اتوار، 22 ستمبر، 2013

غامدی صاحب کا علمی مقام

پچھلی تحریر میں غامدی صاحب کے پیش کیے گئے تعارف پر کچھ دوستوں نے اعتراض کیا کہ کسی مذہبی سکالر کے بارے میں ایسے القاب استعمال نہیں کرنے چاہیے, انکا اختلاف فقہی ہے اور فقہ میں اختلاف کی گنجائش ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تحریر میں غامدی صاحب کے متعلق ہم نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں لکھا تھا صرف ان کے اساتذہ، ان کے پرانے نام اور عرف کا تذکرہ کیا تھا، یہ سب باتیں غامدی صاحب کی زندگی کا حصہ ہیں۔ اب اگر غامدی صاحب کے پرانےنام اور عرف کا تذکرہ انکے کسی عاشق کو برا لگتا ہے تو اس میں ہمارا قصور نہیں (ویسے غامدی صاحب نے اپنی کتاب 'برہان' میں علماء، مذہبی جماعتوں کے قائدین، فقہاء کے بارے میں تنقید کرتے وقت طنزو تضحیک کا جو اسلوب اختیار کیا ہے،کم از کم اسکی موجودگی میں ان کے قارئین وسامعین کو کسی کے غامدی صاحب کے خلاف لکھے گئے سخت الفاظ پر اخلاقیات کے درس نہیں دینے چاہیے)۔ دوسری بات کیا غامدی صاحب واقعی ایک جید عالم یا مذہبی سکالر ہیں یا انکو دینی علوم میں اتنا رسوخ حاصل ہے کہ انکو فقہاء امت کے ساتھ اختلاف کرنے ، انکی تحقیق کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرنے ،انکو اصل حقیقت سے لاعلم اور جاہل قرار دینے، امت کے چودہ سوسالہ متفقہ مسائل کو رد کرنے کا حق حاصل ہے؟؟ انکے کئی قارئین ، سامعین اور تلامذین بھی یہ دعوے کرتے رہتے ہیں کہ غامدی صاحب دینی و دنیاوی دونوں علوم پر مکمل عبوررکھتے ہیں، صاحب کو عربی خصوصا قرآنی علوم میں تو کمال حاصل ہے ، انگریزی ادب ہو یا جدید سائنسی علوم غامدی صاحب کا انکے متعلق علم پاکستان کے کسی بھی دوسرے عالم، مولوی، مذہبی سکالر سے ذیادہ ہے۔۔!!آیئے! تعصب اور جانبداری کو ایک طرف رکھتے ہوئے ''مجتہدعصر'' کے متعلق ان دعووں کا کھلے دل اور کھلی نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔ اگر ان باتوں کی حقیقت آشکارا ہوجائے تو ان کے بقیہ اُٹھائے ہوئے مباحث کی حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ ہم نے اپنی اس تحریر میں کوشش کی ہے کہ صرف ضروری باتیں ہی کیں جائیں کیونکہ یہ کوئی مقالہ تو ہے نہیں، بات سمجھنے سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ جتنی صاف ستھری، براہ راست اور پیچیدگی سے پاک ہو اتنی ہی مفید رہے گی لیکن موضوع ایساہے کہ تحریر نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہوگئی ہے اس پر ہم معذرت خواہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسے میری قوم کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔
غامدی صاحب کی عربی دانی:.
 خود غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ''اسلامی دنیا میں ان کے پائے کا عربی دان اور عربی زبان وادب پر عبور رکھنے والا کوئی شخص نہیں نیز یہ کہ بڑے بڑے عرب علما ان سے استفادے کے لیے آتے ہیں اور جب غامدی صاحب عربی کے اسباق دیتے ہیں تو یہ علمائے عرب لغت کھول لیتے اور دانتوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔'' جب یہ تعلی اور تکبر اہل علم کے سامنے آیا تو انہوں نے اس کی حقیقت بیا ن کرنا اپنا فرض سمجھا۔چنانچہ چند سال پہلے کراچی سے شائع ہونے والے ایک ماہنامے ''ساحل'' (اپریل ومئی 2007) میں مشہور محقق ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کا تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے۔ سچ پوچھیے تو بڑے خاصے کی چیز ہے ، پڑھا تو لطف آگیا۔ لکھنویوں کی اردو، ندویوں کا انداز تحریر اور پھر پچاس سال سے عربی لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے والے صاحب علم کی طرف سے محاسبہ ومحاکمہ۔ پڑھتے جایئے اور سر دھنتے جائیے۔غامدی صاحب کی عربی دانی پر تبصرے سے پہلے ماہنامے کے اداریے سے چند سطریں پڑھ لیجیے تاکہ پس منظر وپیش منظر سمجھنے میں آسانی ہو:
 ''اس دعوی کے جائزے کے لیے ہم نے جاوید غامدی صاحب کے مطبوعہ کام کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اپنی ساٹھ سالہ علمی زندگی میں انہوں نے صرف ایک سو بائیس صفحات عربی میں لکھے تھے۔ ان میں سے صرف بائیس صفحات رسالہ ''الاعلام'' میں محفوظ ہیں جبکہ بقیہ سو صفحات جو عربی تفسیر ''الاشراق'' اور ''میراث'' پر ایک علمی رسالے کے لیے لکھے گئے تھے، غامدی صاحب نے ضائع کردیے کیونکہ ان کے قلم سے لکھی گئی عربی ان کے عجمی محض ہونے کی داستان، بڑے کروفر سے سنارہی تھی۔ اس کے باوجود ''المورد'' کی ویب سائٹ پر انہیں الاشراق، مثنوی، خیال و خامہ اور باقیات کا مصنف ظاہر کیا گیا ہے جبکہ یہ تصانیف آج تک شائع نہیں ہوئیں۔ بائیس صفحات کے ایک ایک سطر اور ایک ایک جملے میں عربی قواعد، املا، انشا، زبان، بیان، صرف نحو کی بے شمار غلطیاں اسی طرح در آئی ہیں جس طرح ان کے فکر و نظر اعتقادات اور ایمانیات میں اغلاط اور الحاد کا گردو غبار داخل ہوگیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ 1982ء میں لکھی گئی یہ غلط سلط عربی تحریر 5 اپریل 2007ء تک المورد کی ویب سائٹ پر جوں کی توں موجود تھی یعنی ستائیس سال میں بھی غامدی صاحب اور ان کے حلقے کی عربی دانی کا ارتقا نہ ہوسکا"۔
(بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر پر کلک کردیں)
 غامدی صاحب نے الاعلام میں عربی دانی کے جو جوہر دکھائے تھے ان پر ڈاکٹر رضوان علی ندوی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے۔
''ان مختصر عربی مضامین کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے اندازبیان میں وہ عیب ہے جو عربی زبان میں ''عجمہ'' یعنی عجمیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان کی عربی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ مصنف عربی زبان کے عصری اسلوب سے بے خبر ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کے سامنے قدیم عربی کی کتابیں ہیں وہ ان کے جملے، تشبیہات و استعارات اپنی تحریر میں منتقل کررہا ہے۔ عربی نثرنحوی اغلاط سے پر ہے۔ ان کی تحریروں میں نحو یعنی قواعد زبان کی ایسی غلطیاں ہیں کہ کسی عربی کالج و اسکول کا لڑکا بھی نہیں کرے گا۔ بلکہ دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے شائع ہونے والے عربی ماہنامے البعث الاسلامی میں لکھنے والے نوجوان ندوی بھی ایسی اغلاط نہیں کرتے۔ "

 اسالیب عربی سے لاعلم یہ عجمی جو ایک مختصر نثر پارہ درست عربی میں لکھنے پر قادر نہیں، اپنے غرور علم میں صحابہ کبار، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ائمہ، مفسرین اور ماہرین لغت کی عربی دانی کو حقارت سے رد کرتا ہے۔منسکہ تصویر میں آخری لائن میں والسماء ذات الحبک پر تبصرہ گزر چکا ، اسی کے آگے موصوف لکھتے ہیں: واما الذین قالو ان المراد بہ نجوم السمائ، فانہم لم یتتبعوا کلام العرب حق التتبع، ولم یتأ ملوفیما یقتضی موقعہ ہنا، فلم یتبین لہم معناہ، فاخطاؤا وجہ الصواب.''اور جن لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد آسمان کے ستارے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کلام عرب کی اچھی طرح چھان بین نہیں کی اور نہ اس پر غور کیا کہ یہاں کس بات کا موقع و محل ہے۔ اس لیے انہیں اس (ذات الحبک) کے معنی سمجھ میں نہیں آئے اور وہ غلطی کے مرتکب ہوئے"۔غامدی صاحب نے جن لوگوں کو کلام عرب سے جاہل کہا ہیں وہ نسلی عرب اور مشہور آئمہ تفسیر امام حسن بصری و سعید بن جبیر جیسے تابعین اور طبری و زمخشری جیسے ادیب و ماہرین لغت و مفسرین قرآن ہیں ۔ (ملاحظہ ہو: اس آیت قرآن کی تفسیر طبری اور زمخشری میں) ۔
غامدی صاحب کے سرپر ایک زمانے میں قرآن کریم کے مقابلے میں آیات سازی کا جنون بھی سوار تھا اور انہوں نے اپنے پاس سے چالیس مہمل، بے ربط اور رکیک جملے گھڑ کر انہیں آیات کا نام دے رکھا تھا اور اسے محفلوں میں سنایا کرتے تھے۔ اس روداد کے نقل کے لیے ہم ایک مرتبہ پھر ماہنامہ ''ساحل'' کے مشکور ہیں۔ صفحہ بہت پرانا تھا اس لیے صحیح سکین نہیں ہوسکا۔ ملاحظہ ہو:
 1975ء میں جناب غامدی صاحب ممتاز اہل حدیث عالم علامہ ساجد میر کے بھانجے ڈاکٹر مستنصر میر کی دعوت پر سیالکوٹ تشریف لائے۔ ایک محفل میں جناب غامدی نے قرآن کی وہ چالیس آیات پیش فرمائیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ قرآن کے چیلنج کا جواب ہے، چالیس فرضی آیات کی مجلس میں راقم بھی حاضر تھا۔ اس کے علاوہ اسد صدیقی، ڈاکٹر سہیل طفیل، برادر مستنصر میر، ڈاکٹر مستنصر میر، ڈاکٹر منصور الحمید، اسد صدیقی اور دیگر رفقائے خاص اس موقع پر موجود تھے۔ غامدی صاحب نے بعدازاں یہ آیتیں کتابی شکل میں اشاعت کے لیے منڈی مریدکے ایک کاتب سے کتابت بھی کرائی تھیں لیکن کتابت بہت ناقص تھی لہٰذا مسودہ روک دیا گیا۔ دریں اثنا ڈاکٹر مستنصر میر کی زجروتوبیخ کے باعث غامدی صاحب نے مسودہ ضائع کردیا ۔ راقم کے پاس اس مسودے کا ایک ٹکڑا محفوظ رہ گیا تھا۔ حاضر ہے۔ ترجمہ غامدی صاحب کے قلم سےہے:
(بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر پر کلک کردیں)

‘‘اقسم بخالق الخیل، والریح الھابة بلیل بین الشرط ومطالع سھیل،ان الکافرلطویل الویل ،وان العمر لمکفوف الذیل ،اقز مدارج السیل وطائع التوبة من قبیل ،تنج وما اخالک بناج’’

تصویری فائل میں غامدی صاحب کی عربی دانی کا حال آپ نے ملاحظہ فرمایا، اس ٹکڑہ اور اسکے ترجمہ کتنی غلطیاں ہیں مضمون کی طوالت کے ڈرسے اس پر ہم تبصرہ نہیں کرتے ۔ غلطیاں محض تعبیر واسلوب کی نہیں کہ کوئی کہہ سکے اس طرح کی اصلاح تو ہر ایک کے کلام پر ہوسکتی ہے۔۔۔ نہ حضور نہ۔۔۔۔ یہ غلطیاں اس قسم کی ہیں کہ درجہ اولیٰ کے طالب علم دیکھیں تو انگلیاں دانتوں تلے دبالیں اور منتہی طلبہ پڑھیں تو انہیں زمین آسمان کی نبضیں تھمتی محسوس ہوں۔ آزمائش شرط ہے اور ثبوت کے طورپر مزید ایک صفحہ پیش خدمت ہے جس پر محترم ڈاکٹر رضوان ندوی صاحب کی اصلاح موجود ہے۔ یوں تو پورا صفحہ پڑھنے کے بجائے ایک نظر ڈالنا کافی ہے کہ غلطیاں یوں بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں جیسے کسی چیچک زدہ منہ پر پھیلے ہوئے مواد بھرے دانے۔ اتنی درخواست ہے کہ پہلے صفحہ کا آخری جملہ اور اس پر ڈاکٹر ندوی صاحب کا تبصرہ ضرور پڑھ لیجیے۔ طبیعت باغ باغ ہوجائے گی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
(بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر پر کلک کردیں)

''فبھذا السبب کان عمل أعضاء ھذا النوع من الأحزاب أن یقضوا طیلۃ حیاتہم لحصول النجاۃ من سوء نتائج حسابھم ھذا.''

پڑھیے اور داد دیجیے کہ ایسی بے معنی، مہمل، بھونڈی، رکیک اور جملہ عیوب سے آراستہ عربیت اور اس پر متکبرانہ دعوی کہ غامدی مکتب فکر ہی عصر حاضر کا وہ طبقہ ہے جو قرآن کی روح سے واقف اور اس کے مزاج سے آشنا ہے۔ خودساختہ فتنہ انگیز مسائل پر دانش وری بگھارنا صرف اس کا حق ہے، آنے والا دور صرف ان کا ہے اور دبستان شبلی کا واحد اور حقیقی جانشین صرف وہی ہے۔اسلامی علوم اور عربیت میں غامدی صاحب اور ان کے لائق شاگردوں (جو 27 سال میں اپنے استاذ کی لکھی ہوئی چند سطریں پڑھ کر ان کی اصلاح نہ کرسکے) کی اہلیت ومہارت آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ اسی سے ان کے فتویٰ نما دعوؤں کی علمی حیثیت اور شرعی مسائل پر مجتہدانہ تبصروں کی حقیقت آپ پر واضح ہوگئی ہوگی۔

غامدی صاحب کی قرآن فہمی:.
 یہ تو معلوم ہوچکا ہے کہ علوم عربیت سے غامدی صاحب کی واقفیت کس قدر ہے؟ آیئے! آج ذرا قرآن فہمی کے حوالے سے ان کے کام کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی تمام کاوشوں کی بنیاد اور سہارا ہے۔ قرآن فہمی کے جھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ان کا پہلا اور آخری سہارا عربیت دانی کا دعویٰ ہے کہ وہ عربی لغت اور ادب عربی کو اتنا اچھا سمجھتے ہیں کہ اس کے سہارے قرآن کے معنی و مفاہیم کو خود سے متعین کرسکتے ہیں۔ چاہے اس سے اجماع کا انکار ہو، اسلام کے مسلمہ احکام کی تردید کرنا پڑے یا پھر سرے سے خود قرآن ہی سے ہاتھ دھولیا جائے۔ آنجناب کو ''عربی معلی'' (بامحاورہ عربی) جاننے کا بڑا زعم ہے اور ان کا یہ فرمان مستند سمجھا جاتا ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدمقابل کوئی نہیں ہے۔ یہ دعوی اتنا ہی لچر اور بے اصل ہے جتنی آنجناب کی عربی سے واقفیت کا زعم۔ ہم اگر اپنے قارئین کو یہ حقیقت سمجھنے سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں کہ ان کی عربیت سے واقفیت اتنی ہی ہے جتنی ملعون رشدی کی انگریزی سے تو یہ سمجھنے میں مشکل نہ رہے گی کہ ملعون کو ''سر'' کا خطاب اور غامدی صاحب کو ''اسکالر'' کا اعزاز کس وجہ سے ملا ہے؟ 
 پہلی مثال :سورۃ اعلیٰ میں ہے:

''وَالَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعیٰ فَجَعَلَہ، غُثَائً اَحْوٰی.''

