منگل، 16 دسمبر، 2014

جنید جمشید اور قانون توہین رسالت

جنید جمشید   اک سابقہ مشہور سنگر ۔ ۔  سترہ سال پہلے  محض اللہ کی رضا کے لیے  میوزک کی دنیا کو چھوڑ کر ایک جائز کاروبار شروع کیا  ۔۔۔۔۔ ایک تبلیغی تحریک سے وابستگی  ۔ ۔ ۔۔ ان لوگوں کے لیے ایک زندہ جواب جو یہ کہتے تھے کہ غریبوں کو کچھ کھانے کے لیے نہیں ملتا اس لیے مولوی بن جاتے ہیں، ان کو یہ چمک دمک، عیاشیاں دکھاؤ پھر  دیکھنا  یہ کیسے ملانے بنتے ہیں ۔ !!!
دوسال پہلے  ایک جگہ اپنے ایک تبلیغی بیان میں عورت کی فطری کمزوریوں پر بات کرتے ہوئے وہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق  اس صحیح حدیث کی وضاحت ایسے بناوٹی  انداز میں  کر گیا    جس سے حضرت عائشہ کی توہین کا پہلو نکلتا نظر آتا تھا۔  یہ زبانی لغزش تھی جس کا اندازہ نا اسے  ہوا اور نہ وہاں کسی سننے والے کو ہوا ۔
دو سال بعد ایک پلان کے تحت اسکی  اس ویڈیو کے اس مخصوص کلپ کو  سوشل میڈیا پر گستاخی کے تعارف سے لایا گیا اور   اسے ایک گستاخ کے طور پر مشہور کردیا گیا۔ ۔ بیان میں یہ واضح تھا کہ جنید نے یہ الفاظ   جان بوجھ کر یا  کسی غلط عقیدے  کی وجہ   سے نہیں  کہے  بلکہ یہ  اسکی سبقت لسانی اور زبانی لغز ش تھی ۔  اس لیے  جیسے ہی اسے اسکی غلطی پر متنبع کیا گیا   اس نے بغیر کسی حیل و حجت کے  معافی مانگ لی۔لیکن اس سب کے باوجود    مخالف  فرقے  اور سوچ کے لوگوں نے اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا ۔
قانون توہین رسالت

  اس دوران اس قانون توہین رسالت کے متعلق  سوشل میڈیا پر ایک کنفیوز کرنے والی بحث بھی دیکھی ، کنفیوزین یہ تھی کہ کیا  ایک کافر اور مسلمان کی گستاخی میں کوئی فرق ہے اور کیا دونوں کے متعلق شریعت کا  ایک  جیسا  حکم ہے ؟
 رسالت  کے قانون کو دیکھا جائے تو اسکے دو   حصے   ہیں ۔ ایک  کافر کے متعلق جو  غصہ، تعصب ، دشمنی اسلام  میں جان بوجھ کر   شان رسالت میں گستاخی کرے ۔
 دوسرا کوئی مسلمان جو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و گستاخی کرے۔
اول الذکر کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ  اس کی گستاخی اگر ثابت ہوجائے  تو اس کی کوئی معافی نہیں  ، تعزیرات پاکستان میں بھی اس کی سزا موت  لکھی گئی ہے اور یہ سزا دینا قاضی  کا کام ہے  ۔
مسلمان کی گستاخی کے دو پہلو ہیں ۔
1.    بندہ صاحب ایمان اور عقیدہ  ہو لیکن زوال عقل یا زوال اختیار (نزع کی حالت ،  کبر سنی، سبقت لسانی، جہالت ، غلبہ خوشی، فرط محبت   میں  ) بے اختیار   زبان سے کفریہ الفاظ نکل جائیں یا  قصد کچھ اور ہو لیکن زبان سے کچھ اور نکل جائے ۔ پھر  ہوش میں آنے پر یا غلطی پر متنبع ہونے کے بعد توبہ استغفار کر لے۔
2.    دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ   بدعقیدہ ہو  اور جان بوجھ  کر اور پورے ہوش و حواس میں شان رسالت میں غلط کلمات کہے ۔
ان دونوں کے احکامات الگ ہیں ۔
 پہلے شخص کے متعلق ہر مسلک    کے علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص نہ مرتد ہوا اور نا اس کے لیے تجدید ایمان اور تجدید  نکاح  ضروری  ہے۔۔۔!!  فقہائے احناف کی رائے دیکھنے کے لیے  ملاحظہ فرمائیے  فتاوی قاضی خان  3/576-77،    فتاوی ھندیہ  2/276، فتاوی الشامیہ  4/239
 دوسری قسم کے  شخص کے متعلق علماء کی رائے مختلف ہے بعض  اس پر عام مرتد کا حکم لگاتے ہیں  ۔ انکی رائے میں  ایسا شخص مرتد ہوگیا ہے ،  اس پر اسلام پیش کیا جائے  اگروہ تسلیم کرلے اور مکمل شرائط کے ساتھ توبہ کرلے    تو  اسے  چھوڑ دیا جائے اگر وہ انکار کرے   تواسکو قتل کردیا جائے۔ فقہ حنفی کے مشہور  اِمام ابویوسف ”کتاب الخراج“ میں لکھتے ہیں”جس مسلمان نے رسول اللہ اکی توہین کی، یا آپ  کی کسی بات کو جھٹلایا، یا آپ میں کوئی عیب نکالا یا آپ کی تنقیص کی، وہ کافر ومرتد ہوگیا اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا، پھر اگر وہ اپنے اس کفر سے توبہ (کرکے اسلام ونکاح کی تجدید) کرلے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔ “(کتاب الخراج ص:۱۹۷، ۱۹۸)
کچھ  علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص کا حکم عام مرتد کا نہیں اس کے گناہ کی معافی اسکے قتل کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے۔
کیا شریعت کی نظر میں  جنیدجمشید واقعی گستاخ  رسول ہے ؟
جنید جمشید کی غلطی کو دیکھا جاءے تو  یہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق  نہیں بلکہ ام المومنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی بھی بہت بڑا گناہ ہے لیکن  اس پر وہ حد لاگو نہیں ہوتی جو گستاخ رسول پر ہوتی ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگانے والوں  میں منافقین کے علاوہ چند صحابہ  کا بھی نام تھا ، انکی معافی و توبہ  کو قبول کیا گیا   ۔ نا کسی منافق کو گستاخ رسول والی سزا دی گئی اور نا ان صحابہ  کو کسی نے مرتد  کہا ۔ بلکہ قرآن میں سورۃ النور میں ان  میں سے ایک صحابی  کا ذکر بھی آتا ہے  جنکی اس واقعہ کے  بعد جب  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مالی مدد کرنا چھوڑ دی  تو اللہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو   ان صحابی  کو معاف کرنے اور امداد جاری رکھنے کا  حکم دیا۔ اس مسئلے کی وضاحت ایک مشہور مقرر نعمان علی خان نے بھی کی ،انکی ویڈیو یہاں ملاحظہ فرمائیے۔
یہ بات تو واضح ہے لیکن بالفرض   اگر جنید جمشید  کو گستاخ رسول بھی قرار دے  دیا جائے تو  وہ واضح پہلی صورت  کا کیس ہے کہ وہ مرتد نہیں ۔ اسکا وہی عقیدہ ہے جو   اصحاب و امہات رضوان اللہ  کے بارے میں اہل سنت والجماعت  کا  عقیدہ ہے۔ اس ویڈیو سے پہلے اس نے کبھی   کوئی گستاخی کی نا اس کے بعد اب تک جبکہ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔
ردعمل میں سامنے آنے والے  دو قسم کے لوگ :۔
پاکستان میں قانون توہین رسالت کے خلاف سالوں سے کوششیں جاری  ہیں ،  اس کے لیے جہاں  حکومتی عہدیداروں کو  استعمال کیا گیا ،  این جی  اوز اور  میڈیا کے ذریعے  بھی اس کے خلاف باقائدہ مہم  بھی چلائی گئی  اور بہانے بہانے سے چلائی  جارہی ہے۔  پہلے سلمان تاثیر کا کیس پھرکوٹ  رادھا کشن کا واقعہ اور اب   جنید جمشید کی دو سال پرانی ویڈیو کو لے کر    قانون توہین رسالت کے خلاف ایک پورے پلین کے تحت طوفان کھڑا کرنا      اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ایک پوری لابی اس کام میں مصروف ہے ۔ یہ لوگ پہلے    عوامی جذبات کو ابھارتے ہیں  پھر  عوام میں سے کسی کے  غلط ردعمل پر قصور وار قانون  توہین رسالت کو قرار  دے دیتے ۔  حالانکہ  جس طرح عدالتی قانون کی موجودگی میں کسی کا قانون کو ہاتھ میں  لینا  پاکستانی لاء  کا قصور نہیں   ٹھہرایا جاتا اسی طرح    کسی کا  اپنے طور پر کسی کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے کر قتل کرنے کا ملبہ بھی قانون توہین  پر نہیں گرایا جاسکتا ۔ یہ بات بھی بعید نہیں کہ جنید جمشید کو گستاخ ٹھہرانے میں جن لوگوں کو استعما ل کیا گیا وہی ساون و شبنم میسح جیسے واقعے میں ملوث ہوں۔ !!
جنید جمشید کے اس کیس   سے ایک فائدہ بھی ہوا کہ اس  بہانے معاشرے میں موجود مذہبی اور غیر مذہبی فتنہ باز قوتیں  پوری طرح   بے نقاب ہوگئیں  ۔
مذہبی طبقہ :۔
مذہبی طبقے میں  چند لوگ ایسے ہیں جو اپنی جہالت، مذہب فروشی    کی وجہ سے مشہور ہیں   یہی وہ لوگ  ہیں جواکثر مذہبی طبقے کی بدنامی کا باعث بنتے  رہتے  ہیں اور ان کے مذہب کے نام پر کے گئے فراڈ کے  طعنے ہر  دیندار آدمی کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ ان میں بریلوی مسلک  سے تعلق رکھنے والی   کراچی  کی ایک نام نہاد مذہبی جماعت بھی ہے' جسکا شمار کراچی کی بڑی بھتہ مافیا تنظیموں میں بھی ہوتا ہے اور آئے روز کراچی کی مقامی اخباروں میں اسکے  کارکنوں کی قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کی خبریں چھپتے رہتی ہیں  ہیں۔
 اس جماعت کے لوگوں  نے اپنے فرقہ  وارانہ تعصب  میں ناصرف کراچی میں جنید جمشید  اور اسکے مسلک کے خلاف فرقہ وارنہ نعروں اور قتل کے فتووں پر مشتمل وال چاکنگ کی بلکہ اسکے خلاف  تھانے میں خلاف   ایف آئی آر بھی  کٹوادی۔ جنید جمشید کے خلاف  اصل طوفان انہی نے برپا کیا ۔ انکے کئی  پیشواؤں   کی سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی  دیکھی جاسکتی ہیں۔ میڈیا پر سب سے ذیادہ شور انکے  جس بندے نے کیا اس میں ایک انکے پیر مظفر علی شاہ  صاحب ہیں ۔ انکی یہ چھوٹی سی ویڈیو دیکھیے اور سر دھنیے۔،
  صاحب فرماتے ہیں، جنید جمشید ایک مراثی کی اولاد ہے، اسے کس نے حق دیا کہ یہ نعتیں پڑھے،  گے فرماتے ہیں  محمد یوسف پہلے عیسائی تھا پھر مرتد هوگیا۔۔"
 جب  نفرت پہلے سے  اس درجے کی ہے  پھر تو جنید کی گستاخی  کرنا نہ کرنا برابر ہے ،  یہ ویڈیو  تو ایک بہانہ  ہے ، جنید اور محمد یوسف تو  پہلے ہی انکے نزدیک مرتد اور گستاخ ہیں کیونکہ وہ انکے مسلک کے نہیں ہیں ۔۔  ایک اور  زهر اگلنے والی مشین کی ویڈیو  دیکھیے۔ 
صاحب   جنید جمشید کو کافر مطلق کہہ رہے اور اس کے لیے  "سر تن سے جدا “  کے فتوے دے  رہے  ہیں۔ ان کے علاوہ  ایک اور مشہور مداری بھی ہیں جو عموما  رمضان میں شو لگاتے ہیں انکی ویڈیو یہاں دیکھی جاسکتی ہیں فرماتے ہیں جو عاءشہ کا نہ ہوا فاحشہ سے ہوا ۔۔  موصوف کو خیال ہی  نہیں رہا اور اپنے ہی بھائیوں، رشتہ داروں کو گالی دے بیٹھے ۔
سیکولر اور لبرل :۔
اس فرقے کے بلاوجہ کے شور  ، گستاخی اور  قتل کے فتوؤں کا  بھرپورفائدہ دہریوں سیکولروں نے  اٹھایا، یہ وہ منافق  گروہ  ہے  جو پاکستان اور اسلام   کے متعلق ہر  مثبت بات میں سے بھی  منفی پہلو  تلاش کرتا رہتا ہے ۔ اس بہانے  اسے   اسلام اور علماء کو کوسنے کا بھرپور موقع ملا ۔عام حالات میں یہ  لوگ کسی مستند  اور محقق عالم   کو بھی ویلیو نہیں دیتے بلکہ سوشل میڈیا پر اسکا بھی  مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں ' اس مسئلے میں  انہوں نے اس  ایک جاہل فرقہ پرست   گروہ  کی طرف سے دیے گئے گستاخی کے  فتوے کو بھی سند اسلام بنایا  اور شروع ہوگئے اپنا چورن بیچنے۔
ملحدین نے جنید جمشید کے کیس کو اٹھا کے سب سے ذیادہ شور جس کے لیے کیا وہ آسیہ مسیح اور سلمان تاثیر کا کیس ہے ۔ آسیہ کے کیس کی حقیقت یہ ہے کہ عید پر کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کو دینا حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے انتہائی غلط اور گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے ، بعد میں اس نے اپنی اس گستاخی کو تسلیم کیا، اور ایڈیشنل سیشن جج نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے آسیہ مسیح کو سزائے موت کی سزا سنادی۔ اس سزا کے بعد وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کوبے گناہ قرار دیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کو بھی ظالمانہ قرار دے دیا۔کچھ دنوں بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی شیخوپورہ جیل پہنچ گئے۔ اُنہوں نے بھی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوا دیں گے۔بعد میں  وہ قانون توہین رسالت کے خلاف باقاعدہ کوششیں کرتے اور اسکے لیے غلط الفاظ کا استعمال بھی  کرتے نظر آئے۔
یہ انتہائی غلط طریقہ تھا جو شہبازبھٹی اور سلمان تاثیر نے اختیار کیا ، اگر یہ اپنی دانست میں آسیہ بی بی کو بے گناہ سمجھتے ہیں تو ان کے پاس مناسب راستہ موجود تھاکہ یہ کسی اچھے وکیل کا انتظام کرتے اور آسیہ بی بی کے خلاف سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیتے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائی کورٹ نے توہین رسالت کے ملزمان کو رہا کردیا، کیونکہ ان پر الزام ثابت نہ ہوسکا۔ انہوں نے ایسا کچھ کرنے کے بجائے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے ناصرف آسیہ بی بی کو بچانے بلکہ  ۲۹۵سی کو ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ دو سو پچانوے سی جس کے تحت توہین رسالت کی سزا موت پر نہ صرف بریلوی، دیوبندی، اہل تشیع اور اہل حدیث کے جید فقہا اور علماء کا اتفاق ہے بلکہ یہ قانون پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بھی منظور شدہ ہے۔ ۲ جون ۱۹۹۲ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے یہ قرارداد منظور ہوئی کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہئے۔ اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت حکومت کو حکم دے چکی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید کی بجائے موت مقرر کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اس معاملے پر بھرپور بحث ہوئی جس کے بعد ۲۹۵سی کی منظوری ہوئی۔
بحرحال قانون توہین رسالت کے خلاف  سلمان و شہباز کی   ان کوششوں کا بالاخر انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنی جان سے گئے ۔سلمان تاثیر کے کیس کو دیکھا جائے تو وہ گستاخ رسول ہونے  سے ذیادہ قانون توہین رسالت کے خلاف اپنی کوششوں کی وجہ سے نشانہ بنتے نظر آتے ہیں ۔ یہی حال اقلیتی وزیر شہباز بھٹی کا ہے۔
دوسرا بڑا کیس جس پر جنید جمشید کے بہانے   شور کیا گیا وہ شبنم اور ساون مسیح کا تھا جنہیں چند ماہ پہلے ایک وڈیرے نے چند مقامی لوگوں کو ملا کر گستاخی رسول کے الزام میں جلایا تھا ۔ ملحدین نے اس بہانے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ سب اسی قانون کی وجہ سے ہوا ،یہ جملے پڑھنے کو ملے کہ یہ دونوں اس قانون کی بھینٹ چڑھ گئے جبکہ جنید جمشید آزاد پھر رہا ہے ۔  یہ ہے اس قانون کی حقیقت اور ان مولویوں کی منافقت جو اسکا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔۔
غور کیا جائے تو یہ اعتراضات بالکل بچگانہ ہیں کیونکہ ان دونوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس بستی کے لوگوں کا ذاتی فعل تھا جس کی مذمت خو د ہر مکتبہ فکر کے علماء نے کی تھی ۔ مزید نہ مستند علماء میں سے کسی نے اپنے طور پر کسی کو گستاخ کہہ کر قتل کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور نہ قانون میں ایسی کوئی بات موجود ہے بلکہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کے لیے سخت سزا قانون میں موجود ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اس فعل کا ذمہ دار علماء کو یا قانون کو ٹھہرانا اور پھر اسے جنید جمشید کے کیس کے ساتھ ملانا بالکل غلط ہے ۔
شائستہ واحدی کا کیس بھی زیربحث آیا ۔ شائستہ واحدی نے اپنےایک  پروگرام میں قوالی  کے دوران وینا ملک کو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کے شوہر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے روپ میں پیش کیا۔ اس کی معافی  ہوسکتی تھی  لیکن اس سے پہلے یہ اپنے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسلامی اقدار کے خلاف  اوٹ پٹنگ حرکتیں کرتی  رہی تھی اور  جیو چینل کا بھی اس حوالے سے پہلے سے  ریکارڈ خراب تھا اس لیے شائستہ واحدی اور جیو چینل کے خلاف احتجاج دیکھنے میں آئے لیکن شائستہ پر کسی بھی عالم نے فتویٰ قتل وغیرہ نہیں لگایا تھا ۔  جیو کی طرف سے فوجی سربراہان اور اداروں کے خلاف چلائی گئی میڈیا مہم بھی اس ردعمل  کی  ایک وجہ تھی اسی وجہ سے  انکو اب تک مختلف کیسز بشمول توہین رسالت کیس میں سمن بھیجے جارہے ہیں
نوٹ : راقم کا جنید جمشید کے ہر فعل سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

