منگل، 2 جون، 2015

شب برات کی فضیلت - ایک غلط فہمی کا ازالہ

یہ تحریر  بلاگ پر پہلی دفعہ ہفتہ، 16 جولائی، 2011 کو پوسٹ کی تھی ، ابھی دوبارہ اسکو ریفریش کرنے کی   دو وجوہات ہیں  ، ایک یہ کہ اس میں پوسٹ کی گئی پکچر کرپٹ ہوگئی  تھیں  جس کی وجہ سے  اس تحریر کے کمنٹ میں اور جہاں اسکا لنک پیسٹ کیا گیا تھا وہاں  پڑھنے والوں نے  ری پوسٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں   مفتی تقی عثمانی صاحب کے اس جملے " اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، " پر    بہت سی جگہوں پر عجیب و غریب تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ایک صاحب نے لکھا "
 Zaif+zaif=Zaif he hoti hay "
 ایک اور جگہ یہ تبصرہ دیکھا
"  kesay 1 mamlay per sari ki sari hadeesain kamzoor hon us ko ap deen ka hesa bana sakty hain.... kuch tou khayal karain "
ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے   کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے  ہیں۔   یہ جملے  بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں   کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو  شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے  لوگ بغیر علم کے  احادیث  پر  تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں  کسی  راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے،  ان تبصرے کرنے والوں نے بھی اس بات کو اگنور تو کیا ہی کہ  جو بندہ  یہ بات بیان کررہا ہے (مفتی تقی عثمانی صاحب) وہ چالیس سال سے حدیث پڑھا رہا ہے۔ ۔ حدیث پر بھی فارمولا ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔

ضروری وضاحت

ضعیف نا کہ من گھڑت :
پہلی بات یہ کہ  ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ  لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ  بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف'  کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں  مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو،  اس حدیث کے خلاف کوئی  صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس  میں حدیث صحیح وحسن  کی  شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے  اسباب ہوں جو  کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے  ہیں،  اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ  متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)
کیا  اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو  تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ  کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح  اگر  حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی  قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔         (نزھۃ النظر:۲۹)
ضعیف حدیث  کی اقسام
 ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا  کمی   کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔  مشہور قسمیں  ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث  کا کم ترین درجہ ہے۔
ضعیف  حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ   حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری  اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری  یہ کہ  عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ   اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں  اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔             (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔     (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ  حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث  کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔
شب برات کے متعلق ضعیف احادیث: 
 مفتی تقی عثمانی صاحب نے  شب برات کی احادیث کے متعلق   لکھا  کہ
" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔"
اس پہرہ گراف  سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں۔
1- شب برات کے متعلق احادیث ضعیف  لیکن کئی سندوں سے مروی   ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا۔
2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں  اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3-  اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ  اعمال صحابہ  بھی موجود ہیں۔
ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان  سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔

رسالہ '' شبِ براء ت کی حقیقت از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب " یہاں  سے  ڈاؤنلوڈ  کیا جاسکتا ہے۔


