ہمارے اردگرد منکرین حدیث بنام اہل قرآن کے فتنے سے نوتعلیم یافتہ جدید و ماڈرن طبقہ ذیاده متاثر نظرآتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ پڑھنے ، سننے میں خود کو کسی حد کے پابند نہیں سمجھتے 'مطالعہ کرنے کا ذوق ہوتا ہے، جس کسی کی کتاب بھی ہاتھ لگ جاتی ہے مطالعہ کرلیتے ہیں۔ اہل باطل کی دینی موضوعات پر بھی کتابیں پڑھنے سے دریغ نہیں کرتے، پھر چونکہ انہوں نے نہ خود دین کو گہرائی میں کسی استاذ سے پڑھا ہوتا ہے اور نہ مستند علما اور انکی کتابوں سے انکا کوئی تعلق ہوتا ہے اس لیے اہل باطل کے مکر کو سمجھ نہیں سکتے اور ان کی تحریروں سے متاثر ہوجاتے اور آہستہ آہستہ ان کے حامی بن کر انہی کے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
اس فتنہ انکار حدیث کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ اس کے اصل بانی اور محرک کچھ زنادقہ و ملاحده ، شیعہ و روافض تهے اور کچھ عقل پرست مُعتزلہ ، اسکی تفصیل ہم پہلے بھی ایک تحریر میں یہاں ذکر کر چکے ہیں ۔ ہندوستان میں اس فتنہ کو پهیلانے اور ابتداء کرنے والے لوگوں میں سرفہرست سرسید احمد خان ، مولوی چراغ ، عبدالله چکڑالوی ، احمدالدین خواجہ امرتسری ، مولوی اسلم جیراج پوری اور پهر آخر میں اس مشن کا جھنڈا برٹش گورنمنٹ کے محکمہٴ انفارمیشن کے ملازم چوہدری غلام احمد پرویز نے اٹهایا اور کفر وگمراہی کے انتہائ درجات تک اس شیطانی تحریک کو پہنچایا ۔
غلام احمد پرویز ایک اعلی پائے کا انشاء پرداز تھا اس نے بجائے اپنے اس فن سے اردو ادب کی خدمت کرنے کے قرآن و حدیث پر زور آزمائی شروع کی ۔ پہلے حدیث کو عجمی سازش اورتفرقہ کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کا انکار کیا ، خود کو اہل قرآن قرار دے کر لوگوں کو قرآن کی طرف دعوت دی اور ولا تفرقو ولا تفرقو کے خوشنما نعرے لگائے پھر اپنے فن سے قرآن کے ترجمہ کو افسانوی رنگ میں پیش کرنا شروع کیا ۔ اسکی یہی ادبی افسانوی زبان میں لکھی گئی اسلامی تحریریں اور نعرے دین سے دور دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ کی کمزوری بن گئے، ان لوگوں نے قرآن و حدیث کو خود گہرائی میں پڑھا نہیں تھااس کے علوم سے واقف نہیں تھے اس لیے آسانی سے انکے انکار میں اسکے ہم خیال بن گئے ۔ اس پرویزی مشن کو ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ پهیلانے کا ذمہ آج کے دور میں جاوید غامدی اور اس کے ہمنواوں نے اٹهایا ہوا ہے اور بدقسمتی سے دین سے بے خبر ناواقف وجاہل لوگ انہیں بھی دینی واسلامی سکالر کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
پرویزی دین پر ایک نظر
پرویز اینڈ کمپنی چونکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہیں‘ لہذا عوام الناس کے ذہنوں میں یہ ایک عام تأثر پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صرف منکرِ حدیث ہے لیکن وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے، پرویز جس طرح منکرِ حدیث ہے‘ اسی طرح وہ منکرِ قرآن بھی ہے‘اس نے قرآنی آیات کے اصل ،متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر اپنی مرضی کے معانی نکالے ہیں ' اس کے نزدیک اللہ، رسول ، کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے بھی وہ معنی نہیں ہیں جوکہ لغت عرب اور مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں ‘ بلکہ اصل معانی وہ ہیں جو تیرہ سو برس بعد صرف اس ایک عجمی مفکر کو سمجھنا نصیب ہوئے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں۔
