عمار خان ناصر ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ اور محترم غامدی صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ موصوف ایک رسالے 'ماہنامہ الشریعہ’ کے مدیر اور غامدی صاحب کے ادارے ’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلو ہیں، اسی نسبت سے انکی تحاریر غامدی صاحب کے رسالے مجلہ اشراق میں بھی چھپتی رہتی ہیں،غامدی صاحب کے تجدد پسندانہ افکار و نظریات کے دفاع، انکی اشاعت و ترویج کے لیے انکی خدمات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انکے مکتبہ فکر کی آواز چونکہ تجدد دین کی ہے اس لیے بہت سے علماء ان کے اجتہادات،نظریات ، غلط فہمیوں اور افراط و تفریط پر وقتا فوقتا اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ ان علماء میں سے ایک نام جامعہ مدنیہ، لاھور کے ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کا بھی ہے۔ چند دن پہلے عمار صاحب نے فیس بک پرمفتی عبدالواحد صاحب کی انکے نظریات کے رد میں لکھی گئی ایک کتاب کا اشتہار پوسٹ کیا۔ جناب کے اس فیس بک سٹیٹس پر تبصرہ کرنے والے بہت سے لوگوں نے کتاب میں لکھی گئی باتوں کو پڑھے بغیر اپنے تبصروں میں علماء کا مذق اڑایا ، ایک صاحب نے لکھا ذرا سا کوئی تحقیق کی طرف مڑے یہ علماء یک دم اس پر فتوی ٹھوک دیتے ہیں، ایك اورصاحب نے فرمایا علماء سوال کو گستاخی، غوروفکر کو الحاد اور تحقیق کو گمراہی سمجھتے ہیں، ۔ ۔ عمومی رائے یہ نظر آئی کہ علماء علم و تحقیق کے دشمن ہیں انہیں غامدی مکتبہ فکر کیساتھ کوئی ضد ہے یا یہ اپنی سیٹ بچانے کے لیے انکے خلاف لکھ رہے ہیں ، ورنہ غامدی مکتبہ فکر والے تو محقق لوگ ہیں اور امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرح حق کی آواز بلند کرنے والے ، بالکل معصوم ، بے قصوراور مخلص انسان ہیں ۔ غامدی صاحب کیساتھ علماء کو اختلاف کس بات ہے اس پر ہم یہاں لکھ چکے ، انکے شاگرد ریحان احمد یوسفی المعروف ابویحیی صاحب کے ایک کارنامے کی تفصیل بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہے ، عمار خان صاحب کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ اپنے سب ہم مکتب دوستوں کے علاوہ خود اپنے استاد غامدی صاحب کوبھی پیچھے چھوڑگئے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا ۔ہم مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں ان کے دو بڑے کارناموں کی تفصیل پیش کریں گے ۔
1.مسجد ِاقصی، یہود اور امت مسلمہ:۔
'عمار خان صاحب کا 'مسجد ِاقصیٰ، یہود اور اُمت ِمسلمہ' کے عنوان سے ماہنامہ 'اشراق' کے جولائی اور اگست ٢٠٠٣ء کی شمارے میں مقالہ شائع ہوا ۔ یہ مقالہ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، ہم اس تحریر میں انکے اس مقالے کے چند اہم نکات پر بات کریں گے، انکے اس مقالے کا مکمل علمی و تحقیقی جواب پڑھنے کے لیے قارئین یہ لنک ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
الف۔ اپنے اس مقالہ میں عمار صاحب نے سارا 'زورعلم و تحقیق' محض یہ ثابت کرنے پرصرف کیا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت پر یہود کا حق ہے اور اس مسئلے میں امت مسلمہ کے تمام طبقات شروع دن سے راہ عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صحیح بات کہنے والا نہیں ۔ جناب نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ناصرف یہود کی معصومیت بلکہ جملہ جرائم سے براء ت کو بیان کیا بلکہ سورہ بقرہ کی آیت 76 اور 91 کےحوالہ سے شہادت ایمان اور سند معصومیت کشید کرکے یہود کے گلے میں لٹکائی ، موصوف ساری تحریر میں مسلمانوں خصوصاً عرب مسلمانوں کے حوالے سے تحقیر آمیز رویہ رکھے ہوئے اور یہودیوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ انکی ہر بات کی تان اسی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ مسجد اقصی پر حق یہود کا ہی ہے، مسلمان بلاوجہ ضد کررہے اور اپنا نقصان کیے جارہے ہیں ۔ تعجب ہے کہ دنیا میں ایسے غیرمسلم بھی ہیں جو مظلوم ومقہور فلسطینی مسلمانوں سے، جو غزہ کی کھلی جیل میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، ہمدردی رکھتے ہیں مختلف فور مز پر انکے حق کی آواز اٹھاتے ہیں اور یہ اہل اسلام جو علم شریعت و فہم دین کا دعوی رکھتے ہوئے یہ بدبداتے پھرتے ہیں کہ آپ کو اس مظلومیت سے تب ہی خلاصی مل پائے گی جب مسجد اقصی ہی نہیں، ارض فلسطین بھی ان شقی القلب لوگوں کے حوالے کردیں، جنہوں نے یہاں اپنے ہی انبیائے کرام کو قتل کیا، سود وجوے کو اور زنا وشراب کو ارضِ مقدس میں رواج دیا، گفتنی وناگفتنی جرائم کی ایسی تھپی پر تھپی لگائی کہ ابدی پھٹکار کی مہر لگاکر یہاں سے نکالے گئے ۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ ترکی میں تو لاکھوں افراد ''ماوے مرمرہ'' کو بارات کی طرح رخصت کریں کہ فلسطینی بھائیوں کی مدد کرو اور پاکستان سے استشراقی زکام لگے نام نہاد محقق یہ بڑبڑاتے پائے جائیں کہ مسجد ہی نہیں، پورا فلسطین ان لوگوں کے حوالے کردو ۔
ب۔ مضمون نگار نے مقالے میں ہر جگہ بیت المقدس کو مسجد اقصیٰ یا حرم شریف کا احاطہ کہنے کے بجائے ہیکل ہیکل کی گردان رٹی ہے۔ بلکہ ایک جگہ تو مسلمانوں کو غلطی کا احساس دلاتے ہوئے یوں پھول جھاڑے ہیں: ''احاطہ ہیکل جسے آج کل الحرم الشریف کہا جاتا ہے!!'' یعنی اس جگہ کو آج تک کسی نے الحرم الشریف نہیں کہا، آج کل غلطی سے ''الحرم الشریف'' کہا جاتا ہے جو صحیح لقب نہیں۔ شمارے کے سرورق کے اندرونی صفحے پر مسجد اقصیٰ کا ایک نقشہ ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے''احاطہ ہیکل کا موجودہ نقشہ'' ۔ خان صاحب یا ان کے سرپرستوں کو شاید یہ زعم تھا کہ قارئین میں سے کوئی بھی نہ جان پائے گا کہ اس جگہ کو ''احاطہ ہیکل'' کہنا کن مردودوں کی مخصوص اصطلاح ہے، یہ نقشہ بنانے والے کون ہیں ، اس پر چسپاں ذومعنی الفاظ میں کیا کھیل کھیلا گیا ہےاور اس میں ہیکل کی مرکزی عمارت کو تین الگ الگ جگہ دکھانے کا کیا مقصد ہے؟ یہ نقشہ دیکھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ یہ تو خالص حلف یافتہ یہودی زعماء کا تجویز کردہ ہے، یہ خان صاحب کے ہاتھ کہاں سے لگا؟ اور انہوں نے اس نقشے کو کس ڈھٹائی سے یہود کے موقف کی تشریح اور مسلمانوں پر حجت قائم کرنے اور مسجد اقصیٰ سے دستبردار ہونے کے لیے استعمال کرلیا؟ اس نقشے کی اشاعت اور اس کو اپنے موقف کی وضاحت میں بطور تشریح وتفہیم پیش کرنا ایسی بھونڈی حرکت تھی جس سے راقم کو اگر کوئی شبہ تھا جس کی بنا پر وہ مقالہ نگار کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری الذمہ سمجھتا، تو وہ بھی جاتا رہا۔ اگر عمار صاحب اس نقشے کے اصل واضع، اس کی اصل جائے یافت اور ذریعہ حصول کی نشاندہی کرتے تو قارئین کو علم ہوجاتا کہ موصوف کے ڈانڈے کہاں جاکر ملتے ہیں؟مقالے کا سارا مواد، پرفریب انداز تحریر ، انوکھی اصطلاحات اور خیانت آمیز اسلوب غامدیت کے یہود کے ساتھ گہرے 'علمی روابط' کی گواہیاں دیتانظر آ رہا ہے۔ یہ اسلوب اسی تحریفی طبقہ کا ہے جو اس قدر پرکاری اور عیاری سے اپنے جھوٹ کو سچ بتاتا ہے کہ وہ قسمیں یاد آجاتی ہیں جن کے تناظر میں ''سورہ منافقون'' نازل ہوئی تھی۔ تحقیق کی دنیا میں یہ عجیب اور انتہائی نرالا طرز ہے کہ خان صاحب اخلاق وتہذیب پر مشتمل نصیحتیں مسلمانوں کو کرتے ہیں اور تایید میں حوالے ''جیوش انسائیکلو پیڈیا'' سے لاتے ہیں۔جو صاحبان اس مقالے کے زیادہ تر اقتباسات کا ماخذ دیکھنا چاہیں وہ ان یہودی ماخذ ومراجع کو نیٹ پر دیکھیں، جن میں ''ہیکل سلیمانی'' کے حق میں دلائل اور اس کے محل وقوع کی تعیین کے حوالے سے ہفواتی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ انہیں یقین آجائے گا کہ کسی زمانے میں کعبے کو صنم خانے سے پاسبان ملتے تھے، اب ہیکل خانے کے پاسبان اس خطے سے تلاش کیے جارہے ہیں جہاں سے اقصیٰ کے محافظوں کا لشکر جانے کی خوشخبریاں وارد ہوئی تھیں۔ ان' معتبر 'حوالوں سے ان کے مقالہ کا حاشیہ بھرا ہوا ہے۔
:Labmert Dophin & Michael Kollen, "On the Location of the First and Second Temples in Jerusalem", http//Idolphin.org/Yoel Cohen, "The Political Role of the Israeli Chief Rabbinate in the Temple Mount Question", Jewish Political Studeis Review, (www.jcpa.org), www.rabbiwein.com, Encyclopaedia Judaica, Jerusalem, www.la.utexas.edu, Jewish encyclopaedia.]۔ نیز روسی یہودی پروفیسر آشر کوف مین (Dr Asher Kaufman) اور اسرائیلی یہودی انجینئر توویا ساگیو (Tuvia sagiv) کے نظریات۔
ج۔ عمار خان ناصر صاحب کے پیٹی بند بھائی ریحان احمد یوسفی المعروف ابو یحیی نے اپنے سفر نامے ''وہی راہ گذر'' میں اپنے امریکہ کے سرکاری دورے کی جو تفصیلات لکھی ہیں ان کا مختصر بیان اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں، ایک عام بندے کا امریکہ کا سرکاری دورہ اور اس میں اسکو توہین رسالت کے قانون، اسلامی حدود و تعزیرات کے موضوع، عورتوں کے فرضی حقوق، اقلیتوں خصوصا قادیانیوں کی مذہبی آزادی، مسجد اقصی اور فلسطین کی ارض مبارک پر یہودیوں کے حق پر امریکی سرپرستوں اور صیہونی زعماء کی طرف سے بریفنگ، پھراس مقالہ کا مواد ، تصاویر اور حوالہ جات یہ سب گواہی دے رہے ہیں کہ عمار خان ناصر اور ان کے مکتبہ فکر کی یہ ساری ہفوات اپنی نہیں ہیں، یہ زبانیں بولتی نہیں، بلوائی جاتی ہیں۔
یہود کی پرکاری دیکھیے کہ مسلمان چونکہ کسی غیرمسلم خصوصایہودی کی کسی ایسی تحریر پر کوئی توجہ نہیں دیتے اس لیے انہیں اہل اسلام میں سے کسی کی زبان چاہیے تھی اور غامدی صاحب کی جماعت سے زیادہ بے باک اور آمادہ کار جماعت انہیں مل نہیں سکتی، لہٰذا دو یہودیوں کی مشترکہ کھچڑی کی ہنڈیا ''الشریعہ'' کے سر پر رکھ کر دم دی گئی اور عیاری کی بندوق عمار خان ناصر صاحب کے کندھے پر رکھ کر داغ دی گئی ہے۔
2. امیر عبدالقادر الجزائری کی سوانح عمری :۔
'امیر عبد القادرالجزائری'' کے حالات پر مشتمل''جان ڈبلیو کائزر'' کی کتاب کا اردو ترجمہ ''دارالکتاب'' لاہور کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا مصنف جان ڈبلیو کائزر ایوارڈ یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے اور کتاب کا موضوع جو شخصیت ہے وہ بھی سند یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے۔ دوسری طرف ''دار الکتاب'' علمائے حق کی فکر کا وارث ہے اور انقلابی جہادی تحریکوں سے متعلق کتابیں شائع کرتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ انقلابی مجاہدین کے جہادی کارناموں کو عام کرنے والا ادارہ ایک ایسی کتاب کیسے شائع کرسکتا ہے جو جہادی تحریکات کا تمسخر اڑاتی ہو، مجاہدین کو دہشت گرد اور مسلمانوں کو خونی درندے ثابت کرتی ہو۔ لہٰذا ہم نے اس کی تحقیق کرنا شروع کی کہ یہ جہاد کی مخالفت کرنے والی اور مجاہدین کو دشمن انسانیت اور دشمن رحمت ورافت ثابت کرنے والی کتاب کس نے شائع کروائی۔ کتاب پر مترجم کا نام غائب تھا ، ناشر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ امیر عبدالقادر الجزائری والی کتاب پر ان کے ادارے کا نام تو ضرور ہے، لیکن وہ نہ تو اس کتاب کے ناشر ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کے نام پر شائع کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ بعد میں انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب عمار خان ناصر صاحب نے شائع کروائی اور ہمیں فون پر اطلاع دے دی کی کہ یہ کتاب ہم نے آپ کے نام پر شائع کروائی ہے۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب لاہور کے ''میزونٹ ہوٹل'' میں منعقد ہوئی جس میں مہمان خصوصی امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھے۔ خطابت کے فرائض عمار خان ناصر نے سر انجام دیے۔ یہ تمام باتیں (جعلی مجاہد کی شخصیت کی تعارفی تقریب میں عمار خان کا لیکچر، امریکی عہدیدار کی شرکت کا اعتراف اور ناشر کے متفق نہ ہونے کے باوجود ''رواداری کے اصول'' جیسی فریبی اصطلاح کے تحت اپنا ادارہ چھوڑ کر کسی اور ناشر کے کندھے پر بندوق رکھنا وغیرہ) الشریعہ مئی ٢٠١٣ء میں تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کتاب پر تبصرہ سے پہلے کتاب کی اشاعت وطباعت وترسیل وتقسیم کی طلسماتی کہانی خود ہی اس کتاب کی حقیقت، ماہیت، حیثیت، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کو بتانے کے لیے کافی اور شافی ہے۔
امیر کی سوانح وافکار ، عملی جدوجہد اور کارنامے
عمار خان صاحب نے یہ کتاب پبلش کروانے سے پہلے اپنے رسالے میں یہ بحث شائع کی کہ افغانستان کا جہاد اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت کیا جانے والا جہاد نہیں ہے۔ پھر اگلے شماروں میں اسی کتاب سے ''سچے مجاہد کی داستان'' کو قسط وار شائع کرتے ہوئے اس جعلی مجاہد کے جہاد کو نمونہ کے طور پر پیش کیا۔ حیرت ہے اشراقیوں کی علمی دنیا میں شرم ومروت کا اتنا بھی گزر نہیں رہا کہ انسان اپنے پڑوس میں ہونے والے جہاد عظیم کے بارے میں دو اچھے لفظ نہ کہے اور پچھلی صدی میں مصدقہ یہودی گماشتے [اس کی ناقابل تردید تصدیقات خود زیرنظر کتاب جو موصوف خان صاحب کی نظر ثانی شدہ اور ترجمہ شدہ ہے، سے آگے آرہی ہیں] کی شکست خوردہ جدوجہد کو ''سچے جہاد'' کا نام دے دے۔ امیر عبدالقادر الجزائری کے متعلق ہمارے استعمال کیے گئے ان الفاظ پر شاید کسی کو اعتراض ہو۔ ہم امیر کے کردار ، افکار اور کارناموں کی حقیقت عمارصاحب کی ترجمہ و نظرثانی شدہ اسی سوانح عمری سے پیش کرتے ہیں ، یہ بات قارئین کے سامنے خود بخود واضح کر سامنے آجائے گی کہ وہ یہودی گماشتہ تھا یا نہیں۔
امیر کا کردار وافکار:۔
کتاب کے عالمانہ تعارف میں اس کی اشاعت کی ایک غرض بیان کی گئی ہے: ''ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار وافکار سے آگاہی آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ میں رہنمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔'' (ص:11)
آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سا کردار ہے جو آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے؟ اور اس سمت میں ہم مثبت پیش رفت کریں تو کس اہم ملی ضرورت کو پورا کرسکیں گے؟ اس حوالے سے اس کتاب کی چند عبارتیں بلاتبصرہ پیش خدمت ہیں ان سے معلوم ہوگا کہ ہمیں فقط امریکی نظریہ جہاد سے ہی متعارف نہیں کروایا جارہا بلکہ ہماری نئی نسل کے سامنے مغربی کی بے حیا تہذیب، شہوت پرستی، نسوانیت پرستی اور زنخا پرستی کو بھی نمونہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔
کتاب میں اس سچے مجاہد کی حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی کو یوں بیان کیا گیا ہے''ایسا لگتا تھا کہ اپنی ذات کی سختی سے نفی کرنے والے عبدالقادر کی زندگی میں واحد استثنا عورت تھی اور اس کا مسلسل وسیع ہوتا حرم سفارت کاروں کے لیے تھوڑے بہت نہیں، بلکہ شدید حسد کا باعث تھا۔'' (ص:391)
مسلسل وسیع ہونے والے حرم کا اندرونی حال بھی سن لیجیے: ''اسے ایک بار امیر کے حرم کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ یہ افواہ گرم تھی کہ امیر ہر سال نئی شادی کرتا ہے جو عموماً سرکیشیائی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہیں ہوتی، لیکن جین کی رپورٹ یہ تھی کہ اگر اس نے ان میں سے بیشتر کو طلاق دے کر رخصت نہیں کردیا تو پھر یہ افواہ غلط ہے۔ اسے وہاں صرف پانچ بیویاں نظر آئی تھیں، لیکن یہ تعداد بھی اسلامی شریعت میں دی گئی اجازت کی حد سے ایک زیادہ بنتی ہے۔'' (ص:451)
حاشیہ میں پہلے لکھا ہے:''جین کی اطلاع کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔'' اس کے بعد درج ہے: ''دمشق میں امیر کے بعض جانشینوں میں یہ گفتگو سننے میں آئی ہے کہ امیر نے ایک سرکیشائی لڑکی کو بھی بیوی بنایاتھا۔ ان میں سے ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھاجب امیر کی پانچ بیویاں تھیں''۔ (حاشیہ ص: 451)
خان صاحب نے امیر کی اس حرام کاری پر پردہ ڈالنے کے لیے پہلی عبارت نقل کی ہے۔ دوسری کو حذف کر گئے ہیں۔ ایسی امانت ودیانت نہ ہوتی تو انہیں غامدیت اپنا ترجمان وشارح منتخب ہی کیوں کرتی؟ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پانچویں عورت بیوی نہیں لونڈی ہوگی، لیکن اس کا کیا کریں کہ ایسی عورتوں سے تعلقات کے ثبوت بھی اسی سچی داستان میں موجود ہیں جو انگلستان جیسے مادرپدر آزاد ماحول میں بھی بدنام تھیں: ''عبدالقادر برطانیہ کی دو ایسی شخصیات [رچرڈ برٹن اور جین ڈگبی] کا دوست اور معترف تھا جو اپنی ثقافت سے باغی تھیں۔ ایک [رچرڈ برٹن نامی برطانوی ایجنٹ] وہ آزاد خیال روایت شکن جس نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں تعاون کیا اور جس کے پسندیدہ موضوعات میں پرشہوت عورتیں، جسم فروشی اور زنخا بنانے کے طریقے شامل تھے، جبکہ دوسری شخصیت [جین ڈگبی نامی ایک برطانوی حسینہ] اخلاق باختہ سمجھی جانے والی ایک خود پسند اور بدنام عورت تھی جس نے اپنی جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا بچہ تک چھوڑدیا۔'' (ص:452)
جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا سگا بچہ چھوڑنے والی بدنام عورت، ہمارے سچے مجاہد صاحب کی منظور نظر بن گئی تھی اور ان کے ڈیرے پر باقاعدگی سے حاضری دیتی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
''جین ڈھلتی ہوئی عمر کے عبدالقادر بھی منظور نظر بن گئی تھی۔ جس نے احتیاط سے خضاب لگی ہوئی سیاہ ڈاڑھی کے ساتھ اپنی جوانی کا تاثر قائم رکھا ہوا تھا۔ جین باقاعدگی سے نقیب ایلی [امیر المجاہدین کا ڈیرہ] آنے والے مہمانوں میں شامل تھی اور گرمیوں میں اکثر ان مہمانوں میں شامل ہوتی تھی جو امیر کی رہائش گاہ پر دریائے برادا کا نظارہ کرتے ہوئے پودینے کی چائے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جین نے اپنے شوہر میدجوئیل المرزگ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ سال میں چھ ماہ یورپی طرز کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔...... باقی چھ ماہ وہ بدو عورتوں کی طرح صحرا میں بکری کی کھال سے بنے خیمے میں گذارتی تھی...... میدجوئل المرزگ کے ساتھ شادی نے ڈگبی جین کی اس دھماکا خیز رومانی زندگی کا خاتمہ کردیا جس نے اسے سارے انگلینڈ میں بدنام کررکھا تھا۔'' (ص:449,450)
