ہفتہ، 30 جولائی، 2011

خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ

ایک بلاگر نے ایک مجہول بندے کی کتاب کے کچھ سکین پیج  اپنے بلاگ پر لگائے ’جن میں اس جاہل و کذاب مصنف  نے خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جید علمائے کرام پر تبرا کیا تھا’ بلاگر نے  ہمارے  تبصرہ کے جواب میں لکھا کہ 

عنیقہ ناز said...
بنیاد پرست صاحب، میرا بھی یہی سوال ہے کہ آپکو کیسسے پتہ چلا کہ کتاب کے مصنف کھسرے ہیں۔ یہ مہارت کافی لوگ حاصل کرنا چاہیں گے کہ تحریر پڑھ کر انسان کے کھسرے ہونے کا اندازہ لگا سکیں۔
میں نے اپنی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لئے آپکا تبصرہ ڈال دیا ہے۔ دیکھ لیں یہ حوصلہ بھی کسی کسی میں ہوتا ہے۔
 
آپ نے شاہ ولی اللہ کے بارے میں میری رائے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں اس بات کا دوہرانا معقول معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئ انسان مکمل نہیں۔ معصوم تو انبیاء کی ذات ہوتی ہے ان سے بھی ہمارے بعض علماء ظلطیاں منسوب کر چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ ایک انسان ہی تھے۔ ماورائے انسان نہیں۔ ظلطی ان سے بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔
یہ بھی بالکل ضروری نہیں کہ اگر کسی انسان کی ایک خوبی کو بیان کیا جائے تو اسکی ایسی کوئ بات نہ کی جائے جس سے اسکی کوئ کمزوری سامنے آتی ہو۔ اسے شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ شخصیت پرستی بت پرستی سے کم نہیں۔ 
 
کتاب کے مندرجات میں یہ پوچھا گیا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ صحابہ ء کرام میں سے تو کسی کے خواب میں بعد از زندگی نہیں آئے لیکن یہاں ہر شخص جو ذرا دینداری قائم کرتا ہے اس کا دعوی کرتا نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی پوچھنا چاہونگی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ خواب میں زیارت رسول کا دعوی کس نے کیا اور یہ کس عہد کی بات ہے؟

میں نے انکے جواب میں لکھنا شروع کیا ، لیکن  بات لمبی ہوجانے کی وجہ سےاسے  اپنے فورم پر ہی پوسٹ کررہا ہوں۔

میں نے اس بندے کے لیے کھسرے کا لفظ طنزا استعمال کیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے طنزا میرے سے پوچھا ۔ اس سے حقیقی کھسرا مراد نہیں تھا ۔ میرا مطلب یہی تھا کہ  یہ لوگ بجائے اسکے کہ کوئی اصلاحی بات کریں’  باتوں کو توڑ موڑ کر  عوام کو گمراہ کرتےرہتے  اور فضول باتیں پکڑ کر کھسروں کی طرح  ناچتے رہتے ہیں۔ ویسے کھسروں پر آپ سے ذیادہ  تحقیق کس  کی  ہوگی ، آپ تو  باقاعدہ ان پر مضمون "ایبنارمل تفریح اور ایبنارمل مذاق" لکھ چکیں ہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ 

  آپ نے شاہ ولی اللہ کا نام ایسے لیا ہے جیسے لوگ اپنے کسی ہمجولی اورساتھی کو مخاطب کرتے ہیں ۔اگرنام کے ساتھ حضرت اوررحمتہ اللہ علیہ لگادیں تواس سے آپ کا  کچھ نہ بگڑے گااورنہ یہ شخصیت پرستی  کے زمرہ میں آتا ہے بلکہ یہ حقدارکو اس کاحق دیناہے۔
یہ بات حقیقت ہے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ، سرزمین ہند کے ان اکابر میں سے ہیں جن کی نظیر نہ اپنے زمانے میں یا  ہندوستان میں، بلکہ بہت سے قرون اور ممالکِ اسلامیہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ حضرت موصوف کیا تھے؟ خدائے تعالیٰ کی ایک حجت قاطعہ تھی جو بارہویں صدی میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔
حضرت شاہ صاحب کی زندگی اور علمی و عملی کمالات کے اتنے گوشے ہیں کہ ہرایک مستقل تصنیف کا محتاج ہے۔ مثلاً حضرت کی تصنیف و تالیف، ترجمہ قرآن کی بنیاد، نصابِ حدیث کی تاسیس، درس کی اصلاح، اسرارِ شریعت کی دل نشین اور موثر تشریح، کلام، تصوف، فلسفہ، اخلاق اور نظام حکومت میں ان کے خاص خاص قابل قدر نظریات، اصول تفسیر و اصول حدیث میں خاص خاص تحقیقات ،جہاد کا جوش، حکومت اسلامیہ کی خلافت راشدہ کے اصولوں پر تشکیل و تاسیس، ظاہری و باطنی علو م کا حیرت انگیز اجتماع وغیرہ وغیرہ اتنے کمالات و خصائص ہیں جو اہلِ نظر و فکر کے لئے اور اہلِ دل و اہلِ ذوق اربابِ قلم کے لئے تحقیق و تدقیق  کا ایک میدان ہیں۔ 
 افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک   جاہل مجہو ل شخص ،جسکے علمی اور عملی شجرہ نصب کو آپ خود بھی نہیں جانتیں ، نہ آپ  نے یہ  تحقیق کی کہ کیا  یہ بندہ اس قابل بھی ہے کہ اتنے بڑے علمائے زمانہ  پر تنقید کررہا ہے، چلیں  آپ نے اگر  اسکی علمی حیثیت کے متعلق تحقیق   نہیں کی تو  کیا کم از کم  کسی عالم سے ہی پوچھ لیتیں  کہ جوا س نے لکھا ہے اسکے متعلق صحابہ،   فقہا، آئمہ  بزرگان دین کی کیا رائے ہے ؟ یا خود ہی دیکھ لیتیں کہ کیا اس نے  اپنے موقف پر قرآ ن وحدیث سے بھی کوئی دلیل پیش   کی ہے ؟  اس بندے کا علمی کمال تو  صرف یہ ہے کہ اس نے مختلف علما کی کتابوں میں سے واقعات آگے پیچھے سے کاٹ کرمنافقانہ انداز میں  پیش کرتے ہوئے صرف لفاظی کی ہے اور آپ نے اسکی تحریر وحی الہی مان لیا، اور اس کے مقابلے میں ایک ایسی  نابغہ روزگار ہستی ہے جس کے علم و حکمت، تقوی و اخلاص  پر امت کی کثیر تعداد کا اجماع ہے  ’ کے  دفاع کو شخصیت پرستی کہنا  شروع کردیا۔ 
ایک بات یاد رکھیں دین کے معاملے میں‘ کلمواالناس علی قدرعقولھم ’کی رعائت بہت ضروری ہےاور کی جاتی ہے۔ انسان کو انہی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جن کو سمجھنے کی اس کے اندر صلاحیت ہو ۔ ورنہ گمراہی کا خطرہ ہے کیونکہ قاعدہ ہے‘ الناس أعداء ما جهلو’۔  لوگ جس چیز سے جاہل  ہوں اس کے دشمن بن جانتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک  باب قائم کیا هے۔(باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا)یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتهہ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑهایا کہ وه اس کو نہیں سمجهیں گے ۔یہی مسئلہ آپ کے ساتھ بھی پیش آیا اور آپ کے اس پسندیدہ رائٹر کے ساتھ بھی ۔اس  کی  اور آپ کی ناقص عقل میں جو بات نہیں آسکی ، آپ  نے بجائے علم والوں کی طرف رجوع کرنے کے’  اس پر فتوے لگانے شروع کردیے۔ محترمہ کسی ایسی شخصیت پر جس کے علم وفضل پرامت کے ایک بڑے طبقے نے اعتماد  کیاہو،اس کے متعلق کسی شخص کا  جلد بدگمانی میں مبتلاہونا صرف اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ وہ شخص اعجاب رائے میں مبتلاہے ۔  

