’روشن خیال‘ لبرل اور سیکولر طبقہ کے لوگ قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں گھٹن محسوس کرتے اور اسےمذہبی جمود کا نام دیتے ہیں، انکے خیال میں امت مسلمہ کی زبوں حالی، پس ماندگی اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کی وجہ بھی یہی مذہبی جمود ہے اوراس كا ذمہ دار وه علمائے كرام كو ٹھہراتے ہیں کہ علمائے کرام اجتہاد کے راستے میں رکاوٹ بن کر بیٹھ گئے ہیں اور اس اجتہاد کے رک جانے کی وجہ سےمسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ان ترقی پسند بقراطوں سے کوئی پوچھے کہ مسلم اسپین (اندلس) جسے یورپ سے بھی پہلے ترقی نصیب ہوئی، کیا اس نے صرف علماء کے اجتہادات کی بدولت ترقی کی تھی ؟ جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو کیا ہمیں یہ تحقیق کرنے اور پھر اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہاں کے مسلمانوں نے آخر وہ کیا طریقہ اختیار کیا تھا کہ سپن' جیول آف دی ورلڈ' بنا اور پھر وہ کیا کمزوریاں تھیں جنکی وجہ سے اپنی تمام تر سائنسی ومادی ترقی اپنی تمام تر شان وشوکت کے باوجود اندلس زوال پذیر ہو گیا تھا ؟ !! تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے آج ان روشن خیالوں کے سامنے یورپ کے مذہب کو دفن کرنے کی واحد مثال ہی ترقی کی بنیاد ہے یہ اس بات کو بالکل نظر انداز کیے بیٹھے ہیں کہ اس ترقی کی عمارت محکوم اقوام کے ریسورسز ہتھیا کر تعمیر کی گئی اور اس ترقی کی پہلی سیڑھی نو آبادیاتی لوٹ مار اور دو عالم گیر جنگیں تھیں جس میں کم از کم چار کروڑ افراد لقمہ اجل بنے اور وہی نوآبادیاتی نظام آج بھی سرمایہ دارانہ نظام کی آڑ میں کام کرہا ہے، انکو یہ بھی بالکل نظر نہیں آرہا کہ آج مغربی ممالک کے عوام مذہب کی غلامی سے آزاد ہو کر سرمائے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظم لوٹ مار اسی ترقی کا ایک الم ناک باب ہے۔اقبال نے اسکی خوب منظر کشی کی تھی ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
جدیدیت پسندوں کے منہ سے یہ دلیلیں عام سننے کو ملتی ہیں کہ آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے،تقاضے بدل گئے ہیں ، چودہ سو سال پرانے اسلام پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ، لہذا اجتہاد کیا جانا چاہیے۔عام لوگوں کو بھی یہ نعرے خوشنما لگتے ہیں کہ جی ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں صحابہ کے دور کے مسائل اور آج کے دور کے مسائل میں فرق ہے ، اجتہاد کی اجازت ہے اس لیے جدید دور کے مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل نکالا جانا چاہیے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہےیہ طبقہ ہرگز اس قسم کے اجتہاد کی آواز نہیں لگارہا،اس کو اس اجتہاد کی آواز لگانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ اپنی ذاتی زندگی میں جدید معاملات تو درکنار پرانے معاملات میں بھی نہ شرعی نقطہ نظردیکھتا ہے اور نہ دیکھنا پسند کرتا ہے ، دوسری بات یہ کام غیر محسوس طریقے سے ہر دور کے علماء کرتے آرہے ہیں، تسلی بخش تحقیق اور فقہی ابحاث کے بعد اس جدید دور کے بھی ہر مسئلہ میں راہنمائی کردی گئی ہے۔ حقیقت میں جدت پسندوں کی طرف سے جس اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے وہ ایسا اجتہاد ہے جو انکے فکری و عملی انحرافات کو مذہبی جواز فراہم کردے ، اسلام کے جو احکام انہیں 'اوکھے ' لگتے ہیں اور جو عیاشی کے کام اسلام نے حرام قرار دیے ہوئےہیں انہیں حلال نہیں تو کم از کم مستحب یا مکروہ ہی تسلیم کرلیاجائے، اجتہاد ایسا ہو جو انکے ساتھ پورے معاشرے کو بھی مغربی لوگوں کی طرح ہر مذہبی پابندی سے آزاد کردے۔