جمعہ، 29 نومبر، 2013

عقیدہ حیات و نزول عیسی علیہ السلام قرآن کی روشنی میں

قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ 'اللہ نےانہیں اپنی طرف بلند کردیا 'وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ انکے درجات بلند کردیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلند ی کا یہ فیدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے، عیسی پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکی قبر کشمیر میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک محبوط الحواس بھینگے میٹرک فیل دجال و کذاب مرزاقادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔۔یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی پیشی کیساتھ غامدی صاحب کا بھی ہے ، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتے ہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے انکا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیااور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ غامدی اور قادیانی دونوں آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“سے ”موت“مراد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اس آیت کی تشریح کرنے والی متواترصحیح احادیث اور جید صحابہ کےاقوال کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ قادیانی انہی احادیث سے مسیح علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونےکا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرز ا قادیانی نے تو محض عیسی علیہ السلام کی سیٹ خالی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے عیسی کی وفات کا عقیدہ اور اسکی قبر کے قصے گھڑے، اسکی کذب، چال بازیوں ، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہوچکی ہے، آج ہم غامدی صاحب کی  اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ انکی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں ۔
" سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انکی روح قبض کی گئی اور اسکے فورا بعد انکا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تاکہ یہود اسکی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک انکے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔ اس میں دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور "رفع" اسکے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے "۔( ماہنامہ اشراق، اپریل 1995، صفحہ 45) ایک اور جگہ لکھتے ہیں :حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے انکی روح ہی قبض نہیں کی انکا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اسکی توہین کرے۔"(اشراق جولائی 1994، صفحہ 32) 

القرآن یفسّر بعضہ بعضاً :۔

 قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور انکے شاگردوں کی تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہم انکی پسند کے مطابق انکے اس عقیدہ کی بنیاد سورۃ ال عمران کی اس آیت کی ’’القرآن یفسّر بعضہ بعضاً (قرآن کے کچھ حصّوں کی قرآن کی دوسرے حصّے تفسیر کرتے ہیں) کےتحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات انکی (غامدی صاحب) اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث اور صحابہ و علمائے امت کا اجماع قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے؟
مسئلہ حیات عیسی اور قرآن:۔
 غامدی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے و مکرو ا و مکراللہ۔ واللہ خیر المکرین۔ اور ان کافروں نے (عیسی علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی صاحب ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں ' کی وضاحت سورۃ النساء آیت 157 یوں کرتی ہے :

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6)

ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158)
 آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ " بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف"۔ یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے'الیہ' یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔
 لفظ' توفی' کی قرآن سے وضاحت:.
منکر حدیث، قادیانی اور غامدی آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“ سے مطلق ”موت“مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئےتھے۔ ۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ کی ہی رہی'۔ لفظ'توفی' کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔

1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ) الزمر 42 پارہ 24(

ترجمہ : اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں ، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔
 اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”توفی“بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ ”توفی“موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہےتو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور”حِينَ مَوْتِهَا “کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”توفی“ موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو "توفی" دیتا ہےاور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام "توفی" کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔

2. وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ الخ (الانعام 60 پارہ 7 )

ترجمہ:وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اس مقام پر بھی ”توفی“موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ۔ 
اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔

3. حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ الخ (النساء15 پارہ 4)

ترجمہ : یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔
 اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ 'موت' لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ ”توفی “ کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ ”توفی “سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ الخ ( السجدة 11 پارہ 21)

