ہفتہ، 30 جولائی، 2011

خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ

ایک بلاگر نے ایک مجہول بندے کی کتاب کے کچھ سکین پیج  اپنے بلاگ پر لگائے ’جن میں اس جاہل و کذاب مصنف  نے خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جید علمائے کرام پر تبرا کیا تھا’ بلاگر نے  ہمارے  تبصرہ کے جواب میں لکھا کہ 

عنیقہ ناز said...
بنیاد پرست صاحب، میرا بھی یہی سوال ہے کہ آپکو کیسسے پتہ چلا کہ کتاب کے مصنف کھسرے ہیں۔ یہ مہارت کافی لوگ حاصل کرنا چاہیں گے کہ تحریر پڑھ کر انسان کے کھسرے ہونے کا اندازہ لگا سکیں۔
میں نے اپنی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لئے آپکا تبصرہ ڈال دیا ہے۔ دیکھ لیں یہ حوصلہ بھی کسی کسی میں ہوتا ہے۔
 
آپ نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں میری رائے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں اس بات کا دوہرانا معقول معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئ انسان مکمل نہیں۔ معصوم تو انبیاء کی ذات ہوتی ہے ان سے بھی ہمارے بعض علماء ظلطیاں منسوب کر چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ ایک انسان ہی تھے۔ ماورائے انسان نہیں۔ ظلطی ان سے بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔
یہ بھی بالکل ضروری نہیں کہ اگر کسی انسان کی ایک خوبی کو بیان کیا جائے تو اسکی ایسی کوئ بات نہ کی جائے جس سے اسکی کوئ کمزوری سامنے آتی ہو۔ اسے شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ شخصیت پرستی بت پرستی سے کم نہیں۔ 
 
کتاب کے مندرجات میں یہ پوچھا گیا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ صحابہ ء کرام میں سے تو کسی کے خواب میں بعد از زندگی نہیں آئے لیکن یہاں ہر شخص جو ذرا دینداری قائم کرتا ہے اس کا دعوی کرتا نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی پوچھنا چاہونگی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ خواب میں زیارت رسول کا دعوی کس نے کیا اور یہ کس عہد کی بات ہے؟

میں نے انکے جواب میں لکھنا شروع کیا ، لیکن  بات لمبی ہوجانے کی وجہ سےاسے  اپنے فورم پر ہی پوسٹ کررہا ہوں۔

میں نے اس بندے کے لیے کھسرے کا لفظ طنزا استعمال کیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے طنزا میرے سے پوچھا ۔ اس سے حقیقی کھسرا مراد نہیں تھا ۔ میرا مطلب یہی تھا کہ  یہ لوگ بجائے اسکے کہ کوئی اصلاحی بات کریں’  باتوں کو توڑ موڑ کر  عوام کو گمراہ کرتےرہتے  اور فضول باتیں پکڑ کر کھسروں کی طرح  ناچتے رہتے ہیں۔ ویسے کھسروں پر آپ سے ذیادہ  تحقیق کس  کی  ہوگی ، آپ تو  باقاعدہ ان پر مضمون "ایبنارمل تفریح اور ایبنارمل مذاق" لکھ چکیں ہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ 

