اتوار، 19 فروری، 2012

مُلا ہی ہر برائی اور فتنہ کا ذمہ دار کیوں ؟

اظہار الحق صاحب ہمارے بلاگستان کے ایک قابل اور عوام کا درد رکھنے والے قلم کار ہیں، انکی باتیں  چونکہ دل سے نکلتیں ہیں اس لیے جو جو پڑھتا ہے اس کے دل پر اثر کرتیں جاتیں ہیں، ، ہر ٹاپک پر بڑی سنجیدگی اور وقار سے بات کرتے ہیں ۔   چند دن پہلے انہوں نے  ایک کالم لکھا " اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے" کالم کیا ہے عوام کا درد رکھنے والے ایک حساس آدمی کی پکار ہے، اس کالم میں انہوں نے   ان (عوامی بیماریوں منافقت، جھوٹ، کرپشن  )  کا تذکرہ کیا جنکی وجہ سے  ہمارا معاشرہ اور ملک  تنزل کا شکار ہے ۔  ہمارے معاشرے میں واعظین اور ناصح چونکہ علما ہیں ا س لیے انہوں نے علما سے بھی شکوہ کیا  اور  انکے اس طبقہ  میں شامل کالی بھیڑوں کا ذکر بھی کیا۔  کالم ہر لحاظ سے مکمل تھا لیکن ایک صاحب جنہیں علماء دشمنی کا فوبیا ہے    انہیں  شاک گزار کہ اظہار صاحب نے  علما کے متعلق اتنی کم بات کیوں کی۔اس پر انہوں نے اپنے طور پر " اظہار الحق سے اظہار یکجہتی "کے نام پر علما و مدارس کے خلاف پورا ایک  آرٹیکل لکھ مارا اور  جی  بھر  کرمدارس اور علمائے کرام پر طعن وتشنیع کے نشتر برسائے  اور  گالیاں دیں ۔  ایسی معاشرتی برائیاں جن کے علما ذمہ دار نہیں انہیں  بھی  علما کے  سر تھونپ کر  اپنے قلب و جگر کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ 
اظہار صاحب میرے  بزرگ ہیں اور میرے اساتذہ کی جگہ ہیں، میں یہ تو نہیں لکھ سکتا کہ انہوں نے غلط لکھا ہے، نہ ان کے کوٹ کیے گئے ایک   مولوی کی کرپشن کے واقعہ کا انکار کرتا ہوں  ۔  میں تو ایک ادنی  ، نا  تجربہ کار طالب  علم ہوں جسے  اردو بھی صحیح نہیں لکھنی آتی ،  میں بس اس مسئلہ کو ایک الگ  زاویہ سے دیکھتا ہوں  اس کے متعلق سوال و جواب کی شکل میں  کچھ بات کروں گا.

کیا مسجد کا  مولوی حقیقی معنوں میں عالم بھی ہے ؟
میرے خیال میں اگر ہم واقعی اصلاح چاہتے ہیں اور مسئلے کی تحت تک پہنچنا چاہتے ہیں  تو  سب سے پہلے ہمیں  یہ تحقیق کرنا  ہوگی  کہ جن لوگوں  کو ہم مولوی کہہ رہے ہیں کیا وہ حقیقت میں   عالم بھی   ہیں   ۔؟ 
 حدیث میں آتا  ہے  العلماء و رثۃ الانبیاء ۔ علما انبیا  کے وارث ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ جو انبیا کے حقیقی وارث ہیں وہ کرپٹ نہیں ہوسکتےاورجہاں کرپشن ہوئی  وہاں حقیقت میں  علم کو منبر تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔  منبر رسول جب  نااہل لوگوں کے حوالے کردیا  گیا، تو پھر  وہ ان مقاصد کے لیے استعمال ہوا جن کے لیے نہیں ہونا چاہیے تھا ، لازم ہے اس کے ذمہ دار  علما اور دینی مدارس قطعا نہیں.

اگر مسجد کا ملا  ٹھیک نہیں تو اسکا ذمہ دار کون ہے ؟
 مساجد میں محض چندہ کی باتوں، کافر کافر کے  کھیل، فرقہ پرستی کی باتوں، کرپشن،   غیر ضروری مسائل پر تقریروں کے  ذمہ دار  اگر علما  و مدارس بھی نہیں تو پھر کون  ذمہ داراہے؟ 
  اس  کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ  ان مولویوں کا انتخاب  کون کرتا ہے  ؟ کون یہ طے  کرتا ہے کہ اس منبر پر کون بیٹھے گا ؟
 ہم میں سے ہر بندہ جانتا ہے کہ یہ انتخاب  اس علاقے کی مسجد کے وہ ریٹائرڈ سرکاری بابو  کرتے ہیں ، جنکو سرکاری دفتروں سےیہ کہہ کر فارغ کردیا جاتا ہے کہ آپ  اب ایکسپائر ہوگئے اور مزید کام کے نہیں رہے ،وہ  پھر مسجد کی کمیٹیوں کی صدارت پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ہمارے ایک دوست کے  مطابق انکے علاقہ کی ایک  مسجد  میں  امام وخطیب کے لیے   تین مہینے تک  اماموں کے انٹرویو ہوتے رہے ۔ پانچ چھے ریٹائرڈ حضرات بیٹھ کر ایک امام کو بلاتے  دوسرے  کو بلاتے،تین مہینہ بعد  آخر میں  امامت و خطابت کے لیے ایک بائیس  سال کے لڑکے کا انتخاب کیا گیا   اور  وجہ انتخاب یہ بتائی  گئی کہ اس کی آواز بہت اچھی ہے ۔ اب  ہمیں  اس نوعمر سے کیا توقع رکھنی چاہیے کہ جب وہ  ممبر  پر بیٹھے گا تو کیا  گفتگو کرے گا ؟
 ہمارے لوگوں کا   معیار انتخاب  ہی یہی ہے کہ انہیں  صرف   اچھی آواز سننی ہے، انہیں وہ  مولوی چاہیے جو  نعتیں اچھی پڑھ سکتا ہوں،   تھوڑے سر لگا سکتا ہو ۔ ۔ ۔  جب یہ  اچھے سر لگانے والے گویے    مولوی بن کر  منبرپر بیٹھیں گے تو  پھر منبر  ومحراب کا تقدس اسی طرح ہی پامال ہوگا جس طرح ہمارے  گلی  محلے کی مسجد میں ہوتا نظر آتا ہے۔
طریقہ کار یہ ہونا چاہیے  کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ جو لوگ انتخاب کررہے ہیں    ا ن کے اندر انتخاب کرنے کی  اہلیت  بھی ہے یا نہیں۔ ؟  جب ایک پرائمری پاس آدمی یونیورسٹیوں کے پروفیسر منتخب کرنا شروع کردے گا تو اس یونیورسٹی کی  تعلیم کا کیا  حال ہوگا ؟  جب  ایک کمپوڈر ڈاکٹروں کا انتخاب کرنا شروع کردے گا  کہ کس آپریشن کے لیے کونسا ڈاکٹر مناسب ہے  اس ہسپتال کے مریض کا حال کیا ہوگا ؟  جب  کچہریوں کے اندر بیٹھے ہوئے منشی سپریم کورٹ کے ججوں کا انتخاب کرنا شروع کردیں گے تو   مقدمات کا حال کیا ہوگا ؟
جہاں پر انتخاب ٹھیک ہوا ، منبر اہل افراد کو سپرد کیا گیا ان کی برکت سے  بہتری بھی آئی  ہے  ،  وہاں  کے نمازی سلجھے ہوے اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، معاشرے میں ہمیں جو تھوڑی بہت دین کی جھلک نظر آتی ہے یہ انہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ اس کےلیے ہمیں اپنی  قوم  میں شعور  پیدا کرنا ہوگا کہ وہ اس فیلڈ کے ماہر حضرات کی نگرانی میں  اپنے منبر و محراب کیلئے   واعظ امام  کا انتخاب کریں۔