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 10 جنوری، 2015

مدارس سےدہشت گردی کا تعلق –چند حقائق

سانحہ پشاور پر  کون ہے جسے افسوس نہیں ہوا ہوگا ، اسکی   ہمیشہ کی طرح  ملک کی تمام مذہبی تنظیموں نے بھی مذمت کی . لیکن    پھر بھی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر  دینی مدارس اور علماء  پر   تنقید کا ایک  طوفان دیکھنے میں آیا۔ ہمارے  میڈیا اور حکومت   کا بھی یہ مزاج  بنتا جارہاہے کہ جب بھی ایسا کوئی دہشت گردی کا  واقعہ ہوتا ہے  وہ علماء اور  مدارس کو کٹہرے میں لا کھڑا  کرتے  ہیں  جیسے  وہ دہشت گردی انہوں نے کروائی   اور ملک کی سیکورٹی کے ذمہ دار وہ  ہیں  ۔ انکو جگہ جگہ بلا کر  تفتیشی انداز میں انٹرویو لیے جاتے ہیں  اور بار بار یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ  اس معاشرے کا سب سے ذیادہ عوامی انفلوینس رکھنے والا طبقہ   ہیں آپ لوگ اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے میں کیوں ناکام ہیں ؟
 دوسری طرف حالت یہ ہے کہ   نا حکومتی لیول پر پالیسی بناتے وقت انکو کوئی ویلیو دی جاتی ہےاور نا میڈیا عام حالات میں انکی کسی اچھی رائے ،تجویز، بات کو شائع کرنا گوارا کرتا ہے۔  ہر دفعہ ایسے مسائل پر مشورے کے لیے   آل پارٹیز کانفرنس بلائی  جاتی ہیں   لیکن  ایسا کبھی نہیں ہوا   کہ پورے ملک سے علماء کو بھی  جمع کیا گیا  ہو اور ان سے  ان کی رائے لی گئی ہو کہ آپ کے خیال میں  اس کا حل کیا  ہے؟ آپ  اس گرداب ، مشکل سے  نکلنے کا کیا راستہ  تجویز کرتے ہیں  ؟؟ کسی  ایک ایسی   سنجیدہ  کوشش کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا  جس میں چند بڑے  علماء  کو ہی  بھلالیا گیا ہو اور انکی تجاویز  سنی گئی  ہو ؟   شروع سے کبھی  انکو ملک کے اندر  سٹیک ہولڈر  سمجھا ہی نہیں  گیا ، یہ سمجھا ہی نہیں  گیا کہ وہ بھی اس حوالے سے ملک میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں پھر  بھی ہر دفعہ  یہ  پوچھا جاتا ہے  کہ علماء کیا کردار ادا کررہے ہیں   ؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی اس کے ساتھ ملک   کی بڑی اور  موثر جامعات اور انکے انفلوئینس  رکھنے والے علماء کو بھی بلایا جاتا۔ ان سے بھی  اس بارے میں رائے لی جاتی۔
 یہی حال میڈیا کا بھی ہے،2009 میں ڈیڑھ  سوسے قریب صف اول کے  علماء نے لاھور میں ایک متفقہ فتوی دیا   جس میں   ملک میں  دہشت گردی کی ان تمام چیزوں کو  رد کیا  گیا،  اسکو میڈیا کی سکرینوں پر  بالکل جگہ نہیں ملی،  ایک خبر تک نہیں چلائی گئی۔ اور  آج یہی میڈیا والے  علماء کو لائن میں کھڑا کرکے یہ پوچھ رہے ہیں کہ علماء کی جانب سے  اس انتہاء پسندی کی سوچ کو کاؤنٹر نہیں کیا جارہا؟ کوئی کاؤنٹر   نیریٹو کیوں نہیں دیا جارہا؟  ؟!!
 یہ سوال اٹھانے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ  پہلے دن سے جب سے یہ مسائل پیش آئے علماء کی جانب سے   حکومت کی غلط پالیسیوں  پر  مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ  اس کے بارے میں بڑا واضح موقف اختیار کیا گیا  کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد  ناجائز ہے ، قرآن و حدیث میں اسکی اجازت نہیں ہے۔ یہی کاؤنٹر نیریٹو تھا   جو  علماء کے بس میں  تھا  کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے پر  اپنی رائے کو واضح کرنا، اسکو انہوں نے واضح کیا ہے۔ بات پہنچائی گئی ہے بات کہی گئی ہے ۔  اہل علم کا کام کسی چیز کا ابلاغ اور اسکو پہنچا دینا ہی  ہوتا ہے اور اسکے بعد کسی کو زبردستی اس پہ لانا نا انکے اختیار میں ہے اور نہ انکے لیے ممکن ہوتا ہے ۔
  باقی یہ  بات کہ لوگوں نے یہ بات مانی کیوں نہیں یہ شاید خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہوسکتا ہے اس  مسئلے کے پس پردہ جو محرکات ہیں وہ مذہبی نہ ہوں وہ سیاسی ہوں، اس میں   ملوث لوگوں کو  ٹارگٹ  طاقت کے کھلاڑیوں کی طرف سے دیے گئے ہوں اسی وجہ سے انکو  قرآن وسنت کی بات معقول نہ لگی ہو۔
آپ عالمی حالات پر غور کریں  یہی مسئلہ  آپ کو  تمام عالم اسلام میں  نظر  آئے گا۔ اگر   یہ مسئلہ عراق ،    شام، لیبیا اور مصر  میں بھی   موجود  ہے تو سوال یہ ہے کہ    وہاں پر کونسے مدارس ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ  پیدا ہے؟۔  یہ مسئلہ اگر صرف پاکستان کا ہوتا تو  ہمارا اسکو صرف لوکل یا علاقائی تناظر میں  دیکھنا  فائدہ مند ہوتا لیکن  ایسا نہیں ہے ۔یہ کچھ بین الاقوامی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ سامراجی طاقتیں   دنیا کے نئے جغرافیے بنارہی ہیں،  اسلامی ملکوں کو  ڈی سٹیبلائز کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  اسوقت  پورا عالم اسلام اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں اور اسی قسم کی انارکی اور خانہ جنگی وہاں بھی پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔ اس بات کی  ایک اور  دلیل  یہ ہے کہ یہ  مسائل   جن کا اسوقت ہم سب لوگ شکار ہیں انکی مدت ذیادہ سے ذیادہ  پندرہ بیس  سال ہے  اور مدارس اس خطے میں سو ڈیڑھ سو سالوں سے موجود ہیں  ۔ اگر یہ مدارس کی پیداوار  ہوتے  تو  پہلے  بھی یہ مسائل پیش آتے  ۔ لیکن آج سے بیس سال پہلے تک  ایسی  کوئی بات اس خطے میں نہیں دیکھی گئی ۔
 جب کسی مسئلے میں عالمی قوتوں کے مفادات شامل ہوجائیں، عالمی قوتیں اس میں  انوالو ہوجائیں  اور ملکوں کے جھگڑے اور  آس پڑوس کی جنگوں اور نظریات کے مسائل اس میں داخل ہوجائیں تو آپ اس علاقے کے لوگوں کی کسی ایک چیز کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ، ان لوگوں کی  صرف  مذہبی پسند ناپسند کو ہی  سارے مسئلے کی جڑ قرار  نہیں دیا جاسکتا ، وہاں یہ کہنا دانشمندی نہیں ہوگی   کہ اس علاقے کے لوگوں کے دینی ادارے اس سارے مسئلے کے ذمہ دار ہیں۔؟  یقینا بہت سے عناصر میں سے  ایک عنصر  مذہب کا   بھی  شامل کیا جاسکتا ہے ،   جن کے اس مسئلے سے  مفادات وابستہ  ہیں انہوں نے جہاں اور  بہت ساری چیزوں کو استعمال  کیا ہے   وہ اس چیز کو بھی استعمال کرسکتے ہیں ، لیکن یہ ضروری نہیں  کہ اس میں سارے لوگ صرف مذہب کے نام پر استعمال ہورہے ہو ں اور مذہب اور مذہبی ادارے  ہی سارے مسئلے کے ذمہ دار ہوں  ۔!!
 ہر شخص جانتا ہے کہ  ہمارے اس سارے مسئلے میں عالمی قوتیں انوالو ہوچکی ہیں،انکی جانب سے فنڈنگ ہورہی ہے، انکی جانب سے ٹارگٹ دیے جارہے ہیں لیکن پھر بھی  بڑی معصومیت کے  ساتھ ہمیشہ اسکا  سارا ملبہ ان لوگوں پر گرا دیا جاتا ہے   جن کا طاقت کے اس  کھیل میں کوئی حصہ  یا  کوئی کردار  ہے ہی نہیں ۔
 ہم سمجھتے کہ  اس دفعہ  اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسکی طرف سے  صرف اس مذہبی طبقے کے خلاف آپریشن شروع کرنا یا صرف  علماء کو  کاؤنٹر کرنا بے وقوفی ہوگی ۔   ضروری ہے کہ ہر اس طبقے  کو شامل تفتیش کیا جائے جن کے مفادات اس مسئلے سے وابستہ ہیں ، جو عالمی طور پر اس ساری گیم میں شامل ہیں ۔ اس کے لیے  انکے سفارت خانوں کی نگرانی کی جائے اور فارن فنڈنگ کی بھی  کھوج لگائی جائے۔ معلوم کیا جائے کہ پاکستان میں کن  کن اداروں، تنظیموں کو باہر کے ملکوں یا سفارت خانوں  سے فنڈ  ملتا ہے انکو ایکسپوز کیا جائے ۔ دوسری بات ملک کے تمام حصوں میں جو دہشت گردوں  کی مختلف اقسام ہیں۔ چاہیے  وہ مذہبی ، لسانی ،صوبائی جیسا بھی  پس منظر  رکھتے  ہو ں  ان  سارے قسم  کے  دہشت گردوں کے ساتھ برابر سلوک کیا جائے، صرف کسی اک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانا انتہائی نقصان دہ ہوگا ۔ جس فرقہ، طبقہ سے تعلق رکھنے والے  کسی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہیں ان  سب کو سزائیں ملنی چاہیے اسی سے حکومت کو عوامی اعتماد  حاصل ہوگا  اور حالات کنٹرول میں آئیں گے۔
ایک اور اہم  بات جب ہم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بات  کرتے ہیں تو اس میں  ہمیں  ملک کا جو سب بڑا  طبقہ ہے  دیندار طبقہ، اسکے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور کسی بھی حادثے کو ان پر تنقید کا موقع نہیں سمجھنا چاہیے ۔اتنا  بڑا حادثہ  ہوا ، بچوں کی لاشیں  بکھری پڑی تھیں ،  گھروں میں قیامت بھرپا تھی  ، مائیں پیٹ رہی تھی اور  کچھ  لوگ  اس سانحے کی آڑ میں اپنے پرانے ایجنڈے کو اگے  بڑھانے کی کوشش  میں مصروف  نظر آئے ، الیکٹرانک میڈیا  ہو یا سوشل میڈیا  جس کو دیکھیں  کوئی کوئی  دیوبندی بریلوی شیعہ سنی کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے اور کوئی مذہب  اور مذہبی اداروں کو ۔  کیا ایسے واقعات کے دوران یہ معاشرہ اتنی غیر سنجیدگی اور اشتعال انگیزی  کا  متحمل ہوسکتاہے۔ ؟
 ہماری بدقسمتی یہ  بھی ہے کہ  ان  ساری غیر سنجیدہ بحثوں کو  سامنے لانے  کے لیے  ہمارا الیکٹرانک میڈیا ایک پلیٹ فارم  اور ایک میزبان کا کردار ادا کرتا ہے، ہر دفعہ  شرپسند اور غیر سنجیدہ  لوگوں کو  میڈیا کے حلقوں کی بھرپور تائید حاصل ہوجاتی ہے ۔  ملائیشیا میں مقیم ایک صاحب ہیں   جو کہ   ایک  مذہبی سکالر و تجزیہ نگار  کے طور پر  مشہور ہیں  انکو ہر دفعہ ایسے واقعات پر  اظہار خیال  کے لیے تقریبا ہر چینل  والے بلاتے ہیں  اور وہ جب بھی آتے ہیں   تعزیت  کے چند رسمی جملوں  کے بعد علماء اور مدارس پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ حالیہ واقعے کے بعد بھی موصوف نے یہی کیا اور   آتے ہی مدارس کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا اورلائیو پروگرام میں کہا کہ
 " یہ اسی مذہبی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے اور جس کی تبلیغ ہماری بہت سی اسلامی تحریکیں اور مذہبی جماعتیں کرتیں ہیں۔۔یہ مدارس اور مذہبی تحریکیں اپنے مخاطبین کو یہ بتاتے ہیں کہ کفر، شرک اور ارتداد کا تلوار سے خاتمہ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔۔ " مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے وہ تمام کتابیں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرکے دیکھی جاسکتی ہیں ، دوسری بات  اگر  کفر وشرک کو تلوار سے خاتمہ کرنا ضروری سمجھایا جاتا ہے تو ان مدارس والوں  کی تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں کونسی تلوار لیے پھر رہی ہیں۔ ۔؟  کیا  ان سانحات کی آڑ میں اپنے پرانے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے،  دشمنیاں چلانے  اور لوگوں میں    نفرتیں پیدا کرنے والے لوگ ا سکالر کہلانے کے لائق ہیں ؟
قومی حادثہ  ہوا ،  بجائے قومی سوچ  پیدا کرنے ، پروان چڑھانے کے یہ نابغے ہر دفعہ   ایک ہیجانی قسم کی  کیفیت پیدا کردیتے ہیں  اورقوم کو نفرت کی  عجیب بحثوں میں الجھا دیتے ہیں۔ جب  تمام مذہبی طبقات نے    پہلے دن سے ہی   اس دہشت گردی  کی مذمت    کردی  اور قوم کے ساتھ کھڑے ہوئے   پھر بھی بار بار ان سے انکی پوزیشن  پوچھنا  اور ان پر سوالیہ نشان لگانا  کہاں کی دانشمندی ہے ؟ کیا قوم کو اس بلاوجہ کے انتشار  میں مبتلا کرنا اور بحثوں  میں الجھانہ کوئی قومی خدمت ہے؟
 اسی طرح کچھ اور  لوگ ہیں جو  موم بتیاں جلانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی طبقے پر تنقید کا حق حاصل ہوگیا ہے۔۔ ہر گورنمنٹ میں   فرقہ واریت کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے لیکن  ان سیکولر انتہا پسند وں ، لامذہبی  جنونیوں کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جاتا ، ان  کو ہر دفعہ اشتعال   انگیزی پھیلانے  کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے  ۔ اور یہ میڈیا کی سپورٹ سے  قوم کو اک نئے مسئلے/بحث میں  الجھا دیتے ہیں۔
 ہمارے نزدیک  یہ علماء اور  مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ  وار  کوئی علاقائی سازش نہیں بلکہ   یہ ایک تہذیبی جنگ ہے جسکو ہر فورم سے لڑا جارہا ہے۔ اس ملک میں  اسوقت صرف ایک مذہب ہی ہے جو اس  سیکولر تہذیب کے راستے میں رکاوٹ بنا   ہو ہے  اور بھرپور مزاحمت کررہا ہے، اس لیے کبھی اسکے نمائندوں کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے اور  کبھی  اسکے اداروں  پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے  ۔ آج  امریکہ اور رینڈ کارپوریشن، یو ایس ایڈ کے 14 سالوں کی محنتوں کا  پھل سامنے آرہا ہے، ڈاڑھی اور دہشت گردی ہم معنی بنا دی گئی ہےاوراس بار   مذہبی  طبقے کو   دہشت  گرد قرار دے کر  بالکل دیوار   سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نوٹ: اس تحریر کی تیاری میں معروف عالم دین مولانا سید عدنان کاکا خیل صاحب کے ایک ٹی وی پروگرام میں کیے گئے  تجزیے سے بھی مدد لی گئی ہے۔
مکمل تحریر >>

منگل، 16 دسمبر، 2014

جنید جمشید اور قانون توہین رسالت

جنید جمشید   اک سابقہ مشہور سنگر ۔ ۔  سترہ سال پہلے  محض اللہ کی رضا کے لیے  میوزک کی دنیا کو چھوڑ کر ایک جائز کاروبار شروع کیا  ۔۔۔۔۔ ایک تبلیغی تحریک سے وابستگی  ۔ ۔ ۔۔ ان لوگوں کے لیے ایک زندہ جواب جو یہ کہتے تھے کہ غریبوں کو کچھ کھانے کے لیے نہیں ملتا اس لیے مولوی بن جاتے ہیں، ان کو یہ چمک دمک، عیاشیاں دکھاؤ پھر  دیکھنا  یہ کیسے ملانے بنتے ہیں ۔ !!!
دوسال پہلے  ایک جگہ اپنے ایک تبلیغی بیان میں عورت کی فطری کمزوریوں پر بات کرتے ہوئے وہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق  اس صحیح حدیث کی وضاحت ایسے بناوٹی  انداز میں  کر گیا    جس سے حضرت عائشہ کی توہین کا پہلو نکلتا نظر آتا تھا۔  یہ زبانی لغزش تھی جس کا اندازہ نا اسے  ہوا اور نہ وہاں کسی سننے والے کو ہوا ۔
دو سال بعد ایک پلان کے تحت اسکی  اس ویڈیو کے اس مخصوص کلپ کو  سوشل میڈیا پر گستاخی کے تعارف سے لایا گیا اور   اسے ایک گستاخ کے طور پر مشہور کردیا گیا۔ ۔ بیان میں یہ واضح تھا کہ جنید نے یہ الفاظ   جان بوجھ کر یا  کسی غلط عقیدے  کی وجہ   سے نہیں  کہے  بلکہ یہ  اسکی سبقت لسانی اور زبانی لغز ش تھی ۔  اس لیے  جیسے ہی اسے اسکی غلطی پر متنبع کیا گیا   اس نے بغیر کسی حیل و حجت کے  معافی مانگ لی۔لیکن اس سب کے باوجود    مخالف  فرقے  اور سوچ کے لوگوں نے اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا ۔
قانون توہین رسالت