  آپ نے شاہ ولی اللہ کا نام ایسے لیا ہے جیسے لوگ اپنے کسی ہمجولی اورساتھی کو مخاطب کرتے ہیں ۔اگرنام کے ساتھ حضرت اوررحمتہ اللہ علیہ لگادیں تواس سے آپ کا  کچھ نہ بگڑے گااورنہ یہ شخصیت پرستی  کے زمرہ میں آتا ہے بلکہ یہ حقدارکو اس کاحق دیناہے۔
یہ بات حقیقت ہے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی نظیر نہ اپنے زمانے میں یا  ہندوستان میں، بلکہ بہت سے قرون اور ممالکِ اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ حضرت موصوف کیا تھے؟ خدائے تعالیٰ کی ایک حجت قاطعہ تھی جو بارہویں صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔
حضرت شاہ صاحب کی زندگی اور علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے۔ مثلاً حضرت کی تصنیف و تالیف، ترجمہ قرآن کی بنیاد، نصابِ حدیث کی تاسیس، درس کی اصلاح، اسرارِ شریعت کی دل نشین اور موثر تشریح، کلام، تصوف، فلسفہ، اخلاق اور نظام حکومت میں ان کے خاص خاص قابل قدر نظریات، اصول تفسیر و اصول حدیث میں خاص خاص تحقیقات ،جہاد کا جوش، حکومت اسلامیہ کی خلافت راشدہ کے اصولوں پر تشکیل و تاسیس، ظاہری و باطنی علو م کا حیرت انگیز اجتماع وغیرہ وغیرہ اتنے کمالات و خصائص ہیں جو اہلِ نظر و فکر کے لئے اور اہلِ دل و اہلِ ذوق اربابِ قلم کے لئے تحقیق و تدقیق  کا ایک میدان ہیں۔ 
 افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک   جاہل مجہو ل شخص ،جسکے علمی اور عملی شجرہ نصب کو آپ خود بھی نہیں جانتیں ، نہ آپ  نے یہ  تحقیق کی کہ کیا  یہ بندہ اس قابل بھی ہے کہ اتنے بڑے علمائے زمانہ  پر تنقید کررہا ہے، چلیں  آپ نے اگر  اسکی علمی حیثیت کے متعلق تحقیق   نہیں کی تو  کیا کم از کم  کسی عالم سے ہی پوچھ لیتیں  کہ جوا س نے لکھا ہے اسکے متعلق صحابہ،   فقہا، آئمہ  بزرگان دین کی کیا رائے ہے ؟ یا خود ہی دیکھ لیتیں کہ کیا اس نے  اپنے موقف پر قرآ ن وحدیث سے بھی کوئی دلیل پیش   کی ہے ؟  اس بندے کا علمی کمال تو  صرف یہ ہے کہ اس نے مختلف علما کی کتابوں میں سے واقعات آگے پیچھے سے کاٹ کرمنافقانہ انداز میں  پیش کرتے ہوئے صرف لفاظی کی ہے اور آپ نے اسکی تحریر وحی الہی مان لیا، اور اس کے مقابلے میں ایک ایسی  نابغہ روزگار ہستی ہے جس کے علم و حکمت، تقوی و اخلاص  پر امت کی کثیر تعداد کا اجماع ہے  ’ کے  دفاع کو شخصیت پرستی کہنا  شروع کردیا۔ 
ایک بات یاد رکھیں دین کے معاملے میں‘ کلمواالناس علی قدرعقولھم ’کی رعائت بہت ضروری ہےاور کی جاتی ہے۔ انسان کو انہی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جن کو سمجھنے کی اس کے اندر صلاحیت ہو ۔ ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے کیونکہ قاعدہ ہے‘ الناس أعداء ما جهلو’۔  لوگ جس چیز سے جاہل  ہوں اس کے دشمن بن جانتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک  باب قائم کیا هے۔(باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا)یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتهہ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑهایا کہ وه اس کو نہیں سمجهیں گے ۔یہی مسئلہ آپ کے ساتھ بھی پیش آیا اور آپ کے اس پسندیدہ رائٹر کے ساتھ بھی ۔اس  کی  اور آپ کی ناقص عقل میں جو بات نہیں آسکی ، آپ  نے بجائے علم والوں کی طرف رجوع کرنے کے’  اس پر فتوے لگانے شروع کردیے۔ محترمہ کسی ایسی شخصیت پر جس کے علم وفضل پرامت کے ایک بڑے طبقے نے اعتماد  کیاہو،اس کے متعلق کسی شخص کا  جلد بدگمانی میں مبتلاہونا صرف اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ وہ شخص اعجاب رائے میں مبتلاہے ۔  

