ہمارے معاشرے دو قسم کے لوگ اپنی مخصوص نظریہ اور خیالات کی وجہ سے مشہور ہیں ۔
ایک طبقہ اپنی جہالت کی وجہ سے اسلامی نظریہ میں بہت سی خرافات پیدا کیے بیٹھا ہےان کا ایک عقیدہ یہ بھی بن چکا ہے کہ مذہب کے نام پر کسی انسان کا غلاظت میں ڈوب جانا ،ولایت کی نشانی ہے ، چنانچہ ایک کام چور شخص کسی قبر کے قریب بیٹھ جائے اور پورا مہینہ پانی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے گندگی میں ڈوب جائے اور حجامت نہ کرنے کی وجہ اسکے داڑھی اور سر کے بال بھی بڑھ جائیں۔وہ کہتے ہیں یہ پیر صاحب ہیں، یہ اللہ کے ملنگ ہیں،پھر چرس اور افیون کے نشہ میں سارا دن گندگی میں پڑے رہنے کی وجہ سے بالاخر اسکے کپڑے بھی پھٹ کر علیحدہ جائیں ۔ وہ ننگا ہوکر پاگلوں جیسی حرکتے کرنے لگ جائے، وہ لوگ اسے ولایت کی آخری نشانی مانتے ہیں اور کہتے ہیں یہ پہنچی ہوئی سرکار ہے۔ بری امام،داتا دربار،سیہون شریف، اجمیر شریف انہی پہنچی سرکاروں سے بھرے پڑے ہیں۔
دوسرا وہ طبقہ ہے جس کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ، مغرب ہی انکا خدا اور شریعت ہے ۔ یہ مذہب بیزار ، احساس کمتری کا شکار لوگ دن رات انہی کے بھجن گاتے اور ہر جگہ انہی کا درس دیتے نظر آتے ہیں ۔مغرب سے نکلنے والی ہر اصطلاح ، ہر فیشن ، ہر نعرہ ان کے لیے وحی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ لوگ خود کو روشن خیال، موڈریٹ کہتے اور اس پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ مغرب کی اداؤں پر ایسے فریفتہ ہیں کہ اگر کوئی ان کے آگے مغرب کے خلاف قرآن وحدیث کا حوالہ دیتے ہوئے بات کردے یا کوئی مسلم فرد یا گروپ کسی بھی اہم مسئلہ، یا نکتہ یا کسی پالیسی پر مغرب کے ساتھ آوازۂ اختلاف بلند کرتا نظر آئے، اُس پر یہ فورًا ”بنیاد پرست“ کی مہر ثبت کر دیتے ہیں.
آئیے ہم دیکھتے ہیں یہ بنیاد پرستی اصل میں ہے کیا اور اسکی حقیقت کیا ہے۔
”بنیادپرست“ کی اصطلاح سب سے پہلے انیسویں صدی کی ہزاروی (Millenarian) تحریک سے جنم لینے والی امریکی پروٹسٹنٹ تحریک کیلئے استعمال ہونا شروع ہوئی، جوپھر بعد میں علیحدہ طور پر، بیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکہ کی مذہبی و غیر مذہبی زندگی میں دَر آنے والے جدید رحجانات کے بالمقابل استعمال ہونے لگی۔ یہ اصطلاح مذہبی مقالوں کے ایک مجموعہThe Fundamentals سے اخذ کی گئی جو 1909ء کو امریکہ میں شائع ہوا۔
بعد میں یہ اصطلاح کسی مذہب کے بنیادی عقائد سے جمنے اور سیکولرزم سے برأت کی صورت میں دیکھی اور سمجھی جانے لگی۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب کے پیروکاروں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سیکولرزم کے سحر سے آزاد ہو کر اپنے اصل مذہب میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور سیکولرزم کو محض مسترد کر دینے پر ہی اکتفانہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے مذاہب کی روشنی میں اس کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے خود کو منظم کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ اس کے مناسب متبادل تلاش کرسکیں۔ چنانچہ ہر مذہب میں اس کے اپنے اپنے بنیاد پرست پائے جاتے ہیں۔ مثلاً بنیاد پرست یہودی، بنیاد پرست بدھ، بنیاد پرست ہندو، وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو بنیاد پرستی ہمیشہ خبروں کی زینت بنی رہتی ہے اور جس کے لیے مغربی دانشور، صحافی اور منصوبہ ساز سب سے زیادہ متفکر و منہمک نظر آتے ہیں وہ صرف اور صرف ”مسلم بنیاد پرستی“ ہے.
