نبوت کا جھوٹا دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی اپنے ہی فتوی سے کافر
مصنف:
Unknown
28
comments:
گمنام
نے لکھا ہے کہ
حضرت ابراہيم کا واقعہ قرآن ميں ہے کہ انہوں نے ستارے، چاند اور سورج کو سجدہ کيا يعنی مشرک عقائيد رکھتے تھے ليکن بعد ميں نبی بنے۔ کہاں شرک اور کہاں نبوت۔ اب حضرت ابراھيم کو بھی عقيدہ بدلنے پہ نبی ماننے سے انکار کرديں اور انہی خرافات سے نوازيں، نعوذ باالله ۔ سمجھداروں کے ليئے اسميں سبق يہ ہے کہ نبی بھی ہدائيت کے ليئے خدا کی رہنمائی کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ اور جو ہدائيت نہيں چاہتے وہ اسطرح کے اعتراضات کرکے آخرکار تمام انبيا، کو جھوٹا بنا ديتے ہيں۔
قرآن ابراھیم علیہ السلام کے متعلق بیان کرتا ہے کہ اللہ نے انہیں بچپن سے ہی ہدایت دے رکھی تھی ملاحظہ فرمائیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ۔ اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو پہلے (بچپن) ہی سے ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان کے حال سے بخوبی باخبر تھے۔ ( ترجمہ تفسیر ابن کثیر، سورۃ انبیا آیت باون)
اب آپ نے جن آیات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ہ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ہ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ ہ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ہ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ہ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ہ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ۔ ترجمہ : اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم بتوں کو کیا معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہو۔ اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں۔(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارےمیں (کیا) بحث کرتے ہو اس نے تو مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے۔ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا۔ ہاں جو میرا پروردگار چاہے۔ میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے۔
میں اس کی تفسیر بھی مشہور و متفقہ تفسیر قرآن ابن کثیر سے ہے پیش کرتا ہوں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مفسیرین ان آیتوں کی بابت خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک تو یہ بطور نظر اور غوروفکر کے تھا، دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ تھا، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہی مروی ہے۔ بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا اہوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارہ میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں۔ یہ مقررہ جال سے چلتا۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا ابھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو۔ ۔۔۔۔ یہ تو بالکل ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل الخ، یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ اور آیت میں ہے ان ابراہیم کان امۃ قانتا اللہ الخ، ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا،
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں کود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔
آپ نے قرآن کی آیات کا مفہوم سمجھے بغیر انتہائی جراءت سے کام لیتے ہوئے محض ایک آوارہ، جھوٹے نبی کو بچانے کے لیے حضرت ابراھیم علیہ السلام پر جو شرک کا فتوی اور بہتان لگایا ہے وہ بالکل غلط ہے ۔ آپ کے اس بہتان سے قادیانیوں کی یہ بونگی دلیل بھی سامنے آگئی ہے۔ حقیقت میں پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں ، اور الله تعالی نے جتنے بهی انبیاء کرام کو مبعوث کیا سب کے سب دعوی نبوت سے پہلے اور دعوی نبوت کے بعد ہر قسم کی صغیره وکبیره سے معصوم ہوتے ہیں حتی کہ لا یعنی اور فضول اعمال سے بهی سے بهی معصوم ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ پورے دلائل سے ثابت ہے۔ انبیا کی طرف غلطی کی نسبت بھی گناہ ہے ۔
اگر مختصر جواب کے مقابل لمبے لمبے جواب آنے لگيں تو سمجھ ليں بندہ پھنس گيا ہے۔
دوسری بات کہ ہم قرآن پہ رہيں گے، تفسير کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں۔
آپ کے ديئے ہوئے حوالوں سے حضرت ابراھيم کا کم از کم تين دفعہ شرک کرنا ثابت ہے يعنی غير اللہ کو رب کہا۔اگر معصوم عن الخطاء کا يہ مطلب ہے تو يہ کيسے ہوا اور اللہ نے آپ کو غيرا اللہ کو رب کہنے سے روکا کيوں نہيں اور شرک کيوں کرنے ديا؟ پھر اس واقعہ کے فورا بعد آپ قوم کو مخاطب کرتے ہيں يعنی آپکی نبوت کے دور کے قريب کا واقعہ ہے اور بڑی عمر کا واقعہ ہے کيونکہ بچے کو تو نہ کوئی نبی مانتا ہے نہ اسکی بات سنتا ہے تو بچپن سے ہدائيت يافتہ ہونے کا کيا مطلب ہے؟ صرف دعوی کردينا تو کچھ نہيں اگر بظاہر دعوی اور حقيقت ميں تضاد ہو تو اسکی مناسب وجوہات آنی بھی ضروری ہيں۔
اب نبی کی بات ميں تبديلی کی اور مثاليں؛
حديبيہ کے واقعہ کا سب کو علم کہ رسول اللہ نے فرمايا ہم حج کريں گے اور صحابہ کو لے کے چلے ليکن پھر کفار کے انکار پہ حج نہ ہوسکا اور واپس آنا پڑھا- اب اس واقعہ کی بعد ميں جو بھی تاويل کرلی جائے ليکن صحابہ کرام اس واقعہ پہ بہت دکھی تھے اور ايک وقت تو رسول اللہ کی پکار کا جواب بھی کسی صحابی نے نہيں ديا۔ حضرت عمر نے تو يہ بھی پوچھا کہ کيا آپ اللہ کے نبی نہيں ہيں؟
حضرت يونس نے کو قوم کو عذاب کی خبر دی اور وہاں سے چلدئيے ليکن پھر عذاب نہيں آيا۔ قطع نظر اسکے کہ عذاب کيوں نہيں آيا جب نبی نے ايک بات کی تھی تو پوری ہونی چاہيئے تھي۔
اسکے علاوہ پہلے قبلہ يروشلم کہا پھر بعد ميں مکہ کو بنايا گيا۔ شراب پہلے حلال رہی اور پھر کہيں جاکے حرام ہوئي۔ اور اسی طرح ديگر احکامات۔ کيا اسکو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کہيں گے؟ نعوذ باالله ۔
يہ تمام احکامات ايک دفعہ ہی کيوں نہ کہہ ديئے؟ قرآن کيوں سالوں نازل ہوتا رہا ہے اور ايک دن يا چند دنوں ميں نازل نہ ہوگيا؟
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا معاملہ انسان کے ساتھ، نبي سميت، تدريجی ہے۔ خدا ايک يا چند دنوں ميں ساري ہدائيت نازل نہيں کرتا اور جيسے جيسے ہدائيت آتی ہے نبی اپنے عقائيد کی تصحيح کرتا جاتا ہے۔ نبی اسليئے معصوم عن الخطاء ہیں کہ جو خطا، ان سے سرزد ہوئيں شرک سميت يا ديگر کمزورياں تو وہ معصوميت ميں ہوئيں اور صرف اس وقت تک جب تک خدا نے اس پر خبر کرنا مناسب نہيں سمجھا ليکن جونہی خدا نے خبر کی نبی نے اصلاح کرلي۔
اسکے علاوہ عقائيد عقائيد ميں فرق ہوتا ہے۔ سورج چاند ستارے کو رب بنانا واضح شرک ہے جبکہ حضرت عيسی کا زندہ آسمان پہ چلے جانا اور ہزاروں سال سے زندہ رہنا جبکہ ديگر تمام انسانوں، رسول اللہ سميت، کو وفات ہے يعنی حضرت عيسی کا خدائی صفات ميں سے حصہ ہے، ايک علمی نقطہ ہے جو غور اور وقت طلب ہے اسليئے اسکو ايک واضح شرک کي کيفيت سے ملانا ممکن نہيں۔ جيسا کہ بيان کيا گيا انبيا کو بھی، نبوت سے پہلے يا بعد ميں، تمام مضامين تک پہنچنے ميں وقت درکار ہوتا ہے۔
انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں کے ضمن ميں يہ بتا ديں کے حضرت يونس کس ضمن ميں تين دن مچھلی کے پيٹ ميں رہے اور حضرت آدم کس پاداش ميں جنت سے نکالے گئے؟ يہ بات عجيب نہيں کہ معصوم عن الخطاء بھی ہيں اور سزا بھي پا رہے ہيں؟
Ahmadiyyat Zindabad...The true and beautiful face of islam...i dont want to give any arguement about Ahmadiyyt because people like Abu Jahal will never accept the truth but just copmare the possition of your country which according to you served the muslim umma by calling us non muslims and look at the position of jamaar AHmadiyya which is now spread all over world and but afsoos you people will never learn AhmadiyyT Zindabad
