جمعرات، 4 اپریل، 2013

پاکستان بننے کی مخالفت كرنے والا علماء اور انکا موقف

 پاکستان میں الیکشن کا موسم ہے،  جگہ جگہ انتخابات پر بحثیں چل رہی ہیں ، طرح طرح کی باتیں پڑھنے،سننے کو مل رہی ہیں ۔ ۔ ۔ہرشخص  کے پاس اپنا ایک نجات دہندہ ہے اور اس کے خیال میں صرف اسی کو ووٹ دینے سے پاکستان بچ سکتا ہے۔۔    انتخابات پر  ہونے والی ابحاث ہر  گلی محلے کی  نکڑ پر، مساجد کے باہر، انٹرنیٹ فورم، سوشل میڈیا سائیٹس   اور دفاتر میں  تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہے ،  یہ دیکھ کر حیرت  بھی ہوتی ہے کہ لوگ ان منافق سیاست دانوں کے دفاع میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دینے سے بھی نہیں کتراتے، اس دفعہ  ایک اور  ٹرینڈ دیکھنے کو ملا ہے وہ یہ کہ  لوگ مولانا فضل الرحمان جیسے سیاستدانوں کی آڑ میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا سید حسین احمد مدنی،  مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمود جیسے  متقی اور نیک صفت علما کو  صرف اس وجہ سے گالی دیتے نظر آئے ہیں کہ انہوں نے  پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی،  کئی جگہ ہلکے پھلکے انداز میں اس پر بات کرنے کی کوشش کی  لیکن یہ غلط فہمی اتنی عام ہے کہ  صرف سوشل میڈیا پر  پانچ چھے جگہوں پر  یہ الفاظ دیکھ چکا ہوں کہ  یہ تو وہ علما ہیں جنہوں نے   پہلے اپنا پورا زور لگایا کہ پاکستان نہ بن سکے جب دال نہ گلی  اور پاکستان بن گیا تو    یہاں بھی پیسے کے لیے سیاست شروع کردی،  ایک صاحب نے لکھا کہ فضل الرحمان کا والد کہا کرتا تھا  کہ    شکر ہے  ہم پاکستان کے گناہ میں شریک نہیں تھے، ایک اور  نے  دلیل پیش کی کہ یہ ملا    اتنا منافق  تھا کہ سوشلزم کا سورج چڑھتا دیکھا تو اسکو اسلام کہنا شروع کردیا۔ ایک دوست بلاگر نے لکھا کہ  قیام پاکستان کی بھر پور مخالفت کرنے والے اب مینار پاکستان کے سائے میں جلسے کرنے لگے,محو حیرت ہوں۔ ۔  اور بہت سے طعنے اور باتیں  ہیں جو گوگل پر یونی کوڈ میں سرچ کرنے سے کئی مشہور سائیٹس پر بھی نظر آئی ہیں ، ان سب کو پیش کرکے  ان پر بات کرنا شروع کی تو  تحریر بہت طویل ہوجائے گی، میں فی الحال ان  اعتراضات پر بات کرنے کی کوشش کروں گا۔اصل میں  المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو موویز، گیمز، ڈراموں، فیس بک   جیسی قیمتی  چیزوں سے فرصت نہیں ، مطالعہ کرنے جیسے فضول کاموں کے لیے انکے پاس ٹائم ہی نہیں۔ ۔ ۔الا ماشاء اللہ بہت کم لوگ ہیں جن میں ابھی بھی مطالعہ کا ذوق و شوق باقی ہے۔ ۔ ۔   ذیادہ تر جوانوں کا  تاریخ ، دینیات  وغیرہ کے متعلق علم کا ماخذ كوئی مستند کتاب نہیں، چند باتیں ہیں جوانہوں نے کسی ایرے غیرے کے منہ سے سن لیں، کوئی اخباری کالم ہے جس پر کبھی نظر پڑ گئی یا کوئی  ناول، کہانی جو شوقیہ پڑھ لی۔ ۔یا  اب فیس بک ہے!!  ا س علم کا اظہار پھر ایسا ہی ہونا ہے جو دیکھنے کو ملتا ہے۔۔
پہلا اعتراض   کہ مولانا  ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی اور ان کے رفقاء نے تحریک پاکستان کی مخالفت کیوں کی ؟  کے جواب میں میں اپنے طور پر کچھ بیان کرنے کے بجائے انہی   علماء کی  تقاریر میں سے کچھ اقتباس پیش کرتا ہوں، بات واضح ہوجائے گی کہ وہ اپنے  موقف میں کتنے سچے تھے اور انکی فراست کتنی مومنانہ تھی۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمہ اللہ نے  26 اپریل 1946 کو دہلی کے اردو پارک میں ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا ،  اس کا ایک اقتباس  ملاحظہ فرمائیں۔
