ناول "جب زندگی شروع ہوگی" سے ہمارا پہلا تعارف فیس بک پر اس کے متعلق چلنے والی تشہیری مہم سے ہوا ۔ اس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ناول میں ایک علامتی کہانی کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں روز آخرت کی منظر کشی کی گئی ہے او ر اس نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں۔ ناول خریدا لیکن ان دنوں کچھ مصروفیت تھی اس لیے ناول کو چند جگہ ہی سے پڑھنے کا موقع ملا ، جتنا پڑھا اسکو دیکھتے ہوئے دوستوں کی یہ با ت درست لگی کہ مصنف نے قیامت کے حالات کی زبردست منظر نگاری کی ہے ، بہت سی جگہوں پر باطل نظریات کی تدسیس بھی نظر آئی لیکن مصنف سے حسن ظن ، دوستوں کی تجویز پر اعتبار اور قیامت کے حالات کے حکایتی انداز میں بیان نے اسے نظر انداز کرنے پر مجبور کردیا ۔ ناول کا حکایتی انداز ہماری اس خواہش کے مطابق تھا جس کا اظہار ہم اکثر اپنے لکھاری دوستوں سے کرتے رہتے ہیں کہ دیندار اور نظریاتی اہل قلم کو " حکایتی ادب" کی طرف بھی آنا چاہیے۔ قرآن و حدیث میں ایسے دلچسپ قصص کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن سے باتوں باتوں میں انسان بہت کچھ سیکھ جاتا ہے۔ اس لیے اس ناول کی تعریف میں اپنے بلاگ پر ایک تحریر بھی لکھ کر پوسٹ کرڈالی ، ہماری اس تحریر سے ناول کی بہت پروموشن ہوئی، تحریر کئی سائیٹس پر شئیر ہوئی، خود ہمارے بلاگ پر ہزار کے قریب لوگوں نے پڑھی اور اس ناول کو ڈاؤنلوڈ کیا ۔
چند ماہ پہلے اسی ناول کے مصنف کی سائیٹ کو دیکھتے ہوئے اس پر کچھ عجیب وغریب نظریات کی حامل تحریرات پر نظر پڑی ، بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی ، ایک دیکھی، دوسری، تیسری ۔ ۔ ۔سارا غامدی مذہب ایک نئے اسلوب کیساتھ نظر آیا، پہلی فرصت میں ناول دوبارہ پڑھنے کی ٹھانی، جب پڑھنا شروع کیا تو حیرانگی بھی ہوئی اور اپنے اوپر غصہ بھی آیا کہ ناول کے متعلق ہم نے تحقیق کیوں نہ کی ، ایک مجہول رائٹر کے ناول کو صرف حسن ظن کی بنیاد پر تحریری شکل میں آگے تجویز کیوں کیا۔۔اسی دن سے یہ عزم کیا کہ آئندہ جب تک کسی مصنف یا مقرر کا علمی نسب اور سند معلوم نہ ہو جائے ، اسے پڑھنے ، سننے اور آگے تجویز کرنے سے گریز کروں گا اور اس ناول اور اسکے مصنف کی پوری تحقیق کرنے کے بعد اپنی غلطی کا ازالہ بھی کروں گا ۔ اسی کوشش میں مصنف کا علمی حسب ونسب اور نظریاتی مسلک ومشرب معلوم کرنا شروع کیا ،ویب سائیٹ اور فیس بک پر پیغام بھیجا لیکن مصنف کی تعریف اور تعارف سے آگاہی نہ ہوئی ۔ جیسے جیسے شکوک وشبہات بڑھتے گئے ، ویسے ویسے اس گمنام و مجہول مصنف کی نقاب کشائی کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ آخر انہوں نے ہماری ایک میل کا جواب دے ہی دیا اور یہ عقدہ کھلا کہ آں محترم دراصل ، فضیلت الشیخ جناب جاوید احمد صاحب الغامدی کے شاگرد محترم ریحان احمد یوسفی صاحب ہیں۔ آنجناب غامدی صاحب کی سائیٹ' المورد' پر مفتی کا منصب بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور غامدی فقہ کی روشنی میں سوالوں کا جواب دیتے رہتے ہیں۔
غامدی صاحب کے ہونہار شاگردوں نے انکے مسلک کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف طریقوں اور راستوں کا انتخاب کیا ہے ، انکے ایک شاگرد نے غامدی صاحب کے نظریہ جہاد کی اشاعت کے لیے یہود کے ایک منظورنظر فرضی مجاہد کی انگریزی میں لکھی گئی سوانح عمری کا اردو ترجمہ کیا اور اسے اپنا نام درج کیے بغیر کتابی شکل میں شائع کروایا، لیکن ذیادہ دیر چھپے نہ رہ سکے اور بتوں کی اس عاشقی میں عزت سادات سے بھی ہاتھ دھوئے۔ اسکے بعد انہی کے ہم مکتب وہم مشرب جناب ریحان احمد یوسفی صاحب نے غامدی نظریات خصوصا نظریہ جہاد کو ہی ایک ناول کے ذریعے اسی مخصوص ''نقاب پوش'' انداز میں پیش کیا ۔
ویسے تو ناول کے مشکوک ہوجانے کے لیے اوپر دی گئی ڈیٹیل ہی کافی تھی لیکن پھر بھی ہم نے ناول میں قیامت کے حالات کے تذکرے میں گھول کر پلائے گئے مخصوص نظریات کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھا ہے ۔
