اسلامی تاریخ پر لکھی گئی کوئی کتاب جب کسی مسلمان قاری کے مطالعہ میں آتی ہے تو وہ قرون اولی اور صحابہ کی زندگی کے واقعات کو اسی حسن ظن اور عقیدت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے ذریعے اس کے ذہن میں بیٹھی ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ جب تاریخ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے اور وہ صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پڑھتا ہے تو پریشان ہو جاتا کہ یہ کیسے خیرالقرون کا تذکرہ ہے؟ قرآن نے تو ہمیں بتاتا ہے کہ تم نے ایمان لانا ہے تو اس طرح ایمان لاؤ جس طرح یہ صحابہ لائے تب تمہار ا ایمان قابل قبول ہوگا، اور تاریخ انہیں بے ایمان ثابت کررہی ہے ۔ ۔ قرآن وحدیث انکی صداقت، شجاعت، اخلاص، سچاہی، ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ دیتے نظر آتے ہیں (اولئک ھم الراشدون، مفلحون، صدیقون وغیرہ)اور تاریخ ( نعوذ بااللہ) انہیں چور ، ڈاکو ، مکار، منافق اور بد اخلاق ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ باتیں اسکے لیے بہت عجیب اوراسکی توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ شاید اس میں قصور کتاب کے فرنٹ پیج پرتاریخ کے ساتھ استعمال کیے گئے لفظ 'اسلام' کا بھی ہوتا ہے جو قاری کو شروع میں ہی اعتماد دلا دیتا ہے اور وہ اسے ایک اسلامی کتاب کے جذبے سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن پھر سبائی دروغ گواور کہانی نگاروں کی تدسیس، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری اسے کنفیوز کردیتی ہے۔
تاریخ اسلام کا گہرائی میں مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے بد باطن حمایتیوں نےمذہب عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ریزہ ریزہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی عقیدت کے نام پر اتنی خفیہ اور جذباتی تحریک چلائی تھی کہ اگر اسلام نے قیامت تک قائم نہ رہنا ہوتا اور اس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد نہ ہوتی تو یہ بھی اسی اپنے شروع دور میں ختم ہوجاتا۔ ان لوگوں نے خفیہ رہ کر پراپیگنڈہ مہم اس طرز پر چلائی تھی کہ محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے شخص بھی کچھ ہی دیر کے لیے سہی بہرحال ان کے دام میں اس طرح آگئے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کے درپے ہوگئے، یہ الگ بات ہے کہ توفیق خداوندی انکے معاون رہی اور جلد ہی ان کو اپنے اس شرمناک فعل پر ندامت ہوگئی۔ انہی افواؤں ، پراپیگنڈہ اور مختلف چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو بعد میں آپس میں لڑوا بھی دیا گیا۔
تاریخ اسلام کی کتابوں میں سبائیوں کی گھڑی ہوئی ان داستانوں کو کیسے جگہ ملی ؟
اس اختلافی دور کے واقعات جب بعد میں قلم بندہوئے تو چونکہ تاریخ اسلامی میں حدیث کی طرح سند اور متن کی تحقیق کا کوئی سلسلہ نا تھا یا جرح و تعدیل کے کوئی اصول و قوانین لاگو نہ ہوتے تھے اس لیے ہر دور اور ہر فرقہ کے لوگوں نے اپنی سمجھ بوجھ اور پسند ناپسند کے معیاروں پر تاریخی واقعات کو قلم بند کیا جن میں انکی اپنی مرضی و منشا اور حسب دلخواہ تحریف و تبدل کو عمل دخل حاصل تھا، خصوصا دشمنان اصحاب رسول سبائیوں رافضیوں کو تاریخ میں انکے بارے میں اپنی خبث باطنی شو کرنے کابھرپور موقع ملا ، انہوں نے ان ادوار کے بارے میں اپنی طرف سے کہانیاں ، روایتیں گھڑی کرکے اور اصل روایتوں میں اپنی پسند کے مطابق ملاوٹ کرکے اسکی اشاعت کی ، انہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ یا تو اصل تاریخی روایات کو ہی غائب کردیا یاان میں اپنی مرضی کی باتوں اور خیالات کو اس طرح مکس کیا کہ وہ اصل واقعہ ہی نظر آنے لگیں، پھر جب تاریخ کی بڑی کتابیں مرتب ہوئیں تو مورخین کو متعلقہ موضوع کے متعلق کوئی روایت کہیں سے ملی انہوں نے مکمل تحقیق کیے بغیر ان کو اپنی کتابوں میں ذکر کردیا (کیونکہ تاریخ مرتب کرنے میں حدیث کی طرح راوی اور روایت کی چھان بین اور تحقیق کی پابندی لازمی نہیں تھی)۔ صحابہ کےا ختلاف کے متعلق اس قسم کی روایتیں محمد بن عمر الواقدی ،محمد بن اسحاق، ابو مخنف لوط بن یحیی، ، محمد بن سائب الکلبی اور اسکے بیٹا ہشام کی وساطت سے تاریخ اسلام کے تمام بڑے مورخین اور مصنفین تک پہنچی ہیں، پہلے دو کی کتابوں میں کچھ ضعیف روایات موجود ہیں اور باقی تین پرلے درجے کی جھوٹی روایتیں قبول کرنے والے تھے، اسماء و رجال کی کتابوں میں بھی ان پر سخت بے اعتمادی کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ لوگ خود روایتیں گھڑتے ہیں ۔ ان راویوں کی تمام روایتوں کو جنکو سب سے پہلے طبری نے اپنی تاریخ میں جگہ دی اور پھر طبری سے نقل در نقل ہو کر تقریبا تما م متداول تاریخی کتابوں میں درج ہوگئیں۔ مطلب صحابہ کے اختلافات کے واقعات کے متعلق تاریخ کی بڑی کتابوں میں موجود ذیادہ تر روایتوں کا ماخذ تاریخ طبری ہے اور طبری نے ان واقعات کے متعلق تفصیل خود ان پانچ راویوں کی کتابوں سے کاپی کی ہے ۔ آخری تین راویوں نے اپنی کتابوں میں ان واقعات کے سلسلے میں صحابہ کے خلاف مزیدغیر اخلاقی کہانیاں بھی گھڑ ی ہوئیں تھیں، خود طبری بھی اپنی کتاب میں کئی جگہ لکھتے ہیں کہ ابومخنف لوط اور محمد بن عمر کی کتاب میں اس واقعہ کے متعلق اور بھی باتیں اور تفصیل موجود ہیں جو ذکر کے قابل نہیں ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ساری تاریخ اسلام ہی کرپٹ اور گمراہ کن ہے بلکہ یہ کہ تاریخ اسلام میں صحابہ کے واقعات میں جگہ جگہ ذہن کو پراگندہ کرنے والی سبائی روایات کی ملاوٹ موجودہے جن کو پڑھ کر عام لوگ صحابہ کے بارے میں وساوس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو پڑھ کربعد کے دور کے کئی سنی محقق بھی سبائیت کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے حضرت عثمان ، علی ، معاویہ، ابوموسی اشعری اور عمروبن العاص جیسے جلیل قدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قد ناپنے لگ گئے ہیں انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں کہ محض جھوٹے سبائی تاریخی حوالوں کی بنیاد پر وہ کس پر تنقید کررہے ہیں اور یہ تنقید کتنی خطرناک ہے، اگرصحابہ کے بارے میں صرف تاریخ کی بات کو مان لیا جائے توپھر خمینی کی بات کو بھی ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن رسالت میں ناکام رہے اانہوں نے تیئس سالہ محنت میں جو لوگوں کی جماعت تیار کی وہ کرپٹ، منافق، عیار تھے، پھر تو اسلام کے اصلی ماخذ قرآن و حدیث بھی مشکوک ٹھہریں گے کیونکہ وہ بھی انہی صحابہ کی وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں۔ حقیقت میں سبائیت ایک ایسا ' معصوم زہر' ہے جو عقیدت کے پردوں سے چھن کر جب ذہن و دماغ میں سرایت کرتا ہے تو فکرونظر کی تمام صلاحیتوں کو مضمحل بلکہ مفلوج کردیتا ہے اور پھر گل کاریوں کے وہ وہ نمونے سامنے آتے ہیں کہ حق کے ایک متلاشی کو قدم قدم پر بکھرے ہوئے کانٹوں سے اپنا دامن بچانا مشکل ہوجاتا ہے....۔اس قسم کی روایتوں سے پرانی اور نئی ساری تاریخی کتابیں بھری پڑی ہیں، مثال کے طور پر تاریخ کے موضوع پر سب سے مشہور، مستند اور عام فہم کتاب اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی تاریخ اسلام ہے ۔