کیا ہم انقلاب کے مخالف ہیں...؟؟

انقلاب،   ترقی، شعور کی بیداری کی جدوجہد،  ظلم و جبر کے خلاف آواز ،  اپنا حق لینے کے لیے کوشش اور ایسی کوشش کرنے والوں کا حصہ بننا،  انکا ساتھ دینا ، انکی جانی و مالی مدد کرنا  ایسا احسن کام ہے جسکی کوئی عام آدمی مخالفت نہیں کرسکتا ہے، دینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اِک جہاد ہے.  ایسی کوشش کرنے والوں کو تاریخ نے بھی یاد رکھا اور وہ لوگوں کے دلوں میں بھی زندہ ہیں۔. 
قوموں کی ترقی،  اٹھان،  غلبہ، قوت ایسے ہی لوگوں کی مرہون منت رہی ، یہ لوگ عام لوگوں کی طرح ہی تھے لیکن انکی سوچ، ویژن، مقصد عام لوگوں سے مختلف تھا اس لیے   یہ جس زمانے اور قوم میں آئے سب سے پہلے انکی اپنی قوم نے  ہی انکی مخالفت کی، ان کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا،  ان کا مذاق اڑایا، انکو پاگل دیوانہ کہا، بعضوں کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن کوئی چیز انکو انکے مقصد سے نا ہٹا سکی، بلکہ انکے خلوص نیک مقصد، صاف بات، کهرے پن، قربانی نے آہستہ آہستہ انکے قدم جمانے شروع کر دیے  انکی آواز پھیلنا شروع ہوگئی، یہ اک فرد سے جماعت اور معاشرے میں تبدیل ہوگئے، امیروں کو اپنے کاروبار عیاشیوں سے فرصت کہاں تھی اس لیے ہر دور میں انکی تحریک کو غریبوں نے ہی سہارا دیا،  یہ غریبوں کی ہی آواز بنے. یہ خود بھی اپنا مال و دولت عزت شرف سرداری نسبت (اگر کوئی تھی )  اپنے مقصد پر قربان کر چکے تھے اس لیے اس طبقے کو بھی ان سے کوئی فرق محسوس ہوا نہ ہی کوئی تکلیف. یہ جب ان میں بیٹھے ہوتے تو کوئی انکو پہچان نہ سکتا تھا.
انکا نعرہ  ہی ایساتھا کہ چھوٹے سے چھوٹے ظالم کو بھی اپنا وجود اور کاروبار خطرے میں محسوس ہوا، پہلے انہیں  مال و دولت کی پیشکش کی گئی، پھر عہدے سرداری کا لالچ دیا گیا یہ چاہتے تو اس طاقت، خوشحالی، مال و دولت  اور عہدے کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے تھے لیکن ان چیزوں سے بہلائے نہیں جاسکے،  انکی تو پہلی آواز ہی اس ظالمانہ نظام اور اس کے رکھوالوں  کے خلاف تھی ان کا سہارا کیسے لے سکتے تھے، یہ کسی شارٹ کٹ  انقلاب سے واقف تھے نا کسی عارضی تبدیلی کی قائل. انکے نزدیک انقلاب محض حکومتی تبدیلی کا نام نہیں تھا بلکہ یہ  تبدیلی انسانوں کے  اخلاق و اعمال کی تبدیلی کی تھی، یہ انقلاب کے فطری راستے  پر چلے جو  دشواریوں اور صعوبتوں کا راستہ تھا لیکن اس سے آنے والی تبدیلی بھی پائیدار تھی ۔ انہوں نے جان بوجھ کر  مشکلات اور آزمائشوں کی راہ اختیار کی،  پهر حالات کی تجربہ گاہوں میں آزمائے بھی گئے، ظلم کی چکیوں میں سب سے پہلے انکے قائد کو پیسا گیا، انکے خلاف سکیمیں بنائی گئی اور انکی اپنی زمین ان پر تنگ کر دی گئی لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری،  دیار غیر میں بھی  اپنے مقصد سے نہیں ہٹے. قوت طاقت مال و دولت ملک جگہ جائیداد جو کچھ انکے پاس تھا وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہاں انکے پاس دینے کے لیے صرف اپنی جان تھی اور دکھانے اور پیش کرنے کے لیے اپنا کردار. لمبی چوڑی تقریر کرنے کی نہ کبھی انہیں ضرورت پڑی نہ انہوں نے کی. انکی اس عزیمت و قربانی کے نتیجے میں جو تبدیلی اور انقلاب آیا اس کے آثارآج صدیوں بعد بھی محسوس ہورہے ہیں۔.
ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو اپنی زندگی میں اپنی محنتوں کے ثمرات نہیں دیکھ سکے لیکن انکی محنتیں خون، جدوجہد رائیگاں نہیں گئی،  اپنی قوم کو ایک شعور دے گئے، بعد کے آنے والوں، کوشش کرنے والوں کا کام آسان کر گئے، محنت کرنے والوں کو طریقہ بتا گئے کہ تبدیلی اور انقلاب کی محنت کیسے کی جاتی ہے۔.
ہم اور ہماری قوم انقلاب کے صرف اسی مطلب اور اسی طریق کو جانتے ہیں اور اسی سے مانوس ہیں.ہم  ایسی کسی تحریک  کو انقلابی تحریک تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو سرمایہ داریت کی کوکه سے نکلے، جس کی بنیادیں عصبیت و نفرت کی ہوں، جس کے لیڈر عورت کو سرعام نچوائیں، جس کے سپورٹر ظالم بدکار چوروں کے سردار ہوں، دھوکے باز لٹیرے ہوں۔سردار وڈیرے جن کے وزیر، مشیر اور ساتھی ہوں، وہ جو محلات میں رہیں اور بات غریب کی کریں. جن کے پاس پیش کرنے کے لیے صرف دوسروں کی خامیاں ہوں، وہی فرسودہ بہانے اور افسانے  گهڑیں.....ہم ایسے کسی شخص کو انقلابی ماننے کو تیار نہیں، چاہے یہ عمرانی نام کے ہوں یا شریفی، کهلے ہوئے منافق ہوں یا چھپے ہوئے، دنیاوی رنگ میں ہوں یا دینی، یہ انقلابی نہیں دھوکے باز ہیں، فراڈی لٹیرے ہیں ، یہ وارداتی ہیں جو اپنی کرسی اقتدار کے لیے سور کا گوشت بکرے کے نام سے بیچنے لائے ہیں، جو شراب کو آب زمزم کی بوتلوں میں پیش کررہےہیں، جو عوام کا اعتماد لینے کے لیے اپنے چہرے پر انقلاب کا نقاب چڑھا کر آئے ہیں،
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
 ہم اتنے بچے اور بهولے نہیں  ہیں کہ انہیں صرف اس وجہ سے  اپنا چارہ گر سمجھ بیٹھیں کہ یہ نعرہ انقلاب کا لگارہے. ہمارے لیے انقلابی نعرے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، ہم  انقلاب کے آنے کے طریقہ کار اور انقلابیوں کی صفات سے واقف ہیں. ہماری تاریخ انقلابیوں کی ہی تاریخ ہے، ہمیں خوشنما نعرے دے کر، اچھے خواب دکھلا کر،بہترین تقریریں کرکے بہلایا نہیں جاسکتا۔..

