ایک بلاگر نے ایک مجہول بندے کی کتاب کے کچھ سکین پیج اپنے بلاگ پر لگائے ’جن میں اس جاہل و کذاب مصنف نے خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جید علمائے کرام پر تبرا کیا تھا’ بلاگر نے ہمارے تبصرہ کے جواب میں لکھا کہ
عنیقہ ناز said...
بنیاد پرست صاحب، میرا بھی یہی سوال ہے کہ آپکو کیسسے پتہ چلا کہ کتاب کے مصنف کھسرے ہیں۔ یہ مہارت کافی لوگ حاصل کرنا چاہیں گے کہ تحریر پڑھ کر انسان کے کھسرے ہونے کا اندازہ لگا سکیں۔
میں نے اپنی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لئے آپکا تبصرہ ڈال دیا ہے۔ دیکھ لیں یہ حوصلہ بھی کسی کسی میں ہوتا ہے۔
آپ نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں میری رائے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں اس بات کا دوہرانا معقول معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئ انسان مکمل نہیں۔ معصوم تو انبیاء کی ذات ہوتی ہے ان سے بھی ہمارے بعض علماء ظلطیاں منسوب کر چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ ایک انسان ہی تھے۔ ماورائے انسان نہیں۔ ظلطی ان سے بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔
یہ بھی بالکل ضروری نہیں کہ اگر کسی انسان کی ایک خوبی کو بیان کیا جائے تو اسکی ایسی کوئ بات نہ کی جائے جس سے اسکی کوئ کمزوری سامنے آتی ہو۔ اسے شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ شخصیت پرستی بت پرستی سے کم نہیں۔
کتاب کے مندرجات میں یہ پوچھا گیا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ صحابہ ء کرام میں سے تو کسی کے خواب میں بعد از زندگی نہیں آئے لیکن یہاں ہر شخص جو ذرا دینداری قائم کرتا ہے اس کا دعوی کرتا نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی پوچھنا چاہونگی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ خواب میں زیارت رسول کا دعوی کس نے کیا اور یہ کس عہد کی بات ہے؟
میں نے انکے جواب میں لکھنا شروع کیا ، لیکن بات لمبی ہوجانے کی وجہ سےاسے اپنے فورم پر ہی پوسٹ کررہا ہوں۔
میں نے اس بندے کے لیے کھسرے کا لفظ طنزا استعمال کیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے طنزا میرے سے پوچھا ۔ اس سے حقیقی کھسرا مراد نہیں تھا ۔ میرا مطلب یہی تھا کہ یہ لوگ بجائے اسکے کہ کوئی اصلاحی بات کریں’ باتوں کو توڑ موڑ کر عوام کو گمراہ کرتےرہتے اور فضول باتیں پکڑ کر کھسروں کی طرح ناچتے رہتے ہیں۔ ویسے کھسروں پر آپ سے ذیادہ تحقیق کس کی ہوگی ، آپ تو باقاعدہ ان پر مضمون "ایبنارمل تفریح اور ایبنارمل مذاق" لکھ چکیں ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ
آپ نے شاہ ولی اللہ کا نام ایسے لیا ہے جیسے لوگ اپنے کسی ہمجولی اورساتھی کو مخاطب کرتے ہیں ۔اگرنام کے ساتھ حضرت اوررحمتہ اللہ علیہ لگادیں تواس سے آپ کا کچھ نہ بگڑے گااورنہ یہ شخصیت پرستی کے زمرہ میں آتا ہے بلکہ یہ حقدارکو اس کاحق دیناہے۔
یہ بات حقیقت ہے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی نظیر نہ اپنے زمانے میں یا ہندوستان میں، بلکہ بہت سے قرون اور ممالکِ اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ حضرت موصوف کیا تھے؟ خدائے تعالیٰ کی ایک حجت قاطعہ تھی جو بارہویں صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔
حضرت شاہ صاحب کی زندگی اور علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے۔ مثلاً حضرت کی تصنیف و تالیف، ترجمہ قرآن کی بنیاد، نصابِ حدیث کی تاسیس، درس کی اصلاح، اسرارِ شریعت کی دل نشین اور موثر تشریح، کلام، تصوف، فلسفہ، اخلاق اور نظام حکومت میں ان کے خاص خاص قابل قدر نظریات، اصول تفسیر و اصول حدیث میں خاص خاص تحقیقات ،جہاد کا جوش، حکومت اسلامیہ کی خلافت راشدہ کے اصولوں پر تشکیل و تاسیس، ظاہری و باطنی علو م کا حیرت انگیز اجتماع وغیرہ وغیرہ اتنے کمالات و خصائص ہیں جو اہلِ نظر و فکر کے لئے اور اہلِ دل و اہلِ ذوق اربابِ قلم کے لئے تحقیق و تدقیق کا ایک میدان ہیں۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک جاہل مجہو ل شخص ،جسکے علمی اور عملی شجرہ نصب کو آپ خود بھی نہیں جانتیں ، نہ آپ نے یہ تحقیق کی کہ کیا یہ بندہ اس قابل بھی ہے کہ اتنے بڑے علمائے زمانہ پر تنقید کررہا ہے، چلیں آپ نے اگر اسکی علمی حیثیت کے متعلق تحقیق نہیں کی تو کیا کم از کم کسی عالم سے ہی پوچھ لیتیں کہ جوا س نے لکھا ہے اسکے متعلق صحابہ، فقہا، آئمہ بزرگان دین کی کیا رائے ہے ؟ یا خود ہی دیکھ لیتیں کہ کیا اس نے اپنے موقف پر قرآ ن وحدیث سے بھی کوئی دلیل پیش کی ہے ؟ اس بندے کا علمی کمال تو صرف یہ ہے کہ اس نے مختلف علما کی کتابوں میں سے واقعات آگے پیچھے سے کاٹ کرمنافقانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے صرف لفاظی کی ہے اور آپ نے اسکی تحریر وحی الہی مان لیا، اور اس کے مقابلے میں ایک ایسی نابغہ روزگار ہستی ہے جس کے علم و حکمت، تقوی و اخلاص پر امت کی کثیر تعداد کا اجماع ہے ’ کے دفاع کو شخصیت پرستی کہنا شروع کردیا۔
ایک بات یاد رکھیں دین کے معاملے میں‘ کلمواالناس علی قدرعقولھم ’کی رعائت بہت ضروری ہےاور کی جاتی ہے۔ انسان کو انہی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جن کو سمجھنے کی اس کے اندر صلاحیت ہو ۔ ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے کیونکہ قاعدہ ہے‘ الناس أعداء ما جهلو’۔ لوگ جس چیز سے جاہل ہوں اس کے دشمن بن جانتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک باب قائم کیا هے۔(باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا)یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتهہ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑهایا کہ وه اس کو نہیں سمجهیں گے ۔یہی مسئلہ آپ کے ساتھ بھی پیش آیا اور آپ کے اس پسندیدہ رائٹر کے ساتھ بھی ۔اس کی اور آپ کی ناقص عقل میں جو بات نہیں آسکی ، آپ نے بجائے علم والوں کی طرف رجوع کرنے کے’ اس پر فتوے لگانے شروع کردیے۔ محترمہ کسی ایسی شخصیت پر جس کے علم وفضل پرامت کے ایک بڑے طبقے نے اعتماد کیاہو،اس کے متعلق کسی شخص کا جلد بدگمانی میں مبتلاہونا صرف اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ وہ شخص اعجاب رائے میں مبتلاہے ۔
اس موضوع پر ہمارے دوست بلاگر انکل ٹام نے بھی ایک جگہ اچھا لکھا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ اس طرف زور لگانے پر تُلا ہوا ہے کہ اسلام ہماری مرضی کے مطابق ہو ، یعنی انکو اللہ کے بناے ہوے پر عمل نہ کرنا پڑے بلکہ جو انکا عمل ہو اسکو اسلام کا نام دے دیا جائے ۔ وہ ہر جگہ اپنی عقل سے دین کو پرکھتے اور علما پر طعن کرتے نظر آتے ہیں ، ان لوگوں کا حال بلکل ایسے ہی جیسے ایک موچی کسی ٹاپ سرجن پر اعتراض کردے کہ آپ ٹانکے صحیح نہیں لگاتے، میں جوتوں کو دس سال سے سی رہا ہوں مجھے زیادہ تجربہ ہے۔ لہذا مریض کو ٹانکے لگانے کے معاملے میں آپ سے بہتر میں جانوں گا ۔ تو اس موچی کو سکیورٹی والے لاتیں مار کر باہر نکال دیں گے کہ صاحب آپ موچی ہیں یہ بات آپ کسی موچی سے جا کر کر سکتے ہیں سرجن پر اعتراض سرجن ہی کرے گا ۔ بلکل اسی طرح چاہے آپ نے لینکس یا ونڈوز کے اردو ترجمے کر دیے یا پھر کیمیسٹری یا بیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ، آپ کی مہارت اسی فن میں ہے لہذا آپ اپنی چولیاں اسی فن میں ماریں ، اس فن کے ماہر موجود ہیں ، اگر اس فن میں کوی غلطی پر ہے تو اسکو ٹوکنے کا حق بھی اسی فن کے ماہر کو ہے ۔ دین کے معاملے میں اعتراض کرنے کا حق صرف ان کو ہے جو اسکا علم رکھتے ہیں، جس کو قرآن کی ایک آیت دیکھ کر بھی پڑھنی نہ آتی ہواس سے قرآن کی تفسیر پڑھنی شروع کردی جائے گا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا حق ہے ، صحیح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی۔ متفق علیہ۔