امیر عبد القادر کے عملی جدوجہد اور کارنامے
کتاب کا جائزہ لیا جائے تو مجاہد موصوف کے تین کارنامے ایسے نظر آتے ہیں جن کی پاکستان میں تعریف و ترویج افغانستان میں شکست خوردہ مغربی طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ عاجز کوشش کرے گا کہ اس کتاب سے باہر بالکل نہ جائے اور ہر اقتباس دو ٹوک انداز میں باحوالہ پیش کرے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔ کتاب میں موجود بعض بے ہودہ الفاظ بادل نخواستہ ہم نے اس لیے نقل کیے ہیں کہ ان کے آئینے میں اس کتاب کو ''مثالی نمونہ'' قرار دینے والے غامدیوں کے اعلی اخلاقی معیار کامشاہدہ کیا جا سکے۔ ہم بدرجہ مجبوری ایسے الفاظ سے اپنے صفحات کو آلودہ کرنے پر قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔
پہلا کارنامہ: دشمن کی خوشامد ، رحم کی بھیک اور فری میسن تنظیم میں شمولیت:
کتاب کے وقیع پیش لفظ میں ایک انتہائی قابل احترام اور مؤقر علمی شخصیت نے اس کتاب کو پاکستان میں شائع کرنے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ''امیر عبدالقادر الجزائری مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقینا مفید ثابت ہوگی۔'' (ص:11)
''سچے جہاد کی داستان'' نامی اس ''مستند سوانح حیات'' میں ہی اس کی تصدیق موجود ہے کہ جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کا پاسدار امت مسلمہ کا یہ محسن کون تھا؟ اور نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کروانے کے مقاصد کیا ہیں؟ ، اسی کتاب کے ص 438 پر سچے مجاہد کے پیچھے موجود جھوٹے پشت پناہوں کا صاف ستھرا سراغ ملتا ہے۔ مصنف رقم طراز ہے:
''جب جنرل ''اوٹ پول'' اپنے تصور میں امیر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا تو پیرس میں فرانسیسی میسونی لاج ''ہنری چہارم'' کی ایک کمیٹی بڑی احتیاط سے امیر کے نام ایک خط تیار کررہی تھی اور اس کے ساتھ موزوں عبارت والا ایک قیمتی زیور بھی منتخب کیا جارہا تھا۔ تقریباً ایک مہینے کی عرق ریزی کے بعد سولہ نومبر کو میسونی تنظیم کی علامت سے ڈھکے سبز جڑاؤ تمغے کے ہمراہ یہ خط ''انتہائی عزت مآب جناب عبدالقادر'' کی خدمت میں ڈاک سے روانہ کردیا گیا۔ تنظیم کا نشان دائرے کے اندر دو چوکھٹوں پر مشتمل تھا، جس سے ایک ہشت پہلو شکل بنتی تھی جس سے روشنی کی شعاعیں خارج ہورہی تھیں۔ عین درمیان میں فیثا غورث کی مساوات کندہ تھی۔'' [یہودیوں کی مخصوص پسندیدہ علامت اس مساوات کا کچھ بیان آگے چل کر آئے گا]مسجع ومقفع انداز میں لکھی گئی عبارت کے آخر میں امیر کو تنظیم کا رکن بننے کی دعوت دی گئی تھی:
''بہت سے دل ایسے ہیں جو آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں، بہت سے ''بھائی'' ایسے ہیں جو آپ کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ سے محبت کرتے ہیں اور اگر وہ آپ کو اپنی تنظیم کارکن شمار کرسکیں تو انہیں بہت فخر ہوگا۔'' (ص: 438، 439)
''عالمی برادری'' میں شمولیت کی اس دعوت کو قبول کرنے میں سچے غامدی مجاہد نے دیر نہیں لگائی اور اپنے قریبی ساتھیوں اور سپہ سالاروں کے منع کرنے کے باوجود ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو دشمن کے ہاتھ میں دے دیا ۔ہتھیار ڈالنے کا انداز کس قدر ذلت آمیز تھا۔ آپ پڑھ کر ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ کو بھول جائیں گے۔
