تاریخ محض گزرے وقتوں کا بیان نہیں بلکہ یہ ہزاروں واعظوں کا ایک واعظ اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ،اس کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم نے معاشرے کی تہذیب کے لیے کیا کردار ادا کیا ، جنگ و امن ، خوشحالی اور تنگی میں اس نے عرصہ حیات کیسے گزارا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اوربصیرت ترقی کرتی ،دور اندیشی بڑھتی،حزم اوراحتیاط کی عادت پیدا ہوجاتی ہے،دل سے رنج وغم دور ہوکر مسرت وخوشی میسر ہوتی ہے، انسان میں احقاق حق اورابطال باطل کی قوت ترقی کرتی اورقوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے، ، تاریخ کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے جس کے پیغام کو بگاڑنا یا اس کے سیاق و سباق کو مجروع کرنا ایک سنگین جرم ہے۔
ایک عرصہ سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں تاکہ اس سے من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں ۔ تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو اور یوں انکا اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جائے اور انہیں اپنے اسلاف کے تاریخی کارناموں سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو ۔ وہ ان کی طرح پیچیدہ حالات اور بدلتی دنیا کے چیلنجز کا پورے اعتماد سے سامنا کرنے کے بجائے مایوس ، ناامید اور عزت نفس کے باب میں بالکل کھوکھلے ہوجائیں ۔۔ اس کا سب سے کارگر نسخہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ مسلم تاریخ کو برا بھلا کہا جائے ، خصوصا ان عظیم لوگوں کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے مسلمانوں کا فخر ہیں ، ایسے لوگ اگر اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کرلیتی ہے' ان کو ڈاکو ، غاصب ، ظالم ، خودغرض ، عیاش ثابت کیا جائے ، انکی ذاتی زندگی کے متعلق کہانیاں گھڑی جائیں ۔ اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیات کو سب سے ذیادہ نشانہ بنایا گیا ان میں محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالمگیر نمایاں ہیں، انکے علاوہ ماضی قریب کی شخصیات میں علامہ اقبال ، قائدہ اعظم ہیں جنکی سیکولر صورت گری کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کو سب سے ذیادہ جس بات پر کوسا جاتا ہے وہ اسکا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرز عمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہان کو قید میں ڈالنا تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے تین بھائی جان سے گئے اور والد شاہ جہان آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے محض ایک منفرد قصہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو تاریخ کے ایسے کردار کے طور پر پیش کرنا کہ جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا ، یا وہ غیر معمولی طور پر اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کر ڈالا، قطعا غلط اور بے ثبوت مقدمہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر اورنگ زیب کا کردار باقی ہر لحاظ سے اجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟
اسے کس بات نے مجبور کیا کہ وہ باپ اور بھائیوں کےساتھ سخت رویہ اپنائے جس کا اسے الزام دیا جاتا ہے ؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب طلب کرنا چاہیے ، لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش سیکولر حضرات کا مقصد او ر مدعا ہے ہی نہیں ۔ انکا تو صرف ایک ہدف ہے وہ یہ کہ اس طریقہ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے ۔ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ہو ۔ ڈاکٹر محمد اقبال اپنی ایک نظم میں ان یک چشم متنفرین کو ' کورذوقاں' کا نام دیتے ہیں جنہیں اورنگ زیب عالمگیر کے کمالات نظر نہ آئے اور انہوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں :
کورذوقان داستاں ہاسا ختند وسعت ادراک اونشاخسند
(اسرار خودی)
اس موضوع پر تحقیق كے لیے میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا، تاریخی علم رکھنے والے لوگوں کو سنا۔ مجھے سب سے اچھا جواب طارق جان صاحب کی کتاب ' سیکولرازم مباحث اور مغالطے ' میں ملا ۔ طارق جان انسٹیٹوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد میں سینئر ریسرچ فیلو اور کئی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ انکی یہ کتاب جدید فلاسفہ ، سیکولروں ملحدوں کے مغالطوں کے رد میں اپنے موضوع پر میرے نظر میں اردو زبان میں موجود سب سے بہترین کتاب ہے ۔ اسی کتاب سے انکے مضمون ' سیکولر لابی ، تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر ' کو میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ اسلوب علمی اور عام فہم ہے ، تصنیف اعلی درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے ، دلیل اور حوالے کے ساتھ مصنف نے اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق پھیلائی گئی کنفیوزین کا بہت سیلقے اور خوبی سے تجزیہ کیا ہے ۔
(Right Click+ Save As)