۱- اللہ اور رسول کامطلب :
پرویز صاحب 'لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ' کا ترجمہ کرتے ہیں
" قانون صرف خدا کا ہے‘ کسی اور کا نہیں۔ محمد کی پوزیشن اتنی ہے کہ وہ اس قانون کا انسانوں تک پہنچانے والا ہے‘ اسے بھی یہ کوئی حق نہیں کہ وہ کسی پر اپنا حکم چلائے“(سلیم کے نام خط ج:۲‘ص:۳۴)
پرویز کے مطابق عبادت کے لائق تو کسی ہستی کا وجود ہی نہیں‘ ہاں خدا کے نام سے کوئی ہستی ہے جس کا قانون ماننا چاہئے ۔دوسری طرف جناب نبی صلى الله عليہ وسلم سے قرآن کا بیان کردہ ”حق اطاعت وتشریح “ چھین کر ”مرکز ملت“ کے نام سے حکومت وقت کو دے ڈالتے ہیں۔
”قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول کا ذکر آیا ہے‘اس سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے“۔) معارف القرآن جلد 4 صفحہ 263 )
”مرکزِ ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات ‘نماز‘روزہ‘معاملات‘اخلاق ‘غرض جس چیز میں چاہے رد وبدل کردے“۔ (قرآنی فیصلے ص: ۴۲۴)
پرویز صاحب کا اصرار ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں ”اللہ ورسول“ کا لفظ دیکھو اس سے مراد صدر مملکت سمجھو، اور سچے خدا اور رسول صلى الله عليہ وسلم کو چھوڑ کر ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرو۔ اسکندر مرزا ہو یا غلام محمد، ناظم الدین ہو یا ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو صدر ضیاء الحق، جونیجو یا بینظیر، جو بھی کرسی نشین اقتدار ہو، اسی کو اللہ اور رسول سمجھو! اسی کے سامنے ڈنڈوت بجالاؤ اور چند ٹکے سیدھے کرنے کے لئے اللہ ورسول سے اطاعت چھین کر برسراقتدار قوت کو دے ڈالوکہ مائی باپ آپ ہی ہمارے دین کا فیصلہ کریں۔ لا حَولَ ولا قُوة الا باللّٰہِ
ستم یہ کہ اگرایسا نہ کروگے تو نہ ”اسلام طلوع“ ہوگا، نہ قرآنی ربوبیت منظر عام پر آئے گی بلکہ اسلام عجمی سازش کا شکار رہے گا۔ خدا کا غضب ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ و رسول سے مراد ”مرکز ملت“ ہے لیکن ان میں کسی کو بھی اس کے سننے سے قے نہیں آتی۔
پرویز صاحب بڑی چالاکی سے اطاعت اور تشریح کا حق رسول سے چھین کر نظام حکومت یا مرکز ملت کے حوالے کرتے ہیں پھر خود ہی مرکز ملت یعنی اللہ ورسول بن بیٹھتے ہیں اور قرآن کا اپنی مرضی کے مطابق ترجمہ و تشریح کرتے جاتے اور اس کی پیروی نہ کرنے کوقرآن سے دوری، فرقہ واریت اور ظلالت بتلاتے ہیں۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں
”رسول کی اطاعت نہیں کیونکہ وہ زندہ نہیں“(اسلامی نظام صفحہ 112)
کوئی اس کے پیروکاروں سے پوچھے اگر منتخب رسول کے انتقال کرجانے کے بعد اسکی تعلیمات کی پیروی نہیں تو پرویز کے مرنے کے بعد اسکی بکواسات کی پیروی کیوں کرتے ہو ؟
2- دور نبوی دور وحشت ہے:
مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زرین دور عہد مآب تھا ‘اس زمانہ میں جاہلیت کے اندھیرے چھٹے اور اسلام کا نور چار سو پھیلا‘ خود آنحضرت نے اپنے زمانہ کو خیر القرون کا لقب دیاہے‘مگر پرویز اس تیرہ سو سال قبل کے زرین عہدکو وحشت کا دور کہتا ہے‘ وہ لکھتاہے:
”آپ (علمأ) اپنی قوم کے دامن پکڑ کر آج سے تیرہ سو سال پہلے کے دورِ وحشت کی طرف گھسیٹ رہے ہیں“(قرآنی فیصلے)
3- انکا ر حدیث
"مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لیے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول اللہ کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی جو قرآن کے ساتھ بالکل قرآن کے ہم پلہ ہے ۔ یہ وحی روایات میں ملتی ہے"(مقام حدیث جلد 1 صفحہ 421)
" یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا ۔ وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ مثل قرآن ٹھہرایا گیا " (مقام حدیث جلد 2، صفحہ 122)
حالانکہ جس قرآن کی طرف یہ پرویزی اپنی نسبت کرتے ہیں اسی قرآن میں ہی اتباع اور اطیعوالرسول کے الفاظ پندرہ سے زائد دفعہ آئے ہیں اور آپ کی اطاعت آپکی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ مزید قرآن ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو وحی(غیر متلو) قرار دیتا ہے۔
وما ینطق عن الهوی، ان ھو الا وحی یوحی
آپ صلى الله عليہ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بهی بات نہیں کرتے ، یہ (آپ کی باتیں) تو وحی ہیں جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے [53، 3]
4- قرآن موقف کے خلاف نظریہ ارتقا ء کی تبلیغ اور حضرت آدم علیہ السلام کی ذات کا انکار
”واذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة“(البقرہ: ۳۰)
ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانیوالا ہوں زمین میں ایک نائب۔
پرویزی ترجمہ:․․․” جب زندگی اپنی ارتقائی مناظر طے کرتی ہوئی پیکر انسانی میں پہنچی اور مشیئت کے پروگرام کے مطابق وہ وقت آیا کہ اپنے سے پہلی آبادیوں کی جگہ زمین میں آباد ہو“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۲)
یہاں پرویز نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو زبردستی ٹھونسا ہے،پرویز کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کا وجود ہی نہیں تھا‘ انسان مختلف ارتقائی مراحل طے کرکے بندر سے موجودہ شکل انسانی تک پہنچا ہے۔ایک جگہ لکھتا ہے
”آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا‘ بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا‘قصہ آدم کسی خاص فرد کا قصہ نہیں ‘ بلکہ خود آدمی کی داستان ہے‘ جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے الخ“۔(لغات القرآن جلد 1 صفحہ 214)
5- ملائکہ اور ابلیس کا انکار
”واذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدو الا ابلیس“ (البقرہ:۳۴)
ترجمہ:․․ اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان۔
پرویزی ترجمہ: ․”اس پر کائناتی قوتیں سب انسان کے آگے جھک گئیں‘ لیکن ایک چیز ایسی بھی تھی جس نے اس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا‘ اس نے سرکشی اختیار کی‘ یہ تھے انسان کے خود اپنے جذبات‘ جس کے غالب آجانے سے اس کی عقل وفکر ماؤف ہوجاتی ہے“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۳)
اگر ابلیس انسان کے اندر کے سرکش جذبات کا نام ہے تو ملائکہ کے سجدہ کے وقت پھر انکار کس نے کیا تھا؟؟؟؟ پرویز نے ملائکہ کا ترجمہ” کائناتی قوتوں“ سے کرکے فرشتوں کے وجود کا انکار کیا ۔دوسری جگہ انہیں نفسیاتی محرکات قرار دیتا ہے۔
