اتوار، 29 دسمبر، 2013

پاسباں مل گئے ہیکل کو خدا خانے سے (دوسرا اور آخری حصہ)

غامدی مکتبہ فکر کے نظریہ جہاد کے ترجمان عمار خان ناصر صاحب   نے افغان کے مظلوم مسلمانوں کے جہادِ عظیم کے مقابلے میں  جس جہاد کو اورامیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ  کے مقابلے میں جس مجاہد کو نمونے کے طور پر پیش کیا ' گزشتہ تحریر میں  اس کے حالات انہی کی  تجویز کردہ  اور  ترجمہ و نظرثانی شدہ کتاب سے پیش  کیے گئے تھے ، آج اس تحریر کا  دوسرا اور آخری حصہ ملاحظہ فرمائیں۔

امیر عبد القادر کا دوسرا کارنامہ: کافروں کے دفاع میں جہاد:

امیر نے کافروں کے خلاف جہاد نہ کرنے کا عہد کر لینے کے بعد ''کافروں کے دفاع میں جہاد'' شروع کر دیا تھا اور یہی وہ چیز ہے جو آج کل عالمی غاصب مغربی طاقتیں چاہتی ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی زیر نظر کتاب کی رو سے یہ ہے کہ جب موصوف دمشق میں فری میسنری لاج کی گرینڈ ماسٹری کرتے ہوئے ایک لاکھ فرانک کی پنشن یافتہ زندگی گذار رہے تھے، عیسائیوں نے یورپی طاقتوں کی شہہ پر ترک حکام کو ٹیکس نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ جو مسلمان فوجی خدمات نہ ادا کرے اس پر 100 لیرا ٹیکس تھا اور عیسائیوں پر صرف 50 لیرا ٹیکس لگایا گیا تھا، مگر انہوں نے یورپی سرپرستوں کی شہہ پر وہ بھی دینے سے انکار کر دیا: 
غیر ضروری تکبر اور درست خیال کے غلط وقت پر اظہار کے نتیجے میں عیسائیوں کے خلاف غصے کا لاوا پکنے لگا۔ شام کے ان باغی عیسائیوں کے پیچھے (غزوہ تبوک کے پس منظر کے طرح آج بھی) یورپی طاقتیں تھیں اور ترک حکمران عیسائیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینا چاہتے تھے۔ ان دنوں میں ممدوح موصوف نے بالکل ویسے ہی عیسائیوں کے تحفظ کے لیے بے مثال خدمات پیش کیں جیسے برصغیر میں 1857 ء کے جہاد آزادی کے دوران انگریزوں کے تحفظ کے لیے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے پیش کی تھیں۔ اور مسلمانوں کو ان الفاظ میں مغلظات بکیں جو الفاظ سر سید احمد خان نے مجاہدین آزادی کے لیے استعمال کیے تھے۔ نتیجے میں اپنے سرپرستوں سے ویسے ہی مراعات حاصل کیں جیسے مذکورہ بالا دو ''محسنین ملت'' نے حاصل کی تھیں۔ حوالے بالترتیب ملاحظہ ہوں:
''دس جولائی کی ساری سہ پہر عبد القادر نے عیسائی بستیوں میں مچی بھگدڑ میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ یہ چلاتے ہوئے گزاری کہ ''عیسائیو! میرے ساتھ آؤ۔ میں عبد القادر ہوں، محی الدین کا بیٹا، الجزائری! میرا اعتبار کرو۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ '' کئی گھنٹے تک امیر کے الجزائری باشندے متذبذب عیسائیوں کو لے جا کر حارۃ النقیب میں اس کے قلعہ نما گھر چھوڑ کر آتے رہے۔ یہ دو منزلہ عمارت اور اس کے کشادہ صحن پریشان حال عیسائیوں کی پناہ گاہ بن گئے تھے۔ (ص: 419)
امیر موصوف نے کافروں کے خلاف جہاد تو چھوڑ دیا تھا، بلکہ انہیں کافر کہنے سے بھی باز آ گئے تھے، البتہ مسلمانوں کو ''گناہ کی اولاد'' کہنے اور گناہ کی اس اولاد کے خلاف جہاد جیسے نیک مقصد کے لیے وہ ہمہ وقت کمر بستہ ہو گئے تھے۔ [سرسید نے بھی مجاہدین آزادی کو حرام زادے کہنے سے دریغ نہ کیا تھا۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔] مثالی جہاد کے پیکر امیر موصوف نے عیسائیوں کو سبق سکھانے والے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر ایمان افروز خطاب کیا:
''جب تک میرا ایک سپاہی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ وہ سب میرے مہمان ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے قاتلو! گناہ کی اولاد! ان میں سے کسی کو ذرا چھونے کی کوشش تو کر کے دیکھو، پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ میرے سپاہی کتنا اچھا لڑتے ہیں۔ '' امیر نے غضبناک لہجے میں کہا اور مڑ کر قارہ محمد سے مخاطب ہوا: ''میرے ہتھیار اور میرا گھوڑا لے کر آؤ۔ ہم سب ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کریں گے، بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے پہلے ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کی تھی۔ ''(ص: 422)
عیسائیوں کی ہمدردی میں موصوف ڈپٹی نذیر احمد اور سرسید احمد خان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے تھے:
''اس نے اعلان کرایا کہ جو کوئی بھی عیسائیوں کو اس کی رہائش گاہ پر پہنچائے گا، اسے ہر عیسائی کے بدلے پچاس پیاستر انعام دیا جائے گا۔ پانچ دن تک امیر کو سونے کا موقع بھی بہت کم ملا۔ جب تھوڑا سا وقت ملتا تو ہو گھاس پھونس سے بنی اسی چٹائی پر لیٹ کر آنکھ لگا لیتا جہاں بیٹھ کر وہ سارا دن پاس رکھی بوری میں سے رقم نکال کر تقسیم کرتا رہتا تھا۔ جونہی ایک سو عیسائی اکٹھے ہو جاتے، الجزائری سپاہی [امیر کی ذاتی فوج] انہیں لے جا کر قلعے میں چھوڑ آتے۔ '' (ص: 423)
باغی کافروں کے تحفظ کے لیے پیش کی گئی ان خدمات کے بدلے نہ صرف ان کا وظیفہ ایک لاکھ فرانک سے ڈیڑھ لاکھ فرانک کر دیا گیا، اسے اور اس کے ساتھیوں کو فرانسیسی شہریت دی گئی (ص: 442)
پوری عیسائی دنیا نے انہیں اپنا ہیرو قرار دے کر اعزازات کا انبار لگا دیا:
''پریس میں امیر کے بارے میں رپورٹیں شائع ہونے کے بعد تو جیسے اعزازات کا انبار لگ گیا۔ فرانس کی حکومت نے اسے لچن آف آنر عطا کیا جب کہ روس، اسپین، سارڈینیا، پروشیا، صدرلنکن نے جو خود ایک قومی سانحے کے دہانے پر کھڑے تھے، ایک روز پہلے عبد القادر کو امریکی انداز میں تحسین کی علامت کے طور پر کولٹ برانڈ کے دو پستول بھیجے جنہیں انتہائی نفاست سے خصوصی طور پر امیر کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ انہیں لکڑی کے ایک خوبصورت ڈبے میں بند کیا گیا تھا اور اس پر یہ عبارت کنندہ کی گئی تھی: ''ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کی طرف سے عزت مآب جناب لارڈ عبد القادر کے لیے 1860ئ۔ '' (ص: 427)
قارئین کرام! موصوف کو صرف یہ اعزازات ہی نہیں دیے گئے،[یہ اعزازات کتاب کے آخر میں  اور ہماری گزشتہ تحریر میں پوسٹ کی گئی تصویر میں  موصوف کے سینے پر سجے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں]بلکہ خلافت عثمانیہ کے خلاف اس کی قوم پرستانہ خدمات کو استعمال کرنے کے لیے بھرپور طرح سے استعمال کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ کتاب میں درج ہے:
''وہ ایک ایسی علامت بن گیا تھا جسے بہت سے لوگ اپنے مختلف ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب ایجنڈے یا تو ترک مخالف تھے یا عرب قوم پرستی کے حامی۔ '' (ص: 404)
اس کے فرانسیسی سرپرستوں نے اس کو شام کے گورنر کے طور پر بھی تجویز کر دیا تھا وہ تو خیر گذری کہ یہ شخص عیسائیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مخالفین میں تو مقبول تھا لیکن مسلمانوں میں اس شخص کے بارے میں بھی شدید نفرت پائی جاتی تھی لہٰذا اس کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ تقدیر کا لکھا کون کوئی ٹال سکتا ہے؟ یہ بیل منڈھے نہ چڑھی اور 25 مئی 1883ء کو گردے فیل ہوجانے سے انتقال کرگیا۔ ''نیویارک ٹائمز'' جیسے اخبار نے جو دنیا کے علمائے کرام و مجاہدین کے بارے میں اپنی تاریخ میں کبھی ایک لفظ نہیں لکھا، اس کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
''ایک پکا محب وطن، ایک سچا سپاہی جس کی فطانت اور حاضر دماغی شک و شبہے سے بالاتر ہو، جس کا وقار بے داغ ہو، ایک ایسا ریاست کار جو افریقہ کے جنگلی قبائل کو متحد کرکے بے مثال مدمقابل بناسکے، ایک ایسا ہیرو جو حرف شکایت زبان پر لائے بغیر شکست اور تباہی کو تسلیم کرلے، اگر یہی وہ خوبیاں ہیں جو ایک آدمی کو عظیم بناتی ہیں تو پھر عبد القادر اس صدی کے چند گنے چنے عظیم آدمیوں کی سب سے اگلی صف میں کھڑا ہونے کا حق دار ہے۔ '' (نیو یارک ٹائمز، فروری 1883ئ)
گویا کہ حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر شکست اور تباہی کو تسلیم کر لینا اتنی عظیم خوبیاں ہیں کہ عظیم آدمیوں کی اگلی صف میں لاکھڑا کرتی ہیں۔ نجانے مجاہدین افغان اور ان کے انصار کیوں ہیرو بننے کا یہ نسخہ استعمال نہیں کرتے اور گھر آئی عظمت کی لونڈی کو ٹھکرا کر عزیمت کی راہ پر گامزن ہیں؟؟؟
کتاب کے پیش لفظ میں موصوف کا موازنہ مولانا عبید اللہ سندھی سے کیا گیاہے، کہاں مولانا سندھی جیسا مخلص، متقی اور فنا فی النظریات شخص اور کہاں ایک پنشن یافتہ، جنس مخالف کا دلدادہ اور باغی کافروں کے دفاع میں سرگرم ایجنٹ؟    مولانا سندهی اپنے اساتذه كی طرح انگریز كے اس قدر مخالف  تهے كہ فرمایا كرتے تهے  "جو لوگ موجودہ سامراج کے خلاف ہمارے ساتھ مل کر لڑرہے ہیں، خواہ وہ ہمارے ہم مذہب نہ بھی ہوں ' ہم انہیں اپنا ساتھی سمجھیں گے۔ اور ان کے بارے میں کفر کی اصطلاح نہیں برتیں گے۔ جو سامراج کے حامی ہوں گے۔ خواہ وہ ہمارے ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو، ہم انہیں مسلمان کہنے کو تیار نہ ہوں گے"۔(افادات و ملفوظات مولانا عبیداللہ سندھی، صفحہ 186)

مغرب کا حقیقی اور سچا جہاد :۔

کتاب کے سرورق کی پشت پر ایک ویب سائٹ کا نام دیا گیا ہے   www.truejihad.com اس ویب سائٹ کا نام ہی مغرب کے مقاصد، اہداف، ارادوں اور عزائم کی ترجمانی کرتا ہے۔ جہاد تو جہاد ہوتا ہے۔ True jihad کیا ہوتا ہے؟ عصرِ حاضر میں جب بھی کوئی یہ کہے کہ ''حقیقی اسلام''، حقیقی جہاد، حقیقی فقہ، حقیقی اجتہاد'' تو اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ غیر حقیقی اسلام، غیر حقیقی جہاد، ایسا اسلام اور ایسا جہاد جو صرف اور صرف مغرب کے استعماری غلبے ،عالمی تسلط اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کو ممکن بناسکے۔سائیٹ پر دو مضمون دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ان کے مطالعہ کے بغیر اس کتاب کی حقیقت آشکار نہیں ہوسکتی۔
(Some words about true and false jihad(1 جو A4سائر کے بارہ صفحات پر مشتمل ہے۔  (2)  The Abd el-kader Education project 2011in Reviewجو A4سائز کے 7 صفحات پر مشتمل ہے۔
اسی کام کے لیے   ایک سپیشل ویب سائٹ www.abdelkaderproject.org بھی بنائی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ کا مقصد دنیا کے تمام تعلیمی اداروں کو امیر عبد القادر کے بارے میں معلومات اور نصابی مواد مہیا کرنا ہے،تاکہ اسکول میں امیرعبد القادر نصاب کا حصہ بن جائے۔ شاید اسی نصاب کا چربہ وہ تجاویز  ہیں جنہیں خان صاحب دینی مدارس میں سول سوسائٹی کے ذریعے داخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اس سلسلے میں مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ کیجیے:
Provides learning tools & curriculam materials to help educators in corporate abdel-kader's stay & his example in the days's clam zoom.
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان کسی مجاہد یا عظیم ہستی کو اپنے اسکول یا مدرسے کے ہر طالب علم کو واقف کرانا پسند کریں توچند مجاہدین اسلام ایسے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مصنف مزاج شخص کسی قیمت پر فراموش نہیں کرسکتا۔ مثلاً: حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ ایسے مجاہدین تھے جن کے صرف اسلام پر ہی نہیں، پوری تاریخ انسانیت پر بے شمار احسانات ہیں۔ مغرب نے ان دو سپہ سالاروں کو منتخب کرنے اور ان کی تعلیمات اور طرز زندگی کو طلبہ تک پہنچانے کے بجائے امیر عبدالقادر کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ بہت سادہ سا مسئلہ ہے۔ (لوا کی تصویر)
امیر عبد القادر الجزائری کی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میںLowa سینٹرامریکا کے شہر Lowacity میں قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ امریکا کے lowaشہر کا  ایک چھوٹا قصبہ ہے جو Elkaderکے نام سے موسوم ہے۔ امیر عبدالقادر کی یاد منانے کے لیے ''القادر او پیرا ہاؤس'' میں مقررین خطاب فرماتے ہیں اور اس کے بعد روایتی مغربی تفریحات کا اہتمام ہوتا ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ مجاہد عالم اسلام کا ہے اور اس کی تقدیس، تکریم، تحسین اور تشہیر امریکا والے کررہے ہیں۔ این چہ بوالعجبی است؟ ۔ آخر امریکی جو مسلمانوں پر آگ اور خون کی بارش برسانے میں سب سے آگے ہیں، ایک مسلمان کو اتنی عزت دینے پر کیوں مجبور ہوگئے؟ اس فراخ دلی کا راز صاحب عقل پر آشکارا ہے۔  من چاہی غلط بات کی درست تاویل ڈھونڈنے والوں نے کہا ہے کہ مغرب اس کی تکریم اس لیے کرتا ہے کہ اس نے بے گناہ مسیحیوں کی جان بچائی تھی، حالانکہ  خود انکی اپنی  تجویز کردہ کتاب ہی  یہ بتارہی ہے کہ یہ  مسیحی بے گناہ نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں کی بنسبت آدھے ٹیکس کا بھی انکار کرکے بغاوت پر آمادہ تھے،اسی کتاب سے ثابت ہے کہ ان کی پشت پر عیسائی یورپی طاقتیں تھیں ۔

اصل وجہ یہ ہے کہ  امیر عبدالقادر الجزائری جس قسم کے مجاہد تھے، امریکا اور اس کے مغربی حمایتی اسی قسم کے غامدی مجاہدین اور کرزئی غازیوں کو آگے لانا چاہتے ہیں، جنہیں جب چاہیں ماڈرن اسلام اور ماڈرن جہاد کے مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ امیر المومنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ اور شہید المؤمنین شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ جیسی صاحبِ عزیمت واستقامت شخصیات، مجاہدین کے آئیڈیل بن سکیں۔ مغرب کی اس ذہنیت کے تناظر میں ان حضرات کے ذہنی ونظریاتی رشتوں کو بھی سمجھاجاسکتا ہے جو اس قسم کی کتابیں شائع کراکر ہمارے یہاں ''سچے جہاد'' کی اشاعت چاہتے ہیں۔ اسی کا  صلہ ہے کہ عمار صاحب کے بھی  فیملی سمیت امریکہ کے دورے پکے ہوگئے ، جناب چند دن پہلےانکے ہاں  ایک لیکچر دے کر آئے ہیں  اس تقریب کا اشتہار اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں۔ 

امیر عبد القادر کا تیسرا کارنامہ :نام نہاد اور من گھڑت ''الشریعۃ'' کی تدوین:

