اتوار، 8 جنوری، 2012

زندگیاں بدلنے والی کتاب " الکیمسٹ اردوترجمہ کیمیا گری" ڈاؤنلوڈ کریں




اس کتاب کے عنوان سے لگتا ہے جیسے یہ کوئی مہماتی قسم کا ناول ہوگا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں ہیں  مگر اس کے باوجود یہ اپنی طرز کی ایک بہت مختلف ، شاندار اور غیر معمولی کتاب ہے۔ یہ دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہے۔ مصنف نے انسانی زندگی کے چند بہت ہی اہم امور سے متعلق پائی جانے والی کم علمی بلکہ غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہےاور وہ اس کوشش میں کس حد تک کامیاب بھی رہا ہے ۔ ان امور سے متعلق مصنف کا نقطہ نظر کم وپیش وہی ہے جو اسلام کا ہے، حقیقت میں  یہ بہت حد تک اسلام کے فلسفہ حیات سے ہی اخذ شدہ ہے۔ ہم بالعموم اپنے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں۔ مغرب کی صنعتی ترقی کی چکا چوند چاندنی  ہماری نظر اپنے اسلاف کے کارناموں تک بھی نہیں جانے دیتی، یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ  ہمارے ہاں تیار ہونے والی اشیا جب بین الاقوامی لیبل کے ساتھ واپس ہمارے ہاں فروخت ہوتی ہیں تو ہمارے اعتماد پر پوری اترتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے اپنے نظریات جب مغربی لبادہ اوڑھ کر ہمارے پاس آتے ہیں تو وہ ہمارے لیے معتبر اور قابل عمل بن جاتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  :
  1. مغرب کی کامیابی کے پیچھے وہ نظریات اور اصول ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے چودہ سو سال قبل لائے تھے۔
  2. کیا اس دنیا میں کامیاب زندگی کے لیے اس نظریہ حیات پر صرف ایمان لانا ہی کافی ہے یا ایمان کے بعد عمل بھی بنیادی شرط ہے۔
  3. اسلام کے فلسفہ حیات پر ایمان لائے بغیر اس کے اصولوں پر عمل اس دنیا میں  تو کامیابی کی ضمانت ہے، اس کی مثال ہمیں مغرب سے مل سکتی ہے ، جبکہ ان لازوال اصولوں پر محض ایمان جو کہ عمل سے خالی ہو ، ایمان لانے والے کو اس دنیا میں کامیابی کی ضمانت نہیں دیتا۔ اس کی گواہی ہماری بے سکون معاشرتی زندگی دیتی ہے۔

اس کاوش کا مقصد یہ ہے کہ ہم زندگی کی حقیقت کو جانیں اور ایک بامقصد زندگی گزارنے اور اس مقصد کے حصول کے لیے درکار محنت کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھیں۔ مطالعہ کا آغاز کتاب کے تعارف سے کریں اور اس میں اٹھائے جانے والے نقاط کو لیکر کتاب کا مطالعہ کریں اور ان کا جواب تلاش کریں۔
( کتاب کے متعلق نقطہ نظر سے اقتباس)

(right click + Save As)