”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں الخ“ (لغات القرآن جلد 1 صفحہ 244)
6- آخرت، جنت اور دوزخ کا انکار :
”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے‘ اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔(سلیم کے نام اکیسواں خط، جلد 2 صفحہ 124 )
”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں‘انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔(لغات القرآن جلد1 صفحہ 449 )
7- انکار واقعہ معراج:
جس طرح مرزا قادیانی کی شیطانی وحی والہام میں عجیب وغریب خرافات وکفریات ہیں اس طرح پرویز کی تفسیری نکات میں بھی آپ کو اسی طرح کے لطیفے نظر آئیں گے۔ سورۃ البقرہ کی آیت ( ویسألوُنکَ عن المَحیض )(ترجمہ :اور تجھ سے پوچھتے ہیں حکم حیض کا) ) پرویز اسکا ترجمہ کرتا ہے'اس کا مطلب ہے سرمایہ دارانہ معاشی نظام جیسے خرافات وضلالات نظرآئیں گے' ۔ اس طرح سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کے حوالے سے لکھتا ہے۔
”واقعہٴ اسراء“اگر یہ خواب کا نہیں تو یہ حضور کی شب ہجرت کا بیان ہے‘اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی‘جسے آپ نے وہاں جاکر تعمیر فرمایا“۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 732)
دوسروں کو ”ملائیت اور دقیانوسیت کا طعنہ دینے والے پیران نابالغ بتلاتے ہیں کہ 'مسجد اقصی' سے مراد' مسجد نبوی' ہے۔
8-پرویزی شریعت اور حلا ل حرام
قرآن کی رو سے صرف مردار، بہتا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں ان کے علاوہ کچھ حرام نہیں۔۔ ہمارے مروجہ اسلام میں حرام و حلال کی جو طولانی فہرستیں ہیں وہ سب انسانوں کی خود ساختہ ہیں" (حلال و حرام کی تحقیق ، ماہنامہ طلوع اسلام مئی 1952)
یوں شریعت پرویز میں کتے، بلے، گدھے، سانپ، کچھوے، مینڈک، کیڑے سب حلال ہیں۔
9- نماز کی حقیقت
”وارکعوا مع الراکعین“۔ (البقرة :۴۳)
ترجمہ:․․ ”نماز پڑھو نماز والوں کے ساتھ“ (آیت میں نماز باجماعت کی تاکید ہے)
پرویزی ترجمہ: ․”اور اسی طرح تم بھی اب ان کے ساتھی بن جاؤ جو قوانینِ خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۶)
نماز اور دیگر عبادات کے بارے میں پرویز کی مزید تعلیمات ملاحظہ فرمائیے۔
”ہماری صلوٰة وہی ہے جو (ہندو) مذہب میں پوجاپاٹ کہلاتی ہے‘ ہمارے روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت‘ ہماری زکوٰة وہی شئے ہے جیسے خیرات‘ ہمارا حج مذہب کی یاترا ہے‘ ہمارے ہاں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے‘ یہ تمام عبادات اس لئے سر انجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے‘ نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ‘ آج ہم اسی مقام پر ہیں جہاں اسلام سے پہلے دنیا تھی“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۰۱ تا ۳۰۲)
10- انکار زکوٰة
پرویز نے”اقیموا الصلوٰة“ کی باطل اور من گھڑت تشریح کیساتھ اسلام کے دوسرے عظیم الشان حکم ”واتوا الزکوٰة“ کی بھی باطل تاویل کی ہے، زکوٰة کو سرے سے فرض ہی نہیں سمجھتا ،اسے ایک ٹیکس قرار دیتاہے:
”زکوٰة اس ٹیکس کے علاوہ کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے‘اس ٹیکس کی کوئی شرح مقرر نہیں کی گئی“۔ (قرآنی فیصلے ص: ۳۵)
11- انکار معجزات :