اس موضوع پر ہمارے دوست بلاگر انکل ٹام نے بھی ایک جگہ  اچھا  لکھا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ اس طرف زور لگانے پر تُلا ہوا ہے کہ اسلام ہماری مرضی کے مطابق ہو ، یعنی انکو اللہ کے بناے ہوے پر عمل نہ کرنا پڑے بلکہ جو انکا عمل ہو اسکو اسلام کا نام دے دیا جائے ۔ وہ ہر جگہ اپنی عقل سے دین کو پرکھتے اور علما پر طعن کرتے نظر آتے ہیں ، ان لوگوں کا حال  بلکل ایسے ہی جیسے ایک موچی کسی ٹاپ سرجن پر اعتراض کردے کہ آپ ٹانکے صحیح نہیں لگاتے، میں جوتوں کو دس سال سے سی رہا ہوں مجھے زیادہ تجربہ ہے۔ لہذا مریض کو ٹانکے لگانے کے معاملے میں آپ سے بہتر میں جانوں گا ۔ تو اس موچی کو سکیورٹی والے لاتیں مار کر باہر نکال دیں گے کہ صاحب آپ موچی ہیں یہ بات آپ کسی موچی سے جا کر کر سکتے ہیں سرجن پر اعتراض سرجن ہی کرے گا ۔ بلکل اسی طرح چاہے آپ نے لینکس یا ونڈوز کے اردو ترجمے کر دیے یا پھر کیمیسٹری یا بیالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ، آپ کی مہارت اسی فن میں ہے   لہذا آپ اپنی چولیاں اسی فن میں ماریں ، اس فن کے ماہر موجود ہیں ، اگر اس فن میں کوی غلطی پر ہے تو اسکو ٹوکنے کا حق بھی اسی فن کے ماہر کو ہے ۔ دین کے معاملے میں اعتراض کرنے کا حق صرف ان کو ہے جو اسکا علم رکھتے ہیں، جس کو قرآن کی ایک آیت دیکھ کر بھی پڑھنی نہ آتی ہواس سے قرآن کی تفسیر  پڑھنی شروع کردی جائے گا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

 خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

 خواب میں   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا حق  ہے ، صحیح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
          “من راٰنی فی المنام فقد راٰنی، فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی۔ متفق علیہ۔
          ترجمہ:… “جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے سچ مچ مجھے ہی دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔”(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

          اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو لوگ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے منکر ہیں، وہ اس حدیث شریف سے ناواقف ہیں۔ خواب میں زیارتِ شریفہ کے واقعات خیرالقرون سے  اس قدر بے شمار ہیں کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔تاریخ کی کتابوں میں حضرت بلال رضی اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ تفصیل کے ساتھ  مذکور ہے۔  جس میں حضرت  بلال رضی اللہ عنہ کا  حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شام ہجرت کر جانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں آکر  شکوہ فرماتے ہوئے کہنا"ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟ (’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘) اس پر پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مدینہ آنا اور حسنین رضوان اللہ کی فرمائش پر اذان دینے کا واقعہ مشہو ر ہے۔( السيرة الحلبيه، 2 : 308)
اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انکو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  دیکھنا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نویں محرم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا وغیرہ اور بھی  کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات موجود ہیں، حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کشف المعجوب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا اپنا واقعہ لکھا ہے۔ مطلب خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔ اسلاف سے ثابت ہے۔

بعض جہلا اس بارے یہ وسوسہ پھیلاتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بیداری میں نہیں کی تواس کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کو خواب آتی ہے اسے  خواب ہی میں قدرتی طور پر اس کا علم ضروری حاصل ہوجاتا ہے اور اسی علم پر مدار ہے، اس کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں،الا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ٹھیک اسی شکل و شمائل میں ہو جو وصال سے قبل حیاتِ طیبہ  میں تھی، اور اس سے خواب کی تصدیق ہوجائے۔

 یہ بات حق ہے  کہ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بڑی برکت و سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبع سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی، وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔

یہ بات تو ثابت ہے کہ آپ  کا مصنف جس کی تحریر کو لے کر آپ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا رد کرگئیں ’  بالکل ایک جاہل و اجہل شخص  ہے، اس لیے اس نے قرآن وحدیث سے اپنے موقف کے حق میں کوئی شرعی دلیل دینے کے بجائے محض لفاظی کی ہے۔ اگر آپ اب بھی اس کے موقف کو حق سمجھتیں ہیں تو آپ اسکے  موقف  کے حق میں  قرآن وحدیث ، صحابہ رضوان اللہ ، آئمہ کی زندگی میں سے کوئی دلیل لے آئیں یا میری پیش کی گئی دلیلوں کا شرعیت کی روشنی میں رد فرما دیں۔
اللہ ہمیں نفس پرستی کے بجائے حق پرستی عطا فرمادے۔

مکمل تحریر >>

منگل، 26 جولائی، 2011

مغربی دو رخی اور ہمارے سادہ لوح لوگ


کیا مغربی ممالک اخلاقیات کے اعلی درجے پر فائز ہیں؟
کیا مغرب واقعی  انسانوں کی قدر کرنا سکھاتا ہے ؟
کیا  مغرب  کا مذہب  مساوات و انصاف پسندی  ہے؟
کیا یورپ امریکہ واقعی مسلمان ممالک سے ذیادہ حوصلہ و برداشت رکھتے ہیں ؟

