منگل، 2 جون، 2015

شب برات کی فضیلت - ایک غلط فہمی کا ازالہ

یہ تحریر  بلاگ پر پہلی دفعہ ہفتہ، 16 جولائی، 2011 کو پوسٹ کی تھی ، ابھی دوبارہ اسکو ریفریش کرنے کی   دو وجوہات ہیں  ، ایک یہ کہ اس میں پوسٹ کی گئی پکچر کرپٹ ہوگئی  تھیں  جس کی وجہ سے  اس تحریر کے کمنٹ میں اور جہاں اسکا لنک پیسٹ کیا گیا تھا وہاں  پڑھنے والوں نے  ری پوسٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں   مفتی تقی عثمانی صاحب کے اس جملے " اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، " پر    بہت سی جگہوں پر عجیب و غریب تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ایک صاحب نے لکھا "
 Zaif+zaif=Zaif he hoti hay "
 ایک اور جگہ یہ تبصرہ دیکھا
"  kesay 1 mamlay per sari ki sari hadeesain kamzoor hon us ko ap deen ka hesa bana sakty hain.... kuch tou khayal karain "
ایک غلط فہمی یہ بھی عام ہے   کہ لوگ ضعیف حدیث کو من گھڑت کے معنی میں لیتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے  ہیں۔   یہ جملے  بھی کانوں میں پڑتے رہتے ہیں   کہ بھائی فلاں مسئلہ میں تمام احادیث ضعیف ہیں ا س لیے چھوڑو اس پر عمل کرنا، ایک مشہور کتاب فضائل اعمال کے متعلق تو  شاید سب ہی نے ایسی باتیں سن رکھی ہونگی۔ ۔ افسوس ہوتا ہے  لوگ بغیر علم کے  احادیث  پر  تبصرہ ایسے کرجاتے ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں  کسی  راہ چلتے کی بات ہے یا اخبار میں چھپی کسی کی بات ہے،  ان تبصرے کرنے والوں نے بھی اس بات کو اگنور تو کیا ہی کہ  جو بندہ  یہ بات بیان کررہا ہے (مفتی تقی عثمانی صاحب) وہ چالیس سال سے حدیث پڑھا رہا ہے۔ ۔ حدیث پر بھی فارمولا ریاضی والا لگا گئے کہ 0+0= 0۔ ۔

ضروری وضاحت

ضعیف نا کہ من گھڑت :
پہلی بات یہ کہ  ضعیف حدیث بھی حدیث رسول ہی ہوتی ہے یہ  لازمی من گھڑت نہیں ہوتی بلکہ راوی میں کچھ کمیوں ، کمزوریوں کی وجہ سے اسکو ضعیف کہا جاتا ہے ، یہ  بحرحال ممکن ہوتا ہے کہ اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو اس لیے اسکو بالکل چھوڑا نہیں جاتا بلکہ فضائل کے باب میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علماء نے اس لفظ 'ضعیف'  کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں  مثلا یہ وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو،  اس حدیث کے خلاف کوئی  صحیح حدیث نہ ہو ۔۔۔ ایسی حدیث جس  میں حدیث صحیح وحسن  کی  شرائط نہ پائی جائیں، اس میں ایسے  اسباب ہوں جو  کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہوتے  ہیں،  اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں ، یہ  متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو۔(اعلاء السنن ، احکام القرآن للجصاص)
کیا  اس حدیث کا ضعف ختم ہوسکتا ہے ؟
اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو اور ضعف کی بنیاد راوی کا فسق یا کذب نہ ہو  تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجر رحمہ اللہ  کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہنچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔(فتح المغیث:۳۵/۳۶)اسی طرح  اگر  حدیث نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کےکسی  قاعدہ وضابطہ کے مطابق ہو تو اسکا ضعف نکل جاتا ہے۔         (نزھۃ النظر:۲۹)
ضعیف حدیث  کی اقسام
 ضعیف روایات کی بہت سی اقسام ہیں اور ہر ایک کے ضعف میں راویوں کی کمزوری کی شدت یا  کمی   کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے ۔  مشہور قسمیں  ضعیف، متوسط ضعیف، شدید ضعیف اور موضوع ہیں۔ موضوع یعنی گھڑی ہوئی حدیث۔ یہ ضعیف حدیث  کا کم ترین درجہ ہے۔
ضعیف  حدیث پر عمل :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں ۔ ایک یہ کہ   حدیث شدید ضعیف نہ ہو مطلب اسکا راوی جھوٹا اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فحش غلطیوں کا مرتکب ہو۔ دوسری  اس پر عمل کرنا اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو۔ تیسری  یہ کہ  عمل کرتے ہوئے اسے صحیح حدیث کی طرح قبول نہ کیا جائے بلکہ   اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ حقیقت میں  اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہو۔             (اعلاء السنن:۱/۵۸)
جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، ضعیف حدیث اور فضائل کے متعلق لکھتے ہوئے علامہ سخاوی نے متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک امام مسلم اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزم کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ (نووی علی مسلم:۱/۶۰)
دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاوی نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکی اور ملا علی قاری نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔     (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰)آئمہ  حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔(شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱)
ضعیف احادیث اور اقوال صحابہ :
امام ابوحنیفہ وامام احمد ضعیف حدیث  کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدم صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرام کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح دی گئی۔
شب برات کے متعلق ضعیف احادیث: 
 مفتی تقی عثمانی صاحب نے  شب برات کی احادیث کے متعلق   لکھا  کہ
" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔"
اس پہرہ گراف  سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں۔
1- شب برات کے متعلق احادیث ضعیف  لیکن کئی سندوں سے مروی   ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا۔
2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں  اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3-  اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ  اعمال صحابہ  بھی موجود ہیں۔
ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان  سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔

رسالہ '' شبِ براء ت کی حقیقت از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب " یہاں  سے  ڈاؤنلوڈ  کیا جاسکتا ہے۔


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 10 جنوری، 2015

مدارس سےدہشت گردی کا تعلق –چند حقائق

سانحہ پشاور پر  کون ہے جسے افسوس نہیں ہوا ہوگا ، اسکی   ہمیشہ کی طرح  ملک کی تمام مذہبی تنظیموں نے بھی مذمت کی . لیکن    پھر بھی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر  دینی مدارس اور علماء  پر   تنقید کا ایک  طوفان دیکھنے میں آیا۔ ہمارے  میڈیا اور حکومت   کا بھی یہ مزاج  بنتا جارہاہے کہ جب بھی ایسا کوئی دہشت گردی کا  واقعہ ہوتا ہے  وہ علماء اور  مدارس کو کٹہرے میں لا کھڑا  کرتے  ہیں  جیسے  وہ دہشت گردی انہوں نے کروائی   اور ملک کی سیکورٹی کے ذمہ دار وہ  ہیں  ۔ انکو جگہ جگہ بلا کر  تفتیشی انداز میں انٹرویو لیے جاتے ہیں  اور بار بار یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ  اس معاشرے کا سب سے ذیادہ عوامی انفلوینس رکھنے والا طبقہ   ہیں آپ لوگ اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے میں کیوں ناکام ہیں ؟
 دوسری طرف حالت یہ ہے کہ   نا حکومتی لیول پر پالیسی بناتے وقت انکو کوئی ویلیو دی جاتی ہےاور نا میڈیا عام حالات میں انکی کسی اچھی رائے ،تجویز، بات کو شائع کرنا گوارا کرتا ہے۔  ہر دفعہ ایسے مسائل پر مشورے کے لیے   آل پارٹیز کانفرنس بلائی  جاتی ہیں   لیکن  ایسا کبھی نہیں ہوا   کہ پورے ملک سے علماء کو بھی  جمع کیا گیا  ہو اور ان سے  ان کی رائے لی گئی ہو کہ آپ کے خیال میں  اس کا حل کیا  ہے؟ آپ  اس گرداب ، مشکل سے  نکلنے کا کیا راستہ  تجویز کرتے ہیں  ؟؟ کسی  ایک ایسی   سنجیدہ  کوشش کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا  جس میں چند بڑے  علماء  کو ہی  بھلالیا گیا ہو اور انکی تجاویز  سنی گئی  ہو ؟   شروع سے کبھی  انکو ملک کے اندر  سٹیک ہولڈر  سمجھا ہی نہیں  گیا ، یہ سمجھا ہی نہیں  گیا کہ وہ بھی اس حوالے سے ملک میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں پھر  بھی ہر دفعہ  یہ  پوچھا جاتا ہے  کہ علماء کیا کردار ادا کررہے ہیں   ؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی اس کے ساتھ ملک   کی بڑی اور  موثر جامعات اور انکے انفلوئینس  رکھنے والے علماء کو بھی بلایا جاتا۔ ان سے بھی  اس بارے میں رائے لی جاتی۔
 یہی حال میڈیا کا بھی ہے،2009 میں ڈیڑھ  سوسے قریب صف اول کے  علماء نے لاھور میں ایک متفقہ فتوی دیا   جس میں   ملک میں  دہشت گردی کی ان تمام چیزوں کو  رد کیا  گیا،  اسکو میڈیا کی سکرینوں پر  بالکل جگہ نہیں ملی،  ایک خبر تک نہیں چلائی گئی۔ اور  آج یہی میڈیا والے  علماء کو لائن میں کھڑا کرکے یہ پوچھ رہے ہیں کہ علماء کی جانب سے  اس انتہاء پسندی کی سوچ کو کاؤنٹر نہیں کیا جارہا؟ کوئی کاؤنٹر   نیریٹو کیوں نہیں دیا جارہا؟  ؟!!
