اتوار، 29 جون، 2014

دلنشین اور آسان ترین ترجمہ قرآن

رمضان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، وه  مسلمان جسے سارا سال  الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا خیال تک نہیں آتا مگر رمضان کا چاند نظر آتے ہی  وہ  بھی نیکیوں کی  اس دوڑ میں اور   اپنے دین  و ایمان کی فکر کرنے والوں میں شامل ہوجاتا ہے. لوگ وہ سبق جو وہ دن رات کے جھمیلوں ، پریشانیوں میں کہیں بھول بسار گئے ہوتے ہیں اس کو دوہراتے،  تجدید عہد کرتے نظر آتے ہیں،   ہر شخص اپنی ہمت و توفیق کے مطابق رمضان کی برکات کو سمیٹتا نظر آتا ہے۔ اس مہینہ میں نماز، روزہ، صدقہ کے اہتمام کے علاوہ  لوگوں کا  قرآن کے ساتھ  بھی تعلق بڑھ جاتا ہے، حافظ ہوں یا غیر حافظ سب اپنی سارے سال کی کمی اس مہینے میں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں،  بہت سے لوگ ایک قدم آگے چلتے اور  ترجمہ و تفسیر سے  اسکے پیغام کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود ہم سے کئی دوست اس سلسلے میں مشورہ لیتے رہتے ہیں کہ  کوئی ایسا ترجمہ بتائیں جو  مستند بھی ہو اورہمیں آسانی سے سمجھ بھی آجائے۔ کچھ عرصے پہلے اس سلسلے میں تھوڑی الجھن ہوتی تھی کہ  قرآن کریم کا  کونسا ترجمہ تجویز کیاجائے؟ کوئی ایسی  مختصر  اور آسان تشریح ہو جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دےاور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ الجھن کی وجہ  یہی تھی کہ  ہمارے ہاں  قرآن کے رائج  اردو  تراجم  میں عموما  مترجم کا   انداز خالص  علمی اور  فقہی  ہوتاہے ، پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین اردو" میں ہوتا   اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی ہوتے ہیں  ، مزید علماء حضرات  ترجمہ میں  فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے  ہیں   اور یہ سب  عموما  ایک غیر عالم ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں  یا  ایسے لوگوں  کے لیے  جنکا دینی علوم  اور  کتابوں  سے قریبی  تعلق نہ ہو ' سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ جو  قرآن کے ترجمہ اور پیغام کو اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہیں شاید  اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ علماء کے تراجم بلاشبہ علم و ادب کے اعلی معیار پر ہیں، ان کا انداز تحقیق اور اسلوب بیان محتاج بیان بھی نہیں ، لیکن مشکل اردو اور اصطلاحات کے استعمال کی وجہ  بہت سے لوگ ان کومکمل  سمجھنہیں سکتے۔  ہمارے ہاں اردو  زبان میں  چند سال پہلے تک  ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سب کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی اس  لیے  ہم اپنے حلقے میں  ترجمہ کے لیے  مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن کی  پڑھنے کا کہہ دیتے تھے اور تفسیر کے لیے تفسیر عثمانی اور تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع کرنے کا کہتے۔ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ وہی ہے  جو  مارکیٹ میں  شیخ عبدلارحمن السدیس اور شیخ عبدالباسط  کے اردو ترجمہ والے   قرآن کی کیسٹ اور سی ڈیز میں بھی  استعمال کیا گیا ہے۔۔ چند سال پہلے عصر حاضر کی ایک عبقری صفت اور  نابغہ روزگار شخصیت جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے  قرآن کے تراجم   پر کام شروع کیا ، اس سلسلے کی آپ کی پہلی کاوش  آپ کا  انگریزی میں ترجمہ قرآن کریم  تھا جو تین سال قبل چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایک  ایسی ضرورت تھی جو مسلمانوں اور انگریزوں کے  ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو تراجم موجود تھے وہ کسی ایسے عالم کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ وہ  یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند ہونے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔    اس کے بعد آپ نے   بہت سے لوگوں کے مطالبہ  اور  خود اردو زبان میں موجود  تراجم کی اس کمی کو محسو س کرتے ہوئے   قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھنا  شروع کیا جو حال  ہی میں  "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے  چھپ کر سامنے آیا۔
ترجمہ کی چند خصوصیات :۔
قرآن کریم کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو دینی علوم ،  خصوصاً علوم عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری نظر۔علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع)۔ علمی حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی دارالعلوم کراچی  میں  انہی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہےاور ادبی اعتبار سے آپ کا قلم نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں ہر میدان میں لوہا منوا چکا ہے ۔ آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ ویسے قرآن کے  ترجمہ  کے لیے علوم عربیت   میں مہارت سے  ادب میں مہارت بھی ذیادہ  اہم ہوتی ہے، ہمارے ہاں عوام   کو اسی لیے  غیر عالم  اسلامی اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز کے درس قرآن وغیرہ سننے ، پڑھنے سے  منع کیا  جاتا ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اردو ادب کے تو بہت ماہر ہوتے ہیں ، اچھے کہانی نویس، منظر نگاری کرنے والے اور انشاء پرداز ہوتے ہیں   لیکن انکی  اوپر گنائے گئے علوم خصوصاً "علم الفقہ" سے ناواقفیت اور عربی  زبان  میں عدم مہارت  کی وجہ  سے  "آیات الاحکام" کی تفسیر میں انکی  کی جانے والی غلطیوں سے عوام کے دینی  نقصان کا اندیشہ ہوتا  ہے جبکہ علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دور طالب علمی میں یہ  علوم پڑھ چکے ہوتے ہیں۔  تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ قرآن  دونوں خوبیوں کو لیے ہوئے ہیں،  مزید آپ  نے اپنے اس ترجمہ قرآن میں بہت سی ایسی  چیزوں  کو بھی شامل کیا  جن کی  پہلے تراجم میں کمی محسوس کی جاتی   تھی  ۔ مثلا
سورتوں کا تعارف:۔
ہر سورت سے پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں سورت کا ضروری تعارف ، اس میں بیان ہونے والے مضامین واقعہ کا خلاصہ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ تعارف میں   مصنوعی ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں ایک  مبسوط مقدمہ بھی دیا گیا ہے جو مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ 
 مختصر تشریحات :۔
ترجمہ پڑھنے کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 
سلیس و دلنشین انداز تحریر :۔ 
 بیان زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً:

هَيْتَ لَكَ

"آ بھی جاؤ" (یوسف:23)۔

فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ

"ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)۔

تراکیب کے بامحاورہ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:۔

نَسْيًا مَنْسِيًّا

بھولی بسری

قِسْمَةٌ ضِيزَى

بھونڈی تقسیم

سَبْحًا طَوِيلًا

لمبی مصروفیت

 لفظی اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں:۔

مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ۔"

کیا بات ہے؟ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ۔

""اب تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔

"اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)

 اصل الفاظ کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت  کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس گھاٹی سے گزرے ہیں:.

فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا۔

"پھر جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)

فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ۔

"تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)

وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا۔

"بلکہ یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" ( الفرقان:22) اسی طرح

وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔

"اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" (البقرۃ:7)۔
 دوبارہ پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)

"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔"
 پہلی آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔

 جملوں کی سادگی ملاحظہ فرمائیں۔

قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ۔

کہنے لگے " اباجی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کرنے چلے گئے تھے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اسے کھاگیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔

گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں ۔ پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔

اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ

کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا تھا؟ پھر اچانک وہ کھلم کھلا جھگڑا کرنے والا بن گیا۔ ہمارے بارے میں تو باتیں بناتا ہے اور خود اپنی پیدائش کو بھول بیٹھا ہے۔

مختلف تراجم کے ساتھ تقابل:۔
 عربی کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم "آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا پانچ مشہور معاصر تراجم کے ساتھ تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔

 پہلی مثال:.

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لقمان:20 

"اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
 "اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
 "اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک) 
"اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

 دوسری مثال:۔

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ (الاحزاب: 04)

"نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا ہے۔" (مولانا مودودی)
 "اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
 "اور نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
 "اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
 "اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

ظہار کے حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔

 تیسری مثال:.