غامدی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ''اور جس نے سبزہ نکالا پھر اسے گھنا سرسبز وشاداب بنادیا۔'' (البیان: صفحہ 165) اس کے علاوہ غامدی صاحب کے فکری ونظریاتی ''امام'' امین احسن اصلاحی بھی اس مقام کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ''اور جس نے نباتات اُگائیں، پھر ان کو گھنی سرسبز وشاداب بنایا۔'' (تدبر قرآن: 311\9)
 یہ دونوں ترجمے عربیت ،قرآن مجید کے نظائر ،احادیث کے شواہد ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اقوال ، اجماع امت اور اُردو کے تمام مترجمین کے ترجموں کے خلاف ہےاس آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ''اور جس نے سبز چارہ نکالا اور پھر اسے سیاہ کوڑا بنادیا۔'' اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر چیز کی چمکتی دمکتی ابتدا وعروج اور پھر جلد ہی بھولا بسرا فنا وزوال سمجھانا چاہتے ہیں۔ خود تدبر قرآن میں غامدی صاحب کے ''امام'' امین احسن اصلاحی نے جہاں قرآن میں دوسرے مقام پر ''غثاء'' کا لفظ آیا ہے اس کا ترجمہ خس وخاشاک ہی کیا ہے: ''فأخذتھم الصیحۃ بالحق فجعلنھم غثاء'' (المؤمنون: 41) ''تو ان کو ایک سخت ڈانٹ نے شدت کے ساتھ آدبوچا۔ تو ہم نے ان کو خس وخاشاک کردیا۔'' (تدبر قرآن: جلد5، صفحہ 312)
ع جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!
غامدی صاحب اور ان کے شیخ اجل کے ذوق اختلاف اور شوق اجتہاد نے یہاں ان سے وہ سنگین غلطی کروائی ہے، جس سے ان کی اہلیت کی قلعی بالکل اس طرح اتر گئی ہے جیسے نقلی زیور کی پالش ایک دھوپ کھاتے ہی پول کھول دیتی ہے۔
 دوسری مثال:

''وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰھَا بِأَیْدٍ وَّإِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ.'' (الذاریات: 47)

غامدی کے شیخ اور امام، اصلاحی صاحب اس آیت کا یہ ترجمہ کرتے ہیں: ''اور آسمان کو ہم نے بنایا قدرت کے ساتھ اور ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔'' پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''أیدٍ کے معروف معنی تو ہاتھ کے ہیں لیکن یہ قوت وقدرت کی تعبیر کے لیے بھی آتا ہے۔ '' (تدبر قرآن: 626\7)
 اس مقام پر مولانا اصلاحی صاحب کی سنگین غلطی یہ ہے کہ انہوں نے لفظ ''أید'' کو ''ید'' کی جمع سمجھ لیا جو کہ قطعاً غلط ہے۔ ''أید'' کے معنی طاقت اور قوت کے ہیں جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے: ''واذکر عبدنا داؤد ذاالأید'' اور ہمارے بندے داؤد کا تذکرہ بیان کرو جو قوت والا تھا۔ جمہور مفسرین نے اس کی تصریح کی ہے۔ اب سوچنے کی یہ بات ہے کہ جو لوگ قرآنی الفاظ کے مادوں (Roots) ہی سے بے خبر ہوں اور اس کے دو مختلف الفاظ میں امتیاز نہ کرسکتے ہوں، ان کی عربیت پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اور جب استاد کی عربیت کا یہ حال ہے تو شاگردوں کی تفسیر اور من مانے اجتہادات کا کیا حال ہوگا؟؟
 پورے فراہی مکتب فکر کامسئلہ یہ ہے کہ الفاظ کے متد اول معانی کے بجائےغیر معروف و شاذ معانی اختیار کرتا ہے۔ اقوال صحابہ کرام اور تابعین پر اعتماد کرنے پیش کرنے کے بجائے کلام جاہلی سے مثالیں اٹھاتے ہیں۔ جیسے سورہ الزاریات کی آیت ’’المقِّسمٰت امراً‘‘کی تفسیر میں مولانا فراہی اور غامدی نے لغت سےمددلی ، جبکہ تمام مفسرین طبری ، قرطبی، ابن کثیر وغیرہ رحمہ اللہ جنہوں نے اس دو لفظی آیت کی تفسیر سیدنا علی، سیدنا عمر اور سیدنا عبداللہ ابن عباس رضوان اللہ اور ان شاگردوں سے روایت کی ہے 'نے ’’فالمقسمٰت أمراً‘‘ کے معنی فرشتے دیے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف امورِ دنیا پر مامور ہیں اور یہی معنی دوسری صدی ہجری کے دو قدیم ماہرین لغت قرآن الفراء اور ابو عبیدہ معمر بن المثنی نے بھی دیے ہیں۔حتی کہ مشہور عقلیت پسند (معتزلی) مفسر زمخشری نے بھی ان آیات کے وہی معنی بتائے ہیں۔چلیں فراہی اور غامدی قدیم مفسرین کو تو درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے لیکن یقین ہے کہ وہ لغت پسندی کی وجہ سے ان دونوں ماہرین لغت کے مرتبے سے تو واقف تھے پھر بھی یہ لکھ گئے ہیں.
 ’’جب یہ ثابت ہوگیا کہ سید نا عمراور سید نا علی ، حضرت عبداللہ بن عباس، اور دسیوں تابعین اور ان کے فوراً بعد دو قدیم ترین مشہور ماہرین لغت نے ان چار آیات کے معانی چار مختلف چیزیں بتائی ہیں تو ان کی اس رائے کی کوئی وقعت نہیں رہتی کہ یہ بات نظائر قرآن اور کلام عرب کے خلاف ہے‘‘۔
 کیا تیرہ سو سال بعد کا ایک عجمی مصنف ان لوگوں سے زیادہ کلام عرب کا راز داں ہوسکتا ہے۔؟ !! یہ ہے وہ غرور علمی جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اسکو تحقیق اور فقہی اختلاف کا نام دیا جارہا ہے۔
تحریفِ قرآن کی چند مختصر مثالیں:
غامدی صاحب کے ہاں تحریف قرآن، تلعب بالقرآن اور مذموم تفسیر بالرائے کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ تفصیلی مثالوں کے بعد ذیل میں ہم ان کی کتاب ''البیان'' سے چند مختصر مثالیں پیش کرتے ہیں۔ (1)سورۃ اللہب میں

(1)''تَبَّتْ یَدَآ أبِیْ لَھَبٍ''

کا ترجمہ یہ کیا ہے: ''ابولہب کے بازو ٹوٹ گئے۔'' پھر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ''یعنی اس کے اعوان وانصار ہلاک ہوئے۔'' (البیان ص: 260،) کوئی بتائے کہ جناب نے ''ید'' (ہاتھ) کا ترجمہ بازو کس قانون سے کیا ہے؟
 (2)سورۃ الاخلاص میں

''قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أحَدُ''

کا ترجمہ اس طرح کیا ہے: ''وہ اللہ سب سے الگ ہے۔'' (البیان، صفحہ: 261) ''أحد'' کا ترجمہ ''الگ'' کس قاعدے سے کیا گیا ہے۔ یہ تو ''أبداً، أحدٌ'' کی تختی پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ ''أحد'' کے معنی ایک ہیں۔
(3)سورۃ الفیل میں

''تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ''

کا ترجمہ کیا ہے: ''تو پکی ہوئی مٹی کے پتھر انہیں مار رہا تھا۔'' (البیان، صفحہ 240) آگے تفصیل میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ پتھر قریش کے لوگوں نے لشکر پر برسائے تھے اور پرندے صرف نعشیں نوچنے آئے تھے(شاید غامدی صاحب کے نزدیک یہ بھی اللہ کی طرف سےآنے والے عذاب کی ایک شکل ہے ) ۔ حالانکہ سلف سے خلف تک، تمام مفسرین کرام کا اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے پرندے بھیجے تھے جنہوں نے ابرہہ کے لشکر پر سنگ ریزوں اور کنکروں کی بارش کردی اس کے نتیجے میں ہاتھیوں سمیت پورا لشکر تباہ و برباد ہوگیا، آیت کے الفاظ(ارسل علیہم طیرا ابابیل) بھی اسی کی گواہی دے رہے ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنے موقف کے لیے تَرْمِیْھِمْ کا مطلب کسی چیز کو بازو یا فلاخن کے ذریعے پھینکنے کے معنی میں لیا ہے حالانکہ یہ بلندی سے نشانہ باندھ کر کوئی چیز نیچے گرانے کے معنی میں بھی ہیں ۔ قرآن کی دوسری آیات بھی گواہ ہیں کہ قرآن میں جہاں کہیں کسی قوم کی ہلاکت و بربادی کے سلسلے میں أَلَمْ تَرَ‌، اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ کے الفاظ آئے ہیں، واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے عذاب کے لئے آئے ہیں اور حجَارَة مِّنْ سِجِّیْل کے الفاظ بھی ۔ جیسا کہ سورةالحجر کی آیت 74 میں آئے ہیں وہاں بھی کسی انسان کی طرف سے پتھر پھینکنے گئے پتھروں کے لیے نہیں آئے:جَعَلْنَا عَـٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهَا حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ...﴿ سورۃ ھود ٨٢﴾. ''پھر ہم نے اُس (بستی) کو زیر و زبر کردیا اور اُن لوگوں پر کھنگر کے پتھر برسا دیے۔''
 (4)سورۃ البروج میں

''قُتِلَ أصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ. النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدُ.''

کا یہ ترجمہ کیا ہے: ''مارے گئے ایندھن بھری آگ کی گھاٹی والے۔'' (البیان، صفحہ: 157) اور پھر اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے: ''یہ قریش کے ان فراعنہ کو جہنم کی وعید ہے جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لیے ظلم وستم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔'' (البیان، صفحہ 157) غامدی صاحب سے پہلے دنیا کے کسی مفسر نے اس آیت کا مصداق قریش کو نہیں قرار دیا ۔ یہ تو پچھلی قوموں میں سے ''خندق والوں'' کے نام سے مشہور قصے کا ذکر ہے جو جمہور مفسرین کے مطابق یمن میں پیش آیا تھا۔
 قارئین محترم! یہ ہیں سابقہ محمد شفیق اور حالیہ جاوید احمد غامدی صاحب کی قرآن دانی اور قرآن فہمی کی حقیقت ۔لے دے کے آنجناب کی پونجی میں ایک چیز ایسی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر وہ پاکستان کے سب سے بڑے اسکالر ہونے کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور وہ ہے جدید علوم سے واقفیت اور انگریزی دانی۔ آیئے! لگے ہاتھوں انکے اس دعوے کی حقیقت کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں ۔

 غامدی صاحب کی انگریزی دانی:.
(بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر پر کلک کردیں)
دبستان غامدی سے وابستہ جدیدیت پسندوں کا دعوی ہے کہ حضرت الشیخ الغامدی کئی زبانوں کے ماہر ہیں۔ انگریزی میں مہارت کے ثبوت میں آنجناب کی انگریزی میں فرمائی گئی شاعری کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ شاعری 64 مصرعوں پر مشتمل چار نظموں کو ''محیط'' ہے اور قطع نظر اس کے کہ عربی نثر سے زیادہ بے تکی، مضحکہ خیز اور غنائیت، سلاست وشعریت سے محروم ہے، اسے سرقے کا عالمی شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ غامدی صاحب کی یہ چار نظمیں انگریزی کے مشہور شعرا کے کلام سے 'سرقہ' کی گئی ہیں ۔ یقین نہ آئے تو منسلکہ موازنہ پڑھ لیجیے اور غامدی صاحب کے حوصلے کی داد دیجیے کہ کس بے باکی اور جی داری سے نامی گرامی شعرا کی مشہور زمانہ نظموں سے سرقہ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں اس پر تعجب تو ہوا لیکن کچھ خاص نہیں اس لیے کہ حضرت غامدی صاحب جب صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم نیز ائمہ مجتہدین اور اُمت کے اکابرین کے علمی مقام ومرتبے کا لحاظ نہیں رکھتے تو انگریزی شعرا کی کیا حیثیت کہ ان کے کلام پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے انہیں کچھ جھجھک محسوس ہوئی ہوگی یا تکلف آڑے آیا ہوگا۔