  اس دوران اس قانون توہین رسالت کے متعلق  سوشل میڈیا پر ایک کنفیوز کرنے والی بحث بھی دیکھی ، کنفیوزین یہ تھی کہ کیا  ایک کافر اور مسلمان کی گستاخی میں کوئی فرق ہے اور کیا دونوں کے متعلق شریعت کا  ایک  جیسا  حکم ہے ؟
 رسالت  کے قانون کو دیکھا جائے تو اسکے دو   حصے   ہیں ۔ ایک  کافر کے متعلق جو  غصہ، تعصب ، دشمنی اسلام  میں جان بوجھ کر   شان رسالت میں گستاخی کرے ۔
 دوسرا کوئی مسلمان جو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و گستاخی کرے۔
اول الذکر کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ  اس کی گستاخی اگر ثابت ہوجائے  تو اس کی کوئی معافی نہیں  ، تعزیرات پاکستان میں بھی اس کی سزا موت  لکھی گئی ہے اور یہ سزا دینا قاضی  کا کام ہے  ۔
مسلمان کی گستاخی کے دو پہلو ہیں ۔
1.    بندہ صاحب ایمان اور عقیدہ  ہو لیکن زوال عقل یا زوال اختیار (نزع کی حالت ،  کبر سنی، سبقت لسانی، جہالت ، غلبہ خوشی، فرط محبت   میں  ) بے اختیار   زبان سے کفریہ الفاظ نکل جائیں یا  قصد کچھ اور ہو لیکن زبان سے کچھ اور نکل جائے ۔ پھر  ہوش میں آنے پر یا غلطی پر متنبع ہونے کے بعد توبہ استغفار کر لے۔
2.    دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ   بدعقیدہ ہو  اور جان بوجھ  کر اور پورے ہوش و حواس میں شان رسالت میں غلط کلمات کہے ۔
ان دونوں کے احکامات الگ ہیں ۔
 پہلے شخص کے متعلق ہر مسلک    کے علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص نہ مرتد ہوا اور نا اس کے لیے تجدید ایمان اور تجدید  نکاح  ضروری  ہے۔۔۔!!  فقہائے احناف کی رائے دیکھنے کے لیے  ملاحظہ فرمائیے  فتاوی قاضی خان  3/576-77،    فتاوی ھندیہ  2/276، فتاوی الشامیہ  4/239
 دوسری قسم کے  شخص کے متعلق علماء کی رائے مختلف ہے بعض  اس پر عام مرتد کا حکم لگاتے ہیں  ۔ انکی رائے میں  ایسا شخص مرتد ہوگیا ہے ،  اس پر اسلام پیش کیا جائے  اگروہ تسلیم کرلے اور مکمل شرائط کے ساتھ توبہ کرلے    تو  اسے  چھوڑ دیا جائے اگر وہ انکار کرے   تواسکو قتل کردیا جائے۔ فقہ حنفی کے مشہور  اِمام ابویوسف ”کتاب الخراج“ میں لکھتے ہیں”جس مسلمان نے رسول اللہ اکی توہین کی، یا آپ  کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر ومرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ (کرکے اسلام ونکاح کی تجدید) کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ “(کتاب الخراج ص:۱۹۷، ۱۹۸)
کچھ  علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص کا حکم عام مرتد کا نہیں اس کے گناہ کی معافی اسکے قتل کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔
کیا شریعت کی نظر میں  جنیدجمشید واقعی گستاخ  رسول ہے ؟
جنید جمشید کی غلطی کو دیکھا جاءے تو  یہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق  نہیں بلکہ ام المومنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی بھی بہت بڑا گناہ ہے لیکن  اس پر وہ حد لاگو نہیں ہوتی جو گستاخ رسول پر ہوتی ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانے والوں  میں منافقین کے علاوہ چند صحابہ  کا بھی نام تھا ، انکی معافی و توبہ  کو قبول کیا گیا   ۔ نا کسی منافق کو گستاخ رسول والی سزا دی گئی اور نا ان صحابہ  کو کسی نے مرتد  کہا ۔ بلکہ قرآن میں سورۃ النور میں ان  میں سے ایک صحابی  کا ذکر بھی آتا ہے  جنکی اس واقعہ کے  بعد جب  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مالی مدد کرنا چھوڑ دی  تو اللہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو   ان صحابی  کو معاف کرنے اور امداد جاری رکھنے کا  حکم دیا۔ اس مسئلے کی وضاحت ایک مشہور مقرر نعمان علی خان نے بھی کی ،انکی ویڈیو یہاں ملاحظہ فرمائیے۔
یہ بات تو واضح ہے لیکن بالفرض   اگر جنید جمشید  کو گستاخ رسول بھی قرار دے  دیا جائے تو  وہ واضح پہلی صورت  کا کیس ہے کہ وہ مرتد نہیں ۔ اسکا وہی عقیدہ ہے جو   اصحاب و امہات رضوان اللہ  کے بارے میں اہل سنت والجماعت  کا  عقیدہ ہے۔ اس ویڈیو سے پہلے اس نے کبھی   کوئی گستاخی کی نا اس کے بعد اب تک جبکہ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔
ردعمل میں سامنے آنے والے  دو قسم کے لوگ :۔
پاکستان میں قانون توہین رسالت کے خلاف سالوں سے کوششیں جاری  ہیں ،  اس کے لیے جہاں  حکومتی عہدیداروں کو  استعمال کیا گیا ،  این جی  اوز اور  میڈیا کے ذریعے  بھی اس کے خلاف باقائدہ مہم  بھی چلائی گئی  اور بہانے بہانے سے چلائی  جارہی ہے۔  پہلے سلمان تاثیر کا کیس پھرکوٹ  رادھا کشن کا واقعہ اور اب   جنید جمشید کی دو سال پرانی ویڈیو کو لے کر    قانون توہین رسالت کے خلاف ایک پورے پلین کے تحت طوفان کھڑا کرنا      اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ایک پوری لابی اس کام میں مصروف ہے ۔ یہ لوگ پہلے    عوامی جذبات کو ابھارتے ہیں  پھر  عوام میں سے کسی کے  غلط ردعمل پر قصور وار قانون  توہین رسالت کو قرار  دے دیتے ۔  حالانکہ  جس طرح عدالتی قانون کی موجودگی میں کسی کا قانون کو ہاتھ میں  لینا  پاکستانی لاء  کا قصور نہیں   ٹھہرایا جاتا اسی طرح    کسی کا  اپنے طور پر کسی کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے کر قتل کرنے کا ملبہ بھی قانون توہین  پر نہیں گرایا جاسکتا ۔ یہ بات بھی بعید نہیں کہ جنید جمشید کو گستاخ ٹھہرانے میں جن لوگوں کو استعما ل کیا گیا وہی ساون و شبنم میسح جیسے واقعے میں ملوث ہوں۔ !!
جنید جمشید کے اس کیس   سے ایک فائدہ بھی ہوا کہ اس  بہانے معاشرے میں موجود مذہبی اور غیر مذہبی فتنہ باز قوتیں  پوری طرح   بے نقاب ہوگئیں  ۔
مذہبی طبقہ :۔
مذہبی طبقے میں  چند لوگ ایسے ہیں جو اپنی جہالت، مذہب فروشی    کی وجہ سے مشہور ہیں   یہی وہ لوگ  ہیں جواکثر مذہبی طبقے کی بدنامی کا باعث بنتے  رہتے  ہیں اور ان کے مذہب کے نام پر کے گئے فراڈ کے  طعنے ہر  دیندار آدمی کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ ان میں بریلوی مسلک  سے تعلق رکھنے والی   کراچی  کی ایک نام نہاد مذہبی جماعت بھی ہے' جسکا شمار کراچی کی بڑی بھتہ مافیا تنظیموں میں بھی ہوتا ہے اور آئے روز کراچی کی مقامی اخباروں میں اسکے  کارکنوں کی قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کی خبریں چھپتے رہتی ہیں  ہیں۔
 اس جماعت کے لوگوں  نے اپنے فرقہ  وارانہ تعصب  میں ناصرف کراچی میں جنید جمشید  اور اسکے مسلک کے خلاف فرقہ وارنہ نعروں اور قتل کے فتووں پر مشتمل وال چاکنگ کی بلکہ اسکے خلاف  تھانے میں خلاف   ایف آئی آر بھی  کٹوادی۔ جنید جمشید کے خلاف  اصل طوفان انہی نے برپا کیا ۔ انکے کئی  پیشواؤں   کی سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی  دیکھی جاسکتی ہیں۔ میڈیا پر سب سے ذیادہ شور انکے  جس بندے نے کیا اس میں ایک انکے پیر مظفر علی شاہ  صاحب ہیں ۔ انکی یہ چھوٹی سی ویڈیو دیکھیے اور سر دھنیے۔،
  صاحب فرماتے ہیں، جنید جمشید ایک مراثی کی اولاد ہے، اسے کس نے حق دیا کہ یہ نعتیں پڑھے،  گے فرماتے ہیں  محمد یوسف پہلے عیسائی تھا پھر مرتد هوگیا۔۔"
 جب  نفرت پہلے سے  اس درجے کی ہے  پھر تو جنید کی گستاخی  کرنا نہ کرنا برابر ہے ،  یہ ویڈیو  تو ایک بہانہ  ہے ، جنید اور محمد یوسف تو  پہلے ہی انکے نزدیک مرتد اور گستاخ ہیں کیونکہ وہ انکے مسلک کے نہیں ہیں ۔۔  ایک اور  زهر اگلنے والی مشین کی ویڈیو  دیکھیے۔ 
صاحب   جنید جمشید کو کافر مطلق کہہ رہے اور اس کے لیے  "سر تن سے جدا “  کے فتوے دے  رہے  ہیں۔ ان کے علاوہ  ایک اور مشہور مداری بھی ہیں جو عموما  رمضان میں شو لگاتے ہیں انکی ویڈیو یہاں دیکھی جاسکتی ہیں فرماتے ہیں جو عاءشہ کا نہ ہوا فاحشہ سے ہوا ۔۔  موصوف کو خیال ہی  نہیں رہا اور اپنے ہی بھائیوں، رشتہ داروں کو گالی دے بیٹھے ۔
سیکولر اور لبرل :۔
اس فرقے کے بلاوجہ کے شور  ، گستاخی اور  قتل کے فتوؤں کا  بھرپورفائدہ دہریوں سیکولروں نے  اٹھایا، یہ وہ منافق  گروہ  ہے  جو پاکستان اور اسلام   کے متعلق ہر  مثبت بات میں سے بھی  منفی پہلو  تلاش کرتا رہتا ہے ۔ اس بہانے  اسے   اسلام اور علماء کو کوسنے کا بھرپور موقع ملا ۔عام حالات میں یہ  لوگ کسی مستند  اور محقق عالم   کو بھی ویلیو نہیں دیتے بلکہ سوشل میڈیا پر اسکا بھی  مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ' اس مسئلے میں  انہوں نے اس  ایک جاہل فرقہ پرست   گروہ  کی طرف سے دیے گئے گستاخی کے  فتوے کو بھی سند اسلام بنایا  اور شروع ہوگئے اپنا چورن بیچنے۔
ملحدین نے جنید جمشید کے کیس کو اٹھا کے سب سے ذیادہ شور جس کے لیے کیا وہ آسیہ مسیح اور سلمان تاثیر کا کیس ہے ۔ آسیہ کے کیس کی حقیقت یہ ہے کہ عید پر کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کو دینا حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے انتہائی غلط اور گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے ، بعد میں اس نے اپنی اس گستاخی کو تسلیم کیا، اور ایڈیشنل سیشن جج نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آسیہ مسیح کو سزائے موت کی سزا سنادی۔ اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کوبے گناہ قرار دیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ اُنہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوا دیں گے۔بعد میں  وہ قانون توہین رسالت کے خلاف باقاعدہ کوششیں کرتے اور اسکے لیے غلط الفاظ کا استعمال بھی  کرتے نظر آئے۔
یہ انتہائی غلط طریقہ تھا جو شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر نے اختیار کیا ، اگر یہ اپنی دانست میں آسیہ بی بی کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو ان کے پاس مناسب راستہ موجود تھاکہ یہ کسی اچھے وکیل کا انتظام کرتے اور آسیہ بی بی کے خلاف سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیتے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائی کورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو رہا کردیا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ انہوں نے ایسا کچھ کرنے کے بجائے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے ناصرف آسیہ بی بی کو بچانے بلکہ  ۲۹۵سی کو ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ دو سو پچانوے سی جس کے تحت توہین رسالت کی سزا موت پر نہ صرف بریلوی، دیوبندی، اہل تشیع اور اہل حدیث کے جید فقہا اور علماء کا اتفاق ہے بلکہ یہ قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بھی منظور شدہ ہے۔ ۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ قرارداد منظور ہوئی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہئے۔ اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید کی بجائے موت مقرر کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بھرپور بحث ہوئی جس کے بعد ۲۹۵سی کی منظوری ہوئی۔
بحرحال قانون توہین رسالت کے خلاف  سلمان و شہباز کی   ان کوششوں کا بالاخر انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنی جان سے گئے ۔سلمان تاثیر کے کیس کو دیکھا جائے تو وہ گستاخ رسول ہونے  سے ذیادہ قانون توہین رسالت کے خلاف اپنی کوششوں کی وجہ سے نشانہ بنتے نظر آتے ہیں ۔ یہی حال اقلیتی وزیر شہباز بھٹی کا ہے۔
دوسرا بڑا کیس جس پر جنید جمشید کے بہانے   شور کیا گیا وہ شبنم اور ساون مسیح کا تھا جنہیں چند ماہ پہلے ایک وڈیرے نے چند مقامی لوگوں کو ملا کر گستاخی رسول کے الزام میں جلایا تھا ۔ ملحدین نے اس بہانے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ سب اسی قانون کی وجہ سے ہوا ،یہ جملے پڑھنے کو ملے کہ یہ دونوں اس قانون کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ جنید جمشید آزاد پھر رہا ہے ۔  یہ ہے اس قانون کی حقیقت اور ان مولویوں کی منافقت جو اسکا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔۔
غور کیا جائے تو یہ اعتراضات بالکل بچگانہ ہیں کیونکہ ان دونوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس بستی کے لوگوں کا ذاتی فعل تھا جس کی مذمت خو د ہر مکتبہ فکر کے علماء نے کی تھی ۔ مزید نہ مستند علماء میں سے کسی نے اپنے طور پر کسی کو گستاخ کہہ کر قتل کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور نہ قانون میں ایسی کوئی بات موجود ہے بلکہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے سخت سزا قانون میں موجود ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اس فعل کا ذمہ دار علماء کو یا قانون کو ٹھہرانا اور پھر اسے جنید جمشید کے کیس کے ساتھ ملانا بالکل غلط ہے ۔
شائستہ واحدی کا کیس بھی زیربحث آیا ۔ شائستہ واحدی نے اپنےایک  پروگرام میں قوالی  کے دوران وینا ملک کو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کے شوہر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے روپ میں پیش کیا۔ اس کی معافی  ہوسکتی تھی  لیکن اس سے پہلے یہ اپنے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسلامی اقدار کے خلاف  اوٹ پٹنگ حرکتیں کرتی  رہی تھی اور  جیو چینل کا بھی اس حوالے سے پہلے سے  ریکارڈ خراب تھا اس لیے شائستہ واحدی اور جیو چینل کے خلاف احتجاج دیکھنے میں آئے لیکن شائستہ پر کسی بھی عالم نے فتویٰ قتل وغیرہ نہیں لگایا تھا ۔  جیو کی طرف سے فوجی سربراہان اور اداروں کے خلاف چلائی گئی میڈیا مہم بھی اس ردعمل  کی  ایک وجہ تھی اسی وجہ سے  انکو اب تک مختلف کیسز بشمول توہین رسالت کیس میں سمن بھیجے جارہے ہیں
نوٹ : راقم کا جنید جمشید کے ہر فعل سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

