گزشتہ تحریر لکھتے ہوئے ہم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اس میں غامدی صاحب کے تمام بڑے اجتہادات و نظریات پر بات کرتے ہوئے اس موضوع کو کلوز کردیں گے ، لیکن حیات و نزول مسیح کے مسئلہ کی وضاحت میں ہی تحریر اتنی طویل ہوگئی ہے کہ انکے باقی نظریات پر تبصرے کی اس تحریر میں گنجائش ہی نہ رہی، اپنی اس تحریر میں ہم باقی نظریات پر مختصر تبصرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے ہم دو تحاریر میں غامدی صاحب کی سیرت اور علمی مقام ومرتبہ پر اظہار خیال کرچکے ہیں ۔ جناب کے اس مخصوص خاندانی وعلمی پس منظر کیوجہ سے انکی دینی تشریحات میں جو نکھار آیا اور اجتہاد و تحقیق کے جو نمونے سامنے آئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ بڑے بڑے فقہاء کو حیران کردیں۔ اگر غامدی صاحب کی تمام تر دینی کوششوں کو دیکھ کر انداز لگانے کی کوشش کی جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے ( بقول ایک عالم ) جناب کے نزدیک تجدیددین کا مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ متفقہ ، مروج ومعروف مسائل کو عقل اور روح عصر سے متصادم قرار دے کر اپنی محققانہ علمیت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے، امت جن مسائل میں متفق ہے ان میں بھی اختلافی دراڑ یں پیدا کردی جائیں۔ مختلف حلقہ ہائے فکر ونظر اسلامی سے ہٹ کر ایک نئی راہ نکالنے اور منفرد نظر آنے کا معاملہ تو ان کی خاص ضرورت ہے، تمام نصوص ، معاملات او رنقطہ ہائے نظر سے خورد بینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے لیتا ہے کہ شاید وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہےمگر اہل علم وتحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو تفرد و مکر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، تضاد اتنا ہے کہ اپنے ایک موقف کے لیے قرآن و حدیث و فقہاء کے اقوال کی ایک جگہ کوئی تشریح کرتے ہیں ، اس پر ایک اپنا ایک اصولی موقف قائم کرتے ہیں دوسری جگہ اسی کا انکار کرتے ہوئے مختلف تشریح کرجاتے ہیں ، دیانت دار بھی بہت ہیں، عموما اعتراضات کے تحریری جوابات اپنے شاگردوں کے نام سے دیتے ہیں تاکہ انکے غلط ثابت ہوجانے پرانکی بے عزتی نہ ہو اور خفت اٹھانی نہ پڑے اور اس میں سے کسی بات کو کوئی انکے خلاف سند کے طور پر بھی پیش نہ کرسکے (یہ اندازہ معترضین کے علمی اعتراضات کے جوابات میں انکی سائیٹ سے پبلش ہونے والی تحریروں سے لگایا گیا ہے)۔ غامدی صاحب کے اجتہاد اور طریق اجتہاد پر ہم یہاں تفصیلی تبصرہ پیش کرچکے ہیں ۔ اس تحریر میں دین کے اس جدید غامدی ایڈیشن پر ہلکا پھلکا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
غامدی صاحب اور حدیث
مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" ( میزان :ص10،11 طبع دوم اپریل 2002ء، لاہور، واصول و مبادی: ص11، طبع دوم فروری 2005ء، لاہور)
غامدی صاحب کے نزدیک (1)حدیث صرف اخبار آحاد کا نام ہے۔(2) کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ (3)کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔
پہلی بات حدیث صرف اخبار آحاد کا نام نہیں بلکہ اس میں اخبار متواترہ بھی شامل ہیں ۔ یہ منکرین حدیث کی ایک دلیل ہے کہ احادیث کو خبر واحد کہہ کر یہ یقینی نہیں ، احادیث سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ جب اخبار احاد کے نقل کرنے کے راستے متعدد ہوں اور انکی سندیں بھی درست ہوں اور انکی معارض احادیث بھی موجود نہ ہوں تو یہ خبریں یقین کا فائدہ ہی دیتی ہیں ، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے متعلق احادیث۔