اس موضوع پر ہمارے دوست بلاگر انکل ٹام نے بھی ایک جگہ  اچھا  لکھا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ اس طرف زور لگانے پر تُلا ہوا ہے کہ اسلام ہماری مرضی کے مطابق ہو ، یعنی انکو اللہ کے بناے ہوے پر عمل نہ کرنا پڑے بلکہ جو انکا عمل ہو اسکو اسلام کا نام دے دیا جائے ۔ وہ ہر جگہ اپنی عقل سے دین کو پرکھتے اور علما پر طعن کرتے نظر آتے ہیں ، ان لوگوں کا حال  بلکل ایسے ہی جیسے ایک موچی کسی ٹاپ سرجن پر اعتراض کردے کہ آپ ٹانکے صحیح نہیں لگاتے، میں جوتوں کو دس سال سے سی رہا ہوں مجھے زیادہ تجربہ ہے۔ لہذا مریض کو ٹانکے لگانے کے معاملے میں آپ سے بہتر میں جانوں گا ۔ تو اس موچی کو سکیورٹی والے لاتیں مار کر باہر نکال دیں گے کہ صاحب آپ موچی ہیں یہ بات آپ کسی موچی سے جا کر کر سکتے ہیں سرجن پر اعتراض سرجن ہی کرے گا ۔ بلکل اسی طرح چاہے آپ نے لینکس یا ونڈوز کے اردو ترجمے کر دیے یا پھر کیمیسٹری یا بیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ، آپ کی مہارت اسی فن میں ہے   لہذا آپ اپنی چولیاں اسی فن میں ماریں ، اس فن کے ماہر موجود ہیں ، اگر اس فن میں کوی غلطی پر ہے تو اسکو ٹوکنے کا حق بھی اسی فن کے ماہر کو ہے ۔ دین کے معاملے میں اعتراض کرنے کا حق صرف ان کو ہے جو اسکا علم رکھتے ہیں، جس کو قرآن کی ایک آیت دیکھ کر بھی پڑھنی نہ آتی ہواس سے قرآن کی تفسیر  پڑھنی شروع کردی جائے گا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

 خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

 خواب میں   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا حق  ہے ، صحیح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
          “من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی۔ متفق علیہ۔
          ترجمہ:… “جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔”(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

          اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو لوگ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے منکر ہیں، وہ اس حدیث شریف سے ناواقف ہیں۔ خواب میں زیارتِ شریفہ کے واقعات خیرالقرون سے  اس قدر بے شمار ہیں کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔تاریخ کی کتابوں میں حضرت بلال رضی اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ تفصیل کے ساتھ  مذکور ہے۔  جس میں حضرت  بلال رضی اللہ عنہ کا  حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شام ہجرت کر جانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں آکر  شکوہ فرماتے ہوئے کہنا"ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟ (’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘) اس پر پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مدینہ آنا اور حسنین رضوان اللہ کی فرمائش پر اذان دینے کا واقعہ مشہو ر ہے۔( السيرة الحلبيه، 2 : 308)
اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انکو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  دیکھنا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نویں محرم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا وغیرہ اور بھی  کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات موجود ہیں، حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کشف المعجوب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا اپنا واقعہ لکھا ہے۔ مطلب خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔ اسلاف سے ثابت ہے۔

بعض جہلا اس بارے یہ وسوسہ پھیلاتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بیداری میں نہیں کی تواس کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کو خواب آتی ہے اسے  خواب ہی میں قدرتی طور پر اس کا علم ضروری حاصل ہوجاتا ہے اور اسی علم پر مدار ہے، اس کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں،الا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ٹھیک اسی شکل و شمائل میں ہو جو وصال سے قبل حیاتِ طیبہ  میں تھی، اور اس سے خواب کی تصدیق ہوجائے۔

 یہ بات حق ہے  کہ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بڑی برکت و سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبع سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی، وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔

یہ بات تو ثابت ہے کہ آپ  کا مصنف جس کی تحریر کو لے کر آپ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا رد کرگئیں ’  بالکل ایک جاہل و اجہل شخص  ہے، اس لیے اس نے قرآن وحدیث سے اپنے موقف کے حق میں کوئی شرعی دلیل دینے کے بجائے محض لفاظی کی ہے۔ اگر آپ اب بھی اس کے موقف کو حق سمجھتیں ہیں تو آپ اسکے  موقف  کے حق میں  قرآن وحدیث ، صحابہ رضوان اللہ ، آئمہ کی زندگی میں سے کوئی دلیل لے آئیں یا میری پیش کی گئی دلیلوں کا شرعیت کی روشنی میں رد فرما دیں۔
اللہ ہمیں نفس پرستی کے بجائے حق پرستی عطا فرمادے۔

24 comments:

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

حافظ صاحب:: بہت بہت شکریہ۔ ایک اچھی تحریر جس نے میرے علم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

یاسر خوامخواہ جاپانی نے لکھا ہے کہ

محترم شکریہ
آپ کی تحریر سے معلومات میں اضافہ ہوا۔
جزاک اللہ
جن کیلئے آپ نے یہ تحریر لکھی
وہ حدیث کو نہیں مانتے۔
جو مانتے ہیں وہ آپ کے مشکور ہیں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

جزاک الله ...ماشا الله بہت اچھا رد کیا ہے ...

