے چھینی ہے۔۔۔

خاموش تماشائی نے لکھا ہے کہ

فواد صاحب کہیں پہ تو امریکیوں کی چمچہ گیری چھوڑ دیا کرو اور کچھ تو خدا کا خوف کرو اور یاد رکھو ایک دن تم نے مرنا بھی ہے تب تم اللہ کو کیا منہ دیکھائو گے . خیر ابھی تمیں ان باتوں کا اثر نہیں ہوگا کیونکہ امریکی چھیچھڑوں نے تمہاری آنکھوں پہ چربی چڑھا رکھی اور امریکی ڈالرز کی چکا چوند کے آگے تمہہیں سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے .

عدنان شاہد نے لکھا ہے کہ

بالکل یہ ایک بہت بڑی سازش ہے پاکستان کے خلاف

Waseem Rana نے لکھا ہے کہ

او جناب وہ سازش کیا کریں گیں، ان امریکہ والوں کی مثال ایسے ہے جیسے، کسی گاوں کا چوہدری، جس کے سامنے کوئی بھی آدمی ہر چیز جاننے کے باوجود کچھ نہیں بولتا، جناب جب ہم ہر چیز ان کی استعمال کر رہے۔ان کی امداد کھا رہے ہیں تو ان کو آنکھیں کیسے دکھا سکتے ہیں،

Waqas Ahmad نے لکھا ہے کہ

this is all pre-planned. Bechara america khud bhi kuch nai ker skta israeli policy bhi koe chiez hy. america to khud us ka 1 pupy hy. kia ap ny 1 documentary "the arrival"" daikhi ??? mery khiyal sy us ma ap ko sb answers mil jay gy. k ye sab kiun , ksy,kahan or kia ho raha hy...meri guzarish hy k ap us ko complete daikhain...phir sochain k hmy hmara deen kia sikhata hy...ye sazish sirf pakistan k liye nai..pori ummah k liye hy.....quran my ALLAH ny goro fikar ki bar bar dawat di hy....to kia ap sochty nai??? to kia ap goro fikar nai kerty????its not a time to blame some one else...its time to think positively and its time to build the faith on ALLAH more strongly......may ALLAH forgive us and bless us with wisdom and show us the right and blessed path ameen.....

Atif Imran نے لکھا ہے کہ

boht aala blog hai jnaab
Atif980

Behna Ji نے لکھا ہے کہ

اسلام علیکم
جیسے ایوارڈ دینے والے ویسے ہی ایوارڈ لینے والے ہیں- سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں- آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے-یہ ایوارڈ نہیں بلکہ غلامی کی مہر داغی جا رہی ہے ان پر سر عام -اور یہ لوگ اپنی غلامی پر اترا رہے ہیں-عقل سے پیدل لوگ!!

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ

ام عروبہ

Shah Jee نے لکھا ہے کہ

کاافی شعلہ اناداز پایا ہے جناب نے !!!

ارتقاء حیات نے لکھا ہے کہ

پر کیا اب کوئی اچھی فلم ایسی نہین بن سکتی کہ جس میں پاکستانی مسائل و وسائل کی دستیابی کا ذکر ہو
ہمارے یہاں سوائے بے ہودگی یا انڈین کلچر سے مانوس فلمیں ہیں کیوں پزیرائی حاصل کرتی ہیں؟
کہنے کو نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے
پر نہ تو ملک اسلامی قوانین پر ہے اور نہ ہی جمہوریت پنپ رہی ہے
عوام ہی اسلام سے دور جا رہی ہے اور میڈیا اس پر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے
تفریح کہ نام پر فحاشی و عریانیت مزاح کے نام پر لچر کلچر عام کیا جا رہا ہے
کیا بنانا چاہتے ہیں ہم اپنے معاشرے کو
جگا ہو یا گجر
بس ہم یہیں رہین گے؟
عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی اچی بات ہے
عوام کو تو پتہ ہی تب چلا کہ جب آسکر جیتا گیا
ایسی فلموں کی نمائش ہم کرناہی نہیں چاہتے
کسی سینما پر کیوں نہ دکھائ گئی یہ فلم؟
انڈین فلم ہی دکھانے کے لئے ہم کیوں آگے آگے رہتے ہیں؟

MOHD GUFRAN نے لکھا ہے کہ

ہمارے اسلاف کے کارناموں پر پاکستان کوئی فلم کیوں نہیں بناتا۔ تاکہ ہماری نسلیں ان سے کچھ سبق حاصل کرسکیں ۔ مثلا صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، اورنگ زہب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ پر ؟

blog نے لکھا ہے کہ

I am really feeling ashamed after reading this post and the comments. Are these not straight facts.
A Pakistani female won Oscar award.
If Amica and Europe are commanding and dictating us it's not just because they want to do it, it's because we let them do this. See where we stand as a nation. What we achieved in Last 60 years?
Whatever they are doing to muslims , why Muslims are so weak and faceless that we let them do.
Americans and Europe are trying to give a justice social system to all the people living in their countries. What We are doing and what we are giving? Kindly other then jumping all the time America is ruining us we should do some good things for ourselves. پد رم سلطان بود چه نيست.

Unknown نے لکھا ہے کہ

blog@
اگر ہماری تحریر سے اتفاق نہیں تو یہ خبر پڑھ لو اس نے این جی اوز اور ان نام نہاد معمار وطن کے تیزابی چہرے اور سوچ کو الم نشرخ کیا ہے۔
http://e.jang.com.pk/06-27-2012/pindi/pic.asp?picname=513.gif

دعا نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست بھائی ہمیشہ کی طرح بہت اعلی لکھا ہے آپ نے اور جن حقائق سے آپ نے پردہ اٹھایا ہے وہ تو بلکل سامنے نظر ا رہے ہیں بس دیدہ بینا چاہیئے۔ بہت اعلی اللہ آپ کو اس کا اجر دے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