مجاہد موصوف خدا، پیغمبر اور دین و مذہب کی وہ تشریح کرتے تھے جو آج کل مغرب کو نہایت پسند ہے۔ اہل مغرب اپنے دین میں تحریف کرکے نک کٹے یا کبڑے ہو چکے ہیں۔ صرف اہل اسلام ہیں جو اپنے عقائد پر جمے ہوئے ہیں۔ مغرب کی خواہش ہے اتحاد مذاہب یا وحدت ادیان کے نام پر ایسی شعبدہ بازی کی جائے کہ جیسے ان کا اپنا ناک کٹا ہوا ہے، خدانخواستہ ان کا بھی کٹ جائے جو اپنے دین پر قائم ہیں۔ زیر نظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر کی ذہن سازی فرانس کے پادریوں اور ملحدوں نے مل کر کی تھی، وہی اس کی رہائی کے بھی حامی تھے۔ (دیکھیے: ص: ٣٤٠)ان پادریوں کی محنت، ملحدوں کی ''مہربانی'' اور فرانس میں ملنے والی ''اچھائی'' کا نتیجہ تھا کہ وہ تلوار کو بربادی کا ذریعہ سمجھنے لگ گیا تھا اور کافروں کو کافر کہنے سے بھی باز آ گیا تھا۔ (دیکھیے ص: 315)اسی ''مستند سوانح حیات'' سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ ماہ تک چرچل کی روزانہ کی صحبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ امیر نے  وہ نظریات اپنا لیے جو آج کل کی اتحاد ادیان تحریک کا ہدف ہیں، بلکہ اسی ایمان افروز سوانح حیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن سے ان کو یہ تربیت دی گئی تھی کہ عیسائی اور یہودی بھی مسلمان ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے باکمال لوگوں کے لاجواب نظریات:
''محی الدین (عبدالقاد ر کا والد)نے اپنے بیٹے سے کہا: ''اب تم ایسی جگہیں دیکھ سکو گے جہاں بہت سے عیسائی اور یہودی رہتے ہیں۔یہ مت بھولنا کہ ان تک خدا کی ہدایت ہم سے پہلے پہنچی تھی۔ ابراہیم مسلمان تھے۔''لیکن وہ کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں؟ اس وقت تو ابھی اسلام نازل بھی نہیں ہوا تھا"۔''اس لیے کہ انہوں نے خود کو خدا کی اطاعت میں دے دیا تھا۔ مسلمان وہ ہوتا ہے جو خود کو خدا کی رضا کے سپرد کر دیتا ہے"۔''تو پھر کیا یہودی اور عیسائی بھی مسلمان ہیں؟''۔''ہاں، یقینا بشرطیکہ وہ پورے خلوص کے ساتھ خدا کی منشا کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں" ۔ (ص:٤٩)
پورے خلوص کے ساتھ خدا کی منشا کے مطابق عمل کرنے والے یہودی اور عیسائی مسلمان ہیں۔ البتہ اسلام خود کیا ہے اس کی تعبیر بھی بڑی دلچسپ ہے؟اس کتاب کے ذریعے ہمیں کون سے اسلام اور کس طرح کی شریعت اپنانے کی ترغیب دی جارہی ہےاس کا کچھ اندازہ ذیل کی عبارت سے ہوجاتا ہے۔ یہ تقریبا وہی ''الشریعۃ الغامدیۃ'' ہے جس کا پرچار ہمارے ہاں یہ طبقہ بڑے زور و شور سے کر رہا ہے ۔مذہب اسلام کے متعلق موصوف کے وقیع تحریفی خیالات  ایسے ہیں کہ جن کو ماننے کے بعد مشکل ہے کہ اسے ''سچا مجاہد'' نہ کہا جائے۔:
''امیر کے پاس تو صرف ایک ہی سمت نما تھا اور وہ تھا اسلام۔ تنگ نظری پر مبنی فرقہ وارانہ اسلام نہیں، بلکہ اس سے کہیں وسیع تر اسلام، فطرت کا اسلام، ہر اس کا جاندار کا اسلام جو خدا کے قانون کے آگے سر جھکادے۔ امیر کا اسلام ایک ایسے خدا پر یقین رکھتا تھا جو ''عظیم تر'' تھا جو اس کے حقیر بندوں اور اسلام سمیت اس کے کسی بھی مذہب کے تصور سے بھی عظیم تھا۔ ہر شخص اسے اپنے مخصوص انداز میں جانتا اور اس کی عبادت کرتا ہے اور وہ دوسرے طریقوں سے مکمل طورپر لاعلم رہتا ہے۔ اب عبدالقادر کے ذہن پر صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ خدا کی وحدانیت کو ان طریقوں کے تنوع کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے جن سے اس کے پیدا کیے ہوئے بندے اس کی عبادت کرتے ہیں۔'' (ص: 376)
اس پیرا گراف میں تنگ نظری اور وسعت، اسلام سمیت کسی بھی مذہب، تنوع کے ساتھ ہم آہنگ کرنا یہ سب وہ مخصوص اصطلاحات ہیں جو اس سرکس کے رنگ ماسٹر استعمال کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سر پر سوار اس دھن کو کہ غلط لوگوں کو صحیح کیا جائے، کس طرح سے امیر موصوف نے پورا کیا؟ سب سے پہلے تو اللہ تعالی کے بارے میں موصوف کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں:
''ہمارا خدا اور ان تمام برادریوں کا خدا جو ہم سے مختلف ہیں، در حقیقت ایک ہی ہے۔ مسلمانوں پر اس نے خود کو اس انداز میں منکشف کیا جو تمام شکلوں اور صورتوں سے بالاتر ہے۔ عیسائیوں کے لیے وہ یسوع مسیح کی شکل میں ہے۔ اس نے بتوں کی پوجا کرنے والوں پر بھی خود کو ظاہر کیا ہے اور وہ بھی در اصل اسی کی پرستش کرتے ہیں، کیونکہ کوئی بھی انسان ان فانی چیزوں کی پوجا نہیں کر سکتا۔ '' (ص: 388)
ما شاء اللہ! یعنی دنیا میں آج تک کوئی مشرک، مشرک ہی نہ تھا۔ نہ کسی انسان نے فانی چیزوں کی پوجا کی اور نہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی پرستش ہوئی۔ اللہ تعالی کے بعد رسالت کے بارے میں امیر کا نظریہ کیا تھا؟
''حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے عملی طور پر کہا تھا کہ میں عہد نامہ قدیم یا موسی کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں، بلکہ اسے مزید کامل بنانے آیاہوں۔ '' (ص: 386)
سبحان اللہ! مطلب صاف ہے کہ پچھلی شریعتیں منسوخ نہیں، کامل و مکمل ہیں، لہذا ان کے ماننے والے مسلمانوں پر چار وانگ عالم میں جتنا بھی ظلم کریں ان کا احترام فرض ہے۔ حتی کہ اگر وہ مسجد کو چرچ بنانا چاہیں تو یہ بھی منع نہیں، اس لیے کہ وہاں بھی تو آخر تمام ''برادریوں'' کے خدا کی عبادت ہوتی ہے۔ (دیکھیے: ص 388) 
یہ ہے وہ پھپھونڈی لگا ہوا ماڈرن اسلام جس کا علمبردار غامدی مکتب فکر ہے اور دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر اس اسلام کو ساکنان پاکستان کو سکھانا چاہتا ہے۔ عقیدہ تو آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ اب اسلامی احکام کی طرف آئیے۔ مجاہد موصوف کی غامدی طرز فکر پر مبنی قرآنی تشریح کا اطلاق فقط عقائد پر نہ تھا۔ پردہ جیسے اہم احکام کے معاملے میں بھی موصوف وہی نظریہ رکھتے تھے جو غامدیت زدہ متجددین کا ہے:
''بڑھتی ہوئی دوستی کے اظہار کے طور پر دومانے ایک روز امیر کو دعوت دی کہ وہ اس کے اور اس کی بیوی کے ساتھ رات کا کھانا کھائے۔ دوما کی بیوی مارشل بوجو کی بھتیجی تھی۔ عبد القادر کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے دومانے دریافت کیا کہ اگر اس کی بیوی یورپی طرز کے لباس میں، چہرے کو نقاب میں چھپائے بغیر ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہو تو امیر کو برا تو نہیں لگے گا۔ اس پر امیر نے وضاحت کی کہ چہرہ ڈھانپنا عربوں کا رواج ہے،ان کا مذہبی قانون نہیں۔ '' (ص: 303)
یہی قرآن کریم کی صحیح تشریح اور سچی تعبیر تھی جس کے لیے امیر موصوف کو ''عرب شہنشاہ'' بنا کر پیش گیا گیا،حوالہ  ملاحظہ فرمائیں :
''1860ء کے موسم خزاں میں پیرس میں سولہ صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ گردش کررہا تھا جس کا عنوان تھا: ''عبدالقادر، عرب شہنشاہ''۔ اس کتابچے میں لکھا تھا عظیم تر شام کے تخت پر بٹھانے کے لیے عربوں کو حقیقی صلاحیتوں کا مالک ایک رہنما چاہیے اور اس کے لیے عبدالقادر کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ اس تحریر کے مطابق عبدالقادر مغرب اور مسلمانوں کو یہ سکھائے گا کہ ''قرآن کے الفاظ کی صحیح تشریح کیا ہے اور ایک سچے مؤمن کو ان کی تعبیر کس طرح کرنی چاہیے۔'' (ص:435)
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی '' صحیح تشریحات '' اور'' سچی تعبیرات''سے محفوظ رکھے جو پیرس سے دمشق تک پھیلائے جانے کے بعد لاہور سے کراچی تک پھیلائی جارہی ہیں۔فتنہ تجدد و تشکیک سے ہمارا بچاؤ اس وقت ممکن ہے جب ہم الجزائری غامدیوں اور پاکستانی غامدیوں میں قدرمشترک اور ان کے سرپرستوں کا ہدف مطلوب پہچان سکیں۔

دو سوال، ایک جواب

آخر میں ہم دو سوال کریں گے۔ پہلے کا جواب ہمیں درکار نہیں۔ یہ سوال قارئین کرام اور جملہ محبان وطن کو ایک نکتہ سمجھانے کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ غامدیت اور بالخصوص اس کے نظریہ جہاد کے ترجمان عمار خان ناصر صاحب نے اپنے رسالے میں امیر عبد القادر کی اس سوانح حیات کو مستند قرار دینے کے بعد فرمایا:
''میں نے ان کی کتاب کا تفصیلی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ امیر عبد القادر کی حیات کے بارے میں عربی اور انگریزی میں میسر دیگر مواد کا بھی مطالعہ کیا جو میرے لیے ایک ایمان افروز تجربہ تھا۔ ''(الشریعہ، مارچ 2012ئ)
اس ایمان افروز تجربے کو دوسروں تک پہنچانے کی خواہش کو ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
''میں نے کتاب سے متعلق اپنے مختصر تاثرات مصنف کو بھجوائے تو اس میں یہ تجویز بھی دی کہ اس کتاب کا عربی، اردو اور دیگر مشرقی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے، کیونکہ امیر عبد القادر کو جن حالات کا سامنا تھا اور انہوں نے جن شرعی و اخلاقی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک غاصب استعماری طاقت (کونسی ؟)کے خلاف جد و جہد کی۔ ان کی جدوجہد نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصور جہاد کی بڑی حد تک درست ترجمانی کرتی ہے، بلکہ اس میں عصر حاضر کے ان جہادی عناصر کے لیے بھی راہنمائی کا بڑا سامان موجود ہے۔ '' (الشریعہ،مارچ : 2012)
سوال یہ ہے کہ جس کتاب کو انہوں نے تفصیل سے پڑھا، اس کے اردو متن پر نظر ثانی اور تنقید و تحقیق کر کے آخری شکل دی اور پھر اس کی اشاعت کا انتظام کیا، تاکہ موصوف مجاہد کے فکر و کردار کی عظمت سے ہمارے زمانے اور علاقے کے مجاہدین روشناس ہو سکیں، اس میں ان کو وہ عظیم کارنامے نظر آئے یا نہیں جن میں سے کچھ اوپر ہم نے باحوالہ بیان کیے۔ مثلا:
جس شخص کے نزدیک یہودی اور عیسائی بھی مسلمان ہیں۔ (ص:49) جو مہمانوں کی تواضع ''شیمپین'' سے کرتا تھا اور اپنے ہاتھ سے ان کے پیمانوں کو شراب سے بھرتا تھا۔(ص:329) جو خواتین کو اپنی باتوں سے لبھانے میں کبھی ناکام نہیں ہوتا تھا۔(ص:330) جو ایسی باعفت خاتون کو منظور نظر بناتا تھا جو عاشقوں کی ایک طویل فہرست رکھتی تھی اور لندن سے براستہ پیرس، میونخ، ایتھنز اور پھر شام پہنچنے تک چھ شادیاں بھگتا چکی تھی (ص:449) جو ایسے باکمال مردوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرتا تھا جو مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں تعاون کرتے تھے اور جسم فروشی اور زنخا بنانے کے طریقے اس کے پسندیدہ موضوعات میں شامل تھے (ص:452) جو تلوار کو تباہی و بربادی کا ذریعہ سمجھتا اور کفار کی سرزمین کو کافر کہنے سے بھی اجتناب کرتا تھا (ص:365) جو آنے والوں سے کہتا تھا: ''اگر آپ فرانس پر پورا اعتماد ظاہر کریں تو آپ کو اس کا مکمل اجر ملے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ '' (ص:358) جسے اس وقت ایک لاکھ فرانک (بعد میں ڈیڑھ لاکھ فرانک) دیے جاتے تھے جب فرانسیسی سفیر کی تنخواہ پانچ ہزار فرانک تھی۔ (ص: 375) جو شاہ فرانس کے ہاتھ چوم کر کہتا تھا: ''میں کبھی آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا اور کبھی واپس الجزائر نہیں جاؤں گا۔ '' (ص:371)
 اس شخص کے کردار میں عظمت کے کون سے مینار ہیں جن کو آپ ''اسلام کے تصور جہاد اور جنگی اخلاقیات کا ایک درست اور بڑی حد تک معیاری نمونہ'' قرار دیتے ہیں؟ پڑوس میں برسرپیکار افغان کے مظلوم مسلمانوں کے جہادِ عظیم کی حمایت میں یا امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی جد و جہد کے بارے میں آپ کو چند نقطے لکھنے کی توفیق بهی نہیں ہوئی اور ایک گزشتہ صدی کے مغرب کے پسندیدہ مجاہد کو نمونے کے طور پر پیش کردیا۔ ! صرف اس لیے كه  ملا عمر مجاہد نے تو  آخری دم تک استعماری طاقتوں کے آگے سر نہ جھکایا، نامساعد حالات کا رخ موڑ کر تاریخ رقم کر دی، جبکہ الجزائری امیر کے کارنامے ایسے ہیں کہ  اسکی سوانح حیات کا ترجمہ نگار بھی اپنا نام نسب ظاہر کرنے سے شرماتا ہے، آپ نے ترجمے پر نظر ثانی  کرنے کی بات کو  تسلیم کیا  لیکن آپ نے خود بھی  کتاب پر اپنا نام شائع کروانا اور اپنے ادارے سے اس کتاب کو پبلش کروانا  گوارا  نہیں کیا، پھر بھی اس فروخت شدہ شخص میں آپ کو کیا نظر آیا کہ آپ اس کی داغ داغ سوانح کی شکل میں مجاہدین کو مشعل راہ تھمانے چلے ہیں؟ عصر حاضر میں اپنے پڑوس کے عظیم اور مبارک جہاد کا مورال گرانے کے لیے آپ اسے اعلی و اخلاقی اقدار سے کم تر بتاتے  ہیں اور ایک صدی پہلے کے ہزاروں میل دور کے ضمیر فروش کو مثالی مجاہد قرار دیتے ہیں۔ آپ کا تصور جہاد جسے آپ پاکستانی معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں، کہیں آپ کی ممدوح عظیم شخصیات کی طرح آپ میں بھی انجیکٹ تو نہیں کیا گیا ؟ جس طرح عظیم تر شام کے تخت پر بٹھانے کے لیے عبدالقادر کا نام تجویز کیا گیا اور یہ کہا گیا تھا  کہ امیر  مسلمانوں کو یہ سکھائے گا کہ ''قرآن کے الفاظ کی صحیح تشریح کیا ہے اور ایک سچے مؤمن کو ان کی تعبیر کس طرح کرنی چاہیے" کہیں آپ کا مکتبہ فکر بھی اس کام کے لیے منتخب تو نہیں کرلیا گیا ؟؟!!!

هم نے اپنی ان دو تحاریر میں کتاب سے جو حوالے پیش کیے جو دوست  انکے سکین پیجز کتابی شکل میں دیکھنا چاہیں وہ  اس لنک پر رائٹ کلک کرکے سیو ایز کردیں۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 27 دسمبر، 2013

پاسباں مل گئے ہیکل کو خدا خانے سے

عمار خان ناصر ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ  اور محترم غامدی صاحب کے شاگرد خاص   ہیں۔ موصوف ایک رسالے  'ماہنامہ الشریعہ’ کے مدیر  اور غامدی صاحب  کے ادارے ’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلو ہیں، اسی نسبت سے انکی تحاریر غامدی صاحب کے رسالے مجلہ اشراق میں بھی چھپتی رہتی ہیں،غامدی صاحب کے تجدد پسندانہ افکار و نظریات کے دفاع،   انکی  اشاعت  و ترویج کے لیے انکی خدمات   ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انکے مکتبہ فکر کی آواز چونکہ تجدد دین کی ہے اس لیے بہت سے علماء   ان کے  اجتہادات،نظریات ، غلط فہمیوں اور افراط و تفریط پر وقتا فوقتا اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ ان علماء  میں سے   ایک نام جامعہ مدنیہ، لاھور کے ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کا  بھی ہے۔ چند دن پہلے عمار صاحب نے  فیس بک پرمفتی عبدالواحد صاحب کی انکے نظریات کے رد میں لکھی گئی  ایک کتاب کا  اشتہار پوسٹ  کیا۔  جناب کے اس فیس بک سٹیٹس پر  تبصرہ کرنے والے بہت سے لوگوں نے کتاب میں لکھی گئی باتوں کو پڑھے بغیر   اپنے تبصروں  میں علماء کا مذق اڑایا ، ایک صاحب نے لکھا ذرا سا کوئی تحقیق کی طرف مڑے   یہ علماء یک دم اس پر فتوی ٹھوک دیتے ہیں، ایك اورصاحب نے فرمایا علماء سوال کو گستاخی، غوروفکر کو الحاد اور تحقیق کو گمراہی سمجھتے ہیں،  ۔ ۔ عمومی رائے یہ نظر  آئی کہ علماء علم و تحقیق کے دشمن ہیں انہیں غامدی مکتبہ فکر کیساتھ کوئی ضد ہے یا یہ  اپنی سیٹ بچانے کے لیے انکے خلاف لکھ رہے ہیں ، ورنہ غامدی   مکتبہ فکر  والے تو محقق لوگ ہیں اور   امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کی طرح حق کی آواز بلند کرنے والے ،  بالکل معصوم ، بے قصوراور مخلص انسان   ہیں  ۔ غامدی صاحب کیساتھ علماء کو  اختلاف کس بات  ہے اس پر ہم یہاں لکھ چکے  ، انکے شاگرد ریحان احمد یوسفی المعروف ابویحیی   صاحب کے ایک کارنامے کی تفصیل بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہے ، عمار خان صاحب  کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ اپنے سب ہم مکتب دوستوں کے علاوہ خود اپنے استاد غامدی صاحب  کوبھی  پیچھے چھوڑگئے  ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا ۔ہم مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں   ان کے دو بڑے کارناموں کی تفصیل پیش  کریں گے  ۔