اگر مختصر جواب کے مقابل لمبے لمبے جواب آنے لگيں تو سمجھ ليں بندہ پھنس گيا ہے۔ دوسری بات کہ ہم قرآن پہ رہيں گے، تفسير کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں۔ آپ کے ديئے ہوئے حوالوں سے حضرت ابراھيم کا کم از کم تين دفعہ شرک کرنا ثابت ہے يعنی غير اللہ کو رب کہا۔اگر معصوم عن الخطاء کا يہ مطلب ہے تو يہ کيسے ہوا اور اللہ نے آپ کو غيرا اللہ کو رب کہنے سے روکا کيوں نہيں اور شرک کيوں کرنے ديا؟
جواب :
جناب جو اعتراض آپ نے پیش کیا تھا، میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں اس کا مکمل بیک گراؤنڈ پیش کیا، وہاں وہ ڈیٹیل ضروری تھی، اگر آپ میرے اس جواب کو پورا پڑھ لیتے تو دوبارہ اعتراض کرنے کی ضرورت نہ رہتی، باقی یہ وسوسہ اپنے ذہن سے نکال لیں کہ آپ یا آپ کا کوئی سکالر کبھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے کسی محافظ کو پھنسا یا کہیں ہرا سکے گا۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ میں نے وہاں جو ڈیٹیل دی تھی قرآن نے وہاں حضرت ابرھیم علیہ السلام کا اپنے والد اور پھر اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا ذکر کیا ہے، ابرھیم علیہ السلام نے شرک نہیں کیا بلکہ ایک تمثیل سے اپنی قوم کو حقیقی رب کی طرف دعوت دی ہے، یہ بات تمام حقائق و دلائل جو میں نے پچھلی پوسٹ میں پیش کیے ہیں’ سے ظاہر ہے۔ وہ تفسیر کسی دیوبندی کی نہیں ہے بلکہ قرآن کی پرانی اور معتبر تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ ہے، اسو قت چونکہ دنیا میں قادیانیت کا وجود نہیں تھا اس لیے اس پر یہ فتوی لگانا کہ یہ انکے اپنے مفاد میں ہوسکتی ہے ،’ بچگانہ بات ہے۔ آپ کی بات اک رخ سے صحیح ہے کہ شخصی/ذاتی تفسیر کسی کے اپنے مفاد میں ہوسکتی ہے، اس لیے ہمیں قرآن کی تفسیر میں اپنی ذاتی رائے کے بجائے قرآن کی آیات کے متعلق چودہ سو سال سے چلے آنے والے موقف کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کا کبھی گمراہی پر اجماع نہیں ہوسکتا۔ میر ا آپ کو چیلنج ہے کہ آپ اپنے موقف کے حق میں کسی بھی مستند تفسیر کا حوالہ پیش کردیں کہ ابراھیم علیہ السلام پہلے مشرک تھے، بعد میں مومن اور پھر نبی ہوئے۔
دوسری بات اگر آپ قرآن کی کسی تفسیر کے قائل نہیں ، پھر بھی میرا پچھلا جواب آپ کے لیے کافی تھا ، اس میں میں نے تفسیر کے ساتھ علیحدہ سے ایک آیت پیش کی تھی جس کے الفاظ میں یہ بات واضح موجود ہے کہ ابرھیم علیہ السلام بچپن سے ہی ہدایت یافتہ تھے۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ۔ اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو پہلے (بچپن) ہی سے ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان کے حال سے بخوبی باخبر تھے۔
اب آپ لازمی فرمائیں گے کہ لغات بھی کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں!!!!
پھر اس واقعہ کے فورا بعد آپ قوم کو مخاطب کرتے ہيں يعنی آپکی نبوت کے دور کے قريب کا واقعہ ہے اور بڑی عمر کا واقعہ ہے کيونکہ بچے کو تو نہ کوئی نبی مانتا ہے نہ اسکی بات سنتا ہے تو بچپن سے ہدائيت يافتہ ہونے کا کيا مطلب ہے؟ صرف دعوی کردينا تو کچھ نہيں اگر بظاہر دعوی اور حقيقت ميں تضاد ہو تو اسکی مناسب وجوہات آنی بھی ضروری ہيں۔
جواب :
میں نے تو کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ یہ واقعہ بھی انکے بچپن میں پیش آیا، سیکنڈ پرسن کا موقف پڑھے بغیر آنکھیں بند کرکے جب جواب پوسٹ کیا جائے تو ایسی ہی غلطیاں ہوتیں ہیں۔ امید ہے اگلی دفعہ ہمارا موقف پورا پڑھ کر اپنا جواب پوسٹ کریں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بات چیت محض ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ اس کا کچھ نتیجہ نکلے اس کے لیے ہمیں محض جذباتی جواب دینے کے بجائے بحث و مباحثہ کے قواعد وضوابط کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔۔
اب نبی کی بات ميں تبديلی کی اور مثاليں؛ حديبيہ کے واقعہ کا سب کو علم کہ رسول اللہ نے فرمايا ہم حج کريں گے اور صحابہ کو لے کے چلے ليکن پھر کفار کے انکار پہ حج نہ ہوسکا اور واپس آنا پڑھا- اب اس واقعہ کی بعد ميں جو بھی تاويل کرلی جائے ليکن صحابہ کرام اس واقعہ پہ بہت دکھی تھے اور ايک وقت تو رسول اللہ کی پکار کا جواب بھی کسی صحابی نے نہيں ديا۔ حضرت عمر نے تو يہ بھی پوچھا کہ کيا آپ اللہ کے نبی نہيں ہيں؟
جواب :۔
صلح حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اپنی مرضی کی کڑی شرائط منظور کر لیں اور ظاہر ی طو ر پر مسلمانوں کو اس میں اپنی شکست نظر آئی، لیکن اس صلح کے واقعہ اور مسلمانوں کو بعد میں اس کی وجہ سے ملنے والے فواعد کو پڑھنے والا حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کووسعت نظری، فہم وفراست اور بہترین حکمت عملی اور سیاست کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس صلح سے بعد میں ملنے والے فواعد کو قرآن کی اس آیت نے فتح کہا ۔ ۔”ہم نے تمہیں واضح فتح عنایت کی”(سورہ فتح :۱)۔
اس صلح کے چند اہم فوائد :۔
پہلی مرتبہ عرب میں ایک اسلامی ریاست کا وجودتسلیم کرلیا گیا اور یہ بھی اذن عام ہوا کہ جن قبائل اقوام نے کافروں مشرکوں کے ساتھ شامل ہونا ہے‘ ہوجائیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوناہے‘ ہوجائیں ۔
دوسری فتح یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے لئے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرکے دشمن نے یہ مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جو بات کہ قریش اب تک کہتے آئے تھے۔
تیسری فتح‘ یہ ہوئی کہ دس برس تک جنگ بندی کرکے اسلام کو تبلیغ اور دعوت عام کا موقع ہاتھ آگیا‘ سارا عرب وعجم اللہ کے پیغام کے لئے کھل گیا۔
چوتھی فتح شمال اور وسطی عرب میں اللہ پاک نے یہود اور ان کے حلیف قبائل پردی اور اسی دورانیہ میں مسلم معاشرت مستحکم ہوئی۔ سال دوسال میں عرب کی طاقت کا توازن بدل چکا تھا‘ حتی کہ دو ہی سال بعد فتح مکہ سے پورا نقشہ ہی بدل گیا اور فوجاً فوجاً دور نزدیک کے قبائل اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ اگر مسلمان حدیبیہ میں مشرکوں سے ٹکرا جاتے تو ان نعمتوں سے محروم ہوجاتے جو بعد میں انہیں نصیب ہوئیں۔
یہ سب برکات اس چیز کے اندر چھپی تھیں جسے مسلمان تو بھاری سمجھ رہے تھے مگر خود خالق کائنات نے اسے فتح فرمایا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت براء بن عازب تینوں حضرات سے قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ : ”لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں“۔ (بخاری‘ مسلم‘ مسند احمد ‘ ابن جریر)
جناب فرمائیں کیا اس حکمت عملی کا مرزا قادیانی کی اس دورنگی کے ساتھ کوئی جوڑ ہے کہ وہ زندگی کے باون سال تو حضر ت عیسی علیہ السلام کی حیات اور آسمانوں پر موجودگی کے حق میں ہزار سال سے چلے آنے والے امت مسلمہ کے اجماع کے حق میں فتوے دیتا رہا اور اس اجماع کے منکر کو مشرک او ر لعنتی قرار دیتا رہا پھر اچانک انگریز سرکار کا فرشتہ آیا اور جناب نے الٹی کلابازی لگا ئی اور منکریں حیات عیسی کی صف میں کھڑے ہو کر اپنے ہی فتوں سے لعنتی اور مشرک بن گیا۔
قادیانی اعتراض نمبر 4:۔ حضرت يونس نے کو قوم کو عذاب کی خبر دی اور وہاں سے چلدئيے ليکن پھر عذاب نہيں آيا۔ قطع نظر اسکے کہ عذاب کيوں نہيں آيا جب نبی نے ايک بات کی تھی تو پوری ہونی چاہيئے تھي۔انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں کے ضمن ميں يہ بتا ديں کے حضرت يونس کس ضمن ميں تين دن مچھلی کے پيٹ ميں رہے اور حضرت آدم کس پاداش ميں جنت سے نکالے گئے؟ يہ بات عجيب نہيں کہ معصوم عن الخطاء بھی ہيں اور سزا بھي پا رہے ہيں؟