حقیقی عالم کی موجودگی اور وعظ و نصیحت کے باوجود  معاشرے میں برائی کیوں ہے  ؟
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں ہمیں جو برائیاں نظر آرہی  ہیں  ان کے ذمہ دار علما اور واعظین ہیں  ۔ دلیل میں مسلمانو ں کے پہلے دور کی مثالیں دیتے ہیں   کہ اس دور میں مساجد  سے حکومتیں چلائی جاتیں تھیں، عوام کے فیصلے مساجد میں ہوتے تھے  ، اظہار صاحب نے  بھی اپنی تحریر کے  آخر میں کچھ تجاویز دیں ۔
میں اس متعلق یہ کہو ں گا کہ  علما کا  منصب صرف تلقین کا ہے وہ صرف  نصیحت  کرسکتے ہیں ، نصیحت پر  عمل درآمد کرانے  کے ادارے دوسرے ہیں۔    اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے آج ایک اچھے سے اچھے عالم  کی اتھارٹی  بھی صرف اتنی ہے کہ وہ صرف اپنی مسجد میں آنے والے چند بندوں کے سامنے  وعظ کرسکتا ہے ۔  بعض مساجد میں تو  اسے کھل کر بات کرنے پر مساجد سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔گستاخی معاف جب اسکی اتھارٹی کا یہ حال ہے تو   پھر ہم  کیسے توقع رکھتے  ہیں کہ  وہ  ٹیکس چوری کرنے والوں کو ذلیل کرے گا،  تجاوزات  قائم کرنے والوں کو جوتے مارے گا۔
 رہی یہ بات  کہ اسے عوام سے مخاطب ہونے کا سب سے ذیادہ موقع ملتا ہے  پھر اس کی وعظ ونصیحت کے باوجود معاشرے میں برائی کیوں ہے ؟  اس سوال کے جواب میں میں بھی ایک سوال پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں  کہ  اقبال  ہمارا قومی شاعر  ہیں  ، انکی شاعری ہمارے سکولوں کالجوں میں ایک لازمی مضمون  اردو میں  باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے، اقبال نے خودی کی تعلیم سب سے ذیادہ دی ، آپ مجھے بتائیں  ہمارے ملک میں خودی کتنے لوگوں میں ہے۔؟  اگر پیغام کے اتنے  ویلڈ طریقے سے پہنچنے کے باوجود  خودی لوگوں میں موجود نہیں ہے تو  اس میں اقبال کا کیا قصور ہے ؟   قائد اعظم کے اقوال ہمارے سامنے ہیں، آئین  کی دفعات ہمارے سامنے ہیں ،  ہمارے سیاست دانوں اور قوم نے ان پر کتنا عمل کیا ؟ 
   نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سوسال تبلیغ کی صرف اسی لوگ ایمان لے کر آئے ، کیوں  ؟ کیا انہوں نے وعظ و نصیحت میں کوئی کمی کی ؟کیا وہ فرقہ واریت کی تعلیم دیتے تھے ؟   نبی سے ذیادہ اچھے طریقہ سے وعظ کون کرسکتا ہے ؟کیا  وہ باقی لوگوں کی گمراہی کے ذمہ دار ہیں؟
میں اپنی بات پھر دہراؤں گا کہ  جو صحیح معنوں  میں عالم اور مولوی   ہیں انہوں نے بات پہنچانے میں  کوئی کوتاہی نہیں کی،  جو وراثت نبوت  ان تک نسل درنسل چلتی ہوئی پہنچی تھی اس وراثت کا پورا خیال رکھتے ہوئے کمال ایمانداری کے ساتھ اسے مزید آسان کرکے  عوام تک پہنچایا ہے۔  پچھلے سو سالوں میں  قرآن وحدیث کے مسائل  پر جو تحقیق ہوئی ہے اسکی مثال پچھلی تین صدیوں میں نہیں ملتی ۔

فکر پاکستان صاحب  کی تحریر پر تبصرہ کرنے کا دل تو نہیں کررہا کیوں کہ وہ محض ضد اور تعصب میں علما کے خلاف لکھتے  ہیں ۔ ملاحظہ کریں
یہ (مولوی)بیچارے کبھی یہ تک نہیں بتانے کے صفائی نصف ایمان ہے، کیوں کے وہ خود جانتے ہیں کے وہ خود گندگی کے ڈھیر پر چوری کی جگہ پر قبضے کی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ خود مسجد کے بیت الخلا میں ناک پر ہاتھہ رکھے بغیر نہیں جاسکتے تو وہ کس منہ سے لوگوں کے بتائیں گے کے صفائی نصف ایمان ہےِ؟۔۔۔ ۔ ۔ تمام لوگ اپنے اپنے علاقے کی مساجد کا جائزہ لیں انہیں خود اندازہ ہوجائے گا کے پاکستان میں ستر فیصد مساجد چوری اور قبضے کی زمین پر بنی ہوئی ہیں، اب چوری کی مسجد میں نماز ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اسکا فیصلہ قاری خود کرلیں۔۔۔۔۔۔ 
حد ہوگئی  مبالغہ آرائی اور نفرت  کی ۔ انکی  بددیانتی اور جھوٹ کا یہ عالم ہے اور اظہار یکجہتی کس کے ساتھ کرنے  نکلے ہیں ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ذات دی کرکلی تے شہتیراں نال جپھے۔جناب آپ کا اظہار الحق صاحب کے ساتھ کسی قسم کا  کوئی جوڑ نہیں  ہے ۔ آپ کا  مسئلہ ہی کچھ اور ہے۔  انکے دل میں درد ہے اور   آپ کے دل میں علما اور مدارس کے خلاف سخت نفرت اور غصہ ہے اس لیے جب بھی  آپ کو موقع ملتا ہے آپ  علما اور مدارس کے بارے میں اپنے اندر  جمع کیا  گند اور زہر باہر نکال پھینکتے ہیں ۔ اظہار صاحب  نے تو لکھا ہے 
" اچھے بُرے عناصر ہر شعبے میں ہیں۔ مدارس چلانے والے بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور خراب بھی‘ جو بات یہاں سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ ناظم مدرسہ‘ سابق کونسلر اور پولیس.... کوئی بھی جھوٹ اور فریب دہی کو برا نہیں سمجھ رہا۔ "
انہوں نے اس واقعہ میں تینوں کو قصور وار ٹھہرایا  اور آپ  صرف  علما کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑ پڑے  اور  ایسی برائیوں کا ذمہ دار بھی علما کو ٹھہرا دیا جنکے وہ ذمہ دار نہیں  ۔ جناب مجھے بتائیں۔کیا مسجد کے باتھ روموں میں گند مولوی مچاتا ہے؟ مساجد سے جوتیاں اور  باتھ روموں سے ٹوٹیاں علما چوری کرتے ہیں ؟ کس بندے سے اسکی زمین زبردستی چھین کر یا چوری کرکے ستر فیصد مساجد بنائی گئی ہیں ؟

ہم مانتے ہیں کہ  عوام اور انتظامیہ کی اجتماعی غفلت سے پیدا ہونے والی اس فرقہ پرستی کی نحوست نے  کچھ شہروں میں  یہ پھول بھی کھلائے ہیں  کہ کچھ جگہ مساجد پر قبضہ بھی کیا گیا  لیکن جس کو آپ غیر قانونی  اور چوری کی زمین کہہ رہے ہیں وہ  جگہ   شملات دہ تھی  ۔  وہ بھی  اکا دکا کیس ہیں  ستر فیصد مساجد نہیں ۔۔ 
جہاں  مساجد پر قبضے ہوئے ہیں وہ بھی عوام کی سپورٹ سے ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات شملات دہ رقبہ پر مسجد کی تعمیر کی ہے  اس کے لیے عرض ہے کہ   ایک مسلم ملک میں عوام  کی جہاں  مسلمانوں کی جسمانی  ضرورت کے لیے  سکول کالج ،سرائے، روڈ ، ہسپتال ، پارک بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے وہیں انکی روحانی اور دینی ضرورت کے لیے  مسجد  و مدرسہ بنا نا بھی حکومت کے ہی ذمہ ہوتا ہے،  عوام کو دینی معاملات میں سہولت دینے کے متعلق آئین  پاکستان میں بھی لکھا ہے ۔ اب جہاں حکومت نے  عوام کی دینی ضرورت پوری کرنے میں غفلت کی  وہاں چند دین دار مسلمانوں نے عوام کی اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے  اپنے طور پر شملات دے جگہوں پرمساجد بنادیں ۔  آپ کو ان  جگہوں پر بننے والی مساجد و مدارس پر اعتراض ہے سکولوں ، کالجوں  اور سراؤں پر اعتراض کیوں نہیں ؟
 ہم کیا سمجھیں آپ کو اصل میں تکلیف  کس سے ہے ؟

آگے  فرماتے ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کے ان بیچاروں کے خود کچھ نہیں پتہ ہوتا، جو کچھ انہیں درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے اس کے باہر انہیں ایک لفظ کی بھی معلومات نہیں ہوتیں۔ ۔ کبھی کسی بڑے سے بڑے مولوی مفتی عالم کے منہ سے نہیں سنا کے قرآن میں سینکڑوں آیات مبارکہ کا تعلق تسخیر کائینات سے ہے، غور و فکر کرنے سے ہے، اللہ کی اس کائینات کے اسرار و رموز جاننے سے ہے، زمین کے اوپر زمین کے اندر سمندر کی تہہ میں چھپی اللہ کی نشانیوں سے ہے ان سب میں چھپے قدرت کے خزانوں سے ہے،۔۔یہ اسلئیے نہیں بتاتے کے انکی خود کوئی اوقات نہیں کے یہ سب کر سکیں اسکے لئیے پڑھنا پڑتا ہے یہ سب سینکڑوں سال پرانے درس نظامی پڑھنے سے نہیں ملنے والا۔