ترجمہ : تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے ”توفی “سے مرادموت لی جائے گی ۔
اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ نبی علیہ السلام کے لیے انک میت وانہم میتون، افائن مت فہم الخالدون اسی طرح سلیمان علیہ السلام فلما قضینا علیہ الموت ما دلھم علی موتہ ۔ ۔ جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہےجہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی صاحب کے عقیدہ کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔
 غامدی صاحب محض ایک ذومعنی لفظ کی بنیاد پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں پھر جسم اوپر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی اشارہ نظر آتا ہے تو لاش کو بھی آسمانوں پر اٹھانے لینے کی وجہ گھڑ لیتے ہیں کہ جی سرپھری قوم کہیں اسکی توہین نہ کریں اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ ۔ شاید انکے علم میں نہیں کہ یہود نے زکریا ، یحیی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے ہزاروں نبی کس بے دردی سے شہید کیے تھے ، حیرت ہے اس اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا ؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کر عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ نے اسکو ناکام بناتے ہوئے عیسی کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھالیا۔ غامدی صاحب نے اپنے تفرد میں اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔
مسئلہ نزول عیسی اور قرآن:۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں : " ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہوسکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے"۔ (میزان، ص 178، طبع سوئم ) غامدی صاحب نے لفظ توفی سے حیات عیسی کے انکار کا عقیدہ تیار کیا پھر اس عقیدہ کے دفاع میں نا صرف انہیں اس متعلق تمام احادیث کا انکار کرنا پڑا اور ساری امت کی مخالفت کرنی پڑی بلکہ نزول عیسی کا منکر بھی ہونا پڑا۔اپنے نزول عیسی کے انکار کے عقیدہ کی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس متعلق قرآن میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ۔ ۔ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ جب تمہاری تحقیق کے مطابق قرآن نزول عیسی کے حق یا خلاف میں کچھ نہیں بتا رہا تو پھر تم صحیح احادیث کو کیوں رد کررہے ہو؟۔ یہاں تمہارے پاس کونسی نص قطعی ہے جسکی ان احادیث کو صحیح مان لینے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ؟ پرویز ی تو چلیں حدیث کے صریح منکر ہیں وہ ایسا عقیدہ رکھ بھی سکتے ہیں تم تو اپنی کتابوں اور سائیٹس پر" قرآن و سنت کی روشنی میں " کے الفاظ سجا سجا کر لکھتے ہو ۔! اس سنت سے کس کی سنت مراد ہے؟ جب تمہیں اتنی متواتر اور صحیح احادیث قبول نہیں اور صرف قرآن ہی تمہاری ساری شریعت کا ماخذ ہے تو پھر اس سنت کے لفظ کوقرآن کے ساتھ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے تاکہ لوگوں کا واضح پتا چل جائے کہ یہ بھی اہل قرآن ( منکر حدیث ) ہیں۔۔پھر تمہیں ان لوگوں پر اعتراض کیوں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر صرف اسی صحیح یا ضعیف حدیث کو مانتا ہے جو انکی بات کی تائید کرتی ہو یا جس سے انکو اپنے موقف کی دلیل مل سکتی ہو، اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں بھی صحیح سے صحیح حدیث کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔!! حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔

وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔

اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ۔) سورۃ الزخرف آیت 61(

اور یقین رکھو کہ وہ (عیسی علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟

’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الخ النساء 158

اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے،۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے۔"(البحر المحیط ج 3 ص 392) (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)
غامدی مکتبہ فکر عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہے۔ اگر انکے اس عقیدہ کے عیسی علیہ السلام کو مردہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا کو صحیح بھی مان لیا جائے تو سوال یہ  ہے کہ اگر انکے عقیدہ کے مطابق واقعی عیسی علیہ اسلام کی لاش آسمانوں پر اٹھائی گئی ہے تو وہ دنیا میں کب آئے گی ؟ حشر کا میدان تو زمین پر لگے گا، اس دن خاتم الانبیاء سمیت سب انسان اپنی انہی قبروں سے اٹھیں گے، کیا عیسی آسماں پر زندہ کیے جائیں گے اور اللہ اور فرشتوں کیساتھ آسمان سے نازل ہوں گے ؟؟؟ قرآن میں اسکی تصریح یا اشارہ کہاں ہے؟ عقیدہ حیات و نزول عیسی کو عیسائیوں سے درآمد شدہ کہنے والے خود ناصرف حیات عیسی کے متعلق نصاری کے عقیدہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ انہیں الوہیت عیسی کےبھرپور دلائل بھی فراہم کررہے ہیں۔'سکالر اسلام 'کی دورخی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف صاحب پرانے صحائف میں موسیقی کے تذکرے کی آیات کی تصدیق قرآن میں موجود داؤد علیہ السلام کے زبور پڑھنے کی آیات سے کرتے ہیں اور انہیں قرآن سے موسیقی کا اشارہ کہتے اور پرانے صحائف میں موجود موسیقی کے متعلق آیات کو انکی وضاحت کہہ کر موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں، دوسری طرف نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن میں موجود واضح دلائل کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی۲۴ :۳۔۵)
 اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ۔
منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے :۔
ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے ذیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ نے قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انتظام کیا ، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ مرزا قادیانی چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔ خطرہ کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب قادیانیوں، پرویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی، جدت پسندی اور تفرد کی وجہ سے نہ صرف خود کفر کی طرف جارہے ہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو  بھی اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ۔ ۔ ۔