غامدی صاحب کی جدید علوم سے واقفیت:.
اس بات کا پرچار بھی بڑے زوروشور سے کیا جاتا ہے: ''غامدی صاحب، مغربی فکر وفلسفے پر عبور رکھتے ہیں جبکہ علمائے کرام اگرچہ دینی علوم میں رسوخ رکھتے ہیں لیکن جدید علوم اور سائنس وفلسفہ سے آشنا نہیں اس لیے سکہ بند قول تو وہ ہے جو حضرت الغامدی صاحب کی زبان عالی سے ارشاد ہو۔ مانا کہ غامدی طبقہ کو عربی یا انگریزی نہیں آتی، اسلامی علوم میں عبور نہیں، لیکن یہ پڑھا لکھا روشن خیال طبقہ مغرب اور مغربی علوم سے تو واقف ہے۔'' واقعہ یہ ہے کہ قدیم یونانی منطق و فلسفہ (جس میں اہل مدارس محققانہ بصیرت رکھتے ہیں) کی طرح غامدی صاحب اور ان کے شاگردان رشید جدید مغربی فلسفہ اور جدید سائنس کی حقیقت سے بھی واقف نہیں۔ اس کی دو دلیلیں ہیں:
 (1)غامدی صاحب کے قائم کردہ اکیڈمی ''المورد'' کے نصاب میں جدید علوم، فلسفہ، سائنس، سوشل سائنسز شامل تھے نہ ہیں۔ یونانی فلسفہ تو ویسے ہی شامل نہیں۔ مغربی فکر وفلسفے پر پورے غامدی مکتب فکر کا کوئی کام نہیں۔ اور غامدی صاحب تو کیا ان کے استاذ محترم امین احسن اصلاحی صاحب اور استاذ الاستاذ حمید الدین فراہی صاحب دونوں حضرات بھی مغربی فکر وفلسفے سے قطعاً ناواقف تھے۔ جب بانیان مکتب کا یہ حال ہے تو وابستگان مکتب کی حالت جانچنا کچھ مشکل نہ ہونا چاہیے۔ مزیدان بیس پچیس سالوں کے ''دانش سرا'' کراچی سے لے کر ''المورد'' لاہور تک غامدی صاحب کے کام کو اگر دیکھا جائے تو آنجناب کی تمام تر قوت اسلامی اقدار اور روایات کو متنازعہ بنانے، مسلمانوں کو اسلام کی مبارک حدود وقیود سے آزادی دلانے اور اکابرین امت کی توہین وتردید پر صرف ہورہی ہے۔ ان کی تحریر وتقریر میں اسلام کے مسلمہ اُصولوں اور اجماعی مسائل کے خلاف تو آپ کو بہت کچھ ملے گا لیکن کسی ایک تحریر یا تقریر میں۔۔۔۔۔۔ میں دہراتا ہوں۔۔۔۔۔۔ کسی ایک تحریر یا تقریر میں مغربی استعماریت، صہیونیت، صلیبیت، جدیدیت، سرمایہ داریت، اشتراکیت او رمستشرقین کے اسلام پر رکیک حملوں اور نازیبا الزامات کے خلاف ایک لفظ نہیں ملے گا۔ ان کا سارا زور اس پر ہے کہ ٹوپی نہ پہنی جائے۔ شلوار گھسیٹ کر چلا جائے۔ عورت کے سرپر چادر نہ رہے، وہ مردوں سے بے حجابانہ ہاتھ ملائے اور بے باکانہ گفتگو کرے ، موسیقی سنی جائے تاکہ اسلام کی وہ حقیقی شکل لوگوں کے سامنے آئے جو ملاؤں نے ''چھپا'' رکھی ہے۔ جناب کا اس سے جو وقت بچ جائے وہ مولویوں کی برائی اور غیبت میں صرف ہوتا ہے کہ انہیں کچھ اتا پتا نہیں، یہ صرف فرقہ واریت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ خود آنجناب کی بھی پاکستانی معاشرے میں رائج برائیوں، بدعنوانیوں اور بے دینی کے رجحانات ختم کرنے پر کوئی توجہ ہے نا دینی علوم یا مغربیت کی لادینیت، جدید فلسفہ، جدید فتنہ خیز نظریات، سائنس، ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ خبر ہے اور نہ ان کے حلقے میں ایسے افراد ہیں جو ان چیزوں کا ذوق رکھتے ہوں۔ البتہ ملا حضرات نہ صرف راسخ علم اور استعداد رکھتے ہیں بلکہ وہ اسلامی تحقیقات اور عصر حاضر کے بارے میں بدرجہا بہتر اور تازہ معلومات رکھتے ہیں اور ہرجدید مسائل پر دینی نقطہ نظر اور مدلل اور معقول تشریحات پیش کرچکے ہیں، فلسفہ کے موضوع پر علما کی پانچ کے قریب کتابیں تو ہمارے اس بلاگ پر بھی موجود ہیں۔
 (2) غامدی صاحب نے ساٹھ سال کی عمر تک کتابی شکل میں اُردو نثر کے نو سو صفحات تحریر فرمائے ہیں۔ ان تمام تحریروں میں ایک جگہ کے علاوہ کسی مغربی فلسفی یا مفکر کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور جو پہلا اور آخری حوالہ مغربی فلسفی ہیگل کا انہوں نے دیا ہے وہ مکمل طورپر غلط ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم وجدید علوم کا جامع ہونے کی حقیقت کیا ہے؟ یہ حضرات جو جدید فلسفہ پر ایک سطر نہیں لکھ سکے جدید فلسفیانہ مباحث کو سمجھنے یا اس پر نقد کرنے کی کیا اہلیت رکھتے ہوں گے؟

 بھان متی کا کنبہ:.
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب نے اپنی اس لیول کی 'قابلیت 'کے باوجود اتنا علمی مواد کیسے لکھ لیا ہے، بہت سےلوگووں نے اس پر تحقیق کی، جو کچھ سامنے آیا وہ اندازے کے مطابق اور دلچسپ تھا، چند اشارے ملاحظہ فرمائیں : قانون میراث پر انکی تحقیق ابوالجلال ندوی کے مضمون میراث اور اسلم جیراج پوری کے الوارثت فی الاسلام کا "کامل سرقہ" ہے ۔ زکوۃ اور میراث پر غامدی صاحب کے سرقوں کی مزید حقیقت معلوم کرنے کے لیے ادارہ تحقیقات اسلامی کے سابق صدر ڈاکٹر فضل الرحمن کی تحریرات اور ابو الجلال ندوی کی کتاب ربوہ ،زکوۃ اور ٹیکس دیکھی جاسکتی ہے ۔قرآن سے مختلف فقہی مسائل کا استنباط عمر عثمانی اور طاہر مکی کی کتاب فقہ القرآن کے دلائل، آثاراور امثال کی "حسین نقل" ہے ۔ رجم پر غامدی صاحب کی تمام تحقیق اور تکبر، تملق وتفرد اور صرار درحقیقت فقہ القرآن کی ہی ا یک جلد " حقیقت رجم " کا سرقہ ہے ۔ رجم کا سورہ مائدہ سے اثبات و استدلال حمید الدین فراہی کے موقف کا اعادہ ہے ۔ میزان کے کئی صفحات امین احسن اصلاحی کا لفظ بلفظ سرقہ ہیں، البیان میں غامدی صاحب کا نقظہء نظر کہ یہود ونصارى جنتی ہیں ، جو بھی توحید کا اقرار کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے وہ جنتی ہے ۔ رسالت محمدی صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں، وحدت ادیان قرآن سے ثابت ہے، جن یہودیوں اور نصرانیوں سے قرآن نے ترک موالات کا حکم دیا وہ خاص جزیرۃ العرب کے تھے آج کے نہیں وغیرہ' وحدت ادیان کے عالمی مکتبہ فکر روایت کے بانی " رینے گینوں" کا تتبع اور " مارٹن لنگز" کے مضمون "wtth all thy mind"کا ہو بہو سرقہ ہے ، سنت ابراہیمی کی روایت کا ملحدانہ استدلال " جواد علی" کی کتاب " المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام" کی معلومات سے سرقہ کیا گیا ہے ۔ بنو امیہ، بنوعباس کی تاریخ، واقعہ کربلا ، اور شہادت حسین کے واقعات پر مبنی تاریخ سے انکار کا غامدی نقطہ نظر انکا ذاتی نہیں بلکہ حکیم محمود عباسی ،حکیم علی احمد عباسی ،حبیب الرحمن کاندھلوی اور مفتی طاہر مکی کی فکر کا چربہ ہے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے سلسلے میں غامدی صاحب کی تحقیق حکیم نیاز احمد کی کتاب کا حرف بحرف چربہ ہے ، غامدی صاحب کی انگریزی شاعری جو چار نظموں اور چونسٹھ مصرعوں پر محیط ہے " شکسپیئر" اور "کیٹس " کی شاعری سے چرائے گئے مصرعے ہیں۔ 

چند عاجزانہ گزارشات:. 
٭۔۔۔۔۔۔غامدی صاحب سے درخواست ہے کہ آپ نے آج تک اسلام کے دفاع اور مستشرقین کے اسلام پر حملوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا، نہ سہی، لیکن خدارا! امت کے اجتماعی اور متفقہ مسائل میں اختلاف کا رخنہ ڈال کر اپنا اور قوم کا ایمان برباد نہ کیجیے۔ ایک نئے فرقے کا اضافہ نہ کیجیے اور روز محشر کی حشر سامانیوں سے ڈریے! جہاں کوئی سایہ، کوئی پناہ گاہ نہ ہوگی۔ آپ آج خلق خدا کے سامنے اپنے ایک دعوے کو درست ثابت نہیں کرسکتے، کل عالم الغیب کے سامنے امت کی بھنور میں پھنسی کشتی کو مزید ہچکولے دینے پر کیا جواب دیں گے؟
٭۔۔۔۔۔۔غامدی صاحب کے شاگردوں سے گزارش ہے کہ وہ ہر طرح کے تاثر اورتعصب سے پاک ہوکر پیش کیے گئے دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں سوچیں اور غور کریں کہ کہاں اجتہاد کا مقدس علمی منصب اور کہاں یہ ہفوات اور علمی سرقے؟ جو شخص عربی کی ابتدائی باتیں نہیں جانتا، اپنا نام صحیح نہیں لکھ سکتا، اسے اپنا امام، شیخ یا مقتدا ماننا اور اس کی تقلید کرتے ہوئے امت کے متفقہ موقف سے انحراف کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟
 ٭۔۔۔۔۔۔ چینل مالکان جو غامدی حضرات کو اہل علم ودانش سمجھ کر اپنے چینل پر وقت دیتے ہیں ' سے عرض ہے کہ وہ بلاوجہ دہرے گناہ بے لذت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ قوم کے نظریات میں بھی الحاد پیدا ہورہا ہے اور علم کے نام پر جہالت اور دین کے نام پر بے دینی بھی پھیل رہی ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔میرے جو ہم مذہب وہم وطن بھائی غامدی صاحب کی علمیت وصلاحیت اجتہاد کے معترف ہیں ازراہ کرم وہ اتنا کرلیں کہ کسی پروگرام کے سوال وجواب کے سیشن میں ان سے یا ان کے شاگردوں سے پوچھ لیجیے کہ آپ عربی ، انگلش كی چند سطریں درست طرح سے نہیں لکھ سکتے تو ضخیم تفاسیر اور ذخیرہ احادیث سے کیسے استفادہ کرلیتے ہیں؟ چلیں جانے دیجیے بائیس صفحات ضرب بائیس اغلاط کو، صرف مذکورہ بالا عربی جملے (جو مضمون کے شروع میں گزرے) کا مطلب بتادیجیے۔ اگر غامدی مکتب فکر کے دو تین مجتہدین اور پانچ دس مفکرین مل کر اپنے مجتہد اعظم کے ایک جملے کو درست ثابت نہیں کرسکتے تو میرے سادہ لوح ہم وطن بھائیوں کو مان لینا چاہیے کہ اصل ورثاءعلوم نبوت ، علمائے حق جو بات کررہے ہیں فی اللہ کہہ رہے ہیں۔
٭۔۔۔۔۔۔میرے جوجدید تعلیم یافتہ نوجوان دوست علمائے کرام کے بیانات میں دلچسپی نہیں لیتے کہ اس کے لیے ٹوپی پہن کر مسجد جانا پڑتا ہے اور چینلوں پر آنے والے ڈاکٹرز، اسکالرز کو پسند کرتے اور ان کی آزاد خیالی سے لطف اندوز ہوکر ان کو دین کا حقیقی ترجمان سمجھتے ہیں، ان سے التماس ہے کہ منسلکہ شاعری پڑھیے۔ یہ بے جا اور مضحکہ خیز کلام کیا اس قابل نہیں کہ Percy Wyndham Lewis کی مرتبہ کتاب The Stuffed owl میں شامل کیا جاسکے؟ آپ کو تو معلوم ہوگا کہ اس کتاب کے مرتب نے انگریزی کے بھونڈے اشعار سے نادر انتخاب کیا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیے! کیا آپ کا دل مانتا ہے جو شخص عالمی سطح کے معروف کلاسیکل لٹریچر پر اس دھڑلے کے ساتھ ہاتھ صاف کرسکتا ہے وہ آپ کو قرآن وحدیث کے حوالے دیتے وقت (جن کا پس منظر آپ قطعاً نہیں جانتے) انصاف ودیانت سے کام لیتا ہوگا؟نہیں میرے عزیز! ہرگز نہیں۔ غامدی صاحب توبہ کریں نہ کریں آپ کو ان کی عقیدت سے توبہ کرلینی چاہیے۔ جو لوگ حقیقت میں دین کی سمجھ رکھتے ہیں، دینی علوم کے شعبہ سے وابستہ ہیں ، وہ جیسے بھی ہوں کم ازکم دینی معلومات کی فراہمی میں بددیانتی سے کام نہیں لیتے۔ یہ وہ وصف ہے جو آپ کو نام نہاد ڈاکٹرز، اسکالرز کے ہاں نہ ملے گا۔ کسوٹی ہم نے آپ کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ حقیقت کو پرکھنا اور ہدایت کی تلاش کرنا آپ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے اور ہر قسم کے فتنے سے میری اور آپ کی حفاظت فرمائے۔

48 comments:

میں بھی پاکستان ہوں نے لکھا ہے کہ

محترم بھائی بنیاد پرست!!!!! یہ غامدی ایک فتنہ ہے میرے خیال میں تو اس پر اتنی تحقیت آپ کے قیمتی وقت کا ضیاء ہے۔ جناب!!!! اہل ایمان خوب سمجھتے ہیں کہ ان نام نہاد سکالرز کے پیروی کرنا کس قدر گناہ گار ہونے والی بات ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہدایت دے اور راہ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

گمنام نے لکھا ہے کہ

یہ مضمون ان لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے جو غامدی کو فتنہ نہیں سمجھتے۔

نکتہ ور

کاشف نصیر نے لکھا ہے کہ

عمدہ تحقیقی کام کیا ہے آپ نے

گمنام نے لکھا ہے کہ

بھرپور اور مدلل تحریر ہے

سعید

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

سبحان اللہ ۔ اللہ علم و ہمت میں اضافہ کرے ۔ میں دس سال میں جو کام نہ کر سکا آپ نے چند ماہ میں کر دکھایا ۔ اللہ کرے جن کی اصلاح کیلئے آپ نے محنت کی ہے اُن کی سمجھ میں آ جائے