اسی لیے یہ دین کی موجودہ شکل کی پیروی کو روایت پسندی کہتے ، اسلامی حدود کو سخت اور انسانی حقوق کے خلاف کہتے نظر آتے ہیں ، مزید گہرائی میں انکی بات کو سنا اور پرکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انکا مطالبہ اجتہاد کا نہیں بلکہ تجدید دین کا ہے وہ بھی اس طریق پر کہ اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کوبالکل چھوڑ کر ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور دین کو سمجھنے کے لیے نئے سرے سے قانون سازی کی جائے۔اس کا ایک طریقہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے‘ جس میں امامیہ‘ حنفی ‘ مالکی وغیرہ سب مکاتب فکر شامل ہوں‘ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔ !! کچھ مفکرین یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ عقائد ہوں یا نظریات سب وقت کے ساتھ expire ہو جاتے ہیں، اس لیے ان فرسودہ تعلیمات سے جان چھڑائی جائے ۔ اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ دین کا نام تو اسلام ہی رہے اور ہمیں بھی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور مسلمان کہیں بس (یہودیت او ر عیسائیت کی طرح) اسلام کی اصل تعلیمات و تشریحات کو کہیں دفن کرکے اسلام کا ایک جدید ورژن متعارف کروایا جائے ۔ اس کا طریقہ جاوید غامدی صاحب یہ تجویز فرماتے ہیں کہ دین کی تشریح قرآن و سنت واجماع صحابہ و امت کے بجائے عقل و اصول فطرت کی روشنی میں کی جانی چاہیے، جو چیز بندے کی فطر ت سے مناسبت رکھتی نظر آئے اسے جائز ہونا چاہیے، جو عقل میں آئے اسے دین ہونا چاہیے ۔۔ معروف و منکر، حلال و حرام کی پہچان اور تمیز کے جو قوانین اسلام نے بتائے ہیں ان کو چھوڑ کر انسانی فطرت کو سامنے رکھ کر انکا فیصلہ کیا جانا چاہیے ، مغرب کی طرف سے اسلام کی جن جن باتوں پر اعتراض آرہے ہیں انکا جواب دینے میں ٹائم ضائع کرنے بجائے ان باتوں کو ہی بدل دیا جائے ، دین کو موم کی طرح ادھر ادھر مروڑتے ہوئے بالکل ایسے زاویے پر فٹ کردیا جائے کہ یہ نہ کسی باطل کو ہٹ کرے نہ کسی مخالف کو برا لگے۔ یہی انکا نظریہ جہاد ، نظریہ اتحاد و رواداری مذاہب اور یہی انکے اسلامی حدود و قوانین پر اٹھائے گئے اعتراضات کی بنیا د بھی ہے۔ جو سوچ ہمارے آج کے جدت پسندوں اور متجددین کی ہے وہی سر سید اوران کے رفقاء کی تھی کہ انگریر سر کار کو سجدہ کیے اور اسکی تہذیب کو اپنائے بغیر مسلمانان ہند کبھی ترقی نہیں کرسکتے،سرسید ایک جگہ لکھتے ہیں:
”جو شخص قومی ہمدردی سے اور دور اندیشی سے غو رکرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا عملی اور کیا اخلاقی، صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک بھول جائیں، تمام مشرقی علوم کو نسیا منسیا کردیں، ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے ، یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست وپاہوں، ہمارے دما غ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں، ہم اپنی قدر ، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیرخواہ رہیں اور اس کو اپنا محسن ومربی سمجھیں۔“ ( مقالات سرسید ج5، ص:66)
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ان دو صدیوں میں جس نے بھی الحاد و تجدید دین کی آواز لگائی اگر اسکے کے علمی وفکری نسب کو دیکھا جائے تو اسکی کڑی کہیں نہ کہیں سرسید احمد خان سے جا ملتی ہے ۔ ان کی پیروی میں دوبڑے فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ایک سلسلہ عبداللہ چکڑالوی اور اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا غلام احمد پرویز تک پہنچا ، دوسرا سلسلہ حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جاوید احمد غامدی تک آیا۔ ان میں سے پرویزی سلسلہ نے اپنے عقائد و نظریات کی اشاعت میں تقیہ کرنے کے بجائے صاف گوئی اور بے باکی سے کام لیا ، اسی وجہ سے انکے نظریات کا پوری طرح نقد بھی ہوسکا اور انکا کفر و اعتزال عوام کے سامنے واضح ہوا۔ غامدی مکتبہ فکر نے اس سلسلے کے لوگوں کیساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھتے ہوئے بیچ کی راہ اختیار کی ہےوہ یہ کہ یہ ”صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں“ ۔ یہ دین پر ہونے والی چودہ سو سالہ تحقیقات، تشریحات اور ان گہری تحقیقات کے نتیجے میں بننے والے اصول و قوانین کے مقابلے میں اپنی تشریحات اور اصولوں کو اس طریقہ سے متعارف کروانے کی کوشش میں ہیں کہ انکا انکار شریعت واضح نہ ہو جسکی بنیاد پر کوئی ان پرصریح فتوی بھی نہ لگایا جاسکے جس طرح غلام قادیانی اور غلام پرویز پر لگا یا گیا۔!! مثلا جناب غامدی صاحب وحی، کتاب، سنت، تواتر، فطرت، اجماع، معروف، منکر اور عرف جیسی بہت سی اسلامی اصطلاحات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم انکو مانتے ہیں لیکن ان کے مفاہیم اپنی طرف سے بیان کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ کوشش کرتے ہیں کہ عام چھوٹے مسائل میں سلف سے ہی رابطہ استوار رکھا جائے تا کہ کوئی بالکل یہ نہ سمجھ لے کہ یہ پرویزیوں کی طرح بالکل کوئی نیا دین متعارف کروانے جارہے ہیں ۔ جن مسائل میں انکے لیے اسلاف کے دیے گئے قرآن و حدیث پر مبنی دلائل کا انکار ممکن نہیں ہوتا ان مسائل میں اپنے قائم کیے گئے موقف کی دلیل عموما قرآن و حدیث کے بجائے لغت، فطرت انسانی، پرانے صحائف وغیرہ سے لاتے ہیں ، موقف پر کوئی اعتراض آجائے تو پہلے پورا زور لگا کر اسکا دفاع کرتے ہیں، قرآن کی بات ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ اس زمانہ کے ساتھ مخصوص تھی، حدیث کی بات ہو تو کسی دوسری حدیث کے ذومعنی لفظ کو لے کر تاویل کرجاتے ہیں یا اسکے قرآن کے خلاف ہونے کا دعوی کردیتے ہیں ، ایک طرف مسئلہ رجم، حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و آمد ثانی، عورت کے پردے، موسیقی، مجسمہ سازی، مرتد کی سزا، قرات قرآنیہ کے بارے میں احادیث کے ساتھ فقہاء کے فہم کو بھی ٹھکراتے نظر ہیں ، دوسری طرف اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہیں پھنس جائیں ہیں تو فقہاء کی ہی شاذ آر اء کو اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگر پھر بھی بات نہ بنے تورسالہ یا کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اپنا موقف ہی بدل دیتے ہیں اور اسکو اپنی سوچ کے ارتقاء کا نام دیتے ہیں ، اسی 'ارتقاءئی' سفر میں جناب غامدی صا حب 78ء سے 2005ء تک صرف سنت پر چودہ موقف بدل چکے ہیں۔ کبھی عورت کی ختنہ، ڈاڑھی ، طلاق ، تیمم، نماز عید، نماز جمعہ سنت تھی اب نہیں رہی، پہلے نماز، روزہ، زکوۃ سنت تھی پھر فرض بن گئی ، اسی طرح پہلے جمہوریت نظام کفر و شرک تھا آج دنیا کا عظیم ترین بلکہ الہامی نظام ہوگیا۔ ۔ چلے تو تھے چودہ سو سال سے اسلام پر ہونے والی تنقیدات اور پھر انکے ردعمل میں ہونے والی تحقیقات اور اصلاحات کے بعد اپنی مچور سطح تک پہنچ جانے والے شرعی مسائل کے مقابلے میں نئے سرے سے پورے دین کا ایک نیا ایڈیشن متعارف کروانے ، لیکن تیس سال سنت اعمال کا تعین کرنے میں ہی لگ گئے۔ ایک طرف جناب کا علم اور تحقیق اتنی نابالغ ہے کہ بنیادی تصور دین میں ہی ہر نئے دور کے ساتھ تبدیلی در آتی ہے دوسری طرف ناصرف ہر ترمیم پر دعوائے قطعیت کرتے ہیں بلکہ جید صحابہ و فقہاء کے فہم پر اعتراض اور پھر اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کے لیے انکے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے سے بھی نہیں ڈرتے۔
شرعی اجتہاد کی تعریف اور حدود:
اجتہاد کے بارے میں ہمارے ان تجدد پسند سکالروں نے کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ ایک بنیادی غلط فہمی انکی طرف سے اسکی تعریف میں پھیلائی گئی ہے۔ انکے نزدیک لفظ ” اجتہاد“ کے معنی کوشش کرنا او ر مفہوم آزادرائے دینا ہے۔ یہیں سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے ا وراس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وہ بھی غلطیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ شرعی اجتہاد محض کوشش کرنے اور رائے زنی کا نام نہیں، نہ اجتہاد کا مطلب کسی پرانے حکم کو منسوخ کرکے نیا حکم گھڑناہے بلکہ شریعت کے ایک حکم سے دوسرا حکم نکالنا ہوتا ہے۔ کسی بھی درپیش مسئلہ، جس کے بارے میں واضح حکم شرعی کتاب وسنت میں موجود نہیں، اس کا حل مآخذ شریعت کی چھان پھٹک کرکے، نظائر وامثال پر غور وفکر کے بعد پیش کرنا ” شرعی اجتہاد“ کہلاتا ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ پھیلائی گئی ہے کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں حالاں کہ جن مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں ، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص (وہ احکام جو واضح طور پر قرآن یا حدیث میں بیان کیے گئے ہوں)ہوں نہ اجماعی(جنکے ایک حل اور تشریح پر ہر دور کے علمائے امت تحقیق کے بعد متفق چلے آرہے ہیں )۔ آسان لفظوں میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جو واضح اور منصوص احکام شرعیہ آگئے ہیں ،وہ امت کے لئے ہرحالت میں واجب الاطاعت ہیں اور اجتہاد کے دائرے سے بالاتر ہیں۔ہاں اگر احادیث میں کچھ تعارض ہے یا قرآن کریم کی دلالت قطعی موجود نہیں ہے ، نہ علمائے امت کا ایسے مسائل میں کوئی اجماع موجود ہے جیسے وہ مسائل جو جدید تمدن نے پیدا کئے ہیں اور سابقہ فقہ اسلامی کے ذخیرہ میں ان کا ذکر نہیں ہے، نہ نفیاً نہ اثباتاً، یا وہ مجتہد فیہ مسائل ہیں ( وہ عملی اور فروعی احکام جن میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو) ان میں اجتہاد کی اجازت ہے ۔ شریعت کی روشنی میں ان مشکلات کو حل کرنا اور جدید تقاضوں کو پورا کرنا دور کے اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے علماء کا فریضہ ہوتا ہے اور وہ ان مسائل کا قیاس واجتہاد سے قدیم ذخیرہ کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔
شرائط مجتہد و اجتہاد:
عہدِ رسالت میں مسائل کا حل قرآن تھا یا فرمان نبوی ، دورنبوت کے بعد فتوحات اسلامیہ کے ساتھ نئے مسائل نے سر اُٹھایا تو ان کے حل کے لیے فقہاء نے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے قواعد وضوابط مرتب کیے اور نئے مسائل کے” اجتہادی“ حل تجویز کیے ، ان میں سے چار فقہی مذاہب مستقل مدون ہوئے اور فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ تشریع اسلامی کی تاریخ، فقہی دور کی تکمیل اور ہر زمانے میں جدید مسائل پر کتابوں کی تصنیف اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ جن مسائل میں کتاب سنت کے نصوص موجود نہیں ان میں اجتہاد کا دروازہ ہر وقت کھلاہےچنانچہ امت اسی اصول پر کار بند رہی اور یہی آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے۔ ۔ دوسری بات جدیدیت پسندوں کی طرف سے جو اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے اور جس طرح عام لوگوں کو اجتہاد کی رغبت دلائی جاتی ہے اس سےبعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید اجتہاد کوئی عبادت ہے جسکا یہ لوگوں کو شوق دلارہے ہیں، حالانکہ کہ اجتہاد ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اسکی سخت شرائط ہیں ۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں اجتہاد کی چند شرائط کا ذکر کیا ہے جنکاایک مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے ۔
1. عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔
2. قرآن وحدیث سے ماخوذ ان علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔
3. قرآن ، حدیث ، اجماع امت اور امت کے اجماعی واجتہادی مسائل جو پہلے سے طے کیے جاچکے انکا مکمل علم ہو۔
4. فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جاسکتا ۔