ویسے تو ناول کے مشکوک ہوجانے کے لیے اوپر دی گئی ڈیٹیل ہی کافی تھی لیکن پھر بھی ہم نے ناول میں قیامت کے حالات کے تذکرے میں گھول کر پلائے گئے مخصوص نظریات کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھا ہے ۔
غامدی صاحب کےعجیب وغریب اور متضاد دینی نظریات، قرآن وحدیث و فقہی مسائل کی تشریحات میں بلاوجہ کی جدت پسندی، تلبیسات کی پچھلے چند سالوں میں جو حقیقت کھلی اس کا یہ اثر ہواکہ وہ ایک مخصوص طبقے تک محدود ہوکر رہ گئے، وہی انکو سنتا اور پسند کرتا ہے۔ یہ بات خود غامدی مکتب بھی جانتا ہے اس لیے اس ناول کے مصنف نے اپنے شیخ کی اس بری شہرت کے اثر سے اپنے ناول کو بچانے اور جو غامدی مکتب کو پسند نہیں کرتے ان کو بھی یہ ناول پڑھوانے کے لیے ایک چال چلی ۔ انہوں نے ناول اپنے اصلی نام کیساتھ چھپوانے کے بجائے ایک جہادی اور عربی ٹائپ کی کنیت سے چھپوایااور " صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں" والی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے غامدی صاحب کے گمراہانہ تصورات ایسے طریقے سے گول کر پلائے کہ بہت سے انکے مخالف طبقہ کے لوگ بھی انہیں باآسانی ہضم کرگئے۔ یہی طریقہ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا انکے ایک اور دوست استعمال کرچکے ہیں، تعجب اور لطف کی بات یہی نہیں کہ طریقہ واردات غامدی صاحب کے ان دونوں شاگردوں کا ایک جیسا ہے ، بلکہ روداد واردات بھی ملتی جلتی ہے۔ جو کارنامےاس فرضی الجزائری مجاہد کے تھے وہی" جب زندگی شروع ہوگی " نامی اس ناول نما داستان کے ہیرو کے ہیں۔ اس نیم اسرائیلی نیم اسلامی قصے کا مرکزی کردار عبداللہ نامی ایک نوجوان ہے، جو تمام وہ کام کرتا ہے جو "عظیم جہادی شخصیت" امیرالجزائر کی مغرب میں وجہ محبوبیت کا باعث ہیں۔
حملہ آوریہودی دشمن اورسپرپاور سے ٹکراؤ سے بچنے کی ترغیب:۔
پہلا نظریہ جو ناول نگار کے خیال میں مجاہدین اور دیندار عوام کو اپنانا چاہیے وہ یہ ہے کہ سپرپاور کی غلامی پر" راضی برضا" رہتے ہوئے اس سے ٹکرانے سے بچیں، اپنا نماز روزہ کرتے رہیں، دعوت دیتے رہیں ، اس کے خلاف بغاوت کا سوچیں بھی نا۔ مصنف صالح نوجوان کے ذریعے نئی نسل کی " اصلاحی و فراہی" ذہن سازی کرتے ہوئے عالمی طاغوتوں کے خلاف جہاد کا خیال دل سے نکالنے کی جابجا ترغیب دی ہے ۔ ایک جگہ اپنا نظریہ جہاد بنی اسرائیل کے ایک غیر معروف نبی کی زبان سے پیش کیا ہے ۔ مصنف ناول کے ہیرو'عبداللہ' کی صالح نامی فرشتے کی معیت میں بنی اسرائیل کے ایک نبی سے ملاقات کا حال بیان کرتا ہے۔ عبداللہ کہتا ہے :
" یرمیاہ نبی کے حالات اور زندگی میں میرے لیے ہمیشہ بڑی رہنمائی رہی ۔ مجھے ان سے ملنے کا بہت اشتیاق ہے ۔ ۔جس وقت حضرت یرمیاہ کی بعثت ہوئی بنی اسرائیل اس دور کی عظیم سپر پاور عراق کی آشوری سلطنت اور اس کے حکمران بخت نصر کے باج گزار تھے۔ اس دور میں بنی اسرائیل کا اخلاقی زوال اپنی آخری حدوں کو چھورہا تھا۔ ان میں شرک عام تھا۔ زنا معمولی بات تھی۔ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ یہ لوگ بدترین ظلم و ستم کا معاملہ کرتے۔ سود خوری اور غلامی کی لعنتیں عام تھیں۔ ایک طرف اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف سیاسی امنگیں عروج پر تھیں۔ ہر طرف بخت نصر کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھایا جارہا تھا۔ ان کے مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی ساری توجہ اس بات کی طرف تھی کہ اس سیاسی محکومی سے نجات مل جائے۔ قوم کی اصلاح، اخلاقی تعمیر، ایمانی قوت جیسی چیزیں کہیں زیر بحث نہ تھیں۔ مذہب کے نام پر ظواہر کا زور تھا۔ ایمان و اخلاق اور عمل صالح کی کوئی وقعت نہ تھی، ایسے میں حضرت یرمیاہ اٹھے اورانہوں نے پوری قوت کے ساتھ ایمان واخلاق کی صدا بلند کی۔ انہوں نے اہل مذہب اوراہل سیاست کو ان کے رویےپر تنقید کانشانہ بنایا۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، شرک اوردیگر جرائم پر انہیں متنبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی قوم کو سختی سے اس بات پر متنبہ کیا کہ وہ بخت نصر کے خلاف بغاوت کاخیال دل سے نکال دیں۔ انہیں سمجھایا کہ جذبات میں آکر انہوں نے اگر یہ حماقت کی توبخت نصر قہر الہی بن کر ان پر نازل ہو جائے گا۔۔ مگر ان کی قوم باز نہ آئی۔ اس نے انہیں کنویں میں الٹا لٹکادیا اور پھر جیل میں ڈال دیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے بخت نصر کے خلاف بغاوت کی۔ جس کے نتیجے میں بخت نصر نے حملہ کیا۔ چھ لاکھ یہودیوں کو اس نے قتل کیا اور چھ لاکھ کو غلام بناکر ساتھ لے گیا۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ پورا شہر خاک و خون میں بدل گیا۔ '' (ص: 60-62، 197-199)