مکمل تحریر >>

جمعہ، 1 اگست، 2014

ایسا کیوں ہے..... ؟

اک زمانہ تھا  لوگ کہیں سیر سپاٹے کے لیے جاتے تو  اک کیمرہ بھی ساتھ لے جاتے، اس میں اک ایکسرا فلم بھروالیتے جس پر پچاس ساٹھ تصاویر کھینچنا ممکن ہوجاتیں .  کوئی خوبصورت منظر نظر آیا وہاں تصویر بنالی. چڑیا گھر گئے تو بندروں،  شیروں کے پنجرے کے پاس کھڑے ہوکر تصاویر بنالی جاتیں. یہ تصاویر واپس آکر فوٹو سٹوڈیو والے سے صاف کروائی جاتیں اور پھر سارے دیکھتے ، گھر میں کوئی مہمان آتا اسے بھی دکھائی جاتیں..
 اب جدید دور ہے اب  اتنا بھاری کیمرے ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے اور نا اس میں فلم ڈلوانے کی نا اب اس جیسی تفریح رہی ہے . فلمی اداکاروں کے پتلوں، بندروں کے پنجرے کے پاس کھڑے ہوکر تصاویر تو اب تھرڈ کلاسیے، غریب غرباء نکلواتے ہیں.  جو  برگر فیملیوں والے سیکولر ٹائپ لوگ ہیں وہ  گھومنے پھرنے سوئٹزرلینڈ وغیرہ جاتے ہیں اور وہاں تصویریں نکالتے ہیں اور  'اللہ والے' انہی پیسوں سے حج عمرے پہ چلے جاتے اور پھر روزہ رسول کے پاس اور خانہ کعبہ کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بناتے ہیں اور ہر اینگل سے بناتے ہیں..یہ تصاویر بھی مقدس ہوتی ہیں ان کا وہ برگری کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں ؟ کہاں  کافروں کے ملک میں کسی برف کے ٹیلے کے پاس کھڑے ہوکر بنائی گئی تصویر اور کہاں وہ تصویر جو خانہ کعبہ  اور روزہ رسول جیسے مقدس مقام کے پاس بنائی گئی ہو.. !! 
مسلمان اس تصویر کا مقام جانتے ہیں اس لیے جب بھی  وہاں جاتے ہیں خوب تصویریں بناتے ہیں. کچھ دیوانے تو ایسے ہیں کہ کسی  اور کام میں بالکل ٹائم ضائع نہیں کرتے ، ہر وقت اور ہر جگہ کی بناتے ہیں.  اگر انکی تصاویر کو آپس میں ترتیب سے جوڑا کر تیز فارورڈ کیا جائے تو پورے سفر کی مووی دیکھنے کی سعادت بھی نصیب ہو سکتی ہے. 
ایسا نہیں ہے کہ انہیں  سوئٹزرلینڈ وغیرہ پسند نہیں ہیں بلکہ  انکا  رزق حلال ہے اور یہ اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانا جانتے ہیں. کوئی متعصب ہی داد نہ دے گا اس فہم کی کہ یہ اک ٹکٹ میں دو کام کرتے  ہیں، تمام لوازمات کے ساتھ سیر کا مزہ بھی لے لیا اور ثواب بھی پکا اور گریبی میں مذہبی ،حاجی وغیرہ ہونے کا لقب بھی مل گیا اسکے علاوہ جو تصاویر نکلوائیں انکا ثواب علیحدہ.   اس مہنگائی کے دور میں ہر کوئی حج عمرے پر جا نہیں سکتا. یہی تصاویر ہی ہیں جو عاشقوں کی پیاس بجھانے میں استعمال ہوتی ہیں جب حرم سے فیس بک پر اپ لوڈ ہوتی ہیں تو نورانیت بھی انکے سات اپ لوڈ ہوجاتی ہے ، اگرتھوڑی سی مشہور شخصیت کی ہوں تو پھر تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے،   صدقہ جاریہ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں  انکو لائیک کرنے پر اک نیکی اور ہر شئیر پر دو  نیکیاں ملتی ہیں.  ایسی نفع والی چیز  پر سارا حج عمرہ قربان. . .نمازیں اور درود تو گھر میں بھی پڑھے جاسکتے ہیں لیکن گھر میں حرم اور مسجد نبوی کے پاس کھڑے  تصاویر کیسے بنائیں.. . ?
اتنا کرایہ لگا کر آئے،  کون جانے ہے کہ یہاں آنے کے لیے پیسے کیسے جمع ہوئے، بیوی،  بچوں اور اپنی ضروریات کو کتنا محدود کیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے یہاں آکر دو کپڑے اوڑھے بیٹھے ہیں. کیا یہ کم عبادت ہے ؟  اگر ایسا کچھ نہ کیا جائے ،یکسو ہو کر صرف عبادت ہی کر لی جائے، آو زاریاں اور رو رو کر معافیاں  مانگ لی جائیں تو کون بندہ دیکھے ہے؟  کس کو کیسے پتا چلے گا کہ ہم کہاں گئے تھے اور وہاں کیسی مقدس جگہوں پر جانے کی ہمیں سعادت نصیب ہوئی تھی؟ ویسے بھی یہ کوئی غلط کام نہیں ، دین کی اتنی فہم تو ہم بھی رکھتے ہیں، پرانے قدامت پسند مولویوں کو پتا نہیں اس میں کیا برائی نظر آئی تھی آج کے علماء نے اس کی اجازت دی ہوئی ہے.  ہماری کئی مولویوں سے  دوستی ہے انہی سے یہ مسائل سنے ہیں . اس سفر میں بھی کچھ مسائل پیش آئے، واپس جاکرانکے بارے میں بھی راہنمائی لینے کا ارادہ ہے. اک بات جو بہت محسوس کی پوچھنی ہے  وہ یہ کہ بڑے بتاتے تھے کہ وہاں روضہ رسول پر اور حرم کے سامنے   تو حالت ہی بدل جاتی ہے، بندہ دیوانہ ہو جاتا ہے،  بے ساختہ آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو جاتے ہیں.... ہمیں تو ایسا کچھ بھی محسوس نی ہوا نا  ہی وہاں کسی ایسے پر نظر پڑی....معلوم نہیں  ایسا کیوں ہے..... ؟؟!!!.
مکمل تحریر >>

جمعرات، 31 جولائی، 2014

درس قرآن وحدیث کیسے دیں ۔۔۔؟

قرآن و حدیث کی واضح نصوص اس کی دلیل ہیں اور چودہ صدیوں پر پھیلی اسلامی تاریخ کا ہر ہر ورق بھی اس کا زندہ ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی کا ایک اہم سبب ” قرآن کریم“ سے دوری، بے رغبتی، غفلت اور روگردانی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان  بھی واضح پیغام اور کھلی تنبیہ ہے  کہ : ” ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“ بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب قرآن کے ذریعہ بہت سی اقوام کو سر بلند فرماتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں.
درس قرآن کی روایت شروع سے مسلمانوں میں عام رہی ہےاور ہر دور میں علماء نے عوام کی تربیت اور تعلیم کے لیے اسکے حلقے لگائے رکھے، ہمارے آج کے علماء بھی اسی انداز میں یہ کام کررہے ہیں. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   ان علماء اور ائمہ مساجد کے پاس ہر سہولت موجود ہے،  علم بھی ہے اور سننے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ بھی لیکن پھر بھی ان جیسی رونق  اور اثر کیوں نہیں ۔؟. ایک جواب یہ دیا جاسکتا ہے  اخلاص، درد اور کڑھن کی کمی ہے. بالکل یہ موجود ہے.  لیکن بعض جگہ اخلاص گوکہ ان اسلاف کے درجے کا نہیں' کے باوجود بھی فاعدہ نظر نہیں آیا. ایک بڑی کمی جو عام نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ جتنا علم انکے پاس موجود ہوتا ہے یہ  اس سے بھرپور فاعدہ اٹھانہیں سکتے، اسکو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتے کہ  عوام تک  صحیح انداز میں بات پہنچ جائے. اس طرف بالکل  توجہ نہیں کی جاتی کہ  مجمع کا علمی لیول اور انکی ضرورت کیاہے،    وہ جو ٹائم نکال کر سننے بیٹھے ہیں اس ٹائم کو کس طرح بھرپور استعمال کیا جائےاور کس انداز میں استعمال کیا جائے کہ درس قرآن سننے والوں میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ قرآن کے پیغام کو سمجھنا بھی شروع کریں. درس قرآن میں  آیت کی تلاوت اور ترجمہ کے بعد  بات کا رخ ذیادہ سے ذیادہ علمی نکات، بزرگوں کے واقعات اور فقہی ابحاث  کی طرف چلا جاتا ہے اور اسی پر پھر اختتام بھی ہوجاتا ہے.ظاہر ہے ایسی حالت میں درس قرآن کی محفلیں کب بارونق ہو سکتی ہیں اور جدید مسائل سے دو چار انسانوں کے مسائل کب حل ہو سکتے ہیں اور ان کی پیاس کب بجھ سکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ  جو خالص انگریزی ماحول میں پلے بڑھے، جن کو کبھی عربی زبان وادب سے واسطہ نہیں پڑا، انہوں نے اردو تفاسیر سے ترجمہ دیکھ کر فہم قرآن کے نام سے عوام الناس میں اپنا مشن ونظریہ پھیلانا شروع کیا پھر بھی لوگ انکو سنتے ہیں. انکا حلقہ بڑھتا گیا اور جارہا ہے.  وجہ دیکھی جائے تو سب سے بڑی یہی نظر آتی ہے کہ وہ عوام کے لیول اور پسند ناپسند جانتے ہیں. وہ یہ جانتےہیں کہ عوام کی توجہ کیسے حاصل کی جاسکتی اور برقرار رکھی جاسکتی ہے جو کچھ ان کے پاس ہے وہ اسکو اچھی طرح پریزنٹ کرنا جانتے ہیں.
علماء میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف تجربہ کار علماء نے  بہت اچھے انداز میں لکھا اور علماء کو کورس کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا. حال  ہی میں جامعۃ الرشید کے ایک مشہورعالم مفتی ابولبابہ شاہ صاحب کی اس موضوع پر ایک کتاب " درس قرآن کیسے دیں" کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے.یہ علماء کی اس مسئلے میں  تربیت پر ایک شاندار کتاب ہے. ہم اس تحریر میں اس کتاب کا خلاصہ انہی کا ترتیب دیا ہوا قارئین کے لیے پیش کرنے جارہے ہیں.
























