ہفتہ، 3 دسمبر، 2011

سنت نبوی اور ہمارے مغرب پرست دانشوروں کی بیہودہ تاویلیں

لارڈ میکالے کے نظام تعلیم   اور جدید تہذیب  نے   مسلمانوں کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ، اس کی عجیب عجیب مثالیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں،  یہود ونصاری نے ہمارے جوانوں کی اس حد تک برین واشنگ کردی ہے کہ  یہ    نہ صرف جدید تہذیب و ثقافت  کو اپنی بنیادی ضرورت سمجھ چکے ہیں بلکہ کچھ   نے تو اس تہذیب و ثقافت کو اس حد تک مقدس جان لیا   کہ اس کو  انبیا   کے لیے بھی لازمی قرار دینے پر اتر آئے ہیں ۔ ایک صاحب لکھتے ہیں  
" اگر نبی پاک یورپ میں پیدا ہوتے تو کیا ان کا لباس اس ثقافت جیسا نہ ہوتا. . . . . . . . .جناب ثقافت سے بچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ موجودہ بڑے بڑے مشاہیر اور علمائے پاک و ہند کو لے لیجئے کیا وہ نبی پاک والا لباس پہنتے ہیں؟ نہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کے زوال کی۔ ہم نے اسلام کو موجودہ دور کے مطابق ڈھالا ہی نہیں۔ وہی پرانی باتیں اور پرانے قصے "
اپنی ثقافت و لباس کو شاید اتنا مقدس تو یورپ والوں نے خود نہیں جانا ہوگا جتنا یہ لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں، صاحب  نے کس دیدہ دلیری سے  اس ننگ دھڑنگ اور بے حیا  ثقافت کوانبیا کے لیے واجب قراردے دیا (اللہ انہیں معاف فرمائے)،   ثقافت نہ ہوئی آسمانی شریعت ہوگئی۔  جب سے  مغرب  نے   مذہب کو سیاست و معاشرت سے علیحدہ کرکے ذاتی مسئلہ بنایا ، انکا دین عبادت گاہوں تک محدود ہوگیا ، ان کی دیکھا دیکھی ہمارے  کچھ لوگوں  نے بھی یہ سوچنا شروع کردیا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس صرف عبادات میں اسوئہ حسنہ ہے‘ باقی حیات طیبہ کے احوال‘ عادات‘ معاملات‘ معاشرت اسوہ حسنہ نہیں ‘ یعنی ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ عمل نہیں ہیں‘ اپنے باطل دعوے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ معاشرتی امور میں‘ عادات و ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تابع تھے‘ عرب کا جو عرف و عادت اور رسم و رواج تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رعایت کرتے تھے‘ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھی‘ چونکہ وہاں کا ماحول تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹوپی پہنتے تھے‘ چونکہ ٹوپی کا رواج تھا‘ یعنی یہ امور ماحول و رواج کے طور پر تھے‘ اس لئے ان امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع باعث ِ ثواب نہیں۔ یہی بات ہمارے دوست   کے ذہن میں ہے انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ  اگر حضور یورپ میں پیدا ہوتے تو وہ بھی ان جیسا لباس نعوذبااللہ پینٹ شرٹ ، ٹائی  پہن کرپھرتے ان جیسے انہوں نے  بھی شیو کروائی ہوتی ۔ استغفراللہ۔ ایسے لوگوں کو اگر نظر صحیح اور نور بصیرت سے کچھ حصہ ملا ہوتا اور انہوں نے اخبار ، ناول ، پوئٹری کی کتابوں کے علاوہ کبھی اپنے نبی کی سیرت کی کتابوں کو کھول کر  بھی دیکھا ہوتاتو ان کو نظر آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی زندگی میں ماحول اور رواج کی مخالفت کی ہے۔ آپ کا  ماحول تو کفر‘ شرک‘ ظلم‘ تشدد لوٹ مار کا تھا‘ زنا اور بے حیائی کا رواج تھا‘ شعروشاعری اور قمار بازی کا دور دورہ تھا‘ ننگے اور برہنہ طواف کرنے کا عام رواج تھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ماحول کی موافقت اور اسی جاہلیت کے طور طریقہ پر اپنے آپ کو اور صحابہ کرام رضوان اللہ کو ڈھالا؟ یا ان خرافات اور واہیات سے بچنے اور ان سے علیحدہ رہنے کی راہ دکھائی؟  کیا اس زمانے کی سپر پاور  قیصر وکسری کی سلطنتین  نہیں تھیں ، کیا آپ نے ان کے طور طریقوں کو اپنایا ؟
حقیقت میں ہمارا نظری‘بصری میڈیا‘ قومی اخبارات اور لادین رسائل و مجلات بھی نہایت عیاری‘ ہوشیاری اور غیر محسوس انداز میں نئی نسل کو الحاد‘ زندقہ‘ اور لادینیت و دہریت کے گہرے غاروں میں دھکیلنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں، بلکہ سادہ لوح عوام اور نئی نسل کے قلوب میں دین ومذہب سے نفرت وبیزاری کا بیچ بوکر انہیں قرآن وسنت اور دین وملت سے متنفر کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہیں،میں نے خود  ایک مشہور  دانشور کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ   اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے‘ یہ مولویوں کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے‘ اسلام میں چہرے کا پردہ ہے نہ سرکا‘ یہ محض معاشرتی رواج ہے‘ حجاب صرف نبی کی ازواج کے لئے تھا‘اگرچہ داڑھی سنت ہے‘ لیکن حضور کے دور میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں داڑھی رکھتے تھے۔ حدود اللہ کا کوئی تصور قرآن میں موجود نہیں‘ یہ تصور فقہاء حضرات کا ہے “۔یہی باتیں بی اے ، ایم اے کرکے دینی مسائل پر بحثین کرنے والے تمام  نام نہاد  پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور حضرات  کررہے ہیں۔ 
 اگر انکی بات کو مان لیا جائے کہ    بالفرض اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ نعوذباللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟ اور جو شخص اسلام، پیغمبرِ اسلام، قرآن اور سنت کے خلاف ایسی فکر و سوچ رکھتا ہو وہ کیا کہلانے کا مستحق ہے؟
 ایک طرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ  کی یہ گواہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو پیدائش سے موت اور مابعد الموت تک کے ہر ہر مرحلہ میں پیش آنے والے تمام معاملات کی نشاندہی فرمائی تھی، حتی کہ پیشاب ،پاخانہ استنجا اور وضو کا طریقہ بھی آپ نے سکھلایا اور بتلایا ہے، دوسری طرف ہمارے دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو ناقص و نامکمل ضابطہٴ حیات دے گئے۔ کیا کہا جائے کہ اسلام کی تکمیل کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کی گواہی معتبر ہے یا پندرھویں صدی کے ایک نام نہاد ملحد کی ثولیدہ فکری؟
دراصل  یہ لوگ زندگی بھر مغربی تعلیم گاہوں اور ملحد اساتذہ کے زیر تربیت رہے جن کے الحاد و زندقہ نے ان کے قلب و دماغ میں جگہ پکڑلی ہے، اس لئے اب  یہ ان کی اسی ملحدانہ فکر سے سوچتے، ان کی آنکھوں سے دیکھتے اور انہیں کی زبان سے بولتے ہیں۔ اس لیےان کو مسلمانوں کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی بلکہ ان کی مغربی عینک میں ہر چیز ناقص و نامکمل نظر آتی ہے، حتی کہ ان کو اسلام بھی نامکمل و ناقص دکھائی دیتا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسلمان خالص قرآن و سنت پر عمل کرکے پکا سچا مسلمان کہلائے، بلکہ ان کے نزدیک اسلام اور اسلامی دستور اور قانون وہی معتبر ہے، جس پر مغرب اور مغربی آقاؤں کی مہر تصدیق ثبت ہو۔ اس کے برعکس جس دین، مذہب کی تکمیل و تتمیم پر اللہ، رسول، قرآن، حدیث ، صحابہ کرام رضوان اللہ، تابعین رحمہ اللہ، ائمہ مجتہدین رحمہہ اللہ، اجماع امت اور پوری امت مسلمہ کے عملی تواتر کی سند موجود ہو، وہ ان کے نزدیک ناقص و نامکمل ہے۔ 
  باطل کی یہ محنتیں رنگ لائیں  آج ہمارے معاشرے کے عام لوگوں  کی بھی یہی  سوچ بنتی جارہی ہے؟ اکثریت اپنے روزمرہ کے معمولات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کرتی‘ کھانا‘ پینا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ جاگنا‘ چلنا‘ پھرنا‘ شادی‘ بیاہ‘ خوشی‘ غمی‘ سیرت‘ صورت‘ وضع قطع ‘ لباس‘ پوشاک ہر چیز میں نفس اور خواہش کی اتباع ہوتی ہے۔ خود کو مسلمان کہنے والے حضرات    اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بے وقوف ، گھٹیا  اور ڈانس سیکھنے والوں کو تعریف کے لائق ․ دھوکے باز کو ذہین ،    سنت پر چلنے والوں کو بے وقوف اور کم تر  اور خلافِ سنت کام کرنے والوں کو معزز  سمجھتے ہیں ،یہود و نصاریٰ کے طریقوں  اور  لباس کی مشابہت  کرنے والوں اور  داڑھی مونڈنے والوں کو معزز اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے، باریک لباس تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین اور باپردہ اور سادہ باحیا لباس پہننے والیوں کو بے وقوف اور قدامت پسند  کہا  جاتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
 سنت لباس 
