اتوار، 27 مئی، 2012

نورانی جال

 ڈاکٹر سرفراز صاحب  ہمارے کالج میں کے سینئر ٹیچر ہیں ، ان  کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کا  سلیقہ  آتا ہے اور انکے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے،عام سی بات بھی اپنی مخصوص انداز میں اس طرح کرتے ہیں کہ سننے والے کو مزا آتا ہے۔  اکثر سٹوڈنٹ فارغ اوقات میں ان کے گرد ہجوم لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور انکی مکس قسم کی  باتوں سے معزوز ہوتے رہتے ہیں ،   ڈاکٹر صاحب   امیر فیملی  سے ہیں اور امریکہ میں ساری تعلیم مکمل کی ہے  اس لیےانکی  تہذیب کا بھی بہت اثر ہے، موسیقی کے بہت شوقین ہیں ،  شراب بھی پیتے ہیں  اور نماز روزے کی پراہ نہیں کرتے. . ایک دن بریک ٹائم ہم بھی ان کے ٹھیے پر جا پہنچے،  وہ  مسلمانوں کی معاشرتی خرابیوں پر گفتگو فرما تے ہوئے کافروں کو مسلمانوں سےہر لحاظ سے  بہترقرار دیتے ہوئے اپنے موقف پر دلیلیں دے رہے تھے کہ انگریز  کتنے انصاف پسند اور سلجھے ہوئے ہیں اور یہ  مسلمان  کس طرح ہر  لحاظ سے تباہی کا شکار ہیں، مسلمانوں کی  ہر برائی کا تذکرہ کیا، مسلمانوں کی مختلف  کمزوریوں پر دل سوز انداز میں تبصرہ کرنے کے بعد انہوں نے سیاست کی طرف رخ کیا اور سب بڑے سیاستدانوں کی مٹی پلید کرنی شروع کردی اور پاکستان کی اسلامی  سیاسی جماعتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے چہرے سے غصہ عیاں تھا۔ ایک باریش  لڑکے نے کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو اللہ کا عذاب ہے جو ہمارے اوپر ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ہم  میں سے ہر بندہ اس کا ذمہ دار ہے، ہم لوگ خود سوچیں ہم اللہ کی کتنی اطاعت کرتے ہیں اور اسکے کتنے حقوق پورے کرتے ہیں،    ڈاکٹر صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکی  بات کو کاٹا  اور بولے   بھئ  اللہ نے اپنے حقوق کے بارے میں فرما دیا ہے کہ میں انہیں  معاف کردو گا ،حقوق العباد  معاف نہیں کرو نگا،  ایک تو  تم مولوی لوگ حقوق اللہ کی ہر جگہ بات کرتے رہتے ہو ، حقوق العباد کے بارے میں بولتے ہی نہیں، بھئی حقوق العباد پورے کرو جنت میں کوئی بھی اپنے  نماز روزے  کی وجہ سے نہیں جائے گا  بلکہ اللہ کی رحمت سے جائے ، پھر  (مشکوۃ کی )حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ  کہ  ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں  پہنچا ئے گا۔غرض کیا گیا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟ فرمایا  ہاں، میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک  اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے۔۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی 'اعمال' کا بھی بڑے فخریہ انداز سے تذکرہ کیا  کہ میں یہ یہ گناہ کرتا ہوں لیکن  کسی کا حق نہیں مارتا، کسی کے ساتھ ظلم نہیں  کرتا۔ یہ بات کرکے ڈاکٹر صاحب اٹھ کر کلاس میں چلے گئے  اور مجھے عجیب     حیرانگی کی کیفیت میں  مبتلا کر گئے،   مجھے سارا دن افسوس رہا  کہ مجھے وہاں اس پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا ،دن اسی بے چینی میں کٹ گیا کہ کیسے ان لوگوں کو سمجھاؤں ۔ ۔ ۔ ان سے تو بات کرنے کا موقع نہیں ملا  ،  گھر آکر اپنے دل  کا  غبار  بلاگ پر نکال دیا کہ 

