ہفتہ، 9 اپریل، 2011

کیا مسلمانوں کی تنزلی کے ذمہ دار دینی مدارس اور علماء ہیں ؟



ایک اردو بلاگر جناب فکر پاکستان نے  ہمیشہ کی  طرح  اپنے بلاگ پر یہاں علماءاور اسلام پر بلاوجہ تنقید کا رستہ نکالتے ہوئے امت کے زوال کا سبب علماءاور مدارس کو ٹھہرایا ۔ میں انکے اٹھائے گئے کچھ پوائنٹس کا جواب دینے چاہتا ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ فکر پاکستان صاحب جو زبان بول رہے ہیں وہ انکی مجبوری ہے، یہ جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے متعلق میں بنیاد پرستی یا مذہب پرستی میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اس مذہب بیزار طبقہ کا کام ہی ہر جگہ علمائے اسلام کی توہین اور تنقید کی راہ نکالنا ہے۔ آپ ان کی یہ پوسٹ ہی دیکھ لیں جناب فکر پاکستان نے پہلے  فرمایا کہ سقوط بغداد کے وقت علما مناظروں میں مصروف تھے، جب ان سے اس قول مجہول کا ریفرنس مانگا گیا تو انہوں نے ادھر ادھر قلابازیاں مارنی شروع کردیں اور آخر تک اپنی بات کا حوالہ نہیں پیش کرسکتے ۔انکی علمی حیثیت ملاحظہ فرمائیں کہ  علماءکو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرانے کے دلائل میں مسلم عیاش  حکمرانوں کے حالات گنوانے شروع کردیے۔موصوف نے موضوع سے ہٹ کر جو پوائنٹس اٹھائے انکے متعلق میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

کیا مناظرہ کرنا ناجائز فعل ہے؟

فکر پاکستان صاحب نے علمائے اکرام کا مناظرہ کرنے کو ایسے بیان کیا ہے کہ جیسے یہ کوئی معیوب بات ہے ۔حقیقت میں مناظرہ ایک قرآنی حکم ہے جس کا مقصد گمراہ لوگوں، فرقوں  سے بحث ومباحثہ کر کے انکے غلط نظریات و عقائد کی حقیقت کو  عوام کے سامنے بیان کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام بھی گمراہی سے بچ جائیں اور مخالف فرقہ کو بھی ہدایت کی راہ نصیب ہو۔ یہ مناظرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیے اور انکے بعد بھی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ہر دور کے علمائے حق کرتے آرہے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کا فتنہ خلق القرآن اور مجدد الف ثانی رحمہ کے مسئلہ وحدت الوجوو شہود کےمناظرے  مشہور ہے۔ مطلب مناظرے کرنا کوئی عیب کی بات نہیں۔ 

مدارس سے سائنسدان اور انجنئیر کیوں نہیں تیار ہورہے؟
جناب فکر پاکستان صاحب کو اعتراض ہے کہ علما اور مدارس سائنسدان، انجنیر کیوں نہیں تیار کررہے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں آپ کی یونیورسٹیاں علما اور مذہبی سکالر کیوں نہیں  تیار کررہیں۔ جناب  کا سوال ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ IBA, karachi ڈاکٹرز کیوں نہیں تیار کررہی، LUMS , Lahore سے سائنسدان کیوں نہیں تیار ہورہے۔ بھئی جس کا جو شعبہ ہے وہ وہی تیار کرے گی نا۔ مدارس کی ذمہ داری باعلم و عمل مذہبی سکالر تیار کرنے کی تھی، آپ اس پر بات کریں کہ کیا انہوں نے اپنے شعبہ کا حق ادا کیا یا نہیں ؟
جہاں تک مدارس و علما کی جدید تعلیم کا تعلق ہے اس کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مدارس میں جدید تعلیم کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ جامعہ الرشید کراچی جو اپنے شعبہ فلکیات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور  نے’  علما کے لیے ایم بی اے ڈگری کا سلسلہ شروع کیا ، جس کا تیسرابیج فارغ ہورہا ہے۔ اس طرح اسی مدرسے نے دنیاوی  جدید تعلیم یافتہ  جوانوں کے لیے کلیۃ الشریعہ کے نام سے چار سال میں عالم بنانے کا کورس شروع کیا ۔ اس کا بھی چوتھا بیج چل رہا ہے۔
 کیا یونیورسٹی اور  کالج بھی اپنے جوانوں کو اس طرح کی تعلیم دے رہے ہیں  ؟
 کیا  آج ہمارے ملک کی تباہی کے ذمہ دار سارے طبقے کا تعلق مدارس کے بجائے آپکی کالجوں، یونیورسٹیوں سے نہیں  ہے۔؟

میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر ہمارے معاشرے میں اسلام کی تھوڑی سی جھلک نظر آرہی ہے وہ انہی لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی تمام خواہشوں کو قربان کرتے ہوئے اپنی زندگیاں صرف اسلام کی ترویج و اشاعت و دفاع کے لیے وقف کردیں ہیں۔ میں اپنی بات کی ایک دلیل پیش کرتا ہوں۔ یورپ اور امریکہ میں آج سے ستر، اسی سال پہلے جو مسلمان جا کر آباد ہوئے، آپ آج جا کر انکے حالات دیکھیں، وہاں مدارس و مساجد کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج ان میں سے بہت سوں کی  اولادیں مذہب تبدیل کر گئیں ہیں، جو بچے گئے ہیں  ان میں بھی سوائے اسلامی نام کے کوئی مسلمانوں والی علامت نہیں ملتی۔   پچھلے تیس سالوں میں افریقی ممالک میں چالیس فیصد سے زائد مسلمان عیسائی ہوچکے ہیں۔ مسئلہ کیا ہوا ؟ وہاں اسلامی، ایمانی چارجنگ کا نظام میسر نہیں تھا، وہاں علما و مدارس موجود نہیں تھے جو  عیسائی مشنریوں کی اس یلغار کا مقابلہ کرتے۔
علماء کا معاشرے میں کردار
جب سے ذرائع ابلاغ واعلام پر باطل قوتوں اور یہودی دماغوں کا تسلط ہوا،تب سے سچ کو جھوٹ ،جھوٹ کو سچ کہنے ،مکروفریب کو دیانت وامانت کے پیرھن میں پیش کرنے اور نیک کو بد،بدکو نیک کے روپ میں ملفوف کرنے کا گورکھ دھندا روزافزوں ترقی پر ہے۔اس غلط پروپیگنڈے اور تزویری ڈھنڈورے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ”راہنمایان ملت وقوم“ کی کردار کشی اور ان کی خدمات جلیلہ ومفیدہ سے صرف نظر کرکے ان کے وجود مسعود پر انگشت نمائی کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کی نسبتی کڑیاں اور لڑیاں اس نبی آخرالزماں سے جاملتی ہیں جن کی آمد کی خبر پاکرظلمتوں کواجالوں کی کرن ملی۔جو اپنے بعد نورتوحید کی ضیا پاشی کے لیے ”نفوس قدسیہ“کی ایسی کھیپ وجماعت تیار کرگئے ،جن کے علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور ہوتی رہیں،جن کے دم سے جہالت کی شب تاریک کے افق پر معرفت کی صبح صادق طلوع ہوتی رہی۔ان کا وجود ہردورمیں ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾کا مظہر رہا۔”مدینة العلم “صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر علم وآگہی کے” خوشہ چینوں“کو اپنا نائب ووارث قراردے کر امت کے بقیہ طبقات پر ان کی فوقیت وفضیلت کی مہر استناد نقش فرمادی۔

تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والے فرد پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ خلافت بنو امیہ وبنو عباس کے عہد حکمرانی میں ہونے والی اسلامی فتوحات کا سبب جہاں محمدبن قاسم ،عقبہ بن نافع ،موسی بن نصیر اور طارق بن زیادجیسے جرات،بہادری اور غیرت ایمانی کا استعارہ بن جانے والے جرنیل بنے،وہاں ان مفتوحہ ملکوں اور علاقوں میں اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر منوانے کا سہرا ان مجتہدین اور علمائے ربانیین کے سر جاتاہے ،جن کی نتیجہ خیز کوششوں اور کاوشوں نے دین اسلام کی ابدی ودائمی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کی۔ابوحنیفہ ،احمدبن حنبل ،مجدد الف ثانی اور شیخ الہنداسی چمنستان معرفت وآگہی کے وہ گل سرسبد تھے،جنہوں نے اپنے اپنے معاشروں اورادوار میں پائے جانے والے عقائد ورسوم کے مابین حق وباطل ،صدق وکذب اور کھرے وکھوٹے کا فرق وامتیاز لیل ونہار کے تضاد کی طرح دنیاکے سامنے آشکاراکیا۔

آپ صرف برصغیر کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بت کدہ سرزمین پر اسلام کا پھریرا بلند کرنے والے محمد بن قاسم سے لے کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک اور مولانامحمدقاسم نانوتوی سے لے کر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تک، علماء وصلحاء،مفسرین ومحدثین ،مجاہدین و مبلغین اور فقہاء ومفتیین کی صورت میں ناموں اور کاموں کی ایک ایسی طویل فہرست نظرآئے گی جن کے ایمان وایقان،اخلاص وللہیت،حریت فکراوریقین محکم کی بدولت دنیا بھر میں سینکڑوں مسلمان آج بھی دین و مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مساجد ومدارس اور ارباب خانقاہ اپنے اوپر عائد ہونے والی پیغمبرانہ نیابت کی ذمہ داریوں کا نہ صرف کما حقہ ادراک رکھتے ہیں، بلکہ اپنی عملی،علمی اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر چراغ سے چراغ جلانے کا عمل پو ری آب وتاب سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ”دین قیم“کو تاصبح قیامت اس دھرتی پر قائم ودائم رہناہے۔اس کی نشرواشاعت،حفاظت وصیانت اور موثر دعوت کے لیے ایسے رجال کار کا ہونا ناگزیر وضروری ہے جو معاشرے اور سماج کو شر کے اوہام باطلہ و خیالات فاسدہ کی گلن اور سڑن سے بچاکرخیر کے افکارونظریات صحیحہ کی خوش بواورمٹھاس سے روشناس کراسکیں۔جو باطل کی ملمع سازی کو لباس حق کی شمشیرفاصل سے چاک کرسکیں ۔جن کے کردار میں میانہ روی ،راست بازی اور صداقت شعاری کی شمع فروزاں ہو۔امت کی چودہ سو سالہ نوشتہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ علوم وحی کے ان وارثوں اور جانشینوں نے زمان ومکان اور حالات کی ادلتی بدلتی اورالٹتی پلٹتی ہواؤں کے دوش بہ دوش چلنے کی بجائے ”قبلہ نما“بن کرملت کی گاڑی کو شاہ راہ ہدایت کی جانب گام زن کرنے کافریضہ مکمل استقامت وعزیمت ،تندہی وجان فشانی اور ہمت وشجاعت کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو علامات واخبارات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی علم کا اٹھ جانا اور گمراہی کا عام ہوجانا بھی ہے۔

عزیزان من!تھوڑی دیر کے لیے اپنی چشم بیناسے موجودہ زمانے پر نظر عمیق ڈالیے۔دیکھیے،سوچیے اور سمجھیے
․․․․․کیا یہ وہی زمانہ اوردورنہیں ؟جس کے بارے میں مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے آ ج سے چودہ صدیاں بیشترخبردی تھی کہ:”بے شک اللہ تعالی علم کو اپنے قبضہ میں ایسے نہیں لیں گے کہ اسے لوگوں کے سینوں سے نکال لیں ،بلکہ علماء کی موت کی صورت میں علم اٹھایا جائے گا۔یہاں تک کہ کوئی ایک عالم باقی نہیں بچے گا۔پھر لوگ ایسے ”سروں “ کو اپنا پیشوا اور مقتدا بنالیں گے جو نرے جاہل ہوں گے،جن سے سوال کیاجائے گا(دین کے بارے میں)تو عدم علم کی بنیاد پر فتوی دیں گے۔پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