1. مصنف نے اس تاریخی واقع کو صرف اپنی بات پیش کرنےکے لیے بالکل بدل کر پیش کیا ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یرمیاہ بخت نصر کے آنے سے پہلے بنی اسرائیل کو دعوت دے چکے تھے اور بنی اسرائیل کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی گئی وہ باج گزاری کے دور میں بخت نصر کی بغاوت کرنے کی وجہ سےبالکل نہیں تھی . یہود حملے سے پہلے بخت نصر کے باج گزار تھے ہی نہیں، نہ اس سے پہلے انکا اس کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ حملہ آور لوگ دراصل قہر الٰہی تھے کیونکہ بنی اسرائیل نے زمین پر فساد مچارکھا تھا۔
2. مصنف نے خصوصی طور پر بنی اسرائیل کے ایک غیر معروف نبی یرمیاہ کو چنا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کو ایک اس غیر معروف نبی کی زندگی میں ہی رہنمائی کیوں نظر آئی اور اس سے ملنے کا اشتیاق کیوں ہوا؟ حضرت موسی و ابراہیم علیہ السلام کے حالات زندگی میں عبداللہ کے لیے راہنمائی کیوں نہیں تھی ؟ کیا اس لیے کہ انہوں نے نبوت ملتے ہی وقت کے ظالم حاکم کے خلاف کلمہ حق کہا؟ دوسری بات' جہاد کے بجائےدعوت'( جس پر مصنف نے فوکس کرتے ہوئے موجودہ دور کی کفر کے خلاف برسرپیکار جہادی تنظیموں اور لوگوں پر طنز کی) کیا ان دونوں پیغمبروں نے کلمہ حق بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوموں کو ذاتی اصلاح کی دعوت نہیں دی تھی ؟ موسی کے بجائے یرمیاہ کو منتخب کرنے کی وجہ شاید یہی ہے کہ موسی علیہ السلام کے حالات بالکل واضح ہیں اور مصنف کے لیے ان کی آڑ میں اپنے مخصوص نظریات کو پیش کرنا ممکن نہیں تھا ۔ موسی علیہ السلام اور انکے حالات قرآن نے بیس سے زائد مقامات پر تفصیل سے بیان کیے ہیں اور ان سے یہ واضح ہے کہ وہ نہ صرف قوم کو اصلاح کی دعوت دیتے رہے بلکہ ساتھ ساتھ وقت کی سپر پاور کے خلاف نفرت کو بھی کم نہیں ہونے دیا اور مناسب موقع ملتے ہی بغاوت کردی ، اس بغاوت کے وقت بھی انکی قوم کی دینی حالت کوئی اتنی اچھی نہیں تھی ، قرآن خود بتاتا ہے کہ جب حالت ایسی بن گئی کہ آگے سمند ر اور پیچھے فرعون کا لشکر آگیا، بنی اسرائیل کہنے لگے موسی ہم تو پکڑے گئے۔۔ !! فرعون سے نجات ملنے کے بعد بھی انکے اعمال کیسے تھے اس کابھی قرآن میں کئی جگہ تذکرہ موجود ہے۔۔ یرمیاہ نبی کے حالات پہلے تو اتنے واضح نہیں ہیں جس کی وجہ مصنف کا انکو اپنی مرضی کے انداز سے بیان کرنا آسان ہے ،دوسرا ان کے دور میں یہود کسی بادشاہ کے ظلم کا شکار تھے ہی نہیں اس لیے ان کی تعلیمات میں ایسی بات کا تذکرہ بھی نہیں ہے جو سپرپاور کے خلاف کھڑے ہونے پر ابھارتی ہو ۔
3. مصنف نے اس ناول پر کیے گئے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی اپنی ایک کتاب 'تیسری روشنی' میں لکھا کہ مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ اللہ نے بھی قصص القرآن میں یرمیاہ نبی کے واقع کو اسی طرح بیان فرمایا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا تاریخ انبیاء پر مستند ترین سمجھی جانے والی اس کتاب میں بھی کیا واقعی ایسے ہی لکھا ہے کہ یہود پر ذلت اس لیے مسلط ہوئی تھی کہ انہوں نےباج گزاری کے دور میں اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بخت نصر کے خلاف جہاد شروع کردیا تھا ؟ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ نے بنی اسرائیل کے اس دور کا تذکرہ بیس سے زائد صفحات میں کیا ہے، اسکا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں:
سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ یہود کی دونوں دفعہ شرانگیزیوں پر بصورت عذاب جابر و قاہر بادشاہوں بخت نصر اور طیطوس کو مسلط کیا گیا انہوں نے دونوں مرتبہ یروشلم کو تباہ برباد کیا ۔ حضرت داؤد وسلیمان علیہ السلام کے بعد پہلی مرتبہ 'جب انکی مذہبی اور اخلاقی پستی کا یہ عالم تھا کہ جھوٹ فریب ظلم و سرکشی اور فساد وفتنہ انگیزی ا انکا شعار بن گئے تھے حتی کہ شرک و بت برستی تک ان میں رچ گئی تھی اللہ نے اسکے باوجود ان کو مہلت دی، نبی بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا مگر یہود انکی دعوت پر ایمان لانے کے بجائے انتہائی شقاوت و بدبختی پر اتر آئے اور خدا کے انہی معصوم پیغمبروں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ یرمیاہ نبی کی کتاب اسکا تذکرہ کرتی ہے " اور ایسا ہوا کہ جب یرمیاہ ساری باتیں کہہ چکا جو خداوند نے اسے حکم دیا تھا کہ ساری قوم سے کہے تب کاہنوں اور نبیوں ( جھوٹے مدعیان نبوت) اور ساری قوم نے اسکو پکڑا اور کہا کہ تو یقینا قتل کیا جائے ۔(باب 21 آیات1)تب یکایک غیرت حق نے قہر اور بطش شدید کی شکل اختیار کرلی اور اسکا زبردست ہاتھ انکی جانب پاداش عمل کے لئے بڑھا ۔ چنانچہ بابل کا ایک جابر حاکم بنو کدزار عرب اسکو بخت نصر کہتے تھے انکی جانب بڑھا، جب یہوداہ کی سرزمین کے باشندوں نے یہ سنا تو انکے ہوش و حواس جاتے رہے اور بادشاہ سے لے کر رعایا تک سب کو موت کا نقشہ نظر آنے لگا اور اب وہ سمجھے کہ یسعیاہ اور یرمیاہ نے ہماری بدکاریوں پر متنبہ کرتے ہوئے جس سزا اور عذاب الہی کا ذکر کیاتھا اور جس سے ناراض ہوکر ہم نے یرمیاہ کو قید خانہ میں ڈال رکھا ہے وہ وقت آپہنچا مگر شومی قسمت انہوں نے اس کے باوجود نہ نبی کو قید خانہ سے نکالا نہ اللہ طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے گناہوں پر توبہ کی بلکہ اپنی مادی طاقت ، اسباب ووسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے شاہ بابل کی مقاومت کے لیے آمادہ ہوگئے پھر نتیجتا انکو تباہ وبرباد کردیا گیا ۔
اس ساے خلاصے سے یہ بات بالکل واضح ہے جو ہم نے اوپر بھی بیان کی کہ یہود نہ بخت نصر کے باج گزار تھے اور نہ یرمیاہ نے انہیں بخت نصر کے خلاف بغاوت کرنے سے روکا تھا ، بلکہ بنی اسرائیل پہلے سے مسلسل فساد کے مرتکب تھے جن کی انکو ظالم بادشاہ مسلط کرکے سزا دی گئی تھی، جیسا کہ مشہور مفسرقاضی بیضاوی رحمہ اللہ یہود کی شرانگیزیوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان پر یہ تباہیاں اس وقت لائی گئیں جبکہ وہ اپنی شرات میں اس درجہ بڑھ گئے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کے قتل سے بھی باز نہیں رہتے تھے ۔ (بیضاوی سورۃ السری)
صفحہ نمبر 199
"میں اسی سوچ میں تھا کہ صالح نے غالباً میرے خیالات پڑھ کر کہا:’’ٹھیک یہی کام تمھارے زمانے میں تمھاری قوم کررہی تھی۔ وہ علم، تعلیم، ایمان، اخلاق میں بدترین پستی کا شکار تھی، مگر اس کے نام نہاد رہنما اسے یہی سمجھاتے رہے کہ ساری خرابی وقت کی سپر پاورز اور ان کی سازشوں کی وجہ سے ہے۔ ایمان و اخلاق کی اصلاح کے بجائے سیاسی غلبہ اور اقتدار ہی ان کی منزل بن گیا۔ ملاوٹ، کرپشن، ناجائز منافع خوری، منافقت اور شرک قوم کے اصل مسائل تھے۔ ختم نبوت کے بعد ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا بھر میں اسلام کا پیغام پہنچاتے، مگر ان لوگوں نے قوم کی اصلاح اور غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے بجائے غیرمسلموں سے نفرت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ ان کے خلاف جنگ و جدل کا محاذ کھول دیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے اپنی اصلاح کرنے کے بجائے بخت نصر کے خلاف محاذ کھولا تھا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی طرح انھوں نے بھی اس عمل کا برا نتیجہ بھگت لیا۔‘‘