مکمل تحریر >>

بدھ، 6 نومبر، 2013

اجتہاد کی اجازت

’روشن خیال‘ لبرل اور سیکولر طبقہ کے   لوگ قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں  گھٹن محسوس کرتے اور اسےمذہبی  جمود کا نام دیتے ہیں، انکے خیال میں   امت مسلمہ کی  زبوں حالی، پس ماندگی  اور  ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے  کی وجہ  بھی  یہی  مذہبی جمود ہے  اوراس  كا ذمہ دار وه علمائے كرام كو ٹھہراتے ہیں کہ علمائے کرام  اجتہاد کے راستے میں رکاوٹ بن کر بیٹھ گئے  ہیں  اور اس  اجتہاد کے رک جانے کی وجہ سےمسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ان ترقی پسند بقراطوں  سے  کوئی پوچھے کہ  مسلم اسپین (اندلس) جسے یورپ سے بھی پہلے ترقی  نصیب ہوئی، کیا اس نے صرف علماء کے  اجتہادات کی بدولت ترقی کی تھی ؟ جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے  تو  کیا ہمیں یہ تحقیق کرنے اور پھر اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہاں کے مسلمانوں نے  آخر وہ  کیا طریقہ اختیار کیا تھا کہ سپن' جیول آف دی ورلڈ' بنا اور  پھر وہ کیا  کمزوریاں تھیں جنکی وجہ سے اپنی تمام تر  سائنسی ومادی ترقی اپنی تمام تر شان وشوکت کے باوجود اندلس  زوال پذیر ہو گیا  تھا ؟ !!  تاریخ  سے سبق سیکھنے  کے بجائے  آج ان روشن خیالوں کے سامنے یورپ کے مذہب کو دفن کرنے کی واحد مثال ہی ترقی کی بنیاد ہے یہ اس بات کو بالکل نظر انداز کیے بیٹھے ہیں  کہ اس ترقی کی عمارت محکوم اقوام کے ریسورسز  ہتھیا کر تعمیر کی گئی  اور اس ترقی کی  پہلی سیڑھی نو آبادیاتی لوٹ مار اور  دو عالم گیر جنگیں  تھیں   جس میں کم از کم چار کروڑ افراد لقمہ اجل بنے اور  وہی نوآبادیاتی نظام  آج بھی سرمایہ دارانہ نظام  کی آڑ میں کام کرہا ہے، انکو یہ بھی بالکل نظر نہیں آرہا کہ آج مغربی ممالک کے عوام  مذہب کی  غلامی سے آزاد ہو کر سرمائے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام اور  ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظم لوٹ مار اسی  ترقی کا ایک الم ناک باب ہے۔اقبال نے اسکی خوب منظر کشی کی تھی ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی                 یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے                       ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو                  ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
  جدیدیت پسندوں کے  منہ  سے  یہ دلیلیں  عام سننے کو ملتی   ہیں  کہ آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے،تقاضے بدل گئے ہیں ، چودہ سو سال پرانے اسلام پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ،  لہذا   اجتہاد کیا جانا چاہیے۔عام لوگوں کو  بھی  یہ نعرے خوشنما لگتے ہیں کہ جی  ٹھیک ہی  کہہ رہے ہیں صحابہ کے دور کے مسائل اور آج کے دور کے مسائل میں فرق ہے ، اجتہاد کی اجازت ہے اس لیے  جدید دور کے مسائل کا قرآن و سنت  کی روشنی میں حل نکالا جانا چاہیے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہےیہ طبقہ ہرگز اس  قسم  کے اجتہاد کی  آواز نہیں لگارہا،اس  کو  اس اجتہاد کی  آواز لگانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ  یہ اپنی ذاتی زندگی  میں  جدید معاملات تو درکنار  پرانے معاملات میں بھی نہ شرعی نقطہ نظردیکھتا ہے اور نہ  دیکھنا پسند کرتا ہے ، دوسری بات   یہ کام غیر محسوس طریقے سے ہر دور کے علماء کرتے آرہے ہیں،  تسلی بخش تحقیق اور فقہی ابحاث کے بعد   اس جدید دور کے بھی ہر مسئلہ میں  راہنمائی کردی گئی ہے۔ حقیقت میں  جدت پسندوں کی طرف سے جس اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے  وہ ایسا اجتہاد ہے جو  انکے فکری و عملی انحرافات کو مذہبی جواز فراہم کردے ، اسلام کے جو احکام  انہیں 'اوکھے ' لگتے ہیں اور  جو عیاشی کے کام اسلام نے حرام قرار دیے  ہوئےہیں انہیں حلال نہیں تو کم از کم مستحب یا مکروہ ہی تسلیم کرلیاجائے، اجتہاد   ایسا  ہو جو انکے ساتھ  پورے معاشرے کو   بھی مغربی لوگوں کی طرح ہر مذہبی پابندی  سے آزاد کردے۔اسی لیے یہ  دین کی موجودہ شکل کی پیروی کو روایت پسندی کہتے ،  اسلامی حدود  کو سخت اور انسانی حقوق کے خلاف کہتے نظر آتے ہیں   ، مزید  گہرائی میں انکی   بات کو سنا  اور پرکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انکا مطالبہ اجتہاد کا نہیں بلکہ  تجدید  دین کا ہے  وہ بھی  اس طریق پر کہ اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کوبالکل  چھوڑ کر  ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور   دین کو سمجھنے کے لیے  نئے سرے سے قانون سازی کی جائے۔اس کا ایک طریقہ  جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب یہ  بیان کرتے ہیں کہ  ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے‘ جس میں امامیہ‘ حنفی ‘ مالکی وغیرہ سب مکاتب فکر شامل ہوں‘ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔ !! کچھ مفکرین  یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ   عقائد ہوں یا نظریات سب وقت کے ساتھ expire ہو جاتے ہیں، اس لیے ان فرسودہ تعلیمات سے جان چھڑائی جائے ۔ اس کے لیے  کوئی  ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ      دین کا نام  تو اسلام ہی  رہے اور ہمیں بھی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور مسلمان کہیں  بس (یہودیت او ر عیسائیت کی طرح) اسلام کی اصل  تعلیمات و تشریحات کو  کہیں دفن کرکے  اسلام کا ایک جدید ورژن متعارف کروایا جائے ۔ اس کا طریقہ جاوید   غامدی صاحب  یہ تجویز فرماتے ہیں  کہ  دین کی تشریح قرآن و سنت واجماع  صحابہ و امت  کے بجائے  عقل و اصول  فطرت  کی روشنی میں کی جانی  چاہیے،  جو چیز بندے کی فطر ت سے مناسبت رکھتی نظر آئے  اسے جائز ہونا چاہیے، جو عقل میں آئے اسے دین ہونا چاہیے  ۔۔  معروف و منکر،  حلال و حرام  کی پہچان اور تمیز کے  جو قوانین اسلام نے بتائے ہیں ان کو چھوڑ کر  انسانی  فطرت کو سامنے رکھ کر انکا  فیصلہ کیا جانا چاہیے ،  مغرب کی طرف سے اسلام کی جن جن باتوں پر اعتراض آرہے ہیں انکا جواب دینے میں ٹائم ضائع کرنے بجائے ان  باتوں کو   ہی بدل دیا جائے ،  دین  کو موم کی طرح ادھر ادھر مروڑتے  ہوئے  بالکل ایسے زاویے پر فٹ کردیا جائے  کہ یہ  نہ  کسی باطل  کو ہٹ کرے نہ کسی مخالف کو برا لگے۔ یہی  انکا نظریہ جہاد ،  نظریہ اتحاد و رواداری مذاہب  اور یہی انکے اسلامی حدود و قوانین پر اٹھائے گئے  اعتراضات کی بنیا د بھی ہے۔ جو سوچ ہمارے آج کے جدت پسندوں اور متجددین کی ہے وہی  سر سید اوران کے رفقاء  کی تھی کہ  انگریر سر کار   کو سجدہ کیے اور اسکی تہذیب کو اپنائے بغیر  مسلمانان ہند  کبھی ترقی نہیں کرسکتے،سرسید  ایک جگہ لکھتے ہیں:
”جو شخص قومی ہمدردی سے اور دور اندیشی سے غو رکرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا عملی اور کیا اخلاقی، صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک بھول جائیں، تمام مشرقی علوم کو نسیا منسیا کردیں، ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے ، یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست وپاہوں، ہمارے دما غ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں، ہم اپنی قدر ، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیرخواہ رہیں اور اس کو اپنا محسن ومربی سمجھیں۔“ ( مقالات سرسید ج5، ص:66)
  یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند    میں    ان دو صدیوں میں جس  نے بھی  الحاد و  تجدید دین کی آواز لگائی اگر  اسکے کے علمی وفکری نسب کو دیکھا جائے تو اسکی کڑی کہیں نہ کہیں سرسید احمد خان سے جا ملتی ہے ۔ ان کی پیروی میں دوبڑے  فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ایک سلسلہ عبداللہ چکڑالوی اور اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا غلام احمد پرویز تک پہنچا ،  دوسرا سلسلہ حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جاوید احمد غامدی تک آیا۔ ان میں سے پرویزی سلسلہ نے اپنے عقائد و نظریات کی اشاعت میں تقیہ کرنے کے بجائے صاف گوئی اور   بے باکی  سے کام لیا ، اسی وجہ سے انکے نظریات کا  پوری طرح نقد بھی   ہوسکا  اور انکا کفر و اعتزال عوام کے سامنے واضح  ہوا۔ غامدی  مکتبہ  فکر نے اس  سلسلے کے لوگوں کیساتھ ہونے والے سلوک کو  دیکھتے ہوئے   بیچ کی راہ اختیار کی ہےوہ یہ کہ یہ      ”صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں“ ۔ یہ   دین   پر ہونے والی  چودہ سو سالہ تحقیقات،  تشریحات اور ان گہری تحقیقات کے نتیجے میں بننے والے اصول و قوانین    کے مقابلے میں اپنی تشریحات اور اصولوں کو اس طریقہ  سے متعارف کروانے کی کوشش میں  ہیں  کہ انکا  انکار شریعت واضح  نہ ہو جسکی بنیاد پر    کوئی  ان پرصریح  فتوی بھی نہ لگایا جاسکے جس طرح غلام قادیانی اور غلام پرویز پر لگا یا گیا۔!!  مثلا جناب غامدی صاحب  وحی، کتاب، سنت، تواتر، فطرت، اجماع، معروف، منکر اور عرف جیسی بہت سی اسلامی اصطلاحات  کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم انکو مانتے ہیں  لیکن  ان کے مفاہیم اپنی طرف سے بیان کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ  کوشش کرتے ہیں کہ  عام چھوٹے مسائل میں  سلف سے ہی رابطہ استوار رکھا جائے تا کہ کوئی بالکل یہ نہ سمجھ لے کہ یہ پرویزیوں کی طرح  بالکل کوئی نیا دین متعارف کروانے جارہے ہیں ۔   جن مسائل  میں   انکے لیے اسلاف کے دیے گئے قرآن و حدیث پر مبنی   دلائل  کا انکار ممکن نہیں ہوتا  ان مسائل  میں  اپنے قائم کیے گئے موقف کی   دلیل عموما   قرآن و حدیث کے  بجائے لغت، فطرت انسانی، پرانے صحائف وغیرہ سے لاتے  ہیں ، موقف پر کوئی اعتراض آجائے تو  پہلے پورا زور لگا کر اسکا دفاع کرتے ہیں، قرآن کی بات ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ اس زمانہ کے ساتھ  مخصوص تھی، حدیث کی بات ہو تو  کسی دوسری حدیث کے ذومعنی لفظ  کو لے کر تاویل کرجاتے ہیں یا اسکے  قرآن کے خلاف ہونے کا دعوی کردیتے ہیں ،  ایک طرف  