کیا امریکہ بہادر کو ٹیکنالوجی کے بغیر شکست دینا ناممکن ہے ؟
موصوف فرماتے ہیں کہ امریکہ سے مقابلہ کرنےکے لیے برابر قد کا ہونا لازمی ہے۔ مجھے جناب کی اس بات پر کوئی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ جناب کے نام نہاد روشن خیال مذہب کے بانی جناب سید پرویزی مشرف صاحب بھی یہی بات کرکے ایک کال پر امریکہ بہادر کے آگے "لمے پیں گئے تھے"۔ انہوں نے بھی یہی باتیں کرنیں ہیں۔ جناب کی اس فلاسفی کو اگر ہمارے نبی بھی حق سمجھتے تو کبھی غزوہ بدر کا معرکہ رونما نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے موجودہ دور کی زندہ مثال بھی موجود ہے۔ کل مورخہ 8 اپریل ، 2011 کی پاکستانی اخبارات کی سرخیاں پڑھ لیں ، پاکستانی حکومت کا بیان ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کے ہم ذمہ دار نہیں۔ ۔ ۔ جناب مجھے بتائیں طالبان کے پاس کونسی جدید ٹیکنالوجی ہے ؟، انکے پاس کتنے کروز میزائل ہیں ؟، کتنے جدیدفائڑ طیارے ہیں ؟، وہ کونسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں جو انہوں نے دوسری دفعہ ایک  سپر پاور کو ناکوں چنے چبو ا دیے ہیں، آج اس عالمی دہشت گرد کو وہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا وہ پاکستان کو بیچ میں انوالو کر کے اپنی شرمندگی کو چھپانا چارہا ہے۔

مسلمان حکومتوں  کی تنزلی کے اصل ذمہ دار :
 حقیقت میں مسلمانوں کو ہر دور میں اصل نقصان غداروں نے پہنچایا ہے اس سقوط بغداد کے واقعہ کی وجہ بھی عیاش حکمران اور غدار بنے۔ آج کی طرح اس وقت بھی حکمران سب سے پہلے پاکستان کی نعرہ لگاتے تھے۔ جب بغداد کے ارد گرد کی ریاستیں لٹ رہی تھی تو اس کے حکمران شراب وکباب کی محفلوں میں مصروف تھے اور تاتاریوں کے ساتھ اندر ہی اندر معائدے کرتے ہوئے عوام کو تسلیاں دے رہے تھے کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ آج بھی  تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے ۔ افغانستان کے بعد بغداد دوبارہ لٹ گیا ہے اور ہمارے حکمران بھی وہی رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ اقبال کا ایک شعر پیش کرتاہوں، انہوں نے دو مصروں میں قوموں کے اتارو چڑھاؤ کو بیان کردیا ہے۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس ورباب آخر

کہ قومیں جب اٹھتیں ہیں تو انکے ہاں شمشیر و سان کی جھنکار ہوتی ہے اور جب ڈوبتیں ہیں تو ساز ، باجے انکی گٹھی میں پڑ چکے ہوتے ہیں۔تان سین  جیسے مراثی انکےآئیڈیل اور بہادر شاہ اور شاہ رنگلیلا جیسے عیاش انکے  لیڈر  بن چکے ہوتے ہیں۔
آج آپ دیکھ لیں اس قوم کی حالت’  گھر گھر موسیقی ، رقص و لہو و لعب جاری  ہے۔ اب تو ٹیلیویژن ٹاک شو میں اس بات پر اصرار کیا جارہا ہے کہ موسیقی حرام نہیں بلکہ حلال ہے اور محتاط رویہ ہے کہ اسے مباح قرار دیا جائے۔ کچھ منچلوں کا خیال یہ بھی ہے کہ موسیقی اگر عام کردی جائے تو پورے عالم کو دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ مطلب اب سازندوں اور رقاصاؤں اور اداکاروں کو موقع ملنا چاہیے تاکہ اقوام عالم میں امن قائم ہو سکے۔ آپ ذرا چشم تصور سے دیکھیں کہ بُش کو کسی ملک کو دھمکی دینا ہے تو وہ گٹار ہاتھ میں لئے تھرک رہا ہے۔ فلسطینی اور کشمیری مضراب لئے  اپنے وطن کی یاد میں نغمہ سرا ہیں ، طالبان کے ہاتھ میں کلاشنکوف کے بجائے تنبورہ ہے۔ شہر جل بھی رہا ہو تو کیا’ سیاست دان سارے یا توتالی پیٹ رہے ہیں یا طبلے پر سنگت دے رہے ہیں ۔ ایک طبقہ کے عقیدہ میں ویسے بھی جہاد جیسی اصطلاح خارج از کتاب ہو چکی ہے۔ سو چین کا سانس لیں ، اورناچتے گاتے زندگی گزاریں۔ہر آدمی کم سے کم خونریزی سے تو محفوظ رہے گا۔ موسیقی کے اثرات میں وحشت ہے دہشت تو نہیں۔ امت کو افیم کھلاکے نہ سہی موسیقی کے ذریعہ ہی سلا دیا جائے تاکہ دوسرے آسانی سے انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ ڈالیں۔اور پھر کسی کو کسی کے کاٹنے یا مارنے کی ضرورت بھی کیوں پیش آئے جب کہ وہ پہلے ہی مردہ ہو چکا ہو ، اب مرے ہوئے کو کیا مارنا۔

نہ صورت ہے مسلمانی نہ سیرت ہے مسلمانی
بھلا اس حال میں پھر کیا ہو تم پر فضل یزدانی
رہے ناکام گو تم کر چکے ہر سعی امکانی
مسلمان بن کے دیکھو کامراں پھر ہو بآسانی

31 comments:

UncleTom نے لکھا ہے کہ

بہت شکریہ بنیاد پرست بھای ۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

بپت شکریہ۔ ایک عرصے بعد کوئی اچھی تحریر پڑھنے کو ملی

وقاراعظم نے لکھا ہے کہ

جناب اس نام نہاد فکرمند کا کام ہی جھوٹ اور بہتان باندھنا ہے۔ بہر حال بہت اعلی اور مدلل تحریر ہے۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

مناظرہ کرنا ہرگز ناجائز عمل نہیں ہے اگر مناظرہ کسی ایسے موضوع کے لئیے کیا جائے جس سے امت ٹوٹنے کے بچائے آپس میں جڑے، ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں آج مسلم امہ کے مسائل ہی وہ نہیں ہیں جن میں یہ نام نہاد عالم حضرات پوری قوم کو الجھائے رکھتے ہیں، زرا مناظروں کے نوئیت تو دیکھو کے سن دو ہزار گیارہ میں یہ قوم کو کن مسلوں میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، رفع الیدین سے نماز پڑھنے سے نماز ہوتی ہے یا رفع الیدین کئیے بغیر نماز جائز ہے؟ دورد و سلام بیٹھہ کر پڑھنا چاہئیے یا کھڑے ہو کر؟ نظر و نیاز جائز ہے یا ناجائز؟ تقلید جائز ہے یا ناجائز؟ امامہ کس رنگ کا پہننا چاہئیے سبز رنگ کا سفید رنگ کا ؟ داڑھی کا سائز کیا ہونا چاہئیے، مونچھیں ترشوانی ہیں یا بلکل صاف رکھنی ہیں؟ میلاد جائز ہے یا ناجائز ہے؟ قرآن خوانی جائز ہے یا ناجائز ہے؟ شعیہ حق پر ہیں؟ دیوبندی حق پر ہیں؟ بریلوی حق پر ہیں؟ یا اہل حدیث حق پر ہیں؟۔ امت مسلمہ اپنی کم علمی اور جاہلت کی وجہ سے پوری دنیا میں زلیل و خوار ہورہی ہے دور جدید سے ہم آہنگ ہونا تو ایک طرف دور جدید کو کفر قرار دیا جارہا ہے، جو کے بنیادی وجہ ہے مسلمانوں کے زوال کی، اس پر کوئی بات نہیں کررہا تعلیم کے حصول پر کوئی مناظرے نہیں کررہا، جہالت اس وقت کفر کے برابر ہے مگر جہالت کو ختم کرنے کے لئیے کوئی مناظرے نہیں کررہا، ٹیکنالوجی کے حصول کو کفر قرار دیا جارہا ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ کوئی عالم یہ حدیث نہیں بیان کر رہا کے مسلمان اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے، آج پوری مسلم امہ میں سے کوئی ایک بھی ملک دور حاضر سے ہم آہنگ ہے ؟ مگر اس پر مناظرے نہیں ہورہے جو کے اصل جڑ ہے امت مسلمہ کی۔ مناظرے ہر اس موضوع پر کیئیے جارہے ہیں جو کے فروعی مسلے ہیں، بیشمار احدیث ہیں جن میں حضور پاک صلی علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کے، جو ایسا کرے وہ ہم میں سے نہیں جو ویسا کرے وہ ہم میں سے نہیں، جو کم تولے وہ ہم میں سے نہیں، جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں، جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اسکا پڑوسی بھوکا سو جائے وہ ہم میں سے نہیں، جبکہ یہ ساری خوبیاں آج مسلمانوں میں موجود ہیں مگر اس کے لئیے کوئی مناظرے نہیں ہورہے، غربت کیسے ختم کرنی ہے، جہالت کیسے ختم کرنی ہے، بھائی چارگی کی فزاء کیسے قائم کرنی ہے اس پر کوئی مناظرے نہیں ہورہے۔ ہر اس بات پر مناظرے ہو رہے ہیں صرف جس سے انکے اپنے فرقے ان کے اپنے مسلک پر ضرب پڑتی دکھائی دیتی ہے جس سے انکی دکانیں بند ہوتی نظر آتی ہیں، موصوف نے اپنی بات ثابت کرنے کے لئیے کچھہ حدیثوں کا سہارا لیا ہے تو یہ بھی حدیث سن لیں کے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کے، ایک وقت آئے گا کہ علماء میٹھی بات کریں گے ایسے جیسے ان کے منہ سے شہد ٹپک رہا ہو اور وہ دین سے دنیا کو کمائیں گے۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