فَکر پاکستان کچھ تو خدا کا خوف کیجئے! کچھ تو عقل و شعور کے ناخن لیجئے! درس نظامی میں قرآن و حدیث پڑھایا جاتا ہے یا
 فزکس، کیمسٹری کی کتابیں پڑھائی جاتیں ہیں ؟ آپ کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ جو قرآن و حدیث پڑھائے جاتے ہیں وہ محض ٹائم کا ضیاع ہے اور ان میں کام کی کوئی چیز نہیں ۔!! جناب  سے میں پہلے  بھی  ایک دفعہ درس نظامی میں شامل کتابوں پر کافی لمبی بات کرچکا ہوں کہ درس نظامی میں کیا اور کیوں پڑھایا جاتا ہے  ۔ ابھی دینی مدارس کے نظام تعلیم  کے معیار  کی دلیل  کے  متعلق صرف ایک  بات  کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ ہم دیکھتے ہیں  کہ آج ہمارے پاکستان میں   ایک  گلی محلے کے پرائمری سکول سے لے کر شہر کی بڑی یونیورسٹی تک کو چلانے کے  لیے فنڈ ، اساتذہ کی تنخواہیں ، کرسیاں، میزیں   تک حکومت دیتی ہے لیکن پھر بھی انکی کیا حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ،  دوسری طرف  مدارس کے متعلق حکومتی رویہ کیا ہے وہ  بھی ہم جانتے ہیں ، انکی مدد کے بجائے ان کے خلاف  بیانات روز اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔  لیکن پھر بھی   اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ان    مدارس  کے تعلیمی نظام کا معیار دیکھیں  کہ   دوسرے ممالک سے طلبا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ حکومت کی  سخت شرائط اور پابندیوں کے باوجود اس وقت صرف  کراچی کے چار مدارس کے اندر چالیس کے قریب ممالک کے  طلبا  دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اگر مدارس کا تعلیمی نظام  (درس نظامی)اتنا ہی خراب اور بے فاعدہ اور فرسودہ ہوتا تو    دوسرے  اسلامی ممالک  کو چھوڑ کر  غیر ملکی طلبا پاکستان کے مدارس میں   آکر  فرش پر بیٹھ کر  اور  دال روٹی کھا کر  گزارہ کرکے اسکی   تعلیم حاصل  نہ  کرتے  ۔  دوسری طرف ہماری یونیورسٹیوں کی کیا حالت ہے یہاں  باہر سے کسی نہ آکر کیا پڑھنا ، ہمارے اپنے طلبا یہاں پڑھنا نہیں چاہتے اور  باہر کی یونیورسٹیوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔ آخری بات  اظہار صاحب نے  بھی اپنے کالم میں یہ بات کی آج یونیورسٹیوں ، کالجوں میں بھی جو باریش نوجوان اور  باپردہ لڑکیاں نظر آتیں ہیں وہ درس نظامی پڑھنے والے انہی  علما کی اسی وعظ ونصیحت کا اثر  ہیں ۔   

قدرت اللہ شہاب کی زبان میں 
  بقول  قدرت اللہ شہاب یہ مولوی  ہی ہے جس نے  گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے حوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور  نہ کوئی تحریک ۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد،ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھاہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے ، تو یہ  اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے ، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے ، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی  کہتاہے،  یہ ملّا ہی کا فیض ہے  کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں  ،برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچنے کہ   لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ  مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟
کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

:علما اور  دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ کی اصل  وجہ
دینی مدارس کا سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور گزشتہ صدی میں ہندوستان میں انہی دینی مدارس کے دم سے علوم نبوت زندہ و تابندہ ہیں‘ انہی کی وجہ سے استعمار کے جبر و استبداد کا خاتمہ ہوا‘ یہی وہ قلعے تھے جن سے دین اسلام کا دفاع ہوا‘ یہی وہ نظریاتی چھاؤنیاں تھیں‘ جنہوں نے اسلامی نظریہ کی حفاظت کی‘ دینی مدارس ہی آب حیات کے وہ پاکیزہ چشمے تھے‘ جنہوں نے مسلمانوں میں دینی زندگی باقی رکھی۔اسلام دشمن اور عالمی دہشت گرد امریکا کے خلاف دنیا بھر میں جہاں کہیں امت مسلمہ نے مزاحمت کی‘ اس کی قیادت و سیادت دینی مدارس سے وابستہ علمأ کرام کے حصہ میں آئی‘ اسی لیے  گزشتہ کئی دہائیوں سے دینی مدارس کا خالص علمی‘ تحقیقی ماحول اور آزاد نظامِ تعلیم اربابِ اقتدار کی نگاہوں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے قائم ہونے والا مدرسہ کفر کی نگاہ میں کھٹکتا تھا‘ اسی طرح آج بھی پاکستان اور دنیا بھر کے دینی مدارس اسلام دشمنوں کی نگاہوں میں خار بنے ہوئے ہیں‘ چنانچہ بے سروسامانی کے عالم میں دین حق کی شمع کو روشن کرنے والے مدارس کو دین دشمن اپنے لئے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں‘ اس لئے دین دشمن قوتیں اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان مدارس کو ختم کرنے‘ انہیں کمزور کرنے‘ ۔مسلمانوں کا ان سے تعلق توڑنے اور ان کی حریت و آزادی کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں‘ ۔
 ان  لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان کا آزاد تعلیمی نظام حکومتی تحویل میں نہیں آجاتا‘ اس وقت تک اس سے فارغ ہونے والے علمأ کو نکیل نہیں ڈالی جاسکتی‘ اور نہ ہی ان سے اپنی منشا کے مطابق دین و مذہب میں تحریف اور کتروبیونت کرائی جاسکتی ہے۔ اس لیے امریکا‘ مغرب اور یہودی لابی نے  دینی مدارس  کے خلاف مذموم پراپیگنڈا مہم شروع  کی ہوئی ہے  اور انہیں بدنام کرنے اور دنیا کو ان سے متنفر کرنے کے لیے باقاعدہ مہم اور منصوبے کے تحت مختلف ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے  رہے ہیں ۔۔  ہر حکومت کو دینی مدارس کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ امریکی ہدایات پر ہر حکومت نے مدارس میں مداخلت کا کی ‘ ہر موقع پر اربابِ اقتدار نے مدارس کے خلاف زہر اگلا‘ رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا‘ غیر ملکی طلبہ کے خلاف ملک بدری کا ظالمانہ فیصلہ کیا‘ مدارس کی اسناد کو بے وقعت کرنے کی کوششیں بھی  اسی ایجنڈے کا تسلسل تھیں‘۔
 اس مکروع پراپیگنڈے میں  صرف حکومتی ارکان ملوث نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا میں خصوصی طور پر منافقین کی ایک جماعت کو امریکن سفارتخانہ سے سور کے بدلے  ہائر کیا گیا ہے(میرے مخاطب اظہار الحق جیسے مصلح قوم صحافی نہیں) یہ بیروپیے کبھی کہتے ہیں   موجودہ دینی مدارس سے صرف علمأ پیدا ہورہے ہیں‘ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے جس طرح علمأ پیدا ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ڈاکٹر‘ انجینئر اور وکلاء بھی پیدا ہوں اور ہماری خواہش و کوشش ہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والے علمأ ہر شعبہٴ زندگی میں خدمات انجام دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں ‘ جب ان عقل بندوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے  کہ: اگر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں سے انجینئر اور وکلاء پیدا کرنے کی فرمائش نہیں کی جاتی تو دینی مدارس سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے؟ پھر کہتے ہیں : دینی مدارس میں انگلش‘ سائنس اور دوسرے مضامین کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟  حالانکہ یہ خود بھی جانتے ہیں  کہ دینی مدارس میں پہلے سے ہی میٹرک کا نصاب زیر تعلیم ہے اور کسی دینی مدرسہ کا نظامِ تعلیم کسی بھی عصری اور سرکاری اسکول کے معیارِ تعلیم سے کم نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔  اس کے علاوہ  پراپیگنڈہ بازی کی قسطیں چلاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی  انہیں ملکی ترقی کی راہ میں حارج قراردیا جاتا ہے تو کبھی دہشت گرد ، کبھی انہیں فسادی کہا جاتا ہے  تو کبھی  تشدد پسند ،  کبھی  کسی داڑھی والے کے  برے عمل کو اچھا ل کر اسے علما کا نمائندہ بناتے ہوئے  سارے علما پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے،  تو کبھی جعلی مولویوں، قاریوں اور پیرو ں کے مکروع اعمال اور حرکتوں   کی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کرکے  علما او ر صوفیا سے نفرت عوام کے دلو ں میں بٹھائی جاتی ہے۔ غرض اس وقت طعن وتشنیع اور توہین وتضحیک کی تمام توپوں کا رخ ملا، مولوی، دینی مدارس اور طالبان ( طلبہ) کی طرف ہے ، صرف یہی نہیں ! بلکہ اب تو حکومتی امریکی ایجنٹ اور یہ منافق بیروپیے  پوری قوم کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کررہے ہیں  کہ اگر ملکی سلامتی اور امن وامان درکار ہے تو ان ” مولویوں“ سے جان چھڑانی ہو گی او ران کے خلاف منظم جدوجہد کرنی ہو گی ، چناں چہ اس ناپاک منصوبہ کو پروان چڑھانے کے لیے علمأ کی گرفتاریاں اور مدارس پر چھاپے مارے جاتے ہیں ، کسی مسجد، مدرسہ اور علمی مرکز پر بمباری کرکے ان معصوموں کو خاک وخون میں تڑپایا جاتا ہے اور اس کے بعد بیان جاری کر دیا جاتا ہے کہ : ” اس جگہ مظلوم انسانوں کو ذبح کیا جاتا تھا، یایہاں جہادی تربیت کا مرکز اور اسلحہ کا ذخیرہ تھا وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح کہیں دھماکا کرکے یہ کہانی گھڑ لی جاتی ہے کہ:  یہ طالبان کا اڈہ تھا اور یہاں بارود کا ذخیرہ تھا، جو قبل از وقت پھٹ گیا۔  اور ابھی چند دن پہلے رحمان ملک کا اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے تاریخی جھوٹ بولنا کہ بینظر کے قاتلین مدرسہ حقانیہ میں رہے تھے اسی گیم کا حصہ ہے۔