مسئلہ رجم، حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و آمد ثانی، عورت  کے پردے، موسیقی، مجسمہ سازی، مرتد کی سزا،  قرات قرآنیہ کے بارے میں احادیث کے ساتھ   فقہاء کے فہم  کو بھی ٹھکراتے نظر ہیں  ،  دوسری طرف اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہیں پھنس جائیں  ہیں تو فقہاء کی ہی  شاذ آر اء کو  اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگر   پھر بھی بات نہ  بنے   تورسالہ یا  کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اپنا موقف ہی بدل دیتے ہیں  اور اسکو اپنی  سوچ کے ارتقاء کا نام دیتے ہیں ، اسی 'ارتقاءئی' سفر میں جناب غامدی صا حب    78ء سے 2005ء تک  صرف سنت پر چودہ موقف بدل چکے ہیں۔ کبھی عورت کی ختنہ، ڈاڑھی ، طلاق ، تیمم، نماز عید، نماز جمعہ سنت تھی اب نہیں رہی، پہلے نماز، روزہ، زکوۃ سنت تھی پھر فرض بن گئی ، اسی طرح  پہلے جمہوریت نظام کفر و شرک تھا آج دنیا کا عظیم ترین بلکہ الہامی نظام ہوگیا۔ ۔ چلے تو تھے  چودہ سو سال سے اسلام پر ہونے والی تنقیدات اور پھر انکے ردعمل میں ہونے والی  تحقیقات اور   اصلاحات   کے بعد اپنی مچور سطح تک پہنچ جانے والے شرعی مسائل کے مقابلے میں نئے سرے سے  پورے  دین  کا  ایک نیا ایڈیشن متعارف کروانے ،  لیکن تیس  سال  سنت اعمال کا تعین کرنے میں ہی  لگ گئے۔   ایک طرف جناب کا  علم اور تحقیق  اتنی  نابالغ  ہے  کہ  بنیادی تصور دین  میں ہی  ہر نئے دور کے ساتھ  تبدیلی در آتی ہے  دوسری طرف ناصرف  ہر ترمیم پر  دعوائے  قطعیت کرتے ہیں  بلکہ  جید صحابہ  و فقہاء کے فہم پر اعتراض اور پھر   اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کے لیے انکے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے سے بھی نہیں ڈرتے۔
 شرعی اجتہاد کی تعریف اور  حدود:
اجتہاد کے بارے میں ہمارے ان  تجدد پسند سکالروں  نے کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ ایک بنیادی غلط فہمی انکی طرف سے   اسکی تعریف  میں پھیلائی گئی  ہے۔  انکے نزدیک  لفظ ” اجتہاد“ کے معنی کوشش کرنا او ر مفہوم آزادرائے دینا ہے۔ یہیں سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے ا وراس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وہ بھی غلطیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ شرعی اجتہاد محض کوشش کرنے اور رائے زنی کا نام نہیں، نہ اجتہاد کا مطلب کسی  پرانے حکم کو منسوخ کرکے نیا حکم گھڑناہے بلکہ  شریعت کے ایک حکم سے دوسرا  حکم نکالنا ہوتا ہے۔ کسی بھی  درپیش مسئلہ، جس کے بارے میں واضح حکم شرعی کتاب وسنت میں موجود نہیں، اس کا حل مآخذ شریعت کی چھان پھٹک کرکے، نظائر وامثال پر غور وفکر کے بعد پیش کرنا ” شرعی اجتہاد“ کہلاتا ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ پھیلائی گئی ہے  کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں  حالاں کہ جن مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں ، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص (وہ احکام جو  واضح طور پر قرآن یا حدیث میں بیان کیے  گئے ہوں)ہوں نہ اجماعی(جنکے ایک  حل اور تشریح پر ہر دور کے علمائے امت تحقیق کے بعد متفق چلے آرہے ہیں )۔ آسان لفظوں میں  قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جو واضح اور  منصوص احکام شرعیہ آگئے ہیں ،وہ امت کے لئے ہرحالت میں واجب الاطاعت ہیں اور اجتہاد کے دائرے سے بالاتر ہیں۔