پھر موصوف فرماتے ہیں کے یونیورسٹیاں مذہبی اسکالر کیوں تیار نہیں کر رہیں؟ موصوف کی لاعلمی پر ماتم کرنے کا دل چاہ رہا ہے انہیں چاہئیے زرا مدرسے سے نکل کر کسی یونیورسٹی کے سبجیکٹ کی لسٹ پر ہی نظر ڈال لیں تو موصوف کو اندازہ ہوگا کے یونیورسٹیاں اسلامک ہسٹری سے لے کر اسلامک اسٹڈیز تک ہر سبجیکٹ میں ماسٹرز کروا رہی ہیں۔ اور پھر انتہائی احمقانہ دلیل دے رہے ہیں کے جدید تعلیم دینا مدرسوں کا کام نہیں ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے دور سے ہی علم و تحقیق کے لئیے مدارس قائم کردئیے گئے تھے، جہاں ہر طرح کی تعلیم و تحقیق کے لئیے اس وقت کے پڑھے لکھے لوگوں کو مقرر کیا گیا تھا، یہ اسکول یونیورسٹیاں تو ابھی کل کی ایجاد ہیں جبکہ قرآن نے تو چودھہ سو سال پہلے ہی مسلمانوں اور پوری دنیا کے لوگوں کے یہ پیغام دے دیا تھا کے ہم نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جسکا علاج نہ رکھا ہو، غور کرو، فکر کرو، تدبر کرو، تفکر کرو، تلاش کرو ہم نے اس کائنات میں ہر ہر چیز رکھی ہے، سمندروں میں کیا ہے آسمانوں میں کیا ہے ڈھونڈو تلاش کرو، تو یہ سب کام تو مسلمانوں کے کرنے کے تھے میرے بھائی جو کے کفار کر رہے ہیں، ہم نے علم کو صرف اور صرف دین تک محدود کر کے رکھہ دیا کے علم تو صرف دین کا ہوتا ہے دنیا کا تو ہنر ہوتا ہے، یہ سب سے بڑی غلط تشریح کر کے بتائی گئی قوم کو جسکا خمیازہ آج پوری مسلم امہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے، مسلمان کو تو ٹرینڈ سیٹر بننا تھا ان زنگ آلود زہنیت والوں کی وجہ سے مسلمان آج تک ٹھیک سے فالوور بھی نہیں بن پایا، موصوف کا یہ کہنا کے مدرسوں کا کام صرف دین کی تبلیغ کرنا ہے یہ اسلام کے ساتھہ انتہائی بھونڈا مذاق ہے، جنگ بدر میں جو کفار قیدی بنا کے لائے گئے تھے ان سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے جو قیدی پڑھا سکے دس مسلمانوں کے وہ آزاد ہوگا، تو اگر ان کے نزدیک مدارس کا کام صرف دین کی تبلیغ کرنا ہے یا علم صرف دین کا علم حاصل کرنے کا نام ہے تو موصوف یہ بھی بتا دیں کے کیا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے کیا دین سیکھانے کے لئیے کہا تھا مسلمانوں کو ؟۔ قصور موصوف کا نہیں ہے مسلہ یہ ہے کہ یہ جن کے پیچھے آج تک چلتے آئے ہیں ان لوگوں نے انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اپنے پاس گروی رکھہ لی ہیں اور ان کے دماغوں میں اسلام کی اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے فرقے کے حساب سے کی گئی تشریحات پھر دی ہیں، یہ بیچارے نکل ہی نہیں سکتے ان کے چنگل سے۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

پھر موصوف فرماتے ہیں کے آج ہمارے معاشرے میں اسلام کی جو تھوڑی سی بھی جھلک ہے وہ ان ہی مدارس اور ان ہی علماء اکرام کی وجہ سے ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کے ان ہی لوگوں کی وجہ سے تو پاکستان میں اسلام کی جھلک تک نظر نہیں آتی، اسلام اور مسلمان ہیں کہاں پاکستان میں؟ یہاں مسلک دیوبند ہے، مسلک بریلوی ہے، یہاں سلفی ہیں یہاں شیعہ ہیں یہاں وہابی ہیں، او بھائی مسلمان کہاں ہیں یہاں؟ مسلک ہیں یا فرقے ہیں اسلام کہاں ہے پاکستان میں؟ کوئی ایک بڑا نام بتا دیجئیے جو خود کو کسی مسلک یا فرقے سے وابسطہ نا کرتا ہو، صرف کوئی ایک بڑا اور معتبر نام بتا دیجئیے دور حاضر کے پاکستان میں؟ اور اگر آپ کے نزدیک یہ دیوبندی ہونا بریلوی ہونا، سلفی ہونا، شعیہ ہونا یا وہابی ہونا ہی اسلام کی روح ہے تو پھر مجھے اسلام کی روح سے ثابت بھی کر دیجئیے کے فرقہ بندی اور مسلک پرستی اسلام میں جائز ہے، یہ سب اپنی اپنی دکانیں چمکانے والے مداری ہیں مذہب کو بیچنے والے مذہب فروش ہیں، آخری خطبے کی روح کو سمجھہ کر پڑھہ لئجئیے پھر بھی اگر آپ بضد رہے کے یہ ہی اسلام ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے مسلمان تو پھر آپکو اور آپکے جیسی زنگ آلود زہنیت رکھنے والوں کو ہی مبارک ہو ایسا اسلام۔ میں جس اسلام کو مانتا ہوں اس میں فرقہ بندی مسلک پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، وہ اسلام لوگوں کو جوڑتا ہے، مسلک اور فرقوں کے نام پر لوگوں کو توڑتا نہیں۔ پھر موصوف معاشے میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ایران اور توران کی قلابیں ملاتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ قوم کے اصل اور بنیادی مسائل کی ان نام نہاد علماء کی نظر ہی نہیں جاتی کبھی، اس وقت علماء کا کردار یہ ہونا چاہئیے تھا کہ وہ لوگوں میں انکے بنیادی حقوق کا پرچار کریں، لوگوں کو بتائیں کے ایک اسلام نے شہری کو کیا کیا حقوق دئیے ہیں، معصوم بچے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں چائلڈ لیبر لی جارہی ہے پاکستان میں، اس پر کبھی بات کیوں نہیں کرتے یہ لوگ؟ کبھی کسی عالم نے کہا کے حکمران چائلڈ لیبر پاکستان سے ختم کریں ورنہ ہم تحریک چلائیں گے لوگوں کو موٹی ویٹ کیا اسطرف کسی عالم نے؟ صفائی نصف ایمان ہے، پورا معاشرہ گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے مساجد کے سامنے گندگی اور غلاضت کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، مساجد کے استنجہ خانے ایسے بدبودار کے سانس روک کر بھی کوئی اس میں جانا گواراہ نا کرے، کبھی اس طرف دھیان دی کسی عالم نے؟ یہ معاشرے کی گندگی کیا صاف کریں گے یہ تو مساجد کے استنجہ خانے صاف نہیں کروا سکتے، بنتے دین کے ٹھیکےدار ہیں، گورنمنٹ نے کم از کم تنخواہ سات ہزار روپے رکھی ہے، کوئی عالم مجھے کر کے دکھائے آج کے دور میں سات ہزار میں گزارہ، عام شہری کی تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ہونی چاہئیے، یہ مطالبہ کیا کبھی کسی عالم نے؟ حدیث ہے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ہے، غربت سے انبیاءاکرام نے پناہ مانگی ہے، غربت کے دلدل سے کیسے نکلنا ہے کبھی یہ بتایا کسی عالم نے؟ جہالت اور غربت کے خلاف آواز اٹھائی کبھی کسی عالم نے؟ یہ ہے قوم کا اصل مسلہ اس کے لئیے کبھی آواز اٹھائی کسی عالم نے؟ اسکے لئیے ہڑتال کی کبھی کسی نے؟ گورنمنٹ مدرسوں میں اصلاحی ترمیم کرنے کا بل پاس کرنے کا کہتی ہےتو پھر دیکھو کیسے یہ سب ایک ہوجاتے ہیں اور سڑکوں پر آجاتے ہیں اس جاہل قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں، پھر ہڑتالیں بھی کرتے ہیں احتجاج بھی ہوتا ہے پھر گورنمنٹ کو دھمکایا بھی جاتا ہے اور اپنے مطلب کے مطالبات منوا کر واپس اپنے اپنے بلوں میں چلے جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں معاشرے میں عالم کا کردار؟۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

پھر موصوف نے فرمایا کے امریکہ کو بغیر ٹیکنالوجی کے شکست دی جاسکتی ہے، اور اسکی مثال انہوں نے جنگ بدر کی دی، پہلے بھی عرض کیا تھا کے تعداد بھلے مسلمانوں کی کم تھی مگر ہتھیار دونوں جانب ایک جیسے ہی تھے، جبکہ آج معاملہ زمین اور آسمان کے فرق کے برابر آچکا ہے، ہم تو آج تک بھی تیر اور تلوار تک ہی محدود ہیں یہ جو ایٹم بم اور آج کے جدید ہتھیار ہیں یہ بھی کفار کے ہی بنائے ہوئے ہیں، پھر وہ ہی بات کہوں گا کے مومن اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے، بجائے ڈرون کا توڑ تلاش کرنے کے یہ جاہل آج تک بھی جذبات فروشی ہی کر رہے ہیں جنگ بدر میں بھی مسلمان اس وقت کے جدید ہتھیار سے لیس ہوکر لڑے تھے خالی ہاتھہ نہیں لڑے تھے، آج دشمن جدید ہتھیار سے لیس ہے اور ہم محض کھوکھلے نعروں سے لیس ہیں، انہوں نے قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر آج تحقیق کی تفکر کیا تلاش کیا کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی تو آج وہ اس مقام پر ہے کے ایک کمرے میں بیٹھہ کر بغیر پائلٹ کے ڈرون سے ہمیں تہس نہس کر رہا ہے، قرآن کا یہ حکم تو ہمارے لئیے بھی تھا تو ہم نے کیوں نہیں کرلیا یہ سب حاصل ؟ جب تک مسلمانوں کا رشتہ علم اور تحقیق سے جڑا رہا تب تک مسلمان بحر ضلمات میں گھوڑے دوڑاتا رہا، اب اگر وہ تعلیم اور تحقیق پہ ملکہ حاصل کرنے کے بعد بحرظلمات میں ڈرون دوڑا رہےہیں تو اس میں قصوروار کون ہے ہم یا امریکہ؟۔ اللہ کے واسطے نکلنے دومسلمانوں کو جہالت کے اندھیرے سے، اگر خود کچھہ نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم ان لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی مت کرو جو لوگ اسلام کی روح کے عین مطابق علم حاصل کر کے صحیح معنوں میں اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر موصوف فرماتے ہیں کے مسلمان حکومتوں کے زوال کے اصل زمہ دار غداروں کے قرار دیتے ہیں، تو چلو اس پر ہی بات کرلیتے ہیں کہ یہ غدار صرف مسلمانوں میں ہی پیدا کیوں ہوتے ہیں ؟ کبھی ایسا سنا کے کسی مسلمان ملک نے کسی یہودی کو خرید کر اسرئیل پر خودکش حملہ کروا دیا ؟۔ یہ بھی ہماری ہی کمزوری ہے ہمارا ہی قصور ہے اس میں کسی اور کو کیوں مورودالزام ٹھیراتے ہیں ہم ؟۔

darvesh khurasani نے لکھا ہے کہ

فکر پاکستان کے دینی طبقے پر اعتراضات کا جواب تو دوسرے بھائی دے چکے ہین لیکن یہ بات کہ ( صدیوں پرانا درس نظامی ) تو جناب درس نظامی میں تو قران کریم ، احادیث نبویہ ، عربی گرائمر اور عربی ادب ، علم میراث اور دیگر قوانین قضاء و حکم پڑھائے جاتے ہیں۔ اور یہ تمام علوم دور نبوت سے ہی زیر تعلیم ہیں۔
اب سمجھ میں نہیں آتا کہ درس نظامی کو مکمل جدت کیسے دیں ، کیا نیا قران بنائیں ، یا صدیوں پرانے احادیث کو چھوڑ کر اس صدی کے نئے احادیث بنائیں جائیں۔ یا قران و حدیث کو سمجھنے کیلئے عربی گرائمر کو چھوڑ کر اسکی جگہ انگریزی یا جرمن گرائیمر سکھایا جائے۔ میراث کے نبوی طریقہ تقسیم کو چھوڑ کر نیا امریکی طرز تقسیم پڑھایا جائے۔
کیا ایک بندہ ایک ساتھ ڈاکٹری اور انجینئرنگ کر سکتا ہے کہ دونوں کلاسیں ایک وقت میں لیں؟
اگر نہیں تو اسطرح موجودہ درس نظامی کا طالب علم بھی دوران طالب علمی انجینئرنگ وغیرہ نہیں کرسکتا ہے۔ہاں فراغت کے بعد اکثر علماء عصری علوم حاصل کرکے عوام کی راہنمائی کرتے ہیں۔
موجودہ اعلیٰ سائنسی تعلیم کیلئے تو پاکستانیوں نے ایچ ای سی بنایا تھا اور یہ مولوی اسکے حمایتی تھے لیکن آپ جیسے نادان پاکستانیوں نے جب خود اپنے اعلیٰ تعلیم کے راستے بند کردئے تو اس میں مدرسے اور درس نظامی کا کیا قصور؟