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

اللہ تعالٰی آپکو جزائے خیر دے۔
آپکی تحریر نہائت معلوماتی ہے۔ مگر ہدائت اللہ کی دین ہے۔ ہر کسی کے نصیب میں ہدائت نہیں۔

کچھ لوگ مشن کے طور پہ ایک ہی موضوع پہ سرکھپائی کرتے ہیں۔ کہ کسی طرح مسلمانوں کو گمراہ کرکے اپنی بے دینی کا رعب ڈال سکیں۔ بے وقوفوں کو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے یہ کام کرتا آرہا ہے مگر وہ اللہ کے ماننے والوں کی اکثریت کو گمراہ کرنے میں ناکام ہے۔
کیا مجہول لوگوں کا علم اور تجربہ شیطان سے بھی زیادہ ہے؟

اللہ آپکو جزائے خیر اور گمراہوں کو ہدائت نصیب کرے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

کہ ابتدائے آفرینش سے یہ کام کرتا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اس جملے میں "ابلیس" کا اضافہ کر کے پڑھا جائے یوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ابلیس ابتدائے آفرینش سے یہ کام کرتا آرہا ہے

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال صاحب نے يونہی نہيں کہا تھا

حکمتِ ديں کوئی کہاں سے سيکھے
نہ کہيں لذّتِ کردار ۔ نہ افکارِ عميق
حلقۂِ شوق ميں وہ جرأتِ انديشہ کہاں
آہ ۔ محکومی و تقليد و زوالِ تحقيق
خود بدلتے نہيں قرآں کو بدل ديتے ہيں
ہوئے کس درجہ آج مسلمان بے توفيق

گمنام نے لکھا ہے کہ

علم اورعقیدے میں فرق ہے۔ عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پیغمبر ہیں بالکل اس طرح جس طرح وہ اپنی زندگی میں لوگوں کے لیے پیغمبر تھے۔ ہم ان کی دعا اور وسیلے کے محتاج ہیں۔ وہ ہماری دعا کے محتاج نہیں ہیں۔ خدا نے ان کو کوثر عطا فرمایا، ان کے ذکر کو بلند فرمایا اور ان کی رضا کو اپنی رضا سمجھا۔ ان کی محبت اور اطاعت خدا کی محبت اور اطاعت ہے ۔ (یہ سب قران سے ثابت ہے)۔ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ علم ہے۔ علم اتنا کافی ہے کہ عقیدہ درست رہے۔ جو علم عقیدے کو خراب کرے اس کو سلام۔ نبی کریم ﷺ کی خواب یا بیداری میں زیارت ایک روحانی معاملہ ہے۔ اس کے لیے عمریں سجدے میں گزر جاتی ہیں۔ شریعت دکھانے کی اور روحانیت چھپانے کی چیز ہے۔ پرانے لوگ راز کی باتیں بھی سر عام کہہ دیتے تھے کیونکہ اس وقت لوگوں کا عقیدہ، علم، اور ذوق بہتر تھا۔ باقی اس کتاب پر افسوس ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ اور امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اکابر کو اپنی کم علمی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگرکوئی ایک بات سے لا علم ہے تو اس کو جھٹلانے کی ضد کرے۔ یہ کتاب (جس کسی نے بھی لکھی ہے) اپنی اصل میں گستاخانہ ہے۔ اس لیے کہ جب اپنے پیغمبر کا ادب ہی نہ رہا تو کہاں کا دین اور کہاں کی نجات۔

جعفر نے لکھا ہے کہ

جن کے لیے آپ نے یہ تحریر لکھی ان کو ایسے دلائل کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں ضرورت ہے ڈفری سٹائل دلائل کی جو انہوں نے اپنی تازہ پوسٹ میں دیے ہیں۔

bdtmz نے لکھا ہے کہ

میں نے تو دو اسکین پڑھ کر چھوڑ دیا تھا۔ اس عورت کی ہمت ہے نہ صرف پڑھا بلکہ اسکین کر کے لگا بھی دیا۔ اور تم سب اس با ہمت عورت کی بزتی کرنے میں لگے ہو۔ پوسٹیں لکھ رہے ہو۔ تف ہے تم لوگوں پر۔ تمکو تو چاہئے اس عورت کی اس زمانے میں موجودگی پر شکر کرو اور خوشیاں مناو کہ ایسی باہمت باعمل اور پڑھی لکھی عقل بند معذرت چاہتا ہوں۔ عقلمند عورت تم میں موجود ہے۔