ناول کا ہیرو 'عبداللہ' ایک فلسطینی ہے اور فلسطینی مسلمان پچھلے پچاس، ساٹھ سالوں سے اسرئیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، ناول میں یرمیاہ، یہود اور بخت نصر کی خودساختہ داستان بیان کرنے کے بعد عبداللہ اورقارئین کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ حملہ آور ظالم کے خلاف اٹھنا جہاد نہیں بغاوت ہے۔ مصنف اور انکے شیخ اکبر نے اپنی دوسری کتابوں میں بھی ایسی کسی حرکت کو اپنے جد امجدسرسید احمد خان کی طرح بغاوت ہی لکھا ہے۔ مصنف کا یہاں بھی سارا زور اسی پر ہے کہ انہیں اسرائیل کے خلاف جہاد نہیں کرنا چاہیے ، چاہے وہ انکی عورتوں کی بے حرمتی کریں یا انکے بچوں، بوڑھوں کو ذبح کریں ، انکی بستیاں اجاڑ دی جائیں یا انہیں ویرانوں میں یا کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا جائے اور پھر انہی کیمپوں پر ٹینک چڑھا دیے جائیں ، انکو بس نماز روزہ میں لگے رہنا چاہیے ، دعوت کا کام ہی کرتے رہنا چاہیے ، یہی اصل شہادت ہے ، ظلم کے خلاف بالکل آواز نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ یرمیاہ نبی نے اس سے منع کیا تھا اور یہود کو ایسا کرنے کی ہی سزا ملی تھی۔ ۔ ۔
حالانکہ اس دور کےیہود کا موجودہ دور میں مسلمانوں کے مختلف ممالک فلسطین ، افغانستان،عراق وغیرہ میں اپنے اوپر حملہ دشمن کے خلاف برسرپیکار جہادی تحریکوں کے ساتھ موازنہ کسی صورت بنتا ہی نہیں ، وہ بت پرست ، نبی کو قید میں رکھ کر میدان میں آئے تھے ، جبکہ موجودہ فلسطینی یا افغانی جہادی لوگ ایسی کسی برائی کا شکار نہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی، عراقی یا افغانی قوم یہود کی طرح کی تمام برائیوں کا شکار ہے؟؟ یہ اس لیے پس رہے ہیں کہ انہوں نےیرمیاہ کے دور کے یہود کی طرح باطل کے خلاف جہاد شروع کیا ہوا ہے ؟ ؟؟ کیا حملہ آور دشمن کے خلاف بھی جہاد فرض نہیں ؟؟ کیا چپ کرکے مارکھاتے رہنا مسئلہ کا حل ہے؟ کیا یاسرعرفات کے اس سلسلے کے کمپرومائزز نے فلسطینی قوم کو کوئی فائدہ دیا ؟
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ہمیں اصلاح احوال کی دعوت دینے پر بالکل کوئی اعتراض نہیں ہے ، قارئین کو اصلاح احوال کی طرف سے متوجہ کرنا اپنی جگہ بالکل درست ہے، لیکن اصلاحی دعوت کو آڑ بناتے ہوئے عالمی ظالموں ، بدمعاشوں کے خلاف مزاحمت کا خیال دل سے نکالنے کی کوشش کرنا بالکل غلط اور انہی دہشت گردوں کی مدد کرنے اور انکی نمائندگی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی اصلاح اور دعوت کیساتھ ضرورت کے وقت جہاد لازم ملزوم ہے اسی سے ظالم کے خلاف اللہ کی مدد آتی ہے۔
باطل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے رنگ ہر دور میں بدلتے ہیں ، اب یہ روشن خیال ، تجدد پسندطبقہ کے لوگ ہمیں اپنے مادی وسائل پر اعتبار کرنے اور سیاست، اسلحہ، ٹیکنالوجی کی دوڑ وغیرہ میں لگنے کے بجائے نماز روزہ، تبلیغ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں حالانکہ جب ا مریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو جو لوگ رجوع الی اللہ اور جہاد کی بات کرتے تھے ، یہی غامدی مکتبہ فکر کے لوگ انکو طعنے دیتے تھے اور یہ دلیلیں دیتے نظر آتے تھے کہ ہمارے پاس امریکہ کے برابر کی ٹیکنالوجی اور ہتھیار نہیں ، وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا، افغان طالبان بیوقوف ہیں جو ان وسائل کے بغیر جہاد کا نعرہ لگا کر سپرپاور سے ٹکر لے رہے ہیں ، پہلے ان جیسی دفاعی قوت پیدا کرو پھر ان سے لڑو۔ ایک صاحب جو غامدی صاحب کے بہت پرانے پرستار ہیں انہوں نے ہمارے ساتھ اس مسئلہ پر کافی لمبی بحث بھی کی تھی جو یہاں موجود ہے ۔
ریحان یوسفی عرف ابویحیی صاحب نے ناول میں ناصرف جہاد چاہے وہ دفاعی ہی کیوں نہ ہو'کی مذمت کی ہے بلکہ جنت میں شہداء کے عام منصب پر بھی صرف انہیں دکھایا ہے جو بس لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہے۔ایک اور موقع پر صالح عبداللہ کی بیوی ناعمہ کو بتاتا ہے ۔
" اب آخر میں سارے انبیاء اور شہداء پیش ہونگے"۔" کیا شہید وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے "؟ ناعمہ نے صالح سے سوال کیا: " نہیں وہ شہداء نہیں۔ وہ بھی بڑے اعلی اجر کے حقدار ہوئے ہیں ، مگر یہ شہداء حق کی گواہی دینےو الے لوگ ہیں۔ یعنی انہوں نے انسانیت پر اللہ کے دین کی گواہی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کے بعد انکی دعوت کو آگے پہنچایا۔" (ص :210)