 ہمارے نبی کا لباس کیا تھا ؟ کیا وہ اسی جاہلیت کے زمانے کی ثقافت کے مطابق تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص وضع قطع کے کپڑے کے پابند نہ تھے بلکہ ہر وہ کپڑا جو ستر کو پوری طرح ڈھانک سکے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے استعمال فرمایا ہے۔ آپ نے اچھے سے اچھے کپڑے بھی پہنے ہیں اور معمولی سے معمولی بھی ، یہاں تک کہ پیوند لگے کپڑے بھی پہنے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوپی، عمامہ، کرتا یا جبہ، اور تہبند ، پائجامہ کو پسند فرمایا ہے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوپر بدن پر بجائے جبہ وغیرہ کے ایک چادر استعمال فرماتے تھے اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کندھے پر ایک چادر مزید رکھتے تھے۔اس کے علاوہ کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں تناول فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ کھانے اور سونے کیلئے زمین ہی استعمال فرماتے تھے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ شریعت مطہرہ نے لباس کی کوئی خاص شکل یا ہیت متعین نہیں کی کہ فلاں لباس، فلاں ڈیزائن کا اور فلا چیز سے بنے ہوئے کپڑے کا استعمال کریں،بلکہ  ہر مقام، ماحول کی ضروریات، ثقافت اور روایات کے مطابق شرعی اصولوں کی روشنی میں تقویٰ کا لباس مسلمان خود اختیار کرلیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عرب وعجم میں مسلمانوں کا لباس مختلف ہے۔البتہ شرعیت نے  کچھ حدود ایسی ضرور مقرر کی ہیں جنکی پابندی ضروری ہے  اور ان حدود میں رہتے ہوئے آدمی جو وضع چاہے اختیار کرسکتا ہے۔ مثلا  اس میں کافروں اور فاسقوں کی مشابہت نہ کی جائے، لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ وہ اعضاء ظاہر ہوجائیں جن کا چھپانا واجب ہے، مردوں کا لباس عورتوں کے، اور عورتوں کا مردوں کے مشابہ نہ ہو، فخر و تکبر اور دِکھلاوا مقصود نہ ہو،  مردوں اصلی ریشم نہ پہنیں وغیرہ ۔
 (مجبوری کی حالت کے علاوہ) اس بات میں شک نہیں  ہے  کہ آدمی کے دِل میں جس کی عظمت ہوتی ہے اس کی وضع قطع کو اپنانا پسند کرتا  ہے،   یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو  اسلامی لباس کے بجائے انگریزی لباس اور وضع قطع کی پابندی  کی جاتی ہے وہ یہود و نصاریٰ رہن سہن، طور طریقوں کی عظمت  کی وجہ سے ہے۔ ہمارے اسلاف صحابہ کے جذبات  تو یہ تھے کہ جو چیزحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو  محبوب ہوتی وہ آپ کی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی محبوب ہوجاتی، کدو آپ کو نہایت مرغوب تھا، اس لئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی اس کو نہایت پسند فرماتے تھے؛ چنانچہ ایک روز کدو کھارہے تھے تو بول اُٹھے،اے درخت اس بنا پر کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت تھی ،تو مجھے کس قدر محبوب ہے۔
            (ترمذی ،کتاب الاطعمہ ،بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الدُّبَّاءِ،حدیث نمبر:۱۷۷۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صحابی کو ایک رنگین چادر اوڑھے ہوئے دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ وہ سمجھ گئے کہ آپ نے ناپسند فرمایا،فوراً گھر میں آئے اوراس کو چولہے میں ڈال دیا۔      
  (ابوداؤد، کتاب اللباس ،باب فی الحمرۃ)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سےایسی محبت تھی کہ اگر کسی وجہ سے آپ کو رنج ہوتا تو تمام صحابہ کو بھی رنج ہوتا، آپ کو خوشی ہوتی تو تمام صحابہ رضوان اللہ بھی اس میں شریک ہوتے، آپ نے ایک مہینے کے لئے ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی تو تمام صحابہ رضوان اللہ نے مسجد میں آکر گریہ وزاری شروع کردی۔          
  (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل  کامیابی کا  زینہ 
 لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ حضور اور صحابہ کے پاس پیسہ ہے ہی نہیں تھا وہ  قیصر کسری جیسے مہنگے  لباس کیسے پہنتے ، اعلی کھانے کیسے کھاتے، اعلی سواریوں پر کیسے گھومتے ، جدید ٹیکنالوجی سے کیسے فاعدہ اٹھاتے۔؟ یہ کہنا بھی غلط ہےکیوں کہ الله تعالیٰ کی طرف سے تو  رسول پاک کو پیش کش تھی  کہ مکہ کے پہاڑ کو سونا چاندی اور ہیرے بنا دیں ، لیکن رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے یہ منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ ایک دن کھانا ملے گا تو کھا کر شکر کروں گا دوسرے دن اگر کھانا نہ ملے تو صبر کر لوں گا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب اسلام اور مسلمانوں کو شوکت عطا ہوئی اور چہار اطراف سے مالِ غنیمت کے انبار چلے آنے لگے۔ اس حال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ لاکھوں دینار آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چند گھنٹوں میں ضرورت مندوں کو عطا کردیتے اور خود ہاتھ جھاڑ کر اٹھ جاتے۔ اس زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دو دو تین تین ماہ تک چولہا نہ جلتا۔ 
آپ عموماً فقر وفاقہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، ایک بار حضرت عمررضی اللہ عنہ کا شانۂ نبوت میں تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں جس پر کوئی بستر نہیں ہے، جسم مبارک پر تہبند کے سوا کچھ نہیں پہلو میں بدھیاں پڑ گئی ہیں، توشہ ٔخانہ میں مٹھی بھر جو کے سوا اورکچھ نہیں، آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل آئے، ارشاد ہوا کہ عمررضی اللہ عنہ کیوں روتے ہو؟ عرض کیا  کیوں نہ رؤں آپ کی یہ حالت ہے، اور قیصروکسریٰ دنیا کے مزے اُڑارہے ہیں، فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے آخرت اوران کے لئے دنیا ہو۔                
   (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)
حضرت عمر کے زمانے میں باوجود کہ مال بے انتہا آیا لیکن حضرت عمر نے سادگی پر سب کچھ باقی رکھا۔ پیسہ کتنا ہی ہو، لیکن زندگی سادہ اور جب عمر نے انتقال فرمایا تو چھیاسی ہزار کا قرضہ ان پر تھا اور بیٹے کو ادا کرنے کی وصیت کی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ  کے سامنے ایک بچی آئی تو پوچھا یہ کس کی بچی ہے جو اتنی کمزور ہے ؟ صاحبزادوں نے کہا حضرت! آپ کی بچی ہے ۔ فرمایا کیوں اتنی کمزور ہو گئی؟ کہنے لگے آپ کی وجہ سے ، آپ زیادہ تنگی کرتے ہیں ۔ فرمایا اپنی کمائی سے اس کا علاج کرو۔ اس انتظار میں مت رہنا کہ اجتماعی مال سے دوں گا، منع کر دیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکانات پکے بن گئے ، مسجد نبوی پکی بن گئی ۔ کھانا لوگوں کا بڑھیا بن گیا، مگر ان کی اپنی زندگی خود سیدھی سادی تھی۔ حضرت علی کوفے میں ہیں او رایک چادر میں ہیں اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ حضرت بڑے بڑے کمبل آئے ہیں اوران میں سے ایک لے لیں۔ فرمایا جو چادرمیں نے لی ہے وہ مدینہ سے آئی ہے ۔ 
سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں۔ وہ فاتح بیت المقدس ہیں۔ لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر پورے جنوبی ایشیا کے حکمران تھے اور ان کا دورِ حکومت پچاس سال پر محیط ہی، لیکن وہ ذاتی گزربسر کے لیے ٹوپیاں سیتے تھے اور طغرے بناتے تھے۔
حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سادہ زندگی اور بے تکلف زندگی ان لوگوں کے سامنے تھی،  حقیقت میں جب تک یہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن نقوش اور پاکیزہ سنتوں پر عمل کرتی رہی‘ کامیابیاں اور کامرانیاں اس کا مقدر بنیں اور جب سے آپ کی سنتوں کی اتباع اور پیروی میں سستی اور کاہلی در آئی‘ اس وقت سے امت فتنہ و فساد اور ظلم کی لپیٹ میں آگئی ، آج اگر کوئی  یہ کہے کہ مسلما ن تعلیم اور ٹیکنا لوجی  حاصل نہ کرنے کی وجہ سے یا مال ودولت کی کمی کی وجہ سے قیادت وسیادت سے ہاتھ کھو بیٹھا ہے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے، کیا   جن مسلم ممالک  نے تعلیم وٹیکنالوجی حاصل کی وہ آج تک ترقی کو پہنچ سکے ہیں ؟، کیا ہم نے تر کی اور ایران، ملیشیا، ترکستان، پاکستان، لیبیا،شام کونہیں دیکھا، کیا انہوں نے ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا میں اپنا مقام بنایا؟ کیا روشن خیالی اورمغربیت کے نعرے نے ترکی کو کسی بھی میدان میں عزت سے ہم کنار کیا 
امام مالک رحمہ اللہ کا ارشاد ہےاس  امت کے آخری دور کے افراد کی فلاح وصلاح اسی چیز سے ہو سکتی ہے، جس سے پہلے لوگو ں کی ہوئی ۔ ذراصحابہ اور اسلاف کی تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کامیابی کاراز سنت نبوی کے علاوہ اوراسوہٴ نبوی کے علاوہ کوئی چیز تھی ؟کیا ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس کوئی ٹیکنالوجی تھی؟ نہیں نہیں! و ہ اس زمانے کے صحیح ہتھیاروں سے بھی عاری تھے، مگر سنت پر چل کر ا ن کی دو سو کی جماعت بھی ہزار کو، دس ہزارکی جماعت اس زمانہ کی سُپر پاور قیصر وکسریٰ کی مسلح فوجوں کو شکست وہزیمت سے دوچار کر دیتی تھی۔ 
فتح بیت المقدس کے بعد جب حضرت عمرضی اللہ عنہ شہر کے قریب  پہنچے اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور سرداران فوج استقبال کو نکلے تو دیکھا کہ مسلمانوں کا بادشاہ جن کے نام کے غلغلہ سے روم و شام کانپ رہے تھے، بالکل معمولی لباس پہنے یا پیادہ آرہے ہیں تو ان کو محض اس خیال سے شرم معلوم ہوئی کہ ہمارے بادشاہ کو دیکھ کر عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی گئی۔ آپ نے فرمایا:
’’خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے، وہ صرف اسلام کی وجہ سے دی ہے اور وہی عزت ہمارے لئے کافی ہے۔‘‘