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)

"(ایوب علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا مودودی)
"کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"بہت خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"بہترین بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"وہ بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

"اواب" کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔

 آخری مثال : "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (یوسف:24)

"وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو نہ دیکھ لیتا۔" ( مولانا مودودی)
"اور بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

سبحان اللہ! ترجمہ ایسا کیا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ ۔

تحریر طویل ہوتی جارہی ہے اس کو یہیں ختم کرتے ہیں، مقصد کتاب پر کوئی   کوئی مقالہ لکھنا نہیں بلکہ صرف اس ترجمہ کی کچھ خصوصیات کی طرف متوجہ کرنا تھا ، باقی اس کو پڑھنے والے اس سے ملنے والے سرور اور نفع کا خود اندازہ کرلیں گے، ان سب خصوصیات کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ  اس ترجمہ میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔

ایک نئی روایت :.
 اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے مطالعے کا شوق رکھنے والے حضرات کو یہ ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں ، آسان ترجمہ قرآن میڈیم کوالٹی پرنٹ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا ہے، اسکا ایک نسخہ اپنی گھریلو لائبریری میں رکھا جائے ، وسعت ہو تو قریبی لائبریری یا مسجد کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے ، اپنے امام صاحب سے اس ترجمہ کا کورس شروع کروانے کا مطالبہ کریں ، اس کے علاوہ ترجمہ اعلی کوالٹی پرنٹنگ میں بھی دستیاب ہے وہ تکمیل القرآن اور نکاح وغیرہ کے موقع پر گفٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ پہنچ رکھتے ہیں وہ سعودی حکام کو ایک یادواشت بھیج سکتے ہیں کہ عمرہ اور حج کے لیے جانے والے مہمانان حرم کو یہی نسخہ ہدیہ دیا کریں۔ مزید بہت سے مصنفین و مؤلفین اور مضمون نگار و تحقیق کار حضر ات کو اپنی تحریروں میں قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دینے کی ضرورت پیش آئے تو  وہ اس ترجمہ قرآن سے ترجمہ نقل کرسکتے ہیں۔خیر کی بات جس درجہ میں  ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔ )

تراجم کی سافٹ کاپی :۔

ڈائریکیٹ ڈاؤنلوڈ لنکس ہیں، رائٹ کلک کرکے سیو ایز کرنے سے ڈاؤنلوڈ سٹارٹ ہوجائیگی۔



سکین کاپی تینوں جلدیں
Read Online
Download
Volume 1 [14] Volume 2 [13] Volume 3 [15]i


کمپیوٹرکاپی
[Download 7mb]

آن لائن منگوانے کا طریقہ :۔ 

پاکستانی مارکیٹ  میں دونوں تراجم ہر اچھے اسلامی کتب خانہ سے باره سو سے لے كر دو ہزار تک میں  ہدیہ کرائے جاسکتے  ہیں،  جو دوست فارن کنٹری میں رہائش پذیر ہیں اور  وہ  آن لائن منگوانا چاہیں تو  وہ  امریکہ سے چلنے والے اس معروف ادارہ کی سائیٹ سے انگلش ترجمہ   یہاں سے اور اردو یہاں  سے ہدیہ کراسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے مشہور آئن لائن اسلامک بک سٹورز پر یہ ترجمہ دستیاب ہے۔


( تحریر میں موجود تراجم پر تحقیق معروف عالم دین مفتی ابو لبابہ شاہ صاحب کے کالم سے لی گئی ہے)
مکمل تحریر >>