1.مسجد ِاقصی، یہود اور امت مسلمہ:۔

'عمار خان صاحب کا 'مسجد ِاقصیٰ، یہود اور اُمت ِمسلمہ' کے عنوان سے ماہنامہ 'اشراق'  کے جولائی اور اگست ٢٠٠٣ء کی شمارے میں مقالہ شائع ہوا ۔ یہ مقالہ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، ہم اس تحریر میں انکے اس مقالے کے چند اہم نکات پر بات کریں گے، انکے اس مقالے کا مکمل علمی و تحقیقی جواب  پڑھنے  کے لیے  قارئین یہ لنک ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ 
الف۔  اپنے اس مقالہ میں عمار صاحب  نے سارا 'زورعلم و تحقیق' محض یہ ثابت کرنے پرصرف کیا کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت پر یہود کا حق ہے اور اس  مسئلے میں امت مسلمہ کے تمام طبقات  شروع دن سے  راہ عدل سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صحیح بات کہنے والا نہیں ۔ جناب  نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ناصرف یہود کی معصومیت بلکہ جملہ جرائم سے براء ت کو بیان  کیا بلکہ  سورہ بقرہ کی آیت 76 اور 91 کےحوالہ سے   شہادت ایمان اور سند معصومیت کشید کرکے یہود کے گلے میں لٹکائی ،   موصوف  ساری تحریر میں مسلمانوں خصوصاً عرب مسلمانوں کے حوالے سے تحقیر آمیز رویہ رکھے ہوئے  اور یہودیوں کی تعریف میں رطب اللسان  ہیں ۔ انکی  ہر بات کی تان اسی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ  مسجد اقصی پر حق یہود کا ہی ہے، مسلمان بلاوجہ ضد کررہے اور اپنا نقصان کیے جارہے ہیں ۔ تعجب ہے کہ دنیا میں ایسے غیرمسلم  بھی ہیں جو مظلوم ومقہور فلسطینی مسلمانوں سے، جو غزہ کی کھلی جیل میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، ہمدردی رکھتے ہیں  مختلف فور مز پر انکے حق کی آواز اٹھاتے ہیں  اور یہ  اہل اسلام جو علم شریعت و فہم دین کا دعوی رکھتے ہوئے یہ بدبداتے پھرتے ہیں کہ آپ کو اس مظلومیت سے تب ہی خلاصی مل پائے گی جب مسجد اقصی ہی نہیں، ارض فلسطین بھی ان شقی القلب لوگوں کے حوالے کردیں، جنہوں نے یہاں اپنے ہی انبیائے کرام کو قتل کیا،  سود وجوے کو  اور زنا وشراب کو ارضِ مقدس میں رواج دیا، گفتنی وناگفتنی جرائم کی ایسی تھپی پر تھپی لگائی کہ ابدی پھٹکار کی مہر لگاکر یہاں سے نکالے گئے ۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ ترکی میں تو لاکھوں افراد ''ماوے مرمرہ'' کو بارات کی طرح رخصت کریں کہ فلسطینی بھائیوں کی مدد کرو اور پاکستان سے استشراقی زکام لگے نام نہاد محقق یہ بڑبڑاتے پائے جائیں کہ مسجد ہی نہیں، پورا فلسطین ان لوگوں کے حوالے کردو ۔
ب۔  مضمون نگار نے مقالے  میں ہر جگہ بیت المقدس کو مسجد اقصیٰ یا حرم شریف کا احاطہ  کہنے کے بجائے ہیکل ہیکل کی گردان رٹی ہے۔ بلکہ ایک جگہ تو مسلمانوں کو غلطی کا احساس دلاتے ہوئے یوں پھول جھاڑے ہیں: ''احاطہ ہیکل جسے آج کل الحرم الشریف کہا جاتا ہے!!'' یعنی اس جگہ کو آج تک کسی نے الحرم الشریف نہیں کہا، آج کل غلطی سے ''الحرم الشریف'' کہا جاتا ہے جو صحیح لقب نہیں۔ شمارے کے سرورق کے اندرونی صفحے پر مسجد اقصیٰ کا  ایک  نقشہ ان الفاظ کے ساتھ  پیش کیا گیا ہے''احاطہ ہیکل کا موجودہ نقشہ'' ۔ خان صاحب یا ان کے سرپرستوں کو شاید یہ زعم تھا کہ قارئین میں سے کوئی بھی نہ جان پائے گا کہ اس جگہ کو ''احاطہ ہیکل'' کہنا کن مردودوں کی مخصوص اصطلاح ہے، یہ نقشہ بنانے والے کون ہیں ،  اس پر چسپاں ذومعنی الفاظ میں کیا کھیل کھیلا گیا ہےاور اس میں ہیکل کی مرکزی عمارت کو تین الگ الگ جگہ دکھانے کا کیا مقصد ہے؟ یہ نقشہ دیکھتے ہی ہمارا  ماتھا ٹھنکا کہ یہ تو خالص حلف یافتہ یہودی زعماء کا تجویز کردہ ہے،  یہ خان صاحب کے ہاتھ کہاں سے لگا؟ اور انہوں نے اس نقشے کو کس ڈھٹائی سے یہود کے موقف کی تشریح اور مسلمانوں پر حجت قائم کرنے اور مسجد اقصیٰ سے دستبردار ہونے کے لیے استعمال کرلیا؟ اس نقشے کی اشاعت اور اس کو اپنے موقف کی وضاحت میں بطور تشریح وتفہیم پیش کرنا ایسی بھونڈی حرکت تھی جس سے راقم کو اگر کوئی شبہ تھا جس کی بنا پر وہ مقالہ نگار کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری الذمہ سمجھتا، تو وہ بھی جاتا رہا۔ اگر عمار صاحب اس نقشے کے اصل واضع، اس کی اصل جائے یافت اور ذریعہ حصول کی نشاندہی کرتے تو قارئین کو علم ہوجاتا کہ موصوف کے ڈانڈے کہاں جاکر ملتے ہیں؟مقالے کا  سارا مواد، پرفریب انداز تحریر ، انوکھی اصطلاحات  اور خیانت آمیز اسلوب غامدیت کے  یہود کے ساتھ گہرے 'علمی روابط'  کی گواہیاں دیتانظر آ رہا ہے۔  یہ اسلوب اسی تحریفی طبقہ کا ہے جو  اس قدر پرکاری اور عیاری سے اپنے جھوٹ کو سچ بتاتا ہے کہ وہ قسمیں یاد آجاتی ہیں جن کے تناظر میں ''سورہ منافقون'' نازل ہوئی تھی۔ تحقیق کی دنیا میں یہ عجیب اور  انتہائی نرالا طرز  ہے  کہ خان صاحب اخلاق وتہذیب پر مشتمل نصیحتیں مسلمانوں کو کرتے ہیں اور تایید میں حوالے ''جیوش انسائیکلو پیڈیا'' سے لاتے ہیں۔جو صاحبان اس مقالے کے زیادہ تر اقتباسات کا ماخذ دیکھنا چاہیں وہ ان یہودی ماخذ ومراجع کو نیٹ پر دیکھیں، جن میں ''ہیکل سلیمانی'' کے حق میں دلائل اور اس کے محل وقوع کی تعیین کے حوالے سے ہفواتی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ انہیں یقین آجائے گا کہ کسی زمانے میں کعبے کو صنم خانے سے پاسبان ملتے تھے، اب ہیکل خانے کے پاسبان اس خطے سے تلاش کیے جارہے ہیں جہاں سے اقصیٰ کے محافظوں کا لشکر جانے کی خوشخبریاں وارد ہوئی تھیں۔ ان' معتبر 'حوالوں سے ان کے  مقالہ کا حاشیہ بھرا ہوا ہے۔ 
:Labmert Dophin & Michael Kollen, "On the Location of the First and Second Temples in Jerusalem", http//Idolphin.org/Yoel Cohen, "The Political Role of the Israeli Chief Rabbinate in the Temple Mount Question", Jewish Political Studeis Review, (www.jcpa.org), www.rabbiwein.com, Encyclopaedia Judaica, Jerusalem, www.la.utexas.edu, Jewish encyclopaedia.]۔ نیز روسی یہودی پروفیسر آشر کوف مین (Dr Asher Kaufman) اور اسرائیلی یہودی انجینئر توویا ساگیو (Tuvia sagiv) کے نظریات۔
ج۔  عمار خان ناصر صاحب کے پیٹی بند بھائی ریحان احمد یوسفی المعروف ابو یحیی  نے اپنے سفر نامے ''وہی راہ گذر'' میں اپنے امریکہ کے سرکاری دورے کی جو  تفصیلات   لکھی ہیں ان کا مختصر بیان اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں، ایک عام بندے کا امریکہ کا  سرکاری دورہ اور اس میں اسکو  توہین رسالت کے قانون، اسلامی حدود و تعزیرات کے موضوع، عورتوں کے فرضی حقوق، اقلیتوں خصوصا قادیانیوں کی مذہبی آزادی،  مسجد اقصی اور فلسطین کی ارض مبارک پر یہودیوں کے حق پر  امریکی سرپرستوں اور صیہونی زعماء کی طرف  سے بریفنگ،   پھراس مقالہ کا مواد ، تصاویر اور حوالہ جات یہ سب  گواہی دے رہے  ہیں   کہ عمار خان ناصر اور ان کے مکتبہ فکر کی یہ ساری ہفوات اپنی نہیں ہیں، یہ زبانیں بولتی نہیں، بلوائی جاتی ہیں۔
یہود کی پرکاری دیکھیے کہ مسلمان چونکہ  کسی غیرمسلم خصوصایہودی کی کسی ایسی تحریر پر کوئی توجہ نہیں  دیتے اس لیے انہیں اہل اسلام میں سے کسی کی زبان چاہیے تھی اور غامدی صاحب کی جماعت سے زیادہ بے باک اور آمادہ کار جماعت انہیں مل نہیں سکتی، لہٰذا دو یہودیوں کی مشترکہ کھچڑی کی ہنڈیا ''الشریعہ'' کے سر پر رکھ کر دم دی گئی اور عیاری کی بندوق عمار خان ناصر صاحب کے کندھے پر رکھ کر داغ دی گئی ہے۔

2. امیر عبدالقادر الجزائری  کی سوانح عمری :۔

'امیر عبد القادرالجزائری'' کے حالات پر مشتمل''جان ڈبلیو کائزر'' کی کتاب کا اردو  ترجمہ ''دارالکتاب'' لاہور کے نام سے شائع  ہوا۔ اس کتاب کا  مصنف جان ڈبلیو کائزر ایوارڈ یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے اور  کتاب کا موضوع جو شخصیت ہے وہ بھی سند یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے۔ دوسری طرف ''دار الکتاب'' علمائے حق  کی فکر کا وارث ہے اور انقلابی جہادی تحریکوں سے متعلق کتابیں شائع کرتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ انقلابی مجاہدین کے جہادی کارناموں کو عام کرنے والا ادارہ ایک ایسی کتاب کیسے شائع کرسکتا ہے جو جہادی تحریکات کا تمسخر اڑاتی ہو، مجاہدین کو دہشت گرد اور مسلمانوں کو خونی درندے ثابت کرتی ہو۔ لہٰذا ہم نے اس کی تحقیق  کرنا شروع کی کہ یہ جہاد کی مخالفت کرنے والی اور مجاہدین کو دشمن انسانیت اور دشمن رحمت ورافت ثابت کرنے والی کتاب کس نے شائع کروائی۔ کتاب  پر  مترجم کا نام غائب تھا ، ناشر سے رابطہ کیا گیا تو  انہوں نے  بتایا  کہ امیر عبدالقادر الجزائری والی کتاب پر ان کے ادارے کا نام تو ضرور ہے، لیکن وہ نہ تو اس کتاب کے ناشر ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہے کہ  ان کے  نام پر شائع کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ بعد میں انہوں نے بتایا کہ  یہ کتاب عمار خان ناصر صاحب نے شائع کروائی اور ہمیں فون پر اطلاع دے دی کی کہ یہ کتاب ہم نے آپ کے نام پر شائع کروائی ہے۔ اس کتاب کی  تعارفی تقریب لاہور کے ''میزونٹ ہوٹل'' میں منعقد ہوئی جس میں مہمان خصوصی امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھے۔ خطابت کے فرائض عمار خان ناصر نے سر انجام دیے۔ یہ تمام باتیں (جعلی مجاہد کی شخصیت کی تعارفی تقریب میں عمار خان کا لیکچر، امریکی عہدیدار کی شرکت کا اعتراف اور ناشر کے متفق نہ ہونے کے باوجود ''رواداری کے اصول'' جیسی فریبی اصطلاح کے تحت اپنا ادارہ چھوڑ کر کسی اور ناشر کے کندھے پر بندوق رکھنا وغیرہ) الشریعہ مئی ٢٠١٣ء میں تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کتاب پر تبصرہ سے پہلے کتاب کی اشاعت وطباعت وترسیل وتقسیم کی طلسماتی کہانی خود ہی اس کتاب کی حقیقت، ماہیت، حیثیت، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کو بتانے کے لیے کافی اور شافی ہے۔ 

امیر کی  سوانح وافکار ، عملی جدوجہد اور کارنامے 

عمار خان صاحب  نے یہ  کتاب پبلش کروانے سے  پہلے  اپنے رسالے میں یہ بحث شائع کی کہ افغانستان کا جہاد اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت کیا جانے والا جہاد نہیں ہے۔ پھر اگلے  شماروں  میں اسی کتاب سے  ''سچے مجاہد کی داستان'' کو قسط وار شائع  کرتے ہوئے  اس جعلی مجاہد کے جہاد کو  نمونہ کے طور پر پیش کیا۔ حیرت ہے اشراقیوں کی  علمی دنیا میں  شرم ومروت کا اتنا بھی گزر نہیں رہا کہ انسان اپنے پڑوس میں ہونے والے جہاد عظیم کے بارے میں دو اچھے لفظ نہ کہے اور پچھلی صدی میں مصدقہ یہودی گماشتے [اس کی ناقابل تردید تصدیقات خود زیرنظر کتاب جو موصوف خان صاحب کی نظر ثانی شدہ اور ترجمہ شدہ  ہے،  سے آگے  آرہی ہیں]  کی  شکست خوردہ جدوجہد کو ''سچے جہاد'' کا نام دے دے۔ امیر عبدالقادر الجزائری کے متعلق ہمارے استعمال کیے گئے ان الفاظ پر شاید کسی کو اعتراض ہو۔ ہم  امیر کے کردار ، افکار اور کارناموں  کی حقیقت  عمارصاحب کی ترجمہ و نظرثانی شدہ اسی سوانح عمری سے پیش کرتے ہیں ، یہ بات قارئین کے سامنے خود بخود واضح کر سامنے آجائے گی کہ وہ یہودی گماشتہ تھا یا نہیں۔

امیر کا کردار وافکار:۔

کتاب کے عالمانہ تعارف میں اس کی اشاعت کی ایک غرض بیان کی گئی ہے: ''ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار وافکار سے آگاہی آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ میں رہنمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔'' (ص:11)
آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سا کردار ہے جو آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے؟ اور اس سمت میں ہم مثبت پیش رفت کریں تو کس اہم ملی ضرورت کو پورا کرسکیں گے؟ اس حوالے سے اس کتاب کی چند عبارتیں بلاتبصرہ پیش خدمت ہیں ان سے معلوم ہوگا کہ ہمیں فقط امریکی نظریہ جہاد سے ہی متعارف نہیں کروایا جارہا بلکہ ہماری نئی نسل  کے سامنے مغربی کی بے حیا تہذیب،  شہوت پرستی، نسوانیت پرستی اور زنخا پرستی کو بھی نمونہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔
 کتاب میں اس  سچے مجاہد کی حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی کو یوں بیان کیا گیا ہے''ایسا لگتا تھا کہ اپنی ذات کی سختی سے نفی کرنے والے عبدالقادر کی زندگی میں واحد استثنا عورت تھی اور اس کا مسلسل وسیع ہوتا حرم سفارت کاروں کے لیے تھوڑے بہت نہیں، بلکہ شدید حسد کا باعث تھا۔'' (ص:391)
مسلسل وسیع ہونے والے حرم کا اندرونی حال بھی سن لیجیے: ''اسے ایک بار امیر کے حرم کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ یہ افواہ گرم تھی کہ امیر ہر سال نئی شادی کرتا ہے جو عموماً سرکیشیائی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہیں ہوتی، لیکن جین کی رپورٹ یہ تھی کہ اگر اس نے ان میں سے بیشتر کو طلاق دے کر رخصت نہیں کردیا تو پھر یہ افواہ غلط ہے۔ اسے وہاں صرف پانچ بیویاں نظر آئی تھیں، لیکن یہ تعداد بھی اسلامی شریعت میں دی گئی اجازت کی حد سے ایک زیادہ بنتی ہے۔'' (ص:451)
حاشیہ میں پہلے لکھا ہے:''جین کی اطلاع کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔'' اس کے بعد درج ہے: ''دمشق میں امیر کے بعض جانشینوں میں یہ گفتگو سننے میں آئی ہے کہ امیر نے ایک سرکیشائی لڑکی کو بھی بیوی بنایاتھا۔ ان میں سے ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھاجب امیر کی پانچ بیویاں تھیں''۔ (حاشیہ ص: 451) 
خان صاحب نے امیر کی اس حرام کاری پر پردہ ڈالنے کے لیے پہلی عبارت نقل کی ہے۔ دوسری کو حذف کر گئے ہیں۔ ایسی امانت ودیانت نہ ہوتی تو انہیں غامدیت اپنا ترجمان وشارح منتخب ہی کیوں کرتی؟ کوئی  یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پانچویں عورت بیوی نہیں  لونڈی ہوگی، لیکن اس کا کیا کریں کہ ایسی عورتوں سے تعلقات کے ثبوت بھی اسی سچی داستان میں موجود ہیں جو انگلستان جیسے مادرپدر آزاد ماحول میں بھی بدنام تھیں: ''عبدالقادر برطانیہ کی دو ایسی شخصیات [رچرڈ برٹن اور جین ڈگبی] کا دوست اور معترف تھا جو اپنی ثقافت سے باغی تھیں۔ ایک [رچرڈ برٹن نامی برطانوی ایجنٹ] وہ آزاد خیال روایت شکن جس نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں تعاون کیا اور جس کے پسندیدہ موضوعات میں پرشہوت عورتیں، جسم فروشی اور زنخا بنانے کے طریقے شامل تھے، جبکہ دوسری شخصیت [جین ڈگبی نامی ایک برطانوی حسینہ] اخلاق باختہ سمجھی جانے والی ایک خود پسند اور بدنام عورت تھی جس نے اپنی جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا بچہ تک چھوڑدیا۔'' (ص:452)
جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا سگا بچہ چھوڑنے والی بدنام عورت، ہمارے سچے مجاہد صاحب کی منظور نظر بن گئی تھی اور ان کے ڈیرے پر باقاعدگی سے حاضری دیتی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
''جین ڈھلتی ہوئی عمر کے عبدالقادر بھی منظور نظر بن گئی تھی۔ جس نے احتیاط سے خضاب لگی ہوئی سیاہ ڈاڑھی کے ساتھ اپنی جوانی کا تاثر قائم رکھا ہوا تھا۔ جین باقاعدگی سے نقیب ایلی [امیر المجاہدین کا ڈیرہ] آنے والے مہمانوں میں شامل تھی اور گرمیوں میں اکثر ان مہمانوں میں شامل ہوتی تھی جو امیر کی رہائش گاہ پر دریائے برادا کا نظارہ کرتے ہوئے پودینے کی چائے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جین نے اپنے شوہر میدجوئیل المرزگ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ سال میں چھ ماہ یورپی طرز کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔...... باقی چھ ماہ وہ بدو عورتوں کی طرح صحرا میں بکری کی کھال سے بنے خیمے میں گذارتی تھی...... میدجوئل المرزگ کے ساتھ شادی نے ڈگبی جین کی اس دھماکا خیز رومانی زندگی کا خاتمہ کردیا جس نے اسے سارے انگلینڈ میں بدنام کررکھا تھا۔'' (ص:449,450)

امیر عبد القادر کے عملی جدوجہد اور کارنامے

کتاب کا جائزہ لیا جائے تو مجاہد موصوف کے تین کارنامے ایسے نظر آتے ہیں جن کی پاکستان میں تعریف و ترویج افغانستان میں شکست خوردہ مغربی طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ عاجز کوشش کرے گا کہ اس کتاب سے باہر بالکل نہ جائے اور ہر اقتباس دو ٹوک انداز میں باحوالہ پیش کرے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔ کتاب میں موجود بعض بے ہودہ الفاظ بادل نخواستہ ہم نے اس لیے نقل کیے ہیں کہ ان کے آئینے میں اس کتاب کو ''مثالی نمونہ'' قرار دینے والے غامدیوں کے اعلی اخلاقی معیار کامشاہدہ کیا جا سکے۔ ہم بدرجہ مجبوری ایسے الفاظ سے اپنے صفحات کو آلودہ کرنے پر قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔
پہلا کارنامہ: دشمن کی خوشامد ،  رحم کی بھیک اور فری میسن تنظیم میں شمولیت:
کتاب کے وقیع پیش لفظ میں ایک انتہائی قابل احترام اور مؤقر علمی شخصیت نے اس کتاب کو پاکستان میں شائع کرنے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ''امیر عبدالقادر الجزائری مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقینا مفید ثابت ہوگی۔'' (ص:11)