عصمت انبیا : پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں ، اور الله تعالی نے جتنے بهی انبیاء کرام کو مبعوث کیا سب کے سب دعوی نبوت سے پہلے اور دعوی نبوت کے بعد ہر قسم کی صغیره وکبیره سے معصوم ہوتے ہیں حتی کہ لا یعنی اور فضول اعمال سے بهی سے بهی معصوم ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ پورے دلائل سے ثابت ہے۔ انبیا کی طرف غلطی کی نسبت بھی گناہ ہے رب العزت نے انبیا کرام کو طبعا قبائح اور معاصی سے متنفر کیا ہوتا ہے طاعات کی طرف ان کی رغبت عقلی ہی نہیں بلکہ طبعی بھی ہوتی ہے اسی طرح معاصی سے ان کا تنفر عقلی ہی نہیں بلکہ طبعا ہوتا ہے ان کا ہر ارداہ ، عمل اور قول ہر حرکت و سکون کائنات کے لیے اسوہ اور نمونہ ہوتی ہے۔
ہاں تقاضہ بشریت کی بنا پر سہو و نسیان کا امکان باقی رہتا ہے تاہم فورا ہی اس پر متنبہ کردیا جاتا ہے اور یہ سہو ہر گز کوئی گناہ یا کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔یہی بات سیدنا آدم علیہ السلام کے باب میں بھی ہے خود قران میں اس بارے میں ہے وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ ۔ ( سورۃ طہ آیت ایک سو پندرہ) . اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے ۔
اور اسی طرح کی اجتہادی غلطی حضرت یونس علیہ السلام سے ہوئی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے ایک چیز کو سمجھا اور بغیر حکم الہی کے بستی سے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت آدم ویونس علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا اور نہ ہی کسی پیغمبر سے اس کا امکان ہے، لیکن پیغمبر ے بلند مقام کے مناسب نہ تھا کہ بغیر اذن خداوندی کوئی کام کر گزریں یا کہیں دوسری جگہ منتقل ہوجائیں، اس خلاف شان عمل پر یہ معاملہ کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ انبیا کے ان نسیان اور اجتہادی غلطیوں کے پیچھے بھی امت کے لیے نصیحت اور ہدایت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت یونس علیہ اسلام کی اُمت ۔کہ حضرت یونس علیہ اسلام علیہ السلام انہیں عذاب کی خوشخبری سنا کرچھوڑ کر چلے گئے۔انہوں نے دیکھا نبی عذاب سے ڈرا کر علاقہ چھوڑ کر چلا گیا ہے او ر عذاب کے ابتدائی آثار بھی ہیں ، سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اُٹھا کر لے گئے اللہ کے سامنے جھک گئے اور اس سے فریاد شروع کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فریاد کرنے دعائیں مانگنے ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائیں اور ان سے عذاب دور کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام پہلے کئی سالوں سے انہیں تبلیغ کرتے رہے، سالوں سمجھاتے رہے لیکن قوم ایمان نہیں لائی ، یونس علیہ السلام کی یہ اجتہادی غلطی ساری قوم کے ایمان کا سبب بن گئی۔
ان واقعات کی بھی قادیانی دجال کے دجل کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں۔ کہاں انبیا علیہ السلام کی اپنی زندگی میں بتقاضہ بشریت سہو و نسیان اور کہاں پاخانہ میں گر کر مرنے والے قادیان کے دجال کا باون سال تک اصل عقیدے پر ڈٹے رہنے کے بعد ناصرف حیا ت مسیح کے متعلق امت مسلمہ کے متفقہ مذہب سے ہٹ جانا بلکہ خود ہی مسیح ہونے کا دعوی کر بیٹھنا۔
محترم آپ بلاوجہ کی قلابازیاں لگا رہے ہیں اور غیر متعلقہ واقعات کو مرزے کے دفاع کے لیے اسکی اس حماقت کے ساتھ جوڑ نے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یاد رکھیں تاویل اگر علم و دانش کے مطابق اور قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو تو اس کا مضائقہ نہیں، وہ لائق قبول ہے، لیکن اہل حق کی صحیح تاویل کو دیکھ کر اہل باطل الٹی سیدھی تاویلیں کرنے لگیں تو وہی بات ہوگی کہ: “ہرچہ مردم می کند بوز نہ ہم می کند” بندر نے آدمی کو دیکھ کر اپنے گلے پر استرا پھیر لیا تھا۔
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا معاملہ انسان کے ساتھ، نبي سميت، تدريجی ہے۔ خدا ايک يا چند دنوں ميں ساري ہدائيت نازل نہيں کرتا اور جيسے جيسے ہدائيت آتی ہے نبی اپنے عقائيد کی تصحيح کرتا جاتا ہے۔ نبی اسليئے معصوم عن الخطاء ہیں کہ جو خطا، ان سے سرزد ہوئيں شرک سميت يا ديگر کمزورياں تو وہ معصوميت ميں ہوئيں اور صرف اس وقت تک جب تک خدا نے اس پر خبر کرنا مناسب نہيں سمجھا ليکن جونہی خدا نے خبر کی نبی نے اصلاح کرلي۔
جواب :۔
آپ کے پاس اپنے اس دعوی کی کوئی مستند دلیل نہیں ہے کہ نبی سے شرک اور دوسرے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور خدا ان کو سالوں انہی میں مشغول رکھتے ہوئے بتدریج ہدایت نازل کرتا رہتا ہے اور پھر نبی ساتھ ساتھ اپنے عقائد کی تصحیح کرتا جاتا ہے۔ مطلب نبی بھی پہلے گمراہ، مشرک، کافر ہوتا ہے۔ انبیا پر اس طرح کا بہتان قادیانی زندیق ہی لگاسکتے ہیں۔
قادیانی اعتراض نمبر 6 :۔
اسکے علاوہ پہلے قبلہ يروشلم کہا پھر بعد ميں مکہ کو بنايا گيا۔ شراب پہلے حلال رہی اور پھر کہيں جاکے حرام ہوئي يہ تمام احکامات ايک دفعہ ہی کيوں نہ کہہ ديئے؟ قرآن کيوں سالوں نازل ہوتا رہا ہے اور ايک دن يا چند دنوں ميں نازل نہ ہوگيا
جواب :
مسلمانوں کا قبلہ کا رخ شروع سے بیت المقدس کی طرف تھا ، پھر اللہ نے کعبہ کی طرف کردیا، قرآن کے دوسرے سپارے کی پہلی چند آیات جن میں یہ تذکرہ آیا ہے ان میں اسکی دو بڑی وجوہات بیان کیں گئیں ہیں، ایک تو یہ کہ اس میں لوگوں کی آزمائش تھی کہ کون حکم کی پیروی کرتا ہے اور کون اعتراض کرتا ہے، دوسرا اس میں نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بھی تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ وہی ہونا چاہے جو کہ ان کے دادا ابراھیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور انکا قبلہ بھی وہی تھا۔
بہت سے حلال وحرام کے مسائل اسلام کے تشریعی نظام میں تد ریجی طور پر نافذ ہوئے ہیں، قطعی حرمت سے پہلے کچھ اشارات ہوئے ہیں، اس کے بعد قطعی تحریم نازل ہوئی ۔ شراب کی حرمت بھی بتدریج ہوئی اسکی وجہ یہ تھی کہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچا ہوا تھا، شراب ان لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی یک لخت اس کو حرام قرار دے دینا قرین مصلحت نہ تھا، اس لئے بڑی حکمت کے ساتھ تدریجاًاس کی ممانعت کے احکام اترے ، اللہ تعالیٰ شانہ نے نہایت ہی حکیما نہ انداز میں اول اشارے کر کے نفرت بٹھلا دی ،گو یا ز مین پوری طرح ہموار کر دی، پھر جب حرمت کا حکم آیا تو لوگوں نے اس کو بڑھ کر قبول کیا خود ہی اس کا سدباب کیا ، جس کے پاس جتنی شراب تھی ساری بہا دی، اس دن مدینہ کی گلیوںمیں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔
یہی وجہ قرآنی و دوسری اسلامی احکام کے بتدریج نفاد کی تھی، قرآن میں اللہ نے اسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ سارا قرآن اور دوسرے اسلام احکام اگر ایک ہی دفعہ اتار دیے جائیں تو اس سے ان کے نفاد میں اور ان پر کفار کے اعتراضات کے جوابات میں دقت ہوگی، احکام بھی بتدریج نازل ہوتے گئے اور انکی تشریح اور کفار کے سوالات کے جوابات بھی ساتھ ساتھ دیے جاتے رہے۔ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًاہ وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔ اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اُتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں۔ اور جو انوکھی بات تیرے سامنے لائیں گے ہم بھی تمہیں اس کا بہت ٹھیک جواب اوربہت عمدہ حل بتائیں۔
؟ کيا اسکو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کہيں گے؟ نعوذ باالله ۔
جواب:۔ نہیں ۔ جیسا کہ اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ یہ تو قرآنی احکامات کا بتدریج نفاد تھا ۔ حقیقت میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا یہ ہے کہ ایک شخص شریعت کے مکمل ہوجانے کے بعد باون سال تک خود بھی اسکا دفاع کرتا رہے اور پھر ایک دم انگریز سرکار کے بھیجے گئے فرشتے کی وحی پر لبیک کہتے ہوئے ناصرف پوری امت مسلمہ کے اجماع اور قرآن کی واضح تعلیم سے ہٹ جائے بلکہ اپنی زبان سے ہی پھر جانے اور مسیح علیہ السلام کی حیات کا انکار کرکے بدمعاشی سے خود ہی مسیح بن بیٹھے۔
اسکے علاوہ عقائيد عقائيد ميں فرق ہوتا ہے جبکہ حضرت عيسی کا زندہ آسمان پہ چلے جانا اور ہزاروں سال سے زندہ رہنا جبکہ ديگر تمام انسانوں، رسول اللہ سميت، کو وفات ہے يعنی حضرت عيسی کا خدائی صفات ميں سے حصہ ہے۔