نغمہ ہائے غم کو بھی اےدل غنیمت جانئے
بےصد ا ہوجائےگا یہ ساز ہستی ایک دن

   اللہ  یہ باتیں  اپنے فضل سے ان لوگوں تک پہنچا دے جو  اپنے خالق  کی  عفو وکرم  کے وعدوں کو سامنے رکھ کر  ناصرف اس کے  ہر حق کو ترک کیے بیٹھے ہیں بلکہ میری طرح  جرت سے    اس کی نافرمانیاں اور گناہ  بھی   کرتے ہیں،  وہ اس بات  کو بھولے بیٹھے ہیں کہ جہاں  اللہ   کی صفت رحمان  اور رحیم بھی ہے وہاں  قہار و جبار بھی ہے، اس  نے جنت مسلمانوں کے لیے بنائی ہوئی ہے ، ایک مخصوص جہنم ایمان والے گناہگاروں کے لیے  بھی بنائی  ہوئی ہے ۔ جن اعمال    نماز روزہ ، حج ، زکواۃ کو لوگ  حقوق العباد کا نعرہ لگا کر بھول چکے ہیں اگر انہیں   اسلامی شریعت سے نکال دیا جائے  تو باقی  کچھ بھی نہیں بچے گا،  اعمال کے تذکرے اور  جزا و سزا پر قرآن کی ہزاروں آیات   اور  حضور کی ہزاروں حدیثوں کو بھی نکالنا پڑے گا،  یہی نہیں مسلم معاشرے کا وصف،  امتیاز اور پہچان بھی بالکل ختم ہوجائے گی ، کیونکہ حقوق العباد تو کافر بھی پورے کررہے ہیں, ، مسلمانوں کی پوری دنیا میں ظاہری  شناخت  تو  یہی اعمال ہیں ۔  ڈاکٹر صاحب نے  اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے حدیث  کے اس حصے   کو بیان ہی نہیں کیا  کہ اللہ چاہےگا تو اپنا حق معاف کردے  اور یہاں یہ تاثر دے گئے  کہ نعوذ بااللہ اللہ  پابند  ہے کہ  وہ  لازمی اپنے حقوق معاف کردے گا  ،   میری ان باتوں کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ حقوق العباد کی کوئی حیثیت نہیں  یا اللہ مسلمانوں کی   بد اعمالیوں کوکسی صورت  معاف نہیں کرے گا، مسئلہ اعتدال اور ضابطے کا ہے۔ حقیقت میں جو  لوگ حقوق العباد  کو چھوڑ کر صرف حقوق اللہ کے کی ادائیگی پر زور دے رہے  ہیں وہ   بھی   اتنی   ہی  گمراہی اور  افراط وتفریط کا شکار ہیں جتنی حقوق اللہ کو چھوڑ کر حقوق العباد میں لگےہوے لوگ۔۔اسلام نے حقوق العباد کو  اہمیت دی ہے لیکن حقوق اللہ کی قربانی پر نہیں ،   حضور صلی للہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی ایک حدیث ہے  کہ  لا طاعة لمخلوق في معصية . (متفق عليه) ،جہاں خالق کی نافرمانی کرنی پڑے، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ 
اللہ کی عبادت کرنا اللہ  کا سب  سے بڑا حق ہے جو کوئی اللہ کے  علاوہ کسی اور کو معبود بنا لے   اللہ اسے کبھی معاف نہیں فرمائے گا (ِانَّ اللّٰہَ لَا یَغفِرَ اَن یُشرِکَ بِہِ۔۔۔) ۔ ہم لوگ اسی شرک خفی میں پڑے ہوئے ہیں، کسی دوکاندار کو نماز کا کہین تو کہتا ہے بچوں کے لیے رزق کمانا بھی عبادت ہے نہ جی، کسی نوجوان کو داڑھی کا کہیں تو کہتا ہے والدین، بیوی ناراض ہوجائے گی ۔ ۔اسی طرح ہر کسی نے  اپنے ہزاروں خدا بنائے ہوئے ہیں جن  کے حکم کو وہ اپنے اصلی خالق و مالک کے حکم پر فوقیت دیتا ہے ، حالانکہ قرآن میں  عبادت  کے اس حق کو ماں باپ کے حق پر بھی فوقیت دیتے ہوئے پہلے لایا گیا  ہے۔ وقضى ربك الا تعبدوا الا اياه وبالوالدين احسانا
 ڈاکٹر صاحب نے  اللہ کی رحمت پر بھی حدیث پیش کی  کہ حضور نے فرمایا کہ سب لوگ اللہ کی رحمت  سے جنت میں جائیں گے۔  اس  پر ایک آیت پیش کرتا ہوں ۔
  والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر ويقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة ويطيعون الله ۔ورسوله أولئك سيرحمهم الله إن الله عزيز حكيم ۔(9:71 )۔
 اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحمت نازل کرے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
اللہ نے اس آیت  میں  رحمت کے حقدار   امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والوں، نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور سنت پر چلنے والوں کو ہی  ٹھہرا یا ہے ،سوچنے کی بات ہے  جو لوگ ان اعمال کو چھوڑ کر صرف اپنی مرضی کے حقوق العباد پورے کرنے میں لگے بیٹھے ہیں وہ کیسے اللہ کی اس رحمت سے مستفید ہوں گے جس کا تذکرہ اس حدیث میں ہے ۔ بزرگوں سے سنا کرتے تھے  کہ شیطان کےشیطانی جالوں کے علاوہ  نورانی جال بھی ہوتے  ہیں جن کے ذریعے وہ لوگوں کو عبادت کے رنگ میں  گمراہ کرتا ہے آج ان کا تجربہ ہوا کہ کس طرح لوگوں کو شیطان نے اپنے  ان نوارنی جالوں  میں پھنسایا ہوا ہے اور  وہ اپنی بد اعمالیوں کا حدیث کے ذریعے  دفاع کررہے ہیں  ۔ اللہ ہمیں افراط و تفریط سے بچائے۔     