اس تحریر سے اصل فاعدہ علماء ہی اٹھا سکتے ہیں. غیر عالم دوستوں سے درخواست یہ ہے اگر وسعت ہو تواسکا پرنٹ نکال کر اسکی فوٹو کاپیاں کروا کر اپنے علاقے کے علماء حضرات کوپیش کریں..خیر کا کام جس درجہ میں ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔.یہ  پی ڈی ایف فارم میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہے.
مکمل تحریر >>

اتوار، 29 جون، 2014

دلنشین اور آسان ترین ترجمہ قرآن

رمضان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، وه  مسلمان جسے سارا سال  الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا خیال تک نہیں آتا مگر رمضان کا چاند نظر آتے ہی  وہ  بھی نیکیوں کی  اس دوڑ میں اور   اپنے دین  و ایمان کی فکر کرنے والوں میں شامل ہوجاتا ہے. لوگ وہ سبق جو وہ دن رات کے جھمیلوں ، پریشانیوں میں کہیں بھول بسار گئے ہوتے ہیں اس کو دوہراتے،  تجدید عہد کرتے نظر آتے ہیں،   ہر شخص اپنی ہمت و توفیق کے مطابق رمضان کی برکات کو سمیٹتا نظر آتا ہے۔ اس مہینہ میں نماز، روزہ، صدقہ کے اہتمام کے علاوہ  لوگوں کا  قرآن کے ساتھ  بھی تعلق بڑھ جاتا ہے، حافظ ہوں یا غیر حافظ سب اپنی سارے سال کی کمی اس مہینے میں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں،  بہت سے لوگ ایک قدم آگے چلتے اور  ترجمہ و تفسیر سے  اسکے پیغام کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود ہم سے کئی دوست اس سلسلے میں مشورہ لیتے رہتے ہیں کہ  کوئی ایسا ترجمہ بتائیں جو  مستند بھی ہو اورہمیں آسانی سے سمجھ بھی آجائے۔ کچھ عرصے پہلے اس سلسلے میں تھوڑی الجھن ہوتی تھی کہ  قرآن کریم کا  کونسا ترجمہ تجویز کیاجائے؟ کوئی ایسی  مختصر  اور آسان تشریح ہو جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دےاور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ الجھن کی وجہ  یہی تھی کہ  ہمارے ہاں  قرآن کے رائج  اردو  تراجم  میں عموما  مترجم کا   انداز خالص  علمی اور  فقہی  ہوتاہے ، پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین اردو" میں ہوتا   اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی ہوتے ہیں  ، مزید علماء حضرات  ترجمہ میں  فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے  ہیں   اور یہ سب  عموما  ایک غیر عالم ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں  یا  ایسے لوگوں  کے لیے  جنکا دینی علوم  اور  کتابوں  سے قریبی  تعلق نہ ہو ' سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ جو  قرآن کے ترجمہ اور پیغام کو اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہیں شاید  اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ علماء کے تراجم بلاشبہ علم و ادب کے اعلی معیار پر ہیں، ان کا انداز تحقیق اور اسلوب بیان محتاج بیان بھی نہیں ، لیکن مشکل اردو اور اصطلاحات کے استعمال کی وجہ  بہت سے لوگ ان کومکمل  سمجھنہیں سکتے۔  ہمارے ہاں اردو  زبان میں  چند سال پہلے تک  ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے سب کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی اس  لیے  ہم اپنے حلقے میں  ترجمہ کے لیے  مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن کی  پڑھنے کا کہہ دیتے تھے اور تفسیر کے لیے تفسیر عثمانی اور تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع کرنے کا کہتے۔ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ وہی ہے  جو  مارکیٹ میں  شیخ عبدلارحمن السدیس اور شیخ عبدالباسط  کے اردو ترجمہ والے   قرآن کی کیسٹ اور سی ڈیز میں بھی  استعمال کیا گیا ہے۔۔ چند سال پہلے عصر حاضر کی ایک عبقری صفت اور  نابغہ روزگار شخصیت جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے  قرآن کے تراجم   پر کام شروع کیا ، اس سلسلے کی آپ کی پہلی کاوش  آپ کا  انگریزی میں ترجمہ قرآن کریم  تھا جو تین سال قبل چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایک  ایسی ضرورت تھی جو مسلمانوں اور انگریزوں کے  ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو تراجم موجود تھے وہ کسی ایسے عالم کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ وہ  یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند ہونے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔    اس کے بعد آپ نے   بہت سے لوگوں کے مطالبہ  اور  خود اردو زبان میں موجود  تراجم کی اس کمی کو محسو س کرتے ہوئے   قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھنا  شروع کیا جو حال  ہی میں  "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے  چھپ کر سامنے آیا۔
ترجمہ کی چند خصوصیات :۔
قرآن کریم کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو دینی علوم ،  خصوصاً علوم عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری نظر۔علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع)۔ علمی حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی دارالعلوم کراچی  میں  انہی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہےاور ادبی اعتبار سے آپ کا قلم نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں ہر میدان میں لوہا منوا چکا ہے ۔ آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ ویسے قرآن کے  ترجمہ  کے لیے علوم عربیت   میں مہارت سے  ادب میں مہارت بھی ذیادہ  اہم ہوتی ہے، ہمارے ہاں عوام   کو اسی لیے  غیر عالم  اسلامی اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز کے درس قرآن وغیرہ سننے ، پڑھنے سے  منع کیا  جاتا ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اردو ادب کے تو بہت ماہر ہوتے ہیں ، اچھے کہانی نویس، منظر نگاری کرنے والے اور انشاء پرداز ہوتے ہیں   لیکن انکی  اوپر گنائے گئے علوم خصوصاً "علم الفقہ" سے ناواقفیت اور عربی  زبان  میں عدم مہارت  کی وجہ  سے  "آیات الاحکام" کی تفسیر میں انکی  کی جانے والی غلطیوں سے عوام کے دینی  نقصان کا اندیشہ ہوتا  ہے جبکہ علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دور طالب علمی میں یہ  علوم پڑھ چکے ہوتے ہیں۔  تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ قرآن  دونوں خوبیوں کو لیے ہوئے ہیں،  مزید آپ  نے اپنے اس ترجمہ قرآن میں بہت سی ایسی  چیزوں  کو بھی شامل کیا  جن کی  پہلے تراجم میں کمی محسوس کی جاتی   تھی  ۔ مثلا
سورتوں کا تعارف:۔
ہر سورت سے پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں سورت کا ضروری تعارف ، اس میں بیان ہونے والے مضامین واقعہ کا خلاصہ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ تعارف میں   مصنوعی ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں ایک  مبسوط مقدمہ بھی دیا گیا ہے جو مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ 
 مختصر تشریحات :۔
ترجمہ پڑھنے کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 
سلیس و دلنشین انداز تحریر :۔ 
 بیان زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً:

هَيْتَ لَكَ

"آ بھی جاؤ" (یوسف:23)۔

فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ

"ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)۔

تراکیب کے بامحاورہ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:۔

نَسْيًا مَنْسِيًّا

بھولی بسری

قِسْمَةٌ ضِيزَى

بھونڈی تقسیم

سَبْحًا طَوِيلًا

لمبی مصروفیت

 لفظی اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں:۔

مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ۔"

کیا بات ہے؟ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ۔

""اب تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔

"اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)

 اصل الفاظ کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت  کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس گھاٹی سے گزرے ہیں:.

فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا۔

"پھر جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)

فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ۔

"تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)

وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا۔

"بلکہ یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" ( الفرقان:22) اسی طرح

وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔

"اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" (البقرۃ:7)۔
 دوبارہ پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)

"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔"
 پہلی آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔

 جملوں کی سادگی ملاحظہ فرمائیں۔

قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ۔

کہنے لگے " اباجی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کرنے چلے گئے تھے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اسے کھاگیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔

گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں ۔ پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔

اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ

کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا تھا؟ پھر اچانک وہ کھلم کھلا جھگڑا کرنے والا بن گیا۔ ہمارے بارے میں تو باتیں بناتا ہے اور خود اپنی پیدائش کو بھول بیٹھا ہے۔

مختلف تراجم کے ساتھ تقابل:۔
 عربی کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم "آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا پانچ مشہور معاصر تراجم کے ساتھ تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔

 پہلی مثال:.

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لقمان:20 

"اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
 "اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
 "اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک) 
"اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

 دوسری مثال:۔

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ (الاحزاب: 04)

"نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا ہے۔" (مولانا مودودی)
 "اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
 "اور نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
 "اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
 "اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

ظہار کے حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔

 تیسری مثال:.

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)

"(ایوب علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا مودودی)
"کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"بہت خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"بہترین بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"وہ بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

"اواب" کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔

 آخری مثال : "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (یوسف:24)

"وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو نہ دیکھ لیتا۔" ( مولانا مودودی)
"اور بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

سبحان اللہ! ترجمہ ایسا کیا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ ۔

تحریر طویل ہوتی جارہی ہے اس کو یہیں ختم کرتے ہیں، مقصد کتاب پر کوئی   کوئی مقالہ لکھنا نہیں بلکہ صرف اس ترجمہ کی کچھ خصوصیات کی طرف متوجہ کرنا تھا ، باقی اس کو پڑھنے والے اس سے ملنے والے سرور اور نفع کا خود اندازہ کرلیں گے، ان سب خصوصیات کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ  اس ترجمہ میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔

ایک نئی روایت :.
 اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے مطالعے کا شوق رکھنے والے حضرات کو یہ ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں ، آسان ترجمہ قرآن میڈیم کوالٹی پرنٹ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا ہے، اسکا ایک نسخہ اپنی گھریلو لائبریری میں رکھا جائے ، وسعت ہو تو قریبی لائبریری یا مسجد کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے ، اپنے امام صاحب سے اس ترجمہ کا کورس شروع کروانے کا مطالبہ کریں ، اس کے علاوہ ترجمہ اعلی کوالٹی پرنٹنگ میں بھی دستیاب ہے وہ تکمیل القرآن اور نکاح وغیرہ کے موقع پر گفٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ پہنچ رکھتے ہیں وہ سعودی حکام کو ایک یادواشت بھیج سکتے ہیں کہ عمرہ اور حج کے لیے جانے والے مہمانان حرم کو یہی نسخہ ہدیہ دیا کریں۔ مزید بہت سے مصنفین و مؤلفین اور مضمون نگار و تحقیق کار حضر ات کو اپنی تحریروں میں قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دینے کی ضرورت پیش آئے تو  وہ اس ترجمہ قرآن سے ترجمہ نقل کرسکتے ہیں۔خیر کی بات جس درجہ میں  ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔ )

تراجم کی سافٹ کاپی :۔

ڈائریکیٹ ڈاؤنلوڈ لنکس ہیں، رائٹ کلک کرکے سیو ایز کرنے سے ڈاؤنلوڈ سٹارٹ ہوجائیگی۔



سکین کاپی تینوں جلدیں
Read Online
Download
Volume 1 [14] Volume 2 [13] Volume 3 [15]i


کمپیوٹرکاپی
[Download 7mb]

آن لائن منگوانے کا طریقہ :۔ 

پاکستانی مارکیٹ  میں دونوں تراجم ہر اچھے اسلامی کتب خانہ سے باره سو سے لے كر دو ہزار تک میں  ہدیہ کرائے جاسکتے  ہیں،  جو دوست فارن کنٹری میں رہائش پذیر ہیں اور  وہ  آن لائن منگوانا چاہیں تو  وہ  امریکہ سے چلنے والے اس معروف ادارہ کی سائیٹ سے انگلش ترجمہ   یہاں سے اور اردو یہاں  سے ہدیہ کراسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے مشہور آئن لائن اسلامک بک سٹورز پر یہ ترجمہ دستیاب ہے۔


( تحریر میں موجود تراجم پر تحقیق معروف عالم دین مفتی ابو لبابہ شاہ صاحب کے کالم سے لی گئی ہے)
مکمل تحریر >>