”رسول اکرم کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا“۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 731)
12- قربانی پیسے کا ضیاع ہے:
”قربانی کے لئے مقام ِحج کے علاوہ اور کہیں حکم نہیں اور حج میں بھی اس کی حیثیت شرکائے کانفرنس کے لئے راشن مہیا کرنے سے زیادہ نہیں ہے‘ (پرویز کے ہاں حج کا مفہوم ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے) مقامِ حج کے علاوہ کسی دوسری جگہ قربانی کے لئے کوئی حکم نہیں ہے‘ یہ ساری دنیا میں اپنے اپنے طور پر قربانیاں ایک رسم ہے‘ ذرا حساب لگایئے‘ اس رسم کو پورا کرنے میں اس غریب قوم کا کس قدر روپیہ ہرسال ضائع ہوجاتاہے“۔ (قرآنی فیصلے ص:۶۹)
یہ چند کفریات ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ذکر کئے گئے، ان میں ہی واضح ہے کہ پرویز نے سارا اسلام قرآن ، حدیث، تمام عبادات، تمام احکامِ شرعیہ بیک جنبش قلم ختم کردیئےہیں پھر بھی اصرار ہے کہ اسے اور اسکے ماننے والوں کو مسلمان اور اہل حق کہا جائے ۔تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ ”ضروریات ِ دین" (جن کا دینِ اسلام سے ہونا قطعی ہے) کا صریح انکار کرنے والا، ان میں چودہ سوسال سےراجح تعبیر کے خلاف تاویل کرنے والایا انکا مذاق اڑانے والا کافر ہوجاتا ہےجیسے مرزا غلام احمد قادیانی اپنے سینکڑوں کفریات کے علاوہ ختمِ نبوت اور نزولِ مسیح علیہ السلام کے معنی میں تاویل کرنے کی وجہ سے باتفاق امت کافر ہے اسی طرح غلام احمد پرویز بھی اپنی تحریرات وتالیفات میں کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، قربانی ، آخرت وغیرہ کے انکار اور مفہومات بدلنے کی وجہ سے کافر ہوگیااور پاکستان ، سعودی عرب ،کویت‘ بھارت ، جنوبی افریقہ، شام ومصر وغیرہ کے اکابر علماء پرویزیوں کے عقائد ونظریات کا مطالعہ اور تحقیق کرنے کے بعد ان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرچکے ہیں۔
منکرین حدیث دوستوں سے کچھ سوالات :
- آپ احادیث کے ذخیرہ کو عجمی افراد کی کارستانی بتاتے ہوئے آپ امام بخاری کو ایرانی بتاتے ہیں ،حالاں کہ وہ ایرانی نہیں، بخارا کے باشندے تھے، اگر عجمی ہونا جرم ہے تو آپ کے پرویز سمیت تمام ہندوستانی اکابر بھی ما شا ء الله عجمی ہی ہیں ، پرویز کی تو 'پ' پکار پکار کر ان کے عجمی ہونے کااعلان کر رہی ہے یہ حرف تو عربی حروف میں موجود ہی نہیں۔۔ اب یہ بتائیے کہ عجمی بخاری کی بات ماننا گمراہی کیوں ہے اور آپ جیسے عجمیوں کی بات ماننا اسلام کیوں ؟
- آپ ہی بتائیے جن محدثین کی مادری زبان عربی تھی اور ان کی زندگیاں عربوں ہی کے درمیان گزریں، وہ تو بقول آپ کے حدیثیں اکٹھا کرنے کے جرم میں عجمی سارش کے آلہ کار ٹھہرے، لیکن ایک عجمی غلام احمد پرویز جو ساری زندگی زبان عرب سے بھی محروم رہا او رماحول عرب سے بھی محروم رہا ،وہ کیسے مقتدا اور پیشوا بنا دیا گیا؟ کہیں اس کا ظہور اور دعویٰ ہی عجمی سازش تو نہیں؟
- عجیب بات یہ ہے کہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کا اجماع اور عمل تو آپ کے نزدیک حجت اور درست نہیں اور نہ ہی ان کی اطاعت جائز ہے، چودہویں صدی کے منکرین فقہ وحدیث کی تقلید آپ کے لیے کس وحی کی رو سے جائز ہو گئی؟
- نماز کے طریقہ، رکعتوں، فرائض و واجبات کی تعداد کا ذکر قرآن مجید میں نہیں، ان کی تعداد کون اور کیسے مقرر کریں گا؟