darvesh khurasani نے لکھا ہے کہ

یہ علماء حضرات آج کل اگر کسی کو کہے کہ کھانا ناک کے بجائے منہ سے کھاو تو فورا یہ نادان کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ مولوی کھانے کے مخالف ہیں۔
دوسری ایک سادہ سی بات کہ ہم یہ بات دیکھیں کہ ہمارے معاشرے اور ہمارے مذہب کا کونسا ایسا رکن ہے جو کہ ہمارے دشمن کے انکھوں میں کھٹکتا ہے ۔؟
اور یہ میڈیا اور یہ این جی اوز کس کے خلاف کام کر رہے ہیں اور آپ جیسے نادانوں کو آپ کے معاشرے کے کونسے اہم رکن کے خلاف اکسانے کی کوشش میں ہیں؟
ظاہر ہے کہ اسکا جواب یہ علماء کرام ہیں۔جدھر بھی جاو ان ملک اور اسلام دشمنوں نے انکے خلاف محاذ سجایا ہوتا ہے ۔ اخر کیوں کوئی وجہ تو ہے نا۔ایک غریب ملا کا نام سن کر کیوں وائٹ ہاوس کے مکینوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے؟
بر صغیر پر انگریز قبضے کے وقت کونسے طبقے کو سب سے زیادہ پھانسیاں دی گئی؟ اور کس کے لاشیں درختوں سے لٹکتی تھیں؟
ظاہر ہے کہ یہ علماء ہی تھے۔
اور اسی خطرے کو اقبال نے بھانپا تھا اور کہا تھا کہ انگریز کا اصل مقصد یہ ہے کہ
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو انکی کوہ و دامان سے نکال دو۔
اور اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
یہ لوح و قلم تمھارے ہیں اور تم ہی کو ملیں گے لیکن ذرا محمد (صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم) سے وفا تو کرو ۔ اسکے طریقے پر تو عاشق بن کر چلو۔ اگر نہ ملیں تو پھر کہنا ۔
لیکن یہاں حال الٹا ہے جو لوگ ہم کو نبوت کے طریقے کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں ہم الٹا انہیں کے دشمن بن جاتے ہیں تو بھلا پھر کامیابی کیسی۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

درویش خراسانی صاحب، تجزیہ کے لئیے بہت بہت شکریہ، پہلے تو آپ سے یہ عرض کر دوں کے مجھے میرے سوالات کے جوابات نہیں ملے میرے سوالات ابھی تک تشنہ ہیں آپ تبصروں میں سوالات پڑھہ سکتے ہیں اور جاہیں تو جوابات بھی دے سکتے ہیں، باقی جوابات تو چھوڑیں صرف اس بات کا ہی جواب لا دیں کے اسلام میں فرقہ بندی اور مسلک پرستی جائز ہے کے نہیں؟۔ درس نظامی پر اعتراض میرے جیسے لوگوں کا ہی نہیں ہے بلکے خود درس نظامی کیئے ہوئے علماء حضرات کا بھی اعتراض ہے اس پر، آپ نے یہ تو بہت ہی عجیب سی بات کی ہے کے ایک وقت میں دو طرح کے علوم کوئی کیسے حاصل کرسکتا ہے، ایک میڑک کا بچہ بھی چھہ سات طرح کے سبجیکٹ ایک ساتھہ ہی پڑھہ رہا ہوتا ہے، ڈاکڑ زاکر نائک ایم بی بی ایس، ہیں اور انکے دینی علوم کے بارے میں بھی آپ جانتے ہی ہونگے، اسلئیے یہ تو نا قابل قبول تاویل پیش کی ہے آپ نے، درس نظامی میں تبدیلی کا مطلب جو آپ نکال رہے ہیں وہ ہرگز نہیں ہے، تبدیلی سے مراد اس نظام میں وہ نصاب اور وہ علوم ہیں جو کے آج کی دنیا کی بنیادی ضرورت بن چکے ہیں، درس نظامی کرنے کے بعد اگر کوئی نئے سرے سے یہ سب علوم سیکھنا چاہئے تو اس کے لئیے انتہائی مشکلات ہوتی ہیں، ایک تو اسکی عمر کافی ہوچکی ہوتی ہے دوسرے اسکے سامنے معاشی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہوتے ہیں تیسرے وہ ذہنی طور پر ان علوم کو قبول کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا، درس نظامی کرنے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ کیا آپشن ہوتا ہے؟ کسی مسجد کی امامت، بچوں کو گھر گھر جا کر قرآن پڑھا لینا، یا پھر کسی کا نکاح پڑھا دینا، اسکے علاوہ اس کے پاس کیا زریعہ رہ جاتا ہے پیٹ پالنے کا؟

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

مسلمانوں کی بربادی کی وجہ ہی یہ ہے کے یہ بدلتے وقت کے ساتھہ نا چل سکے اور ساری دنیا سے بہت بہت بہت پیچھے رہ گئے۔ اللہ نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے جسکا مطلب ہمارے علماء حضرات نے صرف دین کا علم لے لیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ درس نظامی میں صرف دین کا ہی علم دیا جاتا ہے اور وہ بھی اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے فرقے کے حساب سے، دنیاوی علم کو ہنر کا نام دے دیا ان لوگوں نے یہ سب سے بڑا ظلم کیا گیا امت کے ساتھہ، اللہ نے کیوں کے قرآن میں ہی فرمایا ہے کے تحقیق کرو، تفکر کرو، تلاش کرو، کائنات کے اسرار و رموز ڈھونڈو، سمندروں میں کیا ہے آسمانوں میں کیا ہے جاو تلاش کرو، ہم نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جسکا علاج نہ رکھا گیا ہو، تو بھائی یہ سب حکم کیا صرف کافروں کے لئیے تھے قرآن میں؟ اور کیا درس نظامی یہ سب علوم کور کرتا ہے ؟ یہ ہے وہ وجہ جسکی وجہ سے درس نظامی پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور آج لوگ درس نظامی کی طرف نہیں آنا چاہتے کیوں کے یہ آج کے دور جدید سے بلکل بھی ہم آہنگ نہیں ہے، اگر اب بھی اس میں تبدیلیاں نہیں کی گئیں تو وہ کوئی نہیں پڑھائے گا اپنے بچوں کو یہ نا مکمل نظام۔ اللہ نے کائنات کے اسرار و رموز تلاشنے کے لئیے کہا ہے، اللہ رب عالمین ہے، کافروں نے اس نقطے کو سمجھا کے اللہ رب عالمین ہے رب عالم نہیں، یعنی اس دنیا کے علاوہ بھی اور کئی عالم ہیں اس نے اس نقطے کو ٹھیک سے سمجھا اور وہ نکل پڑا دوسرے عالموں کی تلاش میں اور چاند سے لے کر سیاروں تک پہنچ گیا، یہ ہے میرا اصل سوال کے قرآن کی ان تعلیمات کو کفار نے ہی کیوں سمجھا ؟ مسلمانوں نے کیوں نہیں سمجھا؟ مسلمان صرف درس نظامی کو ہی اپنی کل کائنات کیوں سمجھہ بیٹھا ہے؟ علامہ اقبال کا آپ نے حوالہ دیا ہے تو ان ہی علامہ نے فرمایا تھا کے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ان جہانوں تک کوئی مسلمان کیوں نہیں پہنچا؟ کفارہی کیوں پہنچ رہے ہیں ؟ اللہ فرما رہے ہیں کے ہم نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جسکا علاج نہ رکھا ہو، تو آج ہر بیماری کا علاج کفار ممالک سے ہی کیوں دریافت ہوتا ہے؟ ہارٹ سرجری، بائے پاس، کینسر، ٹی بی، سیکڑوں بیماریاں ہیں جنکا علاج کفار ہی دریافت کر رہے ہیں تو یہ حکم مسلمانوں کے لئیے نہیں تھا کیا ؟ میرے بھائی ایک نہیں ایک لاکھہ سوالات ہیں جنکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اور اسکی وجہ ہی یہ مسلمانوں کی لگی بندی گلی سڑی ذہنیت ہے جس سے وہ آج دو ہزار گیارہ میں بھی نہیں نکلنا چاہ رہے۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

اگر آپکو لگتا ہے کے اللہ کے یہ سارے احکامات صرف درس نظامی کے زریعہ حاصل کئیے جاسکتے ہیں تو آپ اپنے بچوں کو بڑے شوق سے پڑھائیے درس نظامی۔ اور اگر آپکو لگے کے فکر پاکستان کی بات صحیح ہے تو جائیے اور سوال کیجئے اپنے رہنماوں سے کے اللہ کے ان سب احکامات پر عمل کرنے کے لئیے کونسی تعلیم لینا پڑے گی ؟ ۔ در حقیقت تو یہ سارے علوم مسلمانوں کو ترتیب دینے تھے مگر مسلمان دین کے غلط تشریحات کی وجہ سے آج تک پیچھے رہ گیا وہ علم کے حصول کا ہی مطلب ٹھیک سے نہیں سمجہ پایا، ایک سازش کے تحت علم کو صرف دین کے علم تک محدود کر کے مسلمانوں کی ذہنیت کو زنگ لگا دیا گیا۔ جہاں سے جاگو وہیں سے صبح سمجھو مسلمان تو یہ سب علوم ترتیب نہیں دے سکے اب اگر کافروں نے یہ سب علوم ترتیب دے ہی دیئے ہیں تو ان علوم کو خود بھی پڑھہ لو اور اپنی اولادوں کو بھی پڑھا دو تاکے وہ مکمل انسان بن سکیں، اور اگر اس ہی لگی بندی ذہنیت کے تحت ہی زندگی گزارنی ہے جس لگی بندی ذہنیت کی وجہ سے آج مسلمان علم اور ٹیکنالوجی میں ساری دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں تو پھر تو کوئی مسلہ نہیں ہے لگے رہو صرف درس نظامی میں ہی۔ مگر یہ طے ہے کے دین و دنیا کی کامیابی دونوں طرح کے علوم حاصل کرنے کے بعد ہی ملے گی۔ کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کے صرف درس نظامی کرنے کے بعد اسے جنت مل جائے گی تو وہ اللہ کے اس سوال کے لئیے بھی تیار رہے کے ہم نے قرآن میں تم سے کائنات کے اسرار و رموز جاننے کے لئیے بھی کہا تھا، ہم نے تم سے تمام عالموں تک رسائی کے لئے بھی کہا تھا، ہم نے تم سے تدبر تفکر کے لئیے بھی کہا تھا، ہم نے جو بیماریں اتاری انکے علاج تلاش کرنے کے لئیے بھی کہا تھا، میں نے تم سے انسانیت کی خدمت کرنے کے لئیے بھی کہا تھا۔ یہ جتنی ایجادات ہیں یہ درحقیقت انسانیت کی ہی خدمت ہیں، لاکھوں لوگ بغیر علاج کے ہی مر جایا کرتے تھے مختلف بیماریوں میں، جس جس نے بھی موضی بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے کیا اس نے انسانیت پہ احسان نہیں کیا؟ جب موتیا کا علاج دریافت نہیں ہوا تھا تو لوگ اندھے ہوجایا کرتے تھے اور اندھے ہی مر جایا کرتے تھے، جبکہ آج محض پانچ منٹ کے آپریشن سے بینائی لوٹ آتی ہے، یہ دریافت انسانیت پر احسان نہیں ہے؟ لاکھوں چیزیں ہیں ہمارے اور آپ کے ارد گرد جو مسلمانوں نے دریافت کرنی تھیں جنکا تعلق براہ راست انسانیت کی خدمت سے ہے مگر افسوس مسلمانوں کے کرنے کے کام کفار نے کئیے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کے ہم آج بھی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کے ہم غلط ہیں ہماری سوچ غلط لے ہماری تشریحات غلط ہیں۔ افسوس صد افسوس۔