  ''سچے جہاد کی داستان'' نامی اس ''مستند سوانح حیات'' میں ہی اس کی تصدیق موجود ہے کہ  جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کا پاسدار امت مسلمہ کا یہ محسن کون تھا؟ اور نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کروانے کے مقاصد کیا ہیں؟ ، اسی کتاب کے ص 438 پر سچے مجاہد کے پیچھے موجود جھوٹے پشت پناہوں کا صاف ستھرا سراغ ملتا ہے۔ مصنف رقم طراز ہے:
''جب جنرل ''اوٹ پول'' اپنے تصور میں امیر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کررہا تھا تو پیرس میں فرانسیسی میسونی لاج ''ہنری چہارم'' کی ایک کمیٹی بڑی احتیاط سے امیر کے نام ایک خط تیار کررہی تھی اور اس کے ساتھ موزوں عبارت والا ایک قیمتی زیور بھی منتخب کیا جارہا تھا۔ تقریباً ایک مہینے کی عرق ریزی کے بعد سولہ نومبر کو میسونی تنظیم کی علامت سے ڈھکے سبز جڑاؤ تمغے کے ہمراہ یہ خط ''انتہائی عزت مآب جناب عبدالقادر'' کی خدمت میں ڈاک سے روانہ کردیا گیا۔ تنظیم کا نشان دائرے کے اندر دو چوکھٹوں پر مشتمل تھا، جس سے ایک ہشت پہلو شکل بنتی تھی جس سے روشنی کی شعاعیں خارج ہورہی تھیں۔ عین درمیان میں فیثا غورث کی مساوات کندہ تھی۔'' [یہودیوں کی مخصوص پسندیدہ علامت اس مساوات کا کچھ بیان آگے چل کر آئے گا]مسجع ومقفع انداز میں لکھی گئی عبارت کے آخر میں امیر کو تنظیم کا رکن بننے کی دعوت دی گئی تھی:
''بہت سے دل ایسے ہیں جو آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں، بہت سے ''بھائی'' ایسے ہیں جو آپ کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ سے محبت کرتے ہیں اور اگر وہ آپ کو اپنی تنظیم کارکن شمار کرسکیں تو انہیں بہت فخر ہوگا۔'' (ص: 438، 439)
''عالمی برادری'' میں شمولیت کی اس دعوت کو قبول کرنے میں سچے غامدی مجاہد نے دیر نہیں لگائی  اور  اپنے قریبی ساتھیوں اور سپہ سالاروں کے منع کرنے کے باوجود ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو دشمن کے ہاتھ میں دے دیا ۔ہتھیار ڈالنے کا انداز کس قدر ذلت آمیز تھا۔ آپ پڑھ کر ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ کو بھول جائیں گے۔
 ''امیر نے اپنی تلوار جنرل لاموری سیئر کے حوالے کی اور اپنے آدمیوں کو بھی حکم دیا کہ اپنی بندوقیں اتار کر جنرل کے پیروں میں پھینک دیں۔ لاموری سیئر بارود اور خون سے اٹی عباؤں میں ملبوس، افسانوی شہرت رکھنے والے ان جنگجوؤں کو پروقار خاموشی کے ساتھ ہتھیار ڈالتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور بولا: ''اپنے ہتھیار اپنے پاس ہی رکھو۔ انہیں فرانس کے لیے استعمال کرو۔ میں تم سب کو مخزن کے طور پر بھرتی کروں گا۔ '' (ص:283)
ہتھیار پاس رکھنے اور دشمن کے خادموں میں بھرتی ہو جانے کی خوش خبری کچھ زیادہ دن نہ چل سکی۔ کچھ دنوں بعد امیر کو احساس ہوگیا کہ فرانس کے حکام بالا [اپنی روایت کے مطابق] اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں سے مکر گئے ہیں۔ عظیم جہادی شخصیت کو جب اس ذلت کا احساس ہوا تو اس نے انتہائی حد تک گرتے ہوئے شاہ فرانس کو خوشامدانہ خط لکھا۔ اس میں اس قدر گر کر التجا کی گئی تھی کہ خود اس کے ساتھیوں کو بھی شرم آ گئی۔ ملاحظہ ہو:
''عبد القادر نے خط میں رحم اور انصاف کی التجاؤں کے بعد بادشاہ سے بالمشافہ ملاقات کی درخواست کی تھی۔ خط کے آخر میں امیر نے وہی جملہ لکھا جس کی دوما کو توقع تھی: ''خدائے برتر کی یہی منشا تھی کہ میں خود کو ایک بچے کی طرح آپ کے ہاتھوں میں سونپ دوں ۔ ''(ص: 300)
غامدی ثنا خوانوں نے اسے صلح لکھا ہے۔ یہ ہرگز صلح نہیں تھی بلکہ  ہتھیار ڈال کر مانگی گئی بھیک تھی۔ اس کے سب ساتھی جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھے، لیکن وہ حلف دے دے کر اپنے لیے راستہ دیے جانے کی بھیک مانگتا تھا۔مجاہد موصوف کی مسجع و مقفی درخواستیں ایسے خوشامدی الفاظ پر مشتمل ہوتی تھیں جن میں غیر اللہ کی قسم کھائی گئی تھی۔
 ''پھر عبد القادر نے خط میں اپنی طرف سے حلف بھی شامل کیا جو اس نے اپنے ہاتھ سے عربی میں لکھا تھا اور اس سے اسلامی قانون پر مکمل دسترس رکھنے والے شخص کی جامع مہارت جھلکتی تھی۔ اس نے لکھا: ''عظمت صرف خدا کی ہے! میں حلف دیتا ہوں کہ کبھی فرانس کے لوگوں کے لیے پریشانی کھڑی نہیں کروں گا، نہ ذاتی طور پر، نہ خط لکھ کر اور نہ کسی اور طریقے سے۔ میں یہ حلف خدا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، ابراہیم، موسی اور یسوع مسیح کی قسم کھا کر، تورات، انجیل اور قرآن کے نام پر دیتا ہوں۔ میں یہ حلف اپنے دل، اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے دیتا ہوں۔ اس عہد کی پابندی مجھ پر اور میرے تمام ساتھیوں پر، جن کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، جنہوں نے اس دستاویز پر دستخط کیے ہیں اور انہوں نے بھی جنہوں نے دستخط نہیں کیے، کیوں کہ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا، لازم ہے۔''(ص:312)
اسکی یہ گریہ زاری، جہادی کوشش منظور ہوئی اور
"1864ء میں امیر کو دمشق میں شام کے میسونی لاج کا اعزازی گرینڈ ماسٹر نامزد کیا گیا۔ اس کے ایک برس بعد جب عبدالقادر فرانس گیا تو اسے فرانسیسی لاج ''ہنری چہارم'' میں شامل کرلیا گیا جس میں بنجمن فرینکلن، لاپلاس، لافاییٹ، وولٹیئر، سوٹ، مونجے، تالے راں، پرودوں اور دیگر ایسی ممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کے لیے مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون سب ایک الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر تھے۔'' (ص:441)
''سترہ نومبر 1869ء کو جب نہر سویز کھولنے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو امیر کو بھی گرینڈ پیولین میں نپولین کی بیوی، ملکہ یوجین، آرچ ڈیوک وکٹر آف آسٹریا، شاہ ہنگری اور ساری دنیا سے آئے ہوئے سفیروں اور اہم شخصیات کے ساتھ بٹھایا گیا۔۔ مشرق اور مغرب کے سمندروں کو آپس میں ملانے کا خواب پورا کرنے میں عبدالقادر نے فرانس کے فردیناں دے لیسپس (Ferdinand de Lesseps) کی کچھ کم مدد نہیں کی تھی۔۔۔'' (ص:444,442)
عالمی سطح پر مسلم دشمن بلکہ انسانیت دشمن بدنام زمانہ تنظیم کے گرینڈ ماسٹر کو سچا مجاہد بناکر پیش کرنے والے ''فہم دین'' اور ''تفہیم شریعت'' کے داعیوں کے متعلق اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ بھی ''مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون کے الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر'' میں سے ہیں تو کیا یہ غلط گمان ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ جو شخص 1864ء سے 1877ء تک یعنی تقریباً تیرہ سال تک ایک بدنام زمانہ دین دشمن ومسلم کش تنظیم کا رکن رہا، اس کی کارگردگی کو دنیا میں متعارف کروانے کی آپ کو ضرورت کیا پڑی ہے؟ کیا یہی تازہ عالمی منظر نامے میں امت مسلمہ کی وہ رہنمائی ہے جس کی طرف ''مثبت پیش رفت ہماری ملّی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے''کیا یہی وہ مشعل راہ ہے جو ''اسلام کے تصور جہاد کے درست تعارف کے لیے گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے''؟[واوین میں مذکور الفاظ امیر موصوف کے ثنا خواں عمار خان صاحب کے ہیں[.انگریز مصنف کو پاکستان میں دوسرا کوئی نہ ملا، صرف آپ میں یا آپ کے طبقے میں اسے کیا خصوصیت نظر آئی کہ اس نے یہ کتاب تنقید و تحقیق کے لیے آپ کو بھیجی۔ آپ کی صہیونی ایجنٹوں سے فطری ہم آہنگی اور نظریاتی اشتراک کی بنیاد کیا ہے؟
کیا امیر نے تنظیم چھوڑ دی تھی ؟
 خان صاحب نے  اپنے  جوابی کالم میں  لکھا کہ  امیر نے تنظیم چھوڑ دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سفاک اور پر اسرار تنظیم میں جو شخص ایک بار داخل ہوجائے وہ اپنی مرضی سےنہیں  نکل سکتاہے ،یہ تنظیم عام کارکن سے جو حلف لیتی ہے وہ  دجال کے متعلق لکھی گئی مستند  کتابوں (دجال، عالمی یہودی تنظیمیں) میں بالتفصیل ذکر ہے۔ یہ تو دمشق کے میسونی لاج کا اعزازی گرینڈ ماسٹر نامزد کیا گیا  تھا  ، اس سےکیسا حلف لیا گیا ہوگا ؟  چلیں  بالفرض ہم یہ  مان لیتے ہیں   کہ امیر نے یہ تنظیم چھوڑ دی تھی، سوال یہ کہ  اس نے اپنی مہر میں (جو آپ نے کتاب کے پشتی سرورق پر اپنے والد محترم کے نام کے عین اوپر چھاپی ہے) آخر دم تک کیوں مخصوص یہودی علامتیں نقش کر رکھی تھیں؟ مذکورہ کتاب کے پشتی سرورق پر اس مہر کا نقش موجود ہے، جس میں چھ کونوں والا ستارہ پکار پکارکر امیر پر اور آپ کی   تحریک غامدیت پر مہر یہودیت ثبت کررہا ہے۔ کتاب کے ص 285 کے حاشیے پر لکھا ہے:
''امیر کی مہر دو ''مثلثوں'' پر مشتمل تھی جن میں ایک سیدھی اور دوسری معکوس تھی۔ دونوں مثلثیں ایک دوسرے کے اوپر تھیں جس سے کچھ کونوں والے ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ان کے اردگرد ایک دائرہ تھا۔ اوپر کی طرف نوک والی مثلث روحانی طاقت کی علامت تھی جبکہ نیچے کی طرف نوک والی مثلث دنیاوی اقتدار کی نمایندگی کرتی تھی۔ دائرہ الوہی رحمت کی علامت تھا۔''
جب الوہی رحمت کی علامت اپنا کر فری میسنری کی غلامی قبول کرلی گئی تو یہودی سرمایہ دار ایسے شخص کی حمایت سے کیوں پیچھے رہتے؟ مشہور زمانہ یہودی خاندان ''روتھ شیلڈ'' ہمارے ممدوح مجاہد کی مدد کو آگیا۔ سنیے اور سر دھنیے:''اس نے دمشق اور بیروت کے درمیان پل تعمیر کرایا اور جیمز روتھ شیلڈ کی شراکت سے محصول چونگی بھی قائم کی۔۔'' (ص:406)
حقیقت میں  تنظیم چھوڑنے کا شوشہ پیرس کی طرف سے ''عربوں کے حقیقی بادشاہ'' کو شام کی گورنری دلوانے کے لیے چھوڑا گیا تھا، ورنہ کوئی اس تنظیم کو چھوڑنا بھی چاہے تو یہ تنظیم اسے نہیں چھوڑتی۔
(جاری ہے)
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

خود اعتمادی

"تم نے وقت پر سکول کی بیل نہیں بجائی ، تم کام بھی  کچھ نہیں کرتے تمهارے اوپر جرمانہ عائد کریں گے، جرمانہ نہیں دو گے تو ہم  تمہیں ادھر سکول کے گراؤنڈ میں رسی سے باندھ دیں گے"۔
"جا اوئے  بڑا آیا جرمانہ کرنے والا، کیوں جرمانہ کرو گے میں یہ کرسی اٹھا کر تمہارے سر  پر ماروں گا، دیکھو ایڈمن  صاحب یہ کہتا ہے میں تمہارے اوپر جرمانہ کرونگا، میں پرنسپل صاحب کو جا کراسکا بتاتا ہوں"
آج صبح میں جب اپنے آفس میں داخل ہوا تو  سکول کا  کلرک نواز ہمیشہ کی طرح نائب قاصد  فرمان  خان کو  چھیڑ رہا تھا تھا،   اور وہ اسکی باتوں سے   غصہ سے پاگل ہوا جارہا تھا۔ "تم جس کو مرضی بتاؤ رات کو تمہیں دو سو کی روٹی کھلانی ہی پڑے گی"۔ نواز  کا اتنا کہنا تھا فرمان  نے جوتی  اتاری  اور  اسکے پیچھے دوڑ پڑا۔
آپ سوچ  رہے ہونگے کہ شاید فرمان کوئی مینٹل آدمی  ہے یا  کوئی  غریب بچہ ہے جو سکول میں پانی وانی پلانے کے لیے بھرتی ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں ہےیہ  چالیس سال کا ایک آدمی ہے، چھے فٹ قد، موٹے تازے جسم  کا مالک اور   سابقہ فوجی ہے۔ اس میں کمی صرف  یہ ہے کہ اسکا دماغ اسکے جسم کیساتھ بڑا نہیں ہوسکا۔ یہ بات میرے تجربے میں ہے کہ  ایسے لوگ بہت  محنتی اور تابعدار ہوتے ہیں ، فرمان کو  جس کام کا کہو ، فورا کرتا ہے، بلکہ  بعض اوقات تو  میرے منہ سے بات مکمل نہیں ہوتی ، فرمان وہ کام کرنے کے لیے  کمرے سے نکل چکا ہوتا ہے، میں بڑبڑاتا رہ جاتا ہوں، پھر تھوڑی دیر بعد واپس آکر پوچھتا ہے ساب جی تسی کے آخیا سی ؟ پھر میں اسکو ساری بات سمجھا کر بھیجتا ہوں۔ شروع میں مجھے اس سے کام کرواتے بہت  مسئلہ ہوتا تھا ، مثلا  میں اسکو کہتا   یہ فائل فلانی کلاس  کے ٹیچر کو دے آؤ اور فلانی کلاس سے اس نام کے لڑکے کو بلا لاؤ، یہ فائل جس کلاس سے لڑکے کو بلانا ہوتا اس میں دے آتا اور دوسری کلاس سے کسی لڑکے کو پکڑ کے لے آتا۔   اب میں اسکو سمجھنے لگ  گیا ہوں۔ اسکو ایک وقت میں ایک ہی کام کا کہتا ہوں۔
 فرمان کی شادی بھی ہوئی ہوئی ہے اسکا ایک بچہ بھی ہے لیکن  بیوی بچے سمیت  دو سال سے اپنے میکے میں رہ رہی ہے ۔ یہ چوبیس گھنٹے سکول میں ہوتا  ہے، صبح سکول میں کام کرتا ہے رات کو اسکی چوکیداری کے لیے سکول میں ہی  سوتا ہے۔ اسکے حالات اور  اسکے رویہ کو  دیکھتے ہوئے  مجھے یہ تجسس رہتا تھا کہ اسکے ماضی کے بارے میں  کسی سے پوچھوں، یہ پیدائشی ابنارمل لگتا نہیں ۔ اک دن مجھے ڈرائیور نے بتایا کہ نواز فرمان کا کزن ہے ۔ ۔ فراغت کے لمحات میں  میں نے نواز سے  فرمان  کے ماضی کے حالات کے بارے میں پوچھ ہی لیا۔  اس نے مجھے اسکی زندگی کی جو  کہانی  سنائی وہ بڑی عجیب ہے۔:
نواز نے بتایا کہ فرمان جب سولہ  سترہ سال کا تھا تو اسکی والدہ فوت ہوگئی تھیں، اسکا والد  انتہائی سخت اور شکی طبیعت کا مالک آدمی تھا، ذرا ذرا سی بات پر بیوی اور بچوں کو مارنا، گھر میں چینخنا چلانا اسکا معمول تھا، فرمان کا ایک سگا بھائی اور ایک بہن ہے۔  ان تینوں کو  گھر سے نکلنے کی بالکل  اجازت نہیں ہوتی تھی، ہم سب لوگ گلی میں کھیلتے، کودتے،  ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے اور یہ کھڑکیوں سے ڈرے سہمے ہمیں دیکھ  رہے ہوتے تھے ، جوں ہی انکا والد گلی میں داخل ہوتا یہ کھڑکیاں بند کرکے کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ، اسکے والدین کی سوچ یہ تھی کہ سوسائٹی کا ماحول ٹھیک نہیں ہے  ا س لیے بچوں کو باہر نہیں نکلنے دینا ، کہیں آوارہ نہ ہوجائیں، انہوں نے انہیں شہر کے اچھے سکول میں داخل کروایا ، ٹیوشن بھی گھر لگا کردی لیکن انہیں صرف سکول کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت تھی، نماز جب پڑھنی ہوتی تو انکا والد انہیں خود ساتھ لے کر جاتا تھا۔یہ بہن بھائی گھر کی  چھت پر آپس میں ہی  کچھ کھیلتے رہتے تھے یا گلی میں تاکتے رہتے تھے ۔
"خاندان  میں ہونے والی شادی بیاہ  یا عید وغیرہ پر کیا انکو اپنی مرضی سے  تمہارے ساتھ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی تھی" میں نے نواز سے پوچھا۔
" نہیں بالکل نہیں، انکو کسی کے ساتھ ادھر ادھر ہونے کی بالکل اجازت نہیں تھی، انکا والد خود انکو رشتہ داروں کے گھر لے کر جاتا، وہاں بھی یہ اسکے ساتھ ہی چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، ایک دن کیا ہوا کہ ہمارے گھر شادی تھی  اسکی والدہ ہمارے گھر آئی ہوئی تھی اور اسکے والد آفس گئے ہوئے تھے، انکا شاید پیپر تھا  یہ  بہن بھائی سکول سے جلدی واپس آگئے،   میں نے انہیں دیکھ لیا اور انکو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا  لیکن یہ نہ مانے کہ ابو ماریں گے، میں نے انہیں سمجھایا کہ تمہاری والدہ بھی وہیں ہیں ، تم ادھر  اکیلے کیا کرو گے ، بہت زور لگایا تو یہ تیار ہوگئے، ہم گلی میں نکلے تو میں نے  ان کے چہرے  پر پہلی دفعہ خوشی دیکھی، یہ اچھلتے ، کودتے  میرے ساتھ دوڑنے لگتے  ، پھرچلتے ہوئے ادھر ادھرایسے گھوم گھوم کر  دیکھتے ، جیسے کوئی طوطا پنجرے سے آزاد ہوگیا ہو۔  ہم گھر گئے لیکن کوئی کام تو ہم نے کرنا نہیں تھا، اس لیے   جہاں دیگیں پک رہی تھیں، وہاں چلے گئے ۔وہ ایک  کھلا میدان تھا  ہم نے وہاں کھیلنا شروع کردیا، شادی کا موقع تھا سارے کزن آئے ہوئے  تھے ، ہم نے خوب کرکٹ کھیلی،  اتنے میں  انکے والد آگئے انہوں نے فرمان اور اسکے بھائی کو   بلایااور   ہم سب کے سامنے انکے  منہ پر تھپڑ مارے اور انکو  اسی طرح مارتے مارتے  گھر لے گئے ۔ ۔ ۔ ۔
پہلے انکے والدین نے انہیں گھر میں بند کیے رکھا، کسی سےملنے، بات کرنے نہیں دی جس سے یہ اندر ہی اندر گھٹن کا شکار ہوگئے،  اپنی مرضی سے کچھ کرنے نہیں دیا  جس سے ان میں قوت ارادی، فیصلہ کرنے کی قوت  پیدا ہی نہیں ہوسکی  اب  سب کے سامنے انکی   عزت نفس کو بھی بری طرح مجروع  کردیا !!ان تینوں بچوں کے اس دن جذبات  کیا ہونگے ؟ نواز آگے بھی کچھ    بولے جارہا تھا  لیکن  میرا تخیل ان بچوں کے اس دن کے  اترے ہوئے سرخ چہروں کو دیکھے جا  رہا تھا۔
" اچھا نواز  ۔یہ تو اتنے اچھے سکولوں میں پڑھتے رہے، تمہارے بقول سکول میں  انکی  پوزیشن بھی آتی تھی پھر یہ  اتنے پیچھے  کیوں رہ گئے  ، کوئی  اچھاعہدہ کیوں نہیں حاصل کرسکے؟ ؟اپنا یہ سوال مجھے خود ہی غیر معقول سا لگا کہ  انکے اندر کے ساری  صلاحیتوں کو تو بچپن میں ہی روند دیا گیا اب یہ کس عہدے کے لیے اہل تھے جو تم یہ پوچھ رہے ہو ؟ انکا اچھے سکول سے پڑھنا ، اچھا تعلیمی بیک گراؤنڈ  کچھ دیر کے لیے  مجھے بھی فرمان کے  والد کی طرح  ایک اچھے عہدے  کا ضامن لگا تھا،  اس لیے میں نے  پوچھ ہی لیا۔
"سر جی یہ جب  میٹرک کے پیپر دے رہا تھا تو اسکی والدہ فوت ہوگئی ،  بغیر پڑھے   پیپر دیتا رہا لیکن پاس ہوگیا۔انکی والدہ کے مرنے کے بعد ان کے حالات مزید خراب ہوگئے، ایک سال تو انکوکوئی  کپڑے دھو کر دینے والا  نہیں  تھا، فرمان کو کسی رشتہ دار  نے فوج میں اپلائی کروایا، جسامت کے لحاظ سے یہ ٹھیک تھا ، بیٹ مین بھرتی ہوگیا، تقریبا  دس سال اس نے نوکری کی لیکن پھر اسکو وہاں سے فارغ کردیا گیا، اسکے  بڑے بھائی نے ابھی ایک سرکاری محکمے سے پنشن لی ہے ،وہ بھی نائب قاصد بھرتی ہوا تھا۔
   اس کی والدہ کے مرنے کے بعد  اسکے والد نے ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی  بھی جو ابھی انکی ماں ہے ، اس کے بھی دو بچے ہیں  ایک بائیس سال کا ہے اور ایک شاید  پچیس سال کا ہے۔
"کیا وہ بھی ان جیسے ہی  ہیں " میں نے نواز کی بات کاٹتے ہوئے اس سے پوچھا۔
" نہیں جی وہ انکے بالکل الٹ ہیں، پڑھائی کے لحاظ سے تو بالکل نل ہیں لیکن بہت تیز طراز ہیں" نواز بولا۔
"یہ کیوں انکے والد نے ان پر سختی نہیں کی؟؟ "
" نہیں جی ، ایک تو انکی والدہ خود بڑی سخت مزاج اور اپنی مرضی کرنے والی عورت ہے  اس نے اسکے والد کی بات کو ذیادہ چلنے نہیں دیا، دوسرا انکا والد جب یہ پندرہ سال کے تھے تو فوت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد فرمان اور اسکے بھائی کی تنخواہ سے انکے گھر کا  خرچہ چلتا تھا۔ ان لڑکوں کو بھی سکولوں میں داخل کروایا گیا لیکن انہوں نے پڑھا  وڑھاکچھ بھی نہیں، کرکٹ ہی کھیلتے رہے۔ ابھی بھی انکا حال یہ ہے کہ فرمان کے بھائی کو جو پنشن ملی اس سے ایک کو دوبئی بھیجا گیا وہ دو  مہینے بعد واپس آگیا،  دوسرے کو ایک کیری ڈبا خرید کر دیا گیا وہ اس پر دوستوں کو لے کر گھومتا رہتا ہےاور انکے ساتھ   گاڑی میں بیٹھ کر چرس پیتا ہے۔ فرمان کا  بھائی صرف اس وجہ سے خوش  ہے  کہ اس کیری ڈبے کے پیچھے والے شیشے پر  اس لڑکے نے  فرمان خان جدون اور خرم خان جدون بڑا سا کرکے لکھوا یا ہوا ہے۔ اس سے یہ دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ گاڑی انکی  ہے"۔ فرمان کمرے میں داخل ہورہا تھا اسکو چھیڑنے کے لیے نواز نے قدرے اونچی آواز میں یہ جملے کہے ۔ وہ اسے گھورتے ہوئے  باہر نکل گیا۔
 میں سوچنے لگا یہ ہمارے معاشرے کے والدین کی سوچ کی دوسری انتہاء ہے ، ایک انتہاء وہ تھی کہ اپنے ذہن کے مطابق اپنے  بچوں کا اتنا 'خیال' رکھا ، ان پر  اتنی توجہ  دی کہ بچوں کو  اپنی مرضی سے کھل کر سانس بھی  نہیں لینے دیا، دوسری انتہاء یہ ہے کہ بچوں سے اتنی بے پرواہی  برتی اور انہیں  اتنی   آزادی دی  کہ انکی سانسیں گندی ہونے لگی ہیں۔
اچھا فرمان کی شادی بھی ہوئی،  اب اسکی بیگم کیوں ناراض ہے؟ میں نے نواز سے پوچھا
"اسکی بیوی ایک اچھے  گھرانے کی انتہائی شریف لڑکی ہے، یہ شادی بھی اسکے ماموں نے جو کہ علاقے کاناظم رہا ہے' کسی کو پتا نہیں کیسے راضی کرکے کروائی تھی۔ ورنہ اسکے تو جو حالات ہیں اسکو کوئی بکری بھی  نہ دیتا"۔ نواز نے بات میں سے مزاح کا پہلو نکالنے کی کوشش کی۔
"  وہ تین سال اسکے ساتھ رہی، حالت اسکی یہ  تھی کہ وہ سارا دن اکیلے ان سب بھائیوں کےکپڑے دھوتی،استری کرتی،  کھانا پکاتی ، اسکا بچہ پیدا ہوا پھر بھی اسی طرح دن رات انکے کام میں  لگی رہتی تھی ۔ اسکو دیا کیا جاتا تھا اسکی والدہ گلی کی  کونے والی کپڑوں کی  دکان  پر لگنے والی سیل  سے عید پر اسے ایک جوڑا خرید کر دے دیتی تھی، خود اسکے بھائی عیاشیاں کرتے اور بچے کو دودھ کی جگہ  پانی میں چینی ملا کر پلائی  جاتی تھی"۔
" اچھا نواز،  اس فرمان کا  اسکے ساتھ رویہ  کیسا تھا؟ میں نے کچھ سوچتے ہوئے ایک دم اسکی بات کاٹی۔
" یہ گھر ہی نہیں جاتا تھا جی ، سکول سے چھٹی ہوتی یہ کھانا کھا کر  کپڑے بدل کر دوبارہ سکول میں  آجاتا تھا، اس کے ساتھ یہ شاید ہی کبھی گھنٹہ بھی بیٹھا ہو،   رات یہیں گزارتا تھا ، اسکے علاوہ کبھی ہم نے اسے اپنا بچے کو اٹھائے اور پیار کرتے بھی  نہیں دیکھا۔ وہ لڑکی اتنی اچھی تھی کہ اس نے  کبھی اپنے گھر میں نہیں بتایا کہ اسکے ساتھ یہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک دن بیمار تھی ، اچانک  اس کا بھائی انکے گھر  آگیا وہ دوبئی میں  ہوتا ہے اس نے اسے اس حال میں دیکھا  تو اسکو لے کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب انکی یہ شرط ہے کہ فرمان اسکو علیحدہ رکھے تو وہ اس لڑکی کو بھیجیں گے ۔ لیکن فرمان کی ماں اسکو کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ فرمان کے ذریعے تو اسے چھے ہزار روپے ملتے ہیں ۔ تنخواہ ملتے ہی یہ دوڑ کر پیسے اسکے ہاتھ میں تھما  آتا ہے"۔
" یار نواز سارا مسئلہ یہی نہیں ہے، خود اس کے اپنے حالات بھی تو ٹھیک نہیں ہیں ،اپنے اوپر اعتماد اس میں نہیں ہے، ذہن اسکا کام نہیں کرتا،  کوئی مرد اسکو  ٹکٹکی باندھ کر دیکھے تو یہ شرمانے لگتا ہے ،فیصلہ کرنے کی قوت اس میں نہیں ہے، لکیر کا فقیر ہے،   یہ اس لڑکی کو اکیلے    کیسے  سنبھال سکے گا؟  
اتنے میں نواز کو پرنسپل صاحب نے آواز دی ،وہ انکی بات سننے  چلا گیا اور میں ظہر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل پڑا ، سارے راستے اور نماز میں بھی   میرے ذہن میں یہی باتیں گھومتی رہیں  کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں اس افراط وتفریط سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟  اپنے بچوں کے بارے میں انتہائی حد تک حساس رہنے والے ان  والدین کو کیسے سمجھایا جائے کہ صر ف اچھی تعلیم دلا دینے میں  ہی بچوں کی کامیاب زندگی  کی ضمانت نہیں ہے؟؟ بچوں کو  ہر وقت پابند کیے رکھنے  سے انکی تربیت نہیں ہوتی بلکہ  انکے اندر کی صلاحیتیں مرجاتی ہیں  ، انکی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے ۔ ۔  انکو سب کے سامنے مارنے سے انکے غلط کاموں کی اصلاح نہیں ہوجاتی بلکہ  انکی سیلف ریسپیکٹ ختم ہوجاتی ہے ، وہ باغی ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔  انکو ضرور پڑھائیے ، بری صحبت سے بھی  بچائیے لیکن خدارا انکی معصوم خواہشوں کا گلا نہ گھوٹیے ۔۔ ان کلیوں کو کھلنے دیجیے ،    انکو اپنے بچپنے کا اظہار کرنے دیجیے  ۔ ۔ ۔ اپنی  نظروں کے سامنے ہی سہی  لیکن  انکو  اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا  موقع دیجیے ۔ ۔۔  انہیں  اپنی مرضی سے گھومنے پھرنے دیجیے ۔ ۔ ۔انکو رشتہ داروں میں بیٹھنے کی اجازت   دیجیے تاکہ  ان کو بات کرنے کا،   ملنے ملانے کا سلیقہ آئے ۔ ۔   خدارا آپ اپنی زندگی جیسی کیسی گزار چکے  انکو زندگی کی  تنہاء گلی میں  نہ دھکیلیں    ۔ ۔ انکو  بولنے دیجیے کہ انکے   اندرکی  گھٹن  ختم ہو۔ ۔  انکو غلطیاں کرنے دیجیےکہ   انکو ان سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے ، اور یہ   صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں۔ ۔ ان پر اعتبار کیجئے،  انکے اچھے کاموں پر انکی  تعریف کیجئے، انکو   اپنی مرضی  کرنے، اپنے قدموں پر کھڑا ہونے دیجیے تاکہ   انکے اندر  خود اعتمادی پیدا ہو ۔ ۔ ۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 7 دسمبر، 2013