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 12 مئی، 2012

کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

آج  سائنس و ٹیکنا لوجی نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں بے شمار ایجادات کا جس طرح نفوذ ہو گیا ہے، اس بنا پر کچھ ایسی فضا بن گئی ہے کہ  یہ  محسوس ہوتا ہے کہ  آپ کو اگر زندگی گزارنی ہے اور کام کرنا ہے تو آپ کے چاروں جانب  یہ چیزیں لازمی موجود ہوں ۔ جدیدایجادات  میں سے بہت سی کے معاشرتی اور معاشی اثرات اتنے  قبیح ہیں کہ مسلم معاشرے تو کجاغیر مسلم معاشرے کے شریف النفس لوگ بھی پریشان ہیں۔ ان میں سے ایک  کیبل  اور موبائل فون ہے ، کیبل  کا حقیقی فاعدہ تو کچھ نہیں، لیکن موبائل  کے فواعد سے سب  واقف ہیں،  اس نے ہمارے  زندگی میں بہت سی جگہوں پر آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ لیکن ان  کے رائج  غیر معتدل استعمال نے ہمارے معاشرے کو گندگی کے جس راستے  پر ڈال دیا ہے اس کا انجام ایٹم بم سے بھی تباہ کن ہے۔ اہل نظر دیکھ رہے ہیں کہ یہ  کیبل ٹی وی چینل اور موبائل  نے آہستہ آہستہ خیر وشر کے پیمانےکس طرح بدل ڈالے ہیں،  موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے ایک نئی زبان ، نئی تہذیب ، خبیث رویے ،گناہ گار طرزِ گفتگو، بے ہودہ اشارے، کنارے اور جملے ایجاد کیے گئے ہیں اور  زبان، وبیان کی نزاکت اور لطافت کو اور طرز گفتگو سے نفاست ، طہارت ، شرافت کو بالکل رخصت کر دیا  گیاہے اور  سہولت کے نام پر زبان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ ان  ایجادات نے ہر شخص کو بخوشی آمادہ کر دیا کہ وہ ہمہ وقت دنیا کے آفات وآلام سے پُرہنگاموں، شوں شور، شور وشغب، سازشوں، دنیا پرستی، لذت طلبی، موج مستی، زرپرستی، شہوت انگیزی سے اپنی زندگی کا رشتہ خلوت وجلوت میں مسلسل جوڑے رکھے،  موبائل کی گھنٹیوں اور موسیقی نے تو  خانہ کعبہ، مسجد نبوی، مساجد، خانقاہوں کی پر سکون فضا کو بھی نہیں چھوڑا ۔اب تو  اس کے لغو اثرات مذہبی لوگوں پر بھی اس قدر حاوی ہو گئے ہیں کہ وہ ان مقدس مقامات کی طرف باربار  آنے کے باوجود اپنے فون کی گھنٹی بندکرنا بھو ل جاتے ہیں، جب لوگ دنیا جہاں کے بکھیڑوں سے خود کو نکال کر  رب کے ساتھ ہم کلام ہوئے  ہوتے ہیں فون کی گھنٹی ان مقدس لمحات کو پرزہ پرزہ کر دیتی ہے اور اب تو لوگ فون آجائے تو  مسجد چھوڑ کر   باہر آ کر  گپیں لگانے لگ جاتے ہیں، پھر ہنستے مسکراتے مسجد میں دوبارہ داخل ہوتے نظر ہیں اور   ان کے چہرے پر   خانہ خدا میں گانے بجنے پر ندامت  کے آثار تک نہیں ہوتے  ۔ ۔