بدھ، 25 جون، 2014

مولانا دریابادی کے سفر دہریت کی داستان- دوسرااورآخری حصہ

الحاد و اتداد کا  یہ دور دس سال تک رہا ، پھر  ان تدریجی تبدیلیوں  کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام کی طرف آنا شروع ہوئے۔ ابھی ابتداء ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے  باہر آگئی، دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اورنفس شوم کو جو سب سے بڑی ٹھوکر لگی تھی وہ سیرت اقدس  کی ہی تو تھی اور خاص طور پر غزوات و محاربات کا سلسلہ۔ظالموں نے نجانے کیا کچھ ان کے دل میں بٹھا دیا تھا اور ذات مبارک کو نعوذباللہ ایک ظالم فاتح دکھایا تھا۔  خود لکھتے ہیں :
" شبلی  نے اصل دوا اسی دردکی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا ۔ کتاب جب بند کی تو چشم تصور  کے سامنے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک و قوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی، جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخری درجہ میں ، ہر طرح پر مجبور ہو کر، یہ مرتبہ یقیناآج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے اور شبلی کی کوئی قدروقیمت نظر نا آئے گی  لیکن اس کا حال ذرا اسکے دل سے پوچھئے جس کے دل میں نعوذبااللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف جما ہوا تھا ۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں"۔(آپ بیتی)
 اسکے بعد  مثنوی مولانا روم  مطالعہ  میں آئی ، پڑھنا شروع  کی تو  ایسا محسوس ہوا جیسے  کسی نے جادو کردیا  ہو، کتاب چھوڑنا چاہیں بھی تو کتاب نہیں چھوڑ رہی ، ایسی کشش و جاذبیت کہ دیوانوں کی طرح ایک مستی  کا عالم طاری ہے ، نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ، بس کمرہ بند کرکے خلوت میں کتاب پڑھے جارہے ہیں  کہیں  آنسو  نکلے اور کہیں چینخ بھی پڑے ،   ادھر کتاب  ختم ہوئی  ادھرشکوک و شبہات  بغیر کسی ردو قدح میں پڑے اب دل سے کافور تھے،پھر یہی حال مکتوبات مجدد سرہندی کو پڑھ کر ہوا ۔الحاد کی گرہ کھل چکی تھی۔ مدتوں بعد وضو کر کے مصلے پر آئےاور خدا کے حضور کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے۔گناہوں کا خیال آیا تو چینخیں نکل گئیں۔ عفت کی آنکھ کھلی شوہر کو اس حال میں دیکھا تو شکر ادا کیا ،  شوہر کے آنسوؤں میں پھر اس کے آنسو بھی شامل ہو گئے،رات بھر یہی حالت رہی اور  فجر کی نماز مسجد میں  جاکر پڑی۔ایک دن گھر پر بیٹھے بیٹھے اپنے نکاح کا خیال آگیا کہ میں تو اس وقت کسی اسلامی رسم کا قائل ہی نہ تھا جب نکاح ہو رہا تھا تو میں دل میں ہنس رہا تھا، بس نمائش میں بیٹھا تھا ۔دل سے تو قبول نہیں کیا تھا ۔بس تجدید نکاح کی ٹھان لی بیوی سے ذکر کیا تو ًبولیں یعنی آپ مجھے بیوی بنانے پر آمادہ نہ تھے؟ کہا بالکل تھا ،مگر ایسے جیسے کہ ایک ہندو ہوتا ہے ،نکاح کے وقت جب آیات پڑھی جارہی تھیں تب میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کلام الہی نہیں ہے۔ ایک مولوی صاحب کو  بلوایا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا ۔
تجدید اسلامی کے بعد جوش اٹھا تو آستانہ اجمیری پر حاضری دی۔ قوالیوں کی آوازیں چہار سو تھیں ، عرس کا زمانہ تھا، ہر جانب لوگ ہی لوگ تھے ۔عبدالماجد کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے ، گورا رنگ،داڑھی سفید گول اور نورانی، نکلتا ہوا قد،آنکھوں پر چشمہ، سر پر ٹوپی۔عارفانہ کلام پڑھا  جانے لگا تو عبدالماجد  بھی جھوم اٹھے۔لوگ حیران تھے مگر ان کے قلب کی کیفیت کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پھر چشم فلک نے انہیں درگاہ خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ مینا ، خواجہ نظام الدین اولیاء کے  چکر کاٹتے دیکھا۔ دولت ایمان تو اب بلا شبہ نصیب ہوگئی تھی لیکن ابھی تک رواجی تصوف و خانقاہی مشیخیت میں ٹھوکریں کھارہے تھے ۔ اپنی اصلاح کے لیے  کسی سے باقاعدہ  بیعت  ہونے کی ضرورت محسوس کررہے تھے  لیکن عام آدمی تو نہ تھے کہ آنکھ بند کر کے کسی کے بھی مرید ہو جائیں ان کا مرشد بھی انہی کے معیار کا ہونا چاہیئے تھا۔کبھی سوچا کہ مولانا  محمد علی جوہر سے بیعت کریں  تو کبھی کسی دوسرے کا خیال آتا۔ خود لکھتے ہیں :
" مرشد کی تلاش ایک عرصہ سے جاری تھی، تصوف  اور سلوک کا ذخیرہ جتنا کچھ بھی فارسی ، اردو اور ایک حد تک عربی میں ہاتھ  لگ سکا تھا، پڑھ لیا گیا تھا، اتنی کتابیں پڑھ ڈالنے اور اتنے ملفوظات چاٹ جانے کے بعد اب آرزو اگر تھی تو ایک زندہ بزرگ کی۔ حیدر آباد اور دہلی  اور لکھنو جیسے مرکزی شہر اور اجمیراورکلیر، دیوہ اور بانسہ، رودلی اور صفی پور ، چھوٹے بڑے ' آستانے ' خدا معلوم  کتنے دیکھ ڈالے اور سن گن جہاں کہیں کسی بزرگ کی بھی پائی، حاضری میں دیر نہ لگائی ، حال والے بھی دیکھنے میں آگئے اور قال والے بھی، اچھے اچھے عابد ، زاہد ، مرتاض  بھی اور بعض دوکاندار قسم کے گیسو دراز بھی، آخر فیصلہ یہ کیا کہ انتخاب کے دائرے کو محدود کرکے حلقہ دیوبند کا تفصیلی جائزہ  لیجیے۔ ۔ وصل بلگرامی بولے کہ'  بہت دوڑ دھوپ آپ کرچکے ، ذرا ہمارے  مولانا (مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)کا بھی تجربہ کیجیے، سب کو بھو ل جائیے گا، تھانہ بھون اگر دور ہے تو قصد السبیل  اور تربیت السالک وغیرہ تو میرے پاس ہی ہیں، ا نہیں تو دیکھ ڈالیے'۔اچھا ! ان خشک مولوی صاحب نے تصوف پر بھی کچھ لکھا لکھایا ہے؟ خیر، دیکھ ڈالنے میں کیا مضائقہ ہے۔ دوسری صبح کتابوں کے ساتھ وصل میرے ہاں لکھنو میں موجود۔ کتابیں پڑھ کر جب بند کیں تو عالم ہی دوسرا تھا ؛
اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں 
اپنا جہل اپنے سامنے آئینہ معلوم ہوا کہ اب تک جو کچھ اس سلسلہ میں پڑھا  تھا، سنا تھا، جانا تھا، وہ بس جھک ماری تھی، تصوف کی حقیقت، طریق کی تعریف ، آج پہلی بار دل و دماغ کے سامنے آئی، قصد السبیل  پڑھتا جاتا تھا اور سطر سطر پر، پردے نگاہوں سے ہٹتے جاتے تھے، رہ رہ کر طبیعت اپنے ہی اوپر جھنجھلائی تھی کہ اب تک کیوں نہ پڑھا تھا ، بارہ برس کی مدت کوئی تھوڑی ہوتی ہے "۔ (حکیم الامت،صفحہ نمبر 10، 11)
 تھانوی رحمہ اللہ  سے مراسلات شروع ہوئے ، ایک   سال تک مراسلات پر دلوں کا حال بیان  ہوتا رہا پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں ،   اتنے متاثر ہوئے  کہ ایک جگہ لکھا  کہ  اگر میں عقیدہ تناسخ کا قائل ہوتا تو کہہ اٹھتا کہ امام  غزالی رحمۃ اللہ دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔ بیعت کی بات کی تو حضرت تھانوی نے ان کا سیاسی میلان دیکھتے ہوئےمولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ  کو کہا  کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں۔ عبدالماجددیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی۔بیعت مدنی رحمہ اللہ  سے  ہوئی مگر عقیدت اور اصلاح کا تعلق   تھانوی رحمہ اللہ سے  ہی رہا ۔ شیخ کی  وفات کے بعد انکی سوانح عمری 'حکیم الامت نقوش و تاثرات '  لکھی  جو  پانچ سو سے زائد  صفحات  پر مشتمل ہے  کتاب کیا ہے ایک  فلسفی مرید کے اپنے مرشد و مصلح   کے ساتھ بیتے لمحات،  ملاقاتوں  کے احوال  اور عقیدت  و عشق میں ڈوبے ہوئے تاثرات کا مجموعہ  ہے  ۔  اس کے علاوہ  حضرت تھانوی کی ایک مشہور کتاب مناجات مقبول جو  قرآ نی و حدیثی دعاؤں کا خوبصورت گلدستہ ہے ۔  اسکی عام فہم زبان میں شرح لکھی ، شرح ایسی ہے کہ    قاری دعائیں پڑھنے   کے بجائے دعائیں مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، دعاؤں میں مزا آنے لگتا اورالفاظ کی چاشنی اور عاجزانہ انداز  قلب کی کیفیت بدلت دیتا ہے۔