مکمل تحریر >>

بدھ، 30 نومبر، 2011

ایک تحقیقی و نادر کتاب "احکام اسلام عقل کی نظر میں"

( رائٹ کلک + سیو ایز)

یہود ونصاریٰ  اور روشن خیال و تجدد نواز طبقہ اسلامی احکام  کو سخت ، انسانی حقوق  اور عقل کے خلاف کہہ کر اسلام کو بدنام کرتے ہیں اور اسلام کو سختی اور تنگ نظری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کا مغرب زدہ دیندار طبقہ بھی اس دھوکہ میں ہے کہ اسلام چند مخصوص عبادات کا نام ہے اور دنیا وی معلومات کے طے کرنے کے لئے ہمیں ایک عقلی طریقہ کار یا نظام کی ضرورت ہے، اس  کی وجہ سے یہ لوگ اسلام کو مسجد تک محدود رکھتے ہیں اور مسجد سے باہر اپنی عقل لڑاتے ہیں، گویا نعوذ باللہ! خدا صرف مسجد میں ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اسلام پوری زندگی پر محیط تو ہے مگر چودہ سوسال پرانا ہونے کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں، آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے، لہذا اسلام کی عام زندگی پر من وعن عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے، لہذااسلام کو انکی اور زمانے کی  خواہش کے مطابق ڈھالا جائے. حقیقت میں اسلام   ایک آفاقی وبین الاقوامی مذہب ہے، اس کے احکام وتصورات کی بنیاد نہ تو محض چند مشترک مادی اغراض پر ہے اور نہ ہنگامی اور عارضی حالات نے انہیں جنم دیا ہے اور نہ اس میں کسی خاص گروہ یا قوم ہی کی سیاسی برتری یا معاشی بہبود پوشیدہ ہے، بلکہ اس کے واضع اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت وساخت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرانسان کے لئے، ہر وقت اور ہر زمانہ میں قابل عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی ہے تو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے ۔شریعت کے احکام کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ مختلف نظاموں میں یہ بات تو مشترک ہے کہ وہ زندگی کے ایک شعبے یا ایک شعبے کے چند مسائل پر تو بحث کرسکتے ہیں اور وقتی حل نکال سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر کوئی بھی انسانی نظام اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں پر احاطہ کرسکے اور اس کے مسائل کو بخوبی حل کرسکے۔

زیر نظر کتاب میں   اسلامی شرعیت اور اسکے احکام کا جائزہ عقلی زاویہ سے پیش کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ  اسلام بلا مبالغہ  دین فطرت ہے ،اس کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو اور عقل اور فطرت کے خلاف ہو یا  اس سے انسان کو کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو۔ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی احکام میں سے کچھ  کے متعلق سوالات رہتے ہیں کہ ان احکام کے پیچھے  کیا حکمت ہوگی ؟، اس کتاب میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے  شرعیت کے تمام بڑے  احکام  کی عقلی حکمتوں اور مصلحتوں اور اسرار و فلاسفی کو مدلل انداز میں بیا ن کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے  کہ تمام احکام شریعت عین عقل  کے مطابق ہیں۔ 


فہرست عنوانات







مکمل تحریر >>

بدھ، 9 نومبر، 2011

اسلامی ذخائر کتب میں باطل نظریات کی ملاوٹ پر ایک تحقیق

 قرآن پاک نے علمائے یہود کی ایک نشانی یہ بتلائی ہے کہ (من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ) یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلام کو اس کے موقعوں سے پھیرتے رہتے ہیں۔ یہود نےاپنی اسی عادت پرنا صرف اپنی  مذہبی کتابوں کو بدل ڈالا، بلکہ اپنے ایجنٹ دوسرے مذاہب میں داخل کرکے ان کی مذہبی کتابوں کو بھی بدلنے کی کوشش کی ۔ چنانچہ  پولس جسے عیسائیت کا بانی کہا جاتا ہے حقیقت میں یہودی تھا، اس نےخود کو عیسائی مخلص باور کروا کر  بائبل اور عیسائی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، عیسائیت  میں تثلیت کا عقیدہ ڈال کر اسے مشرک مذہب بنادیا ، اسی روش پر  یہودیوں نے اسلام کا تاروپودبھی  بکھیرنے کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی سازش کی ۔ اسلام جب اپنے محسنین تلامذہ نبوت (ص)، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں  اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا۔عبداللہ بن سباء نے عوام کو  وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں اور ان کے قالب میں خداوندی روح ہے اور گویا وہی خدا ہیں۔
شیعیت  حقیقت میں مجوسیت  تھی اس لیے  شیعیت کو مجوسیوں کے ملک  ایران میں جو عروج و ترقی حاصل ہوئی وہ انہیں کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکی اور وہ ابھی تک چلی آرہی ہے ۔
اسماعیلیہ قرامطہ
حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد شیعہ کے  دو گروہ پیدا ہوئے ۔جس نے ان کے چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوا۔جنہوں نے ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسمعیلیہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ یہ اگرچہ شیعت ہی کی شاخ تھی لیکن  بعد میں یہ تحریک اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے شیعت سے بھی کوسوں دور نکل گئی ، تاریخ میں اسے ملاحدہ، باطنیہ، تعلیمیہ اور قرامطہ جیسے رسوائے عالم القاب سے یاد کیا گیا۔ حمدان قرمط ایک عراقی کاشتکار تھا ، چونکہ اس کی ٹانگیں چھوٹیں تھیں اس لیے اسے قرمط کہتےتھے۔ ا س نے اسمعیلی مذہب کو باطنی تحریک میں تبدیل کردیا، اسی کے نام سے اسماعیلی فرقہ قرامطہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔
اس باطنیہ اسمٰعیلیہ فرقہ کے ذریعے یہود نے ملت اسلامیہ کے اندرجہاں بغض و عداوت اور نفاق و تفریق کے بیج بوئے ، وہیں شیعہ آئیڈیالوجی کو کو بالواسطہ طور پر بھی عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات و عناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش  میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، معاشرت، عبادات، تفسیر، احادیث، اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبہ زندگی میں  اپنا اثر ڈالا ۔

اس فرقہ نے اپنی  عیاری اور معاندانہ سرگرمیوں  سے اسلامی کتابوں میں جو گمراہ کن تدسیس (اپنی باتوں کو دوسروں کی باتوں میں ملا کر چھپانا) کرنے کی کوشش  کی اگر ان سب  کو جمع کیا جائے تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ، مگر ہم مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے صرف چند بڑی مثالوں پر اکتفا کریں گے۔

قرآن میں تدسیس کی کوششیں 
یہود نے بائبل  کی طرح قرآن میں  بھی تبدیلی کی بھرپور کوششیں کیں لیکن قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ  اس کے اتارنے والے نے خود اٹھائی تھی اس لیے ان کو منہ کی کھانی پڑی، قرآن کی حفاظت کے لیے حضرات تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ  سلسلہ رہا کہ ایک ہی شخص حافظ قرآن، مفسر قرآن اور علم قراء ت کا ماہر ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے صلاحیتوں میں کمزوری آتی گئی ویسے ویسے حفاظت قرآن کی خدمت امت مسلمہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی رہی ، چناں چہ حضرات علمائے مفسرین نے قرآن کریم کے معانی ومطالب، تفسیر وتشریح او رمراد خداوندی کی حفاظت فرمائی۔ حضرات قراء ومجودین نے اس کی مختلف  قراءت ، ادائیگی حروف او رمخارج وصفات کی حفاظت کی او رحضرات حفاظ نے اس کے الفاظ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے یہ خدمت انجام دی ۔ یوں متن کی حفاظت،  معنی ومفہوم کی حفاظت، زبان کی حفاظت،  الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت، شانِ نزول کی حفاظت، سیرت نبوی کی حفاظت ، قرآن کے اولین مخاطب کے حالات کی حفاظت ، تابعین کے حالات کی حفاظت وغیرہ وہ چیزیں  ہیں جن کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنی کامل قدرت کا مظاہرہ کیا۔
اسلام کے دشمنوں نے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے ، پھر انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ، اور ہیں ، قران کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال رائج کیا گیا  اوراُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرکے یہ کج روی سُجھائی جانےلگی کہ احادیث کو چھوڑ کر اپنی سوچ و فکر کی بنا پر قرآن کو سمجھے اور سمجھائے ،  چنانچہ آج ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد جانتے ہوں ، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔

احادیث میں ملاوٹ کی کوششیں
قرآن کے بعد شیعہ نما یہود کا دوسرا بڑا وار  احادیث   میں تدسیس کی کوششیں تھیں، چنانچہ ملا علی قاری کے ایک قول کے مطابق  باطنیہ نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تین  لاکھ کے قریب روایات گھڑ کے پھیلائی ہیں۔ کچھ گھڑی گئی روایتوں کی مثالیں دیتا ہوں جنہیں قرامطہ نے ذخیرہ احادیث میں داخل کرنے کی کوشش کی اور علما  نے انکی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

روایت "انا مدینۃ العلم" یا " انا دادالحکمۃ وعلی بابھا"
قرامطہ اور ان کے ہم خیالوں نے  اس قدر جسارت کی کہ اپنے  مزعوماتِ باطلہ احادیث نبوی کے لباس میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردیے، منجملہ  ان کے یہ حدیث ہے جو ترمذ ی میں بھی موجود ہے۔
 قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا دار الحكمة وعلي بابها " . رواه الترمذي 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں حکمت ودانائی کا گھر ہوں اورعلی اس گھر کا دروازہ ہیں ''

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ    اپنے مکتوب  میں  صفحہ ۷۵، ۱۷۹،۱۸۰ پر تحریر فرماتے ہیں۔
" یہ روایت  نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت کا ذکر کرنیوالے اس کی تصحیح فرماتے ہیں۔ تر مذی نے بھی روایت کے بعد کلام کیا ہے کہ بعض علما نے یہ حدیث  شریک تابعی سے روایت کی ہے مگر علمائے حدیث اس کو ثقات میں سے نہیں پہچانتے۔ سوائے شریک کے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات  میں اس کے جملہ طرق پر یقین کے ساتھ باطل ہونے کا حکم دیا ہے ۔ ایک جماعت محدثین کی اس کے موضوع ہونے کی قائل ہے۔امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ صاف فرماتے ہیں  کہ اس روایت کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے۔ طاہر پٹنی نے بھی اس کی صحت کا انکار کیا ہے۔ ۔ ۔ امام العصر علامہ انور شاہ  کشمیری  بھی روایت  کی صحت کو تسلیم نہیں  فرماتے"۔
( مکتوبات شیخ الاسلام حصہ اول، اردو بک سٹال لاہور) ( حاشیہ از مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی مرتب مکتوبات شیخ الاسلام) ۔

ناد علی کی روایت :۔
قرامطہ کے سلسلے میں یہ روایت بہت مقبول ہے اور کم علم صوفیا کے ہاں بھی نقل ہوتی آرہی ہے ۔ جب جنگ احد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم  زخمی ہوگئے اور جسم سے خون بہنے لگا تو جبریل نے آکر آپ سے کہا کہ نادِ علیاَ  والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو، جب آپ نےیہ دعا پڑھی تو علی رضی اللہ عنہ فورا آپ کی مدد کے لئے آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔
( درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ مصنفہ ڈاکٹر برج صفحہ ۱۳۸)
 اہل علم جانتے ہیں کہ حضور نے ایسی کوئی دعا نہیں پڑھی اور نہ  تاریخ یا سیرت کی کسی کتاب میں یہ دعا مرقوم ہے، پھر بھی یہ روایت اہل سنت کی کتابوں میں راہ پاگئی اور ایک سنی صوفی سید مظفر علی شاہ چشتی نے اپنی کتاب جواہر غیبی میں اسے ذکر کیا۔ 

 اس کے علاوہ بھی بہت سی گھڑی ہوئی احادیث ہے جن کی ہمارے علما نے تحقیق کے بعد نشاندہی کی ہے لیکن یہ روایات پھر بھی اس تحقیق سے لا علم لوگوں کی تحریرات میں نقل ہوتی آرہی ہیں۔ حدیث چونکہ وحی کی ایک قسم تھی  اس لیے اللہ نے اس کی حفاظت  کا ایک نظام بنایا ۔جھوٹی احادیث وضع کرنے کا سلسلہ   صحابہ کے دور سے سبائیوں نے شروع کردیا تھا اس لیے اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے۔ بعد میں باقاعدہ علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول  مرتب  ہوئے اور  اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا   جس سے ہر حدیث  کی سند اور متن کی تحقیق با آسانی ہوجاتی ہے۔

تاریخ اسلام میں ملاوٹ 

دشمنان اسلام نے قرآن و حدیث کے بعد تاریخ اسلام کو خصوصی طور پر تدسیس وتحریف کا ہدف بنایا اور اسکا خاص مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کی تنقیص و توہین وتحقیر ہے۔  سیرۃ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مولفہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں :۔

" بعض شیعہ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ سپاہیوں کے ساتھ ایک سپید خچر پر سوار ہوکر  اما م حسن رضی اللہ عنہ کے جنازے کو روکنے کے لیے نکلیں، یہ روایت  تاریخ طبری کے ایک پرانے(نسخے) فارسی ترجمے میں، جو ہندوستان میں بھی چھپ گیا ہے،  میں نظر سے گذری، لیکن جب اصل متن عربی مطبوعہ یورپ کی طرف رجوع کیا تو جلد ہفتم کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے بعد بھی یہ واقعہ نہ ملا، طبری کے اس فارسی ترجمہ میں درحقیقت بہت سے حذف و اضافے ہیں "۔

قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ‘ احادیثِ ثابتہ اور اہل حق کا اجماع صحابہ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں‘ ان قطعیات کے مقابلہ میں تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں‘ تاریخ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی ہیں‘ اس لیے ہر کسی نے اپنی سمجھ  کے مطابق تاریخ کو بیان کیا۔ چنانچہ صحت کا جو معیار ”حدیث“ میں قائم رکھا گیا ہے‘ تاریخ میں وہ معیار نہ قائم رہ سکتا تھا‘ نہ اسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس لئے حضرات محدثین نے ان کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے‘ حافظ عراقی فرماتے ہیں:
ولیعلم   الطالب   ان السیر
یجمع ما قد صح وما قد انکرا
یعنی علم تاریخ وسیر صحیح اور منکر سب کو جمع کرلیتا ہے۔ اب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات  سے استدلال کرنا چاہتا ہے اسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے‘ بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟  رسول اللہ کا یہ ارشاد یاد رکھیں۔
”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم“  (ترمذی)
ترجمہ:”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے اور انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت 

اکابر علما، اولیا سے منسوب کتابیں اور انکے ملفوظات میں تدسیس

امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ   الیواقیت والجواہر صفحہ ۷ میں لکھتے ہیں 
" باطنیہ ، ملاحطہ اور زنداقہ نے سب سے پہلے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  پھر امام غزالی رحمہ اللہ کی تصانیف میں اپنی طرف سے تدسیس کی ، نیز اس فرقہ باطنیہ نے ایک کتاب جس میں اپنے عقائد کی تبلیغ  کی تھی، میری زندگی میں میری طرف منسوب  کردی اور میری انتہائی کوشش کے باوجود یہ کتاب تین سال تک متداول رہی"

امام غزالی سے منسوب  ایک کتاب :۔
مولانا سعید احمد جلالپوری شہید جو کہ روزنامہ جنگ کے اقرا صفحہ پر اسلامی سوالات کا جواب دیتے تھےْ  کو  ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے سوالہ نامہ میں یہ تحریر بھیجی جس میں  شیعی موقف کو امام غزالی  رحمة الله عليہ کی کتاب اور ان کی جانب منسوب کیا  گیا تھا۔