اسی طرح ایک اور جگہ حوض کوثر کے " وی آئی پی لاؤنج" میں انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ ہے، مگر اس میں سے قرآنی تصریح کے برخلاف شہداء کا ذکر سرے سے غائب کردیاگیاہے۔مصنف نے بڑے طریقے سے دعوت اور جہاد کو مکس کرتے ہوئے مسئلہ کو کنفیوز اور قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
من گھڑت نظریات :۔
ناول میں مذہب کے حوالے سے بھی کئی متجددانہ نظریات باتوں باتوں میں سادہ لوح قارئین کے دل ودماغ میں جاگزیں کیے گئے ہیں ۔
کسبی نبوت :۔
ایک جگہ مصنف نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ نبوت وہبی نہیں کسبی شے ہے۔ جن انسانوں نے اپنے اختیار سے امتحان کا سخت پرچہ چنا انہیں اللہ نے نبی بنا دیا، ملاحظہ فرمائیں صالح کہتا ہے۔
"اس میں بھی خدا کی کریم ہستی نے کمال عنایت کا مظاہرہ کیا تھا۔ تم جانتے ہو کہ دنیا میں سب کا امتحان یکساں نہیں ہوتا۔ یہ امتحان بھی اس روز ہر شخص نے اپنی مرضی سے چن لیا تھا۔" پھر اس نے اس طویل گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
’’اصل اصول جوتمام اقسام کے گروہوں میں کام کررہا ہے وہ ایک ہی ہے۔ زیادہ رہنمائی، زیادہ سخت حساب کتاب اور زیادہ بڑی سزا جزا۔ کم رہنمائی، ہلکا حساب کتاب، کم سزا جزا۔ مگر کسی انسان کا تعلق کس گروہ سے ہے اس کا انتخاب انسانوں نے خود کیا ہے،اللہ تعالیٰ نے نہیں"۔( ص:81)
یہ اجماع امت کے خلاف ایک ایسا گمراہ کن نظریہ ہے جو عقیدہ رسالت کی بنیاد ڈھا دیتا ہے۔ تقریبا یہی وہ قادیانی گمراہ کن نظریہ ہے جس کے مطابق مرزا قادیانی تو اپنی ریاضت اور محنت سے نبی بن گیا اور عمر اور ابوبکر نہیں بن سکے۔
سلف صالحین کی پیروی کی مخالفت:۔
کئی جگہ کتاب کے مکالموں میں نوجوانوں کو مسلک پرستی ، فرقہ پرستی کی مذمت کی آڑ میں سلف صالحین سے مستغنی ہو کر براہ راست خداپرستی کی ترغیب دی گئی ہے۔ایک موقع پر (معاذ اللہ) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ناول کے ہیرو عبداللہ کو وجہ بتاتے ہیں کہ اسے ہی اسکے زمانے کے تمام لوگوں میں بلند درجہ کیسے ملا؟
" دیکھو عبداللہ ! اس مجمع میں ہر شخص کا انتخاب اللہ تعالی نے کیا ہے۔ جانتے ہو کہ اس کے نزدیک انتخاب کا معیار کیا ہے؟" میں خاموشی سے ان کی شکل دیکھنے لگا۔ انہوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔"تعصبات ، جذبات اور خواہشات سے بلند ہوکر جس شخص نے حق کو اپنا مسئلہ بنالیا اور توحید و آخرت کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا وہی اللہ کے نزدیک اس شہادت کے کام کے سب سے ذیادہ حقدار ہیں ۔ دیکھو تمہارے زمانے کے مذہبی لوگ خواہشات سے تو شاید بلند ہوگئے تھے ، مگر ان کی اکثریت تعصبات اور جذبات سے بلند نہیں ہوسکی۔ لوگ مختلف فرقوں اور مسالک کے اسیر تھے ۔(ص:151)
فرقہ واریت کی نفی کرنا ٹھیک ہے لیکن مصنف نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے امت مسلمہ کے اجماعی فقہی مسالک کے پیروکاروں کو تعصبات، جذبات اور خواہشات میں پھنسے ہوئے لوگ کہا ہے اور ان سے بالاتر ہوکر اپنے طور پر حق کو اپنانے کی فضیلت سنائی ہے ۔۔ اس بات پر کیے گئے کسی کے اعتراض کے جواب میں مصنف اپنی کتاب تیسری روشنی صفحہ نمبر 74 پر لکھتے ہیں کہ اس میں سلف صالحین سے تعلق کی نفی نہیں کی گئی ۔اب شاید امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافعی یا تو مصنف کے نزدیک سلف صالحین میں شامل ہی نہیں ہیں یا ان سے اتنا ہی تعلق رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے جتنا مصنف اور اسکے شیخ اکبر غامدی صاحب کا ہے، صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہم لوگ تقلید (سلف صالحین کی پیروی)کے قائل نہیں، دین پر براہ راست غور کرتے ہیں اور قران و سنت کے علاوہ اخلاقی اصولوں کی روشنی میں کسی بھی مسئلہ پر غور اور مکمل احاطہ کے بعد رائے قائم کرتے ہیں، اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں اجتہاد کے کوئی شرائط نہیں ہیں، لوگوں کو اجتہاد کرنا چاہیے، ان میں سے ایک غلطی کرے گا تو دوسرے کی تنقید اسے درست کر دے گی۔!!!