ایک ادبی واردات

ناول "جب زندگی شروع ہوگی"   سے ہمارا  پہلا تعارف   فیس بک  پر اس  کے متعلق چلنے والی تشہیری مہم سے ہوا  ۔ اس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ  ناول میں  ایک علامتی کہانی کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں  روز آخرت کی منظر کشی کی گئی  ہے او ر اس نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں۔ ناول خریدا  لیکن ان دنوں کچھ مصروفیت تھی اس لیے  ناول کو چند جگہ ہی سے پڑھنے کا موقع ملا ،  جتنا پڑھا   اسکو دیکھتے ہوئے دوستوں کی یہ  با ت درست لگی کہ   مصنف نے قیامت کے حالات  کی زبردست منظر نگاری کی ہے ، بہت سی جگہوں پر  باطل نظریات  کی تدسیس بھی نظر آئی لیکن مصنف سے حسن ظن   ،  دوستوں کی تجویز پر اعتبار اور  قیامت کے حالات کے  حکایتی انداز  میں بیان نے اسے  نظر انداز کرنے پر مجبور کردیا ۔  ناول کا حکایتی انداز  ہماری اس خواہش کے مطابق تھا جس کا اظہار ہم اکثر اپنے لکھاری دوستوں سے کرتے رہتے  ہیں   کہ دیندار اور نظریاتی اہل قلم کو " حکایتی ادب" کی طرف  بھی آنا چاہیے۔ قرآن و حدیث  میں ایسے دلچسپ قصص کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن سے باتوں باتوں میں انسان بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ اس لیے  اس   ناول   کی تعریف میں اپنے بلاگ پر ایک تحریر بھی  لکھ کر پوسٹ کرڈالی ، ہماری اس تحریر سے   ناول کی بہت پروموشن ہوئی، تحریر کئی سائیٹس پر شئیر ہوئی، خود ہمارے بلاگ پر  ہزار کے قریب لوگوں نے پڑھی اور اس ناول کو  ڈاؤنلوڈ کیا ۔ 
  چند ماہ پہلے   اسی   ناول کے مصنف کی سائیٹ کو دیکھتے ہوئے اس پر کچھ عجیب وغریب نظریات  کی حامل  تحریرات  پر نظر پڑی  ، بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی ، ایک دیکھی، دوسری، تیسری ۔ ۔ ۔سارا غامدی مذہب ایک نئے اسلوب کیساتھ نظر آیا،   پہلی فرصت میں ناول دوبارہ پڑھنے کی ٹھانی، جب پڑھنا شروع کیا  تو حیرانگی بھی ہوئی اور اپنے اوپر غصہ بھی آیا  کہ  ناول کے متعلق ہم نے  تحقیق کیوں نہ کی ، ایک مجہول رائٹر کے ناول  کو صرف حسن ظن کی بنیاد پر تحریری شکل میں  آگے تجویز کیوں کیا۔۔اسی دن سے  یہ عزم  کیا کہ آئندہ  جب تک کسی مصنف یا مقرر کا علمی نسب اور سند معلوم نہ ہو جائے ، اسے پڑھنے ،  سننے  اور آگے تجویز کرنے سے  گریز کروں گا اور اس  ناول اور اسکے مصنف کی پوری تحقیق کرنے کے بعد  اپنی غلطی کا ازالہ بھی  کروں گا ۔ اسی کوشش میں مصنف کا علمی حسب ونسب اور نظریاتی مسلک ومشرب معلوم کرنا شروع کیا ،ویب سائیٹ اور فیس بک پر پیغام بھیجا لیکن مصنف کی تعریف اور تعارف سے آگاہی نہ  ہوئی  ۔ جیسے جیسے شکوک وشبہات بڑھتے گئے ، ویسے ویسے اس گمنام و مجہول مصنف کی نقاب کشائی کا شوق بھی  بڑھتا گیا۔ آخر انہوں نے ہماری ایک میل کا جواب دے ہی دیا  اور  یہ عقدہ کھلا کہ آں محترم  دراصل ، فضیلت   الشیخ جناب جاوید احمد  صاحب الغامدی  کے شاگرد  محترم ریحان احمد یوسفی صاحب ہیں۔ آنجناب غامدی صاحب کی  سائیٹ'  المورد'  پر مفتی کا منصب بھی  سنبھالے ہوئے ہیں اور   غامدی  فقہ کی   روشنی میں سوالوں کا جواب دیتے رہتے  ہیں۔
 غامدی صاحب کے ہونہار شاگردوں نے  انکے  مسلک  کی   ترویج  و اشاعت کے لیے مختلف  طریقوں اور راستوں کا انتخاب کیا ہے ، انکے ایک  شاگرد  نے غامدی صاحب کے نظریہ جہاد   کی اشاعت  کے لیے  یہود  کے  ایک منظورنظر فرضی مجاہد   کی انگریزی میں  لکھی گئی سوانح عمری   کا  اردو   ترجمہ کیا  اور   اسے  اپنا نام درج کیے بغیر کتابی شکل میں شائع کروایا،  لیکن   ذیادہ دیر چھپے نہ رہ  سکے اور بتوں کی اس عاشقی میں عزت سادات سے بھی ہاتھ دھوئے۔  اسکے بعد  انہی کے ہم مکتب وہم مشرب جناب ریحان احمد یوسفی صاحب   نے غامدی  نظریات خصوصا  نظریہ  جہاد کو ہی  ایک ناول کے ذریعے اسی مخصوص ''نقاب پوش'' انداز میں   پیش کیا ۔  
 ویسے  تو ناول  کے مشکوک ہوجانے کے لیے اوپر دی گئی ڈیٹیل   ہی کافی تھی لیکن  پھر بھی ہم نے   ناول میں قیامت کے حالات کے تذکرے   میں گھول کر پلائے گئے مخصوص نظریات کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھا ہے ۔
 غامدی صاحب  کےعجیب وغریب اور متضاد دینی  نظریات،  قرآن وحدیث و فقہی  مسائل کی تشریحات  میں   بلاوجہ کی  جدت پسندی، تلبیسات   کی پچھلے چند سالوں میں  جو حقیقت کھلی   اس  کا یہ اثر ہواکہ وہ ایک  مخصوص طبقے تک محدود ہوکر رہ گئے، وہی انکو سنتا اور پسند کرتا ہے۔ یہ بات خود غامدی مکتب بھی جانتا ہے اس لیے اس  ناول کے مصنف   نے اپنے شیخ  کی اس  بری شہرت  کے اثر سے  اپنے ناول کو بچانے اور جو غامدی مکتب کو پسند نہیں کرتے ان   کو بھی   یہ ناول پڑھوانے کے لیے   ایک  چال چلی ۔ انہوں نے ناول اپنے اصلی نام  کیساتھ چھپوانے کے بجائے  ایک جہادی   اور عربی ٹائپ  کی کنیت سے   چھپوایااور  " صاف  چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں" والی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے  غامدی صاحب کے  گمراہانہ تصورات ایسے طریقے سے گول کر پلائے کہ بہت  سے  انکے مخالف طبقہ کے لوگ بھی    انہیں  باآسانی ہضم کرگئے۔ یہی طریقہ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا انکے ایک اور دوست استعمال کرچکے  ہیں،  تعجب اور لطف کی بات یہی نہیں کہ طریقہ واردات غامدی صاحب کے ان دونوں شاگردوں کا   ایک جیسا  ہے ، بلکہ روداد واردات  بھی ملتی جلتی ہے۔ جو کارنامےاس فرضی  الجزائری مجاہد کے تھے وہی" جب زندگی شروع ہوگی " نامی اس ناول نما  داستان کے ہیرو کے ہیں۔ اس نیم اسرائیلی نیم اسلامی قصے کا مرکزی کردار عبداللہ نامی ایک نوجوان ہے، جو تمام وہ کام کرتا ہے جو "عظیم جہادی شخصیت"  امیرالجزائر کی مغرب میں وجہ محبوبیت کا باعث ہیں۔

حملہ آوریہودی دشمن اورسپرپاور سے ٹکراؤ سے بچنے کی ترغیب:۔

پہلا نظریہ جو ناول نگار کے خیال میں مجاہدین اور دیندار عوام کو اپنانا چاہیے وہ  یہ ہے کہ    سپرپاور کی غلامی  پر" راضی برضا" رہتے ہوئے اس سے ٹکرانے سے  بچیں،    اپنا نماز روزہ کرتے رہیں، دعوت دیتے رہیں ،  اس کے خلاف بغاوت کا سوچیں بھی نا۔ مصنف   صالح نوجوان کے ذریعے  نئی نسل کی " اصلاحی  و فراہی" ذہن سازی  کرتے ہوئے  عالمی طاغوتوں کے خلاف جہاد  کا خیال  دل سے نکالنے  کی جابجا ترغیب  دی ہے ۔ ایک جگہ   اپنا نظریہ جہاد بنی اسرائیل   کے ایک غیر معروف  نبی  کی زبان سے  پیش  کیا ہے ۔ مصنف  ناول کے ہیرو'عبداللہ'   کی  صالح نامی فرشتے کی معیت میں بنی اسرائیل کے ایک نبی سے ملاقات کا حال بیان کرتا ہے۔ عبداللہ کہتا ہے : 
" یرمیاہ نبی کے حالات اور زندگی میں میرے لیے ہمیشہ بڑی رہنمائی رہی ۔ مجھے  ان سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے ۔ ۔جس وقت حضرت یرمیاہ کی بعثت ہوئی بنی اسرائیل اس دور کی عظیم سپر پاور عراق کی آشوری سلطنت اور اس کے حکمران بخت نصر کے باج گزار تھے۔ اس دور میں  بنی اسرائیل کا اخلاقی زوال اپنی آخری حدوں کو چھورہا تھا۔ ان میں  شرک عام تھا۔ زنا معمولی بات تھی۔ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یہ لوگ بدترین ظلم و ستم کا معاملہ کرتے۔ سود خوری اور غلامی کی لعنتیں عام تھیں۔ ایک طرف اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف سیاسی امنگیں عروج پر تھیں۔ ہر طرف بخت نصر کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھایا جارہا تھا۔ ان کے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ اس سیاسی محکومی سے نجات مل جائے۔ قوم کی اصلاح، اخلاقی تعمیر، ایمانی قوت جیسی چیزیں کہیں زیر بحث نہ تھیں۔ مذہب کے نام پر ظواہر کا زور تھا۔ ایمان و اخلاق اور عمل صالح کی کوئی وقعت نہ تھی، ایسے میں حضرت یرمیاہ اٹھے اورانہوں نے پوری قوت کے ساتھ ایمان واخلاق کی صدا بلند کی۔ انہوں نے اہل مذہب اوراہل سیاست کو ان کے رویےپر تنقید کانشانہ بنایا۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، شرک اوردیگر جرائم پر انہیں متنبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی قوم کو سختی سے اس بات پر متنبہ کیا کہ وہ بخت نصر کے خلاف بغاوت کاخیال دل سے نکال دیں۔ انہیں سمجھایا کہ جذبات میں آکر انہوں نے اگر یہ حماقت کی توبخت نصر قہر الہی بن کر ان پر نازل ہو جائے گا۔۔ مگر ان کی قوم باز نہ آئی۔ اس نے انہیں کنویں میں  الٹا لٹکادیا اور پھر جیل میں  ڈال دیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے بخت نصر کے خلاف بغاوت کی۔ جس کے نتیجے میں  بخت نصر نے حملہ کیا۔ چھ لاکھ یہودیوں کو اس نے قتل کیا اور چھ لاکھ کو غلام بناکر ساتھ لے گیا۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ پورا شہر خاک و خون میں  بدل گیا۔ '' (ص: 60-62،    197-199)