کیا ہم انقلاب کے مخالف ہیں...؟؟

انقلاب،   ترقی، شعور کی بیداری کی جدوجہد،  ظلم و جبر کے خلاف آواز ،  اپنا حق لینے کے لیے کوشش اور ایسی کوشش کرنے والوں کا حصہ بننا،  انکا ساتھ دینا ، انکی جانی و مالی مدد کرنا  ایسا احسن کام ہے جسکی کوئی عام آدمی مخالفت نہیں کرسکتا ہے، دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اِک جہاد ہے.  ایسی کوشش کرنے والوں کو تاریخ نے بھی یاد رکھا اور وہ لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ ہیں۔. 
قوموں کی ترقی،  اٹھان،  غلبہ، قوت ایسے ہی لوگوں کی مرہون منت رہی ، یہ لوگ عام لوگوں کی طرح ہی تھے لیکن انکی سوچ، ویژن، مقصد عام لوگوں سے مختلف تھا اس لیے   یہ جس زمانے اور قوم میں آئے سب سے پہلے انکی اپنی قوم نے  ہی انکی مخالفت کی، ان کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا،  ان کا مذاق اڑایا، انکو پاگل دیوانہ کہا، بعضوں کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن کوئی چیز انکو انکے مقصد سے نا ہٹا سکی، بلکہ انکے خلوص نیک مقصد، صاف بات، کهرے پن، قربانی نے آہستہ آہستہ انکے قدم جمانے شروع کر دیے  انکی آواز پھیلنا شروع ہوگئی، یہ اک فرد سے جماعت اور معاشرے میں تبدیل ہوگئے، امیروں کو اپنے کاروبار عیاشیوں سے فرصت کہاں تھی اس لیے ہر دور میں انکی تحریک کو غریبوں نے ہی سہارا دیا،  یہ غریبوں کی ہی آواز بنے. یہ خود بھی اپنا مال و دولت عزت شرف سرداری نسبت (اگر کوئی تھی )  اپنے مقصد پر قربان کر چکے تھے اس لیے اس طبقے کو بھی ان سے کوئی فرق محسوس ہوا نہ ہی کوئی تکلیف. یہ جب ان میں بیٹھے ہوتے تو کوئی انکو پہچان نہ سکتا تھا.
انکا نعرہ  ہی ایساتھا کہ چھوٹے سے چھوٹے ظالم کو بھی اپنا وجود اور کاروبار خطرے میں محسوس ہوا، پہلے انہیں  مال و دولت کی پیشکش کی گئی، پھر عہدے سرداری کا لالچ دیا گیا یہ چاہتے تو اس طاقت، خوشحالی، مال و دولت  اور عہدے کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے تھے لیکن ان چیزوں سے بہلائے نہیں جاسکے،  انکی تو پہلی آواز ہی اس ظالمانہ نظام اور اس کے رکھوالوں  کے خلاف تھی ان کا سہارا کیسے لے سکتے تھے، یہ کسی شارٹ کٹ  انقلاب سے واقف تھے نا کسی عارضی تبدیلی کی قائل. انکے نزدیک انقلاب محض حکومتی تبدیلی کا نام نہیں تھا بلکہ یہ  تبدیلی انسانوں کے  اخلاق و اعمال کی تبدیلی کی تھی، یہ انقلاب کے فطری راستے  پر چلے جو  دشواریوں اور صعوبتوں کا راستہ تھا لیکن اس سے آنے والی تبدیلی بھی پائیدار تھی ۔ انہوں نے جان بوجھ کر  مشکلات اور آزمائشوں کی راہ اختیار کی،  پهر حالات کی تجربہ گاہوں میں آزمائے بھی گئے، ظلم کی چکیوں میں سب سے پہلے انکے قائد کو پیسا گیا، انکے خلاف سکیمیں بنائی گئی اور انکی اپنی زمین ان پر تنگ کر دی گئی لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری،  دیار غیر میں بھی  اپنے مقصد سے نہیں ہٹے. قوت طاقت مال و دولت ملک جگہ جائیداد جو کچھ انکے پاس تھا وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہاں انکے پاس دینے کے لیے صرف اپنی جان تھی اور دکھانے اور پیش کرنے کے لیے اپنا کردار. لمبی چوڑی تقریر کرنے کی نہ کبھی انہیں ضرورت پڑی نہ انہوں نے کی. انکی اس عزیمت و قربانی کے نتیجے میں جو تبدیلی اور انقلاب آیا اس کے آثارآج صدیوں بعد بھی محسوس ہورہے ہیں۔.
ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اپنی زندگی میں اپنی محنتوں کے ثمرات نہیں دیکھ سکے لیکن انکی محنتیں خون، جدوجہد رائیگاں نہیں گئی،  اپنی قوم کو ایک شعور دے گئے، بعد کے آنے والوں، کوشش کرنے والوں کا کام آسان کر گئے، محنت کرنے والوں کو طریقہ بتا گئے کہ تبدیلی اور انقلاب کی محنت کیسے کی جاتی ہے۔.
ہم اور ہماری قوم انقلاب کے صرف اسی مطلب اور اسی طریق کو جانتے ہیں اور اسی سے مانوس ہیں.ہم  ایسی کسی تحریک  کو انقلابی تحریک تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو سرمایہ داریت کی کوکه سے نکلے، جس کی بنیادیں عصبیت و نفرت کی ہوں، جس کے لیڈر عورت کو سرعام نچوائیں، جس کے سپورٹر ظالم بدکار چوروں کے سردار ہوں، دھوکے باز لٹیرے ہوں۔سردار وڈیرے جن کے وزیر، مشیر اور ساتھی ہوں، وہ جو محلات میں رہیں اور بات غریب کی کریں. جن کے پاس پیش کرنے کے لیے صرف دوسروں کی خامیاں ہوں، وہی فرسودہ بہانے اور افسانے  گهڑیں.....ہم ایسے کسی شخص کو انقلابی ماننے کو تیار نہیں، چاہے یہ عمرانی نام کے ہوں یا شریفی، کهلے ہوئے منافق ہوں یا چھپے ہوئے، دنیاوی رنگ میں ہوں یا دینی، یہ انقلابی نہیں دھوکے باز ہیں، فراڈی لٹیرے ہیں ، یہ وارداتی ہیں جو اپنی کرسی اقتدار کے لیے سور کا گوشت بکرے کے نام سے بیچنے لائے ہیں، جو شراب کو آب زمزم کی بوتلوں میں پیش کررہےہیں، جو عوام کا اعتماد لینے کے لیے اپنے چہرے پر انقلاب کا نقاب چڑھا کر آئے ہیں،
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
 ہم اتنے بچے اور بهولے نہیں  ہیں کہ انہیں صرف اس وجہ سے  اپنا چارہ گر سمجھ بیٹھیں کہ یہ نعرہ انقلاب کا لگارہے. ہمارے لیے انقلابی نعرے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، ہم  انقلاب کے آنے کے طریقہ کار اور انقلابیوں کی صفات سے واقف ہیں. ہماری تاریخ انقلابیوں کی ہی تاریخ ہے، ہمیں خوشنما نعرے دے کر، اچھے خواب دکھلا کر،بہترین تقریریں کرکے بہلایا نہیں جاسکتا۔..