بدھ، 25 جون، 2014

مولانا دریابادی کے سفر دہریت کی داستان- دوسرااورآخری حصہ

الحاد و اتداد کا  یہ دور دس سال تک رہا ، پھر  ان تدریجی تبدیلیوں  کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام کی طرف آنا شروع ہوئے۔ ابھی ابتداء ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے  باہر آگئی، دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اورنفس شوم کو جو سب سے بڑی ٹھوکر لگی تھی وہ سیرت اقدس  کی ہی تو تھی اور خاص طور پر غزوات و محاربات کا سلسلہ۔ظالموں نے نجانے کیا کچھ ان کے دل میں بٹھا دیا تھا اور ذات مبارک کو نعوذباللہ ایک ظالم فاتح دکھایا تھا۔  خود لکھتے ہیں :
" شبلی  نے اصل دوا اسی دردکی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا ۔ کتاب جب بند کی تو چشم تصور  کے سامنے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک و قوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی، جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخری درجہ میں ، ہر طرح پر مجبور ہو کر، یہ مرتبہ یقیناآج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے اور شبلی کی کوئی قدروقیمت نظر نا آئے گی  لیکن اس کا حال ذرا اسکے دل سے پوچھئے جس کے دل میں نعوذبااللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف جما ہوا تھا ۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں"۔(آپ بیتی)
 اسکے بعد  مثنوی مولانا روم  مطالعہ  میں آئی ، پڑھنا شروع  کی تو  ایسا محسوس ہوا جیسے  کسی نے جادو کردیا  ہو، کتاب چھوڑنا چاہیں بھی تو کتاب نہیں چھوڑ رہی ، ایسی کشش و جاذبیت کہ دیوانوں کی طرح ایک مستی  کا عالم طاری ہے ، نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ، بس کمرہ بند کرکے خلوت میں کتاب پڑھے جارہے ہیں  کہیں  آنسو  نکلے اور کہیں چینخ بھی پڑے ،   ادھر کتاب  ختم ہوئی  ادھرشکوک و شبہات  بغیر کسی ردو قدح میں پڑے اب دل سے کافور تھے،پھر یہی حال مکتوبات مجدد سرہندی کو پڑھ کر ہوا ۔الحاد کی گرہ کھل چکی تھی۔ مدتوں بعد وضو کر کے مصلے پر آئےاور خدا کے حضور کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے۔گناہوں کا خیال آیا تو چینخیں نکل گئیں۔ عفت کی آنکھ کھلی شوہر کو اس حال میں دیکھا تو شکر ادا کیا ،  شوہر کے آنسوؤں میں پھر اس کے آنسو بھی شامل ہو گئے،رات بھر یہی حالت رہی اور  فجر کی نماز مسجد میں  جاکر پڑی۔ایک دن گھر پر بیٹھے بیٹھے اپنے نکاح کا خیال آگیا کہ میں تو اس وقت کسی اسلامی رسم کا قائل ہی نہ تھا جب نکاح ہو رہا تھا تو میں دل میں ہنس رہا تھا، بس نمائش میں بیٹھا تھا ۔دل سے تو قبول نہیں کیا تھا ۔بس تجدید نکاح کی ٹھان لی بیوی سے ذکر کیا تو ًبولیں یعنی آپ مجھے بیوی بنانے پر آمادہ نہ تھے؟ کہا بالکل تھا ،مگر ایسے جیسے کہ ایک ہندو ہوتا ہے ،نکاح کے وقت جب آیات پڑھی جارہی تھیں تب میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کلام الہی نہیں ہے۔ ایک مولوی صاحب کو  بلوایا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا ۔
تجدید اسلامی کے بعد جوش اٹھا تو آستانہ اجمیری پر حاضری دی۔ قوالیوں کی آوازیں چہار سو تھیں ، عرس کا زمانہ تھا، ہر جانب لوگ ہی لوگ تھے ۔عبدالماجد کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے ، گورا رنگ،داڑھی سفید گول اور نورانی، نکلتا ہوا قد،آنکھوں پر چشمہ، سر پر ٹوپی۔عارفانہ کلام پڑھا  جانے لگا تو عبدالماجد  بھی جھوم اٹھے۔لوگ حیران تھے مگر ان کے قلب کی کیفیت کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پھر چشم فلک نے انہیں درگاہ خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ مینا ، خواجہ نظام الدین اولیاء کے  چکر کاٹتے دیکھا۔ دولت ایمان تو اب بلا شبہ نصیب ہوگئی تھی لیکن ابھی تک رواجی تصوف و خانقاہی مشیخیت میں ٹھوکریں کھارہے تھے ۔ اپنی اصلاح کے لیے  کسی سے باقاعدہ  بیعت  ہونے کی ضرورت محسوس کررہے تھے  لیکن عام آدمی تو نہ تھے کہ آنکھ بند کر کے کسی کے بھی مرید ہو جائیں ان کا مرشد بھی انہی کے معیار کا ہونا چاہیئے تھا۔کبھی سوچا کہ مولانا  محمد علی جوہر سے بیعت کریں  تو کبھی کسی دوسرے کا خیال آتا۔ خود لکھتے ہیں :
" مرشد کی تلاش ایک عرصہ سے جاری تھی، تصوف  اور سلوک کا ذخیرہ جتنا کچھ بھی فارسی ، اردو اور ایک حد تک عربی میں ہاتھ  لگ سکا تھا، پڑھ لیا گیا تھا، اتنی کتابیں پڑھ ڈالنے اور اتنے ملفوظات چاٹ جانے کے بعد اب آرزو اگر تھی تو ایک زندہ بزرگ کی۔ حیدر آباد اور دہلی  اور لکھنو جیسے مرکزی شہر اور اجمیراورکلیر، دیوہ اور بانسہ، رودلی اور صفی پور ، چھوٹے بڑے ' آستانے ' خدا معلوم  کتنے دیکھ ڈالے اور سن گن جہاں کہیں کسی بزرگ کی بھی پائی، حاضری میں دیر نہ لگائی ، حال والے بھی دیکھنے میں آگئے اور قال والے بھی، اچھے اچھے عابد ، زاہد ، مرتاض  بھی اور بعض دوکاندار قسم کے گیسو دراز بھی، آخر فیصلہ یہ کیا کہ انتخاب کے دائرے کو محدود کرکے حلقہ دیوبند کا تفصیلی جائزہ  لیجیے۔ ۔ وصل بلگرامی بولے کہ'  بہت دوڑ دھوپ آپ کرچکے ، ذرا ہمارے  مولانا (مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)کا بھی تجربہ کیجیے، سب کو بھو ل جائیے گا، تھانہ بھون اگر دور ہے تو قصد السبیل  اور تربیت السالک وغیرہ تو میرے پاس ہی ہیں، ا نہیں تو دیکھ ڈالیے'۔اچھا ! ان خشک مولوی صاحب نے تصوف پر بھی کچھ لکھا لکھایا ہے؟ خیر، دیکھ ڈالنے میں کیا مضائقہ ہے۔ دوسری صبح کتابوں کے ساتھ وصل میرے ہاں لکھنو میں موجود۔ کتابیں پڑھ کر جب بند کیں تو عالم ہی دوسرا تھا ؛
اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں 
اپنا جہل اپنے سامنے آئینہ معلوم ہوا کہ اب تک جو کچھ اس سلسلہ میں پڑھا  تھا، سنا تھا، جانا تھا، وہ بس جھک ماری تھی، تصوف کی حقیقت، طریق کی تعریف ، آج پہلی بار دل و دماغ کے سامنے آئی، قصد السبیل  پڑھتا جاتا تھا اور سطر سطر پر، پردے نگاہوں سے ہٹتے جاتے تھے، رہ رہ کر طبیعت اپنے ہی اوپر جھنجھلائی تھی کہ اب تک کیوں نہ پڑھا تھا ، بارہ برس کی مدت کوئی تھوڑی ہوتی ہے "۔ (حکیم الامت،صفحہ نمبر 10، 11)
 تھانوی رحمہ اللہ  سے مراسلات شروع ہوئے ، ایک   سال تک مراسلات پر دلوں کا حال بیان  ہوتا رہا پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں ،   اتنے متاثر ہوئے  کہ ایک جگہ لکھا  کہ  اگر میں عقیدہ تناسخ کا قائل ہوتا تو کہہ اٹھتا کہ امام  غزالی رحمۃ اللہ دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔ بیعت کی بات کی تو حضرت تھانوی نے ان کا سیاسی میلان دیکھتے ہوئےمولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ  کو کہا  کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں۔ عبدالماجددیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی۔بیعت مدنی رحمہ اللہ  سے  ہوئی مگر عقیدت اور اصلاح کا تعلق   تھانوی رحمہ اللہ سے  ہی رہا ۔ شیخ کی  وفات کے بعد انکی سوانح عمری 'حکیم الامت نقوش و تاثرات '  لکھی  جو  پانچ سو سے زائد  صفحات  پر مشتمل ہے  کتاب کیا ہے ایک  فلسفی مرید کے اپنے مرشد و مصلح   کے ساتھ بیتے لمحات،  ملاقاتوں  کے احوال  اور عقیدت  و عشق میں ڈوبے ہوئے تاثرات کا مجموعہ  ہے  ۔  اس کے علاوہ  حضرت تھانوی کی ایک مشہور کتاب مناجات مقبول جو  قرآ نی و حدیثی دعاؤں کا خوبصورت گلدستہ ہے ۔  اسکی عام فہم زبان میں شرح لکھی ، شرح ایسی ہے کہ    قاری دعائیں پڑھنے   کے بجائے دعائیں مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، دعاؤں میں مزا آنے لگتا اورالفاظ کی چاشنی اور عاجزانہ انداز  قلب کی کیفیت بدلت دیتا ہے۔