امام غزالی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”سر العالمین“ کے صفحہ :۹ پر لکھتے ہیں کہ:
” غدیر خم میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ”من کنت مولاہ“ فرمانے کے بعد اور اس موقع پر مبارک باد دینے کے بعد جب لوگوں پر خلافت کی ہوأ و ہوس غالب آگئی تو انہوں نے غدیر خم کی تمام باتیں بھلادیں۔“
اس پر مولانا  سعید احمد جلالپوری رحمہ اللہ نے ایک تحقیق،  تفصیلی و وقیع علمی مقالہ لکھا  جو ماہنامہ بینات میں چھپا۔ مولانا نے  تحقیق کے لئے اکابر متأخرین اور اربابِ تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو پتا چلا کہ غدیر خم میں خلافت ِعلی رضى الله عنه (بلافصل) سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب یہ کتاب”سر العالمین“  سرے سے امام صاحب کی ہیں ہی نہیں اور روافض نے خود لکھ کر بعد میں ان سے منسوب کی۔اور تحریر امام صاحب پر جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے اور  امام رحمہ اللہ کی دوسری کتابیں اس  تحریر کے موقف کو بری طرح رد کرتیں ہیں۔ مولانا  نے اس سلسلہ میں مسند الہندحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شہرئہ آفاق تصنیف ”تحفہ اثنا عشریہ“ کا حوالہ بھی دیا ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں :۔
ترجمہ : روافض کوئی کتاب لکھ کر اس کو اکابر اہل سنت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، اور اس میں حضرات صحابہ کرام کے خلاف مطاعن اور مذہب اہل سنت کے بطلان کو درج کرتے ہیں اور اس کے خطبہ یا دیباچہ میں اپنے بھید اور راز کے چھپانے اور امانت کی حفاظت کی وصیت کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے، یہی ہمارا دلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے، اور ہم نے اپنی دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ محض پردہ داری اور زمانہ سازی تھا، جیسا کہ کتاب ”سرالعالمین“ خود سے لکھ کر انہوں نے اس کی نسبت حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کی طرف کردی ہے، علیٰ ہذا القیاس انہوں ...اہل تشیع ... نے بھی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان پر اکابر اہل سنت اور قابل اعتماد بزرگوں کا نام لکھ دیا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو کسی بزرگ کے کلام سے واقف و آشنا ہوں اور اس کے مذاق سخن یا اس کے اور دوسروں کے کلام میں فرق وامتیاز کرسکتے ہوں، لہٰذا ناچار سیدھے سادے لوگ ان کے اس مکر سے متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے حیران و پریشان ہوتے ہیں․․․․ بلکہ بہت سے لوگ اس کو ایک مستند بزرگ یا اہل سنت کے امام کا کلام سمجھ کر اس کو اپناکر اپنا ایمان و عقیدہ غارت کر تے ہیں․․․․۔“ (تحفہ اثنا عشریہ فارسی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفیٰ ۱۲۳۹ھ)
مولانا جلالپوری شہید کا وہ مقالہ جامعہ العلوم الااسلامیہ، بنوری ٹاؤں ، کراچی کی سائیٹ پریہاں اب بھی موجود ہے۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/971

 امام شعرانی کی تصنیف الطبقات الکبری :۔
اس کتاب کے اردو ترجمہ صفحہ 468 پر روایت ہے :

بضمن ظاہروباطن عارف۔ علی ابن ابی طالب اسی طرح اٹھائے گئے ہیں جس طرح عیسی اور عیسی کی طرح عنقریب نازل ہوں گے۔ میں کہتا ہوں  کہ سید علی خواص بھی اس کے قائل تھے ۔ چنانچہ میں نے  ان کو کہتے سنا کہ نوح نے کشتی میں سے ایک تختہ علی کے نام اٹھا کر رکھا، وہ تختہ محفوظ رہا، چنانچہ علی اسی تختہ پر اٹھائے گئے۔
اس روایت کا مضمون بتا  رہا ہےکہ یہ کسی ایسے شخص کی گھڑی ہوئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ رکھتا تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ سب سے پہلے عبداللہ ابن سبا نے شائع  کیا تھا۔

رومی کے ملفوظات میں الحاق :۔
رومی کے ملفوظات فیہ مافیہ سے صفحہ نمبر ۹۹  پر یہ روایت رومی سے منسوب ہے، پڑھیے سر دھنیے :
" ایک شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ  کے ساتھ کسی غزوے سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا :ببانگ دہل اعلان کردو کہ آج کی رات ہم  ثہر کے دروازے کے پاس بسر کریں گے اور کل صبح شہر میں داخل ہوں گے، یہ سن کر صحابہ نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ تم اجنبی لوگوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ مباثرت میں مشغول پاؤ اور یہ دیکھ کر تمہیں بہت صدمہ ہوگا اور ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا، لیکن ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل نہ کیا اور گھر چلا گیا، چنانچہ  اس نے اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول پایا"۔
اس لغوروایت پر تنقید کرنے کو دل نہیں چاہتا  تا ہم دل پر جبر کرکے اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ روایت کسی سبائی کے خبث باطنی کا مظہر ہے۔  غور کریں اس خبیث سبائی نے ایک تیر سے کتنے شکار کیے ہیں۔
1 -  حضور کو علم غیب سے  معلوم ہوچکا تھا کہ صحابہ  کی بیویا ں نعوذ بااللہ زنا کروارہی ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر چشم پوشی کی، اور اس زنا کو روکنے سے صحابہ کو منع کیا۔ نعوذباللہ
2 - بعض صحابہ حضور کے نافرمان تھے ، حضور کے منع کرنے کے باجود نہیں سنی اور گھر چلے گئے۔ نعوذباللہ
3 -  صحابہ کی بیویاں زنا کار تھیں۔ نعوذباللہ
کیا مولانا روم یہ روایت بیان کرسکتے ہیں ؟

شیخ محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ :۔
شیخ جیسا کہ فتوحات مکیہ کے مطالعے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ نہایت راسخ العقیدہ اور متبع شریعت بزرگ تھے، اسی کتاب کی پہلی فصل میں انہوں نے اپنا عقیدہ بیان کیا ہے اسے غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عقائد نسفی کی شرح پڑھ رہے ہیں۔ انکی  تصانیف میں بھی  سبائیہ قرامطہ نے تدسیس کی ۔ چنانچہ  امام شعرانی اپنی تصنیف الیواقیت والجواہر صفحہ 7 پر لکھتے ہیں :
" انکی تصنیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے متعارض(ٹکرانے والی) ہیں  وہ سب مدسوس(گھسائی ہوئی) ہیں۔ مجھے اس حقیقت سے  ابو طاہر المغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے کیا تھا، اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان فقروں کی صحت پر شک کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔"
پھر لکھتے ہیں کہ زناوقہ نے امام احمد بن حنبل کے مرض الموت کے زمانے میں ایک کتاب جس میں اپنے باطنی عقائد بیان کیے تھے، پوشیدہ طور پر ( ان کا شاگرد بن کر) ان کے سرہانے تکیے کے نیچے رکھ دی تھی اور اگر امام مرحوم کے تلامذہ ان کے عقائد سے بخوبی واقف نہ ہوتے تو جو کچھ انہوں نے تکیے کے نیچے پایاتھا اسکی وجہ سے وہ لوگ بہت بڑے فتنے میں مبتلا ہوجاتے۔

حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ سےمنسوب کتابیں :۔
 شیخ عطار سنی عالم اور سلسلہ کبیرویہ سے متعلق تھے اور شیخ نجم الدین کبری کے متعقد  تھے، ان سے بائیس کتابیں منسوب ہیں حالانکہ وہ صرف  دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان سے منسوب کتابوں میں بڑی کتابین جواہرالذات، حلاج نامہ، لسان الغیب وغیرہ ہیں ، ان کتابوں میں مصنف نے جگہ جگہ اظہار تشیع کیا ہے۔ مشہور ایرانی محقق پروفیسر سعید نفیسی نے بھی فرید الدین عطار کی زندگی اور کتابوں پر تحقیق " جستجو دراحوال و آثار ِفریدالدین عطار نیشاپوری" میں پیش کی ہے۔ہم  نسخہ جواہر الذات سے دو شعر پیش کرتے ہیں جن سے پوری کتاب کا اندازہ ہوجائے گا اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ شعر شیخ فریدالدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ اپنے قلم سے ہرگز نہیں لکھ سکتے تھے۔

محمد راشناس ایں  جا خدا تو                          وگرنہ اوفتی     اندر بلا تو
علی      بامصطفی ہردو خدا  یند                        کہ دم دم راز برمامی کشانید

 ان شعروں کے مضمون  سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے کہنے والا عبد اللہ ابن سبا کا مخلص پیرو اور باطنیہ یا قرامطہ سے تعلق رکھتا تھا۔


اسلامی تصوف میں آمیزش کی کوششیں
جس زمانہ میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں، مسلمانوں میں تصوف کا آغاز ہوچکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہوچکے تھے۔قرامطہ نے تقیہ کرتے ہوئے " جیسا دیس ویسا بھیس" کے اصول پر عمل کیا اور  صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا اور تصوف کے لباس میں صوفیوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی اس طرح آمیزش کی کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز عوام کے لیے ناممکن ہوگیا۔ جب یہ لوگ ہندوستان آئے تو انہوں نے ہندو صوفیوں اور جوگیوں  اور پیروں کے طور طریقے اختیار کیے اور ہندوؤں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وشنو کے دسویں اوتار کے روپ میں پیش کیا۔ عوام میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ناموں سے پہلے " پیر" کے لقب کا اضافہ کیا۔
پیر صدرالدین نے گجرات اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر جے این ہالسٹر کی تالیف " شیعان ہند" سے بھی بخوبی ہوسکتی ہے۔ مولف اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں۔
" اسمعیلی سیدوں کا قافلہ قاہرہ سے چل کر سبزوار آیا۔  پیر شمس الدین سبزواری یہیں سے ملتان آیا تھا، اور اس نے صوفیوں کے لباس میں اسمعیلیت کی تبلیغ کی۔ بعض لوگوں نے شمس الدین سبزواری کو غلطی سے شمس تبریز سمجھ لیاہے جو جلال الدین رومی کے مرشد تھے، جبکہ یہ ملتان کا پیر شمس الدین اسمعیلیہ نزار فرقہ کا داعی تھا"

رباعی ازخواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ :۔
قرامطہ نے  فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، مثنوی مولانا روم، احیا ءالعلوم اور دوسری بہت سی کتابوں میں عبارتیں اور اشعار داخل کیے  اور بہت سی کتابیں خود لکھ کر بعض سنی بزرگوں کے نام منسوب کیں، بہت سی رباعیات مختلف صوفیوں سے منسوب کردیں ، مثلا یہ مشہور رباعی خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ سے منسوب کی جو آج تک سنی اور کتابوں میں بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
شاہ است حسین  بادشاہ  ہست حسین                                             دین است حسین         دیں پناہ ہست حسین
سردادنداو      دست  در دست یزید                                               حقا کہ بنائے       لا   الہ      ہست حسین