- یہ تو انصاف نہیں کہ زکوٰة کی شرح میں تو کمی بیشی کی جاتی رہے اور بے چاری نماز اپنے پرانے طریقے پر رہ جائے۔ کیا آپ یہ حکم دیں گے کہ فارغ مولوی یا صوفی تو فجر کی نماز بیس رکعت فرض پڑھا کریں اور ملازم پیشہ لوگ سائیکل چلاتے ہوئے ہی اشارے سے رکوع سجدہ کر لیا کریں تو ان کی نماز ہو جائے گی؟
- آپ کہتے ہیں کہ زکوٰة صرف اسلامی حکومت کو ہی ادا کی جاسکتی ہے، موجودہ حکومتوں کو آپ اسلامی حکومتیں نہیں مانتے۔ اس صورت میں زکوٰة کس کو ادا کی جائے ؟
آخر میں حدیث وسنّت کے بارے میں قرآن مجید سے صرف دو چار آیتیں نقل کی جاتی ہیں۔
-
﴿وانزل الله علیک الکتب والحکمة﴾
ترجمہ: اورالله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر قرآن اورحکمت نازل فرمائی'
بتائیے حکمت کو کتاب( قرآن) سے الگ کیوں بیان کیا گیا؟ حکمت سے سنت یا حدیث مراد لینا کیوں درست نہیں ؟
- ﴿یا ایھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله ورسولہ﴾
'اے مومنوا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم سے سرتابی نہ کرو'
رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کو حدیث کہنا کون سا گناہ ہے؟
منکرین حدیث کے متعلق نبی علیہ السلام کی پیشن گوہی
ترجمہ: ”مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا۔ سن رکھو! مجھے قرآن بھی دیاگیا اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال سمجھو! حالانکہ اللہ کے رسول کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی حرام بتلائی ہوئی۔“
الحدیث. (رواہ ابوداود، دارمی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۹)
اس شہادت کے بعد اہل ایمان کے لئے شک اور تردد کی گنجائش ظاہر باقی نہیں رہتی البتہ جن سے ایمان کی دولت ہی کو سلب کرلیا گیا ہو، کس کے اختیار میں ہے کہ ان کو تشکیک کے روگ سے نجات دلاسکے اور کونسا سامان ہدایت ہے جو ان کیلئے سود مند ہوسکے۔جیسا کہ قرآن خود بتا رہا ہے: ”فَمَا تغنِ الآیات والنُذر عن قومٍ لا یوٴمِنون“ (جن کو ایمان نہیں لانا ہے ان کیلئے نہ کوئی آیت سود مند ہوسکتی ہے نہ کوئی ڈرسنانے والے)۔
الله تعالیٰ ہی سمجھ اور ہدایت نصیب فرمائیں ۔
12 comments:
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنیاد پرست بھائی بہت خوب
اللہ کرے زور قلم اور ذیادہ
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے۔
بہت خوب جناب۔
بہت ہی جاندار تحریر ہے۔ امید ہے آپ اسی طرح سے دین اسلام کے خدمت میں لگے رہیں گے۔
سیاق و سباق سے کاٹ کے حقایق تبدیل کرنا مناسب نھیں آقاے نامدار صلى الله عليہ وسلم اور صحابہ اکرام کی سیرت داغدار کرنے وا لے راویوں کا اتنا تحفذ آپ اللہ تعالی کو کیا منہ دیکھایں گے آپ نے لکھ اہندوستان میں اس فتنہ کو پهیلانے اور ابتداء کرنے والے لوگوں میں سرفہرست سرسید احمد خان تھے ۔ جناب ان پر تو انگریز کی زبان سیکھانے پر بھی کفر کے فتوے لگے تھے مگر آج 200 سال بعد تمام مدارس میں انگریزی تعلیم کے بغیر گزارہ نھیں کیا علما کرام کو 200 سال بعد سمجھ میں آیا ؟ کہ سرسید نے ٹھیک کیا تھا زرا سوچیں ھمیں راوی زیادہ عزیز ھونے چاھیے یا رسول کریم صلى الله عليہ وسلم و صحابہ اکرام ؟ براے کرم تتفکرو ۔ جن کومیرے رسول کریم ( صلى الله عليہ وسلم) سے بڑھ کر کوی اور عزیز ھو وہ میرے عزاب کا انتظار کرے (مفھوم ) کبھی فرصت ملے تو جزبات سے نکل سوچیے گا میرے برادر ڈاکٹر اسلم نوید