مکمل تحریر >>

جمعرات، 9 فروری، 2012

وحی غیر متلو اور مستشرقین و ملحدین کا جھوٹا پراپیگنڈہ

یہود ونصاری پہلے دن سے اسلام سے حسد کرتے آرہے ہیں،  دونوں قوموں کو شروع سے   "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم تھا، یہود بنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے؛ لیکن بنی اسماعیل میں آخری نبی کے  ظہور نے انہیں اسلام کا بدترین دشمن بنادیا ، مدینہ میں انہوں نے غزوہ خندق میں  معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے نکال دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ نے  انکو انکی  سازشوں  کی وجہ سے آخر جزیرۃ العرب سےہی  نکال باہرکیا ۔ آپ   نے  ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم  کا جملہ اچھی طرح یاد ہے:
جزیرۃ العرب سے یہود ونصاریٰ کو نکال دو۔ (ابوداؤد، باب فی إخراج الیہود من جزیرۃ العرب، حدیث نمبر:۲۶۳۵)۔
ان  دونوں قوموں  نے بعد میں باہر سے بھی اپنی سازشیں جاریں رکھیں اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہچانے کی کوششوں میں رہے اورمسلمانوں کو  ان سے بعد میں   بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ ڈاکٹرحمیداللہ صلیبی جنگوں کے بارےمیں لکھتے ہیں:
“یورپ کی متحدہ عیسائی طاقتوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کیا، یسوع مسیح کے دین اور صلیب مقدس کی حفاظت کے نام پر یورپ کے ان وحشی اور غیرمہذب دیوانوں نے جس سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کیا نصرانیت کی تاریخ میں اسے "مقدس لڑائی" کے نام سے پکارا جاتا ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کی یہ المناک کشمکش جو تقریباً دوصدی تک جاری رہی، تاریخ میں صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہے"۔  (تاریخِ اسلام: ۴۳۵، مؤلف: ڈاکٹر حمید اللہ)۔
انکے ان سب تخریبی کاموں کے باوجود  مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا؛ بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش کیا، جس کی وجہ سے اسلامی قوت ان علاقوں میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے لگی ۔اسلام نے  میدان جہاد کے علاوہ   یہودونصاری کے مسخ شدہ عقیدے پر بھی  ضرب کاری لگائی تھی جس  کی وجہ سے ان کے کمزور عقیدے والے ہی نہیں، راسخ العقیدہ حضرات بھی رفتہ رفتہ اسلام کو گلے لگاتے جارہے تھے، یہودونصاری نے ان حالات کو دیکھ کر  پالیسی بدلی  اور تیروتلوار پھینک کر اسلامی کے علمی ماخذ ین،   تہذیب وثقافت اور اقدار پر حملہ کرنے کا سوچا ، مقصد  یہ تھا کہ ناصرف اسلام کے فکری حملہ کی روک تھام کی جائے  بلکہ اپنے لوگوں کو  اسلام سے نکال کر اپنا ہم نوابنالیا جائے یا کم ازکم اپنے مذہب پر ثابت قدم رکھا جاسکے؛ اس کے لیے انہوں نے پوری جانفشانی سے اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا۔ ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ عربی زبان تھی ۔ چنانچہ ۱۳۱۲ء کو جینوا کی کلیسا نے عربی زبان کو مختلف یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب کرنے کا فیصلہ کیا اور ۱۷۸۳ء میں اس کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں اصل مقصد کی یاد دہانی کرواکر اصل کام کا آغاز کیا گیا اوراس تحریک کا نام اورئینٹلزم ( استشراق) رکھا گیا ۔(ترات الاسلام:۱/۷۸، بحوالہ من افتراءات المستشرقین) ۔
احمد عبدالحمید غراب لکھتے ہیں 
"استشراق، یورپ کے اہل کتاب کفار کی ان تحقیقات کا نام ہے جو اسلام کی صورت بگاڑنے، مسلمانوں کے ذہن میں اس کی جانب سے شک پیدا کرنے اور اس سے برگشتہ کرنے کے لیے خاص طور پر اسلامی عقیدہ وشریعت، تہذیب وتمدن، تاریخ نیززبان وبیان اور نظم وانتظام کے تئیں کی جائیں"۔(رویۃ اسلامیہ للاستشراق:۷، مؤلف: احمد عبدالحمید غراب)۔

مستشرقین اور  حدیث:۔
ان دشمنانِ اسلام نے دین کے ہرشعبہ کو نشانہ بنایا اور ہرگوشے کو مشکوک کرنے کی کوشش کی ۔ حدیث پاک، قرآن پاک کے بعد سب سے اہم مصدر ہے اور دین کی صحیح فہم اور اسلام کی حقیقی تصویر کشی، حدیث کے بغیر نامکمل رہتی ہے، اس لیے  مستشرقین   نےاس اہم مصدر کی طرف کچھ زیادہ توجہ دی  اور آزاد تحقیق وریسرچ کے نام پر زہراگلی۔اس سلسلے میں انکی  سب سے نمایاں دو شخصیات نظر آتی ہیں،سب سے پہلی شخصیت گولڈزیہر   ہے، جس کو عربی کتابوں میں "جولدتسھر"سے جانا جاتا ہے یہ شخص جرمنی یہودی  تھا، اس نے تمام اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا اور ۱۸۹۰ء میں پہلی تحقیق شائع کی ۔دوسری شخصیت "جوزف شاخت" کی ہے (موسوعۃ المستشرقین، تالیف عبدالرحمن بدوی)۔
حدیث کے متعلق "گولڈزیہر" نے زیادہ توجہ متن پر مرکوز کی، جب کہ "شاخت" نے سند اور تاریخ سند کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ انکے بعد   اس موضوع پر بڑی بڑی کتابیں لکھیں گئیں ۔ اسلامی دنیا میں روشن خیالی کے علمبردار ملحدین انہی  کی باتوں کو کاپی کرکے نت نئے انداز میں پیش کرتے ہیں  ،یہ  نام نہا د محقق  مغربی آ قاوٴں کے اسلوب واندازمیں حدیث وعلوم حدیث پر لمبے چوڑے مقالے اورتھیسز تیارکرتے ہیں ۔انہی لوگوں میں  ہمارے اردو بلاگر  بھی ہیں جو  بڑے عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے ہوئے ہیں ، پہلے انہوں نے   دہریوں کا مواد چوری کرکے صفات باری تعالی اور قرآن  کے خلاف  جھوٹا پراپیگنڈہ کیا  ،   ہمارے دوستوں نے انکے ہر آرٹیکل کا مدلل و معقول جواب دیا، بجائے اسکے کہ وہ انکا جواب  الجواب دیتے انہوں نے اپنی ٹرٹراہٹ جاری رکھی،  آج کل مستشرقین اور  منکریں حدیث کا مواد  ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔یہ اعتراضات انہوں نے مستشرقین و ملحدین کی تحریروں سے چوری کیے ہیں   اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ  موصوف نے  ابھی  تک اسلام کے خلاف جو  آرٹیکل لکھے ان میں انکا لب ولہجہ، طرز واسلوب ، اثر وتاثیر اور  سوچنے کاانداز  انہی مستشرقین جیسا ہے ، ان کے مواد کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ   یہ  براہ راست مستشرقین کی کتابوں سے ، یا ایسے ثانوی مراجع سے لیا گیا  ہے، جن کے بنیادی مصادرومراجع مستشرقین کا تیار کردہ لٹریچرہیں ۔ میرے کئی دوست اسکا جواب دینے سے مجھے منع کرتے آرہے ہیں کہ  کہ  اس نے سمجھنا ہوتا تو ہمارے جوابی آرٹیکل  پڑھ کر ہی سمجھ جاتا ، اس لیے اس کی پوسٹ کے جواب لکھنے میں ٹائم ضائع نہ کرو۔ میں  صرف اپنے ان  بھائیوں جو کہ اسکی  کنفیوز کردینے والی  تحریروں سے وساوس کا شکار ہوسکتے ہیں’  کے لیے  اسکے ان  وساوس کا جواب لکھ  رہا ہوں۔ مکی کے اعترضات سرخ رنگ میں شو کیے ہیں ۔

