اتوار، 17 فروری، 2013

کافر اور حقیقی کافر

قادیانی اپنے کفر  سے توجہ ہٹانے کے لیے مغالطہ دینے کی کوشش کرتے  ہیں کہ  جو علماء ہم پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں وہ خود آپس میں بھی اک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں لہذا ان کے فتوؤں کا اعتبار نہیں۔ اس مغالطے کے جواب میں چند باتیں ملاحظہ فرمائیں۔

پہلی  بات مسلمان (سنی) مکاتب فکر  کا باہمی اختلاف واقعات کا اختلاف ہے قانون کا نہیں۔ جسکا واضح ثبوت یہ ہے جب کبھی اسلام کے خلاف کوئی بات سامنے آئی یا مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ پیدا ہوا تو ان تمام مکاتب فکر کے مل  بیٹھنے میں ان چند متشدد ین کے باہمی نزاعی فتوے کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔1951 کے اسلامی  دستور کے بائیس نکات ہوں یا 1956 میں پاکستان کے مجوزہ دستور میں متعین اسلامی ترجیحات طے کرنے کا مرحلہ،  1953 کی تحریک ختم نبوت ہو یا 1977 کی تحریک نظام مصطفی، 1973 کے آئین میں اسلامی شقوں کو درج کرانے کا مسئلہ ہو یا  موجودہ دور میں تحفظ ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ تمام مکاتب فکر یک جان و یک زبان متفق و متحد نظر آتے ہیں۔

دوسری  بات چند متشددین، عجلت پسند اور غیر محتاط افراد کے انفرادی بنیاد پر دیے گئے چند فتاوی کو پیش کرکے یہ تاثر دینا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے  کہ سارے مکاتب فکر اک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ  ہر مکتبہ فکر  میں اک ایسا عنصر رہا ہے جس نے دوسرے مکتبہ فکر کی مخالفت میں اتنا تشدد روا رکھا ہے کہ وہ تکفیر تک پہنچ جائے، لیکن اسی  مکتبہ فکر  میں محقق اور اعتدال پسند علما ء نے ہمیشہ اس بے احتیاطی سے شدید اختلاف کیا ہےاورہر مسلک میں بڑی تعداد ایسے علماء کی ہی ہے جنہوں نے ان اختلافات کوناصرف  ہمیشہ اپنی حدود میں رکھا بلکہ اس رویے کی مذمت بھی کی جو اس قسم کے فتوؤں میں روا رکھا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ  امت  کے باہمی  تکفیر کے یہ تمام فتوی اپنے اپنے مکاتب فکر کی مکمل نمائندگی  نہیں کرتے ۔ 

تیسری بات  اگر کچھ حضرات نے تکفیر کے سلسلہ میں غلو اور تشدد کی روش اختیار کی تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ اب دنیا میں کوئی شخص کافر ہو ہی نہیں سکتا ؟  اور اگر  یہ سب علما  ملکر بھی کسی کو کافر کہیں تو وہ کافر نہیں ہوگا ؟ کیا  کبھی عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے کسی نے سندیافتہ ماہر ڈاکٹر  وں کو برا کہا   ؟ یا کوئی یہ کہہ سکتا ہے  کہ ان کی انفرادی غلطیوں کی وجہ سے  مستند ڈاکٹروں کی بھی کوئی بات قابل قبول نہیں ہونی چاہیے ؟  کیا کبھی کسی عدالتی فیصلہ میں  جج کی انفرادی غلطی کی وجہ سےدوسرے تمام ججوں کے بھی   تمام فیصلوں کے غلط  اور ناقابل اعتبار ہونے کی کسی نے بات کی ؟  کیا کبھی کسی  تعمیراتی کام میں کسی انجنئیر کی غلطی کی وجہ سے  کسی ذی ہوش نے یہ تجویز پیش کی کہ ان غلطیوں کی بناء پر تعمیر کا ٹھیکہ انجینئروں کے بجائے گورکنوں کو دے دیا جائے ؟؟؟  اگر  دینی لوگوں سے بھی چند جزوی نوعیت کے فتوؤں میں بے احتیاطیاں ہوئیں  تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ قادیانی بھی کافر نہیں۔ ۔  جن کا کفر تو اتنا واضح ہے کہ ان کو صرف علماء نے نہیں بلکہ غیر عالم لوگوں ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اسمبلی نے  بھی کافر قرار دیا۔ آخر میں  علامہ اقبال  کا اک قول پیش کرتا ہوں۔
" مسلمانوں کے بے شمار فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی  مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا  جن مسائل پر سب فرقے متفق ہیں اگرچہ وہ دوسرے پر الحاد کے فتوے ہی دیتے ہوں "
( حرف اقبال صفحہ 127)


مکمل تحریر >>