مکمل تحریر >>

جمعہ، 1 اگست، 2014

ایسا کیوں ہے..... ؟

اک زمانہ تھا  لوگ کہیں سیر سپاٹے کے لیے جاتے تو  اک کیمرہ بھی ساتھ لے جاتے، اس میں اک ایکسرا فلم بھروالیتے جس پر پچاس ساٹھ تصاویر کھینچنا ممکن ہوجاتیں .  کوئی خوبصورت منظر نظر آیا وہاں تصویر بنالی. چڑیا گھر گئے تو بندروں،  شیروں کے پنجرے کے پاس کھڑے ہوکر تصاویر بنالی جاتیں. یہ تصاویر واپس آکر فوٹو سٹوڈیو والے سے صاف کروائی جاتیں اور پھر سارے دیکھتے ، گھر میں کوئی مہمان آتا اسے بھی دکھائی جاتیں..
 اب جدید دور ہے اب  اتنا بھاری کیمرے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے اور نا اس میں فلم ڈلوانے کی نا اب اس جیسی تفریح رہی ہے . فلمی اداکاروں کے پتلوں، بندروں کے پنجرے کے پاس کھڑے ہوکر تصاویر تو اب تھرڈ کلاسیے، غریب غرباء نکلواتے ہیں.  جو  برگر فیملیوں والے سیکولر ٹائپ لوگ ہیں وہ  گھومنے پھرنے سوئٹزرلینڈ وغیرہ جاتے ہیں اور وہاں تصویریں نکالتے ہیں اور  'اللہ والے' انہی پیسوں سے حج عمرے پہ چلے جاتے اور پھر روزہ رسول کے پاس اور خانہ کعبہ کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بناتے ہیں اور ہر اینگل سے بناتے ہیں..یہ تصاویر بھی مقدس ہوتی ہیں ان کا وہ برگری کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں ؟ کہاں  کافروں کے ملک میں کسی برف کے ٹیلے کے پاس کھڑے ہوکر بنائی گئی تصویر اور کہاں وہ تصویر جو خانہ کعبہ  اور روزہ رسول جیسے مقدس مقام کے پاس بنائی گئی ہو.. !! 
مسلمان اس تصویر کا مقام جانتے ہیں اس لیے جب بھی  وہاں جاتے ہیں خوب تصویریں بناتے ہیں. کچھ دیوانے تو ایسے ہیں کہ کسی  اور کام میں بالکل ٹائم ضائع نہیں کرتے ، ہر وقت اور ہر جگہ کی بناتے ہیں.  اگر انکی تصاویر کو آپس میں ترتیب سے جوڑا کر تیز فارورڈ کیا جائے تو پورے سفر کی مووی دیکھنے کی سعادت بھی نصیب ہو سکتی ہے. 
ایسا نہیں ہے کہ انہیں  سوئٹزرلینڈ وغیرہ پسند نہیں ہیں بلکہ  انکا  رزق حلال ہے اور یہ اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانا جانتے ہیں. کوئی متعصب ہی داد نہ دے گا اس فہم کی کہ یہ اک ٹکٹ میں دو کام کرتے  ہیں، تمام لوازمات کے ساتھ سیر کا مزہ بھی لے لیا اور ثواب بھی پکا اور گریبی میں مذہبی ،حاجی وغیرہ ہونے کا لقب بھی مل گیا اسکے علاوہ جو تصاویر نکلوائیں انکا ثواب علیحدہ.   اس مہنگائی کے دور میں ہر کوئی حج عمرے پر جا نہیں سکتا. یہی تصاویر ہی ہیں جو عاشقوں کی پیاس بجھانے میں استعمال ہوتی ہیں جب حرم سے فیس بک پر اپ لوڈ ہوتی ہیں تو نورانیت بھی انکے سات اپ لوڈ ہوجاتی ہے ، اگرتھوڑی سی مشہور شخصیت کی ہوں تو پھر تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے،   صدقہ جاریہ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں  انکو لائیک کرنے پر اک نیکی اور ہر شئیر پر دو  نیکیاں ملتی ہیں.  ایسی نفع والی چیز  پر سارا حج عمرہ قربان. . .نمازیں اور درود تو گھر میں بھی پڑھے جاسکتے ہیں لیکن گھر میں حرم اور مسجد نبوی کے پاس کھڑے  تصاویر کیسے بنائیں.. . ?
اتنا کرایہ لگا کر آئے،  کون جانے ہے کہ یہاں آنے کے لیے پیسے کیسے جمع ہوئے، بیوی،  بچوں اور اپنی ضروریات کو کتنا محدود کیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے یہاں آکر دو کپڑے اوڑھے بیٹھے ہیں. کیا یہ کم عبادت ہے ؟  اگر ایسا کچھ نہ کیا جائے ،یکسو ہو کر صرف عبادت ہی کر لی جائے، آو زاریاں اور رو رو کر معافیاں  مانگ لی جائیں تو کون بندہ دیکھے ہے؟  کس کو کیسے پتا چلے گا کہ ہم کہاں گئے تھے اور وہاں کیسی مقدس جگہوں پر جانے کی ہمیں سعادت نصیب ہوئی تھی؟ ویسے بھی یہ کوئی غلط کام نہیں ، دین کی اتنی فہم تو ہم بھی رکھتے ہیں، پرانے قدامت پسند مولویوں کو پتا نہیں اس میں کیا برائی نظر آئی تھی آج کے علماء نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے.  ہماری کئی مولویوں سے  دوستی ہے انہی سے یہ مسائل سنے ہیں . اس سفر میں بھی کچھ مسائل پیش آئے، واپس جاکرانکے بارے میں بھی راہنمائی لینے کا ارادہ ہے. اک بات جو بہت محسوس کی پوچھنی ہے  وہ یہ کہ بڑے بتاتے تھے کہ وہاں روضہ رسول پر اور حرم کے سامنے   تو حالت ہی بدل جاتی ہے، بندہ دیوانہ ہو جاتا ہے،  بے ساختہ آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں.... ہمیں تو ایسا کچھ بھی محسوس نی ہوا نا  ہی وہاں کسی ایسے پر نظر پڑی....معلوم نہیں  ایسا کیوں ہے..... ؟؟!!!.
مکمل تحریر >>

جمعرات، 31 جولائی، 2014

درس قرآن وحدیث کیسے دیں ۔۔۔؟

قرآن و حدیث کی واضح نصوص اس کی دلیل ہیں اور چودہ صدیوں پر پھیلی اسلامی تاریخ کا ہر ہر ورق بھی اس کا زندہ ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی کا ایک اہم سبب ” قرآن کریم“ سے دوری، بے رغبتی، غفلت اور روگردانی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان  بھی واضح پیغام اور کھلی تنبیہ ہے  کہ : ” ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“ بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن کے ذریعہ بہت سی اقوام کو سر بلند فرماتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں.
درس قرآن کی روایت شروع سے مسلمانوں میں عام رہی ہےاور ہر دور میں علماء نے عوام کی تربیت اور تعلیم کے لیے اسکے حلقے لگائے رکھے، ہمارے آج کے علماء بھی اسی انداز میں یہ کام کررہے ہیں. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   ان علماء اور ائمہ مساجد کے پاس ہر سہولت موجود ہے،  علم بھی ہے اور سننے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ بھی لیکن پھر بھی ان جیسی رونق  اور اثر کیوں نہیں ۔؟. ایک جواب یہ دیا جاسکتا ہے  اخلاص، درد اور کڑھن کی کمی ہے. بالکل یہ موجود ہے.  لیکن بعض جگہ اخلاص گوکہ ان اسلاف کے درجے کا نہیں' کے باوجود بھی فاعدہ نظر نہیں آیا. ایک بڑی کمی جو عام نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ جتنا علم انکے پاس موجود ہوتا ہے یہ  اس سے بھرپور فاعدہ اٹھانہیں سکتے، اسکو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتے کہ  عوام تک  صحیح انداز میں بات پہنچ جائے. اس طرف بالکل  توجہ نہیں کی جاتی کہ  مجمع کا علمی لیول اور انکی ضرورت کیاہے،    وہ جو ٹائم نکال کر سننے بیٹھے ہیں اس ٹائم کو کس طرح بھرپور استعمال کیا جائےاور کس انداز میں استعمال کیا جائے کہ درس قرآن سننے والوں میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ قرآن کے پیغام کو سمجھنا بھی شروع کریں. درس قرآن میں  آیت کی تلاوت اور ترجمہ کے بعد  بات کا رخ ذیادہ سے ذیادہ علمی نکات، بزرگوں کے واقعات اور فقہی ابحاث  کی طرف چلا جاتا ہے اور اسی پر پھر اختتام بھی ہوجاتا ہے.ظاہر ہے ایسی حالت میں درس قرآن کی محفلیں کب بارونق ہو سکتی ہیں اور جدید مسائل سے دو چار انسانوں کے مسائل کب حل ہو سکتے ہیں اور ان کی پیاس کب بجھ سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ  جو خالص انگریزی ماحول میں پلے بڑھے، جن کو کبھی عربی زبان وادب سے واسطہ نہیں پڑا، انہوں نے اردو تفاسیر سے ترجمہ دیکھ کر فہم قرآن کے نام سے عوام الناس میں اپنا مشن ونظریہ پھیلانا شروع کیا پھر بھی لوگ انکو سنتے ہیں. انکا حلقہ بڑھتا گیا اور جارہا ہے.  وجہ دیکھی جائے تو سب سے بڑی یہی نظر آتی ہے کہ وہ عوام کے لیول اور پسند ناپسند جانتے ہیں. وہ یہ جانتےہیں کہ عوام کی توجہ کیسے حاصل کی جاسکتی اور برقرار رکھی جاسکتی ہے جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اسکو اچھی طرح پریزنٹ کرنا جانتے ہیں.
علماء میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف تجربہ کار علماء نے  بہت اچھے انداز میں لکھا اور علماء کو کورس کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا. حال  ہی میں جامعۃ الرشید کے ایک مشہورعالم مفتی ابولبابہ شاہ صاحب کی اس موضوع پر ایک کتاب " درس قرآن کیسے دیں" کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے.یہ علماء کی اس مسئلے میں  تربیت پر ایک شاندار کتاب ہے. ہم اس تحریر میں اس کتاب کا خلاصہ انہی کا ترتیب دیا ہوا قارئین کے لیے پیش کرنے جارہے ہیں.
