دوسری بات غامدی صاحب کے نزدیک دین حدیث کے بغیر بھی مکمل ہے اس سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ، حدیث کے بغیر دین کا یہ تصور بھی صرف منکرین حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں اسلام نام ہی قرآن و حدیث کے مجموعے کا ہے۔تیسری بات غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو عقائد حدیث سے ثابت ہیں ، یہ ان سب کے منکر ہیں ۔ جیسے تقدیر پر ایمان لانا ، قبر کا عذاب (صحیح بخاری:1372)قبر میں فرشتوں کا آنا اور میت سے سوال و جواب کرنا (صحیح بخاری:1338) ختم نبوت کا عقیدہ اور مدعی ٔ نبوت کا واجب القتل ہونا۔ (صحیح بخاری:3535،سنن ابی داود:4252)، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اُٹھایا جانا (رفع عیسی) ؛ اور اُن کا دوبارہ قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لانا (نزولِ عیسیٰ ) (صحیح بخاری:2222) وغیرہ وغیرہ اس طرح کے مزید بہت سے مسلّمہ اسلامی عقائد ہیں جنکی وضاحت اور ثبوت صرف حدیث ملتا ہے۔ اب اگر غامدی صاحب کے اس نظریے کو درست مان لیا جائے کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو ہمیں بہت سے مسلمہ اسلامی عقائد کو ترک کرنا پڑے گا ۔چوتھی باتغامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عمل یا حکم ثابت نہیں ہوتا ،حالانکہ: شراب نوشی پر سزا(صحیح مسلم:1706)مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا(صحیح بخاری:5893)عورتوں کے لئے خاص ایام میں نماز کا معاف ہونا(صحیح بخاری:306)مردوں کے لئے سونے کے استعمال کا حرام ہونا (سنن ترمذی:1720)مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننے کی ممانعت و حرمت (صحیح بخاری:5833)کسی مسلمان مرد کے لئے اپنی پھوپھی، بھتیجی یا خالہ ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کا حرام ہونا (صحیح بخاری:5109)نماز تراویح (صحیح بخاری:1147)مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ کے نصابات وغیرہ جیسے سینکڑوں دینی اعمال و احکامات صرف احادیث سے ہی ثابت ہیں ۔
مقدمہ2: غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ: ''قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے،اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔"( میزان: ص 25، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
مزید لکھتے ہیں کہ:''حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔"(میزان: ص 35، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک (1)دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا۔ (2)حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہو سکتی۔(3)اگر قرآن کے کسی حکم میں حدیث سے تحدید و تخصیص مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ اور مشکوک ہو جاتا ہے۔
(1)غامدی صاحب کا یہ دعوی ہے کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی آیات بینات کی روشنی میں ہو گاجبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:''اے ايمان والو! اطاعت كرو الله کی اور اطاعت كرو رسول كی اور ان كی جو تم میں سے اہل اختیار ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو'﴿ سورة النساء ٥٩﴾غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :''رد إلی اللہ والرسول کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی امر میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو تو پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی کی سنت کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو پھر اس کے معلوم کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔"( تدبر قرآن: جلد 2، ص 325، طبع 1983ء لاہور)مولانا مزید لکھتے ہیں :'' آیت خود شہادت دے رہی ہے کہ اس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور کی وفات کے بعد آپ کی سنت ہی ہے جو آپ کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔(2)غامدی صاحب کا دوسرا دعوی ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ تحدید کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