 کچھ عرصہ بعد  دریا باد منتقل  ہوئے اور  اس  کی خاموشی میں کام کرنے کا خوب موقع ملا۔ کئی  ایسے ادبی مضامین قلم سے نکلے کہ جو ہمیشہ یاد رکھے گئے ،غالب کا ایک فرنگی شاگرد،مررزا رسوا کےقصّے،اردو کا واعظ شاعر، پیام اکبر، اردو کا ایک بدنام شاعر،گل بکاؤلی ، مسائل تصوف اور موت میں زندگی وغیرہ  ان مضامین نے تنقید کی دنیا میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔ تجدید اسلام کے  بعد  ایسے دور سے گذر رہے تھے کہ  ان کا میلان زیادہ تر قرآن اور متعلقات قرآن ہی پر وقف ہو گیا تھا  ،تصوف  بھی  انکا  خاص موضوع رہا ، سو ایک کتاب “تصوف اسلام " لکھ ڈالی اور رومی کے ملفوطات کو بھی  ترتیب دیااورقرآن کے انگریزی ترجمے اور تفسیر  جیسے بلیغ کام کا بھی  آغاز کیا ۔
بیسویں صدی کا ہندوستان “اخبارات ” کا ہندوستان تھا ،کئی اکابرین نے صحافت کے نئے باب رقم کئے تھے، ہندوستان کی سیاسی و مذہبی لہروں کی گونج اخبارات میں سنائی دے رہی تھی۔خود عبدالماجد ایک عرصہ اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے تھے، سو جانتے تھے کہ ہنگامی اور اہم موضوعات کو عوام تک پہنچانے کے لئے اخبارات سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔سوچا کیوں نہ اپنا ایک اخبار ہی نکالا جائے، ادیب دوستوں سے مشاورت کے بعد  اخبار کا نام “سچ” تجویز کیاگیا۔ تیاریاں مکمل ہوئیں اور عبدالماجد کی زیر ادارت ہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اس   وقت  ردبدعات ، معاشرے میں پھیلی فکری غلط فہمیوں   کی اصلاح،   تجدد اور ترقی پسندی کے پردے میں مغرب نقالی  کا رد اخبار کے خاص موضوعات تھے۔ یہ دور  کئی قسم کے  فرقوں کی پیدائش،  سیاسی  افراتفری اور  انتشار  کا دور تھا، اس لیے سچ کو اپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں بھی لڑنا پڑیں، آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے۔شروع میں توجہ اصلاح  رسوم و ردبدعات پر ذیادہ تھی اس لیے قدرۃ اہل بدعات بھی ناراض رہے   اور وہابیت کا  ترجمان ہونے کے القاب ملے،  پھر جب سعودی شریفی  آویزش پر نکتہ چینی شروع  تو بدعتیوں کا پشت پنا کہا گیا ، بعض ہم خیال طبقات کی دشمنی بھی مول لینی پڑی  لیکن سچ لکھنے کے لئے عبدالماجد نے کبھی مصلحت کو آڑے آنے نہ دیا۔  تنقید کی تو  ہمیشہ ذاتیات کا پہلو بچا کر ، حق کو حق اور باطل کو باطل بلا  کسی مسلک ، جماعت  کے خیال   اور بغیر کسی تعصب  کے کہا ۔ اپنے سابقہ تجربہ کی وجہ سے الحاد  کی طرف جانے والے تمام راستوں سے واقف تھے اس لیے   بلاوجہ کی تجدد پسندی،  روشن خیالی ، مذہب بیزاری اور فلسفیانہ مغالطے پھیلانے والوں سے مقابلہ    ہر محاذ پر رہا ،اسی طرح  الحاد براستہ  انکار حدیث سے تو مدتوں جنگ رہی ۔  نیاز فتح پوری کے الحاد و فتنہ نگار کے  علمی رد کے لیے مہینوں اپنے کو وقف رکھا ۔
سچ کی ہنگامہ آرائیوں میں مصروف رہ کر عبدالماجد اپنے خاص علمی کاموں سے دور ہوتے جا رہے تھے،قرآن مجید کے انگریزی اور اردو ترجمے و تفسیر کے لئے کافی وقت درکار تھا اس  کے لیے آخر   “سچ”کو اس کارنامہ عظیم کی خاطر بند   کرکے  پوری جانفشانی سے تفسیر کا کام شروع کیااور  دریا باد کی تنہائیوں میں وہ کارنامہ سرانجام دینے لگے جو علوم دینی میں ایک اہم باب کا اضافہ کرنے والا تھا۔ عبدالماجد  مغربی علوم کے ماہر اور قدیم اور جدید تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تھے ،بائبل کے تمام ادوار انکی نظر میں  تھے اور  شروع میں پادریوں   کی علمی  یلغار  کا مقابلہ  بھی کرتے رہے تھے ۔اس کے علاوہ  فلسفہ شروع سے انکا خاص موضوع رہا   تھا،ایک عرصہ تک مغربی فلسفہ سے متاثر ہوکر الحاد و تشکیک کا شکار  رہے  تھے اس لیے اسکی حقیقت کو  بھی دوسروں سےذیادہ  سمجھتےتھے ،  شروع کی زندگی تو گزری ہی ہمہ وقت فرنگی علوم و فنون ،  فلسفہ و نظریات کی فتنہ سامانیوں  اور معاشرے میں پھیلی فکری گمراہیوں  کے علمی رد میں تھی ۔  اپنی گزری عمر کے اس سارے علم اور  تجربے کا نچور   اس تفسیر میں پیش   کیا،   تفسیر میں   مغربی مفکرین، فلسفیوں، مبلغین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کے  علمی جوابات بھی موجود ہیں  اور اسکے اثرات سے پیدا ہونے والے لادینیت الحاد و تشکیک کے امراض کا شافی علاج بھی ۔ مغربی فلسفہ زدہ یورپ پلٹ معاشرہ کے لیے یہ  تفسیر  آب حیات سے کم نہیں ۔   مولانا نے اس میں رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز  رکھی اور قرآنی آیات والفاظ  کی جو  عصری تطبیق پیش کی  اس میں  تفسیر بالرائے سے  بچنے  کی کوشش میں  اکابر علمائے تفسیر  کی تحقیق  کو  بھی مدنظر رکھا اس لیے  جہاں تفسیر میں  بائبل، تورات،  وید، گیتا ، بدھ تعلیمات ، مجوسی مفکرین، قدیم و جدید فلسفیوں کے حوالہ جات اور انکے مدلل جوابات  نظر آتے ہیں وہاں عظیم مفسرین کرام کی تفاسیر کے اقتباسات کو بھی  پیش کیا گیا ہے۔ آپ کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی   چونکہ ہر قدم پر ہدایات اور مشاورت  میسر رہی    اس لیے    قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو بھی   مستند  ہیں ۔ مزید  مولانا   چونکہ اردو کے بہت بڑے ادیب اور انشاپرداز  بھی تھے  اس لیے   تفسیر   محض خشک علمی ابحاث پر مشتمل   نہیں  بلکہ یہ اردو تفسیری ادب میں بھی  بلند مقام رکھتی ہے، اس میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی تشنگی  بھی دور کی ہے۔
تفسیر ماجدی لکھتے لکھتے کئی  اور کتابیں  بھی ظہور میں آئیں جو بعد میں”اعلام القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن”وغیرہ کے نام سے شائع ہوئیں۔  یہ کام مکمل ہوا تو خاکے لکھنا شروع کر دیئے جنہیں کتاب کی صورت ملنے لگی۔ کسی عالم دین سے کب توقع تھی کہ وہ سوانح نگاری ،خاکہ نگاری اور انشائی تحریروں میں بھی دماغ کھپائے گا لیکن عبد الماجدنے تو جیسے تہہ کر لیا تھا کہ وہ ادب کے ہر گھر میں جھانکے بنا نہیں رہیں گے۔شاعری بھی کی اور غزل کو ہاتھ لگایا، تنقید بھی کی اور تحقیق تو ان کا خیر میدان ہی تھا ۔ یوں  مسائل القصص، الحیوانات فی القرآن، ارض القرآن،اعلام القرآن، بشریت انبیاء، سیرت نبوی قرآنی،اور مشکلات القرآن جیسی کتب پڑھنے والوں کے سامنے آئیں۔
عبد الماجد کی صحت ہمیشہ سے ہی ناساز رہی تھی ۔ ملیریا کے سالانہ حملوں اور مسلسل نزلے کے باعث بینائی متاثر ہو چکی تھی ۔ 80سال پار کرنے کے بعد قوت ارادی بھی جواب دینے لگی۔ایک دن اپنی بیٹیوں  کو پاس بلا کر اپنی کتابوں کی تقسیم بھی کر وادی کہ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو،عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دیں۔ دسمبر کا مہینے کا آخر تھا کہ نیا حملہ فالج کا ہو ا، حواس قائم نہ رہے تھے،بار بار غفلت طاری ہو جاتی تھی لیکن اس عالم میں بھی بار بار ہاتھ کان تک اٹھاتے اور اس کے بعد نیچے لا کر نماز کے انداز میں باندھ لیتے تھے۔ایک روز اپنی منجھلی بیٹی کو بلا کر کہنے لگے کہ “وہ جو آتا ہے ف۔۔۔”بیٹی نے جملہ مکمل کیا کہ”فرشتہ؟”بولے ۔”ہاں”اور داہنی جانب اشارہ کیا اور کہا “آگیا ہے۔”اس واقعے کےچار دن بعد ہی 6جنوری1977صبح ساڑھےچار بجےخاتون منزل (لکھنؤ)میں خالق حقیقی سےجا ملے۔نماز جنازہ  وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعلماء کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ  نے پڑھائی۔ دریا باد میں  آپ کی تدفین ہوئی۔