ہمارے ہاں یہ بیماری  عام ہے کہ کوئی شخص کسی مغربی ملک میں چند دن رہ کر آجاتا ہے یا کسی سے  وہاں کی حکومتوں کی اپنے لوگوں کو دی گئی سہولتوں  کے تذکرے سن لیتا ہے تو  پھر ہر جگہ  اپنے معاشرے اور مسلمانوں پر لعنت بھیجتا  اور یورپ و امریکہ  کے نظام  کے  گن گاتا نظرآتا ہے۔حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ اورامریکہ میں میسر وہ سہولتیں جن کو دیکھ کہ ہمارے لوگ اپنے  ملک ومعاشرے کو   گالی دیتے ہیں  صرف   مغرب کے  اپنے  لوگوں کے لیے ہیں یا وہ جو ان جیسا ہوکر رہنا چاہے ۔ مبصرین اس بات کے قائل ہیں  کہ یورپی حکومتیں اب ان خطوط پر سوچ رہی ہیں کہ یا تو مسلمان ہمارے ملکوں میں رہتے ہوئے ہمارے رسم و رواج اور طرز زندگی کے مطابق زندگي گزاریں یا پھر اپنا کوئی اور بند و بست کرلیں ۔افسوس کا مقام ہے کہ مغرب کے منہ سے آج بھی خون مسلم ٹپک رہا ہے اور اس کے ہاتھوں سےآج بھی ایک ایک دن میں ہزاروں مسلمان جل بھن کر راکھ بن جاتے ہیں لیکن پھر ہمارے دانشور  انہیں اعلی اخلاقیات کا مالک،  انصاف پسند، انسانوں کی قدر کرنے والا کہتے ہیں ۔

میں مغر ب کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرتے  ہوئے اس کے چند  اعمال  کا تذکرہ کرنااور اپنے ان مغربی احساس کمتری کا شکار دوستوں کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں ۔

مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار :
مغرب کا اس وقت سب سے بڑا ہتھیار اس کا ذرائع ابلاغ ہے۔ مغربی میڈیا  اس وقت اسلام اور مسلمانوں کےخلاف جنگ میں اسلام مخالف لشکر کے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا متعصبانہ رویہ اور مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔  انکے نيشنل چينل پر نشر ہونے والي ، اسلام اور مسلمانوں كے متعلق ۸۵ فيصد خبريں مسلمانوں كے خلاف ہوتي ہيں اور منفي ہوتي ہيں۔فلسطين و عراق ميں ناجائز قبضہ ، وحشيانہ حملوں اور مسلمانوں كے اپني سر زمين كے حق دفاع سے چشم پوشي كرتے ہوئے ، دشمنوں كے مقابل مسلمانوں كي طرف سے ہونے والي مزاحمت كے مناظر كو دہشت گردی كے عنوان سے نشر كيا جاتا ہے۔ مغرب میں اسلام کے متعلق انگریزی مقولہ”کتے کو مارنے سے پہلے اسے پاگل مشہور کردو“  پرعمل ہورہا ہے   اور مغربی ممالک ایک ”گینگ“ کی صورت میں اپنے اپنے حصہ کا رول ادا کررہے ہیں اور ”سردار“ ان کو حرکت میں رکھ رہا ہے۔

 مغرب کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی تاریخ :
یہ مغربی میڈیا کے اس پراپیگنڈے کا ہی اثر ہے  کہ  ہمارے مسلمان انہیں  مغرب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، انہیں انسانیت دوست ، روشن خیال اور اعتدال پسند کہتے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والے کون تھے ؟وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی پرایٹم بم گرا کر آن واحد میں۶ لاکھ بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ،
کوئی پوچھے ان نام نہاد روشن خیالوں سے کہ آخر ان لوگوں کا جرم کیا تھا، جنہیں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد توپ کے دھانوں پر باندھ کر ہوا میں تحلیل کر دیا گیا ،خود انگریز موٴرخ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دہلی کے مضافات میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جہاں کسی مسلمان عالم دین کی لاش نہ لٹکی ہو ،یہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈال کر کوئلہ بنادیا گیا ،ان کوسوٴروں کی کھال میں بند کر کے ان پر کتے چھوڑ دئیے گئے ۔تحریک ریشمی رومال کے دوران مسلمانوں کو کالے پانی اور جزیرہٴ انڈمان میں قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دینے والے کون لو گ تھے؟ 
چلئے زیادہ دور نہ جائیے عصر قریب میں بوسنیا کے اندر سرب عیسائیوں نے مسلمانو ں کا جو قتل عام کیا جس کے نتیجے میں ایک مختصر سی مدت میں ۱۴، لاکھ مسلما ن موت کی نیند سلا دئیے گئے۔ 1982ء میں اسرائیل کے لبنا ن پر کیے گئے حملوں کے نتیجے میں 17500بے گناہ شہری شہید ہوگئے ،
  30 سال سے جنگ سے نبرد آزما افغانستان کے بھوکے اور ننگے افغان شہریوں کو ”دہشت گرد“ قرار دے کر ان پر حملہ کردیا گیا اور ٹنوں وزنی ڈیزی کٹر بموں سے ان کا بھرکس نکال دیا ، ابھی امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک کی اسلام دشمنی کی آگ ماند نہیں پڑی تھی کہ عراق پر حملہ کردیا اور ہنستے بستے ملک کو تہس نہس کردیا۔ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک نے انسانوں سے آباد شہروں کابل، قندھار، بغداد، فلوجہ، کربلا اور نجف اشرف کو قبرستان میں بدل دیا ۔ 

فلسطین پر اسرائیل عرصہ درازسے اپنی جارحیت مسلط کیے ہوئے ہے اس دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کو کسی نے ”یہودی دہشت گردی“ کا نام نہیں دیا حالانکہ پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت مسلّم ہے اور اس ملک کی وجہ سے پوری دنیا کا امن خطرے سے دوچار ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اسرائیل کے محافظ ہیں اور اس کی دہشت گردی میں برابر کے شریک ہیں۔ ۵/جون ۲۰۰۸ء اخبارات میں  ایک خبر چھپی‘ اس کا خلاصہ ہے:
”امریکی صدارتی امیدوار بارک اوبامانے کہا ہے کہ دہشت گرد گروپ اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ اسرائیل کے سچے دوست ہیں اور اسرائیل کو در پیش خطروں کو امریکا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ․․․․“

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ․․
دشمنی ان کی زبان سے نکلی پڑتی ہے اور جو کچھ مخفی ہے ان کے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔“