اہم بات یہ ہے کہ اس حادثے کا اثر صرف  عوام پر ہی نہیں ہوا  بلکہ  ان  خبیث شیطانوں نے   بڑے بڑے مذہبی لوگوں کو بھی  خاموشی سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ پہلے دور میں شریف گھرانوں کی لڑکیاں گھروں سے کم باہر نکلتی تھیں اس لیے ان کا کسی شر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی نہیں ہوتا تھا آج ان  موبائل کی کال، ایس ایم ایس کے ذریعےاور فلموں ڈراموں کے ذریعے  غیر لوگ ان کے کمروں میں داخل ہوگئے ہیں،   موبائل  نے انکی  خلوت تک گناہ کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔یہ لوگ جب چاہیں ان سے ہر طرح کی باتیں کرسکتے اور انہیں ڈسٹرب کرسکتے ہیں،  اچھے اچھے شریف گھرانوں کے لڑکیاں، لڑکے خلوت جلوت میں  غیر محرموں سے فون پر باتیں اور  میسج کرتے  نظر آتے ہیں۔ وہ لمحات جو ان کے عبادت ، خدمت، آرام میں گزرتے تھے آج  ان  خرافات اور گناہوں کی نظر ہیں  ،  ماں باپ موبائل فون کی آفتوں سے ناواقف ہیں یا بہت سادہ لوح ہیں، اس کے نتیجے میں ایک عجیب نسل پروان چڑھ رہی ہے ،لڑکے لڑکیوں کو آوارگی، آبروباختگی سکھانے کے لیے راتوں کو سستے سے سستے پیکج فراہم کیے گئے  ہیں اور  سونے جاگنے کے اوقات کو زیر وزبر کر دیا گیا  ہے ،  کم عمر لڑکے اور لڑکیاں اسکول، کالج، یونیورسٹی میں ہمہ وقت موبائل فون پر گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور انکے   یہ محض انجوائے کرنے کے سلسلے رفتہ رفتہ ناجائز جنسی تعلق میں تبدیل ہو کر  بہت جگہوں پر حرامی نسلوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، اس وجہ سے  نجی ہسپتالوں  میں ناجائز حمل کو گرانے کا وسیع کاروبار  بھی عروج پر ہے، جہاں کالجوں کی لڑکیاں اپنے کالج کے لباس میں اسقاط حمل کے لیے قطار لگاتی ہیں اور اپنے زیورات بُندے چوڑیاں دے کر اس گناہ کی قیمت ادا کرتی ہیں او رپھر گھر جاکر والدین سے تھانوں میں ان چیزوں کی  چوری کی رپورٹ لکھواتی ہیں، دوسری  طرف  اس نشے کی خاطر بچیاں ، بچے ماں باپ کے پیسے چراتے ہیں، امیر رشتہ داروں کے گھر میں چوریاں کرتے ہیں، دوستوں کا مال چوری کرتے ہیں اوراگر یہ راستے بند ہو جائیں تو اپنی عزت کا سودا کرنے پر بخوبی آمادہ ہو جاتے ہیں ۔۔