جواب :۔ جن مسائل پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کا چودہ صدیوں سے اتفاق رہا تم اور تمہارا کذاب نبی قادیانی ان سے بھی منکر ہوبیٹھا، اور یوں دائرہٴ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ مثلاً: ختم نبوت کا انکار، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار، ان کی دوبارہ تشریف آوری کا انکار، وغیرہ وغیرہ۔ حیات عیسی علیہ السلام کا عقیدہ قرآن اور احادیث سے متواترہ سے ثابت ہے یہی بات میں پہلی پوسٹ میں حوالہ کے ساتھ لکھ چکا ہوں کہ یہ مرزا قادیانی کا عقیدہ بھی تھا جس سے وہ بعد میں پھر گیا۔ تمام ائمہ تفسیر اس پر متفق ہیں کہ ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کو ذکر فرمایا ہے اور رفع جسمانی پر احادیث متواترہ موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو احادیث متواترہ اور امت کے اجماعی عقیدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ آیات رفع جسمانی میں قطعی دلالت کرتی ہیں ۔قرآن کریم، احادیث متواترہ اور نصوص قطعیہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کیا گیا اور نہ ان پر موت واقع ہوئی ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور قرب قیامت میں ان کے زندہ آسمان سے نازل ہونے اور ان کے کارناموں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسرالصلیب ویقتل والخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لایقبلہ احد…“ (صحیح بخاری ص:۴۹، ج:۱) ترجمہ:… ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے درمیان (عیسیٰ) ابن مریم عادل حاکم بن کر نازل ہوں گے، پس وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جنگ کو موقوف کردیں گے اور مال اس قدر لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔“
یہ حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ قادیانیوں اور یہودیوں کے علاوہ کسی مسلمان کا نہیں ہے، قرآن میں سورۃ مائدہ کی آیت میں اللہ نے یہودکے اس دعوی کے ہم نے عیسی کو سولی پر چڑھا دیا ہے کہ جواب میں فرمایا ”وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ، وکان اللہ عزیزاً حکیما، وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ۔“ (النساء: ۱۵۷، تا ۱۵۹) "اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک، بلکہ اس کو اٹھالیا اللہ نے اپنی طرف، اور اللہ ہے زبردست حکمت والا ۔اور جتنے فرقے ہیں اہلِ کتاب کے سو عیسیٰ پر ایمان لائیں گے اس کی موت سے پہلے۔ پہلی بات یہاں اس آیت میں “رفع الی الله” قتل کے مقابلے میں واقع ہوا ہے، جہاں رفع، قتل کے مقابلے میں ہو وہاں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” ہی مراد ہوسکتا ہے۔ یہی موقف و مطلب قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے ارشاد میں آیا ہو ہے ۔ دوسری بات آسمان کی طرف اٹھنا اور ہزاروں سال تک زندہ رہنا عیسی علیہ السلام کی اپنی مرضی سے نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی مرضی ہے اس سے انکی کسی صفت کا اظہار نہیں بلکہ اللہ کی حکمت اور طاقت کا اظہار ہے۔ تیسری بات اللہ عالم الغیب ہے اسے پتا تھا کہ عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ عام لوگوں کی عقل سے بالاتر ہے اورلوگ اس بارے میں چہ میگوئیاں کریں گے کہ ان کو آسمان پر کیسے اور کیوں اٹھالیا؟ سب کو موت ہے انکو ابھی تک کیوں نہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ زمین پر ان کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام شبہات کا جواب “وکان الله عزیزا حکیما۔” میں دے دیا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکمت والا ہے، پوری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم اٹھالینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اور ان کے ہاں زندہ رہنے کی استعداد پیدا کردینا بھی اس کی قدرت میں ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادے کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اور پھر وہ حکیم مطلق بھی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ معاملاتِ الٰہیہ کو بھی اپنی عقل و فہم اور مشاہدہ و تجربہ کے ترازو میں تولنا چاہتے ہیں، ورنہ ایک موٴمن کے لئے فرمودہٴ خدا اور رسول سے بڑھ کر یقین و ایمان کی کون سی بات ہوسکتی ہے؟
خود مرزا بھی زندگی کے پچاس سال اسکی تائید میں یہی لکھتا رہا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں
“مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰) دوسری جگہ لکھتا ہے: “اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔” “یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸)
مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
خلاصہ یہ کہ نبی خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والا قرآن اور انہی کی زبان سے نکلنے والی احادیث کسی کاذب نبی کو سپورٹ نہیں کرتیں اور نہ کبھی کرسکتیں ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود اپنی احادیث میں ان کذابوں کی پیشن گوئی فرمائی تھی جو انکی ختم نبوت کی چادر کھینچنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تمام قادیانیوں کو ہدایت اور شرح صدر نصیب فرمادے۔
پہلی بھی کئی دفعہ عرض کرچکا ہوں کہ مرزے اور اس کے چیلوں کو بھانڈ سمجھا کریں یا مسخرے۔۔۔ مرزے کی پیشگوئیاں امان اللہ کے سٹیج ڈراموں سے بھی زیادہ مزاحیہ اور مخولیہ ہیں وہ تو شکر کریں کہ مرزے نے آخری عمر میں باکرہ عورت ہونے کا دعوی نہیں کردیا اور اپنے ہی کسی خلیفے سے نکاح نی پڑھالیا، ورنہ آج مرزے مسرور کی بجائے لطیف ببلی، جماعت قادیان کا سربراہ "ہوتی"۔۔۔
جعفر بھائی آپ نے صحیح فرمایا، اس قادیان کے مسخرے کی تحاریر ایسے ہی ہیں، اسکی کتابیں پڑھیں تحاریر پرھ کر بندے کو متلی ہونے لگتی ہے۔ اور ایسے ایسے الہامات لکھے ہوئے ہیں کہ بندے کو بعض اوقات بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے ۔ میں نے اپنی پوسٹ میں اوپر بھی اسی طرح کی مرزا کے کذب کی ایک مثال دی کہ مرزا اپنی زندگی کے باون سال مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا دفاع کرتا رہا ، پھر جیسے ہی انگریزی فرشتہ انگلینڈ سے وحی لے کر آیا تو جناب نہ صرف اپنی زبان سے پھر گئے بلکہ ایک ایسا دعوی کیا کہ میڈیکل سائنس حیران ہے۔ مرزا لکھتا ہے وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا، وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” مطلب مرزا عیسیٰ بن مریم بننے کے لئے پہلے عورت بنا، پھر حاملہ ہوا، پھر بچہ جننا، پھر بچے کا نام عیسیٰ بن مریم رکھ کر خود ہی بچہ بن گیا۔ اس طرح قادیان کا مسیح موعود وجود میں آگیا،
قادیان کے اس پاگل کو نبی ماننے والوں کے ایمان تو سلب ہوئے ہی انکی عقلیں بھی سلب ہوچکیں ہیں۔
Mirza was donkey.... sorry I dont want to insul donkeys... he was a swine but I dont want to insult that.... plz translate my blog post on birth of Mirza and give it a special link on your blog and in fact ask others to do so.... thanks
جناب زرا غور تو کریں کہ آپ قرآن کے مقابلہ پر تفاسیر پیش کرنے پر مجبور ھو گئے ھیں :) خوش کن بات ھے :) ایک سیدھی سی بات کا مختصر جواب دیں کیا سورج چاند ستاروں کو اپنا رب کہنا شرک ھے کہ نھیں ؟
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔
28 comments:
حضرت ابراہيم کا واقعہ قرآن ميں ہے کہ انہوں نے ستارے، چاند اور سورج کو سجدہ کيا يعنی مشرک عقائيد رکھتے تھے ليکن بعد ميں نبی بنے۔ کہاں شرک اور کہاں نبوت۔ اب حضرت ابراھيم کو بھی عقيدہ بدلنے پہ نبی ماننے سے انکار کرديں اور انہی خرافات سے نوازيں، نعوذ باالله ۔ سمجھداروں کے ليئے اسميں سبق يہ ہے کہ نبی بھی ہدائيت کے ليئے خدا کی رہنمائی کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ اور جو ہدائيت نہيں چاہتے وہ اسطرح کے اعتراضات کرکے آخرکار تمام انبيا، کو جھوٹا بنا ديتے ہيں۔