 کچھ عرصہ بعد  دریا باد منتقل  ہوئے اور  اس  کی خاموشی میں کام کرنے کا خوب موقع ملا۔ کئی  ایسے ادبی مضامین قلم سے نکلے کہ جو ہمیشہ یاد رکھے گئے ،غالب کا ایک فرنگی شاگرد،مررزا رسوا کےقصّے،اردو کا واعظ شاعر، پیام اکبر، اردو کا ایک بدنام شاعر،گل بکاؤلی ، مسائل تصوف اور موت میں زندگی وغیرہ  ان مضامین نے تنقید کی دنیا میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا۔ تجدید اسلام کے  بعد  ایسے دور سے گذر رہے تھے کہ  ان کا میلان زیادہ تر قرآن اور متعلقات قرآن ہی پر وقف ہو گیا تھا  ،تصوف  بھی  انکا  خاص موضوع رہا ، سو ایک کتاب “تصوف اسلام " لکھ ڈالی اور رومی کے ملفوطات کو بھی  ترتیب دیااورقرآن کے انگریزی ترجمے اور تفسیر  جیسے بلیغ کام کا بھی  آغاز کیا ۔
بیسویں صدی کا ہندوستان “اخبارات ” کا ہندوستان تھا ،کئی اکابرین نے صحافت کے نئے باب رقم کئے تھے، ہندوستان کی سیاسی و مذہبی لہروں کی گونج اخبارات میں سنائی دے رہی تھی۔خود عبدالماجد ایک عرصہ اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے تھے، سو جانتے تھے کہ ہنگامی اور اہم موضوعات کو عوام تک پہنچانے کے لئے اخبارات سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔سوچا کیوں نہ اپنا ایک اخبار ہی نکالا جائے، ادیب دوستوں سے مشاورت کے بعد  اخبار کا نام “سچ” تجویز کیاگیا۔ تیاریاں مکمل ہوئیں اور عبدالماجد کی زیر ادارت ہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اس   وقت  ردبدعات ، معاشرے میں پھیلی فکری غلط فہمیوں   کی اصلاح،   تجدد اور ترقی پسندی کے پردے میں مغرب نقالی  کا رد اخبار کے خاص موضوعات تھے۔ یہ دور  کئی قسم کے  فرقوں کی پیدائش،  سیاسی  افراتفری اور  انتشار  کا دور تھا، اس لیے سچ کو اپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں بھی لڑنا پڑیں، آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے۔شروع میں توجہ اصلاح  رسوم و ردبدعات پر ذیادہ تھی اس لیے قدرۃ اہل بدعات بھی ناراض رہے   اور وہابیت کا  ترجمان ہونے کے القاب ملے،  پھر جب سعودی شریفی  آویزش پر نکتہ چینی شروع  تو بدعتیوں کا پشت پنا کہا گیا ، بعض ہم خیال طبقات کی دشمنی بھی مول لینی پڑی  لیکن سچ لکھنے کے لئے عبدالماجد نے کبھی مصلحت کو آڑے آنے نہ دیا۔  تنقید کی تو  ہمیشہ ذاتیات کا پہلو بچا کر ، حق کو حق اور باطل کو باطل بلا  کسی مسلک ، جماعت  کے خیال   اور بغیر کسی تعصب  کے کہا ۔ اپنے سابقہ تجربہ کی وجہ سے الحاد  کی طرف جانے والے تمام راستوں سے واقف تھے اس لیے   بلاوجہ کی تجدد پسندی،  روشن خیالی ، مذہب بیزاری اور فلسفیانہ مغالطے پھیلانے والوں سے مقابلہ    ہر محاذ پر رہا ،اسی طرح  الحاد براستہ  انکار حدیث سے تو مدتوں جنگ رہی ۔  نیاز فتح پوری کے الحاد و فتنہ نگار کے  علمی رد کے لیے مہینوں اپنے کو وقف رکھا ۔
سچ کی ہنگامہ آرائیوں میں مصروف رہ کر عبدالماجد اپنے خاص علمی کاموں سے دور ہوتے جا رہے تھے،قرآن مجید کے انگریزی اور اردو ترجمے و تفسیر کے لئے کافی وقت درکار تھا اس  کے لیے آخر   “سچ”کو اس کارنامہ عظیم کی خاطر بند   کرکے  پوری جانفشانی سے تفسیر کا کام شروع کیااور  دریا باد کی تنہائیوں میں وہ کارنامہ سرانجام دینے لگے جو علوم دینی میں ایک اہم باب کا اضافہ کرنے والا تھا۔ عبدالماجد  مغربی علوم کے ماہر اور قدیم اور جدید تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تھے ،بائبل کے تمام ادوار انکی نظر میں  تھے اور  شروع میں پادریوں   کی علمی  یلغار  کا مقابلہ  بھی کرتے رہے تھے ۔اس کے علاوہ  فلسفہ شروع سے انکا خاص موضوع رہا   تھا،ایک عرصہ تک مغربی فلسفہ سے متاثر ہوکر الحاد و تشکیک کا شکار  رہے  تھے اس لیے اسکی حقیقت کو  بھی دوسروں سےذیادہ  سمجھتےتھے ،  شروع کی زندگی تو گزری ہی ہمہ وقت فرنگی علوم و فنون ،  فلسفہ و نظریات کی فتنہ سامانیوں  اور معاشرے میں پھیلی فکری گمراہیوں  کے علمی رد میں تھی ۔  اپنی گزری عمر کے اس سارے علم اور  تجربے کا نچور   اس تفسیر میں پیش   کیا،   تفسیر میں   مغربی مفکرین، فلسفیوں، مبلغین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کے  علمی جوابات بھی موجود ہیں  اور اسکے اثرات سے پیدا ہونے والے لادینیت الحاد و تشکیک کے امراض کا شافی علاج بھی ۔ مغربی فلسفہ زدہ یورپ پلٹ معاشرہ کے لیے یہ  تفسیر  آب حیات سے کم نہیں ۔   مولانا نے اس میں رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز  رکھی اور قرآنی آیات والفاظ  کی جو  عصری تطبیق پیش کی  اس میں  تفسیر بالرائے سے  بچنے  کی کوشش میں  اکابر علمائے تفسیر  کی تحقیق  کو  بھی مدنظر رکھا اس لیے  جہاں تفسیر میں  بائبل، تورات،  وید، گیتا ، بدھ تعلیمات ، مجوسی مفکرین، قدیم و جدید فلسفیوں کے حوالہ جات اور انکے مدلل جوابات  نظر آتے ہیں وہاں عظیم مفسرین کرام کی تفاسیر کے اقتباسات کو بھی  پیش کیا گیا ہے۔ آپ کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی   چونکہ ہر قدم پر ہدایات اور مشاورت  میسر رہی    اس لیے    قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو بھی   مستند  ہیں ۔ مزید  مولانا   چونکہ اردو کے بہت بڑے ادیب اور انشاپرداز  بھی تھے  اس لیے   تفسیر   محض خشک علمی ابحاث پر مشتمل   نہیں  بلکہ یہ اردو تفسیری ادب میں بھی  بلند مقام رکھتی ہے، اس میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی تشنگی  بھی دور کی ہے۔
تفسیر ماجدی لکھتے لکھتے کئی  اور کتابیں  بھی ظہور میں آئیں جو بعد میں”اعلام القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن”وغیرہ کے نام سے شائع ہوئیں۔  یہ کام مکمل ہوا تو خاکے لکھنا شروع کر دیئے جنہیں کتاب کی صورت ملنے لگی۔ کسی عالم دین سے کب توقع تھی کہ وہ سوانح نگاری ،خاکہ نگاری اور انشائی تحریروں میں بھی دماغ کھپائے گا لیکن عبد الماجدنے تو جیسے تہہ کر لیا تھا کہ وہ ادب کے ہر گھر میں جھانکے بنا نہیں رہیں گے۔شاعری بھی کی اور غزل کو ہاتھ لگایا، تنقید بھی کی اور تحقیق تو ان کا خیر میدان ہی تھا ۔ یوں  مسائل القصص، الحیوانات فی القرآن، ارض القرآن،اعلام القرآن، بشریت انبیاء، سیرت نبوی قرآنی،اور مشکلات القرآن جیسی کتب پڑھنے والوں کے سامنے آئیں۔
عبد الماجد کی صحت ہمیشہ سے ہی ناساز رہی تھی ۔ ملیریا کے سالانہ حملوں اور مسلسل نزلے کے باعث بینائی متاثر ہو چکی تھی ۔ 80سال پار کرنے کے بعد قوت ارادی بھی جواب دینے لگی۔ایک دن اپنی بیٹیوں  کو پاس بلا کر اپنی کتابوں کی تقسیم بھی کر وادی کہ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو،عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دیں۔ دسمبر کا مہینے کا آخر تھا کہ نیا حملہ فالج کا ہو ا، حواس قائم نہ رہے تھے،بار بار غفلت طاری ہو جاتی تھی لیکن اس عالم میں بھی بار بار ہاتھ کان تک اٹھاتے اور اس کے بعد نیچے لا کر نماز کے انداز میں باندھ لیتے تھے۔ایک روز اپنی منجھلی بیٹی کو بلا کر کہنے لگے کہ “وہ جو آتا ہے ف۔۔۔”بیٹی نے جملہ مکمل کیا کہ”فرشتہ؟”بولے ۔”ہاں”اور داہنی جانب اشارہ کیا اور کہا “آگیا ہے۔”اس واقعے کےچار دن بعد ہی 6جنوری1977صبح ساڑھےچار بجےخاتون منزل (لکھنؤ)میں خالق حقیقی سےجا ملے۔نماز جنازہ  وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعلماء کے میدان میں مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ  نے پڑھائی۔ دریا باد میں  آپ کی تدفین ہوئی۔

