یہ تحریر بلاگ پر پہلی دفعہ ہفتہ، 16 جولائی، 2011 کو پوسٹ کی تھی ، ابھی دوبارہ اسکو ریفریش کرنے کی دو وجوہات ہیں ، ایک یہ کہ اس میں پوسٹ کی گئی پکچر کرپٹ ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے اس تحریر کے کمنٹ میں اور جہاں اسکا لنک پیسٹ کیا گیا تھا وہاں پڑھنے والوں نے ری پوسٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں مفتی تقی عثمانی صاحب کے اس جملے " اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، " پر بہت سی جگہوں پر عجیب و غریب تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ایک صاحب نے لکھا "
Zaif+zaif=Zaif he hoti hay "
ایک اور جگہ یہ تبصرہ دیکھا
" kesay 1 mamlay per sari ki sari hadeesain kamzoor hon us ko ap deen ka hesa bana sakty hain.... kuch tou khayal karain "
ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ جملے بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے لوگ بغیر علم کے احادیث پر تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں کسی راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے، ان تبصرے کرنے والوں نے بھی اس بات کو اگنور تو کیا ہی کہ جو بندہ یہ بات بیان کررہا ہے (مفتی تقی عثمانی صاحب) وہ چالیس سال سے حدیث پڑھا رہا ہے۔ ۔ حدیث پر بھی فارمولا ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔
پہلی بات یہ کہ ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف' کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو، اس حدیث کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس میں حدیث صحیح وحسن کی شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے اسباب ہوں جو کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)
کیا اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح اگر حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔ (نزھۃ النظر:۲۹)
ضعیف حدیث کی اقسام
ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا کمی کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔ مشہور قسمیں ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث کا کم ترین درجہ ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری یہ کہ عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔ (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔
شب برات کے متعلق ضعیف احادیث:
مفتی تقی عثمانی صاحب نے شب برات کی احادیث کے متعلق لکھا کہ
" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔"
اس پہرہ گراف سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں۔
1- شب برات کے متعلق احادیث ضعیف لیکن کئی سندوں سے مروی ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا۔
2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3- اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ اعمال صحابہ بھی موجود ہیں۔
ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔
Zaif+zaif=Zaif he hoti hay "
ایک اور جگہ یہ تبصرہ دیکھا
" kesay 1 mamlay per sari ki sari hadeesain kamzoor hon us ko ap deen ka hesa bana sakty hain.... kuch tou khayal karain "
ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ جملے بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے لوگ بغیر علم کے احادیث پر تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں کسی راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے، ان تبصرے کرنے والوں نے بھی اس بات کو اگنور تو کیا ہی کہ جو بندہ یہ بات بیان کررہا ہے (مفتی تقی عثمانی صاحب) وہ چالیس سال سے حدیث پڑھا رہا ہے۔ ۔ حدیث پر بھی فارمولا ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔
ضروری وضاحت
ضعیف نا کہ من گھڑت :پہلی بات یہ کہ ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف' کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو، اس حدیث کے خلاف کوئی صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس میں حدیث صحیح وحسن کی شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے اسباب ہوں جو کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)
کیا اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح اگر حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔ (نزھۃ النظر:۲۹)
ضعیف حدیث کی اقسام
ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا کمی کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔ مشہور قسمیں ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث کا کم ترین درجہ ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری یہ کہ عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔ (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔
شب برات کے متعلق ضعیف احادیث:
مفتی تقی عثمانی صاحب نے شب برات کی احادیث کے متعلق لکھا کہ
" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔"
اس پہرہ گراف سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں۔
1- شب برات کے متعلق احادیث ضعیف لیکن کئی سندوں سے مروی ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا۔
2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3- اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ اعمال صحابہ بھی موجود ہیں۔
ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