ابراھیم علیہ السلام پر اعتراض :
قرآن ابراھیم علیہ السلام کے متعلق بیان کرتا ہے کہ اللہ نے انہیں بچپن سے ہی ہدایت دے رکھی تھی ملاحظہ فرمائیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ۔
اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو پہلے (بچپن) ہی سے ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان کے حال سے بخوبی باخبر تھے۔ ( ترجمہ تفسیر ابن کثیر، سورۃ انبیا آیت باون)
اب آپ نے جن آیات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ہ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ہ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ ہ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ہ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ہ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ہ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ۔
ترجمہ : اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم بتوں کو کیا معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہو۔ اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں۔(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔ میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارےمیں (کیا) بحث کرتے ہو اس نے تو مجھے سیدھا رستہ دکھا دیا ہے۔ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا۔ ہاں جو میرا پروردگار چاہے۔ میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے۔
تفسیر :
میں اس کی تفسیر بھی مشہور و متفقہ تفسیر قرآن ابن کثیر سے ہے پیش کرتا ہوں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مفسیرین ان آیتوں کی بابت خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایک تو یہ بطور نظر اور غوروفکر کے تھا، دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ تھا، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہی مروی ہے۔
بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا اہوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارہ میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں۔ یہ مقررہ جال سے چلتا۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا ابھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو۔ ۔۔۔۔ یہ تو بالکل ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
والقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل الخ، یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟
اور آیت میں ہے
ان ابراہیم کان امۃ قانتا اللہ الخ، ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا،
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں کود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔
وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ۔
(تفسیر ابن کثیر سورۃ الانعام تفیسر آیت چوہتر تا اسی)
آپ نے قرآن کی آیات کا مفہوم سمجھے بغیر انتہائی جراءت سے کام لیتے ہوئے محض ایک آوارہ، جھوٹے نبی کو بچانے کے لیے حضرت ابراھیم علیہ السلام پر جو شرک کا فتوی اور بہتان لگایا ہے وہ بالکل غلط ہے ۔ آپ کے اس بہتان سے قادیانیوں کی یہ بونگی دلیل بھی سامنے آگئی ہے۔ حقیقت میں پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں ، اور الله تعالی نے جتنے بهی انبیاء کرام کو مبعوث کیا سب کے سب دعوی نبوت سے پہلے اور دعوی نبوت کے بعد ہر قسم کی صغیره وکبیره سے معصوم ہوتے ہیں حتی کہ لا یعنی اور فضول اعمال سے بهی سے بهی معصوم ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ پورے دلائل سے ثابت ہے۔ انبیا کی طرف غلطی کی نسبت بھی گناہ ہے ۔
اگر مختصر جواب کے مقابل لمبے لمبے جواب آنے لگيں تو سمجھ ليں بندہ پھنس گيا ہے۔
دوسری بات کہ ہم قرآن پہ رہيں گے، تفسير کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں۔
آپ کے ديئے ہوئے حوالوں سے حضرت ابراھيم کا کم از کم تين دفعہ شرک کرنا ثابت ہے يعنی غير اللہ کو رب کہا۔اگر معصوم عن الخطاء کا يہ مطلب ہے تو يہ کيسے ہوا اور اللہ نے آپ کو غيرا اللہ کو رب کہنے سے روکا کيوں نہيں اور شرک کيوں کرنے ديا؟ پھر اس واقعہ کے فورا بعد آپ قوم کو مخاطب کرتے ہيں يعنی آپکی نبوت کے دور کے قريب کا واقعہ ہے اور بڑی عمر کا واقعہ ہے کيونکہ بچے کو تو نہ کوئی نبی مانتا ہے نہ اسکی بات سنتا ہے تو بچپن سے ہدائيت يافتہ ہونے کا کيا مطلب ہے؟ صرف دعوی کردينا تو کچھ نہيں اگر بظاہر دعوی اور حقيقت ميں تضاد ہو تو اسکی مناسب وجوہات آنی بھی ضروری ہيں۔
اب نبی کی بات ميں تبديلی کی اور مثاليں؛
حديبيہ کے واقعہ کا سب کو علم کہ رسول اللہ نے فرمايا ہم حج کريں گے اور صحابہ کو لے کے چلے ليکن پھر کفار کے انکار پہ حج نہ ہوسکا اور واپس آنا پڑھا- اب اس واقعہ کی بعد ميں جو بھی تاويل کرلی جائے ليکن صحابہ کرام اس واقعہ پہ بہت دکھی تھے اور ايک وقت تو رسول اللہ کی پکار کا جواب بھی کسی صحابی نے نہيں ديا۔ حضرت عمر نے تو يہ بھی پوچھا کہ کيا آپ اللہ کے نبی نہيں ہيں؟
حضرت يونس نے کو قوم کو عذاب کی خبر دی اور وہاں سے چلدئيے ليکن پھر عذاب نہيں آيا۔ قطع نظر اسکے کہ عذاب کيوں نہيں آيا جب نبی نے ايک بات کی تھی تو پوری ہونی چاہيئے تھي۔
اسکے علاوہ پہلے قبلہ يروشلم کہا پھر بعد ميں مکہ کو بنايا گيا۔ شراب پہلے حلال رہی اور پھر کہيں جاکے حرام ہوئي۔ اور اسی طرح ديگر احکامات۔ کيا اسکو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کہيں گے؟ نعوذ باالله ۔
يہ تمام احکامات ايک دفعہ ہی کيوں نہ کہہ ديئے؟ قرآن کيوں سالوں نازل ہوتا رہا ہے اور ايک دن يا چند دنوں ميں نازل نہ ہوگيا؟
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا معاملہ انسان کے ساتھ، نبي سميت، تدريجی ہے۔ خدا ايک يا چند دنوں ميں ساري ہدائيت نازل نہيں کرتا اور جيسے جيسے ہدائيت آتی ہے نبی اپنے عقائيد کی تصحيح کرتا جاتا ہے۔ نبی اسليئے معصوم عن الخطاء ہیں کہ جو خطا، ان سے سرزد ہوئيں شرک سميت يا ديگر کمزورياں تو وہ معصوميت ميں ہوئيں اور صرف اس وقت تک جب تک خدا نے اس پر خبر کرنا مناسب نہيں سمجھا ليکن جونہی خدا نے خبر کی نبی نے اصلاح کرلي۔
اسکے علاوہ عقائيد عقائيد ميں فرق ہوتا ہے۔ سورج چاند ستارے کو رب بنانا واضح شرک ہے جبکہ حضرت عيسی کا زندہ آسمان پہ چلے جانا اور ہزاروں سال سے زندہ رہنا جبکہ ديگر تمام انسانوں، رسول اللہ سميت، کو وفات ہے يعنی حضرت عيسی کا خدائی صفات ميں سے حصہ ہے، ايک علمی نقطہ ہے جو غور اور وقت طلب ہے اسليئے اسکو ايک واضح شرک کي کيفيت سے ملانا ممکن نہيں۔ جيسا کہ بيان کيا گيا انبيا کو بھی، نبوت سے پہلے يا بعد ميں، تمام مضامين تک پہنچنے ميں وقت درکار ہوتا ہے۔
شراب جيسی حرام چيز کئی سال حلال رکھنے پر کس کی تنقيد کی جائے؟
الله کی، رسول کی يا کسی اور کي؟
اسطرح کے الزامات سے تو پھر تمام انبيا زد پہ ہيں۔
انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں کے ضمن ميں يہ بتا ديں کے حضرت يونس کس ضمن ميں تين دن مچھلی کے پيٹ ميں رہے اور حضرت آدم کس پاداش ميں جنت سے نکالے گئے؟ يہ بات عجيب نہيں کہ معصوم عن الخطاء بھی ہيں اور سزا بھي پا رہے ہيں؟
Ahmadiyyat Zindabad...The true and beautiful face of islam...i dont want to give any arguement about Ahmadiyyt because people like Abu Jahal will never accept the truth but just copmare the possition of your country which according to you served the muslim umma by calling us non muslims and look at the position of jamaar AHmadiyya which is now spread all over world and but afsoos you people will never learn
AhmadiyyT Zindabad
لعنت ہو مرزا غلام احمد قادیانی لعین کے جاہل پیرو کاروں پر
قادیانی اعتراض نمبر 1 :۔
اگر مختصر جواب کے مقابل لمبے لمبے جواب آنے لگيں تو سمجھ ليں بندہ پھنس گيا ہے۔