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست صاحب آپکے جواب کا منتظر ہوں میں شدت سے اگر کوئی مدلل جواب نہ بن پڑے تو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان حقائق کو تسلیم کرلیجئیے گا اور ان لوگوں کو بھی حق اور صحیح جاننے کی تلقین کر دیجئیے گا جو لوگ آپکی جوابی پوسٹ پر واہ واہ کرتے ہوئے اپنا سر دھن رہے تھے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

فکر پاکستان صاحب انٹرنیٹ پر ایک دن رپلائی لیٹ ہوجانا عام ہے۔ آمنے سامنے گفتگو تو ہو نہیں رہی کہ میں کچھ گھنٹے آف لائن رہنے کی وجہ سے جواب نہیں دے سکا اور اسے آپ نے میرا لاجواب ہونا سمجھ لیا۔ الحمد اللہ ہم کسی ریت کی دیوار پر نہیں کھڑے۔۔ آپ کی ہر بات کا جواب دیں گے۔
ایک اور اہم بات میری آپ سے یہ بات چیت تنقید برائے تنقید نہیں، تنقید برائے اصلاح ہے۔ دوسرے تمام لوگوں کی طرح میں نے بھی آپ کے علما کے متعلق اریشنل خیالات پڑھے تو کچھ عرض کردیا، کہ آپ کی تصیح ہوجائے۔ امید ہے آپ بھی صرف ہٹ دھرمی دکھانے کے بجائے اس بحث کو فائدہ مند بنائیں گے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

پوسٹ نمبر ۱ کا جواب :
جناب فکر پاکستان صاحب آپ کو کس نے بتلا دیا کہ علما جہالت کے خلاف بات نہیں کرتے یا جدید علوم کے حصول ، جدید دور سے ہم آہنگ ہونے منع کرتے ہیں۔ آپ نے اپنا آئی ڈی فکر پاکستان رکھا ہوا ہے اور علم آپ کو پاکستانی لوگوں کا ککھ بھی نہیں۔ اگر پاکستانی میں رہتے ہیں تو یہ فضول بہتان لگانے کے بجائے جاکر کسی مستند مدرسے سے فتوی لیں وہ یہاں آکر پیش کریں کہ کس عالم نے منع کیا ہے کہ ڈاکٹر، سائنسدان، انجنیر نہ بنو۔ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں بھی اس پر بات کی تھی کی ہمارے مدارس نے علما اور غیر علما کے لیے مختلف جدید نوعیت کے کورسس شروع کیے ہیں ۔ آپ تفصیل اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
http://www.kulyatushariah.edu.pk/jrks/Page.do?id=6

آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ علما کے طرز عمل کو ان لوگوں کی زبان سے پڑھتے اور سنتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ہی ورثۃ الانبیآء کی توہین و تذلیل ہے ۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کبھی ذاتی طور پر بھی کسی عالم سے مل کر تفصیلات پوچھ لیں۔ اگر آپ کو اچھے عالم میسر نہیں تو میں آپ کو نمبر فراہم کرسکتا ہوں۔ اگر آپ یہاں بھی اپنی عقل کو حق سمجھتے ہیں تو میرا آپ کو چیلنج ہے آپ کسی مستند مدرسے کا جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے خلاف فتوی پیش کردیں۔ آپ اپنی انکل ٹام کو بھی آخر تک اپنی بات کو حوالہ نہیں دے سکے ، یہاں بھی آپ ایسا ہی کریں گے۔

جناب مفکر پاکستان صاحب۔
مناظر ہ ہمیشہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں کسی بات پر اختلاف ہوں۔ اسلام آیا ہی جہالت سے نجات کے لیے تھا، اور دنیا کا واحد مذہب جس نے انسانوں کو کائنات میں غوروفکر و تحقیق کا حکم دیا ہے وہ اسلام ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جدید علم اور ایجاد کی بنیاد کے پیچھے مسلم سائنسدان کا نام آتا ہے۔ مطلب اس میں دورائے نہیں ہیں کہ جدید علوم و تحقیق سے فائدہ اٹھانا چاہیے یا نہیں اس لیے ان پر مناظروں کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ باقی جہاں تک دینی مسائل میں مناظروں کی بات ہے وہ کوئی واجب کا درجہ رکھتے بلکہ یہ بوجہ ضرورت ہے۔ انگریز کے آنے سے پہلے برصغیر میں کوئی فرقہ واریت نہیں تھی صرف احناف کا مسلک چلتا تھا اس لیے ان مناظروں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ موجودہ دور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ہے جس میں آپ نے زمانہ آخرزمانہ میں دین اسلام میں مختلف فتنے پیدا ہونے کی پیشن گوئی کی تھی اب دوسرے تمام شعبوں علم وعمل‘ تقویٰ وطہارت‘ تصنیف وتالیف‘ تعلیم وتدریس‘ اصلاح وتربیت‘ تردیدِ باطل‘ احقاقِ حق‘ میدانِ جہاد ، میدان سیاست کے ساتھ ان فتنوں سے عوام کو بچانا بھی علمائے حق کی ذمہ داری ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جناب نے فرمایا کہ مناظرہ کرنا جائز ہے لیکن دین میں فتنہ اور فرقہ واریت پھیلانے والوں سے مناظرہ نہیں کرنا چاہیے، اگر ایک شخص اٹھ کر کہتا ہے کہ ابوبکر وعمر و عثمان سمیت تما م بڑے صحابہ کافر و زندیق تھے، ایک دوسرا بندہ آکر اللہ نبی ، سنت وبدعت میں فرق ختم کردیتا ہے، ایک مفکر آتا ہےآکر چودہ سوسال سے چلے آنے والی مذہبی تشریح و تحقیق کے مطابق عمل کرنے کو کفر کہہ قرآن و حدیث کی اپنی کی گئی تشریحات پر عمل کرنے کو کہتا ہے اور رفع یدین، اونچی آہستہ آمین، رکعات تراویح کو کفر اسلام کا مسلہ بنادیتا ہے، ایک گرگٹ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت پر حملہ کردیتا ہے اور ان فتنوں کے نتیجے میں عوام ملحد وکافر ہوجاتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ساری عوام کافر ہوجائے، اصل دین مٹتا ہے تو مٹے ،دین کی حیثیت ہی کیا ہے ،۔ آج کل اور بھی بڑے مسائل ہیں ، عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مغربی تہذیب و تمدن سے جہالت ہے ۔ اس جہالت کے خلاف مناظرے ہونے چاہیے، ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے مناظرے ہونے چاہیے۔ مسجد میں اعلان ہونا چاہیے آج مناظرے کا موضوع ہے " جہالت سے نجات اور ٹیکنالوجی کا حصول کیسے" مناظر ہیں سید پرویز مشرف اور اسری نعمانی۔ مولوی تو ہیں ہی جاہل یہ لوگوں کو کیسے انسانیت و تہذہب سکھائیں گے’ انہوں نے قرآن و حدیث پڑھا ہے اس میں ایسی تعلیم وتذکرہ کہا ، یہ باتیں تو مغرب سے پڑھے ہوئے جدید تعلیم یافتہ ، روشن خیال لوگوں کا ہی ورثہ ہیں کیونکہ انہوں نے انگریجی پڑھی ہوئی ہے ، وہ جدید دور کی تمام ضرورتوں منافقت، حرام خوری، ، شراب نوشی، زنا، ناچ گانا کے جدید طریقوں سے واقف ہیں۔ محفل کے شروع میں پہلے جنون گروپ کا گانا چلے۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نيا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
عوام کو پیغام دیا جائے گا کہ چھوڑیں اسلامی دقیانوسیت ، زمانہ بدل چکا ہے ، تیاری کریں جدید دور میں داخل ہونے کی ۔ پھر مشرف صاحب عوام کو بتائیں گے کہ کیسے ان کے گھر والے جدید دور میں داخل ہوئے۔ اپنی کتاب میں لکھی گئی بات کا تذکرہ بھی کریں گے کہ میری ماں بہترین ڈانسر تھی ، ترکی کے کلب میں ناچتی تھی۔پھر بتائیں کہ میں نے جاہل پاکستانیوں کو جدید دور میں داخل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں دیں۔ پہلے میں نے خود ان مسلمانوں کا قتل عام کروایا جو کہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے، پھر امریکن کو تمام بنیاد پرست مسلمانوں کے قتل عام کا لائسنس جاری کردیا۔ دیکھیں کتنی ترقی آئی پاکستان میں ، لاکھوں ڈالر پاکستان منتقل ہوئے، ابھی ہر طرف چین ہی چین ہے۔ ہمیں لوگوں کو آزادی اظہار رائے اور سب کو برابر انسانی حقوق دینے ہیں، لال مسجد کی طالبات نے طوائفوں کے انسانی حق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی میں نے ان سب کو زندہ جلا دیا تین بازاری عورتوں کی عصمت ہزاروں دن رات قال اللہ قال الرسول کے تذکرے کرنے والی پاک دامن لڑکیوں کے مقابلے میں ذیادہ معتبر ہے ۔میں نے عوام کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے میرا تھن ریس جیسے مختلف صحت مندانہ پروگرام شروع کیے ، یہ لوگ چونکہ آپ کی ترقی نہیں چاہتے اس لیے انہوں نے وہاں بھی آپکی بہنوں بیٹیوں کو ننگی ریسیں لگانے سے روک دیا ،آپ لوگ چھوڑیں انکے بنیاد پرستوں کے پیچھے نمازیں پڑھنا، قرآن وسنت کی تبلیغ کرنے والے مدارس اور علما کو مٹانے میں میرا ساتھ دیں، جب یہ لوگ ختم ہوجائیں گے پھر پاکستان بھی یورپ بن جائے گا، روشن خیالی ہی روشن خیالی ہوگی، ترقی ہی ترقی ہوگی۔ والسلام علی من تبع الیہودی و نصاری۔
پھر اسری نعمانی صاحبہ عوام کو بتائیں گیں کہ اصل اسلام کی تشریح وہی ہے جو یہودونصاری نے کی۔ اگر جہالت سے نجات حاصل کرنی ہے تو ان چودہ سوسال پرانی کتابوں کو چھوڑنا ہوگا، یہ کتابیں مخالفین کے قتل عام، زنا و شراب نوشی، بے حیائی سے منع کرتے ہوئے معاشرے میں انتہا پسندانہ ذہنیت کی پرورش کرتیں ہیں۔ اسلام میں سختی نہیں ہے۔ اگر آپ نے ترقی کرنی ہے تو آپ کو مرد وعورت میں تمیز کو چھوڑنا ہوگا ، جو کام مغرب والے کررہے ہیں وہ کرنے ہوں گے، تبھی آپ لوگ ترقی کرسکیں گے، مولوی لوگ لازمی آپ کو اس ننگ دھڑنگ ترقی سے روکنے کی کوشش کریں گے ، آپ لوگ نمازیں پڑھنے، نکاح پڑھوانے، جنازے پڑھوانے میں انکے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ میں اس کے لیے آپ کو اپنی خدمات پیش کرتی ہوں، آئندہ آپ کا نکاح ،جمعہ، جنازہ میرے انسٹیوٹ کی لڑکیا ں پڑھایا کریں گی۔ ڈبل مزے نماز بھی پڑھیں آنکھیں بھی ٹھنڈی کریں۔