5. ان آیات و روایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ تقریبا پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔
6. اجتہاد کے اصول وقواعد، احکام شرع کے مصالح ومقاصد، ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔
7. بالغ نظری اور دقیقہ رسی کے ساتھ تقوی،خشیت الہیہ اور دین خداوندی کے ساتھ کامل اخلاص موجود ہو ۔
8. دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔
9. ایسے یکتا اشخاص کا وجود جو ان مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ، موجود دور میں بیحد مشکل ہے ،اس لیے ”شخصی رائے “کی کمی کو جماعت کی آراء سے پورا کرنے کے لیے شورائی اجتہاد کا اہتمام ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جدید مسائل میں انفرادی رائے کی بجائے ”فقہاوعابدین“سے مشورہ کیا جائے ” (کنزالعمال حدیث نمبر: ۴۱۸۸)۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقیہہ الامت ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا جیسا کے الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ “میں ذکر کیا ہے ۔)حجۃاللہ البالغہ باب الفریق بین المصالح و الشرائع، عقد الجید )
یہ چند شرائط ہیں جنکا ایک مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے اب اگر انکو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے ان سیلف میڈ عظیم مجتہدین یا مجددین کی علمی حالت چیک کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا ان میں اجتہاد کی صلاحیت یا مجتہد کی کوئی شرط پائی جاتی ہے تو تحقیق کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ علوم شریعہ میں رسوخ تو دور کی بات کسی نےدین کی باقائدہ تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہوئی، اکثر صرف بی اے ، ایم اے کرکے ڈاکٹر کا سابقہ لگا کر عینک اور واسکٹ پہن کر ٹی وی پر آبیٹھے ہیں اور انکی تحقیق کیا ہیں بھان متی کا کنبہ ہیں، سارے ماخذ دین کو سامنے رکھتے ہوئے نئے مسائل کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم کرنے کی صلاحیت تو درکنار اکثر اتنی قابلیت بھی نہیں رکھتے کہ بغیر ترجمہ کے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرسکیں، یا دو سطریں عربی میں صحیح لکھ سکیں پھر بھی جرات اختلاف اتنی ہے کہ فقہائے امت اور صحابہ کے فہم کو غلط قرار دے جاتے ہیں ، اجتہادی کوششیں صرف فروعی یا اجتہادی مسائل میں بھی نہیں کہ انکو کسی درجہ میں اختلاف کی اجازت دی جاسکے بلکہ متفقہ و منصوص مسائل کو اختلافی بنانے کے لیے ہیں ۔ سارے اختلاف کی وجہ کیا ہے ؟ محض جدت پسندی ، احساس کمتری اور تن آسانی۔ اس کے لیے مذاہب فقہا سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتیں تلاش کرتے اور قرآن و حدیث کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔ اجتہاد کی علمی بنیاد کیا ہے ؟ دو ڈھائی سو اردو میں لکھی ہوئی یا اردو انگریزی میں ترجمہ شدہ کتابیں، چار پانچ ڈکشنریاں اور ایک بہکا ہوا نفس اور عقل ۔عموما ساری جرات اور اجتہاد کا انحصار صرف عقل پر ہوتا ہے۔ ہم مانتے ہیں بلاشبہ عقل نور فروزاں ہے مگر اس کے لیے ایک خاص دائرہ ہے ۔ عقل ان امور کا ادراک نہیں کر سکتی جو وحی کی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔ عقل کے لیے یہی فخر کافی ہے کہ وہ وحی کےبیان کردہ حقائق کا ٹھیک ٹھیک ادراک کر لےاور ان حقائق کی بلندحکمتوں ،گہری مصلحتوں اور باریک اسرار و علل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائے ۔ جس طرح نصوص وحی کے نہ ہونے کی صورت میں بھی عقل سےکا م نہ لینا نری حماقت اور کوتاہی ہے اسی طرح منصوص وحی کے ہوتے ہوئے بھی عقل کو ہر چیز میں مقدم رکھنا بڑی گھناؤنی جسارت ہے۔ صحیح راستہ ان دونوں کے درمیان سے گزرتا ہےاور وہی صراط مستقیم ہے ۔