حقیقت میں  یہ محض اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ پوری پلاننگ کے ساتھ تہذیبی  گندگی کے اس  طوفان کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا  ہے جو خاموشی کیساتھ  شیطانیت کو ہر طرف  غالب کرتا جارہا ہے۔شاید یہی وجہ ان  کے کم قیمت اور آسان حصول کی بھی ہے ،  چند سال پہلے کیبل ٹی وی چینل چند شہروں تک محدود تھے اور ‘شوقین’ لوگ ڈش انٹینا استعمال کرتے تھے ، اب اس کے جال کو دوردراز کے دیہاتوں تک پھیلا دیا گیا ہے اور انتہائی غریب آدمی  بھی روز ایک فلم دیکھ کر سوتا ہے۔ یہی حال موبائل کا بھی ہے  کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے شہر سے امریکا چند منٹ کا فون چھ سو روپے میں ہوتاتھا ،اب صرف دس روپے میں ہو رہا ہے، چند برس پہلے کراچی چند منٹ کی کال چالیس روپے میں ہوتی تھی، اب دو سو روپے میں آپ پانچ ہزار منٹ بات کرسکتے ہیں ۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں آٹھ کروڑ موبائل فون زیر استعمال ہیں۔ پاکستان  اس وقت موبائل فون  کی  دنیا کی  بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے ، قیمتی قومی زر مبادلہ کو صرف بولو، بولتے رہو، جوچاہے بولو، کہو اور خوب کہو ، دل کھول کر بولو جیسے احمقانہ فلسفے کے فروغ کی خاطر تباہ کیا جارہا ہے ، وہ لوگ جن کے گھروں میں پیٹ بھر کر کھانامیسر نہیں ہے وہ بھی مسابقت کی دوڑ میں شرکت کے لیے اشتہارات سے  متاثر ہو کر موبائل فون خرید رہے ہیں اوراپنے پاؤں اپنی چادر سے باہر نکال رہے ہیں ۔موبائل اور کیبل کمپنیوں نے نے صرف چند  ہزار افراد کو روز گار فراہم کیا ، لیکن اربوں روپے کا زر مبادلہ بیرون ملک منتقل کیا اور پاکستان کی مذہبی، تہذیبی ،اخلاقی ،اسلامی اقدار کو چند سالوں میں اس طرح تہس نہس کر دیا کہ اب کھربوں روپے خرچ کرکے بھی ان اقدار روایات رویوں کی بحالی ممکن نہیں۔
سب سے  بڑا المیہ  اور نقصان یہ ہورہا ہے کہ  ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ابھی تک ان  کی تباہی کو سمجھ ہی نہیں رہا کہ ان دونوں چیزوں  نے فرد، معیشت، معاشرت، اخلاقیات، ایمانیات کو کس طرح خاموشی سے تباہ کردیا ہے اور تباہی کے دہانے پر لے کر جارہا ہے ، ، ہم اس بارے  سوچنے، اسکو محسوس کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہے۔ ہم  نے بخوشی موبائل  اور کیبل کمپنیوں کو اپنی متاع ، معیشت، اوقات، خلوت، جلوت، غیرت آبرو لوٹنے کی غیر مشروط اجازت دے رکھی ہے ۔