اس تحریر سے اصل فاعدہ علماء ہی اٹھا سکتے ہیں. غیر عالم دوستوں سے درخواست یہ ہے اگر وسعت ہو تواسکا پرنٹ نکال کر اسکی فوٹو کاپیاں کروا کر اپنے علاقے کے علماء حضرات کوپیش کریں..خیر کا کام جس درجہ میں ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔.یہ  پی ڈی ایف فارم میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے.
مکمل تحریر >>

اتوار، 29 جون، 2014

دلنشین اور آسان ترین ترجمہ قرآن

رمضان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، وه  مسلمان جسے سارا سال  الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا خیال تک نہیں آتا مگر رمضان کا چاند نظر آتے ہی  وہ  بھی نیکیوں کی  اس دوڑ میں اور   اپنے دین  و ایمان کی فکر کرنے والوں میں شامل ہوجاتا ہے. لوگ وہ سبق جو وہ دن رات کے جھمیلوں ، پریشانیوں میں کہیں بھول بسار گئے ہوتے ہیں اس کو دوہراتے،  تجدید عہد کرتے نظر آتے ہیں،   ہر شخص اپنی ہمت و توفیق کے مطابق رمضان کی برکات کو سمیٹتا نظر آتا ہے۔ اس مہینہ میں نماز، روزہ، صدقہ کے اہتمام کے علاوہ  لوگوں کا  قرآن کے ساتھ  بھی تعلق بڑھ جاتا ہے، حافظ ہوں یا غیر حافظ سب اپنی سارے سال کی کمی اس مہینے میں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں،  بہت سے لوگ ایک قدم آگے چلتے اور  ترجمہ و تفسیر سے  اسکے پیغام کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود ہم سے کئی دوست اس سلسلے میں مشورہ لیتے رہتے ہیں کہ  کوئی ایسا ترجمہ بتائیں جو  مستند بھی ہو اورہمیں آسانی سے سمجھ بھی آجائے۔ کچھ عرصے پہلے اس سلسلے میں تھوڑی الجھن ہوتی تھی کہ  قرآن کریم کا  کونسا ترجمہ تجویز کیاجائے؟ کوئی ایسی  مختصر  اور آسان تشریح ہو جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دےاور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ الجھن کی وجہ  یہی تھی کہ  ہمارے ہاں  قرآن کے رائج  اردو  تراجم  میں عموما  مترجم کا   انداز خالص  علمی اور  فقہی  ہوتاہے ، پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین اردو" میں ہوتا   اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی ہوتے ہیں  ، مزید علماء حضرات  ترجمہ میں  فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے  ہیں   اور یہ سب  عموما  ایک غیر عالم ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں  یا  ایسے لوگوں  کے لیے  جنکا دینی علوم  اور  کتابوں  سے قریبی  تعلق نہ ہو ' سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ جو  قرآن کے ترجمہ اور پیغام کو اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہیں شاید  اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ علماء کے تراجم بلاشبہ علم و ادب کے اعلی معیار پر ہیں، ان کا انداز تحقیق اور اسلوب بیان محتاج بیان بھی نہیں ، لیکن مشکل اردو اور اصطلاحات کے استعمال کی وجہ  بہت سے لوگ ان کومکمل  سمجھنہیں سکتے۔  ہمارے ہاں اردو  زبان میں  چند سال پہلے تک  ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سب کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی اس  لیے  ہم اپنے حلقے میں  ترجمہ کے لیے  مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن کی  پڑھنے کا کہہ دیتے تھے اور تفسیر کے لیے تفسیر عثمانی اور تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع کرنے کا کہتے۔ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ وہی ہے  جو  مارکیٹ میں  شیخ عبدلارحمن السدیس اور شیخ عبدالباسط  کے اردو ترجمہ والے   قرآن کی کیسٹ اور سی ڈیز میں بھی  استعمال کیا گیا ہے۔۔ چند سال پہلے عصر حاضر کی ایک عبقری صفت اور  نابغہ روزگار شخصیت جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے  قرآن کے تراجم   پر کام شروع کیا ، اس سلسلے کی آپ کی پہلی کاوش  آپ کا  انگریزی میں ترجمہ قرآن کریم  تھا جو تین سال قبل چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایک  ایسی ضرورت تھی جو مسلمانوں اور انگریزوں کے  ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو تراجم موجود تھے وہ کسی ایسے عالم کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ وہ  یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند ہونے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔    اس کے بعد آپ نے   بہت سے لوگوں کے مطالبہ  اور  خود اردو زبان میں موجود  تراجم کی اس کمی کو محسو س کرتے ہوئے   قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھنا  شروع کیا جو حال  ہی میں  "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے  چھپ کر سامنے آیا۔
ترجمہ کی چند خصوصیات :۔
قرآن کریم کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو دینی علوم ،  خصوصاً علوم عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری نظر۔علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع)۔ علمی حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی دارالعلوم کراچی  میں  انہی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہےاور ادبی اعتبار سے آپ کا قلم نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں ہر میدان میں لوہا منوا چکا ہے ۔ آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ ویسے قرآن کے  ترجمہ  کے لیے علوم عربیت   میں مہارت سے  ادب میں مہارت بھی ذیادہ  اہم ہوتی ہے، ہمارے ہاں عوام   کو اسی لیے  غیر عالم  اسلامی اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز کے درس قرآن وغیرہ سننے ، پڑھنے سے  منع کیا  جاتا ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اردو ادب کے تو بہت ماہر ہوتے ہیں ، اچھے کہانی نویس، منظر نگاری کرنے والے اور انشاء پرداز ہوتے ہیں   لیکن انکی  اوپر گنائے گئے علوم خصوصاً "علم الفقہ" سے ناواقفیت اور عربی  زبان  میں عدم مہارت  کی وجہ  سے  "آیات الاحکام" کی تفسیر میں انکی  کی جانے والی غلطیوں سے عوام کے دینی  نقصان کا اندیشہ ہوتا  ہے جبکہ علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دور طالب علمی میں یہ  علوم پڑھ چکے ہوتے ہیں۔  تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ قرآن  دونوں خوبیوں کو لیے ہوئے ہیں،  مزید آپ  نے اپنے اس ترجمہ قرآن میں بہت سی ایسی  چیزوں  کو بھی شامل کیا  جن کی  پہلے تراجم میں کمی محسوس کی جاتی   تھی  ۔ مثلا
سورتوں کا تعارف:۔
ہر سورت سے پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں سورت کا ضروری تعارف ، اس میں بیان ہونے والے مضامین واقعہ کا خلاصہ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ تعارف میں   مصنوعی ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں ایک  مبسوط مقدمہ بھی دیا گیا ہے جو مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ 
 مختصر تشریحات :۔
ترجمہ پڑھنے کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 
سلیس و دلنشین انداز تحریر :۔ 
 بیان زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً:

هَيْتَ لَكَ

"آ بھی جاؤ" (یوسف:23)۔

فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ

"ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)۔

تراکیب کے بامحاورہ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:۔

نَسْيًا مَنْسِيًّا

بھولی بسری

قِسْمَةٌ ضِيزَى

بھونڈی تقسیم

سَبْحًا طَوِيلًا

لمبی مصروفیت

 لفظی اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں:۔

مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ۔"

کیا بات ہے؟ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ۔

""اب تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔

"اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)

 اصل الفاظ کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت  کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس گھاٹی سے گزرے ہیں:.

فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا۔

"پھر جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)

فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ۔

"تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)

وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا۔

"بلکہ یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" ( الفرقان:22) اسی طرح

وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔

"اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" (البقرۃ:7)۔
 دوبارہ پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)

"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔"
 پہلی آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔

 جملوں کی سادگی ملاحظہ فرمائیں۔

قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ۔

کہنے لگے " اباجی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کرنے چلے گئے تھے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اسے کھاگیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔

گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں ۔ پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔

اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ

کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا تھا؟ پھر اچانک وہ کھلم کھلا جھگڑا کرنے والا بن گیا۔ ہمارے بارے میں تو باتیں بناتا ہے اور خود اپنی پیدائش کو بھول بیٹھا ہے۔

مختلف تراجم کے ساتھ تقابل:۔
 عربی کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم "آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا پانچ مشہور معاصر تراجم کے ساتھ تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔

 پہلی مثال:.

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لقمان:20 

"اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
 "اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
 "اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک) 
"اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

 دوسری مثال:۔

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ (الاحزاب: 04)

"نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا ہے۔" (مولانا مودودی)
 "اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
 "اور نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
 "اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
 "اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

ظہار کے حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔

 تیسری مثال:.