 یہ سوال اٹھانے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ  پہلے دن سے جب سے یہ مسائل پیش آئے علماء کی جانب سے   حکومت کی غلط پالیسیوں  پر  مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ  اس کے بارے میں بڑا واضح موقف اختیار کیا گیا  کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد  ناجائز ہے ، قرآن و حدیث میں اسکی اجازت نہیں ہے۔ یہی کاؤنٹر نیریٹو تھا   جو  علماء کے بس میں  تھا  کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے پر  اپنی رائے کو واضح کرنا، اسکو انہوں نے واضح کیا ہے۔ بات پہنچائی گئی ہے بات کہی گئی ہے ۔  اہل علم کا کام کسی چیز کا ابلاغ اور اسکو پہنچا دینا ہی  ہوتا ہے اور اسکے بعد کسی کو زبردستی اس پہ لانا نا انکے اختیار میں ہے اور نہ انکے لیے ممکن ہوتا ہے ۔
  باقی یہ  بات کہ لوگوں نے یہ بات مانی کیوں نہیں یہ شاید خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہوسکتا ہے اس  مسئلے کے پس پردہ جو محرکات ہیں وہ مذہبی نہ ہوں وہ سیاسی ہوں، اس میں   ملوث لوگوں کو  ٹارگٹ  طاقت کے کھلاڑیوں کی طرف سے دیے گئے ہوں اسی وجہ سے انکو  قرآن وسنت کی بات معقول نہ لگی ہو۔
آپ عالمی حالات پر غور کریں  یہی مسئلہ  آپ کو  تمام عالم اسلام میں  نظر  آئے گا۔ اگر   یہ مسئلہ عراق ،    شام، لیبیا اور مصر  میں بھی   موجود  ہے تو سوال یہ ہے کہ    وہاں پر کونسے مدارس ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ  پیدا ہے؟۔  یہ مسئلہ اگر صرف پاکستان کا ہوتا تو  ہمارا اسکو صرف لوکل یا علاقائی تناظر میں  دیکھنا  فائدہ مند ہوتا لیکن  ایسا نہیں ہے ۔یہ کچھ بین الاقوامی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔ سامراجی طاقتیں   دنیا کے نئے جغرافیے بنارہی ہیں،  اسلامی ملکوں کو  ڈی سٹیبلائز کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  اسوقت  پورا عالم اسلام اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں اور اسی قسم کی انارکی اور خانہ جنگی وہاں بھی پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔ اس بات کی  ایک اور  دلیل  یہ ہے کہ یہ  مسائل   جن کا اسوقت ہم سب لوگ شکار ہیں انکی مدت ذیادہ سے ذیادہ  پندرہ بیس  سال ہے  اور مدارس اس خطے میں سو ڈیڑھ سو سالوں سے موجود ہیں  ۔ اگر یہ مدارس کی پیداوار  ہوتے  تو  پہلے  بھی یہ مسائل پیش آتے  ۔ لیکن آج سے بیس سال پہلے تک  ایسی  کوئی بات اس خطے میں نہیں دیکھی گئی ۔
 جب کسی مسئلے میں عالمی قوتوں کے مفادات شامل ہوجائیں، عالمی قوتیں اس میں  انوالو ہوجائیں  اور ملکوں کے جھگڑے اور  آس پڑوس کی جنگوں اور نظریات کے مسائل اس میں داخل ہوجائیں تو آپ اس علاقے کے لوگوں کی کسی ایک چیز کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے ، ان لوگوں کی  صرف  مذہبی پسند ناپسند کو ہی  سارے مسئلے کی جڑ قرار  نہیں دیا جاسکتا ، وہاں یہ کہنا دانشمندی نہیں ہوگی   کہ اس علاقے کے لوگوں کے دینی ادارے اس سارے مسئلے کے ذمہ دار ہیں۔؟  یقینا بہت سے عناصر میں سے  ایک عنصر  مذہب کا   بھی  شامل کیا جاسکتا ہے ،   جن کے اس مسئلے سے  مفادات وابستہ  ہیں انہوں نے جہاں اور  بہت ساری چیزوں کو استعمال  کیا ہے   وہ اس چیز کو بھی استعمال کرسکتے ہیں ، لیکن یہ ضروری نہیں  کہ اس میں سارے لوگ صرف مذہب کے نام پر استعمال ہورہے ہو ں اور مذہب اور مذہبی ادارے  ہی سارے مسئلے کے ذمہ دار ہوں  ۔!!