''اور جن بيويوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو اُنہیں سمجھاؤ، ان سے ہم بستری چھوڑ دو اور (اس پر نہ مانیں تو) اُنہیں مارو''...﴿ سورة النساءٰ٣٤﴾... ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید ہو گئی ہے کہ صرف ایسی مار جائز ہے جو اتنی تکلیف دہ نہ ہو کہ اس سے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔''(صحیح مسلم حدیث: 2950) دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' اور 'قانونِ معاشرت' میں اس تحدید کو مانا ہے ، لکھتے ہیں کہ: ''نبی نے اس کی حد 'غیر مبرح' کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے"(میزان: ص 423، طبع سوم 2008ء، لاہور؛ قانونِ معاشرت، ص 30، طبع اوّل، مئی 2005ء، لاہور)دین کے بارے میں ایسے کھلے تضاد کا حامل ہونا صرف غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔
تحدید کی دوسری مثال:''اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہیں وہ ایک گندگی ہے لہٰذا اس میں بیویوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔''﴿ سورة البقرة ٢٢٢﴾...صحیح احادیث سے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید ثابت ہوئی کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف مباشرت منع ہے، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے۔
اسی طرح حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص واقع ہونا اہل علم کے نزدیک ثابت ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے:''اللہ تمہارے اولاد کے بارے میں تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ (وراثت میں) ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔''﴿ سورة النساء ١١﴾...لیکن صحیح حدیث میں ہے کہ:'قاتل وارث نہیں ہو سکتا۔'' (سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، حدیث 4564) اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
تخصیص کی دوسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔''﴿ سورة البقرٰة ٢٧٥﴾...مذکورہ آیت ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہراتی نظر آتی ہے، لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ"بے شک اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔"(صحیح بخاری: کتاب البیوع، حدیث 2236)
(3)غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ اگر حدیث سے کسی قرآن حکم کی تخصیص یا تحدید مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنی احکام میں تخصیص اور تحدید واقع ہونے سے قرآن مجید کا فرقان ہونا قطعا مشتبہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے قرآن احکام کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان کا صحیح مدعا اور منشا معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے۔
غامدی صاحب اپنی کتاب 'میزان' میں 'مبادئ تدبر حدیث' کے عنوان کے تحت حدیث کے متعلق اپنا موقف ذرا کھل کر لکھتے ہیں "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔(میزان: ص68، طبع اپریل 2002ئ، لاہور)