دوسری بات کہ ہم قرآن پہ رہيں گے، تفسير کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں۔
آپ کے ديئے ہوئے حوالوں سے حضرت ابراھيم کا کم از کم تين دفعہ شرک کرنا ثابت ہے يعنی غير اللہ کو رب کہا۔اگر معصوم عن الخطاء کا يہ مطلب ہے تو يہ کيسے ہوا اور اللہ نے آپ کو غيرا اللہ کو رب کہنے سے روکا کيوں نہيں اور شرک کيوں کرنے ديا؟
جواب :
جناب جو اعتراض آپ نے پیش کیا تھا، میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں اس کا مکمل بیک گراؤنڈ پیش کیا، وہاں وہ ڈیٹیل ضروری تھی، اگر آپ میرے اس جواب کو پورا پڑھ لیتے تو دوبارہ اعتراض کرنے کی ضرورت نہ رہتی، باقی یہ وسوسہ اپنے ذہن سے نکال لیں کہ آپ یا آپ کا کوئی سکالر کبھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے کسی محافظ کو پھنسا یا کہیں ہرا سکے گا۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
میں نے وہاں جو ڈیٹیل دی تھی قرآن نے وہاں حضرت ابرھیم علیہ السلام کا اپنے والد اور پھر اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا ذکر کیا ہے، ابرھیم علیہ السلام نے شرک نہیں کیا بلکہ ایک تمثیل سے اپنی قوم کو حقیقی رب کی طرف دعوت دی ہے، یہ بات تمام حقائق و دلائل جو میں نے پچھلی پوسٹ میں پیش کیے ہیں’ سے ظاہر ہے۔ وہ تفسیر کسی دیوبندی کی نہیں ہے بلکہ قرآن کی پرانی اور معتبر تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ ہے، اسو قت چونکہ دنیا میں قادیانیت کا وجود نہیں تھا اس لیے اس پر یہ فتوی لگانا کہ یہ انکے اپنے مفاد میں ہوسکتی ہے ،’ بچگانہ بات ہے۔ آپ کی بات اک رخ سے صحیح ہے کہ شخصی/ذاتی تفسیر کسی کے اپنے مفاد میں ہوسکتی ہے، اس لیے ہمیں قرآن کی تفسیر میں اپنی ذاتی رائے کے بجائے قرآن کی آیات کے متعلق چودہ سو سال سے چلے آنے والے موقف کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت کا کبھی گمراہی پر اجماع نہیں ہوسکتا۔ میر ا آپ کو چیلنج ہے کہ آپ اپنے موقف کے حق میں کسی بھی مستند تفسیر کا حوالہ پیش کردیں کہ ابراھیم علیہ السلام پہلے مشرک تھے، بعد میں مومن اور پھر نبی ہوئے۔
دوسری بات اگر آپ قرآن کی کسی تفسیر کے قائل نہیں ، پھر بھی میرا پچھلا جواب آپ کے لیے کافی تھا ، اس میں میں نے تفسیر کے ساتھ علیحدہ سے ایک آیت پیش کی تھی جس کے الفاظ میں یہ بات واضح موجود ہے کہ ابرھیم علیہ السلام بچپن سے ہی ہدایت یافتہ تھے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ۔
اور ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو پہلے (بچپن) ہی سے ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان کے حال سے بخوبی باخبر تھے۔
اب آپ لازمی فرمائیں گے کہ لغات بھی کسی کے اپنے فہم يا مفاد پہ ہو سکتی ہے جو دوسروں کے ليئے سند نہيں!!!!
قادیانی اعتراض نمبر 2:۔
پھر اس واقعہ کے فورا بعد آپ قوم کو مخاطب کرتے ہيں يعنی آپکی نبوت کے دور کے قريب کا واقعہ ہے اور بڑی عمر کا واقعہ ہے کيونکہ بچے کو تو نہ کوئی نبی مانتا ہے نہ اسکی بات سنتا ہے تو بچپن سے ہدائيت يافتہ ہونے کا کيا مطلب ہے؟ صرف دعوی کردينا تو کچھ نہيں اگر بظاہر دعوی اور حقيقت ميں تضاد ہو تو اسکی مناسب وجوہات آنی بھی ضروری ہيں۔
جواب :
میں نے تو کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ یہ واقعہ بھی انکے بچپن میں پیش آیا، سیکنڈ پرسن کا موقف پڑھے بغیر آنکھیں بند کرکے جب جواب پوسٹ کیا جائے تو ایسی ہی غلطیاں ہوتیں ہیں۔ امید ہے اگلی دفعہ ہمارا موقف پورا پڑھ کر اپنا جواب پوسٹ کریں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ بات چیت محض ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ اس کا کچھ نتیجہ نکلے اس کے لیے ہمیں محض جذباتی جواب دینے کے بجائے بحث و مباحثہ کے قواعد وضوابط کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔۔
قادیانی اعتراض نمبر 3 :۔
اب نبی کی بات ميں تبديلی کی اور مثاليں؛
حديبيہ کے واقعہ کا سب کو علم کہ رسول اللہ نے فرمايا ہم حج کريں گے اور صحابہ کو لے کے چلے ليکن پھر کفار کے انکار پہ حج نہ ہوسکا اور واپس آنا پڑھا- اب اس واقعہ کی بعد ميں جو بھی تاويل کرلی جائے ليکن صحابہ کرام اس واقعہ پہ بہت دکھی تھے اور ايک وقت تو رسول اللہ کی پکار کا جواب بھی کسی صحابی نے نہيں ديا۔ حضرت عمر نے تو يہ بھی پوچھا کہ کيا آپ اللہ کے نبی نہيں ہيں؟
جواب :۔
صلح حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اپنی مرضی کی کڑی شرائط منظور کر لیں اور ظاہر ی طو ر پر مسلمانوں کو اس میں اپنی شکست نظر آئی، لیکن اس صلح کے واقعہ اور مسلمانوں کو بعد میں اس کی وجہ سے ملنے والے فواعد کو پڑھنے والا حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کووسعت نظری، فہم وفراست اور بہترین حکمت عملی اور سیاست کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس صلح سے بعد میں ملنے والے فواعد کو قرآن کی اس آیت نے فتح کہا ۔
۔”ہم نے تمہیں واضح فتح عنایت کی”(سورہ فتح :۱)۔
اس صلح کے چند اہم فوائد :۔
پہلی مرتبہ عرب میں ایک اسلامی ریاست کا وجودتسلیم کرلیا گیا اور یہ بھی اذن عام ہوا کہ جن قبائل اقوام نے کافروں مشرکوں کے ساتھ شامل ہونا ہے‘ ہوجائیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوناہے‘ ہوجائیں ۔
دوسری فتح یہ ہوئی کہ مسلمانوں کے لئے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرکے دشمن نے یہ مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جو بات کہ قریش اب تک کہتے آئے تھے۔
تیسری فتح‘ یہ ہوئی کہ دس برس تک جنگ بندی کرکے اسلام کو تبلیغ اور دعوت عام کا موقع ہاتھ آگیا‘ سارا عرب وعجم اللہ کے پیغام کے لئے کھل گیا۔
چوتھی فتح شمال اور وسطی عرب میں اللہ پاک نے یہود اور ان کے حلیف قبائل پردی اور اسی دورانیہ میں مسلم معاشرت مستحکم ہوئی۔ سال دوسال میں عرب کی طاقت کا توازن بدل چکا تھا‘ حتی کہ دو ہی سال بعد فتح مکہ سے پورا نقشہ ہی بدل گیا اور فوجاً فوجاً دور نزدیک کے قبائل اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ اگر مسلمان حدیبیہ میں مشرکوں سے ٹکرا جاتے تو ان نعمتوں سے محروم ہوجاتے جو بعد میں انہیں نصیب ہوئیں۔
یہ سب برکات اس چیز کے اندر چھپی تھیں جسے مسلمان تو بھاری سمجھ رہے تھے مگر خود خالق کائنات نے اسے فتح فرمایا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت براء بن عازب تینوں حضرات سے قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ :
”لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں“۔ (بخاری‘ مسلم‘ مسند احمد ‘ ابن جریر)
جناب فرمائیں کیا اس حکمت عملی کا مرزا قادیانی کی اس دورنگی کے ساتھ کوئی جوڑ ہے کہ وہ زندگی کے باون سال تو حضر ت عیسی علیہ السلام کی حیات اور آسمانوں پر موجودگی کے حق میں ہزار سال سے چلے آنے والے امت مسلمہ کے اجماع کے حق میں فتوے دیتا رہا اور اس اجماع کے منکر کو مشرک او ر لعنتی قرار دیتا رہا پھر اچانک انگریز سرکار کا فرشتہ آیا اور جناب نے الٹی کلابازی لگا ئی اور منکریں حیات عیسی کی صف میں کھڑے ہو کر اپنے ہی فتوں سے لعنتی اور مشرک بن گیا۔
قادیانی اعتراض نمبر 4:۔
حضرت يونس نے کو قوم کو عذاب کی خبر دی اور وہاں سے چلدئيے ليکن پھر عذاب نہيں آيا۔ قطع نظر اسکے کہ عذاب کيوں نہيں آيا جب نبی نے ايک بات کی تھی تو پوری ہونی چاہيئے تھي۔انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں کے ضمن ميں يہ بتا ديں کے حضرت يونس کس ضمن ميں تين دن مچھلی کے پيٹ ميں رہے اور حضرت آدم کس پاداش ميں جنت سے نکالے گئے؟ يہ بات عجيب نہيں کہ معصوم عن الخطاء بھی ہيں اور سزا بھي پا رہے ہيں؟
عصمت انبیا :
پوری امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں ، اور الله تعالی نے جتنے بهی انبیاء کرام کو مبعوث کیا سب کے سب دعوی نبوت سے پہلے اور دعوی نبوت کے بعد ہر قسم کی صغیره وکبیره سے معصوم ہوتے ہیں حتی کہ لا یعنی اور فضول اعمال سے بهی سے بهی معصوم ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ پورے دلائل سے ثابت ہے۔ انبیا کی طرف غلطی کی نسبت بھی گناہ ہے رب العزت نے انبیا کرام کو طبعا قبائح اور معاصی سے متنفر کیا ہوتا ہے طاعات کی طرف ان کی رغبت عقلی ہی نہیں بلکہ طبعی بھی ہوتی ہے اسی طرح معاصی سے ان کا تنفر عقلی ہی نہیں بلکہ طبعا ہوتا ہے ان کا ہر ارداہ ، عمل اور قول ہر حرکت و سکون کائنات کے لیے اسوہ اور نمونہ ہوتی ہے۔