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 7 جنوری، 2012

اتنا تضاد اور دورخی کیوں ۔ ۔ ۔ ؟

 ہم برابر ناجائز کاموں میں مبتلا ہیں ، ہمیں اس کا اعتراف بھی ہے ، لیکن اپنے  مقابل ساتھی کا مکروہ عمل ہماری آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے سامنے والے کی ایک چھوٹی غلطی بھی  پہاڑ کے مانند نظر آنے لگتی ہے اور میں اس کا چرچا کرنے لگتا ہوں  ،  خود چاہے سو دفعہ وہی کام کرجا ؤں مجھے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ 
مجھے زرداری سے تو شکوہ ہے کہ  وہ کرپٹ ہے لیکن میں اپنی کمائی کو  کتنا حلال کرکے کھاتا ہوں ، اسکا کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا۔۔۔۔۔۔  
میں اس بات پر گلی میں کھڑے ہوکر بحثین کرتا ہوں کہ پولیس، کچہری والے رشوت کے بغیر کام ہی نہیں کرتے ، لیکن کوئی مجھے اپنے کام کےلیے ایک پیٹی فروٹ کی بجھوا دے تو تحفہ سمجھ کر قبول کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ 
کہیں لائن  میں لگ کر بل جمع کرواتے ہوئے کسی اور بندے کا اندر کے آدمی  کی  سفارش سے  پہلے جا کر جمع کروا دینا تو  مجھے ناگوار گزرتا ہے ، لیکن اگر مجھے اس طرح موقع مل جائے تو دوڑ کر جا کر جمع کرواآتا ہوں اور بعد میں سب کے سامنے تذکرہ بھی کرتاہوں کہ میرا محکمہ میں دوست تھا جس کی وجہ سے جلد کام ہوگیا۔ ۔ ۔ ۔۔
 اشارے پر ٹریفک  پولیس والا کھڑا نہ ہوتو میں اشاروں کی پرواہ ہی نہیں کرتا ، کوئی میرے سامنے اشارہ توڑ جائے تو میں منہ میں بڑبڑانا شروع ہوجاتا ہوں ۔۔۔
مجھے اس بات پر تو شکوہ ہے کہ میرا فلاں رشتہ دار  اپنے والدین  کی عزت و خدمت نہیں کرتا، لیکن میں خود غصہ میں  اپنے ماں باپ کو کتنے سخت الفاظ بول جاتا ہوں اسکا کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا۔ ۔ ۔
 میرے گھر اور آفس میں پنکھا بھی نہیں صحیح چلتا اور آفس اور مسجد میں اے سی کے نہ چلنے پر چلانا شروع ہوجاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
میرے بچہ رو رہا ہو تو میرے دل میں درد ہوتا ہے ، دوسرے کا بچہ رو رہا ہو تو سر میں ۔ ۔ ۔ 
میں دن بھر غیر لڑکیوں کے ساتھ ہلڑ بازی کرتا اور گپیں لگاتا اور دوستوں کےساتھ مل کر بے حیا فلمیں دیکھتا ہوں لیکن اپنی بہنوں، بیٹیوں  سے مجھے یہ توقع رہتی ہے کہ وہ کسی غیر لڑکے سے بات نہیں کریں گی اور بے حیائی کے کاموں سے بچیں رہیں گی ۔ ۔ ۔ 
میں اپنی ساس اور سسر کی طبیعت وصحت  کا مہینوں نہیں  پوچھتا لیکن مجھے اپنی بیوی سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ میری ماں کی ٹانگیں کیوں نہیں دباتی ۔ ۔ ۔ 
مجھے اس بات پر تو شکوہ ہے کہ میری  مسجد کا مولوی اپنے پیٹ کے لیے حق بات کہتے ہوئے ڈرتا ہے لیکن کبھی مجھے اسکی توفیق نہیں ہوئی کہ  اسکی تھوڑی مالی مدد ہی کرلو کہ وہ آزادی سے بات کرسکے۔۔۔ ۔ ۔
 میں  خود فرائض وواجبات میں کوتاہی کرتا ہوں،، کئی کئی وقت کی نمازیں قضا کرجاتا ہوں،، زکوۃ کبھی دی ہی نہیں،  ، لیکن اپنے حریف کو  نمازہ جنازہ میں شرکت نہ کرنے اور صدقہ نہ دینے پر بھی طعنہ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے شکوہ رہتا ہے کہ میرے آفس میں سیاست بہت ہے  ایک دوسرے کی جڑیں کاٹی جاتیں ہیں  لیکن میرے علاوہ میرے کسی کولیگ کی پروموشن ہوجائے تو میرے دل میں جلن ہونے لگتی ہے اور میں اسکے پیٹ پیچھےاسکی غیبتیں شروع کردیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
  میں روزانہ بد زبانی کروں اس کی شدت کا مجھے کبھی احساس نہیں ہوتا، لیکن دوسرے  کی زبان سے خلاف مروت وخلاف ادب نکلنے والا  ایک جملہ بھی میرے لیے بھاری  ہوتاہے  ۔ ۔ ۔ ۔ 
  میں کسی کا دل دکھاؤں، کسی کو طعنہ دوں، کسی کو سب کے سامنے رسوا کروں، کسی  کو عار دلاؤں، جائز ہے ،  میرا والد یا میرا کوئی ساتھی اصلاح کی نیت سے ہی مجھے میری  غلطی پر ٹوک دے ، مجھے سمجھانے کی کوشش کرے تو میں چراغ پا ہو جاتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔۔
 میں فضول خرچی کروں تو یہ سخاوت ، میرا مقابل یہی کرے تو اسراف  ۔ ۔ ۔ ۔۔
 میں کسی کو سب کے سامنے ڈانٹوں تو یہ حق گوئی اور سامنے والا کرے تو یہ طعنہ زنی وتوہین۔۔ ۔ ۔