وہ بھی اپنی اس کتاب میں چند ایسی روایتوں کو بغیر تحقیق کے نقل کرگئے ہیں گو کہ انہوں نے بعد میں مشاجرات صحابہ پر جاندار تبصرہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ تاریخ اسلامی میں سبائی روایات کو جگہ ملنے کی ایک اور وجہ تدسیس بھی ہوسکتی ہے جس پر ایک تفصیلی مضمون ہم پہلے لکھ چکے ہیں ، جب ان لوگوں نے ہمارے بزرگان دین کی بڑی اسلامی کتابوں میں انکی زندگی میں اپنے نظریات کی ملاوٹ کرنے کی جرات کی ہے تو تاریخ کی کتابوں میں تحریف و تدسیس کرنا ان کے لیے ذیادہ مشکل کام نہیں تھا۔
سبائی تاریخی روایتوں کی پہچان اور معیار ردوقبول
- جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ ایسی تمام روایتیں جن سے صحابہ کا کردار مجروح ہورہا ہو وہ ذیادہ تر کذاب راویوں کی روایت کردہ ہوتی ہیں اور یہ تمام راوی خود روایتیں وضع کرنے اور گھڑی ہوئی روایتوں کو قبول کرنے کے لیے مشہور ہیں اور ابو مخنف لوط بن یحیی کی تین روایتوں کے تجزیے میں بھی یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ اس میں صحابہ کے ذمے لگائے جانے والے بہتان اور بد اخلاقیاں، زبان درازیاں اس کی اپنی وضع کردہ ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں ، اس لیے ان راویوں کی کسی روایت پر یقین نہیں کرنا چاہیے
- تاریخ کی بڑی کتابوں کے اردو تراجم میں عام طور پر راوی کا تذکرہ نہیں کیا گیا اس لیے ان راویوں کی روایتوں کو مضمون سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔ ہر تاریخی روایت جس میں صحابہ کی طرف کرپشن، منافقت، زبان درازی، مکاری منسوب کی گئی ہو، وہ ذیادہ تر انہی سبائیوں کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ اس لیے ایسی روایت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جس سے صحابہ کرام کا کردار مجروح ہو رہا ہو کیونکہ یہ لوگ خود مجروح اور کرپٹ ہیں ۔
- راوی اور روایت کی پہچان کےعلاوہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے بیٹے عطاء المحسن بخاری صاحب نے روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے ایک اور بالکل آسان طریقہ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔
" تاریخ کو قبول کرنے کے لیے مجھے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اسکی جو روایتیں قرآن وحدیث کی تعلیم کے مطابق ہونگی میں انہیں بڑی محبت سے قبول کروں گا اور جو روایتیں، حکایتیں، رذالتیں، قباحتیں قرآن وحدیث سے ٹکرائیں گی میں انہیں نہ صرف رد کروں گا بلکہ اپنے پاؤں میں مسلوں گا ، کیونکہ وہ تاریخ نہیں جھوٹ ہے ، تہمت ہے ، بہتان اور دشنام ہے اور انسانیت سے گری ہوئی باتیں ہیں، تاریخ کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر تبراہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں ہے کیا اس سے بہتر نہیں کہ تاریخ کی اندھی (رافضی) عینک سے اصحاب مصطفی کی عیب چینیوں کی بجائے قرآن وحدیث سے انکی فضیلتوں اور قدرومنزلت پر نگاہ کی جائے ۔ (اگر یہ لوگ قرآن وحدیث کی اصحاب کے بارے میں دی گئی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر محض تاریخی روایتوں کے ذریعے ان پر نکتہ چینی جاری رکھتے ہیں تو ) ایسے نام نہاد 'تاریخ دان' ہمارے نزدیک 'تھوک دان' کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے"۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
9 comments:
شکریہ ۔