ہاں تقاضہ بشریت کی بنا پر سہو و نسیان کا امکان باقی رہتا ہے تاہم فورا ہی اس پر متنبہ کردیا جاتا ہے اور یہ سہو ہر گز کوئی گناہ یا کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔یہی بات سیدنا آدم علیہ السلام کے باب میں بھی ہے خود قران میں اس بارے میں ہے
وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ ۔ ( سورۃ طہ آیت ایک سو پندرہ)
. اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے ۔
اور اسی طرح کی اجتہادی غلطی حضرت یونس علیہ السلام سے ہوئی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے ایک چیز کو سمجھا اور بغیر حکم الہی کے بستی سے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت آدم ویونس علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا اور نہ ہی کسی پیغمبر سے اس کا امکان ہے، لیکن پیغمبر ے بلند مقام کے مناسب نہ تھا کہ بغیر اذن خداوندی کوئی کام کر گزریں یا کہیں دوسری جگہ منتقل ہوجائیں، اس خلاف شان عمل پر یہ معاملہ کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ انبیا کے ان نسیان اور اجتہادی غلطیوں کے پیچھے بھی امت کے لیے نصیحت اور ہدایت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت یونس علیہ اسلام کی اُمت ۔کہ حضرت یونس علیہ اسلام علیہ السلام انہیں عذاب کی خوشخبری سنا کرچھوڑ کر چلے گئے۔انہوں نے دیکھا نبی عذاب سے ڈرا کر علاقہ چھوڑ کر چلا گیا ہے او ر عذاب کے ابتدائی آثار بھی ہیں ، سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اُٹھا کر لے گئے اللہ کے سامنے جھک گئے اور اس سے فریاد شروع کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فریاد کرنے دعائیں مانگنے ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائیں اور ان سے عذاب دور کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام پہلے کئی سالوں سے انہیں تبلیغ کرتے رہے، سالوں سمجھاتے رہے لیکن قوم ایمان نہیں لائی ، یونس علیہ السلام کی یہ اجتہادی غلطی ساری قوم کے ایمان کا سبب بن گئی۔
ان واقعات کی بھی قادیانی دجال کے دجل کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں۔ کہاں انبیا علیہ السلام کی اپنی زندگی میں بتقاضہ بشریت سہو و نسیان اور کہاں پاخانہ میں گر کر مرنے والے قادیان کے دجال کا باون سال تک اصل عقیدے پر ڈٹے رہنے کے بعد ناصرف حیا ت مسیح کے متعلق امت مسلمہ کے متفقہ مذہب سے ہٹ جانا بلکہ خود ہی مسیح ہونے کا دعوی کر بیٹھنا۔
محترم آپ بلاوجہ کی قلابازیاں لگا رہے ہیں اور غیر متعلقہ واقعات کو مرزے کے دفاع کے لیے اسکی اس حماقت کے ساتھ جوڑ نے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یاد رکھیں تاویل اگر علم و دانش کے مطابق اور قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو تو اس کا مضائقہ نہیں، وہ لائق قبول ہے، لیکن اہل حق کی صحیح تاویل کو دیکھ کر اہل باطل الٹی سیدھی تاویلیں کرنے لگیں تو وہی بات ہوگی کہ: “ہرچہ مردم می کند بوز نہ ہم می کند” بندر نے آدمی کو دیکھ کر اپنے گلے پر استرا پھیر لیا تھا۔
قادیانی اعتراض نمبر 5:۔
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا معاملہ انسان کے ساتھ، نبي سميت، تدريجی ہے۔ خدا ايک يا چند دنوں ميں ساري ہدائيت نازل نہيں کرتا اور جيسے جيسے ہدائيت آتی ہے نبی اپنے عقائيد کی تصحيح کرتا جاتا ہے۔ نبی اسليئے معصوم عن الخطاء ہیں کہ جو خطا، ان سے سرزد ہوئيں شرک سميت يا ديگر کمزورياں تو وہ معصوميت ميں ہوئيں اور صرف اس وقت تک جب تک خدا نے اس پر خبر کرنا مناسب نہيں سمجھا ليکن جونہی خدا نے خبر کی نبی نے اصلاح کرلي۔
جواب :۔
آپ کے پاس اپنے اس دعوی کی کوئی مستند دلیل نہیں ہے کہ نبی سے شرک اور دوسرے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور خدا ان کو سالوں انہی میں مشغول رکھتے ہوئے بتدریج ہدایت نازل کرتا رہتا ہے اور پھر نبی ساتھ ساتھ اپنے عقائد کی تصحیح کرتا جاتا ہے۔ مطلب نبی بھی پہلے گمراہ، مشرک، کافر ہوتا ہے۔ انبیا پر اس طرح کا بہتان قادیانی زندیق ہی لگاسکتے ہیں۔
قادیانی اعتراض نمبر 6 :۔
اسکے علاوہ پہلے قبلہ يروشلم کہا پھر بعد ميں مکہ کو بنايا گيا۔
شراب پہلے حلال رہی اور پھر کہيں جاکے حرام ہوئي
يہ تمام احکامات ايک دفعہ ہی کيوں نہ کہہ ديئے؟ قرآن کيوں سالوں نازل ہوتا رہا ہے اور ايک دن يا چند دنوں ميں نازل نہ ہوگيا
جواب :
مسلمانوں کا قبلہ کا رخ شروع سے بیت المقدس کی طرف تھا ، پھر اللہ نے کعبہ کی طرف کردیا، قرآن کے دوسرے سپارے کی پہلی چند آیات جن میں یہ تذکرہ آیا ہے ان میں اسکی دو بڑی وجوہات بیان کیں گئیں ہیں، ایک تو یہ کہ اس میں لوگوں کی آزمائش تھی کہ کون حکم کی پیروی کرتا ہے اور کون اعتراض کرتا ہے، دوسرا اس میں نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بھی تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ وہی ہونا چاہے جو کہ ان کے دادا ابراھیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور انکا قبلہ بھی وہی تھا۔
بہت سے حلال وحرام کے مسائل اسلام کے تشریعی نظام میں تد ریجی طور پر نافذ ہوئے ہیں، قطعی حرمت سے پہلے کچھ اشارات ہوئے ہیں، اس کے بعد قطعی تحریم نازل ہوئی ۔ شراب کی حرمت بھی بتدریج ہوئی اسکی وجہ یہ تھی کہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچا ہوا تھا، شراب ان لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی یک لخت اس کو حرام قرار دے دینا قرین مصلحت نہ تھا، اس لئے بڑی حکمت کے ساتھ تدریجاًاس کی ممانعت کے احکام اترے ، اللہ تعالیٰ شانہ نے نہایت ہی حکیما نہ انداز میں اول اشارے کر کے نفرت بٹھلا دی ،گو یا ز مین پوری طرح ہموار کر دی، پھر جب حرمت کا حکم آیا تو لوگوں نے اس کو بڑھ کر قبول کیا خود ہی اس کا سدباب کیا ، جس کے پاس جتنی شراب تھی ساری بہا دی، اس دن مدینہ کی گلیوںمیں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔
یہی وجہ قرآنی و دوسری اسلامی احکام کے بتدریج نفاد کی تھی، قرآن میں اللہ نے اسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ سارا قرآن اور دوسرے اسلام احکام اگر ایک ہی دفعہ اتار دیے جائیں تو اس سے ان کے نفاد میں اور ان پر کفار کے اعتراضات کے جوابات میں دقت ہوگی، احکام بھی بتدریج نازل ہوتے گئے اور انکی تشریح اور کفار کے سوالات کے جوابات بھی ساتھ ساتھ دیے جاتے رہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًاہ وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔ اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اُتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں۔ اور جو انوکھی بات تیرے سامنے لائیں گے ہم بھی تمہیں اس کا بہت ٹھیک جواب اوربہت عمدہ حل بتائیں۔
قادیانی اعتراض نمبر 7:۔
؟ کيا اسکو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا کہيں گے؟ نعوذ باالله ۔
جواب:۔
نہیں ۔ جیسا کہ اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ یہ تو قرآنی احکامات کا بتدریج نفاد تھا ۔
حقیقت میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا یہ ہے کہ ایک شخص شریعت کے مکمل ہوجانے کے بعد باون سال تک خود بھی اسکا دفاع کرتا رہے اور پھر ایک دم انگریز سرکار کے بھیجے گئے فرشتے کی وحی پر لبیک کہتے ہوئے ناصرف پوری امت مسلمہ کے اجماع اور قرآن کی واضح تعلیم سے ہٹ جائے بلکہ اپنی زبان سے ہی پھر جانے اور مسیح علیہ السلام کی حیات کا انکار کرکے بدمعاشی سے خود ہی مسیح بن بیٹھے۔
قادیانی اعتراض نمبر 8:۔
اسکے علاوہ عقائيد عقائيد ميں فرق ہوتا ہے جبکہ حضرت عيسی کا زندہ آسمان پہ چلے جانا اور ہزاروں سال سے زندہ رہنا جبکہ ديگر تمام انسانوں، رسول اللہ سميت، کو وفات ہے يعنی حضرت عيسی کا خدائی صفات ميں سے حصہ ہے۔