جدید جنتی معاشرت و اخلاقیات:۔
ناول کے مصنف کا دعوی ہے کہ یہ ناول قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھا گیا ہے جبکہ حقیقت میں ناول میں ایک جگہ بھی جنتیوں کے طرز عمل، اخلاق اور اٹھنے بیٹھنے کے متعلق قرآن و حدیث کے بیان سے مدد نہیں لی گئی ، ہر جگہ غیر سنجیدہ اور وقار کے منافی عادات و حرکات جنتیوں سے منسوب کی گئی ہیں۔ ناول میں بیان کی گئی جنتیوں کی معاشرت کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں سوئزلینڈ ٹائپ کی جنتیوں کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں کیسی چھچھوری حرکات اہل جنت کی طرف منسوب کرکے قارئین کو دنیا میں اس جنت کا نمونہ قائم کرنے کی بین السطور ترغیب دی جارہی ہے۔
حشر کے میدان میں سیٹیاں، تالیاں اور رقص :۔
"جس وقت کوئی شخص پیش ہوتا، اس کے زمانے کے سارے حالات، اس کے مخاطبین کی تفصیلات، لوگوں کا ردعمل اور اس کی جدوجہد ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا جاتا۔ سامعین یہ سب سنتے اور اسے داد دیتے۔ آخر میں جب اس کی کامیابی اور سرفرازی کا اعلان ہوتا تو مرحبا اور ماشاء اللہ کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ اہل جنت تالیاں بجاتے، بعض اٹھ کر رقص کرنے لگتے اور بعض سیٹیاں اور چیخیں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔"
غور کیجیے ! سابقین اولین اور انعام یافتہ مقربین کی محفل اور اس میں تالیاں، رقص، سیٹیاں اور چیخیں..!!! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حشر کا میدان نہیں کسی کالج کی تقسیم انعامات کی تقریب منظر ہے ۔
نا محرم لڑکیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنا :۔
صالح نوجوان جابجاغیر محرم لڑکیوں کے ساتھ مذاق کرتااور گپیں مارتا نظر آتاہے۔ ملاحظہ فرمایئے:
''میں اسی سوچ میں تھا کہ نحور نے میر ی بات کاجواب دیتے ہوئے کہا : '' ان شاء اللہ ان سے بھی جلد ملاقات ہوجائے گی، مگر سرد ست تو میں آپ کسی اورسے ملواناچاہتاہوں ''۔ یہ کہتے ہوئے وہ مجھ سے الگ ہوئے اورخیمے کی طرف رخ کر کے کسی کو آواز دی : ''ذراباہر آنا ! دیکھو تو تم سے کون ملنے آیاہے ؟''نحور کے آواز کے ساتھ ایک لڑکی خیمے سے نکل کر ان کے برابر آکھڑی ہوئی۔ یہ لڑکی اپنے حلیے سے کوئی شہزادی اور شکل وصور ت میں پر ستان کی کوئی پری لگ رہی تھی۔ (ص:62)
میں شائستہ کی سمت سے اس کے قریب پہنچا اور زور سے کہا:’’اے لڑکی! چلو ہمارے ساتھ۔ ہم تمھیں ایک نامحرم مرد کے ساتھ گھومنے پھرنے کے جرم میں گرفتار کرتے ہیں۔‘‘شائستہ میری بلند آواز اور سخت لہجے سے ایک دم گھبراکر پلٹی۔ تاہم نحور پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے اطمینان کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہا:’’پھر تو مجھے بھی گرفتار کرلیجیے۔ میں بھی شریک جرم ہوں۔‘‘، یہ کہتے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ آگے پھیلادیے۔ پھر ہنستے ہوئے کہا:’’مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں نہ جیل ہے اور نہ سزا دینے کی جگہ۔ ـ
(صفحہ 194)
ناول کا ہیرو (جو صدیقین میں سے ہے) اور انبیاء کے صحابہ کے جگہ جگہ نامحرم لڑکیوں کیساتھ اختلاط ، آزادانہ فقرہ بازی کے ایسے ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں کہ قاری کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ آخرت کامنظر نہیں روشن خیالوں کے کسی فنکشن کا منظر ہے یا کسی رومانٹک انڈین فلم کا کوئی سین چل رہا ہے۔ قاری کے جنسی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے وہی رومانوی ناولوں ، کہانیوں اور ڈراموں والا انداز جنت کے ان مناظر میں بھی اختیار کیا گیا اورلیلی مجنوں طرز کے بازاری عشق کو قرآن و حدیث کے نام پر جنتیوں کے ذمے لگا دیا گیا ہے ۔