مغرب کے قوانین اخلاقیات، مساوات و رواداری

مغرب نے ہمیشہ سے اسلام، پیغمبر ِ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا حریف اور دشمن جانا اور سمجھا ہے۔ اسلام، پیغمبر اسلام، شعائر اسلام، مسلمان اور ان کی مقدس ترین شخصیات کی توہین، تنقیص، تحقیر اور تذلیل کرنے والا کوئی ملعون ومردود ہو، وہ ان کا حلیف و دوست، ان کی مدد و نصرت کا حق دار اور حقوق انسانی و آزادی کا مستحق ہے۔ دنیا بھر کے یہودی اور عیسائی کم از کم اس ایک نکتے پر متفق و متحد نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی لعین، سلمان رشدی ملعون، تسلیمہ نسرین مردود اور مرتد عبدالرحمن تک ہر ایک پر انہوں نے اپنی نوازشات کی بارش کی ہے۔
سیاسی طور پر دیکھیں تو ہر ملک کے انتہائی کرپٹ حکمرانوں کو انہیں وواصلاح پسندوں“ کے در پر جائے امان ملتی ہے ،تمام مسلم دنیا کے کرپٹ حکمراں اور سیاست داں یہیں پناہ گزیں ہیں۔ سلمان رشدی اور فتنہٴ امامت خواتین کی بانی اسریٰ نعمانی اور مغرب کے ایجنٹ لندن سے ہی کارو بار قتل وخون چلا رہے ہیں، ایک طرف تو یہ مغربی شاطر مسلم دنیا کی غریبی اور ابتر حالت پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں ،دوسری جانب جو لٹیرے اس ابتر صورت حال کے لئے ذمہ دار ہیں انہیں اپنے گھروں میں امان دیتے ہیں ،ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اپنے یہاں بینکوں میں جمع کرکے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، صومالیہ کی مثال بالکل تازہ ہے، جہاں پڑوسی عیسائی ملک کی فوج کو اپنے ایمان فروش ایجنٹوں کے ساتھ صومالیہ پر قبضہ کرادیا اور وہاں کشت وخون جاری ہے ،مغرب کا اسلحہ بھی فروخت ہورہا ہے اور مسلمان آپسی انتشار میں بھی مبتلا ہیں۔
کہیں پیغمبر اسلام (ص) کے توہین آمیز خاکے شائع جاتے ہیں  تو کبھی آزادی کے نام پر  توہین آمیز خاکےچھپوا کر سوا ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا  جاتا ہے پھر اسی اپنی اسی نام نہاد  آزادی کو خود ہی  کچلتے ہوئے سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کی  اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے پر پابندی لگادی جاتی ہے، کہیں پردہ کرنے کی بنا پر بچیوں کو اسکولوں سے اور خواتین کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے اور کہیں اسلام کے مینارے کھٹک رہے ہیں ۔ جرمنی کے شہر ڈریسڈن کی عدالت میں جج اور پولیس اہلکاروں کے سامنے ایک باپردہ مسلمان مصری خاتون مروہ الشربینی کو قتل کردیا جاتا ہے۔  پوپ بینی ڈکٹ شانِ رسالت کی توہین کرکے صہیونیوں سے تھپکیاں وصول کرتا ہے
جن باتوں یعنی قدامت پرستی، بنیاد پرستی، عدم رواداری وغیرہ پر عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وہی تمام خصوصیات یورپ، امریکا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ لڑنے والے ہر ملک میں بڑھائی جارہی ہیں۔آزادی اظہار رائے کے دعویدارکومسلمانوں کی توہین و تنقیص‘ ان کے دین و مذہب اوران کے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کے وقت تو آزادی اظہار رائے کا شدت سے احساس و خیال آتا ہے‘ لیکن یہ احساس‘ خیال اور جنون”ہولو کاسٹ“ کے قانون کے خلاف زبان کھولنے اور لکھنے کی جرأت کیوں نہیں دیتا‘ وہاں انکے آزادی اظہار رائے کے جذبہ کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟” مغربی ممالک میں مسلمانوں کی اذان پر پابندی، مساجد کے میناروں پر پابندی، مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی، کیا یہ پابندیاں مذہبی آزادی اور رواداری کا ثبوت ہیں یا تنگ نظری اور تعصب پر مبنی اقدامات کا منہ بولتا ثبوت ؟

خلاصہ یہ کہ
اس وقت مغربی اقوام کی اولین ترجیح دولت کو ہرممکنہ ذرائع سے حاصل کرنا‘ اسے اپنی نفسانی خواہشات پر خرچ کرنا اور اس کے لئے دوسری اقوام کے مادی وسائل پر قبضہ کرنا ہی رہ گیا تھا‘ تاکہ اپنے عیش وعشرت کا گراف مزید بلند کیا جاسکے جو آج تک جاری ہے‘ وہ پرندوں کی طرح تیز رفتاری سے اڑنا‘ سمندر کی گہرائیوں میں مچھلی کی طرح تیرنا تو سیکھ چکے تھے مگر زمین پر انسانوں کی طرح چلنا بھول گئے تھے‘ دوسری قوموں پر ڈر‘ خوف اور نفرت بٹھانے‘ ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لئے پوری عقل‘ قوت اور لامحدود وسائل صرف آلاتِ حرب کو مہلک سے مہلک تر بنانے میں خرچ کئے جانے لگے‘ ۔
 ان روشن خیالوں اور اعتدال پسند وں کے یہ سب سیا ہ کارنامے پڑھ کے اور سن کے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتاہے،حیرت کی بات ہے، اپنے آپ کو روشن خیال اور اعتدال پسند کہلانے والے لو گ وہ ہیں جن کی اپنی تاریخ ظلم و تشدد سے لبریز ہے ،آج وہی انسانیت کے علمبردار گنے جاتے ہیں، مسلمانوں کو اخلاقیات سے محروم  اور انتہاء پسند کہنے والے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے کچھ ناعقبت اندیش مسلمان یا توحقیقت سے بے خبر ہیں یا پھر جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ،یقینا جو کوئی بھی ان حقائق کو جاننے کی کوشش کرے گا وہ کبھی بھی اغیار کے ان بے بنیا د پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوگا ۔

کیا یہ مغربی "صفات " ہمارے ملکوں اور لوگوں میں بھی پائی جاتیں ہیں ؟
اوپر دی گئی تفصیل سے  ’ مغربی ممالک  میں   نام نہاد سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کا جس طرح اخلاقی، مذہبی، ذہنی  اور جسمانی استحصال کیا جاتا ہے  وہ بالکل  واضح ہے۔ انصاف تو یہ تھا کہ مسلم ملک بھی اپنی کلچر، مذہب کے مطابق اپنے یہاں آنے والے مغربی لوگوں کو پابند کرتے، لیکن اسے  ہماری بدقسمتی کہیں یا  وسعت ظرفی کہ  مغربی ممالک کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف انتہائی تعصب  وحسد کے اظہار کے باوجود کبھی  پاکستان یا کسی عرب ملک میں اسلام کے نام پر  کسی گورے کو ننگے پھرنے ، سور کھانے، شراب پینے سے نہیں  روکا گیا ۔ یہ بات ثبوت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو یورپ  کے مسلمانوں سے ذیادہ آزادی حاصل ہے  ؟ پاکستان میں کہاں کسی عیسائی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا گیا ہے ؟ ،یہاں  تمام اقلیتیں محفوظ بھی ہیں اور خوش بھی، انہیں پاکستان میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔شومئی قسمت کہ آج کا مسلمان ان بنیادی اسباب سے محروم ہے جو اس کے دشمن کے پاس ہیں، جن کے ذریعے سے وہ جو چاہتے ہیں ان کی جانب منسوب کر دیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں انہیں بدنام کرتے رہتے ہیں۔ کبھی انتہاء پسند ی کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو کبھی تنگ نظر کہا جاتاہے،اور اس پر مستزاد یہ کہ عام فہم مسلمان بھی دشمن کے اس پروپیگنڈے میں آکر دشمن کے ان تمام پراپیگنڈوں کو حقیقت جان لیتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں ۔
جہاں تک ہمارے معاشرے میں   زناکاری ، حرام کاری، شراب نوشی، ناچ گانا کے عام ہونے کی  بات ہے تو   یہ انہی غیر قوموں خصوصا مغرب سے امپورٹ شدہ ہے۔، اسکا تازہ ترین ثبوت امریکی سفارتخانے کا پاکستان میں اپنے ہاں ہم جنس پرستوں  کا فکنکشن کرانا اور اس دنیا کے گندھے ترین فعل کو اپنی سرپرستی میں رائج کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کو مغربی معاشرہ کی  طرح برائیوں، گمراہیوں کی آماجگاہ بنانے کی مہم کا آغاز کرنا  ہے ۔