مستفاد :
1-جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کی تصنیف “عبد الماجد دریا بادی ،احوال و آثار
2-عبدالماجد دریا بادی کی سوانح” آپ بیتی
3- حکیم الامت  از مولانا دریابادی

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 21 جون، 2014

مولانا دریابادی کے سفر دہریت کی داستان

پیدائش مذہبی گھرانے میں ہوئی  ، ماں اور بڑی بہن تہجد گزار، والد صوم صلاۃ کے پابند،  دادا مفتی  اورنانا ایک مشہور عالم ، گھر میں   دینی تربیت  کا  ماحول تھااس کے علاوہ ایک مولوی صاحب بھی  پڑھانے آتے ، بارہ تیرہ سال کی عمر میں تو گویا پورے ملا بن گئے تھے، نویں جماعت میں تھے  قرآن کے موضوع پر  ایک مضمون تیار کر کے صوبے کے سب سے بڑے اخبار”اودھ اخبار”میں بھیج دیا ۔ مضمون پرچہ کی زینت بنا  اور یہاں سے  ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا ۔کالج کے لئے انہیں کیتگ کالج لکھنؤ میں داخل کرایا گیا۔ اختیاری مضامین کے طور پر منطق ، تاریخ اور عربی لئے۔یہ وہ مضامین تھے جن میں ان کی اہلیت کالج کے معیار سے کہیں زیادہ تھی۔انگریزی لازمی مضمون تھا  لیکن اس مضمون میں بھی  کوئی   پریشانی نہ ہوئی ایک تو  اس سے طبعی مناسبت تھی دوسرا انگریزی اخبار و جرائد مطالعے میں  بھی رہا کرتے تھے ۔
ایک روز شام کی سیر  کے دوران نگاہ “رفاہ عام لائبریری “پر پڑی ،  قدم لائبریری کی جانب اٹھ گئے ۔اندر کتابو ں کا بازار نظر آیا،  ایک  کتاب نکلوائی اور پڑھنے بیٹھ گئے ،  اس دن کے بعد جب  بھی  سیر کو نکلتے تو  یہیں کتابوں کی سیر کرتے رہتے۔مطالعہ کی کثرت نے ان کے اندر کے ادیب کو بیدار کرنا شروع کر دیا تھا ۔کالج کے ابتدائی سال تھے عمر نا پختہ تھی مگر کتابوں کے شغف نے اتنی معلومات فراہم کر دی تھی کہ تصنیف و تالیف کی جانب مائل ہو گئے۔ “محمود غزنوی ” پر مفصل مقالہ لکھ ڈالا  ،اس مقالہ میں تاریخ یمنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ غزنوی پر بخل کا الزام لغو ہیں یہی کام مولانا  شبلی بھی انہی دنوں کر رہے تھے کہ فرزندان اسلام پر مغرب کے  لگائے گئے الزامات کی تردید تاریخی حوالوں سے کر رہے تھے۔ کتاب ایک پبلشر نے شائع کر کے ان  کا نام بھی مصنفوں کی فہرست میں ڈال دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان  کے تعلقات دیگر اہم ادیبوں سے بھی استوار ہوتے چلے گئے۔
ایک دن  اک عزیز کے پاس ا یک انگلش کتاب  محض اتفاقا  دیکھنے میں آئی ، ہر چیز کے پڑھنے اور پڑھ ڈالنے کا مرض تو شروع ہی سے تھا، بے تکان اس کتاب کو بھی پڑھنا شروع کردیا، جوں جوں آگے بڑھتے گئے ، گویا اک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد و اخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیروزبر ہوتی چلی گئی!۔۔Element  of  Social Science کتاب کا نام تھااور مصنف ڈاکٹر ڈریسیڈیل جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ یہ  اپنے وقت کا ایک کٹر ملحد تھا۔  کتاب مذہب پر نہ تھی اور نہ بظاہر اسکا کوئی تعلق  ابطال مذہب سے تھا ، اصول معاشرت اور آداب معاشرت پر تھی ، لیکن ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی ۔اس کا اصل حدف وہ  اخلاقی بندشیں تھیں جنہیں مذہب اب تک علوم متعارفہ کے طو ر پر پکڑے ہوئے تھااور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔مثلاً عفت و عصمت، کتاب کا اصل حملہ انہی  بنیادی اخلاقی عقائد پر تھا۔۔کتاب کے مطابق یہ جنسی خواہش تو جسم کا ایک طبعی مطالبہ ہے اسے مٹاتے رہنا اور اس کے لئے باضابطہ عقد کا منتظر رہنا ایک فعل عبث ہے،بلکہ صحت اور جنسی قوتوں کی بالیدگی کے لئے سخت مضر ہے۔اس لئے ایسی پابندیوں کو توڑ ڈالو اور مذہب و اخلاق کے گڑھے ہوئے ضابطہ زندگی کو اپنے پیروں سے روند ڈالو۔ایسے ہی  کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر  پڑتی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز  رہے ۔ کوئی پختہ کار مرد ہوتا تو وہ ان باتوں کو محض باتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتا مگر  یہ  سولہ سال کا نوجوان طفل نادان تھا اس سیلاب کی تاب نہ لا سکا۔ مذہب کی حمایت و نصرت میں اب تک جو قوت جمع تھی ، وہ اتنی شدید بمباری کی تاب نہ لاسکی اور شک و بدگمانی کی تخم ریزی مذہب و اخلاقیات کے خلاف خاصی ہوگئی۔ یہ سوچنے لگ گئے کہ  اب تک کس دھوکے میں پڑے رہے، تقلیدا ابتک جن چیزوں کو جزو ایمان بنائے ہوئے تھے  وہ عقل و تنقید کی روشنی میں کیسی بودی ، کمزور اور بے حقیقت نکلیں،اس کتاب میں “ایمان” پر براہ راست حملہ نہیں کیا گیا تھا مگر ان چیزوں کو کمزور بنا دیا گیا تھا جو ایمان کو قائم رکھتی ہیں۔پروپیگنڈے میں  یہی   کوشش کی جاتی ہے  کہ براہ راست حملہ نہ ہو بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کرکے قلعے کی حالت مخدوش کردی جائے ۔ عبد الماجدا بھی اس کتاب کو پڑھ کر پوری طرح گرے نہیں تھے مگر سنبھل بھی نہ سکے تھے ۔
 یہ ایک نیا موضوع تھا جو اب تک ان کی نظر سے نہیں گذرا تھا ۔ شک  وراتباب کی تخم ریزی ہوہی چکی تھی اور  ملحد اور نیم ملحد فلسفیوں کی  انگریزی میں کمی نہیں تھی ۔ لکھنؤ کی “ورما لائبریری “ قریب ہی تھی  ، وہاں سے چارلس بریڈلا، بوشنر، انگرسول، ہیوم، اسپنر  کی کتابیں پڑھنے کو  ملتی رہیں اور  تشکیک کو غذا اور الحاد کو خوب تقویت پہنچتی رہی ۔ ایک ضخیم کتاب   جو کئی جلدوں پر مشتمل تھی   International Library of Famous Literature  کے نام سے دکھائی ، یہ کتاب بھی مذہبیات کی نہیں ادب محاضرہ  کی  تھی ، ساری دنیا کے ادبیات کے بہترین انتخابات کو اس  میں جمع کیا گیا تھا،  اس کی ایک پوری    جلد قرآن اور اسلام کےذکر پر مشتمل تھی  ۔اس میں ایک پورے صفحے کا فوٹو “بانی اسلام” کے نام سے شامل کیا گیا تھا  اور نیچے مستند حوالہ کہ فلاں قلمی تصویر کا عکس ہے 'درج کیا گیا تھا، گویا ہر طرح سے صحیح و معتبر ۔ جسم پر عبا،  سرپر عمامہ اور چہرہ مہرہ پر بجائے  کسی قسم کی نرمی کے غصیلہ پن، تیوروں پر خشونت کے بل پڑے  ہوئے، ہاتھ میں کمان، شانہ پر ترکش ، کمر میں تلوار۔ ۔ گویا تمام تر  ایک ہیبت ناک و جلاد قسم کے بدوی سردار قبیلہ کی  شبیہ ۔ ۔ نوجوانی میں  فرنگیت سے مرعوب ذہنیت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ خود اس فوٹو میں  کوئی جلعسازی بھی ہوسکتی ہے اور انکی کوئی بات غلط بھی ہوسکتی  ہے ۔۔ جو  رہی سہی کسر  تھی  وہ اس تصویر نے نکال دی ، ذات رسالت سے اعتقاد دیکھتے دیکھتے دل سے  مٹ گیا۔رئیسانہ ٹھاٹ کے باوجود ان کی تربیت دینی خطوط پر ہوئی تھی ،آباؤ اجداد سے ایک دینی روایت ساتھ چلی آرہی تھی، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا دین کی آغوش میں پلا بڑھا یہ نوجوان پہلے ، دوسرے حملے میں ہی چت ہوگیا،  گمراہی کے کتنے دروازے ہیں اور شیطان کی آمد کے لئے  کتنے راستے کھلے ہوئے  ہیں، یہ کون جانتا ہے۔۔؟! نماز اب بھلا کہاں باقی رہ سکتی تھی، پہلے وقت سے بے وقت ہوئی، پابندی گئی،  پھر ناغے اور کئی کئی ناغے ہونے لگے، یہاں تک کہ بالکل غائب ہوگئی، وضو، تلاوت، روزہ وغیرہ سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا، شروع شروع میں کچھ خوف اور لحاظ والد  کا رہا  لیکن یہ کب تک کام دیتا، جو اسوقت  اللہ اور اسکے رسول سے بغاوت پر آمادہ تھا وہ باپ بیچارے کو کیا خاطر میں لاتا۔