 ہر شخص جانتا ہے کہ  ہمارے اس سارے مسئلے میں عالمی قوتیں انوالو ہوچکی ہیں،انکی جانب سے فنڈنگ ہورہی ہے، انکی جانب سے ٹارگٹ دیے جارہے ہیں لیکن پھر بھی  بڑی معصومیت کے  ساتھ ہمیشہ اسکا  سارا ملبہ ان لوگوں پر گرا دیا جاتا ہے   جن کا طاقت کے اس  کھیل میں کوئی حصہ  یا  کوئی کردار  ہے ہی نہیں ۔
 ہم سمجھتے کہ  اس دفعہ  اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسکی طرف سے  صرف اس مذہبی طبقے کے خلاف آپریشن شروع کرنا یا صرف  علماء کو  کاؤنٹر کرنا بے وقوفی ہوگی ۔   ضروری ہے کہ ہر اس طبقے  کو شامل تفتیش کیا جائے جن کے مفادات اس مسئلے سے وابستہ ہیں ، جو عالمی طور پر اس ساری گیم میں شامل ہیں ۔ اس کے لیے  انکے سفارت خانوں کی نگرانی کی جائے اور فارن فنڈنگ کی بھی  کھوج لگائی جائے۔ معلوم کیا جائے کہ پاکستان میں کن  کن اداروں، تنظیموں کو باہر کے ملکوں یا سفارت خانوں  سے فنڈ  ملتا ہے انکو ایکسپوز کیا جائے ۔ دوسری بات ملک کے تمام حصوں میں جو دہشت گردوں  کی مختلف اقسام ہیں۔ چاہیے  وہ مذہبی ، لسانی ،صوبائی جیسا بھی  پس منظر  رکھتے  ہو ں  ان  سارے قسم  کے  دہشت گردوں کے ساتھ برابر سلوک کیا جائے، صرف کسی اک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانا انتہائی نقصان دہ ہوگا ۔ جس فرقہ، طبقہ سے تعلق رکھنے والے  کسی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہیں ان  سب کو سزائیں ملنی چاہیے اسی سے حکومت کو عوامی اعتماد  حاصل ہوگا  اور حالات کنٹرول میں آئیں گے۔
ایک اور اہم  بات جب ہم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بات  کرتے ہیں تو اس میں  ہمیں  ملک کا جو سب بڑا  طبقہ ہے  دیندار طبقہ، اسکے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور کسی بھی حادثے کو ان پر تنقید کا موقع نہیں سمجھنا چاہیے ۔اتنا  بڑا حادثہ  ہوا ، بچوں کی لاشیں  بکھری پڑی تھیں ،  گھروں میں قیامت بھرپا تھی  ، مائیں پیٹ رہی تھی اور  کچھ  لوگ  اس سانحے کی آڑ میں اپنے پرانے ایجنڈے کو اگے  بڑھانے کی کوشش  میں مصروف  نظر آئے ، الیکٹرانک میڈیا  ہو یا سوشل میڈیا  جس کو دیکھیں  کوئی کوئی  دیوبندی بریلوی شیعہ سنی کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے اور کوئی مذہب  اور مذہبی اداروں کو ۔  کیا ایسے واقعات کے دوران یہ معاشرہ اتنی غیر سنجیدگی اور اشتعال انگیزی  کا  متحمل ہوسکتاہے۔ ؟
 ہماری بدقسمتی یہ  بھی ہے کہ  ان  ساری غیر سنجیدہ بحثوں کو  سامنے لانے  کے لیے  ہمارا الیکٹرانک میڈیا ایک پلیٹ فارم  اور ایک میزبان کا کردار ادا کرتا ہے، ہر دفعہ  شرپسند اور غیر سنجیدہ  لوگوں کو  میڈیا کے حلقوں کی بھرپور تائید حاصل ہوجاتی ہے ۔  ملائیشیا میں مقیم ایک صاحب ہیں   جو کہ   ایک  مذہبی سکالر و تجزیہ نگار  کے طور پر  مشہور ہیں  انکو ہر دفعہ ایسے واقعات پر  اظہار خیال  کے لیے تقریبا ہر چینل  والے بلاتے ہیں  اور وہ جب بھی آتے ہیں   تعزیت  کے چند رسمی جملوں  کے بعد علماء اور مدارس پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ حالیہ واقعے کے بعد بھی موصوف نے یہی کیا اور   آتے ہی مدارس کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا اورلائیو پروگرام میں کہا کہ