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)

"(ایوب علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا مودودی)
"کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"بہت خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"بہترین بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"وہ بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

"اواب" کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔

 آخری مثال : "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (یوسف:24)

"وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو نہ دیکھ لیتا۔" ( مولانا مودودی)
"اور بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

سبحان اللہ! ترجمہ ایسا کیا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ ۔

تحریر طویل ہوتی جارہی ہے اس کو یہیں ختم کرتے ہیں، مقصد کتاب پر کوئی   کوئی مقالہ لکھنا نہیں بلکہ صرف اس ترجمہ کی کچھ خصوصیات کی طرف متوجہ کرنا تھا ، باقی اس کو پڑھنے والے اس سے ملنے والے سرور اور نفع کا خود اندازہ کرلیں گے، ان سب خصوصیات کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ  اس ترجمہ میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔

ایک نئی روایت :.
 اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے مطالعے کا شوق رکھنے والے حضرات کو یہ ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں ، آسان ترجمہ قرآن میڈیم کوالٹی پرنٹ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا ہے، اسکا ایک نسخہ اپنی گھریلو لائبریری میں رکھا جائے ، وسعت ہو تو قریبی لائبریری یا مسجد کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے ، اپنے امام صاحب سے اس ترجمہ کا کورس شروع کروانے کا مطالبہ کریں ، اس کے علاوہ ترجمہ اعلی کوالٹی پرنٹنگ میں بھی دستیاب ہے وہ تکمیل القرآن اور نکاح وغیرہ کے موقع پر گفٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ پہنچ رکھتے ہیں وہ سعودی حکام کو ایک یادواشت بھیج سکتے ہیں کہ عمرہ اور حج کے لیے جانے والے مہمانان حرم کو یہی نسخہ ہدیہ دیا کریں۔ مزید بہت سے مصنفین و مؤلفین اور مضمون نگار و تحقیق کار حضر ات کو اپنی تحریروں میں قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دینے کی ضرورت پیش آئے تو  وہ اس ترجمہ قرآن سے ترجمہ نقل کرسکتے ہیں۔خیر کی بات جس درجہ میں  ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔ )

تراجم کی سافٹ کاپی :۔

ڈائریکیٹ ڈاؤنلوڈ لنکس ہیں، رائٹ کلک کرکے سیو ایز کرنے سے ڈاؤنلوڈ سٹارٹ ہوجائیگی۔



سکین کاپی تینوں جلدیں
Read Online
Download
Volume 1 [14] Volume 2 [13] Volume 3 [15]i


کمپیوٹرکاپی
[Download 7mb]

آن لائن منگوانے کا طریقہ :۔ 

پاکستانی مارکیٹ  میں دونوں تراجم ہر اچھے اسلامی کتب خانہ سے باره سو سے لے كر دو ہزار تک میں  ہدیہ کرائے جاسکتے  ہیں،  جو دوست فارن کنٹری میں رہائش پذیر ہیں اور  وہ  آن لائن منگوانا چاہیں تو  وہ  امریکہ سے چلنے والے اس معروف ادارہ کی سائیٹ سے انگلش ترجمہ   یہاں سے اور اردو یہاں  سے ہدیہ کراسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے مشہور آئن لائن اسلامک بک سٹورز پر یہ ترجمہ دستیاب ہے۔


( تحریر میں موجود تراجم پر تحقیق معروف عالم دین مفتی ابو لبابہ شاہ صاحب کے کالم سے لی گئی ہے)
مکمل تحریر >>