''امیر نے اپنی تلوار جنرل لاموری سیئر کے حوالے کی اور اپنے آدمیوں کو بھی حکم دیا کہ اپنی بندوقیں اتار کر جنرل کے پیروں میں پھینک دیں۔ لاموری سیئر بارود اور خون سے اٹی عباؤں میں ملبوس، افسانوی شہرت رکھنے والے ان جنگجوؤں کو پروقار خاموشی کے ساتھ ہتھیار ڈالتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور بولا: ''اپنے ہتھیار اپنے پاس ہی رکھو۔ انہیں فرانس کے لیے استعمال کرو۔ میں تم سب کو مخزن کے طور پر بھرتی کروں گا۔ '' (ص:283)
ہتھیار پاس رکھنے اور دشمن کے خادموں میں بھرتی ہو جانے کی خوش خبری کچھ زیادہ دن نہ چل سکی۔ کچھ دنوں بعد امیر کو احساس ہوگیا کہ فرانس کے حکام بالا [اپنی روایت کے مطابق] اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔ عظیم جہادی شخصیت کو جب اس ذلت کا احساس ہوا تو اس نے انتہائی حد تک گرتے ہوئے شاہ فرانس کو خوشامدانہ خط لکھا۔ اس میں اس قدر گر کر التجا کی گئی تھی کہ خود اس کے ساتھیوں کو بھی شرم آ گئی۔ ملاحظہ ہو:
''عبد القادر نے خط میں رحم اور انصاف کی التجاؤں کے بعد بادشاہ سے بالمشافہ ملاقات کی درخواست کی تھی۔ خط کے آخر میں امیر نے وہی جملہ لکھا جس کی دوما کو توقع تھی: ''خدائے برتر کی یہی منشا تھی کہ میں خود کو ایک بچے کی طرح آپ کے ہاتھوں میں سونپ دوں ۔ ''(ص: 300)
غامدی ثنا خوانوں نے اسے صلح لکھا ہے۔ یہ ہرگز صلح نہیں تھی بلکہ ہتھیار ڈال کر مانگی گئی بھیک تھی۔ اس کے سب ساتھی جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھے، لیکن وہ حلف دے دے کر اپنے لیے راستہ دیے جانے کی بھیک مانگتا تھا۔مجاہد موصوف کی مسجع و مقفی درخواستیں ایسے خوشامدی الفاظ پر مشتمل ہوتی تھیں جن میں غیر اللہ کی قسم کھائی گئی تھی۔
''پھر عبد القادر نے خط میں اپنی طرف سے حلف بھی شامل کیا جو اس نے اپنے ہاتھ سے عربی میں لکھا تھا اور اس سے اسلامی قانون پر مکمل دسترس رکھنے والے شخص کی جامع مہارت جھلکتی تھی۔ اس نے لکھا: ''عظمت صرف خدا کی ہے! میں حلف دیتا ہوں کہ کبھی فرانس کے لوگوں کے لیے پریشانی کھڑی نہیں کروں گا، نہ ذاتی طور پر، نہ خط لکھ کر اور نہ کسی اور طریقے سے۔ میں یہ حلف خدا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ابراہیم، موسی اور یسوع مسیح کی قسم کھا کر، تورات، انجیل اور قرآن کے نام پر دیتا ہوں۔ میں یہ حلف اپنے دل، اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے دیتا ہوں۔ اس عہد کی پابندی مجھ پر اور میرے تمام ساتھیوں پر، جن کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، جنہوں نے اس دستاویز پر دستخط کیے ہیں اور انہوں نے بھی جنہوں نے دستخط نہیں کیے، کیوں کہ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا، لازم ہے۔''(ص:312)
اسکی یہ گریہ زاری، جہادی کوشش منظور ہوئی اور
"1864ء میں امیر کو دمشق میں شام کے میسونی لاج کا اعزازی گرینڈ ماسٹر نامزد کیا گیا۔ اس کے ایک برس بعد جب عبدالقادر فرانس گیا تو اسے فرانسیسی لاج ''ہنری چہارم'' میں شامل کرلیا گیا جس میں بنجمن فرینکلن، لاپلاس، لافاییٹ، وولٹیئر، سوٹ، مونجے، تالے راں، پرودوں اور دیگر ایسی ممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کے لیے مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون سب ایک الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر تھے۔'' (ص:441)
''سترہ نومبر 1869ء کو جب نہر سویز کھولنے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو امیر کو بھی گرینڈ پیولین میں نپولین کی بیوی، ملکہ یوجین، آرچ ڈیوک وکٹر آف آسٹریا، شاہ ہنگری اور ساری دنیا سے آئے ہوئے سفیروں اور اہم شخصیات کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔ مشرق اور مغرب کے سمندروں کو آپس میں ملانے کا خواب پورا کرنے میں عبدالقادر نے فرانس کے فردیناں دے لیسپس (Ferdinand de Lesseps) کی کچھ کم مدد نہیں کی تھی۔۔۔'' (ص:444,442)