دیوان شمس تبریز :۔
 قرامطہ نے بہت سے اشعار مولانا رومی کی کتابوں میں داخل  کئے، دیوان شمس تبریز  میں داخل کی گئی ایک  پوری غزل سے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
ہم اول و ہم آخر وہم ظاہر وباطن                                  ہم موعد و ہم وعدہ   و موعود علی بود                                                     
جبریل کہ  آمد  زبرِ خالقِ    بیچوں                                درپیش محمد     شدوتابود  علی بود               
اور
اے رہنمائے مومناں، اللہ مولا علی                     اے عیب پوش و غیب دان اللہ مولانا علی

فارسی سمجھنے والے  باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مولان روم جیسا سنی عالم   یہ مصرے نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ اشعار تو واضح شیعہ ذہن کی عکاسی کررہے ہیں اور  نص قرآنی کے خلاف ہیں  جیسا کہ پہلے شعر  کےپہلے مصرع میں   قرآنی آیت میں مذکور اللہ کی صفات  " ہو  الاول والاخر والظاہر والباطن" کو علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ دیوان  شمس تبریز پر جلا ل ہمائی  نے جو مقدمہ لکھا اس میں  ان اشعار کو الحاقی قرار دیا۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رحمہ اللہ کے ملفوظات:۔
سلطان المشائخ  نے اپنے مرشد شیخ فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات کو راحتہ القلوب کے نام سے مرتب کیا تھا، اس کے صفحہ ۸۵  سے ایک واقعہ نقل کرتا ہوں :
" ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باجمیع صحابہ کبار بیٹھے ہوئے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  یزید پلید کو اپنے کاندھے پر بٹھائے سامنے سے گذرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور کہا سبحان اللہ، ایک دوزخی ایک جنتی کے کاندھے پر سوار ہو کرجارہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر کہا، یارسول اللہ یہ تو معاویہ کا بیٹا ہے۔ دوزخی کجا است ؟ حضور نے فرمایا:   یا علی یہ یزید بدبخت وہ ہے  جو حسن حسین اور میری تمام آل کو شہید کرے گا۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے تلوار نیام سے نکالی کہ ایشاں را بُکُشَد مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مانع ہوئے کہ اے علی ایسا مت کر کہ اللہ کی تقدیر یہی فیصلہ کرچکی ہے، یہ سن کر علی رونے لگے۔"
حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بلاشک وشبہ گیارہ ہجری میں ہوگئی تھی جبکہ یزید کی ولادت پندرہ سال بعد  ۲۶ ہجری میں ہوئی تھی، ثابت ہوا کہ یہ افسانہ سراسر جھوٹا ہے اور کسی سبائی نے  یہ لغو اور من گھڑت داستان ملفوظات میں شامل کردی ہے۔

سوال :کوئی یہاں یہ  سوال کر سکتا ہے  کہ قرامطہ ، باطنیہ، روافض کو  اسکی جرات کیسے ہوتی تھی کہ وہ اپنی باتیں ان بزرگوں کی کتابوں میں ملا دیا کرتے تھے
 جواب :در اصل تمام صوفی سلسلے اور انکے افراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہایت مکرم اور لائق توقیر سمجھتے ہیں اور تین سلسلے تو حضرت علی رضی اللہ پر ختم ہوتے ہیں۔ صوفی شعرا نے جہا ں خلفائے ثلاثہ کی منقبت میں زور قلم صرف کیا ہے وہاں علی رضی اللہ عنہ کی منقبت میں  بھی اپنی عقیدت کا مظاہر ہ کیا ہے،اس لیے روافض اور قرامطہ کو مبالغہ آمیز اور شرکیہ اشعار کو شامل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔باطنیہ، قرامطہ اور اسمعیلیہ حضرات نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد مسلمانوں میں شائع کردیے ، بعد میں آنے والے  صوفیوں نے اسلاف پر تنقید کو سو ادب سمجھا اس لیے قرامطہ کے عقائد کو من وعن تسلیم کرلیا اور رفتہ رفتہ ان باطنیہ کے ہم عقیدہ بن گئے۔، یہ انہی روایات کا کرشمہ ہے کہ آج چودھویں صدی ہجری میں حیدرآباد دکن ،  بریلی، دہلی، اجمیر، داتا دربار، پاک پتن، ملتان، اچ، سیہون اور تمام بڑے بڑے مزارات سبائیت اور باطنیت کے فروغ و شیوع کے مرکز بن گئے ہیں۔
اسلامی تصوف جو دین اسلام کی روح اور جان ہے، میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش سے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ نفس تصوف ہی سے بدظن ہوگیا دوسری طرف خود یہ غیر اسلامی تصوف اپنی ساری افادیت کھو بیٹھا بلکہ جہلا کے حق میں تو افیون بن گیا اور اہل خانقا کے حق میں بے عملی کا بہانہ بن گیا ۔ یہ اسی آمیزش کا نتیجہ ہے کہ وہ خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں شاید اقبال نے اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
اس  غیر اسلامی نظریات کی آمیز ش سے تصوف کو نقصان ضرور پہنچا  ،    لیکن اسلامی تصوف بالکل ختم نہیں ہوا۔علمائے حق کےتصوف  کے ایسے مراکز اب بھی موجو د ہیں جہاں  صوفیا   بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کو اصلاح فرمارہے ہیں۔

ان چند مثالوں سے یہ دکھلانا مقصود تھا   کہ زمانہ قدیم سے روافض اور اہل تشیع کی یہی عیاری، مکاری اوررَوِشِ بد رہی ہے کہ وہ اپنے فاسد و باطل عقائد اور نظریات کی ترویج کی خاطر اپنی جانب سے کوئی کتاب لکھ کر اہل سنت کے کسی نامی گرامی بزرگ، بڑے عالم دین اورمحقق کی وفات کے بعد اس کی طرف نسبت کرکے شائع کردیتے ہیں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اہل سنت کا فلاں بڑا عالم اور محقق بھی وہی عقیدہ رکھتا تھا جو ہمارا ہے۔اللہ ہمارے  علما کو جزائے خیر دے انہوں  نے ہر دور میں انکے حملوں کو ناکام بنا کر امت کو گمراہی سے بچایا ہے۔
اوپر دی گئی مثالوں سے یہ بات واضح  ہے کہ کس مکاری کے ساتھ باطل نے ہماری دینی کتابوں میں اپنے گمراہ نظریات کو داخل کیا اور بڑے بڑے علما کی زندگی میں انکی کتابوں میں آمیزش کردی ، آج کل تو ا ن کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ کسی پرانے عالم کی کتاب کو اٹھا کر اس میں جگہ جگہ اپنے نظریات کو داخل کرکے خوبصورت سٹائل اور پرنٹ میں  چھاپ کر  مارکیٹ میں دے  دیں۔یہ حقیقت ہے کہ آج کل کئی ایسےگمنام  کتب خانے موجو د ہیں جو کہ مختلف اسلامی  موضوعات پرعلما کی  کتابیں چھاپ رہے ہیں انکی کتابیں اصل پبلشر کے مقابلے میں ذیادہ جاذب نظر ، کوالٹی پیپر لیکن   کم قیمت پر دستیاب ہوتیں ہیں۔  اب  اسلامی کتابوں باطل نظریات کی آمیزش کے شر سے وہی قاری بچ سکتا ہے جس کا علما ئے حق کے ساتھ تعلق ہو۔
ممتاز عالم دین مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” مطالعہ کووسیع کیجیے اور اس کے لیے اساتدہ سے ، خاص طور پر مربی اصلاح سے اور ان اساتذہ سے جن سے آپ کا رابطہ ہے ، ان سے مشورہ لیجیے۔“ مولانا ندوی مزید فرماتے ہیں :
 یہ ایک پل صراط ہے، اس پر سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ جیسے عظیم شخص کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے توریت جیسی عظیم المرتبت آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرما دیا تھا۔
استفادہ تحریر :اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات، پروفیسر سلیم چشتی 