1. مصنف نے اس تاریخی واقع کو صرف اپنی بات پیش کرنےکے لیے  بالکل بدل کر پیش کیا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ   یرمیاہ بخت نصر کے آنے سے پہلے بنی اسرائیل کو دعوت دے چکے تھے  اور  بنی اسرائیل کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی گئی وہ باج گزاری کے دور میں بخت نصر کی   بغاوت   کرنے کی  وجہ سےبالکل  نہیں تھی . یہود حملے سے پہلے   بخت نصر کے باج گزار تھے ہی نہیں،  نہ اس  سے پہلے انکا اس کے ساتھ کوئی تعلق   تھا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں  بیان کیا ہے  اور یہ بتایا ہے  کہ حملہ آور لوگ دراصل قہر الٰہی تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے زمین پر فساد مچارکھا تھا۔
2. مصنف نے   خصوصی طور پر بنی اسرائیل  کے  ایک غیر معروف نبی یرمیاہ کو چنا،  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کو   ایک  اس غیر معروف نبی  کی زندگی میں ہی رہنمائی کیوں نظر آئی اور اس سے ملنے کا اشتیاق کیوں  ہوا؟ حضرت موسی و ابراہیم  علیہ السلام  کے حالات زندگی میں عبداللہ کے لیے   راہنمائی کیوں نہیں تھی ؟  کیا اس لیے کہ انہوں نے   نبوت ملتے ہی وقت کے ظالم حاکم کے خلاف کلمہ حق کہا؟ دوسری بات' جہاد کے بجائےدعوت'( جس پر مصنف نے فوکس کرتے ہوئے موجودہ دور کی کفر کے خلاف برسرپیکار جہادی تنظیموں اور لوگوں  پر طنز کی)  کیا ان  دونوں پیغمبروں نے کلمہ حق بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی   قوموں کو ذاتی اصلاح کی دعوت نہیں دی تھی ؟  موسی کے بجائے یرمیاہ  کو منتخب کرنے کی وجہ شاید یہی ہے کہ  موسی علیہ السلام کے حالات بالکل واضح ہیں اور مصنف کے  لیے   ان  کی آڑ میں    اپنے مخصوص نظریات کو پیش کرنا ممکن  نہیں  تھا ۔ موسی علیہ السلام اور انکے حالات قرآن  نے بیس سے زائد مقامات پر  تفصیل سے بیان  کیے ہیں    اور ان  سے یہ  واضح ہے کہ  وہ نہ صرف قوم  کو اصلاح کی دعوت دیتے رہے  بلکہ ساتھ ساتھ  وقت کی سپر پاور کے خلاف  نفرت کو بھی کم نہیں ہونے دیا اور مناسب موقع ملتے  ہی بغاوت کردی ، اس بغاوت کے وقت بھی انکی قوم کی دینی حالت  کوئی اتنی اچھی نہیں تھی ، قرآن خود بتاتا ہے کہ   جب حالت ایسی بن گئی کہ  آگے سمند ر اور پیچھے فرعون کا لشکر  آگیا، بنی اسرائیل  کہنے لگے موسی ہم تو پکڑے گئے۔۔ !! فرعون سے نجات ملنے کے بعد  بھی انکے اعمال کیسے تھے اس کابھی قرآن میں کئی جگہ تذکرہ موجود ہے۔۔ یرمیاہ نبی کے حالات پہلے تو اتنے واضح نہیں ہیں   جس کی وجہ مصنف کا انکو اپنی مرضی کے انداز سے بیان کرنا آسان ہے ،دوسرا ان کے دور میں یہود  کسی   بادشاہ  کے ظلم کا شکار تھے ہی نہیں اس لیے  ان  کی تعلیمات میں  ایسی  بات کا تذکرہ  بھی  نہیں ہے جو سپرپاور کے خلاف کھڑے ہونے پر ابھارتی ہو ۔
3. مصنف نے اس ناول پر  کیے گئے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی   اپنی  ایک  کتاب 'تیسری روشنی' میں لکھا کہ   مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ  اللہ نے بھی قصص القرآن میں  یرمیاہ نبی کے واقع کو اسی طرح  بیان فرمایا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا   تاریخ انبیاء پر  مستند ترین سمجھی جانے والی اس کتاب    میں بھی   کیا واقعی ایسے ہی لکھا ہے کہ  یہود  پر ذلت اس لیے مسلط ہوئی تھی کہ انہوں نےباج گزاری کے دور میں    اپنی اصلاح کرنے کے بجائے  بخت نصر کے خلاف جہاد شروع کردیا تھا  ؟ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی  رحمہ اللہ نے بنی اسرائیل کے اس دور کا تذکرہ بیس سے زائد صفحات میں کیا ہے،  اسکا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں: 
سورۃ  بنی اسرائیل کے شروع میں  بتایا گیا ہے کہ  یہود کی دونوں دفعہ شرانگیزیوں پر بصورت عذاب  جابر و قاہر بادشاہوں بخت نصر اور طیطوس کو مسلط کیا گیا انہوں نے دونوں مرتبہ یروشلم کو تباہ برباد کیا ۔ حضرت داؤد وسلیمان علیہ السلام کے بعد پہلی مرتبہ  'جب  انکی مذہبی اور اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ جھوٹ فریب  ظلم و سرکشی اور فساد وفتنہ انگیزی ا انکا شعار بن گئے تھے  حتی کہ شرک و بت برستی تک ان میں رچ گئی تھی اللہ نے اسکے باوجود ان  کو مہلت دی،  نبی بھیجنے   کا سلسلہ جاری  رکھا  مگر یہود  انکی دعوت پر ایمان لانے  کے بجائے انتہائی شقاوت و بدبختی پر اتر آئے اور خدا کے انہی معصوم پیغمبروں  کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ یرمیاہ نبی کی کتاب اسکا تذکرہ کرتی ہے  " اور ایسا ہوا کہ جب یرمیاہ ساری باتیں کہہ چکا جو خداوند نے اسے حکم دیا تھا کہ ساری قوم سے کہے تب کاہنوں اور نبیوں ( جھوٹے مدعیان نبوت) اور ساری قوم نے اسکو پکڑا اور  کہا کہ تو یقینا قتل کیا جائے ۔(باب 21 آیات1)تب یکایک  غیرت حق نے قہر اور بطش شدید کی شکل اختیار کرلی اور اسکا زبردست ہاتھ انکی جانب پاداش عمل کے لئے بڑھا ۔ چنانچہ  بابل  کا ایک جابر حاکم  بنو کدزار  عرب اسکو بخت نصر کہتے تھے انکی جانب بڑھا، جب یہوداہ کی سرزمین کے باشندوں نے یہ سنا تو انکے ہوش و حواس جاتے رہے اور بادشاہ سے لے کر رعایا تک سب کو موت کا نقشہ نظر آنے لگا اور  اب وہ سمجھے کہ یسعیاہ اور یرمیاہ نے ہماری بدکاریوں پر متنبہ کرتے ہوئے جس سزا اور عذاب الہی کا ذکر کیاتھا اور جس سے ناراض ہوکر  ہم نے یرمیاہ کو قید  خانہ میں ڈال رکھا ہے وہ وقت آپہنچا  مگر شومی قسمت انہوں نے اس کے باوجود  نہ  نبی کو قید خانہ سے نکالا  نہ اللہ  طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے گناہوں پر توبہ  کی  بلکہ  اپنی مادی طاقت ، اسباب ووسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے شاہ بابل کی مقاومت کے لیے آمادہ ہوگئے پھر  نتیجتا انکو تباہ وبرباد کردیا گیا ۔ 
اس ساے خلاصے سے   یہ   بات بالکل واضح  ہے جو ہم نے اوپر بھی بیان کی کہ یہود نہ بخت نصر کے باج گزار تھے اور نہ   یرمیاہ نے انہیں بخت نصر کے خلاف بغاوت کرنے  سے روکا تھا ، بلکہ بنی اسرائیل  پہلے سے مسلسل فساد کے مرتکب تھے جن کی انکو ظالم بادشاہ مسلط کرکے سزا دی گئی تھی،  جیسا کہ  مشہور مفسرقاضی بیضاوی رحمہ اللہ  یہود کی شرانگیزیوں کے متعلق لکھتے  ہیں  کہ ان پر یہ تباہیاں اس وقت لائی گئیں جبکہ وہ اپنی شرات  میں اس درجہ بڑھ گئے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کے قتل سے بھی باز نہیں  رہتے تھے ۔ (بیضاوی سورۃ السری)

صفحہ نمبر 199 
"میں  اسی سوچ میں  تھا کہ صالح نے غالباً میرے خیالات پڑھ کر کہا:’’ٹھیک یہی کام تمھارے زمانے میں  تمھاری قوم کررہی تھی۔ وہ علم، تعلیم، ایمان، اخلاق میں  بدترین پستی کا شکار تھی، مگر اس کے نام نہاد رہنما اسے یہی سمجھاتے رہے کہ ساری خرابی وقت کی سپر پاورز اور ان کی سازشوں کی وجہ سے ہے۔ ایمان و اخلاق کی اصلاح کے بجائے سیاسی غلبہ اور اقتدار ہی ان کی منزل بن گیا۔ ملاوٹ، کرپشن، ناجائز منافع خوری، منافقت اور شرک قوم کے اصل مسائل تھے۔ ختم نبوت کے بعد ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا بھر میں  اسلام کا پیغام پہنچاتے، مگر ان لوگوں نے قوم کی اصلاح اور غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے بجائے غیرمسلموں سے نفرت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ان کے خلاف جنگ و جدل کا محاذ کھول دیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بخت نصر کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی طرح انھوں نے بھی اس عمل کا برا نتیجہ بھگت لیا۔‘‘
ناول کا ہیرو 'عبداللہ' ایک فلسطینی ہے   اور فلسطینی  مسلمان  پچھلے پچاس،  ساٹھ  سالوں سے اسرئیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، ناول میں  یرمیاہ، یہود اور بخت نصر   کی خودساختہ داستان بیان کرنے کے بعد عبداللہ اورقارئین کو  یہ سمجھایا جارہا ہے کہ   حملہ  آور ظالم کے خلاف اٹھنا جہاد نہیں  بغاوت ہے۔  مصنف اور انکے شیخ اکبر  نے  اپنی دوسری کتابوں میں بھی ایسی کسی حرکت کو اپنے جد امجدسرسید احمد خان کی طرح بغاوت ہی لکھا ہے۔ مصنف کا یہاں بھی  سارا زور اسی پر ہے کہ انہیں اسرائیل کے خلاف جہاد نہیں کرنا چاہیے ،  چاہے وہ انکی عورتوں کی بے حرمتی   کریں  یا  انکے  بچوں، بوڑھوں کو ذبح کریں ،  انکی بستیاں اجاڑ  دی جائیں یا  انہیں ویرانوں میں یا کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا جائے    اور  پھر انہی کیمپوں پر ٹینک چڑھا دیے جائیں  ،  انکو بس نماز روزہ میں لگے رہنا چاہیے ، دعوت کا کام ہی کرتے رہنا چاہیے ،   یہی اصل   شہادت ہے ، ظلم کے خلاف بالکل  آواز نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ یرمیاہ نبی  نے اس سے منع کیا تھا اور یہود کو ایسا کرنے  کی ہی سزا ملی تھی۔ ۔ ۔
حالانکہ   اس دور کےیہود کا  موجودہ دور  میں مسلمانوں کے مختلف ممالک  فلسطین ،  افغانستان،عراق وغیرہ میں اپنے اوپر حملہ  دشمن  کے خلاف برسرپیکار جہادی تحریکوں کے ساتھ موازنہ کسی صورت  بنتا ہی نہیں ،  وہ بت پرست ، نبی کو قید میں رکھ کر  میدان میں آئے  تھے ،  جبکہ موجودہ فلسطینی یا افغانی جہادی لوگ ایسی کسی برائی کا شکار نہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا  فلسطینی، عراقی یا افغانی  قوم یہود کی طرح کی تمام برائیوں کا شکار ہے؟؟  یہ  اس لیے پس رہے ہیں  کہ انہوں نےیرمیاہ کے دور کے  یہود کی طرح باطل کے خلاف جہاد  شروع کیا ہوا ہے ؟ ؟؟ کیا حملہ آور دشمن کے خلاف بھی  جہاد فرض نہیں ؟؟  کیا  چپ کرکے مارکھاتے رہنا مسئلہ کا حل ہے؟ کیا یاسرعرفات کے اس سلسلے کے  کمپرومائزز نے فلسطینی قوم کو کوئی فائدہ دیا ؟
 ایک بات واضح کرتا چلوں   کہ   ہمیں اصلاح احوال کی دعوت دینے پر بالکل  کوئی اعتراض نہیں ہے  ، قارئین کو اصلاح احوال کی طرف سے متوجہ کرنا   اپنی جگہ بالکل درست  ہے، لیکن  اصلاحی دعوت کو آڑ بناتے ہوئے عالمی ظالموں ، بدمعاشوں  کے خلاف مزاحمت  کا خیال دل سے  نکالنے کی کوشش کرنا بالکل  غلط اور  انہی دہشت گردوں کی  مدد  کرنے اور انکی نمائندگی کرنے  کے مترادف ہے۔ اپنی اصلاح اور دعوت  کیساتھ   ضرورت کے وقت جہاد  لازم ملزوم  ہے  اسی سے ظالم  کے خلاف اللہ کی مدد آتی ہے۔  
 باطل  کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ  اس کے رنگ  ہر دور میں بدلتے ہیں ، اب یہ روشن خیال ، تجدد پسندطبقہ کے لوگ     ہمیں  اپنے مادی وسائل  پر اعتبار کرنے  اور سیاست، اسلحہ،  ٹیکنالوجی کی دوڑ وغیرہ  میں لگنے کے بجائے نماز روزہ، تبلیغ  کرنے کی دعوت دے رہے ہیں  حالانکہ   جب  ا مریکہ نے افغانستان پر حملہ  کیا تھا  تو جو لوگ رجوع الی اللہ اور جہاد کی بات کرتے تھے ، یہی   غامدی   مکتبہ فکر  کے لوگ  انکو طعنے دیتے تھے  اور یہ  دلیلیں دیتے نظر آتے تھے  کہ  ہمارے پاس امریکہ  کے برابر کی ٹیکنالوجی اور ہتھیار نہیں ، وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا، افغان طالبان بیوقوف ہیں جو ان وسائل کے بغیر جہاد کا نعرہ لگا کر سپرپاور سے ٹکر لے رہے ہیں ، پہلے ان جیسی دفاعی قوت  پیدا کرو پھر ان سے لڑو۔ ایک صاحب جو غامدی صاحب کے بہت پرانے پرستار ہیں  انہوں  نے ہمارے ساتھ اس مسئلہ پر کافی لمبی بحث بھی کی تھی جو یہاں موجود ہے ۔
ریحان یوسفی عرف ابویحیی  صاحب نے   ناول میں   ناصرف  جہاد چاہے وہ دفاعی ہی  کیوں نہ ہو'کی   مذمت کی ہے      بلکہ جنت میں   شہداء کے  عام منصب پر بھی  صرف  انہیں دکھایا ہے  جو بس   لوگوں کو  دین کی دعوت  دیتے رہے۔ایک اور موقع پر صالح عبداللہ کی بیوی ناعمہ کو بتاتا ہے ۔
" اب آخر  میں سارے انبیاء  اور شہداء پیش ہونگے"۔" کیا شہید وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ  میں قتل ہوئے "؟ ناعمہ نے صالح سے سوال کیا: " نہیں وہ شہداء نہیں۔ وہ بھی بڑے اعلی اجر کے حقدار ہوئے ہیں ، مگر  یہ شہداء حق کی گواہی دینےو الے لوگ ہیں۔ یعنی انہوں نے انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کے بعد انکی دعوت کو آگے پہنچایا۔" (ص :210)
 اسی طرح ایک اور جگہ حوض کوثر کے " وی آئی پی لاؤنج" میں انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ ہے، مگر اس میں سے قرآنی تصریح کے برخلاف شہداء کا ذکر سرے سے غائب کردیاگیاہے۔مصنف نے  بڑے طریقے سے دعوت اور جہاد کو مکس کرتے ہوئے مسئلہ  کو کنفیوز اور قارئین  کو گمراہ  کرنے کی کوشش کی ہے۔

من گھڑت  نظریات :۔

ناول میں  مذہب کے حوالے سے بھی  کئی متجددانہ   نظریات باتوں باتوں میں سادہ لوح قارئین کے دل ودماغ میں جاگزیں کیے گئے  ہیں ۔

کسبی نبوت :۔

 ایک  جگہ مصنف  نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ  نبوت وہبی نہیں کسبی شے ہے۔ جن انسانوں نے اپنے اختیار سے امتحان کا سخت پرچہ چنا انہیں اللہ نے نبی بنا دیا، ملاحظہ فرمائیں  صالح کہتا ہے۔
"اس میں  بھی خدا کی کریم ہستی نے کمال عنایت کا مظاہرہ کیا تھا۔ تم جانتے ہو کہ دنیا میں  سب کا امتحان یکساں نہیں ہوتا۔ یہ امتحان بھی اس روز ہر شخص نے اپنی مرضی سے چن لیا تھا۔" پھر اس نے اس طویل گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
’’اصل اصول جوتمام اقسام کے گروہوں میں کام کررہا ہے وہ ایک ہی ہے۔ زیادہ رہنمائی، زیادہ سخت حساب کتاب اور زیادہ بڑی سزا جزا۔ کم رہنمائی، ہلکا حساب کتاب، کم سزا جزا۔ مگر کسی انسان کا تعلق کس گروہ سے ہے اس کا انتخاب انسانوں نے خود کیا ہے،اللہ تعالیٰ نے نہیں"۔( ص:81)
یہ   اجماع امت کے خلاف ایک ایسا گمراہ کن نظریہ ہے جو عقیدہ رسالت کی  بنیاد ڈھا دیتا ہے۔ تقریبا یہی  وہ قادیانی  گمراہ کن نظریہ ہے  جس کے مطابق مرزا قادیانی تو  اپنی ریاضت اور محنت سے نبی بن گیا  اور عمر اور ابوبکر نہیں بن سکے۔

سلف صالحین   کی پیروی کی مخالفت:۔

  کئی جگہ کتاب کے مکالموں میں نوجوانوں کو مسلک پرستی ، فرقہ پرستی کی مذمت کی  آڑ میں سلف صالحین  سے مستغنی ہو کر براہ راست خداپرستی کی ترغیب دی گئی ہے۔ایک موقع پر (معاذ اللہ) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ناول کے ہیرو  عبداللہ کو وجہ  بتاتے ہیں کہ  اسے  ہی اسکے  زمانے کے تمام لوگوں میں  بلند درجہ  کیسے ملا؟
" دیکھو عبداللہ ! اس مجمع میں ہر شخص کا انتخاب اللہ تعالی نے کیا ہے۔ جانتے ہو  کہ اس کے نزدیک انتخاب کا معیار کیا ہے؟" میں خاموشی سے ان کی شکل دیکھنے لگا۔ انہوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔"تعصبات ، جذبات اور خواہشات سے بلند ہوکر جس شخص نے حق کو اپنا مسئلہ بنالیا  اور توحید و آخرت  کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا  وہی اللہ کے نزدیک اس شہادت کے کام  کے  سب سے ذیادہ حقدار ہیں ۔ دیکھو تمہارے زمانے کے مذہبی لوگ خواہشات سے تو شاید بلند ہوگئے تھے ، مگر  ان کی اکثریت تعصبات اور جذبات سے بلند نہیں ہوسکی۔ لوگ مختلف فرقوں اور مسالک کے اسیر تھے ۔(ص:151)
فرقہ واریت کی نفی کرنا ٹھیک ہے لیکن  مصنف نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے امت مسلمہ کے اجماعی فقہی مسالک   کے پیروکاروں کو تعصبات،  جذبات    اور خواہشات  میں پھنسے ہوئے لوگ کہا  ہے   اور ان   سے بالاتر ہوکر اپنے طور پر حق کو اپنانے کی فضیلت سنائی ہے ۔۔ اس بات  پر کیے گئے کسی کے اعتراض  کے جواب میں مصنف اپنی کتاب  تیسری روشنی  صفحہ نمبر 74 پر لکھتے ہیں  کہ اس میں سلف صالحین سے تعلق  کی نفی نہیں کی گئی ۔اب شاید  امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی  یا تو  مصنف کے نزدیک سلف صالحین میں شامل ہی نہیں ہیں یا     ان سے اتنا ہی تعلق رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے جتنا مصنف اور اسکے شیخ اکبر  غامدی صاحب  کا ہے، صاحب  ایک جگہ لکھتے ہیں   کہ ہم لوگ تقلید (سلف صالحین کی پیروی)کے قائل نہیں، دین پر براہ راست غور کرتے ہیں اور قران و سنت کے علاوہ اخلاقی اصولوں کی روشنی میں کسی بھی مسئلہ پر غور اور مکمل احاطہ کے بعد رائے قائم کرتے ہیں، اسی طرح ایک  اور جگہ لکھتے ہیں  اجتہاد کے کوئی شرائط نہیں ہیں، لوگوں کو اجتہاد کرنا چاہیے، ان میں سے ایک غلطی کرے گا تو دوسرے کی تنقید اسے درست کر دے گی۔!!!