مستفاد :
1-جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کی تصنیف “عبد الماجد دریا بادی ،احوال و آثار
2-عبدالماجد دریا بادی کی سوانح” آپ بیتی
3- حکیم الامت  از مولانا دریابادی

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 21 جون، 2014

مولانا دریابادی کے سفر دہریت کی داستان

پیدائش مذہبی گھرانے میں ہوئی  ، ماں اور بڑی بہن تہجد گزار، والد صوم صلاۃ کے پابند،  دادا مفتی  اورنانا ایک مشہور عالم ، گھر میں   دینی تربیت  کا  ماحول تھااس کے علاوہ ایک مولوی صاحب بھی  پڑھانے آتے ، بارہ تیرہ سال کی عمر میں تو گویا پورے ملا بن گئے تھے، نویں جماعت میں تھے  قرآن کے موضوع پر  ایک مضمون تیار کر کے صوبے کے سب سے بڑے اخبار”اودھ اخبار”میں بھیج دیا ۔ مضمون پرچہ کی زینت بنا  اور یہاں سے  ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا ۔کالج کے لئے انہیں کیتگ کالج لکھنؤ میں داخل کرایا گیا۔ اختیاری مضامین کے طور پر منطق ، تاریخ اور عربی لئے۔یہ وہ مضامین تھے جن میں ان کی اہلیت کالج کے معیار سے کہیں زیادہ تھی۔انگریزی لازمی مضمون تھا  لیکن اس مضمون میں بھی  کوئی   پریشانی نہ ہوئی ایک تو  اس سے طبعی مناسبت تھی دوسرا انگریزی اخبار و جرائد مطالعے میں  بھی رہا کرتے تھے ۔
ایک روز شام کی سیر  کے دوران نگاہ “رفاہ عام لائبریری “پر پڑی ،  قدم لائبریری کی جانب اٹھ گئے ۔اندر کتابو ں کا بازار نظر آیا،  ایک  کتاب نکلوائی اور پڑھنے بیٹھ گئے ،  اس دن کے بعد جب  بھی  سیر کو نکلتے تو  یہیں کتابوں کی سیر کرتے رہتے۔مطالعہ کی کثرت نے ان کے اندر کے ادیب کو بیدار کرنا شروع کر دیا تھا ۔کالج کے ابتدائی سال تھے عمر نا پختہ تھی مگر کتابوں کے شغف نے اتنی معلومات فراہم کر دی تھی کہ تصنیف و تالیف کی جانب مائل ہو گئے۔ “محمود غزنوی ” پر مفصل مقالہ لکھ ڈالا  ،اس مقالہ میں تاریخ یمنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ غزنوی پر بخل کا الزام لغو ہیں یہی کام مولانا  شبلی بھی انہی دنوں کر رہے تھے کہ فرزندان اسلام پر مغرب کے  لگائے گئے الزامات کی تردید تاریخی حوالوں سے کر رہے تھے۔ کتاب ایک پبلشر نے شائع کر کے ان  کا نام بھی مصنفوں کی فہرست میں ڈال دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان  کے تعلقات دیگر اہم ادیبوں سے بھی استوار ہوتے چلے گئے۔
ایک دن  اک عزیز کے پاس ا یک انگلش کتاب  محض اتفاقا  دیکھنے میں آئی ، ہر چیز کے پڑھنے اور پڑھ ڈالنے کا مرض تو شروع ہی سے تھا، بے تکان اس کتاب کو بھی پڑھنا شروع کردیا، جوں جوں آگے بڑھتے گئے ، گویا اک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد و اخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیروزبر ہوتی چلی گئی!۔۔Element  of  Social Science کتاب کا نام تھااور مصنف ڈاکٹر ڈریسیڈیل جس کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ یہ  اپنے وقت کا ایک کٹر ملحد تھا۔  کتاب مذہب پر نہ تھی اور نہ بظاہر اسکا کوئی تعلق  ابطال مذہب سے تھا ، اصول معاشرت اور آداب معاشرت پر تھی ، لیکن ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی ۔اس کا اصل حدف وہ  اخلاقی بندشیں تھیں جنہیں مذہب اب تک علوم متعارفہ کے طو ر پر پکڑے ہوئے تھااور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔مثلاً عفت و عصمت، کتاب کا اصل حملہ انہی  بنیادی اخلاقی عقائد پر تھا۔۔کتاب کے مطابق یہ جنسی خواہش تو جسم کا ایک طبعی مطالبہ ہے اسے مٹاتے رہنا اور اس کے لئے باضابطہ عقد کا منتظر رہنا ایک فعل عبث ہے،بلکہ صحت اور جنسی قوتوں کی بالیدگی کے لئے سخت مضر ہے۔اس لئے ایسی پابندیوں کو توڑ ڈالو اور مذہب و اخلاق کے گڑھے ہوئے ضابطہ زندگی کو اپنے پیروں سے روند ڈالو۔ایسے ہی  کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر  پڑتی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز  رہے ۔ کوئی پختہ کار مرد ہوتا تو وہ ان باتوں کو محض باتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتا مگر  یہ  سولہ سال کا نوجوان طفل نادان تھا اس سیلاب کی تاب نہ لا سکا۔ مذہب کی حمایت و نصرت میں اب تک جو قوت جمع تھی ، وہ اتنی شدید بمباری کی تاب نہ لاسکی اور شک و بدگمانی کی تخم ریزی مذہب و اخلاقیات کے خلاف خاصی ہوگئی۔ یہ سوچنے لگ گئے کہ  اب تک کس دھوکے میں پڑے رہے، تقلیدا ابتک جن چیزوں کو جزو ایمان بنائے ہوئے تھے  وہ عقل و تنقید کی روشنی میں کیسی بودی ، کمزور اور بے حقیقت نکلیں،اس کتاب میں “ایمان” پر براہ راست حملہ نہیں کیا گیا تھا مگر ان چیزوں کو کمزور بنا دیا گیا تھا جو ایمان کو قائم رکھتی ہیں۔پروپیگنڈے میں  یہی   کوشش کی جاتی ہے  کہ براہ راست حملہ نہ ہو بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کرکے قلعے کی حالت مخدوش کردی جائے ۔ عبد الماجدا بھی اس کتاب کو پڑھ کر پوری طرح گرے نہیں تھے مگر سنبھل بھی نہ سکے تھے ۔
 یہ ایک نیا موضوع تھا جو اب تک ان کی نظر سے نہیں گذرا تھا ۔ شک  وراتباب کی تخم ریزی ہوہی چکی تھی اور  ملحد اور نیم ملحد فلسفیوں کی  انگریزی میں کمی نہیں تھی ۔ لکھنؤ کی “ورما لائبریری “ قریب ہی تھی  ، وہاں سے چارلس بریڈلا، بوشنر، انگرسول، ہیوم، اسپنر  کی کتابیں پڑھنے کو  ملتی رہیں اور  تشکیک کو غذا اور الحاد کو خوب تقویت پہنچتی رہی ۔ ایک ضخیم کتاب   جو کئی جلدوں پر مشتمل تھی   International Library of Famous Literature  کے نام سے دکھائی ، یہ کتاب بھی مذہبیات کی نہیں ادب محاضرہ  کی  تھی ، ساری دنیا کے ادبیات کے بہترین انتخابات کو اس  میں جمع کیا گیا تھا،  اس کی ایک پوری    جلد قرآن اور اسلام کےذکر پر مشتمل تھی  ۔اس میں ایک پورے صفحے کا فوٹو “بانی اسلام” کے نام سے شامل کیا گیا تھا  اور نیچے مستند حوالہ کہ فلاں قلمی تصویر کا عکس ہے 'درج کیا گیا تھا، گویا ہر طرح سے صحیح و معتبر ۔ جسم پر عبا،  سرپر عمامہ اور چہرہ مہرہ پر بجائے  کسی قسم کی نرمی کے غصیلہ پن، تیوروں پر خشونت کے بل پڑے  ہوئے، ہاتھ میں کمان، شانہ پر ترکش ، کمر میں تلوار۔ ۔ گویا تمام تر  ایک ہیبت ناک و جلاد قسم کے بدوی سردار قبیلہ کی  شبیہ ۔ ۔ نوجوانی میں  فرنگیت سے مرعوب ذہنیت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ خود اس فوٹو میں  کوئی جلعسازی بھی ہوسکتی ہے اور انکی کوئی بات غلط بھی ہوسکتی  ہے ۔۔ جو  رہی سہی کسر  تھی  وہ اس تصویر نے نکال دی ، ذات رسالت سے اعتقاد دیکھتے دیکھتے دل سے  مٹ گیا۔رئیسانہ ٹھاٹ کے باوجود ان کی تربیت دینی خطوط پر ہوئی تھی ،آباؤ اجداد سے ایک دینی روایت ساتھ چلی آرہی تھی، لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا دین کی آغوش میں پلا بڑھا یہ نوجوان پہلے ، دوسرے حملے میں ہی چت ہوگیا،  گمراہی کے کتنے دروازے ہیں اور شیطان کی آمد کے لئے  کتنے راستے کھلے ہوئے  ہیں، یہ کون جانتا ہے۔۔؟! نماز اب بھلا کہاں باقی رہ سکتی تھی، پہلے وقت سے بے وقت ہوئی، پابندی گئی،  پھر ناغے اور کئی کئی ناغے ہونے لگے، یہاں تک کہ بالکل غائب ہوگئی، وضو، تلاوت، روزہ وغیرہ سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا، شروع شروع میں کچھ خوف اور لحاظ والد  کا رہا  لیکن یہ کب تک کام دیتا، جو اسوقت  اللہ اور اسکے رسول سے بغاوت پر آمادہ تھا وہ باپ بیچارے کو کیا خاطر میں لاتا۔
مذہبی مطالعہ اس وقت بھی کچھ ایسا کم نہ تھا  لیکن فرنگی الحاد کے جس سیلاب عظیم سے ٹکراؤ تھااس سے مقابلے کے لئے وہ مطالعہ ہرگز کافی نہ تھا،کفر کے اندھیروں میں اترنا ہی تھا کہ ایسے ہی دوستوں کی تلاش بھی شروع ہوگئی ۔کالج کے ایک ساتھی طالب علم محمد حفیظ سید سے یارانہ بڑھا ۔وہ بھی ملحد ہو چکا تھا اور ہندوانہ تصوف و فلسفے کا گردیدہ تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ عبدالماجد ملحد یا منکر اور حفیظ تین چوتھائی ہندو ۔ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور ملحدانہ رنگ چڑھتا گیا۔ دبے دینی کی لے بڑھ رہی تھی ،عبدالماجد نے کسی کے پاس لنکن کی ریشنلسٹ پریس ایسوسی ایشن کی ارزاں قیمت مطبوعات کی فہرست  دیکھی ،  مسلک عقلیت (ریشنلزم ) کے پرچار کے نام سے یہ سب کتابیں رد مذہب و تبلیغ الحاد کے لئے تھیں ، پہلے یہ کتابیں مانگ مانگ کر پڑھیں ، پھر جب لت پڑگئی اور نشہ اور تیز ہوگیا تو فیس ادا کرکے انجمن  کا باضابطہ ممبر بن گئے، فخر سے اپنے آپ کو ریشنلسٹ کہتے اور اپنے اس ننے منے کتب خانے کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ہندوستان میں اس  ایسوسی ایشن کی کو ئی شاخ نہیں تھی  اس کے پندرہ روزہ نقیب ' ریشنلسٹ ریویو'   کو قیمت بھیج کر اسکے خریدار بن گئے۔ رفتہ رفتہ اب اسلام کے نام سے  بھی شرم آنے لگی۔
اسی دوران علامہ شبلی کی کتاب “الکلام”منظر پر آئی، عبدالماجد نے مطالعہ کیا ۔ان کے مطابق کچھ خامیاں تھیں سو تنقید کے لئے قلم اٹھا لیا ۔ ایک رسالہ”الناظر”جو  لکھنؤ سے شائع ہوا کرتا تھااس کے ایڈیٹر ظفر الملک کو شبلی سے کد تھی ، عبدالماجدکو اس سے بہتر دوسرا کوئی رسالہ دکھائی نہ دیا ۔رسالے نے بھی خوش آمدید کہا۔ عبدالماجدکا ایک طویل مقالہ چھے اقساط میں شائع ہوا۔یہ قسطیں ایک طالب علم کے نام سے شائع کروائیں۔(شبلی سمجھتے رہے کہ یہ کام مولوی عبدالحق کا ہے،مگر یہ راز بعد میں کھل گیا)۔ مختلف مضامین کی ترتیب و تسوید جاری رہی اور اس میں عبدالماجد کی عقل  ہی ان کی امام  اور رہبر تھی۔ جو بھی مذہبی عقیدہ ان کی عقل کے معیا ر پر پورا نہ اترتا وہ بقول عبدالماجد ناقص تھا۔ مضامین میں عبدالماجد کا لہجہ کڑوااور مسموم  ہوتا حتی کہ مذہب و سائنس کے اختلافات کی تفصیل درج کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکال لائے کہ مذہب اب چند روزہ مہمان ہے۔ جوں جوں سائنس کی تعلیم عام ہوتی جائے گی اسی نسبت سے مذہب کا اثر بھی زائل ہوتا جائے گا۔ان تمام مضامین کا مقصود دراصل مذہب کو مجموعہ توہمات ظاہر کرنا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اکثر مسائل میں بانیان مذہب غلطیوں اور غلط فہمیوں کا شکار رہے۔ وہ تعلیمات مذاہب کو اللہ کی نہیں بلکہ انبیاء  کی خودساختہ سمجھتے  تھے ۔عبدالماجد کےان مضامین کا ردّعمل بھی ہوا۔جن کا خلاصہ یہ تھا  کہ استدلال نہایت سطحی ہے، قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنےمیں ٹھوکر کھائی ہیں۔مصنف کا قلم اندھے کی لکڑی کی طرح ہے جو چاروں طرف گھوم رہی ہے کسی کے بھی لگ جائے۔
عبدالماجدکا الحاد اپنی جگہ لیکن “الکلام” پر تنقیدی اقساط اور دوسرے کئی مضامین کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ایک ادیب تسلیم کروا چکے تھے۔بعض ادیبوں سے ان کے تعلقات بھی استوار ہو چکے تھے جو ان کے خاندان سے واقف تھے انہیں دکھ ہوا کرتا تھا کہ کیسے اشرف خاندان کا چراغ کن ہواؤں کے سامنے ہے۔ان کی تہجد گزار ماں کو جب علم ہوا تو دل پر قیامت گذر گئی۔وہ جو دوسروں کو نماز و روزے کی تلقین کیا کرتی تھیں ان کا اپنا بیٹا منکر نماز و روزہ تھا۔  والد عبدالقادر صاحب وقت سے پہلے بوڑھے ہو چکے تھے۔سب نے خوب سمجھایا ،پر سب بے سود۔ عبدالماجدکا مطالعہ  وسیع تھا ،  الحاد بھی استدلال پر مبنی تھا،منطق و فلسفہ ان کے خاص مضامین تھے ،کوئی ان سے نہ جیت سکا،کوئی قائل نہ کر سکا۔سب نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر دعاؤں کا سہارا پکڑ لیااور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ ایک جگہ  لکھتے ہیں :