بابر وسیم نے لکھا ہے کہ

محترم آپ نےاہم اطلاع دی ہے کہ غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئےجبکہ آپ کی تمام کاوش اسی بنیاد پر ہے۔ دوسرا آپ نے لکھا ہے کہ مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ بالکل صحیح کہا ہے کیونکہ یہ صفحہ آپ کی ملکیت ہے اور جو کچھ بھی طبع پر گراں گزرے گا اس کے لئے برداشت بازار سے تو ملتی نہیں، خیر ۔ ۔ ۔میںایک عام شہری ہونےکے ناطے آجکل کے اطوار کے مطابق گمراہی کی زندگی گزارتا رہا ہوں ۔ چند سال پیشتر غامدی صاحب کو ٹی وی چینلز پر سننے کا اتفاق ہوا۔ ان کے انداز تخاطب، موضوع پر گرفت، مدلل حوالہ جات نے توجہ اپنی جانب مائل کر لی۔ دین کو پڑھنے سمجھنے کو طبعیت مائل ہوئی۔ یہ ہدایت محترم غامدی صاحب کے طفیل ہوئی۔میں جناب کا احسان مند ہوں اور دعا گو ہوں کہ مالک جناب کو اس کا اجر عطا فرمائے ۔ یہ دین کی جانب میلان ہی ہے کہ جو مالک کو چاہیے۔ دین و دنیا پر غوروفکر، یہی تو مالک کی ہدایت ہےجس کو قرآنِ پاک میں جگہ جگہ دہرایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کو میں نے آج تک کسی کے لتے لیتے نہیں دیکھا نہ سنا، کاش ہم سب اپنے اعمال کی اصلاح کی جانب توجہ دیں دوسروں کا پوسٹ مارٹم کرنے کی بجائے اپنے گریبان کا جائزہ لیتے رہیں ۔ مالک نے اپنے بندے کےجس تزکیہ کے لئےاپنے رسول بھیجےاس رہنمائی کو اپنا مطمع نظربنا کر اپنے ہر عمل پر پر نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ۔ ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

عمدہ تحقیقی کام ،سبحان اللہ ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

وسیم بابر @
عجیب اتفاق ہے جناب کہ وابستگان فکر غامدی میں سے کوئی اک شخص بھی ایسا نہیں جو تحریر میں غامدی صاحب کی عربی دانی، تفسیر، انگلش، جدید علوم پر کیے گۓ علمی اعتراضات کا جواب دے سکے. یہ تحریر فیس بک پر غامدی صاحب کے شاگردوں، دیوانوں کے اک گروپ میں بھی پوسٹ کی، کئ لوگوں نے تبصرہ کیا، افسوس ہوا کہ تحریر میں پیش کیے اعتراضات کا جواب دینے کے بجاۓ غامدی صاحب کے ہر غالی عقیدت مند نے ذاتیات پر ہی بات کی، کسی کو میرا تعصب نظرآگیا، کوئی کہنے لگا تم دہشت گردوں کے سپوٹرر ھو، کسی کو تحریر میں بچگانہ پن نظر آگیا، اک صاحب بڑی دور کی کوڑی لاۓ کہ یہ تحریریں تو غامدی صاحب نے دوران میٹرک لکھی تھیں. اب جناب وسیم صاحب کو ساری تحریر ہی ذاتیات پر لکھی نظر آگئ اور تبصرہ تبصرے کی شرائط پر کر گۓ ، عجیب سٹینڈرڈ ہیں غامدی صاحب کے پروانوں کے کہ انکے مرشد کی تحریرات پر پیش کیے گۓ تبصرے تو ذاتیات میں شامل ہوگۓ اور سارے مریدین خود جو ذاتیات پر بات کرتے رہے وہ علمی تنقید قرار پائی.! ساری تحریر کو چھوڑ کر تحریر کے شروع میں غامدی صاحب کی کتاب برہان کا اک حوالہ دینا تو سب کو نظر آگیا کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ حوالہ بھی چیک کرلے کہ اس میں ڈاکٹر اسرار صاحب کی ذات پر غامدی صاحب نے کن الفاظ میں تنقید کی ہوئی ہے.
مجھے افسوس ہے وسیم بابر صاحب آپ سب دوستوں نے پہلے سے اپنا اک مائنڈ سیٹ بنایا ہوا ہے اسکو چھوڑنا نہیں چاہتے، چاہے کچھ بھی ہوجاۓ، حق و دلیل کو تسلیم نہیں کرنا، چاہے کیسی بھی ہو، معذرت آپ لوگوں کا اپنا مبلغ علم صرف یہ کہ آپ کے نزدیک غامدی صاحب اک عظیم سکالر ہیں اور وہ دلائل سے بات کرتے ہیں، آپ میں سے کوئی نہ خود یہ چیک کرتا ہے نا دیکھنا چاہتا ہے کہ غامدی صاحب کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے اور وہ جو دلائل دیتے ہیں کیا وہ شرعی طور پر قابل قبول بھی ہیں یا صرف منطق اور لسانی طاقت کا مظاہرہ ہیں.. !!
بھائی میرا غامدی صاحب سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں، نہ میں آپ کو زبردستی غامدی صاحب سے ہٹانا چاہتا ہوں، صرف اتنی عرض ہے کہ تحریر میں غامدی صاحب کی جن علمی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئ ہے وہ جس شخص میں پائی جائیں ایسا شخص عالم یا مجتہد کہلانے کے بالکل لائق نہیں، نا اسکو دینی پیشوا مانتے ہوۓ اسکی پیروی کی جاسکتی ہے.. اک شخص جسکا کمال صرف اتنا ہے کہ وہ چرب زبانی سے اور ادھر ادھر سے حوالے دے کر عامی لوگوں کو کنوینس کرسکتا ہے، اتنا جرات مند ہے کہ لوگوں کی تحقیقات کو اپنے نام سے چھاپ جاتا ہے، قرآن کے مقابلے میں آیات بھی گھڑ سکتا ہے، دیانت داری کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے انگریزی شاعروں کے کلام پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی نہیں ڈرتا... آپ بتائیں کیا ایسا شخص آپ لوگوں کو دینی حوالے دینے میں دیانت داری سے کام لیتا ہوگا ؟؟ آپ دل پر جبر کرتے ہوۓ اک دفعہ پوری تحریر کو پڑھیں پھر بتائیں کہ کیا غامدی صاحب پر نیم حکیم خطرہ جان کا محاورہ صادق نہیں آتا.؟
آپ شوق سے انکی پیروی کریں لیکن خدارا دین کے معاملے میں اتنے بے پرواہ نہ بنیں، کسی پر اسقدر اندھا اعتماد نہ کریں، حق کو تلاش کرنے میں اپنی عقل کو بھی استعمال میں لائیں، کسی کی کوئی بات قبول کرنے سے پہلے اپنی ضروری تحقیق ضرور کرلیں، مخالفین کے دلائل دیکھیں، دونوں کو شریعت کے میزان میں پرکھیں، فہم سلف کو چیک کریں.. تب قبول کریں. اللہ ہم سب کو ہدایت دیے.

Unknown نے لکھا ہے کہ

Rashid Idrees Rana‏، نکتہ ور، افتخار اجمل بھوپال، کاشف نصیر، سعید، Masroor khan ‎صاحب آپ کا بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ. آپ کے کمنٹس کرنے اور تحریر کو پسند کرنے سے حوصلہ افزائی ہوئی. ‏

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

نہایت عمدہ تحقیق ہے۔ غامدی کے انحراف پر اگرچہ میں نے بھی کافی وقت لگایا ہے مگر جن باتوں پر آپ نے اس مضمون میں روشنی ڈالی ہے وہ پہلی بار میرے علم میں آئی ہیں۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ آپکی مساعی کو قبول فرمائے

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

نہایت عمدہ تحقیق ہے۔ غامدی کے انحراف پر اگرچہ میں نے بھی کافی وقت لگایا ہے مگر جن باتوں پر آپ نے اس مضمون میں روشنی ڈالی ہے وہ پہلی بار میرے علم میں آئی ہیں۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ آپکی مساعی کو قبول فرمائے

khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
گمنام نے لکھا ہے کہ

personal limitations can't be quoted for lack of arguments - religious people running "our show" are culprit. islam really don't have any problem, if this is right then the person who is preaching is really bad with current performance of Muslims ...........!

Unknown نے لکھا ہے کہ

ویسے آپ کی اس تحریر سے کم از کم میرے علم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔۔ باقی آپ نے جو علمی سرقہ والی بات کی یے۔ وہ بڑی دلچسپ ہے۔۔۔۔
میں ایک مثال دیتا ہوں اپ نے فرمایا کہ غامدی صاحب نے اماں عائشہ کی عمر کے حوالے سے جو تحقیق بیان کی ہے۔ وہ حکیم نیازصاحب کی یے۔ تو یہ علمی سرقہ ہوا۔ لیکن غامدی صاحب کے خود ایک جگہ اس کتاب کا حوالہ دے کر بیان فرمایا ہے کہ حکیم نیاز صاحب کی کتاب اس موضوع پر بہت اچھی ہے۔۔۔
میں اسکا مختصر خلاصہ بتا سکتا ہوں۔۔لیکن تفصیل کے لیے اصل کتاب دیکھی جائے۔۔۔
اس میں اب سرقہ کہاں ہے۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

شکریہ ڈاکٹر جواد صاحب.
خاور صاحب ہر جملے کے ساتھ اسکی تصیح موجود ہے ٹیبل پکچر ملاحظہ فرمالیں.
وقار صاحب میں نے لکھا ھوا ہے کہ غامدی صاحب کی تحقیق حکیم نیاز احمد کی کتاب کا حرف بحرف چربہ ہے. باقی تحریریں غامدی صاحب کی کتاب میزان، اصول و مبادی وغیرہ میں جہاں کہیں آئی ہیں وہاں اصل محقق کی کتاب کا کوئی حوالہ موجود نہین.

Unknown نے لکھا ہے کہ

تحریر میں شائستگی نہیں ہے اس لیے میرا ذوق اس کے پڑھنے کا روادار نہیں۔ یہ انداز کسی منجن بیچنے والے کو تو مناسب ہے علمی تحریر کا اس انداز میں ہونا نہایت افسوس ناک ہے۔ آپ غامدی کی شائستگی کو بھی نہ پا سکے ان کے عمی استدلال کو کیا سمجھیں گے.
Irfan Shahzad

khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Unknown نے لکھا ہے کہ

جب بھی کوئی کمنٹ کرتا ہے، میرا گمان ہوتا ہے شاید اس دفعہ کسی نے تحریر کا علمی رد کیا ہوگا، لیکن کمنٹ دیکھ کر ساری خوش گمانی جاتی رہتی ہے. عرفان صاحب شائستگی شاید اسی کو ہی کہتے ہیں جو آپ نے دکھائی ہے.. صاحب منجن تو آپ کے غامدی صاحب بیچتے ہیں دیکھتے نہیں ہر روز کیسی کیسی دلیلیں گھڑ لاتے ہیں شاید کوئی خرید لے. کچھ سال پہلے تیس چالیس سنت اعمال کا منجن تیار کیا تھا، وہ مارکیٹ میں بری طرح فیل ہوگیا. کچھ عرصہ بعد انگریڈینٹس کم، ذیادہ کرکے نیا نسخہ لے آۓ وہ بھی کسٹمر نے مسترد کیا تو اک اور مرکب تیار کرلیا. حالت یہ ہے کہ اب تک صرف سنت پر دس سے زائد منجن تیار کرچکے ہیں، سیل پھر بھی نہیں ہورہی.. شاید یہی وہ سنت کا علمی استدلال ہے جس کو ہم سمجھ نہیں پارہے، اس میں قصور ہمارا بھی نہیں استدلال ہی اتنا جدت پسند ہے کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ہر روز نیا ہوجاتا ہے.
باقی غامدی صاحب کی شائستگی کا تو ہم واقعی مقابلہ نہیں کرسکتے، اسکا اک نمونہ ملاحظہ فرمائیں جسکی طرف ہم نے آرٹیکل کے شروع میں اشارہ کیا تھا. معروف مفسرقرآن ڈاکٹر اسرار احمد رح کے بارے میں لکھتے ہیں :
‏"ڈاکٹر صاحب کس اہرام کو ڈھانے کے لیے کیا سنگریزے نکال کر لاۓ ہیں. ہمارا خیال ہے کہ دین و شریعت کو انکے غوامض میں اتر کر پڑھنا اور سمجھنا تو خیر اک مشکل ہے ہی، ان دلیلوں سے تو معلوم ہوا کہ اپنے گردوپیش کی حقیقتوں کو دیکھنا اور تھوڑی دیر کے لیے ان پر غور کرلینا بھی غالبا شب و روز کی 'انقلابی مصروفیات' میں اب ان کے لیے ممکن نہیں رہا."
‏(برھان ص 245، طبع جون 2006، لاھور)
یہ ہے دوسروں کو اخلاقیات کے درس دینے والے کا انداز تخاطب ، یہ ہے وہ کبرنفس، غرور علمی اور طعن و تشنیع کا انداز جسے شائستگی کا نام دیا جارہا ہے اور ہمیں اسکی مثالیں دی جارہی ہیں.

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

جب مجھے کل سعد نے میسج کیا کہ آپ نے یہ والی پوسٹ لکھی ہے تو میں اس سے دو تین گھنٹہ قبل ہی اس کا مطالعہ کر چکا تھا۔ سعد کو میں نے بتایا کہ میرا پیپر ہے اور میں مصروف ہوں، فارغ ہونے کے بعد ہی کچھ لکھ سکوں گا۔

ابھی آنے پر پتہ چلا کہ یہاں تو محفل جمی ہوئ ہے۔ ماشا ء اللہ ۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔

آپ کی تحریر میں کچھ مغآلطے ہیں۔

اول تو یہ کہ یوں لگتا ہے کہ آپ کسی اور کی تحقیق ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ تحقیق ایک فرد کی بھی ہو سکتی ہے اور کئی افراد کی بھی۔ امید واثق ہے کہ ایسا نہ ہوا ہوگا۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے؟

دوم آپ نے جتنی بھی غلطیاں نکالیں، وہ میرے اس سوال کا جواب نہیں جو میں نے آپ کی اس سے متصل گزشتہ تحریر پر اپنے تبصرے میں اٹھایا تھا۔ آپ غامدی صاحب کی عربی دانی پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کو ثابت کر بھی دیتے ہیں۔ اور پھر اسی رو میں بہہ کر ان پر قرآن کی آیات میں تحریف کا الزام جڑ دیتے ہیں۔
یہ منطق سمجھ نہیں آتی۔ تحریف تو وہ کرے جس کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہو۔ اگر مکمل عبور حاصل نہیں، جیسا کہ آپ نے ثابت کیا، تو پھر کیسی تحریف؟؟ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو آیات کا مطلب سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ سیاق و سباق کے لحاظ سے آیت کا مطلب وہ نہیں نکلتا جو غامدی صاحب نے اخذ کیا۔ لہذا وہ غلطی پر ہیں۔ ان پر تحریف کا الزام لگانا ۔۔۔ بہت دور کی کوڑی لائے آپ۔

سوم : غامدی صاحب کی قرآن میں تحریف کی چند مثآلیں جو آپ نے دی ہیں، وہ دل کو لگنے والی نہیں ہیں۔ میرا دل کرتا تھا کہ اس موضوع پر حمایت کروں، کیونکہ میں بھی غامدی صاحب کا کوئ پکا معتقد نہیں۔ مگر دلیل کوئی مضبوط سی ہو تو دل کو لگتی ہے۔ میرے نزدیک غامدی صاحب ایک مشکوک زمرے میں آتے ہیں۔ کبھی فرصت سے پڑھوں گا ان کے "فرمودات" کو۔