جدید جنتی معاشرت و اخلاقیات:۔

ناول کے مصنف کا  دعوی ہے کہ یہ ناول قرآن و حدیث کی  روشنی میں لکھا گیا  ہے  جبکہ حقیقت میں   ناول  میں ایک جگہ بھی جنتیوں  کے طرز عمل، اخلاق اور  اٹھنے بیٹھنے  کے متعلق  قرآن و حدیث کے بیان  سے  مدد نہیں لی گئی ، ہر  جگہ غیر سنجیدہ اور وقار کے منافی عادات و حرکات جنتیوں سے منسوب کی گئی ہیں۔ ناول میں بیان کی گئی جنتیوں کی معاشرت کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ   اس میں سوئزلینڈ  ٹائپ کی  جنتیوں کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔  ملاحظہ فرمائیں کیسی   چھچھوری حرکات  اہل جنت کی طرف منسوب کرکے  قارئین کو دنیا میں اس جنت  کا نمونہ قائم کرنے کی بین السطور ترغیب دی جارہی ہے۔ 

حشر کے میدان  میں سیٹیاں، تالیاں اور رقص :۔

"جس وقت کوئی شخص پیش ہوتا، اس کے زمانے کے سارے حالات، اس کے مخاطبین کی تفصیلات، لوگوں کا ردعمل اور اس کی جدوجہد ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا جاتا۔ سامعین یہ سب سنتے اور اسے داد دیتے۔ آخر میں  جب اس کی کامیابی اور سرفرازی کا اعلان ہوتا تو مرحبا اور ماشاء اللہ کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ اہل جنت تالیاں بجاتے، بعض اٹھ کر رقص کرنے لگتے اور بعض سیٹیاں اور چیخیں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔"
غور کیجیے ! سابقین اولین اور انعام یافتہ مقربین کی محفل اور اس میں تالیاں، رقص، سیٹیاں اور چیخیں..!!! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  حشر کا میدان نہیں کسی  کالج  کی تقسیم انعامات کی تقریب منظر ہے ۔

نا محرم لڑکیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنا :۔

 صالح نوجوان  جابجاغیر محرم لڑکیوں  کے ساتھ مذاق کرتااور  گپیں مارتا نظر آتاہے۔ ملاحظہ فرمایئے:
''میں اسی سوچ میں تھا کہ نحور نے میر ی بات کاجواب دیتے ہوئے کہا : '' ان شاء اللہ ان سے بھی جلد ملاقات ہوجائے گی، مگر سرد ست تو میں آپ کسی اورسے ملواناچاہتاہوں ''۔ یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے الگ ہوئے اورخیمے کی طرف رخ کر کے کسی کو آواز دی : ''ذراباہر آنا ! دیکھو تو تم سے کون ملنے آیاہے ؟''نحور کے آواز کے ساتھ ایک لڑکی خیمے سے نکل کر ان کے برابر آکھڑی ہوئی۔ یہ لڑکی اپنے حلیے سے کوئی شہزادی اور شکل وصور ت میں پر ستان کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ (ص:62)
میں  شائستہ کی سمت سے اس کے قریب پہنچا اور زور سے کہا:’’اے لڑکی! چلو ہمارے ساتھ۔ ہم تمھیں ایک نامحرم مرد کے ساتھ گھومنے پھرنے کے جرم میں  گرفتار کرتے ہیں۔‘‘شائستہ میری بلند آواز اور سخت لہجے سے ایک دم گھبراکر پلٹی۔ تاہم نحور پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے اطمینان کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہا:’’پھر تو مجھے بھی گرفتار کرلیجیے۔ میں  بھی شریک جرم ہوں۔‘‘، یہ کہتے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ آگے پھیلادیے۔ پھر ہنستے ہوئے کہا:’’مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نہ جیل ہے اور نہ سزا دینے کی جگہ۔   ـ
(صفحہ 194)
 ناول کا ہیرو (جو صدیقین میں سے ہے) اور انبیاء کے صحابہ کے   جگہ جگہ  نامحرم لڑکیوں کیساتھ  اختلاط ، آزادانہ فقرہ بازی کے ایسے ایسے  مناظر دکھائے گئے ہیں  کہ قاری کو  محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ آخرت کامنظر   نہیں  روشن خیالوں کے کسی فنکشن  کا منظر ہے  یا  کسی رومانٹک انڈین فلم کا  کوئی سین چل رہا ہے۔ قاری کے جنسی جذبات کو مشتعل کرنے  کے لیے وہی رومانوی ناولوں ،  کہانیوں اور ڈراموں  والا انداز جنت کے ان مناظر میں بھی اختیار کیا گیا اورلیلی مجنوں طرز  کے  بازاری   عشق  کو قرآن و حدیث کے نام پر جنتیوں کے ذمے لگا دیا گیا ہے ۔ 

مخلوط محافل اورموسیقی :۔ 

پردے سے مستثنی قرار دیے جانے کے بعد مخلوط محفلوں اور موسیقی کے جواز کی باری آنی چاہیے۔ مصنف نے باتوں باتوں میں موسیقی اورمخلوط محفلوں کے حوالے سے محتاط ذہن سازی کی ہے، اس کی داد نہ دیناناانصافی ہوگی۔
 ''تاروں کی دودھیار وشنی اورٹھنڈی ہوامیں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے فضا کوبے حد مؤثر بنا رکھا تھا۔ بازار کی طرح یہاں بھی پس منظر میں دھیمی سی موسیقی چل رہی تھی۔ ۔ (ص:255)
عبداللہ جنت کے بازار میں دھیمی دھیمی موسیقی کا نقشہ یوں بیان کرتاہے:
''وسیع وعریض رقبے پر پھیلاہو ا یہ بازار اپنے اندر ہر قسم کی دکانیں لیے ہوئے تھا۔ ملبوسات، فیشن، جوتے، آرائش، تحائف اورنہ جانے کتنی ہی دیگر چیزوں کی دکانیں یہاں تھیں۔ ہر دکان اتنی بڑی تھی کہ کئی گھنٹوں میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی تھی۔ دنیاکابڑے سے بڑا شاپنگ سنٹر بھی ان دکانوں کے سامنے کچھ نہ تھا۔ لیکن یہاں کی اصل کشش یہ دکانیں نہیں بلکہ وہ مسحو ر کن ماحول تھا جو ہر سوچھایاہواتھا۔ دل ودماغ کو اپنی طرف کھینچتی چیزوں سے بھری دکانیں، ان میں جگمگ جگمگ کرتی روشنیاں، معطّر فضا، خنک ہو ا، دھیمی دھیمی موسیقی، خوبصورت فوّارے، رنگ ونور کی ہزار ہاصناعیاں، طرح طرح کے دیگر ڈیزائنز، دلکش مناظر اورحسین ترین لوگوں کے چہل پہل، سب مل کر ایک انتہائی متأثر کن ماحول پیداکررہے تھے۔'' (ص:256)
غور فرمائیے! دھیمی دھیمی موسیقی، دلکش مناظر اورحسین ترین لوگوں سے بھر ےمتأثر کن ماحول کی منظر نگار ی۔۔!! اگر قرآن وحدیث میں سرچ کی جائے تو  جنتیوں کی تہذیب و اخلاق پر سینکڑوں آیات اور احادیث موجود ہیں،   ان سب کو چھوڑ  کر ناول  نگار نے اس ناول میں  اپنی پسند یدہ  روشن خیال اور جدید مغربی تہذیب و معاشرت  کو جنتی  معاشرت کے طور پر پیش کیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے  لیکن  پھر بھی  اس کے  ساتھ    اس بات کا دعوی کہ یہ ناول  قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھا گیا ہے شاید مغربی معاشرت کو  قرآن و حدیث سے جنتی  معاشرت ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں  کہ  ہمیں جنت میں موسیقی  کے تذکرے پر اعتراض ہے اور نہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جنت میں موسیقی نہیں ہوگی  اور  مرد عورت شرعی پردہ میں پھریں گے،  بلکہ ہمیں اعتراض اس  دنیاوی طرز کی بے حیاء معاشرت ،  مخلوط منظر کشی، موسیقی ، ہوٹنگ اور بکواس پر ہےجسکو آخرت و جنت  کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے۔۔ !!   اس کا جنت سے کیا تعلق ہے اور دنیا   کی بے پردگی،  موسیقی، مخلوط محفلیں اور ان میں ہونے والی ہلڑ بازی ،  مغربی طرز کے بازار وں ،  شاپنگ مالوں اور  دوکانوں کے   نقشے دکھا کر جنت میں  بھی یہی کچھ ثابت کرنے کا آخر  مقصد کیا ہے؟

 یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان مسلم ناول نگاروں سے بہتر تووہ غیر مسلم   ناول نگار ہیں جن کے ناولوں میں مذہب  کا تذکرہ نہیں لیکن انکے ذاتی  خلوص ،  سچائی  اور وجدان نے  انکی تحریروں میں وہ رنگ بھر دیا ہے کہ قاری   انکو ایک مذہبی کتاب سمجھ کر پڑھنے لگتا ہے۔انکے ناول  سوسائٹی  میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے  کے بجائے     لوگوں کو ناصرف مذہب اور روحانیت کی جانب راغب کرتے ہیں  بلکہ  انکی   روحانیت کو مزید ترقی  بھی دیتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

اتوار، 1 دسمبر، 2013

غامدی صاحب کے چند منفرد اجتہادات

گزشتہ تحریر لکھتے ہوئے  ہم نے یہ ارادہ کیا تھا   کہ اس میں غامدی صاحب کے تمام بڑے اجتہادات و نظریات پر بات کرتے ہوئے اس موضوع  کو کلوز کردیں گے ،  لیکن  حیات و نزول مسیح  کے  مسئلہ کی وضاحت  میں ہی  تحریر اتنی طویل ہوگئی ہے کہ انکے باقی نظریات پر  تبصرے کی اس تحریر میں گنجائش  ہی نہ  رہی،   اپنی اس تحریر میں ہم باقی نظریات پر مختصر تبصرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے ہم دو  تحاریر میں غامدی صاحب کی سیرت اور علمی  مقام ومرتبہ پر اظہار خیال کرچکے ہیں ۔ جناب   کے اس مخصوص خاندانی  وعلمی  پس منظر   کیوجہ سے انکی   دینی تشریحات  میں جو  نکھار آیا اور اجتہاد و تحقیق   کے  جو  نمونے سامنے آئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ بڑے بڑے فقہاء کو  حیران کردیں۔  اگر غامدی صاحب کی  تمام تر  دینی کوششوں کو دیکھ کر انداز لگانے کی کوشش کی جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے ( بقول ایک عالم ) جناب  کے نزدیک تجدیددین کا مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ  متفقہ ، مروج ومعروف  مسائل کو  عقل اور روح عصر سے متصادم قرار دے کر اپنی محققانہ علمیت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے،  امت جن مسائل میں متفق ہے ان  میں بھی  اختلافی دراڑ یں پیدا کردی جائیں۔ مختلف  حلقہ ہائے فکر ونظر اسلامی سے ہٹ  کر ایک نئی راہ نکالنے اور منفرد نظر آنے  کا معاملہ تو ان کی خاص ضرورت ہے،  تمام نصوص ،  معاملات او رنقطہ ہائے نظر سے خورد بینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے  لیتا  ہے کہ  شاید وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہےمگر اہل علم وتحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو تفرد و مکر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ،   تضاد اتنا ہے کہ    اپنے ایک موقف کے لیے قرآن و حدیث و فقہاء کے اقوال کی ایک جگہ کوئی تشریح   کرتے ہیں ، اس پر ایک اپنا ایک اصولی موقف قائم کرتے ہیں  دوسری جگہ اسی کا انکار کرتے ہوئے مختلف تشریح کرجاتے ہیں ،  دیانت دار بھی بہت ہیں،  عموما اعتراضات کے تحریری جوابات اپنے شاگردوں کے نام سے دیتے ہیں تاکہ  انکے  غلط ثابت ہوجانے  پرانکی بے عزتی نہ ہو اور  خفت اٹھانی نہ پڑے  اور  اس میں سے کسی بات کو کوئی  انکے خلاف سند کے طور پر بھی  پیش نہ کرسکے (یہ اندازہ  معترضین  کے  علمی اعتراضات کے جوابات میں انکی سائیٹ سے پبلش ہونے والی   تحریروں سے لگایا گیا ہے)۔ غامدی صاحب کے اجتہاد  اور طریق  اجتہاد پر ہم یہاں تفصیلی تبصرہ پیش کرچکے ہیں ۔ اس تحریر میں  دین کے اس  جدید غامدی ایڈیشن  پر ہلکا پھلکا تبصرہ  ملاحظہ فرمائیں۔

غامدی صاحب اور حدیث 

مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" ( میزان :ص10،11 طبع دوم اپریل 2002ء، لاہور،  واصول و مبادی: ص11، طبع دوم فروری 2005ء، لاہور)
غامدی صاحب کے نزدیک (1)حدیث صرف اخبار آحاد کا نام ہے۔(2) کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ (3)کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔
پہلی بات  حدیث صرف اخبار آحاد کا نام نہیں بلکہ اس میں اخبار متواترہ بھی شامل ہیں ۔ یہ منکرین حدیث کی ایک دلیل  ہے کہ  احادیث کو خبر واحد کہہ کر یہ یقینی نہیں ، احادیث سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ جب  اخبار احاد کے نقل کرنے کے راستے متعدد ہوں اور انکی سندیں بھی درست ہوں اور انکی معارض احادیث بھی موجود نہ ہوں  تو یہ خبریں یقین کا فائدہ ہی دیتی ہیں ، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے متعلق احادیث۔دوسری بات  غامدی صاحب کے نزدیک  دین حدیث کے بغیر بھی مکمل ہے اس سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ، حدیث کے بغیر دین کا یہ تصور بھی صرف  منکرین حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں  اسلام نام ہی قرآن و حدیث کے مجموعے کا ہے۔تیسری بات غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو عقائد حدیث سے ثابت ہیں ، یہ  ان سب کے منکر ہیں ۔ جیسے تقدیر پر ایمان لانا ، قبر کا عذاب (صحیح بخاری:1372)قبر میں فرشتوں کا آنا اور میت سے سوال و جواب کرنا (صحیح بخاری:1338) ختم نبوت کا عقیدہ اور مدعی ٔ نبوت کا واجب القتل ہونا۔ (صحیح بخاری:3535،سنن ابی داود:4252)، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اُٹھایا جانا (رفع عیسی) ؛ اور اُن کا دوبارہ قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لانا (نزولِ عیسیٰ ) (صحیح بخاری:2222) وغیرہ وغیرہ اس طرح کے مزید بہت سے مسلّمہ اسلامی عقائد ہیں جنکی وضاحت اور ثبوت  صرف حدیث ملتا ہے۔ اب اگر غامدی صاحب کے اس نظریے کو درست مان لیا جائے کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو ہمیں بہت سے مسلمہ اسلامی عقائد کو ترک کرنا پڑے گا ۔چوتھی باتغامدی صاحب فرماتے ہیں کہ  حدیث سے دین کا کوئی عمل یا حکم ثابت نہیں ہوتا ،حالانکہ: شراب نوشی پر سزا(صحیح مسلم:1706)مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا(صحیح بخاری:5893)عورتوں کے لئے خاص ایام میں نماز کا معاف ہونا(صحیح بخاری:306)مردوں کے لئے سونے کے استعمال کا حرام ہونا (سنن ترمذی:1720)مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننے کی ممانعت و حرمت (صحیح بخاری:5833)کسی مسلمان مرد کے لئے اپنی پھوپھی، بھتیجی یا خالہ ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کا حرام ہونا (صحیح بخاری:5109)نماز تراویح (صحیح بخاری:1147)مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ کے نصابات وغیرہ جیسے  سینکڑوں دینی اعمال و احکامات صرف احادیث سے ہی  ثابت ہیں ۔
مقدمہ2: غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ: ''قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے،اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔"( میزان: ص 25، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
مزید لکھتے ہیں کہ:''حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔"(میزان: ص 35، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک (1)دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا۔ (2)حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہو سکتی۔(3)اگر قرآن کے کسی حکم میں حدیث سے تحدید و تخصیص مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ اور مشکوک ہو جاتا ہے۔
(1)غامدی صاحب کا یہ دعوی ہے کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی آیات بینات کی روشنی میں ہو گاجبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:''اے ايمان والو! اطاعت كرو الله کی اور  اطاعت كرو رسول كی اور ان كی جو تم میں سے اہل اختیار ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو'﴿ سورة النساء ٥٩﴾غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :''رد إلی اللہ والرسول کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی امر میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو تو پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی کی سنت کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو پھر اس کے معلوم کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔"( تدبر قرآن: جلد 2، ص 325، طبع 1983ء لاہور)مولانا مزید لکھتے ہیں :'' آیت خود شہادت دے رہی ہے کہ اس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور کی وفات کے بعد آپ کی سنت ہی ہے جو آپ کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔(2)غامدی صاحب کا دوسرا دعوی ہے کہ  حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ تحدید  کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
''اور جن بيويوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو اُنہیں سمجھاؤ، ان سے ہم بستری چھوڑ دو اور (اس پر نہ مانیں تو) اُنہیں مارو''...﴿ سورة النساءٰ٣٤﴾... ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید ہو گئی ہے کہ صرف ایسی مار جائز ہے جو اتنی تکلیف دہ نہ ہو کہ اس سے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔''(صحیح مسلم حدیث: 2950) دلچسپ  بات یہ ہے کہ  غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' اور 'قانونِ معاشرت' میں اس تحدید کو مانا ہے ،  لکھتے ہیں کہ: ''نبی نے اس کی حد 'غیر مبرح' کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے"(میزان: ص 423، طبع سوم 2008ء، لاہور؛ قانونِ معاشرت، ص 30، طبع اوّل، مئی 2005ء، لاہور)دین کے بارے میں ایسے کھلے تضاد کا حامل ہونا صرف غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔
تحدید کی دوسری مثال:''اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہیں وہ ایک گندگی ہے لہٰذا اس میں بیویوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔''﴿ سورة البقرة ٢٢٢﴾...صحیح احادیث سے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید ثابت ہوئی کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف مباشرت منع ہے، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے۔ 
اسی طرح حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص واقع ہونا اہل علم کے نزدیک ثابت ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے:''اللہ تمہارے اولاد کے بارے میں تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ (وراثت میں) ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔''﴿ سورة النساء ١١﴾...لیکن صحیح حدیث میں ہے کہ:'قاتل وارث نہیں ہو سکتا۔'' (سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، حدیث 4564) اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
تخصیص کی دوسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔''﴿ سورة البقرٰة ٢٧٥﴾...مذکورہ آیت ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہراتی نظر آتی  ہے،  لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ"بے شک اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔"(صحیح بخاری: کتاب البیوع، حدیث 2236)
 (3)غامدی صاحب لکھتے  ہیں کہ اگر حدیث سے کسی قرآن حکم کی تخصیص یا تحدید مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنی احکام میں تخصیص اور تحدید واقع ہونے سے قرآن مجید کا فرقان ہونا قطعا مشتبہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے قرآن احکام کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان کا صحیح مدعا اور منشا معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے۔
غامدی صاحب  اپنی کتاب 'میزان' میں 'مبادئ تدبر حدیث' کے عنوان کے تحت حدیث کے متعلق اپنا موقف ذرا کھل کر لکھتے ہیں "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔(میزان: ص68، طبع اپریل 2002ئ، لاہور)
یہی اصل میں  غامدی صاحب کے نزدیک حدیث کا مقام ہے(  ان دونوں باتوں  کا جواب ہم منکرین حدیث  کے متعلق تحریر میں دے چکے ہیں)۔اگر غور کیا جائے تو غامدی صاحب کا حدیث کے متعلق موقف مسٹر پرویز سے ذیادہ مختلف نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے غامدی صاحب اس سے ذرا چالاک واقع ہوئے ہیں ، صریح انکار سے بچتے ہیں تاکہ احادیث کے انکار کی وجہ سے کفر کا فتوی نہ  لگ سکے اور اپنے موقف پر ضرورت کے وقت احادیث سے بھی دلیل اٹھائی جاسکے۔