ہاں  اگر احادیث میں کچھ تعارض ہے یا قرآن کریم کی دلالت قطعی موجود نہیں ہے ، نہ علمائے امت کا ایسے مسائل میں کوئی اجماع موجود ہے  جیسے وہ مسائل جو جدید تمدن نے پیدا کئے ہیں اور  سابقہ فقہ اسلامی کے ذخیرہ میں ان کا ذکر نہیں ہے، نہ نفیاً نہ اثباتاً، یا  وہ  مجتہد فیہ مسائل  ہیں  ( وہ عملی اور فروعی احکام جن میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو) ان میں اجتہاد کی اجازت ہے ۔ شریعت کی روشنی  میں ان مشکلات کو حل کرنا اور جدید تقاضوں کو پورا کرنا دور کے اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے  علماء کا فریضہ ہوتا ہے اور وہ ان مسائل کا قیاس واجتہاد سے قدیم ذخیرہ کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔
شرائط مجتہد  و اجتہاد:
عہدِ رسالت میں مسائل کا حل قرآن تھا یا فرمان نبوی ، دورنبوت کے بعد فتوحات اسلامیہ کے ساتھ نئے مسائل نے سر اُٹھایا تو ان کے حل کے لیے فقہاء نے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے قواعد وضوابط مرتب کیے اور نئے مسائل کے” اجتہادی“  حل تجویز کیے ، ان میں سے چار فقہی مذاہب مستقل  مدون ہوئے اور   فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور  فقہ حنبلی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ تشریع اسلامی کی تاریخ،  فقہی دور کی تکمیل اور ہر زمانے میں جدید مسائل پر کتابوں کی تصنیف اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ جن مسائل میں کتاب سنت کے نصوص موجود نہیں ان میں اجتہاد کا دروازہ ہر وقت کھلاہےچنانچہ امت اسی اصول پر کار بند رہی اور یہی آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے۔ ۔ دوسری بات جدیدیت پسندوں کی طرف سے جو اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے اور جس طرح عام لوگوں کو اجتہاد کی رغبت دلائی جاتی ہے  اس  سےبعض  اوقات  یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید اجتہاد کوئی عبادت ہے  جسکا یہ لوگوں کو شوق دلارہے ہیں،  حالانکہ کہ اجتہاد ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اسکی سخت شرائط ہیں ۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں اجتہاد کی چند  شرائط کا ذکر کیا ہے جنکاایک  مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے ۔
1. عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔
2. قرآن وحدیث سے ماخوذ ان علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔
3. قرآن ، حدیث ،  اجماع امت اور  امت کے اجماعی واجتہادی مسائل جو پہلے سے طے کیے جاچکے انکا مکمل علم  ہو۔
4. فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ایک قدم بھی  آگے نہیں چلا جاسکتا ۔
5. ان آیات و روایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ تقریبا پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔
6. اجتہاد کے اصول وقواعد، احکام شرع کے مصالح ومقاصد،  ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔
7. بالغ نظری اور دقیقہ رسی کے ساتھ تقوی،خشیت الہیہ اور دین خداوندی کے ساتھ کامل اخلاص موجود ہو ۔
8. دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔
9. ایسے یکتا اشخاص کا وجود جو ان مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ، موجود دور میں  بیحد مشکل ہے ،اس لیے ”شخصی رائے “کی کمی کو جماعت کی آراء سے پورا  کرنے  کے لیے شورائی اجتہاد کا اہتمام ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی  امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جدید مسائل میں انفرادی رائے کی بجائے ”فقہاوعابدین“سے مشورہ کیا جائے ” (کنزالعمال حدیث نمبر: ۴۱۸۸)۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقیہہ الامت ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا جیسا کے الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ “میں ذکر کیا ہے ۔)حجۃاللہ البالغہ باب الفریق بین المصالح و الشرائع، عقد الجید ) 
یہ  چند شرائط  ہیں   جنکا ایک مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے اب اگر انکو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے  ان سیلف میڈ عظیم  مجتہدین یا مجددین   کی  علمی حالت چیک کی جائے اور یہ دیکھا  جائے  کہ  کیا  ان میں  اجتہاد کی صلاحیت یا  مجتہد  کی کوئی شرط پائی جاتی ہے  تو  تحقیق کرنے کے بعد پتا چلتا ہے  کہ  علوم شریعہ  میں رسوخ تو دور کی بات  کسی نےدین کی باقائدہ تعلیم بھی  حاصل نہیں کی ہوئی،  اکثر  صرف بی اے ، ایم اے کرکے ڈاکٹر کا سابقہ  لگا کر عینک اور واسکٹ  پہن کر ٹی وی پر آبیٹھے ہیں  اور انکی تحقیق کیا ہیں بھان متی کا کنبہ ہیں،  سارے ماخذ دین   کو سامنے رکھتے ہوئے نئے مسائل کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم  کرنے کی صلاحیت تو  درکنار اکثر اتنی قابلیت بھی نہیں رکھتے کہ  بغیر ترجمہ کے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرسکیں، یا دو سطریں عربی میں صحیح لکھ سکیں پھر  بھی جرات اختلاف   اتنی ہے کہ   فقہائے امت اور صحابہ کے فہم  کو غلط قرار دے جاتے  ہیں ، اجتہادی کوششیں صرف   فروعی یا  اجتہادی مسائل  میں  بھی  نہیں کہ انکو کسی درجہ  میں  اختلاف کی اجازت دی جاسکے    بلکہ متفقہ و منصوص مسائل کو  اختلافی بنانے کے لیے  ہیں  ۔ سارے اختلاف کی وجہ کیا ہے ؟  محض جدت پسندی ، احساس کمتری اور تن آسانی۔ اس کے لیے مذاہب فقہا سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتیں تلاش کرتے  اور قرآن و حدیث کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔ اجتہاد کی علمی بنیاد کیا ہے  ؟ دو ڈھائی سو  اردو میں لکھی ہوئی یا  اردو انگریزی میں   ترجمہ شدہ کتابیں، چار پانچ ڈکشنریاں  اور ایک بہکا ہوا نفس اور عقل ۔عموما ساری جرات اور اجتہاد  کا  انحصار صرف  عقل  پر ہوتا ہے۔ ہم مانتے ہیں   بلاشبہ عقل نور فروزاں ہے مگر اس کے لیے ایک خاص دائرہ ہے ۔ عقل ان امور کا ادراک نہیں کر سکتی جو وحی کی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔ عقل کے لیے یہی فخر  کافی ہے کہ وہ وحی کےبیان کردہ حقائق کا ٹھیک ٹھیک ادراک کر لےاور ان حقائق کی بلندحکمتوں ،گہری مصلحتوں اور باریک اسرار و علل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائے ۔ جس طرح  نصوص وحی کے نہ ہونے کی صورت میں بھی عقل  سےکا م نہ لینا نری حماقت اور کوتاہی ہے اسی  طرح منصوص وحی کے ہوتے ہوئے بھی عقل کو ہر چیز میں مقدم رکھنا بڑی گھناؤنی جسارت ہے۔ صحیح راستہ ان دونوں کے درمیان سے گزرتا ہےاور وہی صراط مستقیم ہے ۔
مکمل تحریر >>