قرآن سے کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت کئی مسائل سامنے آتے ہیں۔ اور یہ مسائل مترجم کی عربی زباندانی ، اس کے عقیدے اور کیئ دوسری باتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسان قرآن و حدیث والوں کا ایزی قرآن و حدیث سافٹوئر لے لیں۔ اس میں کم از کم 12 سے زیادہ تو تفاسیر شامل ہیں۔ اگر ان سب مفسرین نے ایک ہی بات کرنی ہوتی، ایک ہی طریقے سے کی ہوتی اور ایک ہی مطلاب نکالا ہوتا تو پھر ان سب کے شامل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟؟ اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب تفاسیر آپ کی ریفرنس کردہ تفسیر البیان سے مختلف بھی ہیں۔ تو کیا یہ سب لوگ غلط ہیں۔؟؟ یہ سب لوگ تحریف کے مرتکب ہوئے ؟؟ بالکل نہیں۔

ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ غامدی صاحب کو سمجھنے میں مسئلہ ہوا۔ یہ اور بات کہ انھوں نے سرقہ بھی کیا تھا، لہٰذا یہ سب حقائق ان کے خلاف گئے۔

باقی رہ گئی جدید علوم سے وافیت والی بات تو وہ تو آپ کے مستند علما کو بھی نہیں۔ یہ اور بات کہ وہ دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ شوق بھی نہیں رکھتے۔ اکا دکا کچھ کوششیں ہو رہی ہیں جیسا کہ جامعۃ الرشید کے کچھ تخصص والے کورسزز مگر ان کو جمہور حلقوں میں کچھ خاص پذیرائی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

اپ کا ایک اوسط عالم دین وہی رویہ رکھتا ہے جو آپ کی اس تحریر میں نظر آیا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دوسری قسط سے مجھے جو امیدیں لگی ہوئی تھیں، ان کا بمشکل دس فیصد بھی پورا نہ ہوا۔

بہر حال محنت آپ نے کی۔ خلوص محنت اور محنت کا اجر اللہ تعالیٰ کی ذات کے پاس ہے۔ ہم دعا کر سکتے ہیں۔

پس نوشت:: میں خاور توصیف کی درخواست کی تائید کروں گا کہ آپ اس جملے ''فبھذا السبب کان عمل أعضاء ھذا النوع من الأحزاب أن یقضوا طیلۃ حیاتہم لحصول النجاۃ من سوء نتائج حسابھم ھذا.'' کی تصحیح فرما دیں۔

جزاک اللہ۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

اور جہاں تک قرآن سے مقابلہ کرنے والی بات ہے اس پر غامدی صآحب کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کم از کم یہ بات میرے لئے بالکل نیا انکشاف ثابت ہوئی۔

اب یہ بندہ میرے لئے اور مشکوک ہو چکا ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جناب خاور صاحب اس عبارت پر تبصرہ تو ہم نے وہیں اس کے نیچے کردیا تھا کہ یہ بے مہمل ، بے معنی اور رکیک عبارت ہے. ڈاکٹر رضوان صاحب کی جو ساتھ پکچر اٹیچ ہے، اس میں اس عبارت کے گرد سرخ دائرہ لگا نظرآرہا ہے، انہوں نے بھی وہاں اس پر لکھا ہوا ہے. عبارة ركيكة .... غير مفهومة یعنی ناقابل فہم کمزور عبارت. اب عبارت ہی جب ناقابل فہم ہے تو اسکی تصحیح کیسے کی جائے؟؟؟؟ ہمیں سمجھ ہی نہیں لگ رہی کہ اس میں کیا کہنا چاہا ہے غامدی صاحب نے... کوئی غامدی صاحب سے اسکا مفہوم پوچھ لے تو ہم اسکی صحیح عربی بتاسکیں گے.
ویسے تحریر میں ہر عربی عبارت کی تصحیح موجود ہے، آپ اور منیر عباسی صاحب صرف اس پر آکر کیوں رک گۓ. :-)
منیرعباسی @ صاحب آپ نے اتنے پوائنٹ ریز کیے ہیں کہ میرے لیے ابھی موبائل سے تبصرہ کرنا مشکل ہے، :-) میں رات تک کمپیوٹر سے آکر کچھ عرض کروں گا. انشاء اللہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

ڈاکٹر صاحب میرا بھی یہی خیال تھا کہ آپ لازمی کہیں آپریشن یا سٹڈی وغیرہ میں مصروف ہیں تب ہی ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں آیا ۔ محفل کو جائن کرنے کا شکریہ :ڈ ڈاکٹر صاحب میں تو تقریبا ہر علمی لیول کی تحریر میں اپنے علماء کی تحقیق سے راہنمائی لیتا ہوں، یا یوں کہہ لیں میں نے دین کو سمجھا ہی علماء سے ہے، مقلد جو ہوا۔:ڈ اس تحریر کے شروع میں ڈاکٹر رضوان صاحب کا حوالہ دے چکا ہوں، عربی وغیرہ پر تبصرے انکے ہیں، تفسیر ، ترجمہ پر کچھ ذاتی سرچ یا تحقیق بھی شامل ہے اور ان پر علمی تبصروں کے لیے متعلقہ شعبہ کے ایک عالم سے بھی مدد لی، مطلب تحریر میں تقلید و تحقیق مکس ہے۔
آپ نے پچھلی تحریر میں شاید فقہی اختلاف پر بات کی تھی۔ میں نے اوپر تحریر کے شروع میں لکھا تھا کہ اس میں ہم حق اختلاف پر بات کریں گے کہ کیا غامدی صاحب علوم دینیہ میں اتنا رسوخ رکھتے ہیں کہ وہ اسلاف آئمہ و فقہاء کے ساتھ اختلاف کرسکیں، انکی بات کو حقارت سے ٹھکراسکیں، کہیں معاملہ ایسا تو نہیں کہ ایک تھڑے پر بیٹھا ہوا موچی مستند سرجن پر اعتراض کررہا ہے کہ تو کیا ٹانکے لگاتا ہے ٹانکے تو میں لگاتا ہوں یا کمپوڈر کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کے نسخوں کو مسترد کررہا ہے۔ ۔ اسی کی تحقیق میں ہم نے جناب کی عربی دانی، قرآنی فہم پر تبصرہ کیا ، جہاں تک قرآن کی تحریف کا الزام لگانے کی بات ہے میرا خیال ہے آپ کا اس پر اعتراض نہیں بنتا کیونکہ غامدی صاحب نے ترجمہ و تفسیر میں جو نمونے پیش کیے ہوئے ہیں وہ تحریف کے زمرے میں ہی آتے ہیں ، مثلا انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اجماعی معنی غثاء کے خس وخاشاک کے ہیں، انکے استاد بھی دوسری جگہ یہی کررہے ہیں ، انہوں نے سرسبز وشاداب ہی لکھا، اسی طرح ید کے معنی جان بوجھ کر بازو کرگئے کیونکہ انہوں نے ابو لہب کے مددگاروں کو بھی ہلاک بتانا تھا اور احد کے معنی جیسا کہ میں نے لکھا نورانی قاعدہ پڑھنے والے بھی جانتے ہیں کہ احد ایک کو کہتے ہیں جناب الگ لکھ رہے ہیں، اصحاب اخدود ساری تفاسیر و تاريخ خواہ ہے یمن کے خندق والوں کا قصہ ہے یہ قریش کے فراعنہ لکھ رہے ہیں ۔ ۔ اسی طرح اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔۔ آپ بتائیں کیا یہ جان بوجھ کر معنوی تحریف نہیں کی گئی، کیا غامدی صاحب اس قدر بھی قرآن یا عربی کا فہم نہیں رکھتے ؟؟؟ باقی مختلف تفاسیر میں مفہوم کے بیان کے لیے الفاظ کے چناؤ میں فرق کوئی قابل اعتراض بات نہیں، غامدی صاحب بھی ایسے کرتے تو کوئی اعتراض نہ کرتا، غامدی صاحب نے نا صرف اصطلاح و اجماع امت کی مخالفت کی ہے بلکہ لغوی معنی بھی اپنے ایجاد کیے ہیں، جگہ جگہ آیتوں کا اپنی مرضی کا ترجمہ و مفہوم بیان کیا ہے، میرے خیال میں شاید اسی کو قرآن کی معنوی تحریف کہتے ہیں۔
جہاں تک علماء کے جدید علوم و ایجادات واقفیت کی بات ہے، انکا فہم انکے شعبے کی ضرورت کے مطابق ہے، انہوں نے ناصرف مکمل تحقیق کے بعد ان پر شرعیت کی روشنی میں بحث کی ہوئی ہے بلکہ مکمل شرعی راہنمائی بھی پیش کی ہوئی ہے، جدید فقہی مسائل پر علماء کی کتابیں موجود ہیں، اسی طرح فلسفہ کا موضوع ہے، مستشرقین و ملحدین کے اسلام پر اعتراضات، مذہب کے بارے میں جدید سائنسی ابحاث اور سوالات، یونانی علوم ونظریات، حدوث عالم ، حدوث مادہ و روح، فلاسفہ کے نظریات، آپس کے اختلافات کے متعلق سیرحاصل تفصیل ، اسلامی نقطہ نظر اور عقلی و منطقی جوابات موجود ہیں، ان موضوعات پر مشہور کتابوں میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی علم الکلام، مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی الدین القیم وغیرہ اسی طرح جدید معاشی، سائنسی مسائل وغیرہ پر تقی عثمانی صاحب کے فقہی مقالات موجود ہیں، آپ یہ بات میرے متعلق تو کہہ سکتے ہیں کہ میں جدید علوم سے بالکل واقفیت نہیں رکھتا، مستند و معروف علماء کے متعلق یہ کہنا خلاف حقیقت ہے، ہاں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ایک فارغ ہونے والے روایتی عالم کی دلچسپی ان شعبہ جات میں کم ہے۔ چونکہ یہاں موازنہ غامدی کا ایک روایتی عالم کے ساتھ نہیں بلکہ مستند و معروف علما ء سے ہے اس لیے ٹیپکل عالم کی مثال نہیں پکڑی جاسکتی۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ کا خیال تھا کہ شاید میں غامدی صاحب کے مسائل میں اختلافات پر بات کروں گا ، اصل میں ان پر بات کرنے سے پہلے میں جناب مجتہد العصر کا علمی مقام بتانا چاہتا تھا، آپ تو بہتر سمجھتے ہیں کہ جب ایک ڈاکٹر کے علمی رسوخ ، بیک گراؤنڈ اور شعبہ کے متعلق فہم کا انداز ہ ہوجائے پھر عموما اسکی پریکٹس ریکارڈ اور اسکے کارناموں کی تفصیل دکھانے کے ضرورت نہیں رہتی،لوگ خود ہی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ تو نیم حکیم ہے ، اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے کہ اس نے کیا کیا گل کھلائے ہونگے، بحرحال ڈاکٹر غامدی صاحب کے شرعیت کے کیے گئے آپریشنوں پر اگلی تحریر میں بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ آخری بات آپ کے کچھ جملوں سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید میری کسی بات نے آپ کی انا کو ہٹ کیا ہوا ہے، امید واثق ہے کہ ایسا نہ ہوا ہوگا، اگر ایسا ہوا ہے تو معذرت۔:) باقی آپ نے جو تبصرہ و تنقید کا اپنا حق بھرپور استعمال کیا ہے مجھ اس پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ خوشی ہوئی ہے کہ اس بہانے موضوع کی مختلف اطراف سے مزید وضاحت ہوگئی۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

معنوی تحریف کا در وا کر کے ہم ایک بہت بڑے مسئلے کا آغاز کر رہے ہیں۔ معنوی تحریف ایک مثال ہی سہی۔ مگر میرا خیال ہے لغوی طور پر لفظ تحریف کا مطلب حروف میں کمی بیشی ہے۔ تحریف کا بنیادی مادہ تین حرف یعنی حرف ہیں۔ اور اس کے بعد ساری گرائمر چل نکلتی ہے۔
اگر قرآن کوئی تحریف کرنا چاہےتو اسے قرآن کے عربی الفاط کو یا تو آگے پیچھے کرنا ہوگا، یا پھر اس میں اضافہ کرنا ہوگا۔ مثلا سورہ کوثر میں دو اور آیات کا اضافہ۔ سورۃ فاتحہ کی آخری تین آیات نکال دی جائیں۔ یا سورۃ یٰس میں کمی بیشی۔ اعراب کو آگے پیچھے اس طرح کرنا کہ الفاظ کا مطلب بدل جائے ، تحریف کہلائے گا۔

میرے جیسے ایک عام آدمی کے ذہن میں تو تحریف کا یہی مطلب ہے۔ اب دیکھئے نا۔ جو لوگ تحریف قرآ ن کے قائل ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کے بارے میں نازل شدہ آیات نکال دی گئیں۔ غور کیا آپ نے؟ نکال دی گئیں۔ یہ نہیں کہا کہ ان کا مطلب غلط بیان کیا جا رہا ہے۔ نکال دی گئیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ قران کے چالیس سیپارے تھے، دس بکری کھا گئی۔ یعنی دس سیپارے کم ہو گئے۔ کسی نے نہیں کہا کہ معنوی مطلب دوسرا لیا گیا ہے۔

جس کو آپ معنوی تحریف کہہ رہے ہیں وہ غالبا اسماعیلیوں اور باطنیوں کی طرف سے قرآن کی تاویلیں تھیں جو وہ اپنی طرف سے کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن کا ایک ظاہری مطلب ہے اور ایک باطنی۔ اور ہم باطنی مطلب پہ عمل کرتے ہیں۔ شائد کچھ ایسی ہی بات تھی۔

اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کی غلط صحیح تاویلیں ہر ایک کرے گا۔ آپ نے ان میں سے درست تفسیر کو دیکھنا ہے۔ تاویلوں کو مسترد کرنا ہے۔ اگر ان تاویلوں کو تاویلوں کے درجے تک ہی رکھا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کو معنوی تحریف کا درجہ دے دیا تو پھر آپ کے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔ کوئی بھی سامنے آ کر اپنی مرضی کی تفسیر لہرا کر کہہ سکتا ہے کہ فلاں فلاں مُلا نے معنوی تحریف کی ہے۔

لو کر لو گل۔ اب ایک نئی کفر کے فتووں کی وبا چلے گی۔ اس لئے غامدی صاحب کی تاویلوں کو درست نہ کہتے ہوئے میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ کم از کم میں تحریف نہی ںکہوں گا۔ غلط تاویل کہنے کی حد تک میں جا سکتا ہوں۔
موچی اور سرجن والی بات خوب کہی، مگر جب تک آپ کسی کو کچھ کہنے نہیں دیں گے، کیسے علم ہوگا کہ وہ درست ہے یا غلط؟؟ اور پھر تبلیغ دین تو حکمت کے ساتھ کرنی چاہئے نہ کہ کفر کے فتووں کے ساتھ؟ رہ گئی علماء کی تحقیق کی بات تو بہر حال بہت کچھ متنازعہ بھی اس تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کو فی الحال نہیں چھیڑتے ہیں۔