"اس وقت آئینی اور غیر آئینی بحث چل رہی ہے کہ آیا ہندوستان میں مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت سے جدا کرکے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ ۔ ؟   قطع نظر اس سے کہ اس کا انجام  کیا ہوگا ۔ ۔ ؟   مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو سورج مشرق سے طلوع ہوگا لیکن یہ وہ پاکستان نہیں بنے گا جو دس کروڑ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں  ہیں ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔۔؟  بات جھگڑے کی نہیں  سمجھنے  اور سمجھانے کی ہے، تحریک کی قیادت کرنے والوں کے قول وفعل میں بلا کا تضاد اور اور بنیادی فرق ہے اگرآج مجھے کوئی اس بات کا یقین دلادے کہ کل کو ہندوستان کے کسی قصبے کی گلی میں یا کسی شہر کے کسی کوچے میں حکومت الہیہ کا قیام اور شریعت اسلامیہ کا نفاد ہونے والا ہے تو رب کعبہ کی قسم میں آج ہی اپنا سب کچھ چھوڑ کا آپکا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوں۔لیکن  یہ بات میری سمجھ س بالاتر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ کے قد پر اسلامی قوانین نافد نہیں کرسکتے جن کا اٹھنا بیٹھنا، وضع قطع ، جن کا رہن سہن ، بول چال، زبان و تہذیب، کھانا پینا ، لباس وغیرہ غرض کوئی چیز بھی اسلام کے مطابق نہ ہو وہ دس کڑوڑ انسانی آبادی کے ایک قطع زمین پر اسلامی قوانین کیسے نافد کرسکتے ہیں؟ یہ ایک فریب ہے اور میں یہ فریب کھانے کے لیے تیار نہیں۔
 ہندو اپنی مکاری اور عیاری سے ہمیشہ پاکستان کو تنگ کرتا رہے گا، اسے کمزور بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا، اس تقسیم کی بدولت آپ کے دریاؤں کا پانی روک دے گا، آپ کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کرے گا، آپ کی یہ حالت ہوگی کہ بوقت ضرورت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی اور مغربی پاکستان مشرقی پاکستان   کی کوئی مدد کرنے سے قاصر ہوگا، اندرونی طور پر پاکستان میں چند خاندانوں کی حکومت ہوگی اور یہ خاندان زمینداروں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے خاندان ہوگنگے، امیر دن بدن امیر ہوتا جائے گا اور غریب  غریب تر"۔
(روزنامہ الجمعیہ دہلی، 28 اپریل 1946)
اس  طرح مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا:
"اس زمان میں پاکستان کی تحریک زبان زد عوام ہے ، اگر اس کا مطلب اسلامی حکومت علی منہاج النبوۃ  مسلم اکثریت والے صوبوں میں قائم کرنا ہے تو ماشاء اللہ نہایت مبارک اسکیم ہے، کوئی بھی مسلمان اس میں گفتگو نہیں کرسکتا، مگر بحالت موجودہ یہ چیزیں متصور الوقوع نہیں۔ اور اس کا مقصد انگریز کی حکومت کے ماتحت کوئی ایسی حکومت کو قائم کرنا ہے جس کو مسلم حکومت کا نام  دیا جاسکے تو میرے نزدیک یہ اسکیم محض بزدلانہ اور سفیہانہ ہے اور ایک طرف برطانیہ کے لیے ڈیوائیڈ اینڈ رول  کا موقع بہم پہنچارہی ہے اور یہی عمل برطانیہ نے ہر جگہ جاری رکھا ہے"۔
( علمائے حق اور انکے مجاہدانہ کارنامے جلد 1 ص 462)
یہ موضوع بہت تفصیل مانگتا ہے، صرف ضروری باتیں لکھ رہا ہوں،  مولانا مدنی کے  مکتوبات  جو مکتوبات شیخ السلام کے نام سے مشہور ہیں  ان میں اس بات کا تذکرہ  موجود ہے کہ  1936 کے صوبائی الیکشن میں  جمعیت علمائے ہند   کی مسلم لیگ   کے ساتھ اتحاد کی بات چلی تھی اور جمعیت نے شرط یہ رکھی تھی کہ مسلم لیگ سے انگریز پرست، رجعت پسند اور خوشامدی ٹول کو نکالا جائے' قائداعظم  نے  وعدہ کیا  تھا کہ وہ  سرکارپرست ٹولے کو لیگ سے علیحدہ نہ کرسکے  تو خود لیگ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔۔ ۔ یہ کبھی ممکن نہ ہوسکا۔