عالمی سطح پر مسلم دشمن بلکہ انسانیت دشمن بدنام زمانہ تنظیم کے گرینڈ ماسٹر کو سچا مجاہد بناکر پیش کرنے والے ''فہم دین'' اور ''تفہیم شریعت'' کے داعیوں کے متعلق اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ بھی ''مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون کے الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر'' میں سے ہیں تو کیا یہ غلط گمان ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ جو شخص 1864ء سے 1877ء تک یعنی تقریباً تیرہ سال تک ایک بدنام زمانہ دین دشمن ومسلم کش تنظیم کا رکن رہا، اس کی کارگردگی کو دنیا میں متعارف کروانے کی آپ کو ضرورت کیا پڑی ہے؟ کیا یہی تازہ عالمی منظر نامے میں امت مسلمہ کی وہ رہنمائی ہے جس کی طرف ''مثبت پیش رفت ہماری ملّی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے''کیا یہی وہ مشعل راہ ہے جو ''اسلام کے تصور جہاد کے درست تعارف کے لیے گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے''؟[واوین میں مذکور الفاظ امیر موصوف کے ثنا خواں عمار خان صاحب کے ہیں[.انگریز مصنف کو پاکستان میں دوسرا کوئی نہ ملا، صرف آپ میں یا آپ کے طبقے میں اسے کیا خصوصیت نظر آئی کہ اس نے یہ کتاب تنقید و تحقیق کے لیے آپ کو بھیجی۔ آپ کی صہیونی ایجنٹوں سے فطری ہم آہنگی اور نظریاتی اشتراک کی بنیاد کیا ہے؟
کیا امیر نے تنظیم چھوڑ دی تھی ؟
خان صاحب نے اپنے جوابی کالم میں لکھا کہ امیر نے تنظیم چھوڑ دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سفاک اور پر اسرار تنظیم میں جو شخص ایک بار داخل ہوجائے وہ اپنی مرضی سےنہیں نکل سکتاہے ،یہ تنظیم عام کارکن سے جو حلف لیتی ہے وہ دجال کے متعلق لکھی گئی مستند کتابوں (دجال، عالمی یہودی تنظیمیں) میں بالتفصیل ذکر ہے۔ یہ تو دمشق کے میسونی لاج کا اعزازی گرینڈ ماسٹر نامزد کیا گیا تھا ، اس سےکیسا حلف لیا گیا ہوگا ؟ چلیں بالفرض ہم یہ مان لیتے ہیں کہ امیر نے یہ تنظیم چھوڑ دی تھی، سوال یہ کہ اس نے اپنی مہر میں (جو آپ نے کتاب کے پشتی سرورق پر اپنے والد محترم کے نام کے عین اوپر چھاپی ہے) آخر دم تک کیوں مخصوص یہودی علامتیں نقش کر رکھی تھیں؟ مذکورہ کتاب کے پشتی سرورق پر اس مہر کا نقش موجود ہے، جس میں چھ کونوں والا ستارہ پکار پکارکر امیر پر اور آپ کی تحریک غامدیت پر مہر یہودیت ثبت کررہا ہے۔ کتاب کے ص 285 کے حاشیے پر لکھا ہے:
''امیر کی مہر دو ''مثلثوں'' پر مشتمل تھی جن میں ایک سیدھی اور دوسری معکوس تھی۔ دونوں مثلثیں ایک دوسرے کے اوپر تھیں جس سے کچھ کونوں والے ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ان کے اردگرد ایک دائرہ تھا۔ اوپر کی طرف نوک والی مثلث روحانی طاقت کی علامت تھی جبکہ نیچے کی طرف نوک والی مثلث دنیاوی اقتدار کی نمایندگی کرتی تھی۔ دائرہ الوہی رحمت کی علامت تھا۔''
جب الوہی رحمت کی علامت اپنا کر فری میسنری کی غلامی قبول کرلی گئی تو یہودی سرمایہ دار ایسے شخص کی حمایت سے کیوں پیچھے رہتے؟ مشہور زمانہ یہودی خاندان ''روتھ شیلڈ'' ہمارے ممدوح مجاہد کی مدد کو آگیا۔ سنیے اور سر دھنیے:''اس نے دمشق اور بیروت کے درمیان پل تعمیر کرایا اور جیمز روتھ شیلڈ کی شراکت سے محصول چونگی بھی قائم کی۔۔'' (ص:406)
حقیقت میں تنظیم چھوڑنے کا شوشہ پیرس کی طرف سے ''عربوں کے حقیقی بادشاہ'' کو شام کی گورنری دلوانے کے لیے چھوڑا گیا تھا، ورنہ کوئی اس تنظیم کو چھوڑنا بھی چاہے تو یہ تنظیم اسے نہیں چھوڑتی۔
(جاری ہے)