مجھے تیسری قسط کا انتظار رہے گا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کی کوششیں تو اسلام کے ابتدائی دورمیں ہی یہودیوں کی اسلام پر کی گئ یلغار کے دوران بہت کی گئ لیکن کوئی کامیاب نہ ہوسکا. کیسے ہوتا ہے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے اتارنے والے نے خود اٹھائی ہوئی ہے اور حفاظت کا نظام بھی ایسا تھا اور ہے کہ کوئی تحریف کرنا چاہے بھی تو اسے فاعدہ نہیں ہوسکتا. اس لیے دشمنان اسلام نے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے بعد جب یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے تو پھر انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ شروع دن سے کافی حد تک کامیاب رہے ہیں ، قران کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال، ظاہری و باطنی معنی وغیرہ رائج کیے گیے اوراُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کے زعم میں مبتلا کرکے یہ کج روی سُجھائی جانے لگی کہ احادیث کو چھوڑ کر اپنی سوچ و فکر کی بنا پر قرآن کو سمجھے اور سمجھائے، باطنیہ کے علاوہ معتزلہ اور منکرین حدیث کی اک لمبی لسٹ ہے، معتزلہ نام کی سائیٹ پر بھی دیکھی جاسکتی ہے، اس پر کافی ڈیٹیل اعتبار کے قابل ہے... ماضی قریب میں بھی سرسید اور پھر غلام پرویز وغیرہ کی مثالیں موجود ہے، غامدی صاحب بھی سرسید کے سلسلے سے ہی ہیں لیکن براستہ اصلاحی و فراہی ہیں، یہ لوگ سارے ذخیرہ حدیث کا انکار تو نہیں کرتے لیکن قران کی آیات کو اپنی مرضی کا مفہوم پہنانے کے لیے لغت اور عربی جاہلی اشعار کا سہارا لیتے ہیں اور ان آیات کے بارے میں صحابہ کی راۓ اور مستند احادیث تک کو حقارت سے مسترد کر جاتے ہیں، اسکی اک مثال میں اوپر سورہ مرسلات و ذارایات کی آیات کے تذکرے میں دکھاچکا.. قرآن کا جو معنی یہ متعین کرلیتے ہیں پھر اس کو نص قطعی بنا لیتے ہیں، پھر انکے نزدیک مستند ترین احادیث کا مجموعہ بھی اسکا مقابلہ نہیں کرسکتا، جیسے حیات و نزول عیسی علیہ السلام کی احادیث سب جانتے ہیں تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں. انہوں نے اک لفظ متوفیک سے وفات نکال لی اور اس بارے میں قرآن کی دوسری آیات، متواتر احادیث اور اجماع امت کا بالکل انکار کرگۓ، یہی شروع سے چلی آنے والی قرآن کی معنوی تحریف ہے اور علماۓ امت شروع سے اس کا رد کرتے آرہے ہیں. غامدی صاحب کی معنوی تحریف اس لیے ذیادہ سخت ہے کہ انکار حدیث کو بھی ساتھ لیے ہوۓ ہے. آپ نے فرمایا ان کو کچھ کرنے کا موقع دیا جاۓ کفر کے فتوے نہ لگاۓ جائیں، جناب غامدی صاحب تیس چالیس سال سے یہ کام کررہے ہیں میری نظر سے تو آج تک کسی مستند عالم کی طرف سے ان پر لگایا گیاکفر کا اک فتوی بھی نہیں گزرا، ذیادہ سے ذیادہ انکو سخت گمراہ ہی کہاگیا ہے، یہ اعتدال اور چھوٹ ہی تو ہے.

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

تبصرے کے آخر میں اپ بہت بڑی بات کر گئے جناب۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعتدال کا راستہ دکھائے۔

اگر تیس چالیس سالوں سے غامدی صاحب کی ان حرکتوں کے باوجود ان کو چھوٹ ملی ہوئی ہے تو اس کے کئی معانی نکلتے ہیں۔

اول: ان کی حرکتیں صریح کفر کے زمرے میں نہیں آتیں، لہٰذا علماء اپنی پوری کوشش کے باوجود ان کو کافر نہیں ٹھہرا سکے۔

دوم: ان کی کفریہ حرکتیں، گو کہ صریح کفر ہیں، مگر چونکہ وہ عیاری کے ساتھ یہ حرکتیں کر رہے ہیں اس لئے علمائے حق ان حرکتوں اور ان کے پیچھے چھپے عقائد کو جانچنے میں ناکام ٹھہرے ہیں، لہٰذا اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ان کہ غامدی صاحب کی ان حرکتوں کو سامنے لا کر اور ان کے خفیہ عقائد کو بے نقاب کر کے ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

سوم: یہ کہ، نعوذ باللہ من ذالک، علمائے حق کو پتہ تھا اور ہے کہ غامدی کفریہ عقائد بک رہا ہے، اور یہ کہ وہ ایک فتنہ ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے، مگر یہ بات کسی نے ابھی تک علی الاعلان نہیں کی۔ کیوں نہیں کی، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں اور ظاہر ہے، جنھوں نے نہیں کی، وہی جان سکتے ہوں گے۔

چہارم:: اگر ان کو صرف سخت گمراہ ہی کہا گیا ہے تو پھر میری بات پہ آپ کو اتنا اعتراض کیوں؟ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ آپ ان کو گمراہ کہیں، آپ کہیں کہ غامدی صاحب کی قرآن فہمی پر اعتراض اس لئے کریں کہ ان کو عربی نہیں آتی۔ اگر آپ ثابت کرتے ہیں کہ ان کو عربہ نہیں آتی تو پھر ان پر تحریف کا الزام نپہیں لگتا۔ اگر تحریف کا الزام ثابت کرنا ہے تو پھر ان کی عربی دانی ثابت کرنی ہو گی۔

دونوں صورتوں میں چونکہ ان کی طرف سے صریح کفر کا ارتکاب چونکہ سامنے نہیں آیا اس لئے میں ان کے بارے میں احتیاط سے کام لوں گا اور ان کو مشکوک افراد کی فہرست میں رکھوں گا۔

پنجم:: ایسے گمراہ افراد پہ مضمون لکھنا بذات خود ان کو مشہور کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ آپ جانے انجانے میں ان کو مشہور کر ہے ہوتے ہیں۔


آخری بات:: مجھے بتایا گیا کہ عبدالرحمان کیلانی نامی ایک صاحب نے تفسیر و ترجمہ قرآن لکھی ہے۔ یہ کیلانی ہے، گیلانی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے تناظر میں دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ مسئلہ خلق قرآن ایک معمولی بات تھی، ایک علمی تنازعہ۔ مگر اُس وقت کے حالات میں، جب کہ امام احمد بن حنبل زندہ تھے، اس مسئلے کی سیاسی وجوہات نے اس مسئلے کو بہت اہمیت دے دی تھی۔

لہٰذا اگر آپ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ بہت سی تحریکیں جو کسی وقت نہایت زور و شور سے اٹھیں، وہ وقتی طور پر تو زور میں تھیں مگر پھر د ب گئیں یا ختم ہو گئیں۔

آپ کے صوفی اسلام کے نظریات پر یونانی تصوف کا بڑا گہرا اثر ہے۔ مان لیجئے۔

روم کی فتوحات کے ساتھ جو ادبی مواد وہاں سے آیا اور جو چیزیں وہاں سے ترجمہ ہو کر آئیں، انھوں نے اوائل اسلام کے " فلسفیوں" کی سوچ پر بہت بڑا اثر ڈالا۔ اور یہ اثر اب بھی قائم ہے کیونکہ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ شائد یہ اوریجنل سوچ تھی، حال آنکہ ایسا بہت کم مواقع پہ ہوا۔

آخر میں ، اتنا عرض کرتا چلوں کہ مطالعہ سب کا کرنا چاہئے۔ اچھی بات کہیں سے بھی مل سکتی ہے۔ اور سب کی بات سُننے کے بعد ہی انسان اپنی ایک سوچ قائم کر سکتا ہے۔

باقی ، ہم دونوں کوئی مناظرہ نہیں کر رہے جس میں کسی ایک کی فتح لازم ہو۔ میں فرصت ملتے ہی دوبارہ حاضری دوں گا۔

والسلام

Unknown نے لکھا ہے کہ

ڈاکٹر صاحب بالکل یہ کوئی مناظرہ نہیں بلکہ صرف کچھ اشکالات کے حل کے لیے جسٹ نالج شئیرنگ یا ایک مذاکرہ ہے۔
آپ نے شروع میں جو الفاظ لکھے ہمارے ہاں بہت سی جگہ پر عام طور پر ایسا ہی جواب دیا جاتا ہے جیسے کسی کو کہو فلاں چیز مکروہ تحریمی ہے آگے سے کہتے خیر ہے جی حرام تو نہیں ہے، یا کہیں فلاں عمل واجب ہے کہتے کیا ہوا فرض تو نہیں ہے،معذرت مجھے امید نہیں تھی کہ آپ ایسا جواب دیں گے. آپ صریح کفر کا فتوی لگانے کی مذمت کرتے رہے جب لکھا کہ وہ کافر نہیں صریح گمراہ اور فتنہ ہے تو کہنے لگ گئے پھر اس پر اتنا ٹائم ضائع کرنے اور اسے مشہور کرانے کی ضرورت کیا ہے ..
باقی آپ نے پوائنٹس اچھے اٹھاۓ ہیں، دوسرا پوائنٹ میرے موقف کے کچھ قریب ہے، غامدی صاحب کو جتنا میں نے پڑھا اور سمجھا ہے انکا حساب سرسید، ڈاکٹر فضل الرحمان، ڈاکٹر عثمانی، وغیرہ کی طرح بھی ہے اور تقیہ بازوں جیسا بھی. غامدی صاحب اول الذکر کی طرح قرآن کی مرضی کی تفاسیر و تشریح بیان کرتے، اصولی و متفقہ مسائل کی من مانی تشریحات و تاویلات کرتے ، اپنی تجدد پسند ی میں اجماع و حدیث کو بھی ٹھکراجاتے اور وحی کی ہر بات کو بھی عقل سے پرکھتے ہیں، انکےاب تک کے کام کو دیکھ کر انکی تحریک کے مقصد کا اندازہ لگایا جائے تویہی لگتا ہے کہ مقصد قرآن کے نام پر مغرب کے تمام ملحدانہ افکار و نظریات کو اور مغرب کے تصور اسلام کوامپورٹ کرنا ہے.. اب جہاں تک تکفیر کی بات ہے تو جس طرح اہل بدعت کے اکابر کے صریح شرکیہ عقائد ، سرسید کے انتہائی گمراہ کن دینی عقائد و نظریات ، اس طرح ڈاکٹر فضل الرحمان اور جماعت المسلمین والوں کے کارناموں کے باوجود انہیں صریح کافر قرار دینے سے اعراض کیا گیا، گمراہ اور فتنہ ہی کہا گیا، غامدی کا معاملہ بھی فی الحال ایسا ہی ہے. اس طرح عامدی صاحب کچھ حد تک شیعوں کی طرح تقیہ اور مکر سے بھی کام لیتے ہیں، انکی طرح اپنے عقائد و موقف سے مکرجاتے ہیں، اپنا موقف اپنےشاگردوں کے ناموں سے پیش کرتے، پھنس جائیں تو ان سے برات کا اظہار کرجاتے ہیں، لفظ کتاب، سنت اور حدیث کو مانتے ہیں لیکن ان کا مطلب معروف کے بجائے اپنی طرف سے بیان کرتے ہیں، کتاب سے مراد انکے ہاں پرانے صحیفے بھی ہیں، سنت سے مراد سنت ابراہیمی لیتے ہیں جو صرف ستائیس کے قریب اعمال ہیں، حدیث صرف اخبار آحاد کو کہتے ہیں، صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں، اپنی باتوں کی تاویل کرجاتے اور موقف بدلتے رہتے ہیں، ہر سال بعد انکا نظریہ و دلیل نئ ہوتی ہے،(اگلی تحریر میں تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا) شیعہ کے تقیہ کرنے، مکر جانے اور تاویل کرجانے سے عنداللہ تو وہ کافرہونگے لیکن فتوی اصولا ان کے ظاہری اقوال کو دیکھ کر ہی دیا جاتا ہے. اب جن شیعوں کو کافر قرار نہیں دیاگیا ، اسکا مطلب یہ نہیں کہ انکی گمراہی میں شبہ تھا، بلکہ انکو شک کا فائدہ دیا گیا، وہ اپنی جگہ سخت ضلالت اور گمراہی میں ہی ہیں، یہی حال غامدی کا بھی ہے.
جہاں تک آپ کی تحریف قرآن کو عربی سے ریلیٹ کرنے کی بات ہے تو میں اوپر بھی عرض کرچکا کہ ہمارے نزدیک تو غامدی صاحب عربی میں نل ہیں لیکن خود کو وہ قرآن و عربی کا بڑا عالم سمجھتے ہیں اور اپنی پوری سمجھ کے ساتھ لغت و عربی محلی و جاہلی اشعار وغیرہ کے ذریعے قرآن کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے جاتے اور تاویلات کرتے جاتے ہیں، ویسے میری نظر سے ایسا کوئی اصول نہیں گزرا کہ جب تک کوئی عربی میں عبور حاصل کرکے قرآن کے مرضی کے معنی بیان نہ کرے اس کو قرآن کی معنوی تحریف کرنے والا نہ کہو.. باقی آپ کا یہ سوال کہ بندہ صرف گمراہ ہے تو مضمون لکھنے کی ضرورت کیا تھی اس پر میں نے پچھلی تحریر کے شروع میں بات کی تھی کہ میں اس فتنہ کے اثرات نوجوان طبقہ میں بہت دیکھ رہا ہوں، فیس بک وغیرہ پر لوگ ڈسکشن میں اس کا ملاوٹی اسلام تبصروں میں پیش کرتے نظر آتے ہیں، میڈیا کے ذریعے پوری قوت سے عقل و دانش اور اسلام فہمی کی آڑ میں نوجوان طبقہ کے ذہنوں میں نہ صرف عجیب و غریب ملحدانہ نظریات داخل کیے جارہے ہیں بلکہ فہم اسلاف و علماء سے متنفر بھی کیا جارہا ہے اس لیے اپنا حلقہ میں میں نے اس کی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھی...

khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Unknown نے لکھا ہے کہ


خاور توصیف@
تبصرہ کرنے کا شکریہ ۔
خاور صاحب آپ کے اس تبصرہ سے میرا یہ گمان ابھی بھی باقی ہے کہ آپ نے میری تحریر پوری پڑھی ہی نہیں آپ نے صرف ہیڈنگ اور ڈیٹیل کو سرسری دیکھ کر تبصرہ لکھا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگر آپ تحریر پوری پڑھتے تو یہ اعتراض کرنے کی نوبت نہ آتی ، آپ نے غامدی صاحب کا میری تحریر سے موازنہ پیش کیا۔ جناب اگر غامدی صاحب میرے جیسے ہوتے تو شاید میں انکو جانتا بھی نہ ہوتا، اگر جان پہچان ہوتی بھی تو انکی تحریر پر کبھی تبصرہ نہ کرتا، میرے بلاگر دوستوں میں بھی ایسے کئی ہیں جو انکی طرح کے مزاج کے ہیں لیکن میں نے کبھی انکی اردو و عربی دانی پر تبصرہ نہیں کیا، تبصرے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ بلاگ کوئی ادبی جریدے یا رسالے تو ہیں نہیں ، یہ ذیادہ تر میرے جیسے عامی لوگوں ہی نے بنائے ہوئے ہیں وہ اس پر اپنے احساسات وجذبات شئیر کرتے رہتے ہیں ، اس کے علاوہ میرا اردو ادب سے نہ کوئی مسلسل تعلیمی تعلق رہا ہے اور نہ میں یہ دعوے کرتا ہوں کہ میرے سے ذیادہ اردو جاننے والا کوئی نہیں بلکہ دوسروں کی طرح میری بھی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ اپنے جذبات اس انداز میں شئیر کیے جائیں کہ پڑھنے والے کو سمجھ آجائیں۔ غامدی صاحب تو خود کو ایک عربی دان کہتے ہیں اور وہ اپنی عربی دانی و قرآن فہمی پر غرور میں نسلی عرب صحابہ ، تابعین ، عظیم مفسرین کی رائے کو بھی یہ کہہ کر مسترد کرجاتے ہیں کہ یہ عربی کو سمجھ نہیں سکے، اس متعلق غامدی صاحب کے دو اقوال ہم نے اوپر پیش کیے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ غامدی صاحب کا یہ فرمان بھی کہ ''اسلامی دنیا میں ان کے پائے کا عربی دان اور عربی زبان وادب پر عبور رکھنے والا کوئی شخص نہیں ، بڑے بڑے عرب علما ان سے استفادے کے لیے آتے ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی ایک جگہ تبصرہ میں انکے ایک شاگرد نے یہی لکھا کہ عرب بھی غامدی صاحب سے کلاسیکل عربی سیکھنے آتے ہیں . اس کے علاوہ آنجناب کو بامحاورہ عربی جاننے کا بھی بڑا زعم ہے انکا یہ دعوی ہے کہ خالص عربیت کو سامنے رکھ کر قرآن کا معنی متعین کرنے میں ان کا مدمقابل کوئی نہیں ہے۔ اسکی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے انکی عربی دانی پر تحقیق پیش کی ۔
آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو کسی زبان کا کامل عالم ہو،جناب ہم نے تحریرمیں غامدی صاحب کی عربی پر تبصرے کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ غامدی صاحب کی غلطیاں محض تعبیر واسلوب کی نہیں کہ کوئی کہہ سکے اس طرح کی اصلاح تو ہر ایک کے کلام پر ہوسکتی ہے، یہ غلطیاں اس قسم کی ہیں کہ کسی عربی کالج و اسکول کا لڑکا بھی نہیں کرے گا، عربی نثرنحوی(قواعد) اغلاط سے پر ہے، ، عبارات بے معنی، بھونڈی، مہمل، رکیک، بے ربط اور پرتصنع عربی نثر کا شہہ پارہ ہے جس میں انشا، املا، زبان و بیان، فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بے شمار غلطیا ں ہیں۔ آپ بتائیں جو شخص صحابہ کبار، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ائمہ، مفسرین اور ماہرین لغت کی عربی دانی کو حقارت سے رد کرتا ہو اسکی یہ حقیقت کیوں نہ کھولی جائے کہ اسکا اپنا فہم اتنا ہے کہ یہ اسالیب عربی سے بالکل لاعلم ہے ، ایک مختصر نثر پارہ بھی درست عربی میں لکھنے پر قادر نہیں۔غلطیوں کی جھلک دیکھنے کے لیے آپ پہلا ٹیبل بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں اور اس عبارت کو بھی جس کو پیش کرکے آپ نے لکھا تھا کہ اسکی تصحیح کردیں تو میں اپنے موقف پر نظرثانی کرنے کا سوچوں گا ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ نے احد کے ترجمہ میں وجودی فلسفہ کا ذکر کیا، جناب غامدی صاحب نے احد کا ترجمہ' الگ' کیا ہے تفسیر نہیں ، احد کا معنی الگ تو آج تک ایجاد نہیں ہوا ، آپ نے جو تاویل پیش کی اگر واقعی غامدی صاحب کا یہ مقصد تھا تو غامدی صاحب اسے تفسیر میں بھی پیش کرسکتے تھے جیسے اصحاب الاخدود کا ترجمہ صحیح کرنے کے بعد انہوں نے تفسیر میں انہیں قریش کے فراعنہ قرار دیے دیا تھا۔ آپ کے تبصرے سے تو ہمیں یہی سمجھ آرہی ہے کہ معاشرہ میں جو عقائد میں گمراہی ہو اسکا رد کرنے کے لیے قرآنی الفاظ کا مرضی کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے!! اس طرح تو ہر فرقہ اپنے مخالف کو اور اسکے عقائد کو قرآن کے ترجمہ میں پیش کرنا شروع کردے گا۔۔ حضور ہم نے وجود ی فلسفہ کی وجہ سے احد کا ترجمہ 'ایک' نہیں کیا ہوا بلکہ ترجمہ یہی اصل ہے اور اسلاف امت سے بھی منقول ہے ، یہی وجہ ہے کہ عرب و عجم کے وہ لوگ بھی یہی کررہے ہیں جو وجودی فلسفہ سے واقف بھی نہیں ۔
جناب ناراض نہ ہوئیے گا کہ 21 توپوں کی سلامی تو آپ کو دینے کا دل کررہا ہے آپ فرما رہے ہیں کہ کسی شاعر کی شاعری کے اسلوب، الفاظ، جملے حتی کہ پورے پورے مصرعے کا بھی دوسرے شاعر جیسا ہوجانا ایک اتفاق ہے، واہ واہ خاور صاحب کمال ہے آپ اس حد تک غامدی صاحب کا دفاع کررہے ہیں اور پھر بھی طعنہ ہمیں دے رہے ہیں کہ ہم اپنے اکابرین کی بات کو وحی الہی سمجھتے ہیں ۔ عجیب اتفاق ہے جناب جو غامدی صاحب کے علاوہ آج تک کسی مستند انگلش اردو شاعر کیساتھ پیش نہیں آیا کہ اس نے زندگی میں صرف چونسٹھ مصرعے لکھے ہوں اور ان میں بھی کئی الفاظ، جملے اور مصرعے کسی عام شاعر نہیں عظیم شعراء کی شاعری میں پہلے استعمال کرلیے گئے ہوں اور انہیں پتا بھی نہ چلا ہو۔چلیں کچھ دیر کے لیے ہم اسکو سرقہ نہیں کہتے، ایک اتفاق کہہ دیتے ہیں، پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ غامدی صاحب شاعری انگلش میں کررہے ہیں اور انہوں نے کبھی شکسپئر، کیٹس اور ورڈزورتھ وغیرہ کو پڑھا ہی نہیں۔۔!! اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے پڑھا ہے پھر آپ مان لیں کہ انہوں نے انکی شاعری سے ہی یہ مصرعے اٹھا کر انہیں معمولی ردوبدل کیساتھ اپنے نام سے آگے پیش کیا ہے۔
آپ نے غامدی صاحب کی آیات پر کیے گئے تبصرہ پر جو اعتراض فرمایا اس متعلق چند باتیں میں عرض کردیتا ہوں ، پہلی بات غامدی صاحب 1972 میں گورنمنٹ کالج سے بی اے کرکے فارغ ہوچکے تھے اور شاید 1975 میں جماعت اسلامی اور پھر احسن اصلاحی صاحب کو بھی دینی رجحان کی وجہ سے جائن کرچکے تھے ، غامدی صاحب کا جو تبصرہ آپ نے کوٹ کیا اس میں وہ خو د بھی فرما رہے ہیں کہ مذہب بطور ایک علمی حقیقت اس دور میں انکی زندگی میں داخل ہوچکا تھا، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رضوان صاحب غامدی صاحب کی سیالکوٹ میں مصروفیات کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ غامدی صاحب نے سبعہ معلقہ، کلام عرب اور قرآن حکیم پر بیان اور مسجد ابراہیمی سیالکوٹ میں سورۃ عصر پر درس بھی دیا تھا( میں نے تحریرکی طوالت کے ڈر سے ساری تفصیل پیش نہیں کی تھی)۔ آپ نے آگے حضرت عمر اور خالد بن ولید رضوان اللہ کا حوالہ دے کر لکھا کہ میں بہت سی وضاحتیں (تاویلیں نہیں) پیش کرسکتا ہوں ۔۔ میرا خیال ہے آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ تاویل ہی ہے اور اس تاویل میں غامدی صاحب(جیسا کہ اوپر میری دی گئی تفصیل سے ظاہر ہے) ان صحابہ کی اسلام سے پہلے کی زندگی کیساتھ بالکل میچ نہیں کرتے۔ حیرت ہے کہ آپ غامدی صاحب کے دفاع میں اس حد تک جارہے ہیں کہ غامدی صاحب کے دینی رجحان والے دور کو صحابہ کے دور کفر کیساتھ ملا رہے ہیں اور پھر بھی طعنہ ہمیں اکابر کی اندھی تقلید کے دے رہے ہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت دے۔

khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
khawar نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Unknown نے لکھا ہے کہ

خاور صاحب آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں تحریر میں جیسی مرضی مضبوط دلیل موجود ہو، آپ اپنی مرضی کی ایک بات کو پکڑتے ہیں اور اس پر اپنے موقف کی ایک پوری عمارت کھڑی کردیتے اور ادھر ادھر سے مثالیں اکٹھی کرکے نہ صرف ایک نتیجہ نکال دیتے ہیں بلکہ نصحتیں بھی کرنا شروع کردیتے اور دل چاہے تو بہتان بازی بھی کرنے لگتے ہیں۔ ۔ غامدی صاحب نے جو عربی لکھنے میں بچگانہ قسم کی گرائمر کی غلطیاں کیں ہوئیں ان کو چھوڑ کر ایک' بوسید ہ عربی' کا لفظ پکڑا اور اسکی بنیاد پر دوسری نکالی گئی ساری غلطیوں کو نہ صرف فضول کا اعتراض قرار دے گئے بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ آپ فضول کاموں میں اپنا ٹائم ضائع کررہے ، یہ اعتراضات محض لفاظی ہیں، ڈاکٹر صاحب شاید سستی شہرت چاہتے ہیں، میں کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ بتا دوں کی ڈاکٹر صاحب کو جو اللہ نے عزت اور شہرت دی ہوئی ہے اس میں اضافہ کے لیے غامدی جیسے خود رو سکالر پر انہیں اعتراض کی ضرورت ہی نہیں ، یہ تو انہوں نے اس نام نہاد مجدد سے عوام کا ایمان بچانے کے لیے لکھا ہے ورنہ میرے نزدیک تو ڈاکٹر صاحب جیسے بندے کا غامدی کی کسی بات پر اعتراض کرنا بھی غامدی کا ریٹ بڑھانا ہے ۔۔آپ نے غامدی صاحب کی عربی پر اعتراضات کو لفاظی کہا اگر واقعی ایسا ہی ہے تو اس ایک جملے کا ترجمہ کردیں جسکی آ پ نے ہم سے تصحیح مانگی تھی، جہاں تک 'بوسید ہ عربی' کے متعلق آپ کے تبصرہ کی بات ہے ، اسکو آپ کی پسند کہیں یا جہالت کہ آپ بجائے اس پر تحقیق کرتے کہ کیا آج کل عرب میں عربی کا اسلوب جاہلیت کے دور والا ہی چل رہا ہے یا بدل چکا ہے؟ آج کی عرب عوام اور انکے ادیب کس اسلوب میں بات کررہے ہیں' آپ نے قرآن کی عربی کی بات شروع کردی ۔ جناب ہر زبان کا مختلف زمانوں کا اپنا اسلوب ہوتا ہےجیسے آج کوئی ولی دکنی ، میر و سودا کی اردو بولنا ، لکھنا شروع کردے لوگ کہیں گے یا تو یہ مزاح کررہا ہے یا پاگل اور بیوقوف ہے۔اسی طرح عربی زبان کا اسلوب عہد اموی اور عہد عباسی سے آج تک برابر بدلتا رہا ہے۔ غامدی صاحب جس دور کے اسلوب میں عربی لکھتے ہیں اور جس دور کے الفاظ اور اشعار اٹھاتے ہیں اسکے سینکڑوں الفاظ متروک ہوچکے ہیں اور اس دور کی عربی کے الفاظ کے متروک ہوجانے کا قرآن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، قرآن کی زبان ایک معجزہ ہے اس کی شگفتہ ، فصیح و دلآویز و اثر آفر ین زبان کا قیامت تک کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ، یہ قرآن کا چیلنج بھی ہے، یہ قیامت تک لوگوں کو متاثر کرتی رہے گی، عربی زبان کا شستہ اور شگفتہ ذوق اور سلیقہ رکھنے والوں نے قرآن کی اسی الہامی زبان سے متاثر ہو کر ایسی نثر لکھی ہوئی ہے جسے پڑھ کر روح وجد میں آجائے ۔ جیسے سید قطب کی تفسیر قرآن ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نےغامدی صاحب کی طرح امرؤالقیس، نابغۃ ذبیانی، زھیربن ابی سلمی اور عنترہ بن شداد وغیرہ جاہلی شعرا کے قصیدوں کو حفظ کرکے نہیں لکھی بلکہ یہ ان کا قرآن کیساتھ تعلق تھا ۔ غامدی صاحب کی عربی کا تو معاملہ ہی اور ہے شگفتگی اور دلآویزی تو دوسری بات ہے، یہ تو ایک صفحہ بھی عربی کا صحیح نہیں لکھ سکتے۔
جہاں تک غامدی صاحب کے تکبر کی بات ہے وہ انکی تحریروں سے بھی ظاہر ہے اور انکے شاگر د بھی عام دہراتے رہتے ہیں۔آپ نے لکھا کہ حقارت سے رد کرنے کا جملہ لکھنا میرا کینہ ہے۔۔ ملاحظہ فرمائیں غامدی صاحب کا اپنی عربی سمجھ بوجھ پر تکبر اور صحابہ کی رائے کو حقیر سمجھنا ''اور جن لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد آسمان کے ستارے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کلام عرب کی اچھی طرح چھان بین نہیں کی اور نہ اس پر غور کیا کہ یہاں کس بات کا موقع و محل ہے۔ اس لیے انہیں اس (ذات الحبک) کے معنی سمجھ میں نہیں آئے اور وہ غلطی کے مرتکب ہوئے"۔ ایک اور نمونہ دیکھیں غامدی صاحب ایک جگہ سورۃ النور کی آیت ۲۳ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں "اور جنھوں نے اس محصنات کے لفظ سے آزاد پاک دامن عورتیں مراد لی ہیں، وہ گرفتار وہم ہیں اور صحیح راستے پرنہیں"۔ ۔ حیرت ہے آپ کو حقارت کے لفظ میں میرا کینہ نظر آگیا ' جو میں نے غامدی صاحب کی صحابہ کی رائے کو حقیر سمجھ کر مسترد کرنے کی مثال دی ہوئی ہے وہ آپ کو نظر نہیں آرہی پھر بھی فرما رہے ہیں کہ میں نے ساری تحریر اطمینان سے پڑھی ہے ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