احادیث کا انتخاب اور ان کی تدوین کس طرح کی گئی؟ سوال یہ ہے کہ کیا دو سو سال بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے یا ان سے منسوب باتیں درست ہوسکتی ہیں؟؟ خاص طور سے جبکہ انہیں نقل کرنے والے لوگ جنہیں راوی کہا جاتا ہے عام انسان ہی تھے چنانچہ بھولنا، مختلف باتوں کا گڈمڈ ہونا، کسی بات کا اضافہ ہوجانا، اپنی مرضی کی بات کہنا یا سیاسی مفاد کی خاطر کوئی بات شامل کرنا یا گھڑنا سب ممکن ہے
احادیث 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دوقسم کی تھی۔ ایک تو قرآنی آیات جن کو ”کلام الله“ کہا جاتا ہے، اس وحی کے الفاظ او رمعنی دونوں الله تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ اس وحی کو اہل علم کی اصطلاح میں ” وحی متلو“ کہتے ہیں، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ دوسری قسم وحی کی وہ ہے جو قرآن مجید کا جز تو نہیں ہے لیکن اس کے ذریعہ بھی الله تعالیٰ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بہت سے احکام عطا فرمائے ہیں ، اس کو ” وحی غیر متلو“ کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی یہ وحی صحیح احادیث کی شکل میں محفوظ ہے اور اس میں عموماً ایسا ہوا ہے کہ مضامین آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے نازل کیے گئے، لیکن ان مضامین کی تعبیر کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے۔ (الاتقان ج1 ص:45) ۔
حدیث کی حفاظت نے اور کتنے پیرائے اختیار کیئے اورعمل وقول  رسول کن کن راہوں سے امت کے لیے پکھڈ نڈی بنتا رہا اور امت کے قافلے کس طرح سے اس راہ پر چلتے آئے ،اس  کا  مکمل تذکرہ  تو یہاں ممکن نہیں، اس موضوع پر  علما کی کئی ضحیم کتابیں موجود ہیں، میں کوشش کروں گا کم سے کم الفاظ میں کچھ تفصیل بیان کرسکوں۔

حدیث کی حفا ظت و تدوین کا پہلا دور :۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اعمال اور تقریرات واحوال، کامیابی کازینہ،بارگاہ الہی میں تقرب کاذریعہ ،شریعت مطہرة کابنیادی حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عظیم امانت کی حفاظت ،نقل روایت میں احتیاط اور عمومی اشاعت وابلاغ کے لیے غیرمعمولی اہتمام کیاگیا، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اسی لیے احادیث نبوی کوخوب توجہ سے سننے، یاد کرنے ،لکھنے اور سمجھنے کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کا بھی اہتمام کیا ، جن صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ حدیثیں سب سے زیادہ تعداد میں مل سکی ہیں ان میں حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر بن خطاب، انس بن مالک، ام المومنین حضرت عائشہ، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، علی المرتضی، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کی شخصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ سے احادیث مروی ہیں ۔بعض صحابہ نے ذاتی طور پر احادیث کو لکھ کر محفوظ کرنے کا کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں شروع کر دیا تھا۔اس سلسلہ میں  الصحیفہ الصادقہ، کتاب الصدقہ،صحیفہ علی،صحیفہ عمروبن حزم،صحیفہ جابر،صحیفہ سمرہ بن جندب، کتاب معاذ بن جبل، کتاب ابن عمر، کتاب ابن عباس، کتاب سعد بن عبادہ اور  ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہ،حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ اورحضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ مجموعے  پہلے دور کی حدیثی تحریرات ہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خود بھی احادیث لکھوائیں آپ نے عبداﷲ بن عمر سے فرمایا :’’احادیث لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی ‘‘۔(ابو داؤد جلد 1صفحہ 158
علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اﷲ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں ۔(بخاری و مسلم کتاب الحج )

حدیث کی حفا ظت و تدوین کا دوسرا دور:۔
خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے تک کے اسلامی معاشرہ میں اس بات کا اندیشہ کرنے کی حاجت نہ تھی کہ کوئی بدبخت اپنی طرف سے باتیں بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کرتارہے ، اور اس کی باتیں یوں ہی چلتی رہیں ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات واعمال ، تقریرات واحوال، ذوق ومزاج ، طرزواداء اور اسلوب وانداز سے اچھی طرح باخبرجانثار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین  کی ایک بڑی جماعت ہروقت موجودتھی ، اس دور کے بعد  اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف منسوب کرنے کا فتنہ پیدا ہوا جو دین میں پیدا کئے جانے والے فتنوں میں سب سے زیادہ شدید تھا ، اسلام کے دشمنو                    ں نے پچھلے آسمانی مذاہب کی طرح مسلمانوں میں کچھ گمراہ کن افکار داخل کرنے کی کوشش میں تھے۔ 
اس موقع پر ہمارے  محدث صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین (اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے) نے ایک نہایت ہی اعلیٰ نوعیت کا اہتمام فرمایا۔، امانت کا بارِعظیم أٹھانے والی اولین جماعت نے اس عمل ِبدکے سد باب کے لیے احادیث نبویہ ، اسلامی تاریخ وعلوم کی حفاظت کے لیے اس زمانہ کے اہل علم کے قول وفعل اور علمی وعملی رویوں کی سے راویان و روایات کی چھان بین ، تحقیق وتدقیق کے لیے ایک نئے فن اور بے نظیرعلمی کسوٹی کی داغ بیل ڈالی ،  انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے احادیث بیان کرنے والوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا۔ ان کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔

حدیث کی حفا ظت و تدوین کا تیسرا دور :۔
تیسرے دور میں جب صحاح ستہ جیسی گرانقدر تالیفات مرتب ہوگئیں،توحدیث اس وقت ایک ایسے دور حفاظت میں داخل ہوچکی تھی کہ اس پر قطعی حفاظت کا لفظ بغیر کسی تاویل کے پورا اترتا تھا۔ایک متواتر اور مشہور حدیث کے مطابق اگرکوئی آپ سے جھوٹی بات منسوب کر دے تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔احادیث کے معاملے کی اسی حساسیت کی وجہ سے محدیثین نے یہ اہتمام کیا کہ ہر حدیث ان تک جس جس شخص سے گزر کر پہنچی، انہوں نے اس کا پورا ریکارڈ رکھا ۔محدیثین نے علم حدیث حاصل کرنے کے لئے دور دراز ممالک کے پا پیاہ سفر کئے ، بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائیں ۔ پھر حاصل کرنے کے بعد تبلیغ میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ اسکے علاوہ  صحیح اور موضوع حدیث کو پرکھنےکے لئے محدثین نے اسماء الرجال کے فن ذریعے  اسناد کی پوری تنقیح اور تنقید کی ، حدیث کی صحت اور سقم کو پرکھنے کے لئے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا ۔ جس حدیث میں ذرا بھی ضعف معلوم ہوا یا شک پیدا ہوا اس حدیث کو کتاب میں درج ہی نہیں کیا اگر کسی محدث نے کیا بھی تو اس ضعف کو واضح کردیا ۔ ان محدثین کے تقوی اور پرہیز گاری کی حالت اگر بیان کر دی جائے تو اس کے لئے دفاتر بھی کافی نہیں ہو سکتے ۔