میں  پاکستانی معاشر ے کو پرفیکٹ اور قابل تقلید معاشرہ نہیں کہتا  ، یہ کہنے کی جسارت ضرور  کرتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ میں  ابھی تک  لوگوں کی اکثریت   صبر ، برداشت،  اخلاقیات، رواداری میں یورپی لوگوں سے ذیادہ  آگے ہے۔  یہاں کا  فرد  بنیادی طور پر قاتل نہیں رحم دل ہے ،وہ ڈاکو نہیں ایثار پسند ہے،وہ عزتوں کا لٹیرہ نہیں عصمتوں کا پاسبان ہے،وہ تنگ نظر نہیں روشن خیال ہے،وہ انتہاء پسند نہیں اعتدال پسند ہے۔ اسکے دل میں ابھی بھی  وہ  چیز موجود ہے جو ساری دنیا کے کافروں  کے پاس نہیں ۔ اسکو بس ایک  نظام اور  ہادی کی ضرورت ہے ۔

میں نے اوپر جو کچھ لکھا  مکمل غیر جانبدار رہتے ہوئے لکھا  اسی غیر جانبداری کو جاری رکھتے ہوئے میں آخر میں   اس بات کا اعتراف  ضرور کروں گا کہ مغربی ممالک کے لوگوں میں ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے  جوکہ ہمارے لوگوں  میں نہیں ہے اور وہی صفت انکی کامیابی کا راز ہے۔ وہ صفت ہے احساس ذمہ داری  ۔ وہ لوگ اپنے لوگوں اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں، جبکہ ہم میں اس کا فقدان ہے، ہمیں نہ کسی فرد کا احساس ہے اور نہ اپنے ملک کا اور یہی ہماری تنزلی کی ایک وجہ ہے۔ ہم میں  ہر کوئی اپنی ذات   میں مگن  ہے۔ … الله تعالیٰ ہماری اصلاح فرما دے اور ہمیں عقل سلیم عطافر مائے، تاکہ ہم حق اور باطل میں تمیز کر سکیں۔

مکمل تحریر >>

بدھ، 20 جولائی، 2011

مسلمانوں تیاری پکڑ لو : نیکیوں کی لوٹ سیل لگنے والی ہے


  1. رمضان میں عبادت کے لیے کیسے ٹائم نکالا جائے ؟
  2. کن اعمال پر ذیادہ ٹائم لگایا جائے ؟
  3. رمضان کی برکات سے کیسے ذیادہ سے ذیادہ فاعدہ اٹھا یا جاسکتاہے ؟
  4. حرام آمدنی والے کیا کریں ؟

 اللہ اپنی صفت رحیمی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں بار بار ایسے مواقع فراہم کرتا رہتا  ہے کہ ہم اپنے گناہوں اور معصیتوں کی معافی تلافی  کرکے اور اپنے گناہوں کا بوجھ اتار کر جنت کے  مستحق اور جہنم سے بچ  جائیں ۔رمضان اور مضان کی عبادات اور  اس کی ساعتوں کی برکات سے انسان کے گناہوں کی غلاظت کا کس طرح صفایا ہوتا ہے؟  حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا:


”اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، ایسا مہینہ جس میں ایک ایسی رات ...شب ِ قدر... ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے...یعنی اس ایک رات میں عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ملتا ہے... اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے دنوں کا روزہ فرض اور راتوں کی عبادت نفل قرار دی ہے، جو شخص اس مہینہ میں ایک نیک عمل کے ذریعہ قربِ خداوندی کا طالب ہو، وہ ایسا ہی ہے جیسے دیگر مہینہ میں فرض ادا کرے ...یعنی نفل کا ثواب فرض کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے... اور جو شخص کوئی فریضہ بجالائے ،وہ ایسا ہے جیسے دیگر مہینوں میں ستر فرض ادا کرے...یعنی رمضان میں ایک فرض کا ثواب ستر گنا ہوتا ہے (مشکوٰة ۱/۱۷۴، البیہقی فی شعب الایمان ۳/۳۰۵

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم ذات، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رشک ملائک شخصیات اور اکابر صلحا رمضان کا بہت  اہتمام فرماتے تھے، ہمارے جیسے غرق عصیاں لوگوں کو تو اس کی زیادہ  ضرورت ہے کہ یہ مارے گناہوں کی غلاطت دھونے اور مغفرت الٰہیہ حاصل کرنے کا نادر و انمول تحفہ اور گوہر نایاب ہے۔اسی بنا پر فرمایا 

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے خود سنا ہے کہ: “یہ رمضان آچکا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنادئیے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔” جب اس مہینے میں بخشش نہ ہوئی تو کب ہوگی؟

(رواہ الطبرانی فی الأوسط، وفیہ الفضل بن عیسیٰ الرقاشی وھو ضعیف کما فی مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۴۳)

کیا سب کام چھوڑ کر مسجد سے جڑ جائیں  ؟
رمضان آنے سے پہلے اپنے نظام الاوقات بدل کر ایسا بنانے کی کوشش کریں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ جل شانہ کی عبادت میں صرف ہو۔  طریقہ نہایت آسان ہے، رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے یہ سوچو کہ مقدس مہینہ آرہا ہے، کس طرح میں اپنی مصروفیات کم کر سکتا ہوں۔ اس مہینے میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکلیہ عبادت کے لئے فارغ کر لے تو سبحان اللہ، اور اگر کوئی شخص بالکلیہ اپنے  آپ کوفارغ نہیں کر سکتا تو پھر یہ دیکھے کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لئے چھوڑ سکتا ہوں،ان کو چھوڑے۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہوں،  ان کو کم کرے، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک مئوخر کر سکتا ہے۔ ان مئوخر کرے۔اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کرے ۔

رمضان کی برکات سےکیسے ذیادہ سے ذیادہ فاعدہ اٹھا یا جاسکتاہے ؟
جب رمضان المبارک کو دوسرے مشاغل سے فارغ کر لیا، تواب اس فارغ وقت کو کس کام میں صرف کرے؟ جیسا کہ اوپر حدیث میں ذکر ہوا کہ اس ماہ میں  اعمال کاثواب ستر گناہ تک بڑھ جاتا ہے، اسی لیے خود کو ذیادہ سے ذیادہ عبادت میں، نماز میں، ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن اور توبہ استغفار میں مشغول کرلے۔ 
تلاوت قرآن کو اس مہینے سے خاص مناسبت ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، اس مہینہ میں تلاوت کریں اور اس کے علاوہ چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے زبان سے اللہ کا ذکر کریں۔ تیسرا کلمہ: سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر اور درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے، اس کی کثرت کا اہتمام کریں۔
 نوافل کی جتنی کثرت ہو سکے کریں۔ عام دنوں میں رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن رمضان المبارک میں چونکہ انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے، تھوڑا پہلے اٹھ جائے اور سحری سے پہلے تہجد پڑھنے کا معمول بنا لے۔ اور  نماز خشوع کے ساتھ اور با جماعت پڑھنے کا تو لازمی اہتمام ہو۔ مزید تفصیل