مذہبی مطالعہ اس وقت بھی کچھ ایسا کم نہ تھا  لیکن فرنگی الحاد کے جس سیلاب عظیم سے ٹکراؤ تھااس سے مقابلے کے لئے وہ مطالعہ ہرگز کافی نہ تھا،کفر کے اندھیروں میں اترنا ہی تھا کہ ایسے ہی دوستوں کی تلاش بھی شروع ہوگئی ۔کالج کے ایک ساتھی طالب علم محمد حفیظ سید سے یارانہ بڑھا ۔وہ بھی ملحد ہو چکا تھا اور ہندوانہ تصوف و فلسفے کا گردیدہ تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ عبدالماجد ملحد یا منکر اور حفیظ تین چوتھائی ہندو ۔ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور ملحدانہ رنگ چڑھتا گیا۔ دبے دینی کی لے بڑھ رہی تھی ،عبدالماجد نے کسی کے پاس لنکن کی ریشنلسٹ پریس ایسوسی ایشن کی ارزاں قیمت مطبوعات کی فہرست  دیکھی ،  مسلک عقلیت (ریشنلزم ) کے پرچار کے نام سے یہ سب کتابیں رد مذہب و تبلیغ الحاد کے لئے تھیں ، پہلے یہ کتابیں مانگ مانگ کر پڑھیں ، پھر جب لت پڑگئی اور نشہ اور تیز ہوگیا تو فیس ادا کرکے انجمن  کا باضابطہ ممبر بن گئے، فخر سے اپنے آپ کو ریشنلسٹ کہتے اور اپنے اس ننے منے کتب خانے کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ہندوستان میں اس  ایسوسی ایشن کی کو ئی شاخ نہیں تھی  اس کے پندرہ روزہ نقیب ' ریشنلسٹ ریویو'   کو قیمت بھیج کر اسکے خریدار بن گئے۔ رفتہ رفتہ اب اسلام کے نام سے  بھی شرم آنے لگی۔
اسی دوران علامہ شبلی کی کتاب “الکلام”منظر پر آئی، عبدالماجد نے مطالعہ کیا ۔ان کے مطابق کچھ خامیاں تھیں سو تنقید کے لئے قلم اٹھا لیا ۔ ایک رسالہ”الناظر”جو  لکھنؤ سے شائع ہوا کرتا تھااس کے ایڈیٹر ظفر الملک کو شبلی سے کد تھی ، عبدالماجدکو اس سے بہتر دوسرا کوئی رسالہ دکھائی نہ دیا ۔رسالے نے بھی خوش آمدید کہا۔ عبدالماجدکا ایک طویل مقالہ چھے اقساط میں شائع ہوا۔یہ قسطیں ایک طالب علم کے نام سے شائع کروائیں۔(شبلی سمجھتے رہے کہ یہ کام مولوی عبدالحق کا ہے،مگر یہ راز بعد میں کھل گیا)۔ مختلف مضامین کی ترتیب و تسوید جاری رہی اور اس میں عبدالماجد کی عقل  ہی ان کی امام  اور رہبر تھی۔ جو بھی مذہبی عقیدہ ان کی عقل کے معیا ر پر پورا نہ اترتا وہ بقول عبدالماجد ناقص تھا۔ مضامین میں عبدالماجد کا لہجہ کڑوااور مسموم  ہوتا حتی کہ مذہب و سائنس کے اختلافات کی تفصیل درج کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکال لائے کہ مذہب اب چند روزہ مہمان ہے۔ جوں جوں سائنس کی تعلیم عام ہوتی جائے گی اسی نسبت سے مذہب کا اثر بھی زائل ہوتا جائے گا۔ان تمام مضامین کا مقصود دراصل مذہب کو مجموعہ توہمات ظاہر کرنا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اکثر مسائل میں بانیان مذہب غلطیوں اور غلط فہمیوں کا شکار رہے۔ وہ تعلیمات مذاہب کو اللہ کی نہیں بلکہ انبیاء  کی خودساختہ سمجھتے  تھے ۔عبدالماجد کےان مضامین کا ردّعمل بھی ہوا۔جن کا خلاصہ یہ تھا  کہ استدلال نہایت سطحی ہے، قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنےمیں ٹھوکر کھائی ہیں۔مصنف کا قلم اندھے کی لکڑی کی طرح ہے جو چاروں طرف گھوم رہی ہے کسی کے بھی لگ جائے۔
عبدالماجدکا الحاد اپنی جگہ لیکن “الکلام” پر تنقیدی اقساط اور دوسرے کئی مضامین کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ایک ادیب تسلیم کروا چکے تھے۔بعض ادیبوں سے ان کے تعلقات بھی استوار ہو چکے تھے جو ان کے خاندان سے واقف تھے انہیں دکھ ہوا کرتا تھا کہ کیسے اشرف خاندان کا چراغ کن ہواؤں کے سامنے ہے۔ان کی تہجد گزار ماں کو جب علم ہوا تو دل پر قیامت گذر گئی۔وہ جو دوسروں کو نماز و روزے کی تلقین کیا کرتی تھیں ان کا اپنا بیٹا منکر نماز و روزہ تھا۔  والد عبدالقادر صاحب وقت سے پہلے بوڑھے ہو چکے تھے۔سب نے خوب سمجھایا ،پر سب بے سود۔ عبدالماجدکا مطالعہ  وسیع تھا ،  الحاد بھی استدلال پر مبنی تھا،منطق و فلسفہ ان کے خاص مضامین تھے ،کوئی ان سے نہ جیت سکا،کوئی قائل نہ کر سکا۔سب نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر دعاؤں کا سہارا پکڑ لیااور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ ایک جگہ  لکھتے ہیں :
" ذہنی ،فکری، عقلی اعتبار سے تو تماتر ایک فرنگی تھا، مسلمانوں سے میل جول بہت کم ہوگیا تھالیکن ابھی بھی جذباتی حیثیت سے ایک مسلمان ہی  تھا، ایک روشن خیال مسلمان ، مسلم قومیت سے میری جڑیں کٹنے نہ پائی تھیں، مسلم قومیت دین اسلام کے بعد ایک بڑی نعمت ہے ، کوئی صاحب اسے بے وقعت  وبے قیمت نہ سمجھیں، مجھے آگے چل کر اس کی بڑی قدر معلوم ہوئی۔ حالت یہ تھی کہ کوئی غیر مسلم  جب کبھی اسلام پر معترض  ہوا، ارتداد کامل کے باوجود  اپنا دل اسکی تائید کے بجائے  اسکو جواب دینے پر ہی  آمادہ کرتا۔  اکتوبر 1911 کا ذکر ہے، ایک بڑی مسیحی کانفرنس میں شرکت کے لیے مشہور معاند اسلام پادری زویمر بھی بحرین سے آئے ، انکی شہرت عداوت اسلام کی ، ان سے قبل  یہاں پہنچ چکی تھی۔ میں بی اے کا طالب علم تھا اور عقیدۃ تما م تر منکر اسلام۔ اپنے ایک دوست مولوی عبدالباری ندوی  کو ساتھ لے ' جھٹ ان سے ملنے پہنچا، پادری  صاحب اخلاق سے پیش آئے لیکن حسب عادت چوٹیں اسلام پر کرنا شروع کردین۔ آپ یقین کیجیے  کہ جوابات جس طرح ندوی صاحب نے عربی میں دینا شروع کئے اسی طرح میں نے بھی انگریزی میں ۔ پادری صاحب پر یہ کسی طرح کھلنے نہ پایا کہ میں تو خود ہی اسلام سے برگشتہ و مرتد ہوں، کسی پادری یا آریہ سماجی یا کسی اور کھلے ہوئے دشمن اسلام کا اثر مطلق مجھ پر نہ تھا۔ متاثر جو کچھ بھی  میں ہوا تھا، وہ تمام تر  اسلام کے مخفی دشمنوں سے اور انکی تحقیقات سے ہوا تھا ، جو زبان پر دعوی کمال بے تعصبی کا رکھتے تھے ، لیکن اند ر ہی اندر زہر کے انجکشن دیتے جاتے۔"(آپ بیتی صفحہ ، 243)
 دوسری طرف اپنی سوچ میں شدت پسند ی کا یہ حال تھا کہ کالج کے سالانہ امتحان کے فارم میں مذہب کے فارم میں اسلام کے بجائے “ریشنلسٹ”لکھنا باعث فخر سمجھتے۔انٹر کے بعد اسی کالج میں بی اے میں داخلہ لیا،مضامین  بھی وہی خاص تھے،عربی اور فلسفہ ۔مذہب کی مخالفت کے لئےفلسفہ ہی بڑا سہارا ہو سکتا ہےکیونکہ تمام تر تکیہ  “عقل”پر کرتا ہے۔کالج کی لائبریری میں جتنی کتابیں فلسفے کی تھیں سب پڑھ ڈالیں۔ملحد وں و نیم ملحدوں کی کتابوں کے ساتھ وہ کتابیں بھی سامنے آئیں جنکا موضوع نفسیات تھا ان سے الحاد کو مزید تقویت ملی۔ آب بیتی میں لکھتے ہیں:
  " اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف و صریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں  کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں  جتنی وہ فنی کتابیں  ثابت ہوئی جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیا  نہ اثباتا، لیکن   اصلی زہر انہی  بظاہر بے ضرر کتابوں کے اندر گھلا ہوا ملا۔ مثلا ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی اسکی دو موٹی  موٹی کتابیں اس زمانہ میں خوب شہرت پائے ہوئے تھیں، ایک مینٹل  فزیالوجی (عضویات دماغی) اور دوسری  مینٹل  پیتھالوجی ( مرضیات دماغی)۔ اس دوسری کتاب میں  اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی  محمدی کو لے  آیا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ ظالم لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے  یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا  کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لئے چھوڑ جائے۔۔! ایمان کی بنیادیں کھوکھلی تو پہلے ہی ہوچکی تھیں اب ان کم بخت ' ماہرین فن' کی زبان سے اس قسم کی تحقیقات عالیہ سن کر رہا سہا ایمان بھی رخصت ہوگیا اور الحاد و ارتداد کی منزل تکمیل کو پہنچ گئی۔!  
ایمان کو عزیز رکھنے والے خدا کے لئے ان تصریحات کو غور سے پڑھیں ۔"(آب بیتی  صفحہ 240)
  اس دوران ایک آنریری مجسٹریٹ جو  عبدالقادر صاحب  کے قرابت دار بھی  تھے 'کی صاحبزادی عفت النساء سے عبدالماجد کی   ملاقات ہوئی اور اس  سے محبت کرنے لگے ۔آتش عشق بڑھی تو شاعر بھی بن گئے ،غزلوں پر غزلیں ہونے لگیں ۔ان کچھ دنوں کے لئے وہ نہ مسلمان تھے  نہ ملحد بس عاشق بن گئے تھے ۔کچھ غزلیں جمع ہوئیں تو سوچا کہ اکبر الٰہ آبادی کو دکھا دیں ۔اکبر کی جانب سے حوصلہ افزا جواب آیا تو دوسری غزل روانہ کی جس کا شعر تھا:
جانبازیوں کو خبط سے تعبیر کر چلے
تم یہ تو خوب عشق کی توقیر کر چلے
اکبر نے خوب داد دی اور خوشی اور تعجب کا اظہار کیا ۔محبت میں دیوانگی کی حد عبدالماجد ضرور چھو رہے تھے مگر اپنے علمی مرتبے سے بھی غافل نہ تھے ۔ ان کی دو کتابیں ۔”سائیکالوجی آف لیڈر شپ “اور “فلسفہ اجتماع “آگے پیچھے شائع ہوئیں۔ انہوں نے ان کتابوں میں پیغمبران عظام پر تعریضات کی  تھیں اور ان پر خود غرضی کے الزامات لگائے تھے۔ یہ ایسی جسارت تھی کہ اخبارات و رسائل خاموش نہ رہ سکے۔ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔مخالفانہ تبصرے شائع ہوتے چلے گئے۔سب سے اہم فتویٰ وہ تھا جو احمد رضا خان بریلوی کی جانب سے شائع ہوا اور عبدالماجدکو کافر قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ بہت سے فتوے ان کی عدم تکفیر میں بھی شائع ہوئے۔جن میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی ، سید سلمان ندوی اور مولانا شیر علی جیسے جید نام بھی تھے۔یہ  حضرات  سمجھتے تھے کہ عبدالماجد غلط راستے پر پڑ گیا ہے اگر نرمی کا برتاؤ کیا جائے تو جلد ہی راستے پر آجائے گا اگر سختی کی گئی تو مزید ضد پر آجائے گا ۔علما کا یہ برتاؤ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ عبدالماجد کی علمی وقعت کے قائل تھے۔وہ دھیرے دھیرے نرمی کے ساتھ انہیں اسلام کی طرف لانا چاہ رہے تھے۔ ان کتابوں کی وجہ سے انکے خاندان میں بھی چہ مگویاں بڑھ گئی تھیں ماں نے یہ حل سمجھا کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔چنانچہ 2جون1916؁ کو اس کا نکاح لکھنؤ میں انجام پا گیا۔ممتاز شعرانے تاریخیں نکالیں اور سہرے لکھے۔ 
منکر ہو نہ کوئی اپنی ہمتائی کا
یہ کام کبھی نہیں ہے دانائی کا
اللہ نے اب غرور ان کا توڑا
دعوی تھا مرے دوست کو یکتائی کا
(سید سلیمان ندوی)
انہی دنوں عبدالماجد سخت معاشی پریشانیوں کا شکار  بھی ہوئے ، والد فوت ہوچکے تھے ، پیسہ جس  بنک میں تھا وہ دیوالیہ ہوگیا۔ آخر  دار المصنفین اعظم گڑھ ان کے کام آگیا۔ دارالمصنفین کی فرمائش پر جارج برکلے کی مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ”مکالمات برکلے”کے نام سے کیا جو اس خوبی سے ہوا کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی “معارف”کے لئے معاوضے پر لکھنا شروع کر دیا اور گزر بسر ہوتی رہی۔1919؁ کے اوائل میں نظام حیدر آباد سے ان شرائط پر وظیفہ کی منظوری ہوئی کہ وہ سال میں 1تصنیف پیش کیا کریں گےاور اسکے خاکے کا مسودہ محکمہ احتساب کی نظر سے گزارنا ہوگا ،محکمے کی منظوری کے بعد وہ کتاب مکمل کریں گے۔شرائط شائد اسی لئے لگائی گئی  تھی  کہ عبدالماجدکے الحادی نظریات کو جانچ سکیں ۔125روپے ماہانا تا حیات منظور  ہوگئےجو گھر بیٹھے انہیں ہر ماہ ملنے لگے۔اس دور میں متعدد ترجمے ان کے قلم سے نکلے جن میں “تاریخ ،تمدّن ، تاریخ اخلاق یورپ”اور ناموران سائنس”بڑی اہم ثابت ہوئیں۔
مد کے بعد جزر
نظریات و افکار  کی جنگ جو دس سال سے ان کے باطن میں چھڑی ہوئی تھی اس کے خاتمے کا دور آنے ہی والا تھا ۔ایک ہلچل  جو  مچی تھی اس کو قرار ملنے ہی والا تھا۔تشکیک و الحاد کے اس حملے سے جس سے وہ مغلوب  ہوئے  تھے  اب اس سے نجات کا دن قریب آرہا تھا۔ان کی عقل پر ابر جہالت  پھاڑ کر ایک نیا سورج طلوع ہونے اور  ان کے اندر ایک نیا انسان بیدار ہونے والا تھا۔ اور اس نئے انسان کی بیداری میں ان  مسلمان دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا جو ان  کے دور الحاد میں بھی ان کے ساتھ ہی رہے۔  اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں "
"مخلصانہ کوششیں   اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں ان دو ہستیوں کی: ایک نامور ظریف شاعر اکبر الہ آبادی، بحث و مناظرہ کی انہوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پندو موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے، جو دل میں اتر جاتی  اور ذہن کو جیسے ٹھوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش  کچھ تو بحرحال پیدا ہو کر رہتی۔ ایک روز بولے' کیوں صاحب ، آپ نے تو کالج میں عربی لی تھی، پھر اب بھی اس سے کچھ مناسبت قائم ہے؟ علم و زبان کوئی بھی ہو ، بحرحال اسکی قدر تو کرنی ہی چاہیے'۔ میں نے کہا' اب اس کے لکھنے پڑھنے کا وقت کہاں ملتا ہے'۔ بولے'  نہیں کچھ ایسا مشکل تو نہیں، قرآن کی بے مثل ادبیت کے تو اہل یورپ بھی قائل ہیں، اور سناہے کہ  جرمن یونیورسٹیوں میں   قرآن کے آخری پندرہ پارے عربی ادب  کے کورس میں داخل ہیں، آپ عقائد نہیں، زبان ہی کے اعتبار سے قرآن سے ربط قائم رکھئے اور جتنے منٹ بھی روزانہ نکال سکتے ہوں اسے پڑھ لیا کریں، جتنے حصے آپ کی سمجھ میں نہ آئیں، انہیں چھوڑتے جائیے اور یہ سمجھ لیجیئے  کہ وہ آپ کے لیے نہیں  لیکن آخر کہیں تو کچھ فقرے آپ کو پسند آہی جائیں گے،  بس انہی فقروں کو دو چار بار پڑھ لیا کیجیے ، آپ کے لیے کوئی قید باوضو ہونے کی بھی نہیں"۔ یہ ایک نمونہ تھا انکی تبلیغ کا ۔ دوسری ہستی مولانا محمد علی جوہر تھے، بڑی زور دار شخصیت تھی انکی ۔۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش خروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کرڈالتے ۔ انکی عالی دماغی ، ذہانت، علم اور اخلاص کا پوری طرح قائل تھا اس لیے کبھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی ۔ ایک تیسرا نام اور سن لیجیے ، یہ اپنے ایک ساتھی  مولوی عبد الباری ندوی تھے  ۔ دھیما دھیما انکا اچھا ہی اثر پڑتا رہا۔"
اس تبدیلی میں کافی حصہ  ان کتابوں کا بھی تھا جو ان کے مطالعے میں رہتی تھیں ۔کتابوں ہی نے  انہیں  بھٹکایا اور اب کتابیں ہی انہیں راہ راست پر لا رہی تھیں۔ مذہبی یا نیم مذہبی قسم کے فلسفیوں کا مطالعہ شروع ہو ا ،حکیم کنفیو شس   کو پڑھا ، پھر   بدھ مت  ، پھر تھیاسوفی  جو ہندو فلسفہ تصوف  پر مشتمل کتاب ہے اوراس میں سارا زور روح اور اسکے تقلبات پر  اور رنگ کچھ حاضرات و عملیات سے ملتا ہے' پڑھی ، اسکے علاوہ  ہندو فلسفہ کے بڑے  شارح و ترجمان ڈاکٹر بھگوان داس کی ساری  تحریریں  پڑھ گئے ، کرشن جی کی بھگوت گیتا کے بھی جتنے نسخے انگریزی میں مل سکے سب پڑھ ڈالے۔۔  ان کتابوں نے جیسے آنکھیں کھول دیں اور ایک بالکل ہی نیا عالم روحانیات یا مارواء مادیات کا نظر آنے لگا۔ خود لکھتے ہیں :
" ڈیڑھ دو سال کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہہ اور قطعی تعبیران فرنگی مادیین کی نہیں بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلی و دل نشین توجہیں  اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں اور روحانیات کی دنیا  سراسر وہم وجہل اور قابل مضحکہ و تحقیر نہیں ، بلکہ حقیقی اور ٹھوس دنیا ہے ، عزت و توقیر  ، عمق اور تحقیق و تدقیق کے اعتبار سے گوتم بدھ   اور سری کرشن کی تعلیمات ہرگز کسی مل، کسی اسپنسر سے کم نہیں، بلکہ کہیں بڑھی ہوئی ہیں اور حکمائے فرنگ انکے مقابلے میں  بہت پست و سطحی نظر آنے لگے۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی  خاصہ بعد تھا لیکن بحرحال اب مسائل حیات ، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آگیا  اور مادیت ، لاادریت و تشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آرہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آگیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے ، حواس مادی محسوسات ،  مغیبات و مشہودات ہی  سب کچھ نہیں ، انکی تہہ میں اور ان سے بالا تر ' غیب' اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔" 
(جاری ہے)۔