جواب :۔
جن مسائل پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کا چودہ صدیوں سے اتفاق رہا تم اور تمہارا کذاب نبی قادیانی ان سے بھی منکر ہوبیٹھا، اور یوں دائرہٴ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ مثلاً: ختم نبوت کا انکار، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار، ان کی دوبارہ تشریف آوری کا انکار، وغیرہ وغیرہ۔
حیات عیسی علیہ السلام کا عقیدہ قرآن اور احادیث سے متواترہ سے ثابت ہے یہی بات میں پہلی پوسٹ میں حوالہ کے ساتھ لکھ چکا ہوں کہ یہ مرزا قادیانی کا عقیدہ بھی تھا جس سے وہ بعد میں پھر گیا۔ تمام ائمہ تفسیر اس پر متفق ہیں کہ ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کو ذکر فرمایا ہے اور رفع جسمانی پر احادیث متواترہ موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو احادیث متواترہ اور امت کے اجماعی عقیدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ آیات رفع جسمانی میں قطعی دلالت کرتی ہیں ۔قرآن کریم، احادیث متواترہ اور نصوص قطعیہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کیا گیا اور نہ ان پر موت واقع ہوئی ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور قرب قیامت میں ان کے زندہ آسمان سے نازل ہونے اور ان کے کارناموں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسرالصلیب ویقتل والخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لایقبلہ احد…“ (صحیح بخاری ص:۴۹، ج:۱)
ترجمہ:… ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، عنقریب تمہارے درمیان (عیسیٰ) ابن مریم عادل حاکم بن کر نازل ہوں گے، پس وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جنگ کو موقوف کردیں گے اور مال اس قدر لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔“
یہ حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ قادیانیوں اور یہودیوں کے علاوہ کسی مسلمان کا نہیں ہے، قرآن میں سورۃ مائدہ کی آیت میں اللہ نے یہودکے اس دعوی کے ہم نے عیسی کو سولی پر چڑھا دیا ہے کہ جواب میں فرمایا
”وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ، وکان اللہ عزیزاً حکیما، وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ۔“ (النساء: ۱۵۷، تا ۱۵۹)
"اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک، بلکہ اس کو اٹھالیا اللہ نے اپنی طرف، اور اللہ ہے زبردست حکمت والا ۔اور جتنے فرقے ہیں اہلِ کتاب کے سو عیسیٰ پر ایمان لائیں گے اس کی موت سے پہلے۔
پہلی بات یہاں اس آیت میں “رفع الی الله” قتل کے مقابلے میں واقع ہوا ہے، جہاں رفع، قتل کے مقابلے میں ہو وہاں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” ہی مراد ہوسکتا ہے۔ یہی موقف و مطلب قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے ارشاد میں آیا ہو ہے ۔
دوسری بات آسمان کی طرف اٹھنا اور ہزاروں سال تک زندہ رہنا عیسی علیہ السلام کی اپنی مرضی سے نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی مرضی ہے اس سے انکی کسی صفت کا اظہار نہیں بلکہ اللہ کی حکمت اور طاقت کا اظہار ہے۔
تیسری بات اللہ عالم الغیب ہے اسے پتا تھا کہ عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ عام لوگوں کی عقل سے بالاتر ہے اورلوگ اس بارے میں چہ میگوئیاں کریں گے کہ ان کو آسمان پر کیسے اور کیوں اٹھالیا؟ سب کو موت ہے انکو ابھی تک کیوں نہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ زمین پر ان کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام شبہات کا جواب “وکان الله عزیزا حکیما۔” میں دے دیا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکمت والا ہے، پوری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم اٹھالینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اور ان کے ہاں زندہ رہنے کی استعداد پیدا کردینا بھی اس کی قدرت میں ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادے کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اور پھر وہ حکیم مطلق بھی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ معاملاتِ الٰہیہ کو بھی اپنی عقل و فہم اور مشاہدہ و تجربہ کے ترازو میں تولنا چاہتے ہیں، ورنہ ایک موٴمن کے لئے فرمودہٴ خدا اور رسول سے بڑھ کر یقین و ایمان کی کون سی بات ہوسکتی ہے؟
خود مرزا بھی زندگی کے پچاس سال اسکی تائید میں یہی لکھتا رہا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں
“مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)
دوسری جگہ لکھتا ہے:
“اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔”
“یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸)
مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
خلاصہ یہ کہ نبی خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والا قرآن اور انہی کی زبان سے نکلنے والی احادیث کسی کاذب نبی کو سپورٹ نہیں کرتیں اور نہ کبھی کرسکتیں ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود اپنی احادیث میں ان کذابوں کی پیشن گوئی فرمائی تھی جو انکی ختم نبوت کی چادر کھینچنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تمام قادیانیوں کو ہدایت اور شرح صدر نصیب فرمادے۔
بھائی آپ نے بہت واضح اور صاف صاف بیان کر دیا ہے حقیقت کو۔
اب دعا ہے کہ معترضین کو ہدائت بھی نصیب ہو جائے۔
ہمیشہ کی طرح بونگیاں مار کر بیچارے بھاگ گئے۔
اللہ انہیں ہدایت دے
پہلی بھی کئی دفعہ عرض کرچکا ہوں کہ مرزے اور اس کے چیلوں کو بھانڈ سمجھا کریں یا مسخرے۔۔۔
مرزے کی پیشگوئیاں امان اللہ کے سٹیج ڈراموں سے بھی زیادہ مزاحیہ اور مخولیہ ہیں
وہ تو شکر کریں کہ مرزے نے آخری عمر میں باکرہ عورت ہونے کا دعوی نہیں کردیا اور اپنے ہی کسی خلیفے سے نکاح نی پڑھالیا، ورنہ آج مرزے مسرور کی بجائے لطیف ببلی، جماعت قادیان کا سربراہ "ہوتی"۔۔۔
مسجد تو بنالی پل بھر ميں ايماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں ميں نمازی بن نہ سکا۔۔۔
@ جعفر ۔۔۔ کمال کی مثال دے دی۔۔۔ کیا ہی زبردست بات کہی۔۔۔
جعفر بھائی آپ نے صحیح فرمایا، اس قادیان کے مسخرے کی تحاریر ایسے ہی ہیں، اسکی کتابیں پڑھیں تحاریر پرھ کر بندے کو متلی ہونے لگتی ہے۔ اور ایسے ایسے الہامات لکھے ہوئے ہیں کہ بندے کو بعض اوقات بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے ۔ میں نے اپنی پوسٹ میں اوپر بھی اسی طرح کی مرزا کے کذب کی ایک مثال دی کہ مرزا اپنی زندگی کے باون سال مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کا دفاع کرتا رہا ، پھر جیسے ہی انگریزی فرشتہ انگلینڈ سے وحی لے کر آیا تو جناب نہ صرف اپنی زبان سے پھر گئے بلکہ ایک ایسا دعوی کیا کہ میڈیکل سائنس حیران ہے۔ مرزا لکھتا ہے وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا، وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” مطلب مرزا عیسیٰ بن مریم بننے کے لئے پہلے عورت بنا، پھر حاملہ ہوا، پھر بچہ جننا، پھر بچے کا نام عیسیٰ بن مریم رکھ کر خود ہی بچہ بن گیا۔ اس طرح قادیان کا مسیح موعود وجود میں آگیا،
قادیان کے اس پاگل کو نبی ماننے والوں کے ایمان تو سلب ہوئے ہی انکی عقلیں بھی سلب ہوچکیں ہیں۔
أعتقد أننا يجب أن نعطيهم القرف ألف مرة حتى مليون مرة
اگر مرزا ہوتا خدا کا سچا نبی
تو ٹٹی میں گر کر نہ مرتا کبھی
Mirza was donkey....
sorry I dont want to insul donkeys...
he was a swine but I dont want to insult that....
plz translate my blog post on birth of Mirza and give it a special link on your blog and in fact ask others to do so....
thanks
جناب زرا غور تو کریں کہ آپ قرآن کے مقابلہ پر تفاسیر پیش کرنے پر مجبور ھو گئے ھیں :) خوش کن بات ھے :)
ایک سیدھی سی بات کا مختصر جواب دیں کیا سورج چاند ستاروں کو اپنا رب کہنا شرک ھے کہ نھیں ؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