ترجمہ:… “جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔”(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو لوگ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے منکر ہیں، وہ اس حدیث شریف سے ناواقف ہیں۔ خواب میں زیارتِ شریفہ کے واقعات خیرالقرون سے اس قدر بے شمار ہیں کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔تاریخ کی کتابوں میں حضرت بلال رضی اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ جس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شام ہجرت کر جانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں آکر شکوہ فرماتے ہوئے کہنا"ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟ (’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘) اس پر پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مدینہ آنا اور حسنین رضوان اللہ کی فرمائش پر اذان دینے کا واقعہ مشہو ر ہے۔( السيرة الحلبيه، 2 : 308)
اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انکو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھنا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نویں محرم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا وغیرہ اور بھی کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات موجود ہیں، حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کشف المعجوب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا اپنا واقعہ لکھا ہے۔ مطلب خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔ اسلاف سے ثابت ہے۔
بعض جہلا اس بارے یہ وسوسہ پھیلاتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بیداری میں نہیں کی تواس کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کو خواب آتی ہے اسے خواب ہی میں قدرتی طور پر اس کا علم ضروری حاصل ہوجاتا ہے اور اسی علم پر مدار ہے، اس کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں،الا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ٹھیک اسی شکل و شمائل میں ہو جو وصال سے قبل حیاتِ طیبہ میں تھی، اور اس سے خواب کی تصدیق ہوجائے۔
یہ بات حق ہے کہ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بڑی برکت و سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبع سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی، وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔
یہ بات تو ثابت ہے کہ آپ کا مصنف جس کی تحریر کو لے کر آپ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا رد کرگئیں ’ بالکل ایک جاہل و اجہل شخص ہے، اس لیے اس نے قرآن وحدیث سے اپنے موقف کے حق میں کوئی شرعی دلیل دینے کے بجائے محض لفاظی کی ہے۔ اگر آپ اب بھی اس کے موقف کو حق سمجھتیں ہیں تو آپ اسکے موقف کے حق میں قرآن وحدیث ، صحابہ رضوان اللہ ، آئمہ کی زندگی میں سے کوئی دلیل لے آئیں یا میری پیش کی گئی دلیلوں کا شرعیت کی روشنی میں رد فرما دیں۔
اللہ ہمیں نفس پرستی کے بجائے حق پرستی عطا فرمادے۔