مکمل تحریر >>

بدھ، 11 جون، 2014

الحادی فتنوں سے بچاؤ کیسے۔ ۔ ؟

تمام مذاہب  کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا  درپیش ہے ۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے  آسمانی مذاہب کے خلاف   شکوک و شبہات  کی  جو یلغار  کی گئی ہے اس نے مذاہب کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، ملحدین وجود باری تعالیٰ،  تصوررسالت ،   عقیدۂ آخرت، کتاب اللہ اور  انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخی حیثیت کو جھٹلاتے  اورطرح طرح کے سوالات کے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ  کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں  پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں  پر کھڑے تھے  وہ  انکے فلسفیانہ  وساوس کی  یلغار   کے سامنے ذیادہ دیر نہ  ٹھہر سکے اور  الحاد انکے  معاشروں  میں بہت آسانی سے جڑ پکڑتا چلا گیا ۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت کا دہریت کے سامنےاتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد  بھی دلا گیا، وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ  شاید  تمام مذاہب ہی  ایسے  خودساختہ  اور متضادنظریات  کی بنیاد پر کھڑے اور مکرو فریب کے ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں  ،  لیکن  الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت  مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے،   ملحدین کے لیے  قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا  علمی ، عقلی اور تاریخی طور پر ممکن نہ تھا، باقی عقائد توحید، آخرت وغیرہ  کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہیں جنہیں   مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت یا  رد نہیں کیا جاسکتا  اور اسلام ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت   واضح اور محکم دلائل و براہین بھی رکھتا ہے اس لیے   انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی  مثلا کمزور اور  من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اکابرین اسلام  کی کردار کشی،  اسلام کا تمسخر، اسلامی سزاؤں کے خلاف پراپیگنڈہ، عقائد میں فلسفیانہ انداز میں  شکوک و شبہات پیدا کرنا، مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دینا، مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے  خاص موضوعات ہیں، یہ  اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے  اور انکی دل آزاری کے لیے انتہائی  گری ہوئی حرکات  کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں   یہ   تجزیہ نگاروں ، کالم نگاروں،   صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں  موجود ہیں  جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے ، زہریلے مضامین ، جھوٹی کہانیاں  پیش کرتے اور معمولی قصے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیلا تے ہیں ، سوشل میڈیا دیکھیں تو اسلام کے  خلاف  ایک پورا  محاذ نظر آتا ہے، مختلف پیجز اور  عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسلام  اور  مسلمانوں کے  خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ ،   فریبی اور گمراہ کن   تحاریر   اور ان سے  بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے، تصاویر تقریبا   روز دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ 
گزشتہ  دو سال   سے  میری دلچسپی کا محور  یہی لوگ رہے  ہیں ،   سوشل میڈیا پر  ان کے پیجز لائیک کیے، ان کے گروپس جائن   کرکے ،   ان سے دوستیاں لگا کے ان کے رویوں، نفسیات  کا مطالعہ کیا ، مجھے  الحاد  کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں میں   سیکولر، لبرل  فاسشٹ ، عیسائی ، قادیانی لوگوں  کے علاوہ   کچھ   ایسے مسلم جوان  بھی نظر آئے  جو اپنے   دینی  عقائد و نظریات  کے  علمی دلائل سے ناواقفیت اور انکے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے  کی وجہ سے  دین سے بدظن اور  بیزار ہوئے یا  سہل پسندی  اور عیاشی کے حصول میں   دین سے دور نکلتے چلے گئےاور چند  ایسے بھی    دیکھے جو تعلیم یافتہ اور منصف مزاج ہیں  اور جن  شکو ک   و شبہات  کا  وہ شکا ر ہیں ، ان موضوعات پر  غیر جانبداری سے لکھنے کی  کوشش کرتے ہیں،   انکا   انداز بھی  باقیوں سے کافی   بہتر اور علمی ہے۔ مجھے دینی راستے سے انکے بھٹک جانے  کی جو  سب سے بڑی  وجہ یا   وہ  کمی جس کی وجہ سے یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوزین کا شکار ہوئے  نظر آئی  'وہ  ایک صالح ، علم و عمل والے شخص کی صحبت، ایک امین ناصح  کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا    تھی ۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں   نے سینکڑوں بڑی اچھی اور تحقیقی کتابوں  کا مطالعہ کیا ،  لیکن ہدایت نہیں پاسکے بلکہ الٹا مزید  گمراہ ہوتے چلے گئے۔۔   ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد  کی محنتیں عروج پر ہوں اور  جدید سیکولر تہذیب کی  چمک دھمک آنکھیں خیرہ  کررہی ہو  اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ   کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے   ہوں، بانت بانت کی بولیاں بولی جارہی  ہوں    اور کتابیں تصنیف کی جارہی ہوں، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے  چند  اچھے برے رائٹرز کی  اہم  دینی  موضوعات پر   کتابیں منتخب کرکے  انکا مطالعہ  شروع کردینا، ہر گری پڑی کتاب کو پڑھ لینا،   کتاب کا محض  ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نا کتاب کے  انتخاب میں کسی مربی اصلاح،    اچھے  علم  والے سے مشورہ کرنا   اور نا شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی مصلح   کی   راہنمائی    کی سہی کرنا   ایسی خشکی اور بوریت  ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی  بددل یا بیزار کردے۔
  یہ بے لگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت  عام ہے  حالانکہ  غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے ، ایک بزرگ عالم    لکھتے ہیں   " جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے ان کے بانی سب اہل علم ہیں ، لیکن سب کے سب بغیر  استاد اور رہبر والے ، پس شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے  ہیں ، لیکن جب موڑ یا چورا ہاآتا ہے ، وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب وکبر میں مبتلا ہوکر کسی کی  سنتے بھی نہیں ہیں ۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷)   ایک اور  جگہ  لکھتے ہیں " ہر فتنے کے بانی پر غور  کیجئے تو یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال  کے  فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ  کی مثال سب کے سامنے ہے، مولاناایک ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا  ایک جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی اورمفسر قرآن تھے۔   کالج کے زمانے میں اسی  آزاد اور بے لگام مطالعہ کی عادت میں    کسی لائبریری میں موجود  مستشرقین کی چند مشہور کتابیں پڑھ بیٹھے ،  پھر ایسے ملحد بنے کہ  حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں بھی گستاخیاں کرتے رہے، قابل گردن زنی قرار پائے، سالوں  مذہب کے خلاف لکھا اور کھل کر لکھا۔   پھر    مولانا شبلی نعمانی ، مولانا سید سلیمان ندوی جیسے علم و عمل  والے دوستوں کی صحبت   اور کتابوں سے روشنی ملنی شروع ہوئی ۔ ایک دوست نے   مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  کے “مواعظ”پڑھنے کو دیئے ،ان کو پڑھ  کر بہت متاثر ہوئے ۔ تھانوی رحمہ اللہ  سے مراسلات شروع ہوئے ، ایک   سال تک مراسلات  پر راہنمائی لیتے رہے ، پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔طویل نشستیں رہیں،  بیعت کے لیے درخواست کی لیکن حضرت تھانوی نے انکا میلان دیکھتے ہوئےمولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ  کو کہا  کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں، آپ  دیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ۔ (مولانا کے دہریہ ہوجانے کی مکمل داستان اگلی تحریر میں   پیش کی جائیگی۔ انشاء اللہ)
آپ نوٹ فرمائیں ایک جید عالم کو  اپنی اصلاح کے لیے مستقل  بیعت ہونا پڑا، عوام کو   اس کی کتنی ضرورت ہوگی، حالانکہ یہ تو آج سے  ستر اسی سال  پہلے کی مثال ہے۔ اب تو حالات مزید بدتر ہوچکے ہیں۔  اس دور میں  اتنی آزاد خیالی اور فتنے نہیں  تھے، مطالعہ اور دینی  تعلیم و تربیت کا رواج تھا  جبکہ آج کے دور میں !  نہ  دینی تربیت کا کوئی  نظام   ہے اور  نہ  مطالعہ کا  کوئی رجحان ،  لوگ علمی  لحاظ سے  بالکل  کورے اور کھوکھلے ہیں  دوسری طرف  کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ایسے  فتنے سامنے آرہے  ہیں جو علماء کو بھی پریشان  کردیں،  ایسے ماحول میں تو عوام کو  خصوصی طور پر  پڑھنے ، سنے  میں  بہت  احتیاط  اور بڑوں سے  مشورے کی ضرورت تھی ،   لیکن افسوس پہلے سے بھی  ذیادہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے،۔ ایک عالم شیخ جمال زرابوزو  لکھتے  ہیں کہ
" آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی ۔یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کئے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بے ضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسااوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔"
 اس دور میں علم و عمل والوں کی صحبت کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے ذیادہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں انہیں ، بیعت، اصلاح، تصوف  کے الفاظ سے  ہی  سخت چڑ ہے، وہ  صوفیاء  کی کرامات، شطحیات، جعلی صوفیاء کے   واقعات اور  تصوف کی مخصوص اصطلاحات کو اپنی مرضی کے مطالب اور معانی  کے ساتھ پیش  کرکے تصوف کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں  کہ  اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد و نظریات کی  آمیزش ہوئی اور جعلی  خانقاہوں اور  پیروں کی آمد  سے  بہت نقصان ہوا ،  بہت سی  خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں، شاید اقبال نے بھی  اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
                                           کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
 لیکن  دوسری طرف ہمیں یہی اقبال  مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا روم کے متعقد بھی نطر آتے ہیں اور  انکی شاعری  میں بھی تصوفانہ رنگ آتا ہے ۔ ۔اصل میں ضرورت  افراط و تفریط سے بچنے کی  ہے۔  سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ  کیا  جعلی  ڈاکٹر وں کی وجہ سے کسی نے  ڈاکٹروں کے پاس جانا اور علاج کروانا چھوڑا ؟   جس طرح روحانی  علاج کے  شعبے میں ہزاروں جعلی ڈاکٹر موجود ہیں اس طرح جسمانی علاج کے شعبے میں بھی ہیں، جنہیں علاج یا اصلاح کی طلب ہوتی ہے  انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ  اپنامعالج ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔  مزید جب  دین کے کسی دوسرے  شعبہ پر غلط لوگوں کے قبضےاور کمیوں  کوتاہیوں  کی وجہ سے  اس شعبے کو نہیں چھوڑا جاسکتا   ،تزکیہ واحسان یا تصوف و سلوک تو دین اسلام کی روح اور جان ہے ' اسکو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ اسکی اہمیت کا اندازہ تو  اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جسکی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل تھی' اسکا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے ۔؟ اس گئے گزرے دور میں بھی  ایسی خانقاہیں اور مراکز موجو د ہیں جہاں اہل علم وعمل بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کی اصلاح فرمارہے ہیں۔
 یہ اللہ کی سنت بھی  ہے جب بھی کوئی کتاب بھیجی ساتھ ایک رسول لازمی بھیجا جو لوگوں کو اسکی تعلیم دیتا اور انکا تذکیہ کرتا۔اسی طرح لوگ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ  بن گئے او ر جو صحابہ کی صحبت میں رہے تابعین بن گئے ۔ تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے ، یہ سلسلہ علم و دین ابھی تک  چل رہا ہے۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ   کی کتاب سے ایک  اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں ۔ لکھتے ہیں
  " ہرشبہہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے ، تم منشاء کا علاج کرو۔۔جیسے ایک گھر کے اندر  رات کو اندھیرے میں  چوہے، چھچھوندر کودتےپھرتے تھے۔ گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی  وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ  روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے ، چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو   وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج  یہ ہے کہ قلب  میں نور پیدا کر لو ۔ وہ نور نورمحبت ہے ۔یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم  اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا۔  اگر ایک  فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہوجائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ  سربازار کپڑے اتار کرآو تو میں تم سے بات کروں گی ، ورنہ نہیں  !ً تو فلسفی صاحب اس کے لیے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے ؟ اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
عشق مولی کے  کم از لیلی بود
گوئے گشتن بہر او اولی بود
 میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیداہوتے ہیں ، انکے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، انکو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور  محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے  ۔ تعلق  مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے ، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت  جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا ، یہ لم و کیف  باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔
(اشرف الجواب از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 561، 562)

مکمل تحریر >>