مکمل تحریر >>

جمعہ، 4 نومبر، 2011

سرسید احمد خان کے دینی کارنامے

صحابہ کے عہد اور خیر القرون کے بابرکت زمانے تک سیدھا سادہ مطابق فطرت دین تھا۔ واضح  عقائد اور خلوص اور بے ریائی کی عبادت تھی، اصول و اعتقادی مسائل میں کبھی کوئی شخص عقلی شک و شبہ ظاہر کرتا  بھی تو قرآن و حدیث کے احکام و نصوص بتا کر خاموش کردیا جاتا، نہ کسی کا عقیدہ بدلتا  اور نہ کسی کے زہد و تقوی میں فرق آتا۔ مگر تعلیمات نبوت کا اثر جس قدر کمزور ہوتاگیا۔ اسی قدر وسوسہ ہائے شیطانی نے قیل و قال اور چون و چراکے شبہے پیدا  کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ  واصل بن عطا ، ، عمرو بن عبید جیسے عقل پرست لوگ سامنے آئے۔ یہ لوگ معتزلہ کے نام سے مشہور ہوئے۔جب ہارون و مامون کے عہد میں فلسفہ یونان کی کتابیں بہ کثرت ترجمہ  ہوئیں تو معتزلہ کو اپنے خیالات و شبہات کے لیے فلسفی دلیلیں مل گئیں اور انہوں نے ایک نیا عقلی اسلامی فن ایجاد کیا جس کا نام علم " کلام" قرار دیا۔۔  ان لوگوں نے دینی عقائد واحکام میں عقل کو معیار بنایا اور مبہا  ت اور مخفی علوم میں اپنی عقل لڑا کر تشریحات اور تاویلیں کرنی شروع کردیں۔معتزلہ کی اس  عقلیت پسندی سے قرآنی ہدایت کے نتیجہ خیز ہونے کااعتمادزائل ہونے لگا، جن مسائل کا حل صرف وحی سے میسر آسکتا تھاان کا حل انسانی شعور اور عقل  سے  تلاش کرنے سے وہ وحی کی ہدایت سے  محروم ہوگئے۔یوں  وحی کے ساتھ نبوت کی احتیاج بھی ختم ہوتی ہوئی نظر آئی ،تاویل کا فن حیلہ طرازیوں میں تبدیل ہونے لگا،ذات باری سے متعلق مجرد تصور توحید نے جنم لیا،ظاہر شریعت اورمسلک سلف کی علمی بے توقیری اور ان پر بے اعتمادی پیدا ہونے لگی،قرآن مجید کی تفسیراورعقائداسلام،ان فلسفی نمامناظرین کے لیے بازیچہٴ اطفال بنے جارہے تھے،مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اورسطحی فلسفیت مقبول ہورہی تھی، یہ صورت حال دینی وقاراورسنت کے اقتدار کے لیے سخت خطرناک تھی ۔شروع میں علما نے وہی طریقہ تعلیم رکھا کہ علوم وحی سمجھ آئیں یا نہ آئیں ہم نے ان پر غیبی ایمان اور اعتقاد رکناا ہے۔ لیکن جب فسا د ذیادہ بڑھنے لگا اور  معتزلہ کی   عقلی دلیلوں اور وساوس  نے عوام کے ساتھ حکمران طبقہ کو بھی متاثر کر لیا اور مامون رشید، معتصم بااللہ، متوکل علی اللہ، واثق بااللہ  جیسے حکمران بھی معتزلہ کے مسلک کو اختیار کرگئے تو علما نے مجبورا ان معتزلہ کے  ساتھ عقلی مباحثے اور مناظرے شروع کیے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل، امام ابوالحسن اشعری،  ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ  جیسے لوگ سامنے آئے اور معتزلہ کی ہر دلیل کا جواب دیا ، امام احمد بن حنبل کے  فتنہ  خلق قرآن کے مناظرے مشہور ہیں جن میں معتزلہ کو بری طرح شکست ہوئی  ۔ 
بعد میں معتزلہ مختلف فرقوں اور ناموں سے مشہور ہوئے مثلاواصلیہ، ہذیلیہ ، نظامیہ وغیرہ ۔انگریز برصغیر میں آئے تو  مختلف  خوشنما   اصطلاحیں  اور نام متعارف کروائے گئے، اعتزال نےبھی  ایک نئے خوبصورت  نام سے دنیا کو اپنی صورت دکھائی ،چنانچہ بے دینی، الحاد اور   عقل پرستی کو روشن خیالی کا نام دیا گیا اور اسکے  نام پر تاریک ضمیری‘ ضمیر فروشی اور جمہور علماء کی راہ سے انحراف کیا جانے لگا ۔ آج بھی روشن خیال سارا زور اس پر خرچ کررہے ہیں  کہ دینی عقائد واعمال کو  یا عقل کے ترازو میں پیش کردیں‘ ورنہ کوئی توجیہ اپنی طرف سے کرکے اصل حکم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔

برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد  :۔
انگریزوں کو  برصغیر میں اپنا قبضہ جمانے کے دوران  سب ذیادہ علما اور دیندار طبقے کی طرف سےمزاحمت کا سامنا  کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے  عوام میں دین  اسلام کے بارے میں کنفیوزین پیدا کرنے والے لوگوں کی بھرپور سپورٹ کی  ۔ اور چند لوگوں کو خصوصی طور پر منتخب کیا گیا۔ ایک  مرزا احمد کو کچہری سے اٹھایا منصب نبوت پر بٹھا دیا، ایک اور سید احمد کو کلرکی کے درجے سے ترقی دی  اور سرسید احمدخان بنا دیا۔ مرزا غلام قادیانی نے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر جہاد کا انکار کیا اور سر سید احمد خان  نے نا صرف  احادیث،  معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے انکار پر گمراہ کن تفسیر اور کتابیں  لکھیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو دینی تعلیم کے مقابلے میں فرنگی نظام تعلیم سے متعارف کروایا۔ دونوں انگریزوں سے خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے  ۔
مرز ا قادیانی  کی " مذہبی"خدمات اور سرسید کی تعلیمی  اور سیاسی خدمات  کا تذکرہ تو ہم چند پچھلی تحریروں میں کرچکے ۔ہمارا آج کا موضوع سرسید احمد خان کی روشن خیال فرنگی اسلام کے لیے دی گئی خدمات ہیں۔موضوع تفصیل مانگتا ہے لیکن ہم کوشش کریں گہ کہ ضرورت کی ہی بات کی جائے۔
سرسید کے مذہب پر ایک نظر

تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔  سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟   مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد  تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔
  ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک) 
 دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔

                                   سرسید کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر  کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں  معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ  بھی معتزلہ کے اسی مقصد  یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔

1 - سرسید کی چند تصنیفات :۔
۔سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان( انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا)،  اسباب بغاوت ہند (۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی)، تفسیر القرآن (پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔  سرسید لکھتے ہیں
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲) 
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔
 (حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)

2 - سرسید کی عربی شناسی:۔
غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔(لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)

سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 
”آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴) 
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے  قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے۔

3 - قرآن کی من مانی تشریحات :۔
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق  دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔ 

سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)

کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔  اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں۔
 بریں عقل ودانش بباید گریست

4 -  جنت ودوزخ کا انکار :۔
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔
 دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔ 

سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے:
 ”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰) 
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں، مگر سرسید نے  نا صرف ان کا  صاف  انکار کیا  بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا۔

5 - بیت اللہ شریف کے متعلق موقف :۔
بیت اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔  (آل عمران:۹۶)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔ (المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
 مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے “۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید  کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر  نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘  کیا  یہ بکواسات  کیا کوئی صاحب ایمان کرسکتا ہے ؟ 
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے:
 ”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“
 اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔

6 - سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃ ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔قرآن پاک میں ہے کہ:
فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)

ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲) 
آگے لکھتا ہے
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ  مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔
 (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)

7 - سرسید جبرائیل امین کا  منکر :۔
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔(البقرہ:۹۸)
اسی طرح  کئ احادیث  میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ ا نے فرمایا :”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)

سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم  کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔

8 - سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار:۔
رسول اللہ  کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔سرسید  نےیہاں بھی عقل لڑائی مشکرکین مکہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جسم مبار کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اسکی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا"
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اسکو ہیں جسکو سمجھنے سے عقل عاجز ہو۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔  اس لیے آنحضرت کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ  کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔

9 - جنات وشیاطین کے وجود کا انکار :۔
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:

”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷) 

اس طرح سرسید  شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے 
آگے  لکھتاہے: ”
انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ (ج ۳ ص۴۵ پ)


سرسید کے اعتزالی عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ، ہم نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟ 
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں.

(’سرسید احمد خان کے مذہب پر نظر‘ والے حصہ کا بیشتر حصہ معروف دینی درسگاہ جامعہ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤں کی سائیٹ پر دی گیے آرٹیکل سے لیا گیا ہے اللہ انکی تحقیق کو قبول فرمائے۔ )

مکمل تحریر >>

پیر، 31 اکتوبر، 2011

چھوڑو فساد کو بس تم الله الله کرو



ایماں کو بسا لو دل میں کچھ غور تم کرو
نبی کا جو طریقہ ہے   اسی پر   تم  چلو
جو ہٹ کر دکھے اس سے فورا پرے کرو
چھوڑو فساد کو      بس تم   الله الله   کرو

قرآن کو سر پہ رکھو دجل و فریب سے تم بچو
راستہ جو  اصحاب    کا ہے    اسی پر تم چلو
آسرے اپنے سارے     رحمان پر   تم رکھو
چھوڑو فساد کو            بس تم الله الله کرو

ادھر ادھر دیکھو گے سرے سے بھٹک جاؤگے
گرو گے اس طرح     پھر الٹے لٹک جاؤگے
رب کا جو حکم ہے   صرف  اسی پر تم چلو
چھوڑو فساد کو            بس تم    الله الله کرو

یہ دور کم نہیں کسی طرح بھی قیامت سے
جہنم کا راستہ مت لینا تم اپنی قیادت سے
چاہت و نفرت کا اپنی    قبلہ درست کرو
چھوڑو فساد کو      بس تم   الله الله   کرو

شرک سے بچو نہ ملاوٹ دین میں کچھ کرو
مت بناؤ یہ بت     روح کو تم تندرست کرو
صراط مستقیم پر جما کے قدم آگے تم بڑھو
چھوڑو   فساد  کو     بس تم  الله الله    کرو
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 29 اکتوبر، 2011

سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ

سرسید احمد خان  ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں کے لیےانتہائی محترم ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک وہ دنیا کی ایک مخصوص "برادری" کے متحرک فرد تھے،  خود  ہمارے سامنے سکولوں کالجوں میں سرسید احمدخان کو ایک عظیم قائدکے طور پر پیش کیا گیا، آج بھی  انکی تصویر ہر سکول کالج میں لٹکی نظر آتی ہے،   جسے ہماری قوم کا ہر بچہ آتے جاتے دیکھتا ہے اور صبح شام ان کی عظمت کا قائل ہوتا جاتا ہے ۔کئی دفعہ ان کی معتبر شخصیت اور تاریخی کارناموں  پر لکھنے کا ارادہ کیا  لیکن  توفیق نہ ہوسکی ۔ چند دن پہلے  خان صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خود خان صاحب نے اپنا نظریہ، اپنے خیالات و افکار نہایت خوبی سے بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب کی مدد سے ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ  اس لیے پختہ ہوتا گیا کہ ایک متنازع شخصیت کے متعلق فیصلہ کرنا  عام طور پر کافی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں  انکی اپنی تحریر جو بدست خود بقلم خود تھی ’ ہاتھ آگئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں خود وہ اپنی تحریروں کے بین السطور میں اپنا تعارف کس انداز میں کرواتے ہیں۔ جناب کی تحریر کردہ کتاب " مقالات سرسید" کے مندرجات اس مخمصے سے نکلنے میں یقینا ہماری مدد کریں گے۔

۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی  قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں

" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے  پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں  مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:

انگریز سرکار کے متعلق  سرسید صاحب کے  دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔

" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ  (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر  مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔

اس کے عوض میں جناب کو کیا ملا، پڑھیے





مسکین خدمت کے مقابلے میں حد سے ذیادہ انعام و اکرام کے اقرار کی روداد تو آپ نے " بقلم خود" سن لی۔ انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا  جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر  تمام   محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین  مسلط  سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ  کی خبر  بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔

سبحان اللہ ! یہ تو تھا جذبہ جاں سپاری۔  اس سے بھی آگے بڑھ کر حال یہ تھا کہ خاں صاحب اپنی جان کو اتنا ہلکا اور  گوری چمڑی والے گماشتے فرنگیوں کو اتنا قیمتی سمجھتے تھے کہ خود کو ان پر بے دریغ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ ارشاد فرماتے ہیں :

" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا  میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں  تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔

انگریز حکام کی طرف سے خاں صاحب  پر یہ کرم نوازیاں محض وقتی نہ تھیں، انہیں باقاعدہ پنشن کا مستحق سمجھا گیا اور یوں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی خدمت اور خیر خواہی کا صلہ دشمنان  ملت سے پاتے رہے۔ ثبوت حاضر ہیں:

" دفعہ پنجم رپورٹ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ایام غدر میں کارگذاری سید احمد خان صاحب صدر امین کی بہت عمدہ ہوئی، لہذا ہم نے ان کے واسطے دوسو روپیہ ماہواری کی پنشن کی تجویز کی ہے۔ اگرچہ یہ رقم ان کی نصف تنخواہ سے ذیادہ ہے، مگر ہمارے نزدیک اس قدر روپیہ ان کے استحقاق سے ذیادہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری تجویز کو مسلم رکھیں۔ اس واسطے کہ یہ افسر بہت لائق اور قابل نظر عنایت ہے۔ دستخط شیکسپیئر صاحب، مجسٹریٹ کلکٹر" 
۔(مقالات سرسید، صفحہ 54

ہماری روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد  کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر  اس فریضہ عادلہ کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔

" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟  شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)

جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے   ہیں۔ فرماتے ہیں :۔

" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو "   (مقالات سرسید، صفحہ 94

آہستہ آہستہ وہ اپنی رو میں بہتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ مفتی اور مصلح کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ تمام علما اور مجاہدین، تمام محب وطن ہندوستانی انگریز کے خلاف سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، جان مال لٹا رہے تھے اور خان صاحب انہیں مبلغ اعظم اور مصلح وقت بن کر سمجھا رہے تھے:۔


یعنی انگریز کی بدعہدی کے باوجود اس سے بغاوت جائز   نہیں۔ مسلمان   انگریز کی وفاداری واطاعت کریں ورنہ اپنا ملک چھوڑ دیں، اپنے حق کے لیے انگریز سے لڑنا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو تعلیمی تحریک انہوں نے برپا کی وہ انگریز ی حکومت کے لیے بابو پیدا کرنے کی کوشش تھی یا مسلمان قوم کو دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی " عظیم خدمت" تھی؟؟؟

اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر  نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری  نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

" اس ہنگامہ میں برابر بدعہدی ہوتی رہی۔ سپا نمک حرام عہد کر کر پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کرکر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت  فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔
 مقالات سرسید، صفحہ 99)۔)

 خان صاحب نے اس یادواشت نما کتابچے میں اور بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک پیش کیا جائے۔ اس ڈر سے کہ مضمون کی طوالت عموما قارئین میں بددلی پیدا کرتی ہے،آخری پیرگراف پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں سرسید مسلمانوں کو تہذیب سکھلا رہے ہیں:۔

" اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی وجہ اسکی کارتوس تھا۔ کارتوس میں کاٹنے سے  مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ؟ہمارے مذہب میں اہل کتاب کاکھانا درست ہے، انکا ذبیحہ ہم پر حلال ہیں (چاہیں سور کھلادیں: راقم) ہم فرض کرتے ہیں کہ اس میں سور کی چری ہوگی۔ تو پھر بھی ہمارا کیا نقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہوچکا ہے کہ جس چیز کی حرمت اور ناپاکی معلوم نہ ہو، وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے( کارتوس میں تو معلوم تھی جناب: راقم) اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا۔ صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا، سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا، ان گناہوں سے جو اس غدر میں بدذات مفسدوں نے کیے"۔

گویا سور جیسی ناپاک چیز کا استعمال اتنا ذیادہ گناہ نہیں جتنا انگریز جیسے غمخوار حاکم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس قسم کی تحریروں سے خان صاحب کی تعلیمی تحریکوں کا ہدف اور اصلاحی تحریروں کا اصل مشن سامنے آجاتا ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ مسلمانان برصغیر کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کا ہدف اور انہیں جدید تعلیم کے نام پر انگریز کی لامذہب تہذیب میں رنگنے کا مشن انہوں نے کس لگن سے انجام دیا۔ انکی " تحریک علی گڑھ" میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے نام پر یورپ کے فرسودہ اور ناکارہ نظریات ہندوستان کے آزادی پسندوں کو پڑھائے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ممالک کے باشندے آج تک تعلیمی ترقی کے نام پر یورپ کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوچکے ہیں، لیکن ترقی ابھی تک سراب ہی ہے۔ یہ تو برصغیر کے باشندوں کی ذاتی ذہانت و قابلیت ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلیں ورنہ   جدید تعلیم یافتہ حضرات تو  محض بابو گیری سیکھ کر یورپ کی نقالی تک محدود رہے۔اس جدید ترقی سے ہمیں بس اتنا حصہ ملا ہے کہ ہمارے ذہین دماغ اور قابل نوجوان امریکا و یورپ کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے پڑھ کر مغربی زندگی کی چکا چوند کے سحر میں ایسے آئے کہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔

سرسید کی تعلیمی تحریک کے سیل رواں میں خس و خاشاک کی طرح مشرق کے باسیوں کے بہنے کے باوجود  انکے حصے میں وہی پرانا مٹکا آیا، بلوریں جام تو ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ مغربی محققین کے لیے جو تعلیم وتحقیق فرسودہ ہوجاتی ہے تو وہ ڈسٹ بن میں پھینکنے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں بھجوادیتے ہیں اور اصل ٹیکنالوجی اور اس کے حصول کے ذرائع کی ہوا نہیں لگنے دیتے، لہذا ہمارے ہاں سائنس نے کبھی رواج پایا  نہ ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کا مزاج بنا۔ البتہ ہماری نسل کی نسل  "ہمٹی ڈمٹی" ٹائپ کے نیم مشرقی نیم مغربی ہندوستانیوں میں تبدیل ہوگئی اور بابوؤں کی کھیپ کی کھیپ پیدا ہوکر شکل وصورت کے ہندوستانی اور فکرو طرز زندگی کے لحاظ سے انگلستانی بنتے گئے۔ اس  سارے کارنامہ کا کریڈٹ  خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی دلی خواہش پوری ہوئی ان کے تعلیمی اداروں نے  انگریز کی حکومت کے لیے وفادار کلرک اور بابو  تیار کر کر کے فراہم کیے ، یہ وفادار ملازم انگریز کی غلامانہ اطاعت تو کرسکتے تھے، اس سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

تحریکات سیاسی ہوں یا تعلیمی۔۔۔۔ ان کو ان شخصیات کے نظریات کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے جنہوں نے انہیں برپا کیا اور کسی شخصیت کے نظریات کی  ترجمانی اس کی اپنی تحریرات سے ذیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر ہم نے خاں صاحب کی برپا کردہ تحریک کو اس مضمون میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی  ، شاید کہ ہماری قوم حقیقت اور سراب کا فرق سمجھ لے، جدید تعلیم کو جدید تہذیب سے الگ کرکے دیکھنا شروع کردے اور ترقی کی خواہش میں مغرب کی ایسی نقالی نہ کرے کہ اپنی چال بھول جائے۔

مکمل تحریر >>