مخلوط محافل اورموسیقی :۔
پردے سے مستثنی قرار دیے جانے کے بعد مخلوط محفلوں اور موسیقی کے جواز کی باری آنی چاہیے۔ مصنف نے باتوں باتوں میں موسیقی اورمخلوط محفلوں کے حوالے سے محتاط ذہن سازی کی ہے، اس کی داد نہ دیناناانصافی ہوگی۔
''تاروں کی دودھیار وشنی اورٹھنڈی ہوامیں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے فضا کوبے حد مؤثر بنا رکھا تھا۔ بازار کی طرح یہاں بھی پس منظر میں دھیمی سی موسیقی چل رہی تھی۔ ۔ (ص:255)
عبداللہ جنت کے بازار میں دھیمی دھیمی موسیقی کا نقشہ یوں بیان کرتاہے:
''وسیع وعریض رقبے پر پھیلاہو ا یہ بازار اپنے اندر ہر قسم کی دکانیں لیے ہوئے تھا۔ ملبوسات، فیشن، جوتے، آرائش، تحائف اورنہ جانے کتنی ہی دیگر چیزوں کی دکانیں یہاں تھیں۔ ہر دکان اتنی بڑی تھی کہ کئی گھنٹوں میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی تھی۔ دنیاکابڑے سے بڑا شاپنگ سنٹر بھی ان دکانوں کے سامنے کچھ نہ تھا۔ لیکن یہاں کی اصل کشش یہ دکانیں نہیں بلکہ وہ مسحو ر کن ماحول تھا جو ہر سوچھایاہواتھا۔ دل ودماغ کو اپنی طرف کھینچتی چیزوں سے بھری دکانیں، ان میں جگمگ جگمگ کرتی روشنیاں، معطّر فضا، خنک ہو ا، دھیمی دھیمی موسیقی، خوبصورت فوّارے، رنگ ونور کی ہزار ہاصناعیاں، طرح طرح کے دیگر ڈیزائنز، دلکش مناظر اورحسین ترین لوگوں کے چہل پہل، سب مل کر ایک انتہائی متأثر کن ماحول پیداکررہے تھے۔'' (ص:256)
غور فرمائیے! دھیمی دھیمی موسیقی، دلکش مناظر اورحسین ترین لوگوں سے بھر ےمتأثر کن ماحول کی منظر نگار ی۔۔!! اگر قرآن وحدیث میں سرچ کی جائے تو جنتیوں کی تہذیب و اخلاق پر سینکڑوں آیات اور احادیث موجود ہیں، ان سب کو چھوڑ کر ناول نگار نے اس ناول میں اپنی پسند یدہ روشن خیال اور جدید مغربی تہذیب و معاشرت کو جنتی معاشرت کے طور پر پیش کیا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس بات کا دعوی کہ یہ ناول قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھا گیا ہے شاید مغربی معاشرت کو قرآن و حدیث سے جنتی معاشرت ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ہمیں جنت میں موسیقی کے تذکرے پر اعتراض ہے اور نہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جنت میں موسیقی نہیں ہوگی اور مرد عورت شرعی پردہ میں پھریں گے، بلکہ ہمیں اعتراض اس دنیاوی طرز کی بے حیاء معاشرت ، مخلوط منظر کشی، موسیقی ، ہوٹنگ اور بکواس پر ہےجسکو آخرت و جنت کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے۔۔ !! اس کا جنت سے کیا تعلق ہے اور دنیا کی بے پردگی، موسیقی، مخلوط محفلیں اور ان میں ہونے والی ہلڑ بازی ، مغربی طرز کے بازار وں ، شاپنگ مالوں اور دوکانوں کے نقشے دکھا کر جنت میں بھی یہی کچھ ثابت کرنے کا آخر مقصد کیا ہے؟
یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان مسلم ناول نگاروں سے بہتر تووہ غیر مسلم ناول نگار ہیں جن کے ناولوں میں مذہب کا تذکرہ نہیں لیکن انکے ذاتی خلوص ، سچائی اور وجدان نے انکی تحریروں میں وہ رنگ بھر دیا ہے کہ قاری انکو ایک مذہبی کتاب سمجھ کر پڑھنے لگتا ہے۔انکے ناول سوسائٹی میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے بجائے لوگوں کو ناصرف مذہب اور روحانیت کی جانب راغب کرتے ہیں بلکہ انکی روحانیت کو مزید ترقی بھی دیتے ہیں۔