بدھ، 25 جون، 2014

مولانا دریابادی کے سفر دہریت کی داستان- دوسرااورآخری حصہ

الحاد و اتداد کا  یہ دور دس سال تک رہا ، پھر  ان تدریجی تبدیلیوں  کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام کی طرف آنا شروع ہوئے۔ ابھی ابتداء ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے  باہر آگئی، دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اورنفس شوم کو جو سب سے بڑی ٹھوکر لگی تھی وہ سیرت اقدس  کی ہی تو تھی اور خاص طور پر غزوات و محاربات کا سلسلہ۔ظالموں نے نجانے کیا کچھ ان کے دل میں بٹھا دیا تھا اور ذات مبارک کو نعوذباللہ ایک ظالم فاتح دکھایا تھا۔  خود لکھتے ہیں :
" شبلی  نے اصل دوا اسی دردکی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا ۔ کتاب جب بند کی تو چشم تصور  کے سامنے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک و قوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی، جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخری درجہ میں ، ہر طرح پر مجبور ہو کر، یہ مرتبہ یقیناآج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے اور شبلی کی کوئی قدروقیمت نظر نا آئے گی  لیکن اس کا حال ذرا اسکے دل سے پوچھئے جس کے دل میں نعوذبااللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف جما ہوا تھا ۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں"۔(آپ بیتی)
 اسکے بعد  مثنوی مولانا روم  مطالعہ  میں آئی ، پڑھنا شروع  کی تو  ایسا محسوس ہوا جیسے  کسی نے جادو کردیا  ہو، کتاب چھوڑنا چاہیں بھی تو کتاب نہیں چھوڑ رہی ، ایسی کشش و جاذبیت کہ دیوانوں کی طرح ایک مستی  کا عالم طاری ہے ، نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ، بس کمرہ بند کرکے خلوت میں کتاب پڑھے جارہے ہیں  کہیں  آنسو  نکلے اور کہیں چینخ بھی پڑے ،   ادھر کتاب  ختم ہوئی  ادھرشکوک و شبہات  بغیر کسی ردو قدح میں پڑے اب دل سے کافور تھے،پھر یہی حال مکتوبات مجدد سرہندی کو پڑھ کر ہوا ۔الحاد کی گرہ کھل چکی تھی۔ مدتوں بعد وضو کر کے مصلے پر آئےاور خدا کے حضور کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے۔گناہوں کا خیال آیا تو چینخیں نکل گئیں۔ عفت کی آنکھ کھلی شوہر کو اس حال میں دیکھا تو شکر ادا کیا ،  شوہر کے آنسوؤں میں پھر اس کے آنسو بھی شامل ہو گئے،رات بھر یہی حالت رہی اور  فجر کی نماز مسجد میں  جاکر پڑی۔ایک دن گھر پر بیٹھے بیٹھے اپنے نکاح کا خیال آگیا کہ میں تو اس وقت کسی اسلامی رسم کا قائل ہی نہ تھا جب نکاح ہو رہا تھا تو میں دل میں ہنس رہا تھا، بس نمائش میں بیٹھا تھا ۔دل سے تو قبول نہیں کیا تھا ۔بس تجدید نکاح کی ٹھان لی بیوی سے ذکر کیا تو ًبولیں یعنی آپ مجھے بیوی بنانے پر آمادہ نہ تھے؟ کہا بالکل تھا ،مگر ایسے جیسے کہ ایک ہندو ہوتا ہے ،نکاح کے وقت جب آیات پڑھی جارہی تھیں تب میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کلام الہی نہیں ہے۔ ایک مولوی صاحب کو  بلوایا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا ۔
تجدید اسلامی کے بعد جوش اٹھا تو آستانہ اجمیری پر حاضری دی۔ قوالیوں کی آوازیں چہار سو تھیں ، عرس کا زمانہ تھا، ہر جانب لوگ ہی لوگ تھے ۔عبدالماجد کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے ، گورا رنگ،داڑھی سفید گول اور نورانی، نکلتا ہوا قد،آنکھوں پر چشمہ، سر پر ٹوپی۔عارفانہ کلام پڑھا  جانے لگا تو عبدالماجد  بھی جھوم اٹھے۔لوگ حیران تھے مگر ان کے قلب کی کیفیت کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پھر چشم فلک نے انہیں درگاہ خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ مینا ، خواجہ نظام الدین اولیاء کے  چکر کاٹتے دیکھا۔ دولت ایمان تو اب بلا شبہ نصیب ہوگئی تھی لیکن ابھی تک رواجی تصوف و خانقاہی مشیخیت میں ٹھوکریں کھارہے تھے ۔ اپنی اصلاح کے لیے  کسی سے باقاعدہ  بیعت  ہونے کی ضرورت محسوس کررہے تھے  لیکن عام آدمی تو نہ تھے کہ آنکھ بند کر کے کسی کے بھی مرید ہو جائیں ان کا مرشد بھی انہی کے معیار کا ہونا چاہیئے تھا۔کبھی سوچا کہ مولانا  محمد علی جوہر سے بیعت کریں  تو کبھی کسی دوسرے کا خیال آتا۔ خود لکھتے ہیں :
" مرشد کی تلاش ایک عرصہ سے جاری تھی، تصوف  اور سلوک کا ذخیرہ جتنا کچھ بھی فارسی ، اردو اور ایک حد تک عربی میں ہاتھ  لگ سکا تھا، پڑھ لیا گیا تھا، اتنی کتابیں پڑھ ڈالنے اور اتنے ملفوظات چاٹ جانے کے بعد اب آرزو اگر تھی تو ایک زندہ بزرگ کی۔ حیدر آباد اور دہلی  اور لکھنو جیسے مرکزی شہر اور اجمیراورکلیر، دیوہ اور بانسہ، رودلی اور صفی پور ، چھوٹے بڑے ' آستانے ' خدا معلوم  کتنے دیکھ ڈالے اور سن گن جہاں کہیں کسی بزرگ کی بھی پائی، حاضری میں دیر نہ لگائی ، حال والے بھی دیکھنے میں آگئے اور قال والے بھی، اچھے اچھے عابد ، زاہد ، مرتاض  بھی اور بعض دوکاندار قسم کے گیسو دراز بھی، آخر فیصلہ یہ کیا کہ انتخاب کے دائرے کو محدود کرکے حلقہ دیوبند کا تفصیلی جائزہ  لیجیے۔ ۔ وصل بلگرامی بولے کہ'  بہت دوڑ دھوپ آپ کرچکے ، ذرا ہمارے  مولانا (مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)کا بھی تجربہ کیجیے، سب کو بھو ل جائیے گا، تھانہ بھون اگر دور ہے تو قصد السبیل  اور تربیت السالک وغیرہ تو میرے پاس ہی ہیں، ا نہیں تو دیکھ ڈالیے'۔اچھا ! ان خشک مولوی صاحب نے تصوف پر بھی کچھ لکھا لکھایا ہے؟ خیر، دیکھ ڈالنے میں کیا مضائقہ ہے۔ دوسری صبح کتابوں کے ساتھ وصل میرے ہاں لکھنو میں موجود۔ کتابیں پڑھ کر جب بند کیں تو عالم ہی دوسرا تھا ؛
اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں 
اپنا جہل اپنے سامنے آئینہ معلوم ہوا کہ اب تک جو کچھ اس سلسلہ میں پڑھا  تھا، سنا تھا، جانا تھا، وہ بس جھک ماری تھی، تصوف کی حقیقت، طریق کی تعریف ، آج پہلی بار دل و دماغ کے سامنے آئی، قصد السبیل  پڑھتا جاتا تھا اور سطر سطر پر، پردے نگاہوں سے ہٹتے جاتے تھے، رہ رہ کر طبیعت اپنے ہی اوپر جھنجھلائی تھی کہ اب تک کیوں نہ پڑھا تھا ، بارہ برس کی مدت کوئی تھوڑی ہوتی ہے "۔ (حکیم الامت،صفحہ نمبر 10، 11)
 تھانوی رحمہ اللہ  سے مراسلات شروع ہوئے ، ایک   سال تک مراسلات پر دلوں کا حال بیان  ہوتا رہا پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں ،   اتنے متاثر ہوئے  کہ ایک جگہ لکھا  کہ  اگر میں عقیدہ تناسخ کا قائل ہوتا تو کہہ اٹھتا کہ امام  غزالی رحمۃ اللہ دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔ بیعت کی بات کی تو حضرت تھانوی نے ان کا سیاسی میلان دیکھتے ہوئےمولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ  کو کہا  کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں۔ عبدالماجددیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی۔بیعت مدنی رحمہ اللہ  سے  ہوئی مگر عقیدت اور اصلاح کا تعلق   تھانوی رحمہ اللہ سے  ہی رہا ۔ شیخ کی  وفات کے بعد انکی سوانح عمری 'حکیم الامت نقوش و تاثرات '  لکھی  جو  پانچ سو سے زائد  صفحات  پر مشتمل ہے  کتاب کیا ہے ایک  فلسفی مرید کے اپنے مرشد و مصلح   کے ساتھ بیتے لمحات،  ملاقاتوں  کے احوال  اور عقیدت  و عشق میں ڈوبے ہوئے تاثرات کا مجموعہ  ہے  ۔  اس کے علاوہ  حضرت تھانوی کی ایک مشہور کتاب مناجات مقبول جو  قرآ نی و حدیثی دعاؤں کا خوبصورت گلدستہ ہے ۔  اسکی عام فہم زبان میں شرح لکھی ، شرح ایسی ہے کہ    قاری دعائیں پڑھنے   کے بجائے دعائیں مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، دعاؤں میں مزا آنے لگتا اورالفاظ کی چاشنی اور عاجزانہ انداز  قلب کی کیفیت بدلت دیتا ہے۔
 کچھ عرصہ بعد  دریا باد منتقل  ہوئے اور  اس  کی خاموشی میں کام کرنے کا خوب موقع ملا۔ کئی  ایسے ادبی مضامین قلم سے نکلے کہ جو ہمیشہ یاد رکھے گئے ،غالب کا ایک فرنگی شاگرد،مررزا رسوا کےقصّے،اردو کا واعظ شاعر، پیام اکبر، اردو کا ایک بدنام شاعر،گل بکاؤلی ، مسائل تصوف اور موت میں زندگی وغیرہ  ان مضامین نے تنقید کی دنیا میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔ تجدید اسلام کے  بعد  ایسے دور سے گذر رہے تھے کہ  ان کا میلان زیادہ تر قرآن اور متعلقات قرآن ہی پر وقف ہو گیا تھا  ،تصوف  بھی  انکا  خاص موضوع رہا ، سو ایک کتاب “تصوف اسلام " لکھ ڈالی اور رومی کے ملفوطات کو بھی  ترتیب دیااورقرآن کے انگریزی ترجمے اور تفسیر  جیسے بلیغ کام کا بھی  آغاز کیا ۔
بیسویں صدی کا ہندوستان “اخبارات ” کا ہندوستان تھا ،کئی اکابرین نے صحافت کے نئے باب رقم کئے تھے، ہندوستان کی سیاسی و مذہبی لہروں کی گونج اخبارات میں سنائی دے رہی تھی۔خود عبدالماجد ایک عرصہ اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے تھے، سو جانتے تھے کہ ہنگامی اور اہم موضوعات کو عوام تک پہنچانے کے لئے اخبارات سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔سوچا کیوں نہ اپنا ایک اخبار ہی نکالا جائے، ادیب دوستوں سے مشاورت کے بعد  اخبار کا نام “سچ” تجویز کیاگیا۔ تیاریاں مکمل ہوئیں اور عبدالماجد کی زیر ادارت ہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اس   وقت  ردبدعات ، معاشرے میں پھیلی فکری غلط فہمیوں   کی اصلاح،   تجدد اور ترقی پسندی کے پردے میں مغرب نقالی  کا رد اخبار کے خاص موضوعات تھے۔ یہ دور  کئی قسم کے  فرقوں کی پیدائش،  سیاسی  افراتفری اور  انتشار  کا دور تھا، اس لیے سچ کو اپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں بھی لڑنا پڑیں، آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے۔شروع میں توجہ اصلاح  رسوم و ردبدعات پر ذیادہ تھی اس لیے قدرۃ اہل بدعات بھی ناراض رہے   اور وہابیت کا  ترجمان ہونے کے القاب ملے،  پھر جب سعودی شریفی  آویزش پر نکتہ چینی شروع  تو بدعتیوں کا پشت پنا کہا گیا ، بعض ہم خیال طبقات کی دشمنی بھی مول لینی پڑی  لیکن سچ لکھنے کے لئے عبدالماجد نے کبھی مصلحت کو آڑے آنے نہ دیا۔  تنقید کی تو  ہمیشہ ذاتیات کا پہلو بچا کر ، حق کو حق اور باطل کو باطل بلا  کسی مسلک ، جماعت  کے خیال   اور بغیر کسی تعصب  کے کہا ۔ اپنے سابقہ تجربہ کی وجہ سے الحاد  کی طرف جانے والے تمام راستوں سے واقف تھے اس لیے   بلاوجہ کی تجدد پسندی،  روشن خیالی ، مذہب بیزاری اور فلسفیانہ مغالطے پھیلانے والوں سے مقابلہ    ہر محاذ پر رہا ،اسی طرح  الحاد براستہ  انکار حدیث سے تو مدتوں جنگ رہی ۔  نیاز فتح پوری کے الحاد و فتنہ نگار کے  علمی رد کے لیے مہینوں اپنے کو وقف رکھا ۔
سچ کی ہنگامہ آرائیوں میں مصروف رہ کر عبدالماجد اپنے خاص علمی کاموں سے دور ہوتے جا رہے تھے،قرآن مجید کے انگریزی اور اردو ترجمے و تفسیر کے لئے کافی وقت درکار تھا اس  کے لیے آخر   “سچ”کو اس کارنامہ عظیم کی خاطر بند   کرکے  پوری جانفشانی سے تفسیر کا کام شروع کیااور  دریا باد کی تنہائیوں میں وہ کارنامہ سرانجام دینے لگے جو علوم دینی میں ایک اہم باب کا اضافہ کرنے والا تھا۔ عبدالماجد  مغربی علوم کے ماہر اور قدیم اور جدید تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تھے ،بائبل کے تمام ادوار انکی نظر میں  تھے اور  شروع میں پادریوں   کی علمی  یلغار  کا مقابلہ  بھی کرتے رہے تھے ۔اس کے علاوہ  فلسفہ شروع سے انکا خاص موضوع رہا   تھا،ایک عرصہ تک مغربی فلسفہ سے متاثر ہوکر الحاد و تشکیک کا شکار  رہے  تھے اس لیے اسکی حقیقت کو  بھی دوسروں سےذیادہ  سمجھتےتھے ،  شروع کی زندگی تو گزری ہی ہمہ وقت فرنگی علوم و فنون ،  فلسفہ و نظریات کی فتنہ سامانیوں  اور معاشرے میں پھیلی فکری گمراہیوں  کے علمی رد میں تھی ۔  اپنی گزری عمر کے اس سارے علم اور  تجربے کا نچور   اس تفسیر میں پیش   کیا،   تفسیر میں   مغربی مفکرین، فلسفیوں، مبلغین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کے  علمی جوابات بھی موجود ہیں  اور اسکے اثرات سے پیدا ہونے والے لادینیت الحاد و تشکیک کے امراض کا شافی علاج بھی ۔ مغربی فلسفہ زدہ یورپ پلٹ معاشرہ کے لیے یہ  تفسیر  آب حیات سے کم نہیں ۔   مولانا نے اس میں رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز  رکھی اور قرآنی آیات والفاظ  کی جو  عصری تطبیق پیش کی  اس میں  تفسیر بالرائے سے  بچنے  کی کوشش میں  اکابر علمائے تفسیر  کی تحقیق  کو  بھی مدنظر رکھا اس لیے  جہاں تفسیر میں  بائبل، تورات،  وید، گیتا ، بدھ تعلیمات ، مجوسی مفکرین، قدیم و جدید فلسفیوں کے حوالہ جات اور انکے مدلل جوابات  نظر آتے ہیں وہاں عظیم مفسرین کرام کی تفاسیر کے اقتباسات کو بھی  پیش کیا گیا ہے۔ آپ کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی   چونکہ ہر قدم پر ہدایات اور مشاورت  میسر رہی    اس لیے    قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو بھی   مستند  ہیں ۔ مزید  مولانا   چونکہ اردو کے بہت بڑے ادیب اور انشاپرداز  بھی تھے  اس لیے   تفسیر   محض خشک علمی ابحاث پر مشتمل   نہیں  بلکہ یہ اردو تفسیری ادب میں بھی  بلند مقام رکھتی ہے، اس میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی تشنگی  بھی دور کی ہے۔
تفسیر ماجدی لکھتے لکھتے کئی  اور کتابیں  بھی ظہور میں آئیں جو بعد میں”اعلام القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن”وغیرہ کے نام سے شائع ہوئیں۔  یہ کام مکمل ہوا تو خاکے لکھنا شروع کر دیئے جنہیں کتاب کی صورت ملنے لگی۔ کسی عالم دین سے کب توقع تھی کہ وہ سوانح نگاری ،خاکہ نگاری اور انشائی تحریروں میں بھی دماغ کھپائے گا لیکن عبد الماجدنے تو جیسے تہہ کر لیا تھا کہ وہ ادب کے ہر گھر میں جھانکے بنا نہیں رہیں گے۔شاعری بھی کی اور غزل کو ہاتھ لگایا، تنقید بھی کی اور تحقیق تو ان کا خیر میدان ہی تھا ۔ یوں  مسائل القصص، الحیوانات فی القرآن، ارض القرآن،اعلام القرآن، بشریت انبیاء، سیرت نبوی قرآنی،اور مشکلات القرآن جیسی کتب پڑھنے والوں کے سامنے آئیں۔
عبد الماجد کی صحت ہمیشہ سے ہی ناساز رہی تھی ۔ ملیریا کے سالانہ حملوں اور مسلسل نزلے کے باعث بینائی متاثر ہو چکی تھی ۔ 80سال پار کرنے کے بعد قوت ارادی بھی جواب دینے لگی۔ایک دن اپنی بیٹیوں  کو پاس بلا کر اپنی کتابوں کی تقسیم بھی کر وادی کہ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو،عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دیں۔ دسمبر کا مہینے کا آخر تھا کہ نیا حملہ فالج کا ہو ا، حواس قائم نہ رہے تھے،بار بار غفلت طاری ہو جاتی تھی لیکن اس عالم میں بھی بار بار ہاتھ کان تک اٹھاتے اور اس کے بعد نیچے لا کر نماز کے انداز میں باندھ لیتے تھے۔ایک روز اپنی منجھلی بیٹی کو بلا کر کہنے لگے کہ “وہ جو آتا ہے ف۔۔۔”بیٹی نے جملہ مکمل کیا کہ”فرشتہ؟”بولے ۔”ہاں”اور داہنی جانب اشارہ کیا اور کہا “آگیا ہے۔”اس واقعے کےچار دن بعد ہی 6جنوری1977صبح ساڑھےچار بجےخاتون منزل (لکھنؤ)میں خالق حقیقی سےجا ملے۔نماز جنازہ  وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعلماء کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ  نے پڑھائی۔ دریا باد میں  آپ کی تدفین ہوئی۔

مستفاد :
1-جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کی تصنیف “عبد الماجد دریا بادی ،احوال و آثار
2-عبدالماجد دریا بادی کی سوانح” آپ بیتی
3- حکیم الامت  از مولانا دریابادی

مکمل تحریر >>