قرآن اور غامدی صاحب:

گزشتہ  ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ تعالىٰ نے پورى صراحت كے ساتھ فرمايا ہے كہ ان دو جرائم كو چهوڑ كر، فرد ہو يا حكومت، يہ حق كسى كوبهى حاصل نہيں ہے كہ وہ كسى شخص كى جان كے درپے ہو اور اسے قتل كرڈالے- (سورہ) مائدہ ميں ہے:"جس نے كسى كو قتل كيا، اس كے بغير كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، يا زمين ميں فساد برپا كيا ہو، تو اس نے گويا سب انسانوں كو قتل كيا"( سورة المائدة ٣٢)... (ميزان صفحہ 283، طبع دوم،اپريل 2002ء، مطبوعہ لاہور)
غامدى صاحب نے  مذكورہ آيت كا صرف اتنا حصہ لكها ہے جس سے ان كو اپنا خود ساختہ مفہوم نكالنے ميں كچھ آسانى پيدا ہوگئى ہے-مکمل آیت یوں ہے "اسى سبب سے ہم نے بنى اسرائيل كيلئے لكھ ديا كہ جس نے كسى كو بغير قصاص كے يا بغير زمين ميں فساد پهيلانے كى سزا كے قتل كيا تو گويا اس نے تمام انسانوں كو قتل كرڈالا اور جس نے كسى ايك شخص كى جان بچائى، اس نے گويا سارے انسانوں كى جان بچائى ۔۔۔-"آیت کا شروع کا حصہ  غائب کر دینے کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ ا س حصہ سے یہ واضح ہورہا تھا کہ  مذكورہ آيت كے مضمون كا تعلق بنى اسرائيل سے ہے ، اسلامى حدود و تعزيرات سے نہيں- اس آيت كو دوسرے تمام مفسرين كى طرح ان كے استاد 'امام' امين احسن اصلاحى بهى اسلامى حدود و تعزيرات كا ماخذ نہيں سمجهتے بلكہ انہوں نے بهى اس آيت كے مضمون كو يہوديوں سے متعلق قرار ديا ہے-(تدبر قرآن: جلد2/صفحہ 503)  غامدی صاحب نے اس حیلہ کے ذریعے صحيح احاديث (متواتر) سے ثابت شدہ دو شرعی حدود شادى شدہ زانى كے لئے رجم، یعنى سنگسارى كى سزا اور مرتد كيلئے موت كى سزا  'کے انکار کا بھی راستہ نکالا ہے- 

غامدی صاحب اور مسئلہ تكفیر:

غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو سے کسی داعی کو حاصل نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفرو شرک کی حقیقت تو بے شک اس پر واضح کی جائے گی… لیکن اس کی تکفیر کے لئے چونکہ اتمام حجت ضروری ہے، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حق اب قیامت تک کسی فرد یا جماعت کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔
 (اسلام اور انتہا پسندی، ص:۲۱)
سوال یہ ہے کہ کفر و شرک کے مرتکب کو کافر و مشرک کہنا کیونکر ممنوع ہے؟ کیا خلفاء کے دور میں مرتدین اور خوارج کے خلاف جو جنگیں کی گئی  ان میں صحابہ غلطی پر تھے ؟  شاید غامدی صاحب  کے خیال میں کسی کو از خود کافر بنانے کو تکفیر کہتے ہیں حالانکہ علماء کافر بناتے نہیں بتاتے ہیں،  صرف  کافرانہ اور مشرکانہ عقائد کی نشاندہی  کرتے ہیں۔ كیا غٖامدی صاحب  قرآن و سنت کی کوئی دلیل پیش فرماسكتے ہیں جس میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہو کہ اسلام سے پھر کر مرتد ہونے اور کفر و شرک اختیار کرنے والے کو کافر نہ کہا جائے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ موصوف کفر و اسلام کی سرحدوں کو مٹانے اور مسلم و کافر کے فرق کو مٹانے کی ناپاک تحریک کے علم بردار ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب غامدی صاحب قادیانیوں جیسے منکرین ختم نبوت ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے گستاخوں اور ملعونوں کو مسلمان باور کرانااور دکھانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے  علماء  کے مطالبے پر  قادیانیوں کو جو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، یہ فیصلہ دینا پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا اس لیے یہ نہ  کافر ہیں اور  نہ اس فیصلہ کی کوئی شرعی یا قانونی حیثیت ہے۔ ۔!! ایک جگہ خود ایک فیصلہ سناتے ہیں  " تصوف ایک متوازی دین ہے"۔(برہان صفحہ 188) مطلب  تمام صوفیاء اور انکے پیروکار اسلام کے بجائے کسی اور دین کی پیروی کررہے ہیں اس لیے وہ  سب کافر  ہیں ! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

رجم کی حد اور غامدی صاحب:

اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے  اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں  جن سے  واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں  اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا موت کی سزا   صرف  دو جرائم پر تسلیم کرتے ہیں ۔ غامدی صاحب کے نزدیک زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ،دونوں صورتوں میں اس کی سزاسو کوڑے ہے،حالانکہ غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن  ، احادیث ، اجماع امت ،فطرت صحیحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ عقل میں آنے والی بات ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت مرد زناکی مرتکب ہوتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی وجہ سے ان کی ایک سزامقرر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ عور ت یا مرد زنا کا مرتکب ہوتا ہے تواب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے اور دوسری طرف اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جائز راستہ ہونے کے باوجود اللہ کی نافرمانی کی،تیسرایہ کہ خاوند یا بیوی کے حقوق تلف ہوئے اور جذبات مجروح ہوئے، چوتھا خاندان کا شیرازہ بکھرنے کی صورتیں جمع ہوئیں۔ ان مفسدات کو پہلی صورت سے کہیں زیادہ بعد حاصل ہے، اسی لیے دوسری صورت کی سزا پہلی سے مختلف اور سخت ہونی چاہیے تھی ۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے مغربی ممالک میں بھی ان دونوں قسم کے احوال کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کی سراسر بنیاد ہی عقل و مشاہدہ ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے اس لیے چند دن پہلے    انڈیا اور  پھر  پاکستان میں بھی ساری عوام زانیوں کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ کررہی  تھی۔  انڈیا   کے ایک   ہندو  جج تک نے ان زانیوں پھانسی کی سزا سناتے ہوئے کہا میں ان لوگوں کے لیے موت سے کم کسی سزا کو جائز نہیں سمجھتا،  اور ہمارے یہ  الغامدی صاحب   خود کو اسلامی عالم سمجھتے ہیں اور  مستند احادیث  میں مذکورحضور کی سنائی ہوئی سزا کو ظلم قرار دیتے نظر آتے ہیں۔

 غامدی صاحب اور مرتد کی سزا:

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف جہاد مشہور ہے۔ غامدی صاحب کا  موقف ان سب سے بالکل الٹ ہے ۔ ایک جگہ  لکھتے  ہيں :"ارتداد كى سزا كا يہ مسئلہ محض ايك حديث كا مدعا نہ سمجهنے كى وجہ سے پيدا ہوا ہے۔ابن عباس كى روايت ہے۔ يہ حديث بخارى ميں اس طرح نقل ہوئى ہے من بدل دينه فاقتلوه ۔جو مسلمان اپنا دين بدل لے تو اسے قتل كردو “ہمارے فقہا اسے بالعموم ايك حكم قرار ديتے ہيں جس كا اطلاق ان كے نزديك ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہ رسالت سے لے كر قيامت تك اس زمين پر كہيں بهى اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كريں گے۔ ان كى رائے كے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنى آزادانہ مرضى سے كفر اختياركرے گا، اسے اس حديث كى رو سے لازماً قتل كرديا جائے گا- اس معاملے ميں ان كے درميان اگر كوئى اختلاف ہے تو بس يہ كہ قتل سے پہلے اسے توبہ كى مہلت دى جائے گى يا نہيں اور اگر دى جائے گى تو اس كى مدت كيا ہونى چاہئے “. (برہان: صفحہ 127، مطبوعہ ستمبر 2001ء) مزيد فرماتے ہيں كہ "ليكن فقہا كى يہ رائے كسى طرح صحيح نہيں ہے- رسول اللہ كا يہ حكم تو بے شك ثابت ہے مگر ہمارے نزديك يہ كوئى حكم عام نہ تها بلكہ صرف انہى لوگوں كے ساتھ خاص تها جن ميں آپ كى بعثت ہوئى  "  مزيد لكھتے ہيں كہ"ہمارے فقہا كى غلطى يہ ہے كہ انہوں نے قرآن و سنت كے باہمى ربط سے اس حديث كا مدعا سمجهنے كے بجائے اسے عام ٹھہرا كر ہر مرتد كى سزا موت قرار دى اور اس طرح اسلام كے حدود و تعزيرات ميں ايك ايسى سزا كا اضافہ كردياجس كا وجود ہى اسلامى شريعت ميں ثابت نہيں ہے"۔(برہان صفحہ 143، طبع 2006)
غامدی صاحب حدیث میں موجود حکم کو  حضور کے دور کیساتھ  خاص   قرار دے رہے ہیں حالانکہ  حدیث بالکل تخصیص نہیں کررہی ،  حدیث  میں لفظ  " مَنْ (جو ) استعمال ہوا ہے،  غامدی صاحب کی  لغت میں شاید یہ' خاص' کے  معنی میں اورصرف  مشرکین کے لیے  استعمال ہوتا ہو  ۔  لیکن ایک اور حدیث میں یہی لفظ آیا ہے "من غش فليس منا"جس نے دھوكہ ديا، وہ ہم ميں سے نہيں" کیا یہاں بھی  وعید  دهوكہ دينے والے سے  حضور کے دور کا  خاص فرد مراد ہے؟۔ غامدی صاحب اپنی کتاب میزان میں ایک اصول بیان کرتے ہیں جسکی وہ یہاں خلاف ورزی بھی کرگئے ہیں ۔ فرماتے ہیں "کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اس باب کی تمام روایات پیش نظر رکھی جائیں ، بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے لیکن اسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایا ں ہوتا ہے۔(میزان، صفحہ 73، طبع دوئم، اصول و مبادی صفحہ 72، طبع فروری 2005) انکے اسی اصول کو دیکھتے ہوئے ہم انکے سامنے  دوسری صحیح حدیث پیش کرتے ہیں " حضرت عبداللہ بن مسعودسے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں ، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-" یہ حدیث نا صرف  انکے اس مرتد کی سزا بلکہ رجم  کی سز ا کے متعلق موقف  کو بھی  غلط ثابت کررہی ہے ۔
اپنی سائیٹ پر یہاں  غامدی صاحب   کے ایک شاگرد نے ان کے موقف کے مطابق  ارتداد کے مسئلہ کو   سورة التوبہ كى جہاد کے متعلق آيت ٥ سے جوڑا ہے۔ علمى ديانت كا تقاضا تو يہ تها كہ مرتد  کے متعلق  حديث كو قرآن مجيد کی  ارتداد اور مرتدين  کے متعلق آیات سے جوڑا جاتامگر ايسا دانستہ طو رپر نہيں كيا گيا۔ بھلا مرتد كے بارے ميں مذكورہ ا حاديث کا  جہاد و قتال   کی اس آیت کیساتھ  کیا تعلق   ؟ "پهر جب حرام مہينے گزر جائيں تو ان مشركين كو جہاں پاؤقتل كردو اور اس كے لئے ان كو پكڑو اور ان كو گھيرو اور ہر گهات ميں ان كے لئے تاك لگاؤليكن اگر وہ كفر و شرك سے توبہ كرليں اور نماز كا اہتمام كريں اور زكوٰة ادا كرنے لگيں تو انہيں چهوڑ دو- بے شك اللہ مغفرت كرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے-"(سورة التوبہ :٥) کیا  یہاں مشرکین سے مراد  مرتدین ہیں؟  موصوف  نے اس آیت سے ارتداد کے مسئلہ کے لئے  معلوم نہیں کہاں سے حکم  نکال لیا؟ حالانکہ قرآن کی ہر آیت اور تقریبا ہر صحیح حدیث کا پس منظر موجود ہے اور   پھر آج تک  کسی ایک  صحابی، تابعی، مستندمفسر   کے  بھی   ارتداد کے متعلق اس حدیث کو جہاد و قتال کے متعلق اس  آیت کے ساتھ جوڑنے کا ثبوت موجود نہیں ۔ کیا  يہ بات زيادہ معقول اور قابل فہم  نہیں  كہ اس بارے ميں واضح احادیث و اقوال صحابہ اور  چودہ صديوں كے جملہ علماے اسلام كو غلط ٹھہرانے كى بجائے صرف اس نوزائيدہ عجمى شخص  کی من مانی تاویلات کو  غلط قرار دے  دياجائے ۔ ؟

غامدی صاحب اور شرعی پردہ:

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں کوئی شرعی حکم موجود نہیں ہے۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 56 ... جس میں ازواجِ مطہرات، بناتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان خواتین کو جلباب یعنی بڑی چادر اوڑھ کر اور اس کا کچھ حصہ چہرے پر لٹکا کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے... یہ حکم ایک عارضی حکم تھا اور ایک وقتی تدبیر تھی جو مسلم خواتین کو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے چھیڑنے اور ایذا پہنچانے سے بچانے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔ یہ قرآن کا مستقل حکم نہیں تھا جو بعد میں آنیوالی مسلمان خواتین پر بھی لاگو ہو۔کبھی فرماتے ہیں کہ حجاب کا تعلق صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھا۔۔
قرآن و حدیث  میں تو پردہ کے متعلق واضح احکامات موجود ہیں اور  ان پر سینکڑون کتابیں اور آرٹیکلز انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔  ہم انکے بجائے غامدی صاحب  کے  استاد اور امام امین احسن اصلاحی صاحب  کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں جنکے علمی مرتبہ کے متعلق  غامدی صاحب خود  ایک جگہ لکھتے ہیں کہ باقی علماء  کے مقابلے میں     امین احسن اور ان کے استاد حمیدالدین فراہی کا درجہ  وہی ہے کہ
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت   خاک کو آسماں سے کیا نسبت
 امین اصلاحی صاحب  سورہ احزاب کی آیت 59 کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں "اس ٹکڑے (ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ) سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اول تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔"( تدبرقرآن: جلد6، ص270) مزید لکھتے ہیں کہ ''قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی 'جلباب' ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔"(  تدبرقرآن: جلد6، ص269)
معلوم ہوا کہ دن رات اختلاف امت اور فرقہ واریت کو لعنت کہنےوالا اپنے استاد کے ساتھ بھی متفق نہیں ۔ مکتب فراہی کے  آپس میں اتنے اختلافات ہیں کہ  دونوں دو فرقے بنائے بیٹھے ہیں۔ ان  امت کو ایک  اسلام پر  جمع کرنے کے نام پر متفقہ مسائل میں  کنفیوزین پیدا کرنے والوں  نے  امت کو سوائے ذہنی خلفشار کے کچھ نہیں دیا۔

قراء ات متواترہ  کا انکار:

اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ، افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا۔ "( میزان:صفحہ 32، طبع دوم، اپریل 2002ء)
حقیقت  میں  قراء اتِ متواترہ کا یہ اختلاف دنیا کی ہر زبان کی طرح تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے۔ ان سے قرآنِ مجید میں کوئی ایسا ردّ و بدل نہیں ہوجاتا جس سے اس کے معنی اور مفہوم تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اس کے باوجود بھی قرآن قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔خود ہماری اُردو زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں: مثلا۔ '' پاکستان کے بارہ میں '' یا '' پاکستان کے بارے میں، 'ناپ تول'' یا ''ماپ تول۔'' خسر'' یا ''سسر''  اسی طرح انگلش کا لفظ Schedule ہے۔ اس کے دو تلفظ ' شیڈول' اور ' سکیجوئل' ہیں اور دونوں درست ہیں، Cosntitutionکو کانسٹی ٹیوشن او رکانسٹی چوشن بھی پڑھتے ہیں اور یہ بھی محض تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ بالکل یہی حال قرآنِ مجید کی مختلف قراء اتِ متواترہ کا ہےجو  صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں ،تمام قدیم و جدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عالم اسلام کی تمام بڑی دینی جامعات مثلاجامعہ ازہر اور جامعہ مدینہ منورہ وغیرہ کے نصاب میں یہ قراء ات شامل ہیں۔ عالم اسلام کے درجن بھر ممالک (جن میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور موریطانیہ وغیرہ شامل ہیں) میں روایت حفص کی بجائے روایت ورش  رائج ہے اور وہ اسی روایت ورش کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے قرآن سمجھتے ہیں ۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جس واحد ' روایت حفص ' کو ' قراء ت عامہ ' کا جعلی نام دے کر صحیح مانتے اور باقیوں کو عجم کا   فتنہ قرار دیتےہیں وہ دراصل امام عاصم بن ابی النجود رحمة اللہ علیہ کی قراء ت ہے جس کو امام ابو حفص نے ان سے روایت کیا ہے اور خود امام عاصم بن ابی النجود  بھی  عجمی تھے۔ حقیقت میں یہ قراتیں عجم کا فتنہ نہیں ہیں غامدی صاحب خود عجم کا فتنہ ہیں۔

متفرق مسائل :

ان چیدہ چیدہ مسائل کے علاوہ   مزید کئی  مسائل میں غامدی صاحب کا موقف امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے بالکل الٹ ہےں،  یہ تحریر ان پر بھی  تبصرے کی متحمل نہیں ہوسکتی ، چند لفظوں میں انکو بیان کرکے کی کوشش کرتا ہوں ، غامدی صاحب  قادیانیوں کی طرح حیات و نزول عیسی کے منکر ہیں اس پر تبصرہ ہم یہاں کرچکے، قرآن کی متشابہ آیات کا ایک واضح اور قطعی مفہوم بیان کرتے ہیں ، انکے نزدیک دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی اور قدیم صحائف بھی ہیں ، معروف اور منکر، حلال و حرام  کا تعین انسانی فطرت سے کراتے ہیں ،  زکوۃ کے نصاب کو منصوص اور مقرر نہیں سمجھتے ، کھانے کی صرف چار چیزوں خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ کو حرام قرار دیتے ہیں،  دیت کے قانون کو وقتی اور عارضی اور عورت اور مرد کی دیت برابر قرار دیتے ہیں، شراب نوشی پر کسی  شرعی سزا کے قائل نہیں ، اس دور میں  جہاد و قتال کے بارے میں کسی  شرعی حکم کے قائل نہیں  ہیں وغیرہ وغیر۔ آخر میں غامدی  ازم پر  رفیق صاحب کے کچھ اشعار  ملاحظہ فرمائیں۔
 شراقیوں سے کہہ دو کہ رہے گی تا قیامت                      وہ محمدی شریعت کہ نہیں فقط حجازی
 یہ ترا عجیب دعوی کہ جو د ین تو نے سمجھا                   نہ سمجھ سکا تھا اس کو کوئی شافعی نہ رازی
 یہ ترا اصول باطل کہ 'حدیث دیں نہیں ہے'                       ہے خسارا ہی خسارا یہ نبی سے بے نیازی
 نہ کوئی اصول تیرا، نہ کوئی رفیق مذہب ہے                   کبھی سخن طرازی ، ہے کبھی زبان درازی

مکمل تحریر >>