میں کئی سالوں سے ان واقعات کے بارے جاننا چاہتا تھا کہ آخر حقیقت کیا ہے۔ بہت بار کتابیں ڈونڈھنے اور ُپڑھنے کی کوشش بھی کی۔
لیکن آپ نے اتنا عمدہ مضمون لکھ کر میری مشکل آسان کر دی۔ اللہ آپ کو اس کی جزا دے گا انشا ءاللہ۔
ایک بار پھر شکریہ۔
اچھی تحقیق ہے، اسی لئے سب مسلمانوں پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ دینی و دنیاوی، تاکہ اچھے برے کی پہچان ہوسکے
ایک عمدہ موضوع ہے مگر تشنگی کا احساس بھی برقرار ہے۔ امید ہے اس موضوع پر آپ مزید لکھیں گے۔
صرف کتب تاریخ ہی میں نہیں کتب احادیث میں بھی ایسی ہی تحریفات موجود ہیں جو یقیناً محدیثین نے اپنی کتابوں میں شامل نہیں کیں، بخاری کی مندرجہ ذیل روایاتِ کو میں دل پر جبر کر کے یہاں نقل کر رہا ہوں، دراصل یہ روایتیں تو ایسی متعفن ہیں کہ ایک مسلمان جس کے دل میں رسول اللہ کی ذرا بھی محبت ہے ان کو زمین پر دے مارے گا، لیکن افسوس کہ یہ کتب روایات میں جگہ پا گئیں جنہیں روایت پرست آنکھوں پر پٹی باندھ کر صحیح قرار دینے کے درپئے ہیں، اس لئے اس روایت کا تھوڑا سا تجزیہ کرتے ہیں۔
باب الشُّرْبِ مِنْ قَدَحِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَآنِيَتِهِ
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا، )الخ)
سعید بن ابی مریم، ابوغسان، اباحازم، سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ عرب کی ایک عورت کا ذکر کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابواسید ساعدی کو بھیجا کہ اس کے پاس کسی کو بھیج کر بلائیں، چنانچہ ایک آدمی اس کے پاس بھیجا گیا تو وہ عورت آئی اور بنی ساعدہ کے مکانات میں ٹھہری، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے یہاں تک کہ اس عورت کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنا سرجھکائے ہوئے تھی، جب اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گفتگو کی تو اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے تجھ کو پناہ دی، لوگوں نے اس سے پوچھا کیا تو جانتی ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا نہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے، جو تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تھے، اس عورت نے کہا کہ میں بدبخت ہوں، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دن سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف لائے، یہاں تک کہ آپ اور آپ کے ساتھی بیٹھ گئے، پھر فرمایا اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ، تو میں یہ پیالہ ان لوگوں کے لئے لے کر آیا اور اسی میں ان سب کو پلایا، راوی کا بیان ہے کہ سہل نے وہی پیالہ نکالا اور ہم نے اس میں پیا، پھر اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزنے وہ پیالہ ان سے مانگا تو انہوں نے وہ پیالہ ان کو ہبہ کردیا۔
پہلے فقرے پر غور کریں کہ کس طرح رسول اللہﷺ کردار کشی کی گئی ہے، یعنی کسی عرب عورت کا ذکر ہوا تو آپﷺ اسے سن کر ایسے بیتاب ہوئے کہ فوراً اسے بلانے کا حکم دیا، قبائلی عرب میں کیاوہ عورت اتنی خود مختار تھی کہ ایک بلاوے پر اپنے گھر والوں کو بتائے بغیرایک ویرانے میں چلی آئی، اور بلانے والے نے اسے بلانے کا کوئی مقصد تو بتایا ہو گا، جبکہ روایت کا اگلا حصہ بتا رہا ہے کہ اسے اس بابت کچھ معلوم نہیں تھا، اور وہ رسول اللہﷺ کو جانتی تک نہ تھی۔ پھر اس نے رسول اللہﷺ سے اللہ کی پناہ طلب کی لیکن جواب میں آپﷺ نے کہا کہ میں نے تمہیں پناہ دی۔
مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ
عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اجْلِسُوا هَا هُنَا ". وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِيَ بِالْجَوْنِيَّةِ (الخ)
ابونعیم، عبدالرحمن بن غسیل، حمزہ بن ابی اسید، ابواسید کہتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل کر ایک باغ پر پہنچے، جس کو شوط کہا جاتا تھا، جب ہم اس کی دو دیواروں کے درمیان پہنچے تو ہم وہاں بیٹھ گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہیں بیٹھے رہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر تشریف لے گئے، وہاں جونیہ لائی گئی اور امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے کھجور کے گھر میں اتاری گئی اور اس کے ساتھ ایک نگرانی کرنے والی دایہ تھی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے قریب پہنچے تو فرمایا تو اپنے آپ کو میرے حوالہ کردے، اس نے کہا کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری کے حوالہ کرسکتی ہے، آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ اس کے سر پر رکھ کر اسے تسکین دیں، اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے ایسی ذات کی پناہ مانگی ہے جس کی پناہ مانگی جاتی ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ابواسید! اس کو دورازقی کپڑے پہنا کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچادے۔
(باقی نیچے)
باب مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ
وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّيْسَابُورِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي، أُسَيْدٍ قَالاَ تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ.
اورحسین بن ولید، نیشاپوری نے عبدالرحمن، عباس بن سہل وہ اپنے والد اور ابواسید سے روایت کرتے ہیں، ان دونوں نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا، جب وہ آپ کے پاس لائی گئی تو آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا، اس نے ناپسند کیا تو آپ نے ابواسید کو حکم دیا کہ اسے سامان مہیا کردے اور دورازقی کپڑے پہنادے۔
ذرا غور کریں کہ ابو اسید ساعدی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہیں بیٹھے رہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر تشریف لے گئے تو اس کے بعد اندر جو کچھ ہوا وہ ابو اسید کو کیسے معلوم ہوا؟ اور یہ عرب کی کس ریاست کی شہزادی تھی جو اپنی نگران دایہ کے ساتھ اس شخص کے پاس ایک بلاوے پر ویرانے میں آگئی جسے وہ بازاری بھی کہتی ہے اوراس کے گھر والوں کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔ چونکہ میں نے مترجم کا ترجمہ جوں کا توں رہنے دیا ہے لہٰذا اگرآپ عربی متن پر غور کریں تورسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا ہے " هَبِي نَفْسَكِ لِي " کہ اپنا نفس مجھے ہبہ کر دو ۔ رسول اللہﷺ نے اگر اس سے نکاح کیا تھا جیسا کہ بعد والی روایت میں ڈالا گیا ہے تو آپ ﷺ کو یہ الفاظ کہنے کی کیا ضرورت تھی، اور اگر نکاح ہی کیا تھا تو اس سے ملاقات اپنے گھر میں کیوں نہ کی؟ حدیث گھڑنے والوں نے رسول اللہﷺ کی ذات اقدس پر کھلم کھلا بہتان تراشا ہے۔ دوسری اور تیسری روایت میں عجیب تضاد ہے کہ پہلے یہ بتایا گیا کہ جونیہ ،امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے گھر اتری، جبکہ تیسری روایت بتا رہی ہے کہ آپﷺ نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا، ، یا للعجب ! تضاد در تضاد بیانی اور اس پہ دعوٰی کہ ساری روایتیں صحیح ہیں۔