http://sweetjaveria.blogspot.com/2009/04/blog-post_14.html

Unknown نے لکھا ہے کہ

پوسٹ نمبر 2 کا جواب :
آپ نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں میں اسلامیات بھی پڑھائی جاتی ہے ، حقیقت میں ماتم تو آپ کی عقل پر کرنا چاہیے کہ آپ کو پتا ہی نہیں اسلامیات یا ہسٹری میں ایم اے کرنے سے کوئی عالم نہیں بن جاتا ، اگر دین کا اتنا علم ہی کافی ہے پھر آپ کو مدرسوں پر کیا اعتراض جہاں کمپیوٹر ، انگلش، میتھ کے بیسک کورسس پڑھائے جارہے ہیں۔ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی انہوں نے علم و تحقیق کے لیے مدارس قائم کیے تھے، دوسری آپ نے غزوہ بدر کی مثال دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے علم سیکھنے کی راہ نکالی ۔ جناب والا آپ حقیقت کی طرف آئیں اور مجھے بتائیں جنگ بدر کے قیدیوں نے مسلمانوں کو کون کون سے سائنسی علوم سیکھائے اور عمر رضی اللہ عنہ نے کونسے سائنسی ادارے قائم کیے تھے۔ آ پ میری اس بات سے یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ میں سائنسی علوم کا انکار کررہا ہوں۔ اصل میں میں آپ کو اسلامک ہسٹری میں تحقیق کے طریقہ کار بتانے کی طرف لانا چاہتا ہوں۔ آپ مسلمان سائنسدانوں کے حالات پڑھیں ۔ آپ کو پتا چلے گا کہ وہ اسلامی حکومت کی طرف سے دیئے گئے ایک سیٹ اپ میں جڑے ہوئے تھے ۔ آپ سپین میں مسلمانوں کی حکومت کے دوران ہونے والی تحقیق و ترقی کے متعلق پڑھیں ۔ اس میں بادشاہ وقت نے مدارس کے علاوہ خود ایسے ادار ے قائم کیے تھے جن میں غیر زبانوں میں موجود علوم کی عربی میں منتقلی، پھر قرآنی علوم و پہلے سے چلے آنے والے علوم کی روشنی میں نت نئی تحقیقات و تجربات کیے جاتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی تاریخ میں ہونے والی ایجادات و تحقیق ایک نظام کے تحت تھی، جسکی سپورٹ خود اسلامی حکومت کرتی تھی، تعلیمی نظام چونکہ سارا مسلمانوں کا ہی بنایا ہوا تھا اس لیے یونیورسٹی یا مدرسے میں فرق نہیں ہوتا تھا، بنیادی دینی تعلیم کے بعد ہر شخص اپنی مرضی کے شعبہ اور ادارے سے منسلک ہوجاتا تھا۔ یہی طریقہ کار برصغیر میں بھی انگریزوں کے آنے سے پہلے تک چلتا رہا۔ انگریزوں نے برصغیر کی زمین پر قبضہ کے بعد یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس کے مقابلے میں اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد کے بچے کچھے علما نے جمع ہوکر مسلمانوں کے دین کی حفاظت، ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے دور استبداد میں حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک کو جاری رکھنے ، مسلمانانِ ہند کے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے ، مسلک حنفیہ کی مسند تدریس کو منور رکھنے ، دشمنان اسلام ، مشرکین ہندوستان اور عیسائی مبلغین کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا اپنی مدد آپ کے تحت بیڑا اٹھایا ۔ اب لازمی بات تھی کہ ان حالات میں جبکہ وہاں نہ اسلامی حکومت تھی جو انکی مالی و اخلاقی سپورٹ کرتی اور مکمل اسلامی تعلیمی نظام کو بحال کرنے میں انکی مدد کرتی اس لیے مدارس خالص دینی تعلیم تک محدود ہوگئے۔بعد میں جب پاکستان آزاد بھی ہوگیا تو مسلمانوں کی حکومت آئی انہوں نے بھی اسلامی تعلیمی نظام جو کہ ہماری میراث تھی کو بحال کرنے کے بجائے انگریز وں کے دیئے گئے تعلیمی نظام کو ہی برقرار رکھا ، بلکہ موجودہ حکومتوں نے تو اپنے تعلیمی نظام کا قبلہ درست کرنے کے بجائے اپنے مائی باپ کے اشارے پر دینی علوم کے طریقہ کار کو بدلنے کی ٹھان لی ۔۔۔ اب ہمارے مدارس کے موجودہ سٹائل کا سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طریقہ کار سے مختلف ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں لارڈ میکالے کا نظام ہے اور مدارس میں اسلامی نظام۔ یہ دونوں بظاہرا ایسے ہی ایک دوسرے کی ضد ہیں جیسے جمہوریت اور خلافت۔ یہاں میرا لارڈ میکالے کے نظام کو اسلامی نظام کے خلاف کہنے کا مطلب جدید علوم و تحقیق سے انکار کرنا نہیں بلکہ اختلاف طریقہ کار پر ہے ، جسکی وجہ سے آج بھی ہماری یونیورسٹیوں سے فارغ طلبا یورپ و امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ طلبا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں کا دنیاوی تعلیمی نظام محض ایک ڈھکوسلہ اور لارڈ میکالے کی سوچ کے مطابق ہے اور وہاں کا نظام حقیقت میں وہ طریقہ کار رکھتا ہے جو کہ مسلمانوں نے رائج کیا تھا کہ وہاں سے نکلنے والا شخص صرف کتابیں رٹنے کے بجائے محقق و سکالر کی صورت میں نکلتا تھا۔
۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی تاریخ میں ہونے والی ایجادات و تحقیق اور اسکے ادارےایک نظام کے تحت تھی، جسکی سپورٹ خود اسلامی حکومت کرتی تھی، تعلیمی نظام چونکہ سارا مسلمانوں کا ہی بنایا ہوا تھا اس لیے یونیورسٹی یا مدرسے میں فرق نہیں ہوتا تھا، بنیادی دینی تعلیم کے بعد ہر شخص اپنی مرضی کے شعبہ اور ادارے سے منسلک ہوجاتا تھا۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ اب چونکہ ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے اور یونیورسٹی کالجوں نے سائنسدان ، ڈاکٹر، انجنئر پیدا کرنے کا اور مدارس نے دینی علما و سکالر پیدا کرنے کا بیڑا اٹھا یا ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر شعبہ سے اسکی متعلقہ امیدیں رکھنی چاہییں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

پوسٹ نمبر ۳ کا جواب :
فرقوں کے پیدا ہونےا ور انکے سدباب پر تو میں اوپر بات کرچکا ۔ آپ نے جو نئے میزائل چلائے ہیں انکے لیے اتنا ہی کہوں گا کہ علما کا کام صرف حکمت و دانش کے ساتھ سمجھانا نصیحت کرنا ہے ۔ باقی معاشرتی و سیاسی مسائل تنخواہوں میں کمی، غربت کا سدباب، گندگی اٹھانا، چائلڈ لیبر اور بچوں کو بھیک مانگنے سے بچانا حکومت وقت کا کام ہے جو آپ کے پسندیدہ تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب اتھارٹی مکمل علما کے ہاتھ میں ہوگی پھر ان معاشرے میں پیدا ہونے والے مسائل کے ذمہ دار بھی علما ہونگے۔ ابھی فی الحال یہ الزام آپ جدید تعلیم یافتہ افسران اور حکمرانوں کو ہی دیں۔ علما نے اسلام آباد میں ایڈز پھیلانے والوں کے خلاف آواز اٹھائی نتیجہ آپ نے دیکھ ہی لیا کہ آپکی روشن خیال حکومت نے ہزار طالبات کا قتل عام کردیا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

پوسٹ نمبر 4 کا جواب :
جناب آپ نے جنگ بدر کے متعلق فرمایا کہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی مگر ہتھیار دونوں جانب ایک جیسے ہی تھے، مسلمان جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر لڑے تھے۔ میں جناب سکالر اعظم اسلام کے سامنے جنگ بدر میں کفار اور مسلمانوں کے لشکر کا موازنہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

تفصیل- لشکر کفار- اسلام لشکر

213 - 950 - افراد
70 - 700 - اونٹ
3 - 100 - گھوڑے
8 - 950 - تلواریں
6 - 950 - زرہیں

آپ کی اسلامی تاریخ کے متعلق یہ علمی حالت ہے اور تنقید علما اور مدارس پر کرنے آگئے ہیں۔ میراد ل تو کر رہا ہے کہ جس طرح آپ نے چھوٹی سی بات کے اوپر اتنے طعنے دیے اور طنزیں ماری ذرا میں بھی آپ کی طبیعت صاف کروں ، لیکن میرا مقصد آپ کی تذلیل کرنا نہیں بلکہ ایک مسئلہ سمجھانا ہے ۔ امید ہے آپ سمجھ جائیں گے کہ
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی

آپ نے فرمایا ایک کمرے میں بیٹھ کر لوگ ایک ڈرون حملہ سے ہمیں تہس نہس کررہا ہے۔ جناب والا کیا ہمارے پاس ڈرون حملوں کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ کیا ڈروں ایف سکسٹین اور کروز میزائل سے بھی تباہ نہیں ہوسکتا ؟ مفکر پاکستان بات پھر وہیں آ جاتی ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں ہے۔ مسئلہ ایمان کا ہے ، آپ کسی کھسرے کو بندوق پکڑا دیں ، وہ اسی کو لے کر ناچنا شروع کردے گا۔ ہمارے حکمرانوں کی بھی یہی حالت ہے۔ لاکھوں روپیا دفاع پر لگا رہے ہیں اور کیا دفاع ہورہا ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے۔ ڈرون حملوں سے تین ہزار کے قریب بے گناہ شہری اب تک مارے جاچکے ہیں، کیا کوئی ایک بھی ڈرون گرایا۔
امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ آخر زمانہ کے مسلمانوں کی اصلاح بھی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک وہی طریقہ نہ اختیار کیا جائے جو اس امت کے پہلے لوگوں کے اوپر انکے نبی نے اختیار کیا تھا۔ جناب ہمارا مسئلہ نہ دولت، نہ طاقت ہے ۔ ہمارا مسئلہ دین سے دوری ہےاس کی وجہ سے ہم دنیا میں ذلیل ہورہے ہیں۔ جس دن لوگوں کے اندر اللہ کا ڈر اور آخرت میں اسکے آگے جواب دہی کا احساس پیدا ہوگیا ۔ معاشرے سے ساری برائیاں ختم ہوجائیں گیں۔ یہ احساس پیدا کرنا صرف ایک طبقہ کا کام نہیں ، ہم سب کو دین کو وقعت دینی ہوگی اور دینی شعور کو اجاگر کرنا ہوگا۔
مومن پہ گراں ہيں يہ شب و روز
دين و دولت ، قمار بازي!