غرض  ان لوگوں کو پاکستان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ یہ سب باتیں سیاسی اختلاف کی حد تک تھیں جو کسی کو بھی ہوسکتا ہے ،  انکاموقف یہ تھا کہ انگریز کے زیر سایہ ہونے والی تقسیم کم ازکم مسلمانوں کے لیے کبھی فاعدہ مند نہیں ہوسکتی  ۔ !! پاکستان  بننے کے بعد ان میں سے کسی نے بھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی بلکہ مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا ابو الکلام آزاد  رحمہ اللہ  نے پاکستان بننے کے بعد جو کچھ کہا اور جیسی دعائیں دیں اور متعلقین کو جس طرح اس فرض کی یاد دہانی  کرائی وہ ان کے ہم عصر لوگوں کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ اس کا  ذکر چھیڑ دیا  تو مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔ صرف اتنا لکھنا  کافی  سمجھتا ہوں کہ  حضرت مدنی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے  کہ " پاکستان کے قیام کے بعد اب اس کا حکم مسجد کا سا ہے، اس کے بنانے میں اختلاف ہوسکتا ہے، بننے کے بعد اسکی تقدیس فرض ہے" مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ "پاکستان وجود میں آگیا ہے تو اب اسے باقی رکھنا چاہیے، اس کا بگڑ جانا  سارے عالم اسلام کے لیے شکست کے برابر ہوگا"۔
(بحث ونظر  نوائے وقت۔ 23 مارچ 1973)
مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ بھی چونکہ انہی کی جماعت اور  تحریک کے ایک فرد تھے ، اس لیے انہوں نے بھی پاکستان بننے کے بعد یہاں رہ کر اس کی بہتری کے لیے مسلم لیگیوں سے بڑھ کر کوششیں کیں اور مرتے دم تک  اسلام اور پاکستان کا رشتہ جوڑے رکھنے کے لیے کوشاں رہے۔ مفتی صاحب  پر یہ الزام کہ   "  شکر ہے  ہم پاکستان کے گناہ میں شریک نہیں تھے 'کس حد تک درست ہے؟  اس کا جواب خود مفتی صاحب نے ہفتہ روزہ افریشیا  کو دیے گئے انٹرویو  میں دیا تھا :
" "جو بات یہ لوگ کہتے ہوئے نہیں شرماتے میں سنتے ہوئے بھی شرماتا ہوں، اس بات کی حقیقت اس قدر ہے کہ محاذ کی میٹنگ میں  بعض دوست آپس میں باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ کو کوس رہے تھے، چوہدری ظہور الہی بھی وہاں موجود تھے ، بات خالصتا مذاق میں ہورہی تھی، خود مسلم  لیگ کے دوست کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ ہماری ماں تھی لیکن یہ ماں بھی بدکار ہوگئی اور اس کے گناہوں کی ہوئی حد نہیں۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا  کہ خدا کا شکر ہے ہم اس گناہ میں شریک نہیں تھے، یہ صرف مذاق کی بات تھی۔"
 (ہفت روزہ ترجمان اسلام" مفتی محمود نمبر) (4 جون1973، تحفظ ختم نبوت کانفرس لاہور)
مفتی صاحب پر سوشلزم کی حمایت کی حمایت بھی محض ایک  الزام تھا۔ یہ محض مفتی صاحب کی سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف  کرنے کی وجہ سے سرمایہ داروں نے گھڑا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ   اس دور میں جب ان دونوں (سوشلرزم اور کیپٹل ازم )کا اختلاف پاکستان میں عروج پر تھا، مولانا  نے کپیٹل ازم اور سوشلزم  کے درمیان ایک معتدل موقف اپنایا تھا، وہ سرمایہ داری  اور ان بائیس خاندانوں کو پاکستان کی غربت و افلاس کی اصل وجہ سمجھتے تھے۔ اس دور میں جب سرمایہ داروں کے تحفظ کی تحریک چلی تھی مولانا نے ملک کے پسے ہوئے طبقہ غریبوں، مزدوروں کے حقوق کی آواز اٹھائی تھی اور اسکو اسلامی نقطہ نظر سے پیش کیا تھا،      تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہی آواز سوشلسٹ لوگوں کی بھی تھی، اس  کا فاعدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ داروں نے آپ کو سوشلزم کا حامی مشہور کردیا اور پھر اپنے حامی علما کے ذریعے  آپ پر کفر کے فتوے بھی   لگوائے گئے۔ حالانکہ مفتی صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ وہ سوشلزم کو بھی کفر کا ہی نظام کہتے تھے، ایک انٹرویو میں  فرمایا۔
"اگر کوئی  شخص  مارکس اور لینن کے نظریہ کو اسلامی سوشلزم تعبیر کرتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کی تکذیب کرتا ہے"۔ میں مفتی صاحب کے کئی  بیانات حوالے کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں، فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں، کسی کو مزید تفصیل درکار ہوتو مہیا کرسکتا ہوں۔۔۔ مفتی صاحب  کا پی ٹی وی کو دیا گئے انٹرویو كا ایک کلپ ملاحظہ فرمائیں۔۔




مکمل تحریر >>