آخر اتنی  دورخی اور منافقت کیوں ہے  ۔۔۔ ؟

 ایک طرف  ہم لوگ اپنے دین کو ساری دنیا کے ادیان سے ہر لحاظ سے بہترین اور قابل عمل سمجھتے ہیں ،فخر سے نعرے لگاتے ہیں کہ اسلام از دی بیسٹ اور  یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ اسلام قبول کرلیں دوسری طرف اس حقیقت سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں  کہ کوئی دین اور اسکی دعوتی تحریک محض اپنے عقائد وافکار او ر مخصوص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر دلوں کو نہیں جیت سکتی ، غیروں کے  دلوں  پر اثر اس دین کے ماننے والے  فرد  کا کردار، اخلاق، معاشرتی زندگی  کرے گی۔
ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے اکابر ین  اور آبا  کے پاس اگرچہ اس قدر میڈیائی اسباب ووسائل نہ تھے لیکن پھر بھی لوگ انکے آگے بچھتے چلے گئے اور  اسلام پوری دنیا پر پھیلتا چلا گیا او راسلامی تعلیمات نے دلوں کو جیت لیا اسکی وجہ یہ تھی  کہ اس وقت  اسلامی دعوتی عمل کی بنیاد  مسلمان کی زندگی پر تھی جس میں اسلام اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتا تھا، اور انکی  انفرادی اور اجتماعی اصلاح پہلو بہ پہلو چل رہی ہوتی تھی ۔ مبلغ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک فرد سے محنت شروع کرکے  اپنے  نمائندوں کو اپنے عمل سے یہ  سمجھایا تھا  کہ  معاشرہ کی اصلاح فرد کی اصلاح کے بغیر مفید اور دیرپا نہیں ہوتی ، اس لیے انکے ہاں  اصلاح فرد سے شروع ہوتی اور پھر  انکا تربیت یافتہ ایک تنہا فرد  شہروں ،بستیوں میں انقلاب برپا کردیتا ۔ ۔ ۔ ماضی کا دنیاد ارمسلمان تاجر اور بکریاں چرانے والا بھی ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ۔
ہمارے ہاں  آج فرد کی اصلاح بے توجہی کا شکار ہے، لوگ کہتے ہیں میرے یا  ایک بندے کے ٹھیک ہونے سے کیا ہوجائے گا  اس لیے وسائل کی کثرت کے باوجود ہمارے معاشرے میں فساد ہے اور دعوتی عمل میں تاثیر نہیں، ہم لوگ غیر مسلموں کو دین کےقریب لانے کے  بجائے انکی  اس دین حق سے دوری کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ حقیقت میں ہم  نے کبھی اپنی اصلاح کی کوشش ہی  نہیں کی،  ہر آدمی   اچھے عمل کی ابتدا دوسرے سے کروانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔اگر آج ہم سے ہر بندہ  اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرلے اور یہ  عہد کرلے  کہ میرے سے  آئندہ انشااللہ  غلط اور  خلاف اصول و قانون کام نہیں ہو گا تو ایک ٹائم آئے گا کہ  ہمارا معاشرہ ایک  آئیڈیل معاشرہ بن جائےگا۔  ۔ ۔  فی الحال  ہم ہر دن میں  دسیوں گناہوں سے تو بچ جائیں گے یا  کم از کم معاشرے سے ایک غلط آدمی کی تو کمی ہوجائے گی۔
اللہ  ہمیں توفیق  عطا فرمادے۔
مکمل تحریر >>