ناپيد ہے بندہ عمل مست
باقي ہے فقط نفس درازي

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کي اصل ہے حجازي

اس فقر سے آدمي ميں پيدا
اللہ کي شان بے نيازي

کنجشک و حمام کے ليے موت
ہے اس کا مقام شاہبازي

روشن اس سے خرد کي آنکھيں
بے سرمہ بوعلي و رازي

حاصل اس کا شکوہ محمود
فطرت ميں اگر نہ ہو ايازي

تيري دنيا کا يہ سرافيل
رکھتا نہيں ذوق نے نوازي

ہے اس کي نگاہ عالم آشوب
درپردہ تمام کارسازي

يہ فقر غيور جس نے پايا
بے تيغ و سناں ہے مرد غازي

مومن کي اسي ميں ہے اميري
اللہ سے مانگ يہ فقيري

وقاراعظم نے لکھا ہے کہ

لوجی ابھی دیکھا ہے اس فکر مند کا کارنامہ، موصوف سمجھتے ہیں کہ اونچا بولنے اور زیادہ بولنے سے ہی یہ تمام تر لغویات کے ساتھ مخالفین پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔

فکرمند صاحب کی ساری تقریر پڑھ کر تو ہنسی آرہی ہے۔ خاص کر فرقے اور مسالک۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہی شیعان علی وجود میں آگئے تھے۔ خلافت راشدہ۔ خلافت بنو امیہ اور بنو عباس کے ادوار میں میں یہ فرقے موجود رہے لیکن یہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اور اس دور میں یہ مسلمانوں کی تنزلی کا سبب نہیں بنے۔

مجھے تو اس بات پر قہقہ لگا کا دل کررہا کہ میدان بدر میں کفار قریش اور مسلمانوں کے پاس ایک جیسے ہتھیار تھے۔ غزوہ بدر کی تفصیل تو بنیادپرست صاحب نے دیدی ہے۔ اور اس سے موصوف کو کچھ معلومات ضرور ملی ہونگی۔ میرا خیال ہے کہ اپنے حسن نثار صاحب یہ سمجھ رہے ہیں کہ تلوار ادھر بھی تھی اور مسلمانوں کے پاس بھی بھلے ہی 8 تلواریں ہوں پر تلواریں تو تھیں نہ :D

UncleTom نے لکھا ہے کہ

کھسرے کو بندوق پکڑا دو تو وہ اسکو بھی پکڑ کر ناچنا شروع کر دے گا ۔
مزا ٓگیا

یاسرخوامخواہ جاپانی نے لکھا ہے کہ

بہت شکریہ محترم
بہت اعلی تحریر پڑھنے کو ملی ۔

مکتبہ حجاز نے لکھا ہے کہ

فکر مند نے لکھا
سر سید احمد خان نے انگریز کی غلامی سے نکلنے کے لئیے قوم سے انگریزی زبان سیکھنے کا نعرہ لگایا تو یہ سارے جاہل ملا ایک زبان ہو کر اس عظیم انسان کے خلاف ہوگئے اور ان پر کفر کے فتوے لگا دئیے

بنیاد پرست صاحب
اگر ایک پوسٹ میں آپ سر سید پر لگنے والے فتوے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو مناسب رہے تاکہ آگے کوئی بھی یہ الزام لگائے تو ہم اس کو لنک دے سکیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

میں نے یہ بات نوٹ کی تھی ، لیکن ٹائم کی کمی کی وجہ سے وہاں کچھ نہیں لکھ سکا۔ مجھے جب ٹائم ملا ، اس مفکر پاکستان کے مزید اٹھائے گئے پوائنٹس پر بھی بات کروں گا۔
انشا اللہ

fikrepakistan نے لکھا ہے کہ

عمران بھائی، یہ ہی تو معاملہ ہے سارا کے مانتے بھی ہیں مگر اس پر عمل کرنے کے لئیے اپنے مدارس کے نظام میں ترامیم نہیں کرنا چاہتے، میں نے قرآن کی آیات سے آپکو حوالہ دیا ہے کے قرآن کا ہی حکم ہے یہ، تو جب یہ قرآن کا حکم ہے تو پھر مسلمان اس حکم کے پیروی کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوتا؟ قرآن کا یہ پیغام کفار نے ہی کیوں سمجھا؟ ہم اسے دین کیوں نہیں سمجھتے؟ یہ ہمارے مدارس کے درس نظامی میں شامل کیوں نہیں ہے؟ جب مانتے ہیں کے قرآن کا ہی حکم ہے یہ بھی تو پھر درس نظامی میں اسے شامل کیئے بغیر اس ادھورے درس نظامی کو کیسے مکمل اور درست قرار دے جاسکتا ہے؟۔ بحرحال، ایک حوالہ جس کے لئیے بے انتہا شور مچایا گیا تھا وہ میں درج کر رہا ہوں، اور مجھے یہ بھی یقین ہے کے جنہیں نہیں ماننا وہ نہیں مانیں گے، اصل بات تو یہ ہے کہ جنہیں ماننا ہی نہیں ہوتا وہ تو، آل رسول صلی اللہ علی وسلم کی شہادت کو بھی نہیں مانتے اور اسے اقتدار کی جنگ گردانتے ہیں، جنہیں ماننا ہی نہیں ہوتا وہ تو خلفاء راشدین کو نہیں مانتا، جہیں ماننا ہی نہیں ہے وہ تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور انکے درجات کو بھی نہیں مانتے حضور پاک صلی علیہ وسلم کے درجات کو کم کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، اسلئیے مجھے ایسے لوگوں کی زرا پروا نہیں ہے۔ کتاب کا نام ہے، تاتاریوں کی یلغار، مصنف، ہیرلڈ لیم لوگوں کی خواہش پوری کردی گئی ہے، اب میں اس موضوع پر مزیک کچھہ بھی نہیں کہنا چاہوں گا۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائیں آمین۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

موجودہ عصری نظام کی پشت پنائی حکومت وقت خود کرتی ہے ، اس کے اداروں کے لیے ایک کرسی سے لے کر کروڑوں روپے کی مشینری خرید کر دینا تک حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، ہر سال اس تعلیمی نظام پر اربوں روپیہ لگا ئے جاتے ہیں ، پھر بھی ان اداروں اور اس سے نکلنے والے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا کیا حال ہے ، یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ، پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں 186ویں نمبر پر ہے گورنمنٹ کے تحت چلائے جانے 75فیصد سکول ایسے ہیں جن کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ جہاں اساتذہ کی اکثریت غیر حاضر رہتی ہے، طالب علموں کی مناسب تربیت اور رہنمائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ اگر اساتذہ سکول آتے ہیں یا تو صرف حاضری لگانے کے لئے یا پھر ٹائم گزار کرچلے جاتے ہیں۔ جہاں سرکاری سکول ناقص کارکردگی دکھا رہے ہیں وہیں تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر دیا ہے، غریب کے بچے کے لیے تعلیم کوئی بندوبست نہیں، اعلی تعلیم، اعلی تعلیمی ادارے صرف جاگیرداروں ، صنعت کاروں کے بچوں کے لیے ہیں۔ اور ان کے جدید سائنسی اداروں کی فیس ایک غریب کی سال کی تنخواہ کے برابر ہے۔اور دوسری طرف پریکٹیکل زندگی میں صدارت کی کرسی سے لے کر چپڑاسی تک انہی اداروں سے فارغ ہے، پاکستان کے ہرچھوٹے بڑے شعبے کا کنڑول ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، پاکستان کی حالت ان جد ید تعلیم یافتہ اداروں سے نکلنے والے لوگوں نے کیا کردی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
دوسری طرف مدارس کو دیکھیں تو ان کو کوئی حکومتی سپورٹ نہیں، کوئی مستقل معاشی ذریعہ نہیں پھر بھی انہوں نے انتہائی کم وسائل اور مشکل معاشی حالات میں مجموعی طور پر معاشرے کو ایسے افراد تیار کرکے دیے اور دے رہےہیں جن سے لاکھوں لوگوں کا دین وابستہ ہے اور انکی دیانت داری، تقوی، شرافت، بردباری اور دین کے مختلف شعبوں میں انکی خدمات کی ایک تاریخ ہے۔یہ انہی مدارس کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہاں دینی مراکز قائم ہیں’ لادینی طبقات کا ناطقہ بند ہے‘ مساجد و مدارس آباد ہیں‘ لوگوں کے چہروں پر سنت رسول کی شادابی ہے‘ خواتین ستروحجاب سے مزین ہیں‘ دینی اسکول اور حفظِ قرآن کے مدارس میں لاکھوں مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،یہ مدارس تو لائق تعریف ہیں نہ کہ لائق تنقید و تشنیع۔
میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں یہ تمام نام نہاد دانش وراور فلاسفر جو مدارس اور علما پر تنقید کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوں ’ جوان کے بچوں ، طالب علموں کی عصری تعلیم کے غم میں دن رات مرے جاتے ہیں اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے رہتے ہیں ’ ان سب کا سارا مال ودولت پیسہ اپنی موج مستیوں، عیاشیوں میں خرچ ہوتا ہے ، میں فکر پاکستان صاحب سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں جو مدارس کے بچوں کا اتنا غم کھائے جارہا ہے ، آج تک تم نے مدارس کی کتنی مالی مدد کی ہے ، کیا تم نے آج تک کسی مدرسے کو اتنی امداد دی ہے جس سے صرف ایک عالم کی آٹھ سالہ پڑھائی، رہائش ، کھانے پینے کا خرچہ نکل گیا ہو۔

میرا ان نام نہاد روشن خیالوں، دانش وروں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ مدارس کو اپنی اصلاحات کا تختہ مشق بنانے کے بجائے ان اداروں میں اصلاحات کا سوچیے، جہاں بوٹی مافیا کا راج ہے، جہاں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے ، جن اداروں کے ہاسٹلوں میں منشیات کی بھر مار ہے ، جن اداروں سے شرم وحیا کے جنازے اٹھتے ہیں اورجہاں تعلیم وتربیت کے بجائے بے راہروی سکھائی جاتی ہے۔ اس ٹاٹ کلچر، طبقاتی نظام تعلیم، گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ پر لکھیے ۔ اگر آپ کی حکومت قومی نظام تعلیم کی مکمل اصلاح اور فلاح وبہبود کے بعد مدارس میں اصلاحات کرنا چاہے گی تو ہمارے لیے زیادہ باعث مسرت ہو گا، لیکن اگر اربوں روپے بجٹ خرچ کرنے کے باوجود گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران ہمارا نظام تعلیم بہتر ہونے کے بجائے زوال وانحطاط کا ہی شکار ہو تو ایسے میں ہمیں مدارس میں نہام نہاد اصلاحات کی فکر میں ہلکان ہونے کے بجائے اس نظام تعلیم کی بہتری کی فکر کرنی چاہیے اور مدارس کے ٹمٹماتے چراغوں کو بجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کی لوکو مدہم نہیں ہونے دینا چاہیے، جو ہم سے نہ کچھ مانگتے ہیں نہ کچھ لیتے ہیں، بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت اس قوم کے بیس لاکھ بچوں کو تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ قیام وطعام اور علاج معالجہ تک کی مفت سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