غامدی صاحب نے یہاں اسلاف (صحابہ و تابعین) حضرت عبداللہؓ ابن عباس، حضرت حسن البصری، مجاہد، ضحاک وغیرہ کی نہ صرف تغلیط و تضحیک کی ہے انکی رائے کو حقارت سے مسترد کیا بلکہ امام طبری ، امام فخر الدین رازی، زمخشری، قرطبی، ابن کثیر اور اردو کے مترجمین و مفسرین شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا محمود الحسن، مولانا مودودی، مولانا فتح محمد جالندھری، مولانا عبدالماجد دریا بادی وغیرہ کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ گرفتار وہم ہیں اورر غلط راستے پر ہیں۔۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے غامدی صاحب کی طرح فلسفہ میں بی اے کرکے تفسیریں نہیں لکھیں بلکہ ساری زندگی انکی قرآنی علوم پڑھنے پڑھانے میں گزری تھی۔ شاید آپ کے نزدیک یہ غامدی صاحب کی اپنی عربی سمجھ بوجھ پر غرور کی علامت نہیں اور نہ اس میں انہوں نے کسی کی رائے کو حقیر جانا ہے بلکہ انہوں نے تو انہیں انتہائی عزت دی ہوئی ہے۔ اللہ ہی سمجھ دے ، کوئی بندہ کسی کو کہاں تک سمجھا سکتا ہے، ویسے آپ نے یہ بات بھی خوب کی کہ غامدی صاحب کا کوئی شاگر د انکے بارے میں یہ کہہ دے کہ انکے پاس عرب بھی کلاسیکل عربی سیکھنے آتے ہیں اس میں غامدی صاحب کا کوئی قصور نہیں ۔ ۔ میں توپوں کی سلامی باتیں نہیں کرتا میرا مقصد آپ کو نیچا دکھانا ، ذلیل کرنا ہے ہی نہیں ، میرا مقصد تو صرف ایک بات سمجھانا ہے، جسکی میں شروع سے کوشش کررہا ہوں، اللہ کرے آپ کو سمجھ آجائے۔
مجھے ابھی پتا چلا آپ ایک اچھے کہانی نویس بھی ہیں، یہ پتا نہیں آپ نے یہ سیالکوٹ سے فون آتا ہے، گواہ بنتے ہیں، کہاں سے نکال لائے ، تحریر میں واضح پوری مجلس کے شرکاء کا واضح ذکر ہے ۔ ۔ آپ کی ذہانت کی بھی داد دینے کو دل کررہا ہے پہلے ایک بات کو ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں ثابت نہ ہو تو ایک دم نیا پتا پھینک دیتے ہیں۔ پہلے غامدی صاحب کی آیات کے مسئلے میں ان کے اس دور کو صحابہ کے کفر کے دور سے ملاتے رہے ، وہ چال کامیاب نہیں ہوئی تو اب نئی باتیں لے آئے ہیں۔ آپ نے لفظ احد کے ترجمہ پر اعتراض کے جواب میں بھی پہلے وجودی فلسفہ سے سے آڑ پکڑنے کی کوشش کی وہ چال کامیاب نہیں ہوئی تو اب میرے اکابر کے ترجمے پر پہلیاں بجھانا شروع کردیں ۔ ۔ جناب آپ نے جواب دینا ہے تو احد کا جواب دیں ، جہاں تک کاندھلوی صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر کی بات ہے اس میں اگر غلطی ہے یا آپ کو لگتا ہے انہوں بھی اس کی طرح ترجمہ کیا ہے تو اس پر علیحدہ سے کہیں تحریر لکھیں، میں جواب دے دوں گا۔انشاءاللہ
میں آپ کی ساری باتوں کا مختصر جواب دیتا ہوں، پہلی بات غامدی صاحب خودیہ آیات اپنے نام سے پیش کرتے تھے حالانکہ انکی حقیقت یہ تھی وہ بھی انکی ساری شریعت کی طرح انکے سرقہ ہی کا کمال تھیں، دوسری بات غامدی صاحب نے جس دور میں یہ پیش کیں تھی ا س دور میں وہ آج سے ذیادہ اسلامی تھے، اس وقت انہوں نے سنت سمجھ کر تھوڑی بہت داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی، اور فراہی اور اصلاحی صاحب کے مسلک سے ہٹ کر انہوں نےکوئی نیا مسلک بھی ایجاد نہیں کیا تھا اور نہ عجیب وغریب اصول گھڑ کر شریعت کا نیا ایڈیشن متعارف کروایا تھا ۔ فراہی اور غامدی صاحب کا مسلک پڑھنے کے لیے کتاب' ذکر فراہی ' کا مطالعہ کرسکتے ہیں جو فراہی صاحب کے متعلق بنائی گئی سائیٹ پر بھی موجود ہے۔ تیسری بات آپ نے غامدی صاحب کی انگلش شاعری پر تبصرہ کرنے کے لیے بھی ایک ایسے مصرعے کو پکڑ کر تبصرہ کیا جس میں صرف اک لفظ میچ کر رہا ہے، ذرا تیسرے اور پانچویں مثال کو چھوڑ کر باقی پر بھی تبصرہ کردیجیئے خصوصا پہلی مثال پر اور پھر فرمائیے کہ سب بھی اتفاق ہے۔ ۔یاد رکھیے یہ انٹرنیٹ کا دور بھی ہے اور ہر بندہ کے پاس آج بھی آنکھیں اور عقل موجود ہے۔ ۔۔
آخری بات خاور صاحب دلیل اور دلالی میں فرق ہوتا ہے، میں صرف دلیل کا جواب دیا کرتا ہوں دلالی کا نہیں، آپ کے نزدیک شاید کسی کے رد میں دو پہرے لکھ لینا بھی جواب کہلاتا ہے۔۔آپ کی عجیب وغریب تاویلات کا جواب دینے میں اتنا ٹائم ضائع کرچکا ہوں، حالانکہ میں پہلے سے یہ جانتا ہوں کہ غامدی طبقہ کے لوگوں سے جب جواب بن نہیں پاتا تو کوشش کرتے ہیں کہ بحث کو اتنا طویل کردیا جائے اور الجھا دیا جائے کہ قارئین کے ذہن منتشر ہوجائیں اور اصل نکتے تک کوئی پہنچ نہ سکے۔اگر آپ نے آگے بھی ایسے ہی کیا ، فضول تاویلیں ہی گھڑی تو میں جواب دینے اور تبصرہ پبلش کرنے سے معذور ہوں گا۔ میں بلاگ کو چوراہا بھی نہیں بنانا چاہتا ، اس لیے فضول اپنا اور میرا ٹائم ضائع کرنے سے اعراض کیجیے گا۔ہاں آپ کو کھلی اجازت ہے کہ آپ کہیں اور جاکر یہ دعوے کرنا شروع کردیں کہ ان کے پاس میرے دلائل کے جواب ہی نہیں تھے اس لیے انہوں نے میرے تبصرے شائع نہیں کیے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہترین اس بار صاحب تحریر نے منصفانہ اور بحترین انداز اپنایا

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہت خوب بھائی دور حاضر کے اس فتنے کے بارے میں قلم اٹھانے کا بہت بہت شکریہ اللہ کرے زور قلم اور ذیادہ اس فتنے کے بارے میں لکھتے رہیئے یہ آج کی ضرورت ہے جزاک اللہ

گمنام نے لکھا ہے کہ

محترم بنیاد پرست صاحب۔
ایک صحیح عالم دین کو وسیع الظرف ہونا چاہیے اور اس کے لیے دوسرے کو کھل کر کہنے کا موقع دینا لازمی امر ہے۔ اگر آ پ خاور صاحب جیسے احباب کی بات کو سننا ہی پسند نہیں فرمائیں گے تو عوام الناس کے سامنے اصل مسئلہ کیسے آئے گا۔ جیسا کہ آپ نے اک علمی مسئلہ بیان فرمایا اسی طرح اس علمی مسئلہ کو ثابت کرنا بھی آپ کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ تو اگر دوسروں کو بات پیش کرنے کا موقع نہ دیا جائے گا تو حق مشتبہ رہ جائے گا۔
کاشف الرحمان

Unknown نے لکھا ہے کہ

بھائی کاشف صاحب آپ اوپر کمنٹ ملاحظہ فرما سکتے ہیں میں نے انکی ایک ہی ضد کا کتنی دفعہ اور کتنے دلائل سے جواب دیا ہے، لیکن وہ پھر بھی بلاوجہ اپنی بات پر اصرار کرتے رہے ۔ مجبور ہوکر میں نے بحث کو ختم کیا ہے۔ اگر وہ محض تاویلات کے بجائے کوئی علمی دلائل کیساتھ بحث کرتے تو میں ایسا نہ کرتا۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

حضور وہ علمی دلائل سے بات کر رہے تھے "تم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے"۔
اصل میں ہم لوگوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ چاہے کوئی شخص ٹھیک ہی کہ رہا ہو گا لیکن اگر وہ ہمارے نقطہ نظر کے خلاف ہو گا تو اسے لازمی روکیں گئے۔ اب آپ کہیں گے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو یہ فیصلہ لوگوں کو کرنے دیں نا آپ خود ہی جج بن جاتے ہیں۔ (معذرت کے ساتھ آپ میرے لئے قابل احترام ہیں)

Unknown نے لکھا ہے کہ

جناب خاور صاحب بلاوجہ اپنی بات پر ضد کررہے تھے، میں نے اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود انکی ایک ہی بات کا تین دفعہ جواب دیا لیکن پھر بھی وہ اپنی بات پر بلا دلیل اصرار کرتے رہے اور ساتھ انہوں غیر متعلقہ موضوع بھی بحث میں داخل کرنے شروع کردیے، اسی لیے بحث کی کھچڑی بننے سے بچانے کے لیے میں نے انکے ساتھ بحث کو ختم کیا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میر ے غامدی صاحب پر کیے گئے اعتراضات غلط اور بلاوجہ ہیں تو آپ اپنی بات کو دلیل سے ثابت کردیں۔
بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

جناب خاور صاحب نے کوزے میں دریا بند کرنے کی کوشش میں کوزہ ہی توڑ دیا میری ان سے گذارش ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی موضوع پہ گفتگو ہوتی تو شاید کسی منتقی مقام پر پہنچتی۔آپ نے جب تمام اعتراضات کو ایک ہی تحریر میں جواب کی شکل میں لکھا تو یہ حقیقت ہے کہ آپ کا ایک جواب بھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ محترم بنیاد پرست صاحب کے اعتراضات کا باری باری جواب عنایت فرمائیں تو شاید کوئی مثبت نقطہ نظر سامنے آ جائے۔' (خاور صاحب سے معذرت کے ساتھ)

گمنام نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست صاحب
آپ غامدی فکر میں پوشیدہ الحاد و گمرہی کو بہت خوب عام کر رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے سب سے سینیر علمی رفیق نادر عقیل انصاری نے فکر فراہی سے رجوع کر لیا ہے اور المورد والے اس کو عرصے سے چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اب نادر انصاری نے سہ ماہی "جی" میں اپنا اختلاف بیان کرنا شروع کر دیا ہے۔ شاید آپ کو بھی سہ ماہی "جی" دیکھ لینا چاہیے۔
رانا اخلاق احمد

گمنام نے لکھا ہے کہ

نادر عقیل انصاری، سابق صدر المورد، سابق مدیر اشراق، اور سابق مدیر "رینی ساں" کے نہایت ادق اور علمی تنقید سہ ماہی "جی" کے حالیہ شمارے میں شائع ہو گئی ہے۔ پورا شمارہ تو بہت ضخیم ہے، اس کے چند مضامین انٹرنیٹ پر میسر ہیں جن کے روابط یہ ہے:
Nadir Ansari Zia ul Haq Afghan Jihad Awr Javed Ghamidi https://ia801504.us.archive.org/27/items/NadirAqueelAnsariZiaUlHaqAfghanJihadAwrJavedGhamidiSahibTheQuarterlyJeeVols1112/Nadir%20Aqueel%20Ansari%20Zia%20ul%20Haq%20Afghan%20Jihad%20awr%20Javed%20%20Ghamidi%20Sahib%20The%20Quarterly%20Jee%20Vols%2011&12.pdf
Muhammad Din Jauhar Islam awr Riyasat Jawabi Bayaniyay par aik nazar
https://ia801501.us.archive.org/15/items/MuhammadDinJauharIslamAwrRiyasatJawabiBayaniyayParAikNazarTheQuarterlyJeeVols1112/Muhammad%20Din%20Jauhar%20Islam%20awr%20Riyasat%20Jawabi%20Bayaniyay%20par%20%20aik%20nazar%20The%20Quarterly%20Jee%20Vols%2011&12.pdf
ان مضامین کا کوئی جواب غامدی صاحب اور ان کے حواریوں کی طرف سے تاحال نہیں آیا، نہ ہی توقع ہے۔
والسلام
یاسر عمار

فیصل اعوان نے لکھا ہے کہ

سلام و علیکم بھائی
میں غامدی پر کام کر رہا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو یہ تحریر بھی شامل کر لوں ۔۔۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

@ فیصل اعوان
جی آپ شامل کرسکتے ہیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

السلام عليكم
محترم آپ کی تحریر بہت ہی پر مغز اور حیران کن معلومات سے بھرپور ہے۔
غامدی صاحب کا قرآن مجید کے طرز پر چالیس نمونے پیش کرنے کا عمل رونگٹے کھڑے کرنے والے ہیں۔
کیا یہ انکشاف مصدقہ خبر ہے؟
واقعہ میں جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے، بالخصوص مستنصر میر صاحب سے تصدیق کرانے کی کوئی صورت بن سکتی ہے۔
مجھے اپنے تحقیقی مقالہ میں اس کا حوالہ دینا ہے، لہذا جتنے زیادہ لوگوں سے تصدیق ہوسکے زیادہ بہتر ہے۔
نیز ابھی غامدی صاحب کا اس عمل سےمتعلق کیا موقف ہے۔
از راہ کرم
میرے واٹس ایپ نمبر پر تفصیلات سے آگاہی فراہم کریں۔
مشکور ومنون۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

میرا نمبر ہے:
0096658348229

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