امام بخاری کی مشقتیں اور  اہتمام :۔
چنانچہ امام بخاری نے علم حدیث کی خاطر مکہ ،مدینہ ، شام ، بخارہ ، مرو ،ہرات ، مصر ، بعداد ،کوفہ ،بصرہ ، بلخ نیشا پور اور دیگر بہت سے جزائر کا ایسے زمانہ میں سفر کیا جب کہ ریل ، موٹر وغیرہ سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا ۔جہاں حدیث کا پتہ چلتا پا پیادہ وہاں پہنچ جاتے ۔ ایک ہزار اسی شیوخ سے علم حدیث حاصل کیا ۔ امام بخاری سے روبرو بلا واسطہ علم حدیث حاصل کرنے والے شاگردوں کی تعداد نوے ہزار ہے
امام بخاری رحمہ اللہ ہر حدیث لکھنے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنے کا التزام فرماتے تھے ۔ پھر اسناد میں یہاں تک اختیاط کی کہ روای اور مروی عنہ ایک ہی زمانہ میں گزرے ہوں ، ان کا اپس میں لقا بھی ممکن ہو ۔ جب تک ان کا لقا ثابت نہ ہوجائے امام بخاری اس کی روایت کو قبول نہیں کرتے ۔ اگر چہ یہ راوی کتنا ہی عادل اور ثقہ کیوں نہ ہو ۔

فنون حدیث فن اسماء الرجال و فن جرح وتعدیل کا اجمالی تذکرہ :۔
اسماء الرجال وہ علم ہے کہ جو راویانِ حدیث کے احوال اوراُن کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے اور سن پیدائش وسنِ وفات اور رحلات واسفار علمیہ او رعلم حدیث میں اُن کے مقام ومراتب اساتذہ، تلامذہ، عادات واخلاق وطبائع اور ہر اس وصف سے بحث کرنا ہے کہ جس کا ان کی ثقاہت یا مجروح وعادل ہونے سے تعلق ہو ۔ راویوں کو پرکھنے کے فن کو "جرح و تعدیل" کہا جاتا ہے.
ان فنون  کے ماہرین نے اپنی پوری زندگیاں وقف کر کے ان تمام معلومات کا کو جمع کیا۔ انہوں نے ان راویوں کے شہروں کا سفر کیا اور ان راویوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ چونکہ یہ راوی عموما حدیث بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے شہروں میں مشہور افراد تھے، اس لئے ان کے بارے میں معلومات نسبتاً آسانی سے مل گئیں۔ یہ تمام معلوما ت فن رجال کی کتابوں میں محفوظ کردی گئی ہیں۔ ان حضرات نے اپنی کتابوں میں  ہر راوی کے حالات کا ازاول تا آخر پورا احصاء کیا کہ کب پیدا ہوا تھا؟ کب اس نے طلب حدیث کی ابتدا کی کب سنا؟ کیسے سنا؟ کس کے ساتھ سنا؟ کب سفر کیا؟ اور کہاں کا سفر اختیار کیا ؟ اس طرح ان کے اساتذہ کا ذکر، ان کے علاقوں کا ذکر او رتاریخ وفات کا ذکر کیا اور بعض راویوں کے حالات میں تو ان کی زندگی کے جزئی حالات بھی خوب تحقیق وتدقیق سے تلاش کیے او ران کی زندگی کے تمام حوادث ذکر کر دیے ہیں۔ 
احادیث کو اتنی مقدس حیثیت حاصل رہی ہے کہ یہ قرآن کے احامات تک کو منسوخ کردیتی ہیں. 
منکرین قرآن وحدیث کی جانب کی طرف سے احادیث صحیحہ کو رد کرنے کے لیے کے عموما یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ بعض صحیح احادیث قرآن کے خلاف ہیں , جن میں سے انکے زعم کے مطابق کچھ متفق علیہ احادیث جو صحت کے اعلى ترین معیار پر ہیں وہ بھی قرآن کے خلاف ہیں ۔حالانکہ ایسا قطعا نہیں , کبھی بھی کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی کیونکہ حدیث بھی وحی الہی اور کتاب اللہ ہی ہے جسطرح قرآن وحی الہی اور کتاب اللہ ہے  اور وحی الہی میں تضاد وتناقض قطعا نہیں ہوتا ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگوں کی کوتاہ فہمی کی بناء پر ظاہرا انہیں احادیث اور آیات کے مابین تناقض وتضاد معلوم ہو ۔ وہ تناقض اور تضاد   بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عقل وفہم میں پیدا ہوتا ہے۔،  

سارے قدیم وجدید علمائے حدیث جانتے ہیں کہ 99% احادیث “ظنیہ الثبوت” (قیاساً ثابت شدہ) ہیں ۔
لفظ ظن تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ 

. اٹکل یعنی بلا دلیل محض گمان اور تخمین
. شواہد وقرائن سے ظن غالب
 ظن بمعنی نظری و استدلالی علم جو دلیل و برہان سے حاصل ہوا ہو ۔ مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ میں لفظ ظن اسی علم یقینی کے معنی میں ہے ۔

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ( 2 ۔ 46 )۔ 
 وَظَنَّ دَاوُدُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ( 38 ۔۔
 كَلا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ( 75 ۔ 26،27، 28 ) ۔
قرآن نے ظن بمعنی محض اٹکل و تخمین کی پیروی سے منع کیا ہے ۔ احادیث کا سلسلہ نعوذ باللہ محض اٹکل اور تخمین نہیں ہے ۔ پس احادیث کو ظن کے معنی ثانی ( ظن غالب ) اور معنی ثالث ( علم یقینی استدلالی ) کے لحاظ سے ظنی کہا جاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ 
علم یقینی استدلالی تو ظاہر ہے کہ واجب الاتباع ہے ۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جو ظن غالب کا فائدہ دیتی ہیں ۔ سو شریعت مطہرہ نےظن غالب کویقین کا حکم دےکر واجب الاتباع قرار دیا ہے ۔ (شرح نخبۃ الفکر )۔
شرعی یقین کے لئے ثقہ عادل کی شہادت کافی ہوتی  ہے  سو وہ احادیث میں موجود ہے ۔ اس لحاظ سے احادیث سب یقینی ہیں ۔ ظنی اس لئے کہا جاتا ہےکہ احادیث میں عقلاً احتمالِ خطا موجود ہے لیکن شرعاً نہیں اور اکثر احادیث مفید ظن غالب ہیں اور دنیا میں  ظن غالب پر  عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ ہم رات دن اپنے جمیع معاملات میں ظن غالب ہی پر عمل کرتے ہیں ۔ دوا پیتےوقت شفا کا یقین نہیں ہوتا بلکہ زیادہ مضرت کا خدشہ موجود ہوتا ہے ۔ موٹر ، ریل ،طیارہ ، اور بحری جہاز وغیرہ پر سوار ہوتے وقت ہمیں ان کی مشنرری کےپرزہ جات کی درستی کا کوئی یقین نہیں ہوتا ۔ راستہ کے حوادث سے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ، طیارہ کے گرنے ، ریل کے پٹری سے اتر جانے، بحری جہاز کے غرق ہوجانے کا احتمال موجود ہے ۔ پھر بھی ہم دن رات ان ذریعوں سے سفر کرتے ہیں ۔ بازار سے گوشت خریدتے وقت اس کی حلت کا ، دودھ ، گھی ، اناج، شکر وغیرہ کی پاکیزگی کا اور پانی پیتے اور غسل کرتے وقت اس کی طہارت کا ہر گز ہر گز کامل یقین نہیں ہوتا ۔ اور نہ ہی ہوسکتا ہے ۔. بات کو واضح کرنے کے لیے ایک اورآسان سی مثال ہے۔  حدیث یقینی شرعی ہے جیسا کہ ماں  اور باپ کا علم۔ ماں کے متعلق تو  قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کی ماں ہے، مگر باپ کے بارےمیں اس یقین کے ساتھ حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔ اسی لیے باپ کا علم یقینی شرعی ہے ۔ یہی باپ والا معاملہ حدیث کا ہے۔جب ہم شب وروز ہر معاملہ میں ظن غالب ہی پر عمل کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حدیث کو اسی ظن  کی وجہ سے ترک کردیا جائے۔

مختلف اسلامی فرقوں کی بنیاد اور ان کے آپس کے اختلافات بھی انہی احادیث کی وجہ سے ہیں