سب سے بڑا مجاہدہ
ان سب نفلی نمازوں، نفلی عبادات، نفلی ذکر و اذکار، اور نفلی تلاوت قرآن کریم سے زیادہ مقدم ایک اور چیز ہے۔ جس کی طرف توجہ نہیں  دی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس مہینے کو گناہوں سے پاک کرکے گزارنا کہ اس ماہ میں ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ کم از کم اس ماہ میں تو جھوٹ نہ بولو۔ اس میں تو غیبت نہ کرو۔ اس میں تو بد نگاہی کے اندر مبتلا نہ ہو۔ اس مبارک مہینہ میں تو کانوں کو غلط جگہ پر استعمال نہ کرو۔ اس میں تو رشوت نہ کھائو، اس میں تو سود نہ کھائو، کم از کم یہ ایک مہینہ اس طرح گزار لو۔اگر  گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچتے  ہوئے یہ مہینہ گزار دیا پھر چاہے ایک نفلی رکعت نہ پڑھی ہو اور تلاوت زیادہ نہ کی ہو اور نہ ذکر و اذکار کیا ہو لیکن تو آپ قابل مبارک باد ہیں۔ اور یہ مہینہ آپ کے لئے مبارک ہے۔

یہ کیسا روزہ ہوا؟
روزے میں جن تینوں چیزوں سے اجتناب ضروری ہوتا ہےیہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو فی نفسہ حلال ہیں، کھانا حلال، پینا حلال اور جائزطریقے سے زوجین کا نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا حلال، اب روزنے کے دوران ہم ان حلال چیزوں سے تو پرہیز کررہے ہیں ، نہ کھارہے ہیں ، نہ پی رہے ہیں ۔ لیکن جو چیزیں پہلے سے حرام تھیں، مثلا جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بد نگاہی کرنا، جو ہر حال میں حرام تھیں، روزے میں یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں۔ اب روزہ رکھا ہوا ہے اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے اور غیبت کر رہے ہیں۔  روزہ رکھا ہوا ہے اور بد نگاہی کر رہے ہیں۔روزہ رکھا ہوا ہے لیکن وقت پاس کرنے کے لئے گندی فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ کیا روزہ ہوا؟ کہ حلال چیز تو چھوڑ دی اور حرام چیز نہیں چھوڑی۔ اس لئے حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس لئے جب جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا جو پہلے سے حرام تھا تو کھانا چھوڑ کر اس نے کون سا بڑا عمل کیا۔          

اس ماہ میں رزق حلال
دوسری اہم بات کہ کم از کم اس ایک مہینے میں تو رزق حلال کا اہتمام کر لیا جائے، جو لقمہ آئے،وہ حلال کا آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ روزہ تو اللہ کے لئے رکھا، اور اس کو حرام چیز سے افطار کر رہے ہیں۔ سود پر افطار ہو رہا ہے یا رشوت پر افطار ہو رہا ہے یا حرام آمدنی پر افطار ہو رہا ہے۔ یہ کیسا روزہ ہوا؟ کہ سحری بھی حرام اور افطاری بھی حرام، اور درمیان میں روزہ۔ اس لئے خاص طور پر اس مہینہ میں حرام روزی  سے بچو۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے مانگو کہ یا اللہ! میں رزق حلال کھانا چاہتا ہوں۔ مجھے رزق حرام سے بچا لیجئے۔                                           
بعض حضرات وہ ہیں، جن کا بنیادی ذریعہ معاش.....الحمداللہ......حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے، البتہ اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے کچھ حرام آمدنی کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ایسے حضرات کے لئے حرام سے بچنا کوئی دشوار کام نہیں ہے، وہ کم از کم اس ماہ میں تھوڑاسا اہتمام کر لیں، اور حرام آمدنی سے بچیں۔

اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟     
بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر حرام ہے، مثلا وہ کسی سودی ادارہ میں ملازم ہیں، ایسے حضرات اس  ماہ میں کیا کریں؟ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

میں ایسے آدمی کو جس کی مکمل آمدنی حرام ہے۔ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو رمضان میں چھٹی لے لے، اور کم از کم اس ماہ کے خرچ کے لئے جائز اور  حلال ذریعہ سے انتظام کر لے۔ کوئی جائز آمدنی کا ذریعہ اختیار کر لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اس ماہ کے خرچ کے لئے کسی سے قرض لے لے۔ اور یہ سوچے کہ میں اس مہینہ میں حلال آمدنی سے کھائوں گا۔ اور اپنے بچوں کو بھی حلال کھلائوں گا، کم از کم اتنا تو کرلے۔      
                                     
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان المبارک کے انوار و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

مکمل تحریر >>

منگل، 19 جولائی، 2011

امت مسلمہ کا انحطاط اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ

موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ پورے عالم میں جس دینی و دنیاوی انحطاط واضمحلال کا شکار ہے‘ اس کی مثال پوری تاریخِ اسلامی میں نہیں ملتی ،امت جب زندہ تھی‘ اور اپنے فرائض منصبی دعوت الی اللہ‘ امر بالمعروف ‘ نہی عن المنکر اور ہدایت رسانی خلق کی ادائیگی میں مصروف ومشغول تھی‘یہ لافانی اور جاودانی امت حیات تازہ پاتی تھی‘ بارہا سیاسی فاتحین کو امت کے داعیانہ مزاج اور تبلیغی جہد وہمت اور روحانی تصرفات ومزایانے مفتوح اور دین کا خادم بنادیا‘ جس کی سب سے نمایاں اور مشہور مثال تاتاری ومنگول ہیں‘ جو دولِ اسلامیہ اور خلافتِ عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے کچھ عرصہ بعد اسلام کے داعیانہ اثر سے مسلمان ہوتے ہیں اور ترکانِ عثمانی اور ترکانِ تیموری کے نام سے پانچ سوسال تک اسلام اور مسلمانوں کا پرچم بلند رکھتے ہیں۔ 
جب سے امت کا دعوتی اور ملی شیرازہ بکھرا اور امت اپنے منصب اور اس سے پیدا شدہ تقاضوں اور مسائل کو بھلا بیٹھی‘ اور اپنے آپ کو دنیا کی عام اقوام کی طرح ایک قوم سمجھنے لگی، امت بانجھ ہوگئی‘ اقوام کا داخلہ اسلام میں من حیث الجماعة بند ہوگیا‘ بلکہ پوری امت پر مردنی چھاگئی‘ مسلمان بے یقینی‘ عقائد میں متزلزل اور کردار واعمال کی خرابی کا شکار ہو گئے کہ امت کا نفسِ ناطقہ‘ اس کا ایمانی شعور ‘ اس کا دینی ذمہ داری کا احساس اور اس کا داعیانہ حاسہ تھا‘ جس کی پژمردگی نے اس باغ کو مرجھا کررکھ دیا:
متاعِ دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا غمزہٴ خون ریز ہے ساقی