باب مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلاَقِ
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ أَىُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَدَنَا مِنْهَا قَالَتْ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ لَهَا (الخ)
حمیدی، ولید، اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کونسی بیوی نے آپ سے پناہ مانگی تھی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ نے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جون کی بیٹی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائی گئی اور آپ اس کے قریب پہنچے تو اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ نے اس سے فرمایا تو نے بہت بڑی پناہ مانگی ہے اس لئے تو اپنے رشتہ داروں میں چلی جا، امام بخاری نے کہا کہ اس کو حجاج بن ابی منیع نے اپنے داداسے، انہوں نے زہری سے، زہری نے عروہ سے، عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا۔
ان روایتوں کی تخریج اگر واقعی بخاری نے کی ہے اور بعد میں کسی منافق یا رافضی نے انہیں کتاب میں نہیں گھسیڑ دیا تو ہم یہی کہیں گے کہ:
؎ چہ بے خبر زمقامِ محمّدِ عربی است
کیونکہ جس شخص کو محمّدِ عربیﷺ کے مقام کا ذرا بھی پاس ہے وہ ان کو ان کو یقینّا زمین پر دے مارے گا ۔
پہلی مردود روایت میں ہے کہ لوگوں نے اس عورت سے پوچھا کیا تو جانتی ہے کہ یہ کون تھے؟ اس نے کہا نہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جو تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تھے، جبکہ تیسری اور آخری روایت میں ہے کہ وہ عورت آپﷺ کے نکاح میں تھی، جب وہ آپﷺ کو جانتی تک نہ تھی تو نکاح کیسے اور کب ہوااور بمطابق عقیدۂ اہل روایت اگر ہوا تو یقینًا وحیٔ الٰہی کے تحت ہوا ہو گا، یعنی نعوذباللہ ، اللہ نے آپﷺ کی اہانت کروا دی۔
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر اس مضمون کی کوئی تحریر بخاری کے حوالے کے بغیر ملکی اخبارات میں چھاپ دی جائے تو ملک کے طول و عرض میں کہرام مچ جائے، او ر اگر کسی غیر ملکی اخبار میں چھپ جائے تو پورے عالم اسلام میں توہینِ رسالت کے خلاف شدید احتجاج شروع ہو جائے، لیکن برا ہو روایت پرستی کا کہ کورانہ تقلید میں سرشار روایت پرستوں نے ان بدبودار روایات کو صحیح کا درجہ دے کر سینے سے لگا رکھا ہے ، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جناب بنیاد پرست صاحب، ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو بھی فرقہ کی نظر سے دیکھتے ہیں. ورنہ کیا صحاح ستہ صحابہ تو دور رسول الله صلعم کی گستاخیوں سے بھری نہیں ہوئی ؟
آپ سلمان رشدی ملون جو کا سنی فرقہ کہ تھا اس کی کتاب پرھن شیطانی آیات تو پتا چلے گا اس نے زیادہ تر تو صحاح ستہ سے خوالے دیے ہووے ہیں
حدیث میں مذکور واقعہ کی حقیقت کے لیے یہ تحقیق دیکھیے۔
http://ilhaad.com/2017/05/prophet-marriage-with-jaunia/
آپ نے صحیح کہا کہ ہم اپنی تاریخ کو بھی فرقے کی نظر سے دیکھتے ہیں اگر آپ ان احادیث کو کسی منکر حدیث کی کتاب سے دیکھنے کے بجائے ذرا تحقیق کرنا گوارہ کرلیتے یا کسی حدیث کے استاد سے سمجھ لیتے تو حقیقت مختلف سامنے آتی ، یہی مسئلہ شیطانی آیات کا ہے، آپ کو حدیث سے نکالے شیطانی حوالے تو نظر آرہے ہیں کیونکہ آپ کا مسلک حدیث سے نفرت کا ہے لیکن قرآن سے نکالی انگریزوں کی دہشت گردی کی بنیادیں نظر نہیں آتیں۔ مسئلہ یہی ہے ہم تاریخ کو بھی اپنے فرقے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔۔۔!
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