آئمہ و فقہا میں اختلاف   کی بڑی وجوہات 
اختلاف صحابہ :۔
 قرآن وحدیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ تھے، وہ براہِ راست حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم  سے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے وہی حضرات قرآن وحدیث کی مراد کوصحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں؛ لہٰذا ان حضرات نے جوسمجھا ہے وہ ہمارے لیے معیار اور مشعلِ راہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ  قرآن ورسول کے ایک ہوتے ہوئے حضراتِ صحابہ  رضی اللہ عنہ کے مابین بے شمار مسائل میں اختلاف تھا، ائمہ اربعہ  نے چونکہ ان ہی حضرات اور ان سے فیض یافتہ حضرات (تابعین) کی فہم وبصیرت پراعتماد کیا ہے اور ان ہی کے اقوال ومذاہب کواختیار کیا ہے؛ اس لیے ائمہ اربعہ  کے درمیان جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا وہ دراصل صحابہ  رضی اللہ عنہ کے اختلاف کی وجہ سے ہوا ہے اور صحابہ  رضی اللہ عنہ کے باہمی اختلاف کے متعلق حدیث میں ہے  حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے اپنے بعد صحابہ  رضی اللہ عنہ کے اختلاف کے متعلق پوچھا، اللہ نے بذریعہ وحی بتلایا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے صحابہ  رضی اللہ عنہ میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان کے ستارے کہ ان میں بعض کی روشنی بعض سے زیادہ ہے، جوشخص آپ کے صحابہ  رضی اللہ عنہ کے مسالکِ مختلفہ میں سے کسی مسلک کواختیار کرے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پرہوگا۔
۔(کنز العمال، حدیث نمبر:۹۱۷۔)۔
فقہی مسائل میں پیدا ہونے والا  یہ اختلاف عہدِ صحابہ  سے ہے اور جواختلاف صحابہ کے دور میں رہا ہے اس کے باقی
رہنے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر،
احادیث میں اختلاف :۔
احادیث کی روایت عموماً بالمعنی ہوتی ہے؛ نیزان میں ناسخ ومنسوخ بھی ہوتا ہے، بعض دفعہ کسی حدیث کا تعلق بعض اشخاص واوقات کے ساتھ ہوتا ہے؛ اسی طرح حدیث کے الفاظ بعض دفعہ مختلف معانی کے متحمل ہوتے ہیں، معانی کے اس اختلاف سے عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آتی ہیں، چونکہ احکام ومسائل میں یہ اختلاف اجتہاد، اخلاص وللّٰہیت، تلاشِ حق، منشائے خداوندی کوسمجھنے اور مرادِ نبوی کی حقیقت کوجاننے کے لیے ہوا ہے اس لیے اس کومذموم اوربُرا نہیں کہا جاسکتا۔
اختلاف کو باقی رکھنا خود الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا منشا ہے
 یہ بات ادنیٰ غور وتامل سے معلوم ہو سکتی ہے، مثلاً الله تعالیٰ نے وضو میں سر کا مسح کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے ﴿وامسحوا برؤسکم﴾ یہاں لفظ ”ب“ استعمال کیا گیا ہے، ”ب“ کے معنی عربی زبان میں بعض یعنی کچھ حصہ کے بھی ہوتے ہیں اور ”ب“ زائد بھی ہوتی ہے ، پہلی صورت میں معنی ہو گا سر کے بعض حصہ کا مسح کر لو اور دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ پورے سرکا مسح کرو، چناں چہ بعض فقہاء پورے سر کے مسح کو ضروری قرارا دیتے ہیں اور دوسری رائے کے مطابق سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہو گا، ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کے علم میں”ب“ کے یہ دونوں معنی پہلے سے موجود ہیں ، اگر الله چاہتے تو بعض کا لفظ استعمال فرماتے اورمتعین ہو جاتا کہ پورے سر کا مسح ضروری نہیں ، یا ”کل“ کا لفظ ارشاد فرماتے اور یہ بات پوری طرح بے غبار ہو جاتی کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے، لیکن خدائے علیم وخبیر نے اس صراحت کے بجائے اپنی کتاب میں ایک ایسا لفظ ذکر فرمایا جس میں دو معنوں کا احتمال ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف رائے کا باقی رہنا خود منشائے ربانی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین”قرء“ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،” قرء“ کے معنی حیض کے بھی ہیں او رزمانہ پاکی کے بھی ، اسی لیے بعض فقہاء نے تین حیض مدت قراردی ہے او ربعض نے تین پاکی ، ظاہر ہے کہ ” قرء“ کے دونوں معانی الله تعالی کے علم محکم میں پہلے سے تھے ، اگر الله تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے ” قرء“ کے صریحاً حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا، 
یہی صورت حال احادیث نبویہ میں بھی ہے ، مثلا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حالت اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اغلاق کے معنی جنون وپاگل پن کے بھی ہیں اور اکراہ ومجبور کے بھی ، چناں چہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے او ربعضوں نے دوسرے معنی کو ، حالاں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے ، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اختلاف منشا خداوندی اور رحمت کیوں :۔
  ائمہ کے درمیان جزوی مسائل میں اسطرح کا اختلاف رونماہونا  رحمت ہے تاکہ  زمانے کے حالات وضروریات اوراس کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اس عمل کومختلف طریقے سے انجام دیا جاسکے، اور مختلف فقہی مسالک کی شکل میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی متفرق سنتیں اور طریقے زندہ ہوں اور سماج ومعاشرے میں رواج پائیں، تنگی کے وقت سہولت کا باعث بنیں۔اسی لیے شریعت نے اپنے ایک بڑے حصے میں جزوی اور متعینہ احکام دینے کے بجائے محض اصولی ہدایات دی ہیں تاکہ ہردور کے حالات اور ضروریات اور عرف ورواج کے مطابق عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آسکیں اور اس نے اپنے احکام میں ایسی گنجائش اور کشائش رکھی ہے کہ ایک ہی عمل کومختلف شکل میں انجام دیا جاسکے۔
پتہ نہیں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عباس کو راویوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا جبکہ حدیث کو قبول کرنے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی کی ساکھ اچھی ہونی چاہیے، تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ابو ہریرہ نے بحرین کے مال میں کرپشن کی اور بن عباس نے بصرہ کے مال میں کرپشن کی (7) کیا عوام کا مال کھا کر بھی انسان کی ساکھ باقی رہتی ہے؟ کیا کرپٹ لوگوںسے حدیث لی جاسکتی ہے
 اعتراض کرنے والے کی دورخی دیکھیں ، جناب صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے   خود تاریخ سے استدلال کررہے ہیں  جس کی  کوئی سند موجود  ہی  نہیں ۔ جناب ایک طرف احادیث  جنکی سند اور متن کی درستگی کے یقینی ثبوت  موجود ہیں' کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہیں ، دوسری طرف اپنی بات کی دلیل میں تاریخ سے  ایک ایسی بات پیش کررہے ہیں جسکا ان کے  پاس  نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ اس  معیار کا حوالہ ہے جو وہ حدیث کے صحیح ہونے کے لیے مانگ رہے ہیں ،  جب سبب تنقید ضد اور تعصب ہو، پھر اعتراض گھڑنے کے لیے  اسی طرح کی منافقت کا سہار ا لینا پڑتا ہے۔یہی حال ان مغربی  معترضین ، مشر  قین ، پراپیگنڈہ بازوں کا  بھی ہے جنکی کتابوں ، سائیٹس سے جناب  میٹریل چوری کرتے ہیں ۔ وہ قرآن وحدیث کی حفاظت کے اتنے پائیدار اور  زبردست انتظام کے باوجود اس  پر برسوں سے اعتراض کرتے آرہے ہیں لیکن ان لوگوں کی اپنی  مذہبی کتابوں کا کیا حال ہے وہ سب کے سامنے ہیں ، انکی کتابیں کلام الہی کے بجائے کلام انسانی میں تبدیل ہوچکی ہیں  اور اپنے اندر  انتہائی تضادات کا شکار ہیں۔ خود انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مصنفین کے مطابق  توراۃ حضرت موسی علیہ السلام کے صد ہا سال کے بعد کتابی شکل میں مدون ہوئی ہے، عیسائی دنیا چار انجیلوں کو تسلیم کرتی ہے ، ان چار انجیلوں میں سے ایک کے لکھنے والے نے بھی عیسی علیہ السلام کو خود نہیں دیکھا ، بلکہ اب تو یہ بھی مشکوک سمجھا جا رہا ہے کہ جن چار آدمیوں کی طرف انکی نسبت کی جای ہے  (یعنی متی ،مرقس، یوحنا ، لوقا  )ان کی  طرف یہ نسبت صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ مطلب یہ کہ ان  کے لیے جس درجہ کا علمی ثبوت ہونا چاہیے واقعتا وہ موجود نہیں ہے،   جبکہ  ہمارے ہاں تو ضعیف حدیثوں تک کی سند موجود ہے، اور اس سند کے ضعف اور عدم ضعف پر دلائل قائم ہیں۔
دھن رے دھنیے اپنی دھن، پرائی دھنی کا پاپ نہ پن
تیری روئی میں چار بنولےسب سے پہلے ان کو چن