”اسلامی بنیاد پرستی“ کی درست تعریف کیا ہونی چاہیے؟ اس کے لیے اب ہم اسے عیسائی بنیادپرستی سے پرکھ کے دیکھتے ہیں:
جو خصوصیات عیسائی بنیاد پرست تحریک کے لیے وجہِ امتیاز قرار دی جاتی ہیں ان میں انجیل کے ایک ایک لفظ کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہونے کا عقیدہ رکھے جانے کے ناتے اس کا ایک قطعی حجت کے طور پر تسلیم کیا جانا، اور اس کے الفاظ کے ظاہری معنی کی پیروی کرنا، نیز مسیح کی بن باپ پیدائش اور قیامت سے پہلے ان کی آمدِ ثانی، (کفار کے) مخلّد فی النار ہونے کا نظریہ، اور (اشاعت مذہب کے لیے) تبلیغی سرگرمیوں کا التزام کیا جانا وغیرہ امور شامل ہیں۔ تقریبا تمام عیسائی اس لحاظ سے بنیاد پرست قرار پاتے ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ان سب میں قرآن کے بعینہ کلامِ خداوندی ہونے پر کامل اتفاق پایا جاتا ہے۔ قرآنی احکام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تعلیم پر عمل کو ہی دنیا آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اگرچہ عیسائیوں کے ہزاروی نظریے جیسی کوئی خرافات مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی، تاہم یہ سب مسیح کی بن باپ پیدائش کے ساتھ ساتھ ان کے نزولِ ثانی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔یوں بنیاد پرستی کی ”عیسائی شرائط“ پر اگر پرکھا جائے تو تقریباً تمام ہی مسلمان اس طرح لازمی طور پر بنیاد پرست قرار پاتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت پر جمنے قرآن و سنت پر عمل کرنے والے کو بنیاد پرستی کا طعنہ دینے والے کسی کیٹگری میں آتے ہیں۔؟
3 comments:
ایسے لوگ لبربل ایکسٹریمسٹس کی کیٹیگری میں آتے ہیں ۔
اپ نے گندے لوگوں کا ذکر کیا
اور
روشن خیالوں کا
لیکن جی
ہم بھی ہیں ناں جی
مغرب کی تکنکی مہارت ، نظم اور بہت سے (سب نہیں)معاشرتی اصولوں کے معترف ہیں
اور قران کے احکام کو حرف اخر سمجھتے ہیں
ہمیں کس کیٹاگری میں دالیں گے؟؟
خاور صاحب مغرب کی جو باتیں ، اصول اچھے ہیں ان کے ہم بھی معترف ہیں۔ میں نے تو اوپر اس طبقے کا ذکر کیا جو صرف مغرب کی بات کو، سسٹم کو، تہذیب کو ہی اپنے لیے اسوہ حسنہ سمجھتا ہے اور سنت نبوی پر چلنے والوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ اور انہیں بنیا پرست، تاریک خیال، ترقی کا دشمن کہتا ہے۔ انکل ٹام بھائی نے انہیں اچھا نام دیا ہے۔
اگر آپ اس روشن خیال طبقے میں نہیں آتے تو لازمی طور پر آپ بھی بنیاد پرستوں میں شامل ہوجائیں گے۔
۔:)
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