امت کی اس غفلت وکوتاہی اور فرض ناشناسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا عالم اسلامی قیادت وامامت‘ الٰہی رہنمائی اور نبوی تعلیمات سے محروم ہوگیا‘ اور انسان کی عقلی وذہنی‘ روحانی ومادی قیادت‘ خدانا آشنا‘ آخرت فراموش‘ روح ناشناس‘ بے یقین‘ مردہ دل‘ دنیا طلب‘ مادہ پرست مغربی اقوام کے ہاتھ میں آگئی۔ مغرب کے مادی وملحدانہ مزاج کی بناء پروہ تمام علوم وفنون جنہوں نے ان کے دل ودماغ سے فروغ پایا‘ اپنے اندر مادیت والحاد اور لادینیت کے اثرات کو سموئے ہوئے ہیں۔ ۔ آج مغرب کا سیاسی وذہنی اقتدار وسیاسست پورے عالم پر محیط ہے‘ مشکل یہ ہے کہ مغربی افکار وعقائد علوم وفنون‘ تہذیب وتمدن‘ سیاست ومعاشرت‘ اقتصادیات ومعاشیات‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو اور اس سے متعلقہ علم کی بنیاد نری مادیت اور ظواہر پر ہے‘ یہاں تک کہ نام نہاد مغربی روحانی اور مابعد الطبیعاتی افکار وتصورات بھی مادی آلائشوں سے پاک نہیں‘ بلکہ انہیں کا ثمرہ ونتیجہ ہیں۔ روحانی اقدار اور غیبی قویٰ سے انکار عصر حاضر کا خلاصہ وامتیاز ہے

بقول حضرت سید الملة سلیمان الندوی قدس سرہ۔
۔”تعلیم جدید کی نئی آب وہوا نے تفرنج وفرنگی مآبی کا وہ زہر پھیلادیا ہے جس سے دین‘ عقائد واعمال کی ہر چیز پر مردنی چھاگئی ہے‘ اور جہاں دین کا کچھ خیال زندہ بھی ہے‘ شکوک وشبہات کی کثرت اور شدت نے اس پر عرصہٴ حیات تنگ کردیا ہے۔ یورپ کے تمدن اور سیاست کی نقالی ہماری اسلامی سلطنتوں کا فخر ہے۔ ہمارے دار السلطنتوں کے سامنے پیرس کے خاکے ہیں۔ ہماری خواتین کے سامنے انگلستان وفرانس کی عریانی ورنگینی وبے حجابی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی نگاہوں میں رقص وسرود اور ظاہری پوشاک ووضع وطرز ماند وبود میں فرنگی مآبی زندگی کی کامیابی کا سب سے اعلیٰ تخیل ہے۔ علم وفن پر غور کیجئے تو ہماری قدیم تعلیم اب تک یونان کی تقویم پارینہ کی پرستش میں اور تعلیم جدید یورپین ضلالت وگمراہی خیال کی عکاسی میں مصروف ہے اور سوائے تقلید ونقالی کے کوئی مجتہدانہ تصور ہمارے سامنے نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جب اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ سلطنت داری کا تخیل آتا ہے تو یورپ کی ایک ایک سلطنت اپنی پوری ہوش ربائی اور باطل آرائی کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے اور یہ حقیقت ہمارے سامنے سے گم ہوجاتی ہے کہ اسلام کا تصور سیاست اور تصور تمدن اور تصور علم وفن اپنا خاص ہے‘ اسی کو دوبارہ پیدا کرنا اور دنیا کے سامنے لانا ہماری قومی وملی غرض وغایت ہے“۔

حالاتِ حاضرہ پر قناعت موت ہے
حقیقت میں جس طرح امت اپنی معاشرت وتمدن تہذیب وشعائر سے دور ہوتی جا رہی ہے اور جس طرح اسلامی اخلاق ومعاملات مٹ رہے ہیں‘ عبادات تک میں بے اعتنائی عام ہو چکی ہے‘ امہاتِ عقائد تک میں تزلزل آگیا ہے اور جس طرح دنیا طلبی‘ دین سے بے رغبتی‘ الحاد ودہریت غفلت وبدعملی امت پر اپنا سایہ ڈالتی چلی جاتی ہے‘ اگر امت نے کمال چابک دستی‘ سبک رفتاری‘ بلند ہمتی‘ عزم راسخ سے اپنی جملہ استعدادوں‘ توانائیوں ‘ ظاہری وباطنی مادی وروحانی قوتوں کو‘ حفاظتِ دین‘ اعلاء کلمة اللہ اور دعوت وتبلیغ ‘ افراد امت کی شخصی واجتماعی اصلاح کی طرف مرکوز نہ کیا تو خاکم بدہن اندیشہ ہے کہ العیاذ باللہ! اسلام کی نام لیوا موجودہ امت مٹاکر نہ رکھ دی جائے اور یہ امانت دوسروں کے سپرد کردی جائے۔


اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے
خاک ہوجائے گے افسانوں میں ڈھل جاؤگے

اب تو چہروں کے خدوخال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤگے

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے

دے رہیں ہیں تمھیں تو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاؤگے

اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے

تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بِھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤگے

ہمسفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤگے تو خود ہی سنبھل جاؤگے

تم ہو اک زندہ جاوید روایت کہ چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے

صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤگے


مکمل تحریر >>

پیر، 18 جولائی، 2011

مدارس کی تصویر کا دوسرا رخ

وہ تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ ملک کے ایک ممتاز صنعت کار مجھے بتا رہے تھے کہ مغربی میڈیا میں پاکستان کے دینی مدارس کے متعلق جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ اصل حقیقت نہیں۔ انہوں نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگلے دس سال میں پاکستان کی سیاست، معیشت اور تعلیمی میدان میں دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات نہایت اہم کردار ادا کریں گے بلکہ ممکن ہے کہ یہ طلبہ و طالبات آپ کو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ میرے چہرے پر حیرتوں کے سائے لہراتے دیکھ کر صنعت کار نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگے کہ گھبرایئے نہیں دینی مدارس سے پاکستان کو نقصان نہیں بلکہ بہت فائدہ ہوگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگلے دس سال کے دوران پاکستان میں دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی تعداد دوگنی ہوجائے گی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ پاکستان کے انگلش میڈیم اسکولوں کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ جبکہ سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں معیار تعلیم نہایت ناقص ہے۔ پہلے تو صرف غریب طبقے کے بچے دینی مدارس میں جاتے تھے لیکن کچھ عرصے سے متوسط طبقے اور امیر طبقے کے بچوں کو بھی قابل ذکر تعداد میں دینی مدارس میں بھجوایا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے دینی مدارس میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے بھی کروایا جانے لگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا اپنا بیٹا گریجویشن کے بعد علوم شریعہ کا چار سالہ کورس کررہا ہے اور دینی مدرسے کے ماحول نے ان کے بیٹے کی شخصیت میں جو مثبت تبدیلیاں پیدا کیں، انہیں دیکھ کر خاندان کے کئی لوگوں نے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں سے نکال کر دینی مدارس میں بھیج دیا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم کاروباری لوگ ہیں، گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ انگلش میڈیم اسکولوں کی تعلیم نے تین میں سے دو بیٹے مجھ سے چھین لئے۔ دونوں بڑے بیٹے لڑ جھگڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ چھوٹے بیٹے نے بھی کچھ عرصہ بیرون ملک گزارا۔ دو سال پہلے چھٹیوں میں پاکستان آیا تو ایک دوست کے ساتھ جامعة الرشید گیا۔ واپس آیا تو اس نے اعلان کیا کہ وہ شریعہ کورس میں داخلہ لے رہا ہے۔ یہ سن کر گھر والے بہت پریشان ہوئے کہ بیٹا مولوی بننا چاہتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ جامعة الرشید نے ہمیں ہمارا بیٹا واپس لوٹا دیا ہے۔ اس صنعت کار سے میری ملاقات گزشتہ ہفتے جامعة الرشید احسن آباد کراچی کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد میں ہوئی۔ جامعة الرشید میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔ یہاں بی اے اور بی بی اے کے علاوہ ایم اے معاشیات اور ایم بی اے بھی کروایا جا رہا ہے۔ حفاظ قرآن کیلئے ایک سالہ عربی اور ایک سالہ انگلش کورس شروع کیا گیا ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ دیگر مدارس میں جا کر انگلش پڑھا رہے ہیں۔

جامعة الرشید کی سالانہ تقریب میں مولانا حسین احمد مدنی کی ایک کتاب پربنائی گئی ڈاکومنٹری فلم پیش کی گئی۔ اس فلم میں بتایا گیا تھا کہ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کو کیسے لوٹا تھا۔ اس فلم میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی ایک نظم کے کچھ اشعار بھی شامل کئے گئے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کو ڈاکو منٹری میں یکجا کرنے پر میں نے جامعة الرشید کے نگران مفتی عبدالرحیم صاحب کو مبارک باد دی۔ ہمارے ان بزرگوں نے اپنی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر اختلاف کیا تھا لیکن اس ڈاکو منٹری میں ان دونوں کے مشترکات کو سامنے لایا گیا تھا جو جامعة الرشید کے طلبہ کی حب الوطنی، رواداری اور روشن خیالی کا بھر پور مظاہرہ تھا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد مہمان خانے میں جامعة الرشید کے نوجوان طلبہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے۔ یہ طلبہ باری باری ڈاکٹر صاحب کے پاؤں دبانے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں منع کر رہے تھے لیکن ان بچوں نے پاؤں دبانے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ قطار بنا لی تھی۔ میں اور جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان صاحب اس منظر کو دیکھ کر بڑے محظوظ ہو رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج میرے وطن کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جو بزرگوں کی بے لوث خدمت کو سب سے بڑی سعادت سمجھیں لیکن کیا سب دینی مدارس میں ایسی سعادت مندی کی تعلیم دی جاتی ہے؟
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سے دینی مدارس ابھی تک انگلش کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان دینی مدارس میں دنیاوی علوم کا داخلہ بند ہے اور کئی اساتذہ کھلم کھلا فرقہ وارانہ نفرتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن سب دینی مدارس میں ایسا نہیں ہوتا۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جب ہزاروں دینی مدارس کے لاکھوں طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو کہیں پر بھی پولیس تعینات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، نہ کوئی ہنگامہ ہوتا ہے، نہ نقل کی شکایت آتی ہے۔ دینی مدارس کا نظم و ضبط مثالی ہے۔ یہ مدارس حکومت سے امداد لئے بغیر لاکھوں طلبہ و طالبات کو تعلیم دے رہے ہیں اگر ان مدارس میں جامعة الرشید کی طرز پر اصلاحات کو فروغ دیا جائے تو یہ ایک قومی خدمت ہوگی۔ اس ادارے کے علاوہ دارالعلوم کراچی میں اے لیول کے کئی مضامین پڑھائے جانے لگے ہیں، دارالعلوم اسلامیہ اسلام آباد اور جامعة الحجت اسلام آباد کے طلبہ فیڈرل بورڈ میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کر رہے ہیں، جامعہ نعیمیہ لاہور اور جامعہ قادریہ رضویہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے علاوہ منہاج یونیورسٹی اورمحی الدین اسلامک یونیورسٹی آزادکشمیر میں بھی دینی و دنیاوی علوم کو یکجا کیا جاچکا ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے زیر انتظام اشرفیہ گرلزکالج اور دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے زیرانتظام غوثیہ گرلز کالج میں طالبات کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جا رہی ہے۔

مفتی محمد نعیم کے جامعہ بنوریہ کراچی کی ویب سائٹ اس ادارے کی جدت پسندی کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ ابو ہریرہ اکیڈمی لاہور کی ویب سائٹ بھی بہت دیدہ زیب ہے لیکن مغربی میڈیا میں ہمیں ان مدارس کا ذکر نہیں ملتا۔ مغربی میڈیا میں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ ان درس گاہوں کو دہشت گردی کے اڈوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان دونوں درس گاہوں کا ماحول یکسر مختلف ہے۔ انور غازی صاحب کی کتاب ”دہشت گردی کے اڈے یا خیر کے مراکز“ میں دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈے کا بڑا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی اصل وجہ دینی مدارس نہیں بلکہ ظلم، نا انصافی، غربت، بے روز گاری اور کرپشن ہے۔ دینی مدارس نے لاکھوں غریب و نادار طلبہ کو سنبھال رکھا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ بورڈز ہیں۔ سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ نوہزار مدارس وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس شیعہ اور جماعت اسلامی کے رابطہ المدارس الاسلامیہ کے ساتھ وابستہ 13/ہزار سے زائد مدارس میں کم از کم 30 لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان پانچوں مدارس کے اوپر اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے طور پر ایک چھتری بھی موجود ہے۔ اس اتحاد کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اتحاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے علاوہ دینی مدارس میں اصلاحات کیلئے ایک ٹھوس حکمت عملی وضع کرسکے۔ برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ کی نگرانی میں اڑھائی ہزار اور امریکا میں رومن کیتھولک چرچ کی نگرانی میں 8500 اسکول چل رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں مذہبی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے لیکن یہ اسکول تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔پاکستان کے دینی مدارس کو برطانیہ و امریکا کے ان اسکولوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اگر تمام دینی مدارس خود کو جامعة الرشید کراچی جیسا بنا لیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا روشن مستقبل انہی دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کا مرہون منت ہوگا۔

(کالم : حامد میر 18 جولائی، 2011)۔))

مکمل تحریر >>