" ذہنی ،فکری، عقلی اعتبار سے تو تماتر ایک فرنگی تھا، مسلمانوں سے میل جول بہت کم ہوگیا تھالیکن ابھی بھی جذباتی حیثیت سے ایک مسلمان ہی  تھا، ایک روشن خیال مسلمان ، مسلم قومیت سے میری جڑیں کٹنے نہ پائی تھیں، مسلم قومیت دین اسلام کے بعد ایک بڑی نعمت ہے ، کوئی صاحب اسے بے وقعت  وبے قیمت نہ سمجھیں، مجھے آگے چل کر اس کی بڑی قدر معلوم ہوئی۔ حالت یہ تھی کہ کوئی غیر مسلم  جب کبھی اسلام پر معترض  ہوا، ارتداد کامل کے باوجود  اپنا دل اسکی تائید کے بجائے  اسکو جواب دینے پر ہی  آمادہ کرتا۔  اکتوبر 1911 کا ذکر ہے، ایک بڑی مسیحی کانفرنس میں شرکت کے لیے مشہور معاند اسلام پادری زویمر بھی بحرین سے آئے ، انکی شہرت عداوت اسلام کی ، ان سے قبل  یہاں پہنچ چکی تھی۔ میں بی اے کا طالب علم تھا اور عقیدۃ تما م تر منکر اسلام۔ اپنے ایک دوست مولوی عبدالباری ندوی  کو ساتھ لے ' جھٹ ان سے ملنے پہنچا، پادری  صاحب اخلاق سے پیش آئے لیکن حسب عادت چوٹیں اسلام پر کرنا شروع کردین۔ آپ یقین کیجیے  کہ جوابات جس طرح ندوی صاحب نے عربی میں دینا شروع کئے اسی طرح میں نے بھی انگریزی میں ۔ پادری صاحب پر یہ کسی طرح کھلنے نہ پایا کہ میں تو خود ہی اسلام سے برگشتہ و مرتد ہوں، کسی پادری یا آریہ سماجی یا کسی اور کھلے ہوئے دشمن اسلام کا اثر مطلق مجھ پر نہ تھا۔ متاثر جو کچھ بھی  میں ہوا تھا، وہ تمام تر  اسلام کے مخفی دشمنوں سے اور انکی تحقیقات سے ہوا تھا ، جو زبان پر دعوی کمال بے تعصبی کا رکھتے تھے ، لیکن اند ر ہی اندر زہر کے انجکشن دیتے جاتے۔"(آپ بیتی صفحہ ، 243)
 دوسری طرف اپنی سوچ میں شدت پسند ی کا یہ حال تھا کہ کالج کے سالانہ امتحان کے فارم میں مذہب کے فارم میں اسلام کے بجائے “ریشنلسٹ”لکھنا باعث فخر سمجھتے۔انٹر کے بعد اسی کالج میں بی اے میں داخلہ لیا،مضامین  بھی وہی خاص تھے،عربی اور فلسفہ ۔مذہب کی مخالفت کے لئےفلسفہ ہی بڑا سہارا ہو سکتا ہےکیونکہ تمام تر تکیہ  “عقل”پر کرتا ہے۔کالج کی لائبریری میں جتنی کتابیں فلسفے کی تھیں سب پڑھ ڈالیں۔ملحد وں و نیم ملحدوں کی کتابوں کے ساتھ وہ کتابیں بھی سامنے آئیں جنکا موضوع نفسیات تھا ان سے الحاد کو مزید تقویت ملی۔ آب بیتی میں لکھتے ہیں:
  " اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف و صریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں  کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں  جتنی وہ فنی کتابیں  ثابت ہوئی جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیا  نہ اثباتا، لیکن   اصلی زہر انہی  بظاہر بے ضرر کتابوں کے اندر گھلا ہوا ملا۔ مثلا ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی اسکی دو موٹی  موٹی کتابیں اس زمانہ میں خوب شہرت پائے ہوئے تھیں، ایک مینٹل  فزیالوجی (عضویات دماغی) اور دوسری  مینٹل  پیتھالوجی ( مرضیات دماغی)۔ اس دوسری کتاب میں  اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی  محمدی کو لے  آیا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ ظالم لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے  یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا  کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لئے چھوڑ جائے۔۔! ایمان کی بنیادیں کھوکھلی تو پہلے ہی ہوچکی تھیں اب ان کم بخت ' ماہرین فن' کی زبان سے اس قسم کی تحقیقات عالیہ سن کر رہا سہا ایمان بھی رخصت ہوگیا اور الحاد و ارتداد کی منزل تکمیل کو پہنچ گئی۔!  
ایمان کو عزیز رکھنے والے خدا کے لئے ان تصریحات کو غور سے پڑھیں ۔"(آب بیتی  صفحہ 240)
  اس دوران ایک آنریری مجسٹریٹ جو  عبدالقادر صاحب  کے قرابت دار بھی  تھے 'کی صاحبزادی عفت النساء سے عبدالماجد کی   ملاقات ہوئی اور اس  سے محبت کرنے لگے ۔آتش عشق بڑھی تو شاعر بھی بن گئے ،غزلوں پر غزلیں ہونے لگیں ۔ان کچھ دنوں کے لئے وہ نہ مسلمان تھے  نہ ملحد بس عاشق بن گئے تھے ۔کچھ غزلیں جمع ہوئیں تو سوچا کہ اکبر الٰہ آبادی کو دکھا دیں ۔اکبر کی جانب سے حوصلہ افزا جواب آیا تو دوسری غزل روانہ کی جس کا شعر تھا:
جانبازیوں کو خبط سے تعبیر کر چلے
تم یہ تو خوب عشق کی توقیر کر چلے
اکبر نے خوب داد دی اور خوشی اور تعجب کا اظہار کیا ۔محبت میں دیوانگی کی حد عبدالماجد ضرور چھو رہے تھے مگر اپنے علمی مرتبے سے بھی غافل نہ تھے ۔ ان کی دو کتابیں ۔”سائیکالوجی آف لیڈر شپ “اور “فلسفہ اجتماع “آگے پیچھے شائع ہوئیں۔ انہوں نے ان کتابوں میں پیغمبران عظام پر تعریضات کی  تھیں اور ان پر خود غرضی کے الزامات لگائے تھے۔ یہ ایسی جسارت تھی کہ اخبارات و رسائل خاموش نہ رہ سکے۔ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔مخالفانہ تبصرے شائع ہوتے چلے گئے۔سب سے اہم فتویٰ وہ تھا جو احمد رضا خان بریلوی کی جانب سے شائع ہوا اور عبدالماجدکو کافر قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ بہت سے فتوے ان کی عدم تکفیر میں بھی شائع ہوئے۔جن میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی ، سید سلمان ندوی اور مولانا شیر علی جیسے جید نام بھی تھے۔یہ  حضرات  سمجھتے تھے کہ عبدالماجد غلط راستے پر پڑ گیا ہے اگر نرمی کا برتاؤ کیا جائے تو جلد ہی راستے پر آجائے گا اگر سختی کی گئی تو مزید ضد پر آجائے گا ۔علما کا یہ برتاؤ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ عبدالماجد کی علمی وقعت کے قائل تھے۔وہ دھیرے دھیرے نرمی کے ساتھ انہیں اسلام کی طرف لانا چاہ رہے تھے۔ ان کتابوں کی وجہ سے انکے خاندان میں بھی چہ مگویاں بڑھ گئی تھیں ماں نے یہ حل سمجھا کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔چنانچہ 2جون1916؁ کو اس کا نکاح لکھنؤ میں انجام پا گیا۔ممتاز شعرانے تاریخیں نکالیں اور سہرے لکھے۔ 
منکر ہو نہ کوئی اپنی ہمتائی کا
یہ کام کبھی نہیں ہے دانائی کا
اللہ نے اب غرور ان کا توڑا
دعوی تھا مرے دوست کو یکتائی کا
(سید سلیمان ندوی)
انہی دنوں عبدالماجد سخت معاشی پریشانیوں کا شکار  بھی ہوئے ، والد فوت ہوچکے تھے ، پیسہ جس  بنک میں تھا وہ دیوالیہ ہوگیا۔ آخر  دار المصنفین اعظم گڑھ ان کے کام آگیا۔ دارالمصنفین کی فرمائش پر جارج برکلے کی مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ”مکالمات برکلے”کے نام سے کیا جو اس خوبی سے ہوا کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی “معارف”کے لئے معاوضے پر لکھنا شروع کر دیا اور گزر بسر ہوتی رہی۔1919؁ کے اوائل میں نظام حیدر آباد سے ان شرائط پر وظیفہ کی منظوری ہوئی کہ وہ سال میں 1تصنیف پیش کیا کریں گےاور اسکے خاکے کا مسودہ محکمہ احتساب کی نظر سے گزارنا ہوگا ،محکمے کی منظوری کے بعد وہ کتاب مکمل کریں گے۔شرائط شائد اسی لئے لگائی گئی  تھی  کہ عبدالماجدکے الحادی نظریات کو جانچ سکیں ۔125روپے ماہانا تا حیات منظور  ہوگئےجو گھر بیٹھے انہیں ہر ماہ ملنے لگے۔اس دور میں متعدد ترجمے ان کے قلم سے نکلے جن میں “تاریخ ،تمدّن ، تاریخ اخلاق یورپ”اور ناموران سائنس”بڑی اہم ثابت ہوئیں۔
مد کے بعد جزر
نظریات و افکار  کی جنگ جو دس سال سے ان کے باطن میں چھڑی ہوئی تھی اس کے خاتمے کا دور آنے ہی والا تھا ۔ایک ہلچل  جو  مچی تھی اس کو قرار ملنے ہی والا تھا۔تشکیک و الحاد کے اس حملے سے جس سے وہ مغلوب  ہوئے  تھے  اب اس سے نجات کا دن قریب آرہا تھا۔ان کی عقل پر ابر جہالت  پھاڑ کر ایک نیا سورج طلوع ہونے اور  ان کے اندر ایک نیا انسان بیدار ہونے والا تھا۔ اور اس نئے انسان کی بیداری میں ان  مسلمان دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا جو ان  کے دور الحاد میں بھی ان کے ساتھ ہی رہے۔  اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں "
"مخلصانہ کوششیں   اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں ان دو ہستیوں کی: ایک نامور ظریف شاعر اکبر الہ آبادی، بحث و مناظرہ کی انہوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پندو موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے، جو دل میں اتر جاتی  اور ذہن کو جیسے ٹھوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش  کچھ تو بحرحال پیدا ہو کر رہتی۔ ایک روز بولے' کیوں صاحب ، آپ نے تو کالج میں عربی لی تھی، پھر اب بھی اس سے کچھ مناسبت قائم ہے؟ علم و زبان کوئی بھی ہو ، بحرحال اسکی قدر تو کرنی ہی چاہیے'۔ میں نے کہا' اب اس کے لکھنے پڑھنے کا وقت کہاں ملتا ہے'۔ بولے'  نہیں کچھ ایسا مشکل تو نہیں، قرآن کی بے مثل ادبیت کے تو اہل یورپ بھی قائل ہیں، اور سناہے کہ  جرمن یونیورسٹیوں میں   قرآن کے آخری پندرہ پارے عربی ادب  کے کورس میں داخل ہیں، آپ عقائد نہیں، زبان ہی کے اعتبار سے قرآن سے ربط قائم رکھئے اور جتنے منٹ بھی روزانہ نکال سکتے ہوں اسے پڑھ لیا کریں، جتنے حصے آپ کی سمجھ میں نہ آئیں، انہیں چھوڑتے جائیے اور یہ سمجھ لیجیئے  کہ وہ آپ کے لیے نہیں  لیکن آخر کہیں تو کچھ فقرے آپ کو پسند آہی جائیں گے،  بس انہی فقروں کو دو چار بار پڑھ لیا کیجیے ، آپ کے لیے کوئی قید باوضو ہونے کی بھی نہیں"۔ یہ ایک نمونہ تھا انکی تبلیغ کا ۔ دوسری ہستی مولانا محمد علی جوہر تھے، بڑی زور دار شخصیت تھی انکی ۔۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش خروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کرڈالتے ۔ انکی عالی دماغی ، ذہانت، علم اور اخلاص کا پوری طرح قائل تھا اس لیے کبھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی ۔ ایک تیسرا نام اور سن لیجیے ، یہ اپنے ایک ساتھی  مولوی عبد الباری ندوی تھے  ۔ دھیما دھیما انکا اچھا ہی اثر پڑتا رہا۔"
اس تبدیلی میں کافی حصہ  ان کتابوں کا بھی تھا جو ان کے مطالعے میں رہتی تھیں ۔کتابوں ہی نے  انہیں  بھٹکایا اور اب کتابیں ہی انہیں راہ راست پر لا رہی تھیں۔ مذہبی یا نیم مذہبی قسم کے فلسفیوں کا مطالعہ شروع ہو ا ،حکیم کنفیو شس   کو پڑھا ، پھر   بدھ مت  ، پھر تھیاسوفی  جو ہندو فلسفہ تصوف  پر مشتمل کتاب ہے اوراس میں سارا زور روح اور اسکے تقلبات پر  اور رنگ کچھ حاضرات و عملیات سے ملتا ہے' پڑھی ، اسکے علاوہ  ہندو فلسفہ کے بڑے  شارح و ترجمان ڈاکٹر بھگوان داس کی ساری  تحریریں  پڑھ گئے ، کرشن جی کی بھگوت گیتا کے بھی جتنے نسخے انگریزی میں مل سکے سب پڑھ ڈالے۔۔  ان کتابوں نے جیسے آنکھیں کھول دیں اور ایک بالکل ہی نیا عالم روحانیات یا مارواء مادیات کا نظر آنے لگا۔ خود لکھتے ہیں :
" ڈیڑھ دو سال کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہہ اور قطعی تعبیران فرنگی مادیین کی نہیں بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلی و دل نشین توجہیں  اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں اور روحانیات کی دنیا  سراسر وہم وجہل اور قابل مضحکہ و تحقیر نہیں ، بلکہ حقیقی اور ٹھوس دنیا ہے ، عزت و توقیر  ، عمق اور تحقیق و تدقیق کے اعتبار سے گوتم بدھ   اور سری کرشن کی تعلیمات ہرگز کسی مل، کسی اسپنسر سے کم نہیں، بلکہ کہیں بڑھی ہوئی ہیں اور حکمائے فرنگ انکے مقابلے میں  بہت پست و سطحی نظر آنے لگے۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی  خاصہ بعد تھا لیکن بحرحال اب مسائل حیات ، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آگیا  اور مادیت ، لاادریت و تشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آرہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آگیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے ، حواس مادی محسوسات ،  مغیبات و مشہودات ہی  سب کچھ نہیں ، انکی تہہ میں اور ان سے بالا تر ' غیب' اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔" 
(جاری ہے)۔

مکمل تحریر >>