میری اس ساری بحث کا مقصد  ہرگزیہ نہیں کہ میں جدید ٹیکنالوجی کے خلاف ہوں اور اسکو چھوڑنے کا کہہ رہا ہوں ،  میں تو اس کے رائج استعمال کی حدود پر بات کررہا ہوں، ضرورت بلکہ اشد ضرورت اس کی ہے کہ ہم  اس معاملے کو سنجیدگی سے  لیں اور اپنی نسل کو بچانے کے لیے کچھ سنجیدہ ایکشن لیں ۔ یہ بات بظاہر مشکل لگتی ہے لیکن  ان چیزوں  کے نتائج ایسے تباہ کن ہیں کہ  اگر ہمیں اس  آگ  سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانا ہے تو ہمیں لازمی کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑے گی۔ کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔
1.    بیس سال سے کم عمر لڑکے ، لڑکیوں  کو موبائل کی مکمل سہولت نہ دی جائے بلکہ اشد ضرورت (مثلا کہیں  سفر پر جائیں  وغیرہ ) کے وقت  مہیا کیا جائے۔ بڑے  بچے ،بچیوں کی مصروفیت ، سوسائٹی  کو چیک کیا جائے اور ان چیزوں کے استعمال میں انہیں حدود کا پابند بنایا جائے  ،مثلا رات   کو سونے کے متعین ٹائم کے بعد ان کے فون بند ہونے چاہیے  وغیرہ وغیرہ۔
2.    گھر میں عورتوں کی ضرورت کے لیے شیئرڈ موبائل رکھا جائے جسے ضرورت کے ٹائم سب استعمال کریں، اس سے وہ غیر معلوم کالوں کی چھیڑ خانی سے بھی بچی رہیں گیں اور ان کا ٹائم بھی فاعدہ مند کاموں میں لگے گا۔
3.    گھر  میں  اگر ٹی وی رکھنا ضروری ہے تو اس کو ایسے کمرے میں رکھا جائے  جہاں سب کا آنا جانا لگا رہتا ہو۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے غلط استعمال کو بھی اسی طریقے سے روکا جاسکتا ہے۔
4.    اگر آپ بھائی ہیں تو اپنی بہنوں پر،، اگر بہن ہیں تو  چھوٹے بھائیوں پر، اگر ماں یا باپ ہیں تو اولاد پر نظررکھیں ، اپنا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے انکی  تربیت کریں اور اپنی اگلی نسلوں کو ذہنی اور فکری سطح پر اس قدر مضبوط سوچ دیں کہ وہ اپنے ارد گرد موجوداعتقاد، فکر او رعمل کے فتنوں اور حربوں کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ خود کو ان سے بچاتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں بھی اس حقیقی اور مضبوط فکر کو منتقل کر سکیں۔ جو چیزیں شریعتِ مطہّرہ نے حرام قرار دی ہیں، ان کی حرمت کودل و جان سے حرام سمجھیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتیں بلکہ ان کے اثرات و رذائل سے نئی نسل کو بھی آگاہ کریں۔

امام شاطبی نے الموافقات میں لکھا ہے کہ شریعت کو دین، عقل، نفس، مال اور نسل کی حفاظت مطلوب ہے۔ ہمارا موبائل فون  اور ٹی وی ان سب کا دشمن ہے، اس کے کچھ فوری فائدے اپنی جگہ ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ فوائد  اگر نہ بتائیں جائیں  تو انہیں خریدے  کون ؟ ، مزید فائدے تو شراب اورسود میں بھی ہیں، اس کا ذکر قرآن نے واضح الفاظ میں کیا ہے او رکہا ہے کہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں، ؟ شر میں بھی بہت سے فائدے ہوتے ہیں لیکن اسلام میں کسی چیز کو قبول یارد کرنے کا اصول فائدہ نہیں، مقاصد شریعہ کا حصول ہے۔ جو شے اس مقصد سے مطابقت رکھے وہ ٹھیک ہے۔
 کیا کیبل ، ڈش اور  موبائل فون مقاصد شریعت کے لیے ساز گار ماحول فراہم کر رہا ہے؟
 کیا اس کے استعمال سے ہمارے دین، عقل ، نفس ، مال اور نسل کی حفاظت ممکن ہے؟
 اگر مقاصد شریعت کی حفاظت اس فون اور کیبل  کے استعمال سے ممکن نہیں ہے تو  ہم  کیوں محض چند غیر ضروری فواعد کے لیے اپنی نسلوں کی تباہی کی قربانی دینے پر تلے بیٹھے ہیں  ؟
 ہمیں اپنی اولاد  بھائیوں اور بہنوں پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے  انہی کی بہتری کے لیے انہیں  چیک کرنا  اور پابند بنانا ہوگا ورنہ ٹیکنا لوجی اور ترقی کے اس سیلاب میں وہ  یونہی بہتے چلے گے اور ہم نے اس کے آگے مضبوط فکر اور یقین کا بند نہ باندھا  تو ہم انکی تباہی کے بڑے ذمہ دار ہونگے اور پھر  ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

مکمل تحریر >>