منگل، 6 مئی، 2014

سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر

تاریخ محض گزرے وقتوں کا بیان نہیں بلکہ  یہ  ہزاروں واعظوں کا ایک واعظ اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ،اس کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم نے معاشرے کی تہذیب کے لیے کیا  کردار ادا کیا ،  جنگ و  امن ، خوشحالی  اور تنگی  میں اس نے عرصہ حیات کیسے گزارا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اوربصیرت ترقی کرتی ،دور اندیشی بڑھتی،حزم اوراحتیاط کی عادت پیدا ہوجاتی ہے،دل سے رنج وغم دور ہوکر مسرت وخوشی میسر ہوتی ہے، انسان  میں احقاق حق اورابطال باطل کی قوت ترقی کرتی اورقوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے، ، تاریخ  کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے جس کے پیغام کو بگاڑنا  یا اس کے سیاق و سباق کو مجروع کرنا ایک سنگین جرم ہے۔
ایک عرصہ سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں تاکہ  اس سے من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں ۔  تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ مسلمانوں  کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو اور یوں  انکا  اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جائے اور انہیں  اپنے اسلاف کے تاریخی کارناموں سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو ۔ وہ ان کی طرح پیچیدہ حالات   اور بدلتی دنیا کے چیلنجز کا   پورے اعتماد سے سامنا  کرنے کے بجائے مایوس ، ناامید اور عزت نفس کے باب میں بالکل کھوکھلے ہوجائیں ۔۔  اس کا سب سے کارگر نسخہ یہ اختیار کیا گیا  ہے کہ مسلم تاریخ کو برا بھلا کہا جائے ، خصوصا ان عظیم لوگوں کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں  کی وجہ سے مسلمانوں کا فخر ہیں ، ایسے لوگ اگر اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کرلیتی ہے' ان کو ڈاکو ، غاصب ، ظالم ، خودغرض ، عیاش ثابت کیا جائے ، انکی ذاتی زندگی کے متعلق کہانیاں گھڑی جائیں ۔  اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی جن  نامور شخصیات کو سب سے ذیادہ نشانہ بنایا گیا ان میں  محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالمگیر نمایاں ہیں، انکے  علاوہ  ماضی قریب کی شخصیات میں  علامہ اقبال ، قائدہ اعظم  ہیں جنکی سیکولر صورت گری  کے لیے  سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کو سب سے ذیادہ جس بات پر کوسا جاتا ہے وہ اسکا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرز عمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہان کو قید میں ڈالنا تھا ۔  یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے تین بھائی جان سے گئے  اور والد شاہ جہان آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے محض  ایک منفرد قصہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو  تاریخ کے  ایسے  کردار  کے طور پر پیش کرنا  کہ جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا ، یا وہ غیر معمولی طور پر اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھا  جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کر ڈالا، قطعا غلط اور بے ثبوت مقدمہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ  اگر اورنگ زیب کا کردار باقی  ہر لحاظ سے اجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ 
اسے کس بات نے مجبور کیا کہ وہ باپ اور بھائیوں کےساتھ  سخت رویہ اپنائے  جس کا اسے  الزام دیا جاتا ہے ؟ 
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں  جن  کا جواب طلب کرنا چاہیے ، لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش  سیکولر حضرات کا مقصد او ر مدعا ہے ہی نہیں ۔ انکا تو صرف ایک ہدف ہے وہ یہ کہ اس طریقہ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے ۔ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ہو ۔ ڈاکٹر محمد اقبال  اپنی ایک نظم میں ان یک چشم  متنفرین کو ' کورذوقاں' کا نام دیتے ہیں جنہیں اورنگ زیب عالمگیر کے کمالات نظر نہ آئے اور انہوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں :
کورذوقان داستاں  ہاسا ختند وسعت ادراک اونشاخسند
(اسرار خودی)
اس موضوع پر تحقیق كے لیے میں نے بہت سی    کتابوں کا مطالعہ کیا، تاریخی علم رکھنے والے لوگوں کو سنا۔ مجھے سب سے اچھا جواب طارق جان صاحب کی کتاب  ' سیکولرازم مباحث اور مغالطے ' میں ملا ۔ طارق جان  انسٹیٹوٹ  آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد میں سینئر ریسرچ فیلو اور کئی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ انکی  یہ کتاب  جدید فلاسفہ  ،  سیکولروں ملحدوں  کے مغالطوں کے رد میں اپنے موضوع پر  میرے نظر میں  اردو زبان میں موجود سب سے بہترین کتاب ہے ۔ اسی کتاب سے انکے  مضمون  ' سیکولر لابی ، تاریخ اور  اورنگ زیب عالمگیر ' کو میں یہاں  پیش کررہا ہوں۔ اسلوب علمی اور عام فہم  ہے ، تصنیف اعلی درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے ، دلیل اور حوالے کے ساتھ  مصنف نے  اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق پھیلائی گئی کنفیوزین کا  بہت سیلقے اور خوبی سے تجزیہ کیا ہے ۔   