وقاراعظم نے لکھا ہے کہ

بہت اعلی بنیاد پرست صاحب لیکن بہر حال جنکو آپ نے جواب دیا ہے وہ احادیث جیسی چیزوں پر کم ہی یقین کرتے بہرحال میں بھی انکی ہمت کی داد دیتا ہوں۔۔۔

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

صرف ایک تصیح فرمالیجیے ۔ کشف المحجوب کے مصنف سشیخ عبدالقاد جیلانی رح نہیں بلکہ شیخ عثمان علی ہجویری رح ہیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

جی جواد بھائی میرے سے غلطی سے عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا نام لکھا گیا ہے۔ یہاں اصل میں علی ہجویری رحمہ اللہ ہی لکھنا تھا۔

جعفر بھائی، یاسربھائی اور وقار بھائی ہم نے تو بس اپنافرض پورا کرتے ہوئے حجت تمام کی ہے ، اب جو حق واضح ہوجانے کے بعد بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے تو اسکی مرضی ہے چلتا رہے۔اگر یہ تحریر اسکو فی الوقت فاعدہ نہ دے سکی تو شاید مستقبل میں کبھی کسی اور کے لیے نافع ثابت ہوجائے۔۔


اللہ آپ کو اور دوسرے تمام دوستوں کو جزائے خیر عطا فرمائے اور فقیر کو اخلاص عطا فرمائے۔

حجاب نے لکھا ہے کہ

یہ پوسٹ اور اس سے پہلے کی پوسٹس جو آپ نے لکھیں سب بہت اچھی لگیں ۔۔

ضیاء الحسن خان نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں آپ سے تو متفق ہوں ہی مگر جو بات اپنے بدتمیز اور جعفر نے کہی وہ درست ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میرا خیال ہے کہ تمھارا شمار دو اقسام کے بلاگرز میں ہوتا ہے ایک تو جو میں نے لکھا ہے اپنے بلاگ میں اور دوسرا “بھاری ہتھ ولا“ یہ ایک نئی قسم ہے ۔۔۔۔۔

خوش رہو

گمنام نے لکھا ہے کہ

بہت خوب۔ اللہ بدلہ عنایت فرمائیں۔ جن حضرات کیلئے یہ تحریر لکھی ہے اگر چہ وہ حدیثوں کو نہیں مانتے مگر یہی لوگ اطلبوا العلم ولو بالصین والی "روایت" پہ اندھے بہرے ہوکر گرتے ہیں۔ شق القمر والی روایات کا انکار کرنے والوں کو کبھی اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اس چین والی روایت کی بھی کچھ پڑتال کرلیں۔ اس کثرت سے اس کو دہرایا جاتا ہے کہ اس پر حدیث مشہور ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ان حضرات کے ساتھ یہ مسءلہ ہے کہ اگر بات ان کے مفاد کے خلاف ہے تو چاہے وہ متواتر حد کو پہنچ رہی ہو مگر وہ اس کو نہیں مانیں گے۔ لیکن اگر بات ان کے مفاد میں ہو تو اس پر بغیر دلیل کے ایمان لے آئیں گے چاہے وہ بات یہودی راوندی کا بیٹا کہے یا کوئی نام نہاد عالم۔وہ اس کی بات کی تحقیق کرنے کو اور اس کے حوالی چیک کرنے کوحرام سمجھتے ہیں۔ خود بھی اس کو من وعن قبول کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی قبول کروانا چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں یہاں آکر ان کے تحقیق کے کیڑے کو زہر لگجاتا ہے اور وہ کومے میں چلا جاتا ہے

گمنام نے لکھا ہے کہ

نام لکھنا بھول گیا
محمد سعید پالن پوری

بلاامتیاز نے لکھا ہے کہ

ہر چیز میں فقظ بہتری ہی ہوتی ہے
اگر وہ سکین پوسٹ نہ ہوتیں تو شاید یہ تحریر بھی پوسٹ نہ ہوتی

عبد اللہ نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ

گمنام نے لکھا ہے کہ

JazakAllah
Bohat Khoob aur Mudalil Jawab
Allah zor e Qalam aur ata karay

Aamin

Syed Hyderabadi نے لکھا ہے کہ

جناب عالی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے بلاگ کو مستقل زیر مطالعہ رکھنا ہوگا۔
لہذا آپ کے بلاگ کا لنک اپنے خود کے بلاگ پر پسندیدہ روابط کے تحت شامل کر رہا ہوں۔ شکریہ۔