سرسید احمد خان نے جو کیا اسی کی سزا ہماری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے، ترقی کے دھوکے میں غلام بنوادیا، نہ خدا ملا نہ وصال صنم ۔ ہمیں انگریزی بحیثیت زبان سیکھنے پر اعتراض نہیں بلکہ اسکو ایک کلچر کے طور پر قبول کرنے پر ہے۔ سرسید کی خدمات پر تفصیلی تبصرہ ہم یہاں پیش کرچکے ۔
http://bunyadparast.blogspot.com/2011/10/blog-post_28.html
تم لوگوں کی دورخی پر بھی حیرت ہوتی ہے جن ہاتھوں سے قرآن تم تک خالص پہنچا ان ہاتھوں سے پہنچی حدیث تمہیں مشکوک لگتی ہے۔حامل دونوں کے ایک ہی لیکن ایک چیز مشکوک اور تحریف شدہ دوسری اصل اور کامل، یہ کیسا انصاف ہے تمہارا؟۔ قرآن کامل اور صاحب قرآن کا کلام ناقص، حالانکہ دونوں ایک ہی زبان سے نکلے۔ حدیث پر اعتراض خود قرآن کو بھی مشکوک بنادیتا ہے اور قرآن کی تعلیم کو متضاد ۔ اس پر اعتراض وہی کرتا ہے جو نفس پرست اور جاہل ہے ، جسے اسلامی ماخذ اور قوانین کا علم نہیں۔ حدیث اور راویوں پر ہم یہ تحریر لکھ چکے ۔
http://bunyadparast.blogspot.com/2012/02/blog-post.html
جزاک اللہ بہت عمدہ تحریر ،،،اس فتنے پر مزید لکھیں یہ فتنہ ہمارے اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ بنتا جا رہا ہے۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا بہت خوب سچ کہا ہے عقل بڑی دولت ہے
علامہ غلام احمد پرویز زندہ باد
آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے۔کسی کو کافر اور فتنہ کہنے کا۔
یہ تو خدا کے حضور حاضر ہوگئے
باقی انکے مقلدین از سر نو اپنے عقائد کو درست کریں
جب اردو بولنے لکھنے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی اردو غزلیں نہیں سمجھ سکتے تو کلام الٰہی کیوں کر عام دماغ یا محدود سوچ کے حامل ج،ود پرست مبینہ علامء کرام کی سمجھ آسکتا ہے! اس کیلیے بہت سے بھی زیادہ کشادہ دماغی درکار ہے، جو کچھ مروجہ اسلام میں دکھائی دیتا ہے(نماز روزہ حج زکوۃ جہاد) ان خطوط پر چل کر کوئی 23 سال میں دنیا کا نقشہ تبدیل کرکے دکھائے۔۔۔ ضرورعزت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ کیا تھا کہ جس کو فارس نےمنظم معنوی تحریف کے ذریعے ایسا چھپایا کہ دوبارہ کوئی اس کتاب کو استعمال کرکے اللہ کا قانون قائم نہ کرسکے۔۔۔ پرویز صاحب کی نظر سے میں دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نمازی حاجی روزہ دار کے بجائے لیڈر،ایڈمنسٹریٹر، کامریڈ، لبرل، روشن خیال انقلابی دکھائی دیتے ہیں۔ آخر میں ایک بات کہ نقاد صاحب اس بات کو جھٹلا سکتے ہیں کہ الصلوۃ، الزکوۃ، تقوٰی، عباد، رکوع و سجود ور دیگر الفاظ کے وہ معانی قدیم عربی میں موجود نہیں جو پرویز صاحب نے قرآن کے مفہوم کے لیے استعمال کیے ہیں؟ اگر ہیں تو کلامِ الٰہی کو سمجھنے کیلیے ذہنی و لسانی وسعت کی ضرورت نہیں؟ جیسےفَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا دونوں کے پاتھ کاٹ دو یا اپنا نظام ایسا بناؤ کہ کسی عورت یا مرد کو چوری کی حاجت ہی نہ رہے۔۔۔ ربِ کائنات کی جانب سے ہاتھ کاٹنے کی بات مناسب لگ رہی ہے یا معاشی نظام بنانے کی طرف اشارہ ہے؟؟؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