یہی اصل میں غامدی صاحب کے نزدیک حدیث کا مقام ہے( ان دونوں باتوں کا جواب ہم منکرین حدیث کے متعلق تحریر میں دے چکے ہیں)۔اگر غور کیا جائے تو غامدی صاحب کا حدیث کے متعلق موقف مسٹر پرویز سے ذیادہ مختلف نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے غامدی صاحب اس سے ذرا چالاک واقع ہوئے ہیں ، صریح انکار سے بچتے ہیں تاکہ احادیث کے انکار کی وجہ سے کفر کا فتوی نہ لگ سکے اور اپنے موقف پر ضرورت کے وقت احادیث سے بھی دلیل اٹھائی جاسکے۔
قرآن اور غامدی صاحب:
گزشتہ ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ تعالىٰ نے پورى صراحت كے ساتھ فرمايا ہے كہ ان دو جرائم كو چهوڑ كر، فرد ہو يا حكومت، يہ حق كسى كوبهى حاصل نہيں ہے كہ وہ كسى شخص كى جان كے درپے ہو اور اسے قتل كرڈالے- (سورہ) مائدہ ميں ہے:"جس نے كسى كو قتل كيا، اس كے بغير كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، يا زمين ميں فساد برپا كيا ہو، تو اس نے گويا سب انسانوں كو قتل كيا"( سورة المائدة ٣٢)... (ميزان صفحہ 283، طبع دوم،اپريل 2002ء، مطبوعہ لاہور)
غامدى صاحب نے مذكورہ آيت كا صرف اتنا حصہ لكها ہے جس سے ان كو اپنا خود ساختہ مفہوم نكالنے ميں كچھ آسانى پيدا ہوگئى ہے-مکمل آیت یوں ہے "اسى سبب سے ہم نے بنى اسرائيل كيلئے لكھ ديا كہ جس نے كسى كو بغير قصاص كے يا بغير زمين ميں فساد پهيلانے كى سزا كے قتل كيا تو گويا اس نے تمام انسانوں كو قتل كرڈالا اور جس نے كسى ايك شخص كى جان بچائى، اس نے گويا سارے انسانوں كى جان بچائى ۔۔۔-"آیت کا شروع کا حصہ غائب کر دینے کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ ا س حصہ سے یہ واضح ہورہا تھا کہ مذكورہ آيت كے مضمون كا تعلق بنى اسرائيل سے ہے ، اسلامى حدود و تعزيرات سے نہيں- اس آيت كو دوسرے تمام مفسرين كى طرح ان كے استاد 'امام' امين احسن اصلاحى بهى اسلامى حدود و تعزيرات كا ماخذ نہيں سمجهتے بلكہ انہوں نے بهى اس آيت كے مضمون كو يہوديوں سے متعلق قرار ديا ہے-(تدبر قرآن: جلد2/صفحہ 503) غامدی صاحب نے اس حیلہ کے ذریعے صحيح احاديث (متواتر) سے ثابت شدہ دو شرعی حدود شادى شدہ زانى كے لئے رجم، یعنى سنگسارى كى سزا اور مرتد كيلئے موت كى سزا 'کے انکار کا بھی راستہ نکالا ہے-
غامدی صاحب اور مسئلہ تكفیر:
غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو سے کسی داعی کو حاصل نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفر و شرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر و شرک سمجھ کر خود اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفرو شرک کی حقیقت تو بے شک اس پر واضح کی جائے گی… لیکن اس کی تکفیر کے لئے چونکہ اتمام حجت ضروری ہے، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حق اب قیامت تک کسی فرد یا جماعت کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔
(اسلام اور انتہا پسندی، ص:۲۱)
سوال یہ ہے کہ کفر و شرک کے مرتکب کو کافر و مشرک کہنا کیونکر ممنوع ہے؟ کیا خلفاء کے دور میں مرتدین اور خوارج کے خلاف جو جنگیں کی گئی ان میں صحابہ غلطی پر تھے ؟ شاید غامدی صاحب کے خیال میں کسی کو از خود کافر بنانے کو تکفیر کہتے ہیں حالانکہ علماء کافر بناتے نہیں بتاتے ہیں، صرف کافرانہ اور مشرکانہ عقائد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ كیا غٖامدی صاحب قرآن و سنت کی کوئی دلیل پیش فرماسكتے ہیں جس میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہو کہ اسلام سے پھر کر مرتد ہونے اور کفر و شرک اختیار کرنے والے کو کافر نہ کہا جائے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ موصوف کفر و اسلام کی سرحدوں کو مٹانے اور مسلم و کافر کے فرق کو مٹانے کی ناپاک تحریک کے علم بردار ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب غامدی صاحب قادیانیوں جیسے منکرین ختم نبوت ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے گستاخوں اور ملعونوں کو مسلمان باور کرانااور دکھانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے علماء کے مطالبے پر قادیانیوں کو جو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، یہ فیصلہ دینا پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا اس لیے یہ نہ کافر ہیں اور نہ اس فیصلہ کی کوئی شرعی یا قانونی حیثیت ہے۔ ۔!! ایک جگہ خود ایک فیصلہ سناتے ہیں " تصوف ایک متوازی دین ہے"۔(برہان صفحہ 188) مطلب تمام صوفیاء اور انکے پیروکار اسلام کے بجائے کسی اور دین کی پیروی کررہے ہیں اس لیے وہ سب کافر ہیں ! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
رجم کی حد اور غامدی صاحب:
اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا موت کی سزا صرف دو جرائم پر تسلیم کرتے ہیں ۔ غامدی صاحب کے نزدیک زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ،دونوں صورتوں میں اس کی سزاسو کوڑے ہے،حالانکہ غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن ، احادیث ، اجماع امت ،فطرت صحیحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ عقل میں آنے والی بات ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ عورت مرد زناکی مرتکب ہوتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی وجہ سے ان کی ایک سزامقرر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ عور ت یا مرد زنا کا مرتکب ہوتا ہے تواب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے اور دوسری طرف اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جائز راستہ ہونے کے باوجود اللہ کی نافرمانی کی،تیسرایہ کہ خاوند یا بیوی کے حقوق تلف ہوئے اور جذبات مجروح ہوئے، چوتھا خاندان کا شیرازہ بکھرنے کی صورتیں جمع ہوئیں۔ ان مفسدات کو پہلی صورت سے کہیں زیادہ بعد حاصل ہے، اسی لیے دوسری صورت کی سزا پہلی سے مختلف اور سخت ہونی چاہیے تھی ۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے مغربی ممالک میں بھی ان دونوں قسم کے احوال کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کی سراسر بنیاد ہی عقل و مشاہدہ ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے اس لیے چند دن پہلے انڈیا اور پھر پاکستان میں بھی ساری عوام زانیوں کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ کررہی تھی۔ انڈیا کے ایک ہندو جج تک نے ان زانیوں پھانسی کی سزا سناتے ہوئے کہا میں ان لوگوں کے لیے موت سے کم کسی سزا کو جائز نہیں سمجھتا، اور ہمارے یہ الغامدی صاحب خود کو اسلامی عالم سمجھتے ہیں اور مستند احادیث میں مذکورحضور کی سنائی ہوئی سزا کو ظلم قرار دیتے نظر آتے ہیں۔
غامدی صاحب اور مرتد کی سزا:
نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے، كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف جہاد مشہور ہے۔ غامدی صاحب کا موقف ان سب سے بالکل الٹ ہے ۔ ایک جگہ لکھتے ہيں :"ارتداد كى سزا كا يہ مسئلہ محض ايك حديث كا مدعا نہ سمجهنے كى وجہ سے پيدا ہوا ہے۔ابن عباس كى روايت ہے۔ يہ حديث بخارى ميں اس طرح نقل ہوئى ہے من بدل دينه فاقتلوه ۔جو مسلمان اپنا دين بدل لے تو اسے قتل كردو “ہمارے فقہا اسے بالعموم ايك حكم قرار ديتے ہيں جس كا اطلاق ان كے نزديك ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہ رسالت سے لے كر قيامت تك اس زمين پر كہيں بهى اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كريں گے۔ ان كى رائے كے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنى آزادانہ مرضى سے كفر اختياركرے گا، اسے اس حديث كى رو سے لازماً قتل كرديا جائے گا- اس معاملے ميں ان كے درميان اگر كوئى اختلاف ہے تو بس يہ كہ قتل سے پہلے اسے توبہ كى مہلت دى جائے گى يا نہيں اور اگر دى جائے گى تو اس كى مدت كيا ہونى چاہئے “. (برہان: صفحہ 127، مطبوعہ ستمبر 2001ء) مزيد فرماتے ہيں كہ "ليكن فقہا كى يہ رائے كسى طرح صحيح نہيں ہے- رسول اللہ كا يہ حكم تو بے شك ثابت ہے مگر ہمارے نزديك يہ كوئى حكم عام نہ تها بلكہ صرف انہى لوگوں كے ساتھ خاص تها جن ميں آپ كى بعثت ہوئى " مزيد لكھتے ہيں كہ"ہمارے فقہا كى غلطى يہ ہے كہ انہوں نے قرآن و سنت كے باہمى ربط سے اس حديث كا مدعا سمجهنے كے بجائے اسے عام ٹھہرا كر ہر مرتد كى سزا موت قرار دى اور اس طرح اسلام كے حدود و تعزيرات ميں ايك ايسى سزا كا اضافہ كردياجس كا وجود ہى اسلامى شريعت ميں ثابت نہيں ہے"۔(برہان صفحہ 143، طبع 2006)
غامدی صاحب حدیث میں موجود حکم کو حضور کے دور کیساتھ خاص قرار دے رہے ہیں حالانکہ حدیث بالکل تخصیص نہیں کررہی ، حدیث میں لفظ " مَنْ (جو ) استعمال ہوا ہے، غامدی صاحب کی لغت میں شاید یہ' خاص' کے معنی میں اورصرف مشرکین کے لیے استعمال ہوتا ہو ۔ لیکن ایک اور حدیث میں یہی لفظ آیا ہے "من غش فليس منا"جس نے دھوكہ ديا، وہ ہم ميں سے نہيں" کیا یہاں بھی وعید دهوكہ دينے والے سے حضور کے دور کا خاص فرد مراد ہے؟۔ غامدی صاحب اپنی کتاب میزان میں ایک اصول بیان کرتے ہیں جسکی وہ یہاں خلاف ورزی بھی کرگئے ہیں ۔ فرماتے ہیں "کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اس باب کی تمام روایات پیش نظر رکھی جائیں ، بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے لیکن اسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایا ں ہوتا ہے۔(میزان، صفحہ 73، طبع دوئم، اصول و مبادی صفحہ 72، طبع فروری 2005) انکے اسی اصول کو دیکھتے ہوئے ہم انکے سامنے دوسری صحیح حدیث پیش کرتے ہیں " حضرت عبداللہ بن مسعودسے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں ، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-" یہ حدیث نا صرف انکے اس مرتد کی سزا بلکہ رجم کی سز ا کے متعلق موقف کو بھی غلط ثابت کررہی ہے ۔
اپنی سائیٹ پر یہاں غامدی صاحب کے ایک شاگرد نے ان کے موقف کے مطابق ارتداد کے مسئلہ کو سورة التوبہ كى جہاد کے متعلق آيت ٥ سے جوڑا ہے۔ علمى ديانت كا تقاضا تو يہ تها كہ مرتد کے متعلق حديث كو قرآن مجيد کی ارتداد اور مرتدين کے متعلق آیات سے جوڑا جاتامگر ايسا دانستہ طو رپر نہيں كيا گيا۔ بھلا مرتد كے بارے ميں مذكورہ ا حاديث کا جہاد و قتال کی اس آیت کیساتھ کیا تعلق ؟ "پهر جب حرام مہينے گزر جائيں تو ان مشركين كو جہاں پاؤقتل كردو اور اس كے لئے ان كو پكڑو اور ان كو گھيرو اور ہر گهات ميں ان كے لئے تاك لگاؤليكن اگر وہ كفر و شرك سے توبہ كرليں اور نماز كا اہتمام كريں اور زكوٰة ادا كرنے لگيں تو انہيں چهوڑ دو- بے شك اللہ مغفرت كرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے-"(سورة التوبہ :٥) کیا یہاں مشرکین سے مراد مرتدین ہیں؟ موصوف نے اس آیت سے ارتداد کے مسئلہ کے لئے معلوم نہیں کہاں سے حکم نکال لیا؟ حالانکہ قرآن کی ہر آیت اور تقریبا ہر صحیح حدیث کا پس منظر موجود ہے اور پھر آج تک کسی ایک صحابی، تابعی، مستندمفسر کے بھی ارتداد کے متعلق اس حدیث کو جہاد و قتال کے متعلق اس آیت کے ساتھ جوڑنے کا ثبوت موجود نہیں ۔ کیا يہ بات زيادہ معقول اور قابل فہم نہیں كہ اس بارے ميں واضح احادیث و اقوال صحابہ اور چودہ صديوں كے جملہ علماے اسلام كو غلط ٹھہرانے كى بجائے صرف اس نوزائيدہ عجمى شخص کی من مانی تاویلات کو غلط قرار دے دياجائے ۔ ؟
غامدی صاحب اور شرعی پردہ:
عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں کوئی شرعی حکم موجود نہیں ہے۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 56 ... جس میں ازواجِ مطہرات، بناتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان خواتین کو جلباب یعنی بڑی چادر اوڑھ کر اور اس کا کچھ حصہ چہرے پر لٹکا کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے... یہ حکم ایک عارضی حکم تھا اور ایک وقتی تدبیر تھی جو مسلم خواتین کو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے چھیڑنے اور ایذا پہنچانے سے بچانے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔ یہ قرآن کا مستقل حکم نہیں تھا جو بعد میں آنیوالی مسلمان خواتین پر بھی لاگو ہو۔کبھی فرماتے ہیں کہ حجاب کا تعلق صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھا۔۔
قرآن و حدیث میں تو پردہ کے متعلق واضح احکامات موجود ہیں اور ان پر سینکڑون کتابیں اور آرٹیکلز انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ہم انکے بجائے غامدی صاحب کے استاد اور امام امین احسن اصلاحی صاحب کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں جنکے علمی مرتبہ کے متعلق غامدی صاحب خود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ باقی علماء کے مقابلے میں امین احسن اور ان کے استاد حمیدالدین فراہی کا درجہ وہی ہے کہ
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت خاک کو آسماں سے کیا نسبت
امین اصلاحی صاحب سورہ احزاب کی آیت 59 کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں "اس ٹکڑے (ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ) سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اول تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔"( تدبرقرآن: جلد6، ص270) مزید لکھتے ہیں کہ ''قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی 'جلباب' ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔"( تدبرقرآن: جلد6، ص269)
معلوم ہوا کہ دن رات اختلاف امت اور فرقہ واریت کو لعنت کہنےوالا اپنے استاد کے ساتھ بھی متفق نہیں ۔ مکتب فراہی کے آپس میں اتنے اختلافات ہیں کہ دونوں دو فرقے بنائے بیٹھے ہیں۔ ان امت کو ایک اسلام پر جمع کرنے کے نام پر متفقہ مسائل میں کنفیوزین پیدا کرنے والوں نے امت کو سوائے ذہنی خلفشار کے کچھ نہیں دیا۔
قراء ات متواترہ کا انکار:
اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی قراء ت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ اس کے علاوہ اس کی جو قراء تیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں، وہ سب اسی فتنۂ عجم کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ، افسوس ہے کہ محفوظ نہ رہ سکا۔ "( میزان:صفحہ 32، طبع دوم، اپریل 2002ء)
حقیقت میں قراء اتِ متواترہ کا یہ اختلاف دنیا کی ہر زبان کی طرح تلفظ اور لہجے کا اختلاف ہے۔ ان سے قرآنِ مجید میں کوئی ایسا ردّ و بدل نہیں ہوجاتا جس سے اس کے معنی اور مفہوم تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اس کے باوجود بھی قرآن قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔خود ہماری اُردو زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں: مثلا۔ '' پاکستان کے بارہ میں '' یا '' پاکستان کے بارے میں، 'ناپ تول'' یا ''ماپ تول۔'' خسر'' یا ''سسر'' اسی طرح انگلش کا لفظ Schedule ہے۔ اس کے دو تلفظ ' شیڈول' اور ' سکیجوئل' ہیں اور دونوں درست ہیں، Cosntitutionکو کانسٹی ٹیوشن او رکانسٹی چوشن بھی پڑھتے ہیں اور یہ بھی محض تلفظ اور لہجے کا فرق ہے، کوئی معنوی فرق نہیں ہے۔ بالکل یہی حال قرآنِ مجید کی مختلف قراء اتِ متواترہ کا ہےجو صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں ،تمام قدیم و جدید اہم تفاسیر میں ان قراء ات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عالم اسلام کی تمام بڑی دینی جامعات مثلاجامعہ ازہر اور جامعہ مدینہ منورہ وغیرہ کے نصاب میں یہ قراء ات شامل ہیں۔ عالم اسلام کے درجن بھر ممالک (جن میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور موریطانیہ وغیرہ شامل ہیں) میں روایت حفص کی بجائے روایت ورش رائج ہے اور وہ اسی روایت ورش کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے قرآن سمجھتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جس واحد ' روایت حفص ' کو ' قراء ت عامہ ' کا جعلی نام دے کر صحیح مانتے اور باقیوں کو عجم کا فتنہ قرار دیتےہیں وہ دراصل امام عاصم بن ابی النجود رحمة اللہ علیہ کی قراء ت ہے جس کو امام ابو حفص نے ان سے روایت کیا ہے اور خود امام عاصم بن ابی النجود بھی عجمی تھے۔ حقیقت میں یہ قراتیں عجم کا فتنہ نہیں ہیں غامدی صاحب خود عجم کا فتنہ ہیں۔
متفرق مسائل :
ان چیدہ چیدہ مسائل کے علاوہ مزید کئی مسائل میں غامدی صاحب کا موقف امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے بالکل الٹ ہےں، یہ تحریر ان پر بھی تبصرے کی متحمل نہیں ہوسکتی ، چند لفظوں میں انکو بیان کرکے کی کوشش کرتا ہوں ، غامدی صاحب قادیانیوں کی طرح حیات و نزول عیسی کے منکر ہیں اس پر تبصرہ ہم یہاں کرچکے، قرآن کی متشابہ آیات کا ایک واضح اور قطعی مفہوم بیان کرتے ہیں ، انکے نزدیک دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی اور قدیم صحائف بھی ہیں ، معروف اور منکر، حلال و حرام کا تعین انسانی فطرت سے کراتے ہیں ، زکوۃ کے نصاب کو منصوص اور مقرر نہیں سمجھتے ، کھانے کی صرف چار چیزوں خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ کو حرام قرار دیتے ہیں، دیت کے قانون کو وقتی اور عارضی اور عورت اور مرد کی دیت برابر قرار دیتے ہیں، شراب نوشی پر کسی شرعی سزا کے قائل نہیں ، اس دور میں جہاد و قتال کے بارے میں کسی شرعی حکم کے قائل نہیں ہیں وغیرہ وغیر۔ آخر میں غامدی ازم پر رفیق صاحب کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
شراقیوں سے کہہ دو کہ رہے گی تا قیامت وہ محمدی شریعت کہ نہیں فقط حجازی
یہ ترا عجیب دعوی کہ جو د ین تو نے سمجھا نہ سمجھ سکا تھا اس کو کوئی شافعی نہ رازی
یہ ترا اصول باطل کہ 'حدیث دیں نہیں ہے' ہے خسارا ہی خسارا یہ نبی سے بے نیازی
نہ کوئی اصول تیرا، نہ کوئی رفیق مذہب ہے کبھی سخن طرازی ، ہے کبھی زبان درازی
6 comments:
حیات اور نزول عیسیٰ کے تو قائل علامہ اقبال بھی نہیں تھے ۔ یا شاید جب قادیانی اثرات سے نکلے ہوں تو قائل ہو گئے ہوں ۔ اللہ عالم ۔ ا س بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے ۔
حیات و نزول مسیح کے موضوع پر میری تحریر یہاں موجود ہے،
http://bunyadparast.blogspot.com/2013/11/blog-post_29.html
اسی کے کمنٹ میں علامہ اقبال کے موقف پر بھی تبصرہ کر چکا ہوں۔ آپ وہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
محترم بھائی آپنے میرے کمٹس یہاں سے ڈیلیٹ کیوں کیئے ہیں؟میں نے کوئی غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ تو نہیں کیا تھا۔آپ کے جواب میں صرف اتنا لکھا تھا کہ علامہ اقبال نزول مسیح کے قائل نہیں تھے۔آپ نے بیان کیا تھا کہ بلا ثبوت بات مت کریں۔میں نے انکے ایک خط اور ملفوظات سے حوالہ بیان کیا تھا محض۔ اس میں ڈیلیٹ کرنیوالی کونسی بات تھی؟
میں نے آپ کا کمنٹ ہٹا کر جو تبصرہ پوسٹ کیا ہے وہ پڑھ لیں۔
اگر آپ کا فیس بک اکاؤنٹ یا پیج ہو تو مطلع کردیجئے۔
اگر آپ کا فیس بک اکاؤنٹ یا پیج ہو تو مطلع کردیجئے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