شاہ جی نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ جناب ۔شاندار طریقے سے اپنے موقف کا دفاع کر رہے ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
اور ہم تو بس یہی کہیں گے
جس خواب میں ہو جائے دیدار نبی صلی للہ علیہ والہ وسلم حاصل
اے عشق کبھی مجھ کو نیند ایسی سلا جانا

دعا نے لکھا ہے کہ

ماشاء اللہ بہت اچھا لکھا ہے بنیاد پرست بھائی،اپ کے بلاگ کا ٹائٹل اچھا لگا کیونکہ ہم سب ہی بنیاد پرست ہیں ۔ زیارت رسول ﷺ کے منکرین نے شاید کبھی خواب میں زیارت کی ہی نہیں اس لئے ان کے یہ انداذ ہیں میں تو ایسی خوش قسمت لڑکی کو جانتی ہوں جسے روز زیارت نصیب ہوتی ہے چند دننصیب نہ ہوئی تو وہ بے چین ہو گئی کہ شاید مجھ سے کسی عمل میں کوتاہی ہوئی ہے کچھ عرصے بعد دوبارہ سلسلہ شروع ہو گیا ،یہ تو عشق کی باتیں ہیں ہر کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں۔ پروردگار ہمیں صحیح بات کی توفیق دے ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم
محترم حضرت بلالؓ والا قصہ ثابت نہیں ہے تفصیل ملاحظہ کریں

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله .

أما بعد :
قصة "بلال" فهي (( قصة باطلة )) :

أخرجه ابن عساكر (7/136-137) من طريق محمد بن الفيض ، نا أبو إسحاق
إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء ، حدثني أبي : محمد بن سليمان ،
عن أبيه سليمان بن بلال ، عن أم الدرداء ، عن أبي الدرداء قال :

لما دخل عمر بن الخطاب الجابية سأل بلال أن يقدم الشام فعل ذلك .
قال : وأخي أبو رويحة الذي آخى بينه وبيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟!
فنزل داريا في خولان ، فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان ، فقال لهم : قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ، ومملوكين فأعتقنا الله ، وفقيرين فأغنانا الله ، فأن تزوجونا فالحمد لله ، وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله .
فزوجوهما ، ثم إن بلالاً رأى في منامه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول له :
(( ما هذه الجفوة يا بلال أما آن لك أن تزورني يا بلال )) .
فانتبه حزيناً وجلاً خائفاً ، فركب راحلته ، وقصد المدينة فأتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، فجعل يبكي عنده ، ويمرغ وجهه عليه ، وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما ، فقالا له : يا بلال نشتهي نسمع أذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم في السحر .
ففعل ، فعلا سطح المسجد ، فوقف موقفه الذي كان يقف فيه ، فلما أن قال : "الله أكبر الله أكبر" ارتجت المدينة ، فلما أن قال : "أشهد أن لا إله إلا الله" زاد تعاجيجها ، فلما أن قال : "أشهد أن محمداً رسول الله" خرج العواتق من خدورهن ، فقالوا : أبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟
فما رئي يوم أكثر باكياً ولا باكية بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اليوم .

قلت : هذا إسناد ضعيف جداً ؛ فيه علتان :

الأولى : إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال ؛ ترجمه ابن عساكر فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلا ، ولم يذكر رواياً عنه غير محمد بن الفيض ، وقال الذهبي : "فيه جهالة" .

قلت : فهو مجهول العين .

الثانية : سليمان بن بلال بن أبي الدرداء ؛ ترجمه ابن عساكر (22/204) فلم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً ، ولم يذكر في الرواة عنه إلا ابنه - وهو مجهول - ، وأيوب بن مدرك - وهو متروك - .

قلت : فهو مجهول الحال .

قال الذهبي في "سير أعلام النبلاء" (1/358) : [ إسناده لين وهو منكر ] .

وقال ابن حجر في "لسان الميزان" (1/201-ط.الفاروق) : [ وهي قصة بيِّنةُ الوضع ] .

وقال الألباني في "دفاع عن الحديث النبوي" : [ فهذه الراوية باطلة موضوعة ، ولوائح الوضع عليها ظاهرة من وجوه عديدة ] .

saira نے لکھا ہے کہ

بہت خوبصورتئ ھے آپ کا انداز بیان میں ۔آسان اور عام فہم۔یہ ایک بڑی خدمت ھے آج کے دور میں ھم جیسے دین و دنیا سے نا بلد مسلمانوں کے لیے۔۔اللہ جزاے خیر دے۔۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