 " یہ اسی مذہبی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے اور جس کی تبلیغ ہماری بہت سی اسلامی تحریکیں اور مذہبی جماعتیں کرتیں ہیں۔۔یہ مدارس اور مذہبی تحریکیں اپنے مخاطبین کو یہ بتاتے ہیں کہ کفر، شرک اور ارتداد کا تلوار سے خاتمہ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔۔ " مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے وہ تمام کتابیں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرکے دیکھی جاسکتی ہیں ، دوسری بات  اگر  کفر وشرک کو تلوار سے خاتمہ کرنا ضروری سمجھایا جاتا ہے تو ان مدارس والوں  کی تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں کونسی تلوار لیے پھر رہی ہیں۔ ۔؟  کیا  ان سانحات کی آڑ میں اپنے پرانے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے،  دشمنیاں چلانے  اور لوگوں میں    نفرتیں پیدا کرنے والے لوگ ا سکالر کہلانے کے لائق ہیں ؟
قومی حادثہ  ہوا ،  بجائے قومی سوچ  پیدا کرنے ، پروان چڑھانے کے یہ نابغے ہر دفعہ   ایک ہیجانی قسم کی  کیفیت پیدا کردیتے ہیں  اورقوم کو نفرت کی  عجیب بحثوں میں الجھا دیتے ہیں۔ جب  تمام مذہبی طبقات نے    پہلے دن سے ہی   اس دہشت گردی  کی مذمت    کردی  اور قوم کے ساتھ کھڑے ہوئے   پھر بھی بار بار ان سے انکی پوزیشن  پوچھنا  اور ان پر سوالیہ نشان لگانا  کہاں کی دانشمندی ہے ؟ کیا قوم کو اس بلاوجہ کے انتشار  میں مبتلا کرنا اور بحثوں  میں الجھانہ کوئی قومی خدمت ہے؟
 اسی طرح کچھ اور  لوگ ہیں جو  موم بتیاں جلانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی طبقے پر تنقید کا حق حاصل ہوگیا ہے۔۔ ہر گورنمنٹ میں   فرقہ واریت کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے لیکن  ان سیکولر انتہا پسند وں ، لامذہبی  جنونیوں کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جاتا ، ان  کو ہر دفعہ اشتعال   انگیزی پھیلانے  کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے  ۔ اور یہ میڈیا کی سپورٹ سے  قوم کو اک نئے مسئلے/بحث میں  الجھا دیتے ہیں۔
 ہمارے نزدیک  یہ علماء اور  مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ  وار  کوئی علاقائی سازش نہیں بلکہ   یہ ایک تہذیبی جنگ ہے جسکو ہر فورم سے لڑا جارہا ہے۔ اس ملک میں  اسوقت صرف ایک مذہب ہی ہے جو اس  سیکولر تہذیب کے راستے میں رکاوٹ بنا   ہو ہے  اور بھرپور مزاحمت کررہا ہے، اس لیے کبھی اسکے نمائندوں کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے اور  کبھی  اسکے اداروں  پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے  ۔ آج  امریکہ اور رینڈ کارپوریشن، یو ایس ایڈ کے 14 سالوں کی محنتوں کا  پھل سامنے آرہا ہے، ڈاڑھی اور دہشت گردی ہم معنی بنا دی گئی ہےاوراس بار   مذہبی  طبقے کو   دہشت  گرد قرار دے کر  بالکل دیوار   سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نوٹ: اس تحریر کی تیاری میں معروف عالم دین مولانا سید عدنان کاکا خیل صاحب کے ایک ٹی وی پروگرام میں کیے گئے  تجزیے سے بھی مدد لی گئی ہے۔
مکمل تحریر >>