(Right Click+ Save As)

9 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے کہ

اورنگزیب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ چرس کا نشہ کیا کرتا تھا۔

noor نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ اس بہترین شیئرنگ کے لئے

ڈاؤنلوڈنگ اسٹارٹ کی ہے ۔ ۔

شکریہ

ایم بلال ایم نے لکھا ہے کہ

میں تو پہلے ہی کہتا ہوں کہ سارے ہی مغل عیاش نہیں تھے۔ ویسے بھی اگر وہ سارے کے سارے عیاش ہوتے تو اتنے سال ہندؤستان پر حکومت نہ کر پاتے۔ خیر میرا خیال ہے کہ عموماً سیکولر حضرات بھی ایک شدت رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت مسلمانوں کی تاریخ بگاڑتے ہوئے صرف مایوسی پھیلاتی ہے جبکہ ہمارے دیگر بھائیوں میں ایک دوسری شدت ہے۔ یہ تاریخ کی تلخیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہوئے سارے مسلمان حکمرانوں کو ”پیغمبر“ ثابت کرنے چل پڑتے ہیں۔ یوں ”پدرم سلطان بود“ کی گردان پڑھنے والے وجود میں آتے ہیں۔ پھر انہیں کے لئے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو کہنا پڑا کہ
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

بہرحال کتاب شیئر کرنے کا بہت شکریہ۔ ڈاؤن لوڈ کر لی ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی مطالعہ کرتا ہوں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

میرا پاکستان @
اعتراض کرنے والوں نے ایسے ایسے اعتراض کیے ہوئے ہیں کہ بعض اوقات پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ چند دن پہلے ڈان کے ندیم ایف پراچہ کو پڑھ رہا تھا اس نے لکھا تاریخ میں کوئی مسلم سائنسدان نہیں گزرا یہ سعودی وہابیوں نے اربوں ریال خرچ کرکے کتابیں لکھوا کر بانٹی ہیں۔ :ڈ
NoorMohammed Hodekar@
شکریہ نور بھائی

ایم بلال ایم @
آپ نے صحیح نشاندہی کی ، ایک طبقہ نفرت اور بغض میں اتنا آگے گیا کہ عام مشاہدے میں موجود باتوں کا بھی انکار کرگیا اور دوسرا محبت میں اتنا آگے کہ اپنی تاریخ کے ہر کردار کو معصوم عن الخطا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، ان پر اعتراض کو اسلام دشمنی سمجھتا ہے۔اعتدال یہی ہے کہ اچھائیوں کو قبول کیا جائے اور کمیوں سے سبق حاصل کیا جائے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

ویسے اس سیکولر طبقہ کی بے غیرتی کو یوں ملاحظھ کرعن کہ شیعہ ملکہ نور جھاں کے شوہر جھاںگیر نے بھی تو اپنے باپ اکبر ک خلاف بغاوت کی تھی مگر مجال ھے کہ کسی سیکولر نے اس کا کبھی نام بھی لیا ھو، جبکہ اورںگزیب کے پاس تو غلط یا صحیح (ھماری نظر میں تو کم از کم صحیح) کوئ نا کوئ جواز تو تھا جب کہ جھاںگیر نے کیوں بغاوت کی جب کہ اس کو باپ کے کسی نظریے سے کوئ اختلاف بھی نہ تھا

Hamza Niaz نے لکھا ہے کہ

اس موضوع پہ کچھ عرصہ پہلے شبلی نعمانی کی کتاب اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر بھی پڑھنے کو ملی تھی۔۔۔۔۔ کافی عالمانہ مباحث تھے اس میں وہ بھی عالمگیر کے دور کی لکھی گئی کتب کے حوالے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی آپ نے ندیم پراچہ کا ذکر کیا ہے۔ حضرت اپنے حال میں لکھے گئے ایک کالم میں ایک جگہ خود لکھتے ہیں کہ حال ہی میں کتاب لبیک لکھنے سے پہلے ممتاز مفتی نامی شخص سے بلکل واقف نہیں تھے۔۔۔۔۔ذرا سوچیے کہ ایک شخص جس کا کاغذ قلم سے گہرا تعلق ہو اور وہ اپنے زبان و ادب کے بارے میں ایک بچے جتنا علم بھی نہ رکھتا ہو!!! مسلمان سائنسدانوں کا علم کیا ہو گا!!

بے لاگ نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جاوید گوندل. بارسیلونا نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم.

نت نئے ممالک کھوجنے اور کچھ ناگزیر قسم کی مصروفیات کہ بناء پہ آجکل سوشل میڈیا پہ لکھنے اور پڑھنے کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو رہا ہے اور اس لئے اختصار پہ پیشگی معذرت قبول فرمائیں.