 گریٹ بک آف ویسٹرن ورلڈ مغرب کی  ایک کتاب ہے  جسے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا  کمپنی نے  شائع کیا ہےیہ کتاب مغربی دنیا کے علمی و فکری خزانے کی مکمل تاریخ ہے جتنی اہم ترین کتب مختلف زمانوں میں‌ مغربی مورخین فلاسفہ ،ادبا اور سائنسدانوں وغیرہ نے لکھیں وہ مختلف عنوانات کے تحت یکجا کر کے شائع کردی گئیں۔ اس کتاب میں نہ حدیث کی طرح کا کوئی سند کا سلسلہ ہے اور نہ متن کے گواہوں کا کہیں تذکرہ  ہے  پھر بھی جد ید ترقی یافتہ مغربی دنیا اور  جنوبی ایشیا کے  خود کو پڑھا لکھا کہنے والے   دانشور، پروفیسر، ڈاکٹر  اسے تاریخی اقتباس اپنی کتابوں اور آرٹیکلز میں کاپی کرتے ہیں  ، کبھی کسی نے  ان کے حوالہ پر اعتراض نہیں کیا،  بخلاف حدیث کے  جس پر اعتراض ہے جسکا ہر جزسند اور دلیل سے ثابت ہے ۔ پھر سند کی بھی پوری تنقیح اور تنقید اور ہر ممکن ذریعہ سے جانچ پڑتال کی گئی ہے اور ٹھوس علمی شہادت کے بعد قبول کی گئی ہے۔۔۔اگر موازنہ کیا جائے تو احادیث سچائی اور اعتماد میں اہل مغرب کی ایسی کسی بھی علمی کاوش سے ہزار درجے بہتر ہیں۔ لیکن پھر بھی اس پر اعتراض ہے اور  اسکو چھوڑنے کی نصیحتیں ہیں ۔ ۔ 

ابو ہریرہ   محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کی روایت میں سب پر سبقت لے گئے اور کوئی 5374 احادیث روایت کیں، حالانکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محض تین سال رہے!! جبکہ عبد اللہ بن عباس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی 1660 احادیث روایت کیں حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 13 سال تھی!! قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاقت محض 3 سال رہی جبکہ دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت محض بچہ تھا تو کیا ان دونوں میں اتنی قدرت تھی کہ وہ ایک طویل عرصے تک اتنا سارا ڈیٹا اپنے دماغ میں لے کر گھومتے رہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسے محض یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے “ری سٹور” کر سکیں؟؟
یہ حقیقت ہے کہ عربوں میں زبانی یاد داشتوں کاقدیم زمانے سے  رواج تھا، ان میں حفظ کی زبردست صلاحیت موجود تھی،صدیوں سے یہ لوگ اپنے قبائل کی تاریخ اوراپنے خاندانوں کے انساب  یاد رکھتے  آرہےتھے  اور راوی کا لفظ ان کے ہاں پہلے سے موجود تھا۔ عربوں میں حافظہ کی قوت میں بہت سے لوگ مشہور تھے ۔تابعی کبیر حضرت قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ  (۱۱۸ھ) کا حافظہ حیرت ناک تھا، جو بات ایک مرتبہ سن لیتے ہمیشہ کے لیے یاد ہوجاتی(تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۶۔تہذیب التہذیب:۴/۳۵۷) ،  امام زہری اورامام بخاری رحمہ اللہ  کے حافظے تاریخ اسلام میں شہرہ آفاق ہیں۔ہشام بن عبدالملک نے ایک موقع پر  اما م زہری کے حافظے کا امتحان لینا چاہا؛ چنانچہ آپ سے درخواست کی کہ ان کے بعض صاحبزادے کو حدیثیں املاء کروائیں؛ لہٰذا ابن شہاب نے ایک مجلس میں چار سو حدیثیں املاءکروائیں، ایک ماہ کے بعد ہشام نے کہا کہ وہ صحیفہ ضائع ہوگیا؛ اس لیے دوبارہ حدیثیں لکھوادیں؛ چنانچہ ابن شہاب نے دوبارہ چارسو حدیثیں لکھوائیں، جب مقابلہ کیا گیا توایک لفظ کا بھی فرق نہ تھا۔  (تہذیب الکمال:۶/۵۱۲)
حضرت ابو ہریرہ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ آپ  نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنی یاداشت کی شکایت کی تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ، آپ نے باذن الہٰی اس میں روحانی توجہ فرمائی اور حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ    بے نظیر حفظ کی دولت سے مالا مال ہوگئے؛ پھر اللہ تعالی نے آپ سے حدیث کی وہ خدمت لی کہ جو سنا پھر کبھی نہ بھولے اورجو دیکھا وہ ہمیشہ کی یاد بن گیا، خود فرماتے ہیں:
"فضممتہ فما نسیت شیئا بعدہ"۔  
ترجمہ: پس! میں نے وہ چادر سمیٹ لی،اس کے بعد میں کبھی کچھ نہ بھولا۔(صحیح بخاری: ۴۱)۔
اس کے علاوہ ایک سادہ سی بات ہے جب تلاوت وقرأت میں بھول چوک حفاظت قرآن کو مجروح نہیں کرتی تو نقل روایت کی کسی غلطی سے یا راوی کی بھول چوک سے حفاظت حدیث مجروح کیسے ہوسکتی ہے ، جس طرح غلط تلاوت پر ٹوکنے اور لقمہ دینے والے ہر جگہ اور ہر دور میں ملتے ہیں، ضعیف اورنامکمل روایات پر راویوں کی بھول چوک کو نمایاں کرنے والے محدثین بھی ہر دور میں اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں۔
خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں ایک زندیق کو قتل کے لیے لایا   گیا ، وہ کہنے لگا کہ تم مجھے تو قتل کردوں گے لیکن ان ایک ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جو میں نے وضع کرکے چالو کردی ہیں، ہارون الرشید نے فورا جواب دیا :
اے دشمن خدا    ! تو ابو اسحق فزاری اور ابن مبارک سے بچ کر کہا ں جاسکتا ہے  وہ ان کو چھلنی کی طرح چھان کر ایک ایک حروف نکال پھینکیں گے۔(علوم الحدیث 32)۔
 جو شخص ضعیف ومنکر روایات کے سہارے کل ذخیرہ احادیث کو مشکوک سمجھتا ہے،وہ اسی شخص کی طرح کا جاہل ہے  جو تلاوت اورقرات کی بعض عام غلطیوں کے باعث حفاظت قرآن ہی سے منکر ہو یا اس میں شک کرنے لگے۔


قابل افسوس ہیں یہ لوگ جو علوم حدیث کی ابجد تک نہیں جانتے ، ائمہ رحمہم اللہ کے وضع کردہ قوانین کی الف ، ب تک نہیں جانتے ، خود ان کی علم حدیث سے معرفت جہالت کے درجے سے بھی کم ہے  ،اپنی ذاتی سوچوں اور اِدھر اُدھر کی سنی سنائی حکاتیوں اور فلسفیانہ "نظریات "کو علم سمجھتے ہیں اور اس کی بنا پر علمی حقائق کو جُھٹلاتے ہیں اور محض سنت دشمنی کے لیے ، حدیث کا تحفظ کرنے والوں اور  علمی قوانین اور تحقیق کو غلط کہتے ہیں ۔۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ  جو  صرف اپنی عقل ، اپنی سوچ کے مطابق اور اپنے اختیار کردہ فلسفوں کے مطابق جو پسند نہ آئے  اسی کو  رد کرے ،  اپنی ضد اور تعصب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کے خلاف صف آراء رہے، اپنی جانوں کو گلا گلا کر سُنّتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جمع کرنے ، اور اس سے متعلق روایات کی تطہیر کرنے والے عُلماء  کے خلاف زہر افشانی کرتا رہے ، اس کو اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ  شخص شقی اور بدبخت    ہے۔  
  کس قدر لائقِ شرم ہے کہ یہ حرماں نصیب، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری کی بجائے اپنے گلے میں ان کفار و ملحد ین  کی غلامی کا پٹہ سجانے میں “فخر” محسوس کرتے ہیں۔ حیف ہے اس عقل و دانش اور دین و مذہب پر! جس کی بنیاد الحاد و زندقہ پر ہو، جس میں قرآن و سنت کی بجائے جاہلین  کے کفریہ نظریات و عقائد کو درجہ استناد حاصل ہو، سچ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو عقل و خرد چھین لیتے ہیں، جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔اللہ ہمیں بدبختی سے بچائے۔ 




مکمل تحریر >>