فکر پاکستان صاحب شروع سے ایک بات رٹتے آرہے ہیں کہ اللہ نے قرآن میں انسانوں کو ساری کائنات میں غوروفکر و تدبرکا حکم دیا ہے جب کہ علما و مدارس درس نظامی تک محدود ہیں۔ میں جناب سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ تدبر کبھی آپ نے خود بھی کیا ہے، ساری دنیا جانتی ہیں آپ کے ان عصری اداروں میں جہاں اس غوروفکر کے تمام وسائل و مواقع میسر ہیں ، کتنا غوروفکر ہوتا ہے او ر انکے کیا حالات ہیں ۔ میں نے اوپر ہلکہ سا تذکرہ کیا ہے کہ آپ کے ان عصری اداروں کا کیا حال ہوگیا ہے ، کس طرح تباہی کا شکار ہیں ،کیا آپ نے یہ لیکچر بازیاں کبھی ان سے نکلنے والوں لوگوں کے سامنے بھی یا ان اداروں میں بھی جا کر کیں ہیں۔؟ ۔ آپ کے ڈاکٹروں کی دینی تعلیمی حالت یہ ہے کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ قرآن کریم کے تیس پارے ہوتے ہیں یا چالیس ؟ اور بنے وزیر تعلیم، اور آپ کے موجودہ وزیر داخلہ کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی ، جب آپ کے ان اداروں سے نکلنے والے لوگوں کی دینی و دنیادی یہ حالت ہے تو یہ سارہ نزلہ مدارس پر ہی کیوں ؟ پھر یہ نام نہاد اخلاص بھری کوششیں صرف مدارس کے تعلیمی نظام کے لیے ہی کیوں ؟
رہی بات مدارس کے نصاب تعلیم میں کائنات میں غوروفکر کی کتابوں کی ’ میں اس پر ثبوت دینے کو تیار ہوں کہ اس کی ہر کتاب کائنات میں غوروفکر کا راستہ کھولتی ہے۔ موصوف درس نظامی پر تنقید کرنے آئے ہیں ان کو اس میں پڑھائی جانے والی چار کتابوں کے بھی نام یا د نہیں ہوں گے۔ فکر پاکستان صاحب اس لنک کو دیکھ کر فرمائیں اس میں سے کونسی کتاب کو نکال کر آپ کی کائنات میں غوروفکر کرنےکی دعوت دینے والی ڈارون کے نظریے والی بیالوجی اور مسٹر چپس کی بے غیرتیوں کی داستانیں اور دوسری انگریزی عشق معشوقی والی نظموں سے بھری انگریجی کی کتابیں جن سے بچوں میں کائنات کے تمام راز کھل کر سامنے آجاتے ہیں ’شامل کیں جائیں ؟
http://www.banuri.edu.pk/ur/nisabetaleem

Unknown نے لکھا ہے کہ

میں نے اوپر اپنی پہلی پوسٹ میں ملک میں دو علیحدہ علیحدہ تعلیمی نظاموں کی موجودگی پر بات کی تھی کہ ان میں یہ علیحدگی اور تضاد کیسے پید ا ہوا اور اس تضاد کو قائم رکھنے کا ذمہ دار کون ہے۔میں اسے دوبارہ دوہرانا نہیں چاہتا صرف یہ لکھ دیتا ہوں کہ وہ تعلیمی نظام جس نے مسلمانوں میں بڑے بڑے سائنسدان پیدا کیے تھے ناصرف مسلمانوں کا اپنا بنایا ہوا تھا بلکہ اسکی ہر ضرورت پوری کرنا حکومت وقت کے ذمہ تھا جبکہ ہمارے ملک میں یہاں ایسا کوئی نظام نہیں، یہاں حکومت یہودیوں کے ایجنٹوں، شرابیوں، زانیوں کے ہاتھ میں ہے اور عصری تعلیمی نظام بھی صرف ایک یہودی سوچ کے مطابق ہے۔
ہم اس اسلامی تاریخی نظام تعلیم کو پڑھیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ اس میں بنیادی دینی تعلیم لازمی تھی ، اس کے بعد ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق یا تو سائنسی، صنعتی، زرعی شعبہ کو اختیار کرلیتا تھا یا مزیددینی تعلیم میں سپیشلائزیشن کے لیے کسی عالم کے درس یعنی مدرسے میں بیٹھنا شروع کردیتا تھا۔ ہم اس کے لیے اپنے معاشرے کی مثال ہی کو لے لیتے ہیں ، یہاں بنیادی دینی تعلیم کا تو کوئی بندوبست نہیں لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سکولوں میں ایک ہی کلاس میں اکٹھے پڑھنے والے لڑکوں کی آگے جاکر فیلڈ علیحدہ علیحدہ ہوجاتیں ہیں ، کوئی انجنئیرنگ میں چلا جاتا ہے، کوئی ڈاکٹریٹ کے سبجیکٹ لے لیتا ہے اور کوئی کمپیوٹر سائنس کے۔ اسی طرح پھر ان شعبوں کے اندر کئی سپیشلائزیشن کی ڈگریاں ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بننے والوں کو پہلے ایم بی بی ایس کا کورس کرایا جاتا ہے‘ اس کی تکمیل کے بعد پھر طلبہ کی دلچسپی کے پیش نظر ان کے منتخب کردہ موضوعات‘ مثلاً: دل‘ دماغ‘ جگر‘ معدہ‘ سینہ‘ کان‘ ناک اور حلق کے امراض اور ان کی جراحی کے اصول و فروع میں تخصّص کرائے جاتے ہیں‘ اور ایسا شخص اس شعبہ کا ماہر کہلاتا ہے۔ میں اپنی بات کی طرف آتا ہوں کہ مدارس کا آٹھ سالہ کورسس دینی تعلیم میں سپیشلائزیشن ہے، جس طرح ڈاکٹر یٹ میں سپیشلائزیشن ہے۔ اب کوئی مفکر اٹھ کر کہے کہ میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ انجنئرنگ کے سبجیکٹ کیوں نہیں پڑھتے، یا انجنئیرنگ کالج میں درس نظامی کیوں نہیں پڑھایا جاتا، اس کو کوئی بھی عقل مند نہیں کہے گا۔ یعنی یہ کہنا کہ مدارس میں انجنئرنگ ، میڈیکل اور دوسرے جدید سائنسی مضامین اور علوم وغیرہ کیوں نہیں پڑھائے جاتے لاجک اور عقل کے بھی کے بھی خلاف ہے ۔

ویسےمدارس کا دینی تعلیم میں سپشلائزیشن کی جگہ ہونے کے باوجود اس وقت انگریزی، سائنس، کمپیوٹر اور دیگر جدید علوم مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ، کئی مدارس میں انتہائی جدید قسم کی کمپیوٹر لیبز قائم ہیں۔ کئی مدارس فارغ التحصیل علماء کو انگریزی ، صحافت اور کمپیوٹر وغیرہ کے خصوصی کورسز کرواتے ہیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جناب فکر پاکستان صاحب
ہم نے آپ کی ہر بات کا دلیل سے جواب دیا، اب جب آپ کے پاس ہمارے موقف کی طرف رجو ع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تو آپ نے کسی مجہول درس نظامی کے طریقہ کار سے جاہل اور متعصب شخص کا دو گز لمبا آرٹیکل کاپی پیسٹ کردیا، جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ محض الفاظ کا گورکھ دندہ ہے اور صرف درس نظامی سے ناواقف لوگوں کو گمراہ کرنے ، آپ جیسے نام نہاد روشن خیال لوگوں کے لیے اعتراض کا ایک حیلہ ہے۔ اس اعتراضی آرٹیکل کی حقیقت درس نظامی کے متعلق ادنی سا علم رکھنے والا بھی آرام سے سمجھ سکتا ہے۔ ہمارے بہت سے علما نے ایسے اٹھنے والے اعتراضات کا بہت دفعہ جواب دیا ہے ، میں صرف دو لنک پیش کردیتا ہوں۔

درس نظامی پر اشکالات کا جواب
http://banuri.edu.pk/ur/node/347

ہندوستان میں مسلمانوں کا نصاب تعلیم
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Hindustan%20me%20Musalmano_MDU_05_May_10.htm

فکر پاکستان صاحب آپ کو اگر اس آرٹیکل کا لنک ملا تھا تو میری طرح صرف ایڈریس یہاں دے دیتے۔ بلاگ پر ڈسکشن کے دوران پانچ پانچ صفحوں کے آرٹیکل پیسٹ کرنا یا کسی کو یہ کہہ دینا کہ آپ کو اس اعتراض کا جواب چاہیے تو فلانی دو سو صفحوں کی کتاب پڑھ لیں’ ڈسکشن کے اصولوں کے خلاف ہے۔ آپ نے جو آرٹیکل یہاں کاپی پیسٹ کیا ہے اسکو میں نے اسی وجہ سے ڈیلیٹ کیا ہے۔ اگر آپ کو بحث کے اصولوں کا کچھ علم ہے تو دوسروں کے اتنے لمبے لمبے آرٹیکل کاپی پیسٹ کرنے کے بجائے میری پچھلی پوسٹ کا جواب دیں۔

noor نے لکھا ہے کہ

بہت خوب بھائ ۔ ۔

اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔ آمین

Unknown نے لکھا ہے کہ

ایک واقعہ ملاحظہ ہو‘ جو مشہور ماہر نفسیات موسیوڈیوی کی طرف سے روزنامہ’ ’علم النفسیات‘‘ میں شائع ہوا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ موسیوڈیوی یورپ کے سائنسدان ماہروں کو جس میں انگلستان کا مشہور عالم مسٹرویلس بھی شامل تھا کو دعوت دی کہ وہ ایک جگہ جمع ہوکر اس کے حیرت انگیز طلسمی اعمال کا مشاہدہ کریں جب سارے افراد جمع ہوئے موسیوڈیوی نے ان کے سامنے کچھ چیزیں پیش کیں اور ان کو اجازت دی کہ وہ ان چیزوں پر جہاں چاہیں مہر لگائیں اس کے بعد موسیوڈیوی نے ان کے سامنے وہ سارے طریقے استعمال کیے جو فن استخذام ارواح اور فن تجسیم ارواح میں استعمال کیے جاتے ہیں‘ اس کے وہ عمل اتنے حیرت انگیز تھے کہ ان کو دیکھ کر ان سارے سائنسدانوں جو بڑے بڑے عالم بھی تھے موسیوڈیوی کو یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ جو چیزیں ہمارے سامنے پیش ہوئی ہیں وہ انسانی صلاحیت وطاقت سے باہر ہیں اور ماورائی چیزیں ہیں جب موسیوڈیوی کو یہ سرٹیفکیٹ ملا تو اس کے بعد اس نے سب کے سامنے اقرار کیا کہ یہ سارا جادو تھا‘ اس کا روحانی طاقت اور کشف وغیرہ سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا‘ اس واقعہ کے مرتب کا کہنا ہے کہ موسیوڈیوی کے حیرت انگیز مشاہدے سے جس بات پر حیرت ہوتی ہے وہ اس کی مہارت نہیں ہے بلکہ حیرت یہ ہے کہ بڑے بڑے عالموں نے اس کو سرٹیفکیٹ کیسے دیا؟
اسلام کا بنیادی اصول: اسلام نے مسلمانوں کو افراد کے فریب نظر سے بچنے کیلئے ایک بنیادی اصول دیا ہے وہ اصول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا راستہ اختیار کیا جائے اور وہ راستہ جو مومنوں نے اختیار کیا ہے یعنی رسول اور مومنوں کے اختیار کردہ راستے کے سوا اگر اپنے علم‘ ذہانت اور ہوشیاری سے زندگی کے بنیادی اور فیصلہ کن مسائل کے بارے میں راستہ اختیار کیا جائے گا یا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے گا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا‘ سورۂ نساء کی پندرھویں آیت میں کہا گیا ہے کہ ’’جو کوئی اس کے بعد کہ اس کے اوپر راہ ہدایت کھل چکی ہے‘ رسول کی (راہ کی) مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستے کے علاوہ دوسری راہ اختیار کرے گا تو ہم اس کو ایسا کرنے دیں گے بعد میں ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے‘‘ رسول اور مومنوں کا جو راستہ ہے وہ رواداری‘ محبت‘ تحمل‘ بردباری‘ ہمدردی‘ حکمت اور بصیرت کا راستہ ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