آپ نے بہت اچھے نکات اٹھائے ہیں اور ایک مفید کتاب مہیاء کی ہے.

جس طرع برائی آپس میں باہم مربوط ہو کر بد کردار افراد کے اکھٹے ہونے کی وجہ بنتی ہے. کاش اچھے دیانت دار اور دیندار صالح لوگ بھی اچھائی اور نیکی کی بنیاد پہ اتحاد قائم کر سکیں. کیونکہ آج کی نئی ٹیکنالوجیز کی دنیا میں بروقت اور سرعت انگیز بلکہ حیرت انگیز طریقے سے بغیر کسی خاص مالی لاگت اور کوشش کے اتنی تیز رفتاری سے اچھی یا بری بات پھیلانی اس سے قبل ماضی میں کبھی ممکن نہ تھی. جب کہ دیانت دار لوگوں کے ساتھ ایک اضافی مسئلہ بھی ہے کہ ایک اچھا مسلمان بغیر تحقیق کئے کوئی حوالہ یا بات محض بحث برائے حق نہیں کہتا جبکہ پاکستان کے اسیکولرزم ان تمام اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہیں اور جھوٹ گھڑنا ان کے بائیں ھاتھ کا کھیل ہے.
اس لئے لازم ہے کہ مسلمانوں کے اپنے فورم ہوں اور وہ باہم مل کر اس نئے اور جدید لیکن مہلک ترین نت نئے سوشل میڈیا پہ تکنیکی طور پہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائے پروپگنڈاہ کا نہ صرف مقابلہ کر سکیں بلکہ نام نہاد اسیکولرزم اور لبرلز کے زہر کا توڑ کر سکیں اور یہ کام علمی تحقیقی بنیادوں پہ ہوتا رہنا چاہئے. ماشاءاللہ جس طرح آپ کوشش کر رہے ہیں کہ جھوٹ اور باطل کا پردہ چاک ہو اسی طرح دیگر آپ کی طرح کوشش کرنے والے احباب بھی لائق تحسین ہیں. اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے. اور کوشش جاری رکھیں.

اگر ممکن ہو تو کاش کوئی ایسا فورم ہو جہاں اسیکولرز لبرلز اور اسلام دشمنوں کے پھیلائے گند کو صاف کرنے کا کوئی طریقہ ہو اور باقاعدہ ایک ترتیب کے ساتھ تمام متنازعہ بنائے گئے معاملات پہ موضوعات کے تحت تحاریر.حوالہ جات. مناسب مواد اور کتب دستیاب ہوں جو صحیح اور درست مولومات مہیاء کرتی ہوں. تانکہ تشکیک کے شکار حضرات کو اس فورم کا حوالہ دیا جاسکے جہاں وہ خود اپنے شکوک دور کرسکیں اور ایسا فورم ایک عام مسلمان کی بھی رہنمائی کرنے میں معان ثابت ہوگا.

موضوع پہ سر دست صرف اتنا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ پہ ناز کرنا چاہیے بلکہ فخر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے. ناں کہ تاریخی طور پہ کچھ ایسے واقعات جو اس دور کی طرز حکمرانی اور تاریخی موڑ کی وجہ سے ناگزیر تھے ایسے واقعات پہ کسی قسم کا معذرت خواہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں. دنیا کی دیگر تمام قوموں کی تاریخ تو ظلم. قتل و غارت.سفاکی اور درندگی سے بھری پڑی ہے. صرف یوروپ کی تمام قوموں کی کچھ ماضی بعید سے ماضی قریب تک عرصہ قبل اور بدستور حال تک کی تاریخ جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تاریخ ایسی تاریخ سے بہرحال مسلمانوں کو اشتثنی حاصل ہے جس میں بارہا بار لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا. اور اسیکولرز اور تمام لبرلز کی ڈوریاں جہاں سے ہلتی ہیں. یہ ان لوگوں کی قتل و غارت اور سفاکی کی تاریخ ہے. تاریخ ہے اور تاریک ہے.


جاوید گوندل

m.mahmood نے لکھا ہے کہ

محترم طارق جان صاحب، سلام مسنون۔
میرے پاس پونا، انڈیا، کی ونسیس۔ڈاٹ کام سے آپ کا تحقیقی مقالہ ینگریزی میں ترجمہ کے لیئے موصول ہوا۔ میں نے ان سے یکمشت معاوضہ اور میعاد ڈیلیوری کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ جواب کا ینتظار ہے۔ آپ کو مطلع کرنا چاھتا ہوں کہ ہندوستانی معاوضہ دینے میں بہت خسیس ہیں۔ کام بہت آتے ہیں لیکن ریٹ پر آکر بات ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ مجھ سے ربط کرنا چاہیں تو میری ای میل ہے: m.mahmood45 (at)gmail.com

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