تمام مذاہب کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا درپیش ہے ۔ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے آسمانی مذاہب کے خلاف شکوک و شبہات کی جو یلغار کی گئی ہے اس نے مذاہب کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، ملحدین وجود باری تعالیٰ، تصوررسالت ، عقیدۂ آخرت، کتاب اللہ اور انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخی حیثیت کو جھٹلاتے اورطرح طرح کے سوالات کے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے وہ انکے فلسفیانہ وساوس کی یلغار کے سامنے ذیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اور الحاد انکے معاشروں میں بہت آسانی سے جڑ پکڑتا چلا گیا ۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت کا دہریت کے سامنےاتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد بھی دلا گیا، وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید تمام مذاہب ہی ایسے خودساختہ اور متضادنظریات کی بنیاد پر کھڑے اور مکرو فریب کے ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں ، لیکن الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے، ملحدین کے لیے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا علمی ، عقلی اور تاریخی طور پر ممکن نہ تھا، باقی عقائد توحید، آخرت وغیرہ کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہیں جنہیں مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت یا رد نہیں کیا جاسکتا اور اسلام ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت واضح اور محکم دلائل و براہین بھی رکھتا ہے اس لیے انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی مثلا کمزور اور من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اکابرین اسلام کی کردار کشی، اسلام کا تمسخر، اسلامی سزاؤں کے خلاف پراپیگنڈہ، عقائد میں فلسفیانہ انداز میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دینا، مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے خاص موضوعات ہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور انکی دل آزاری کے لیے انتہائی گری ہوئی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں یہ تجزیہ نگاروں ، کالم نگاروں، صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں موجود ہیں جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے ، زہریلے مضامین ، جھوٹی کہانیاں پیش کرتے اور معمولی قصے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیلا تے ہیں ، سوشل میڈیا دیکھیں تو اسلام کے خلاف ایک پورا محاذ نظر آتا ہے، مختلف پیجز اور عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ ، فریبی اور گمراہ کن تحاریر اور ان سے بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے، تصاویر تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
گزشتہ دو سال سے میری دلچسپی کا محور یہی لوگ رہے ہیں ، سوشل میڈیا پر ان کے پیجز لائیک کیے، ان کے گروپس جائن کرکے ، ان سے دوستیاں لگا کے ان کے رویوں، نفسیات کا مطالعہ کیا ، مجھے الحاد کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں میں سیکولر، لبرل فاسشٹ ، عیسائی ، قادیانی لوگوں کے علاوہ کچھ ایسے مسلم جوان بھی نظر آئے جو اپنے دینی عقائد و نظریات کے علمی دلائل سے ناواقفیت اور انکے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے دین سے بدظن اور بیزار ہوئے یا سہل پسندی اور عیاشی کے حصول میں دین سے دور نکلتے چلے گئےاور چند ایسے بھی دیکھے جو تعلیم یافتہ اور منصف مزاج ہیں اور جن شکو ک و شبہات کا وہ شکا ر ہیں ، ان موضوعات پر غیر جانبداری سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، انکا انداز بھی باقیوں سے کافی بہتر اور علمی ہے۔ مجھے دینی راستے سے انکے بھٹک جانے کی جو سب سے بڑی وجہ یا وہ کمی جس کی وجہ سے یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوزین کا شکار ہوئے نظر آئی 'وہ ایک صالح ، علم و عمل والے شخص کی صحبت، ایک امین ناصح کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا تھی ۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے سینکڑوں بڑی اچھی اور تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کیا ، لیکن ہدایت نہیں پاسکے بلکہ الٹا مزید گمراہ ہوتے چلے گئے۔۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کررہی ہو اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے ہوں، بانت بانت کی بولیاں بولی جارہی ہوں اور کتابیں تصنیف کی جارہی ہوں، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے چند اچھے برے رائٹرز کی اہم دینی موضوعات پر کتابیں منتخب کرکے انکا مطالعہ شروع کردینا، ہر گری پڑی کتاب کو پڑھ لینا، کتاب کا محض ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نا کتاب کے انتخاب میں کسی مربی اصلاح، اچھے علم والے سے مشورہ کرنا اور نا شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی مصلح کی راہنمائی کی سہی کرنا ایسی خشکی اور بوریت ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی بددل یا بیزار کردے۔
یہ بے لگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حالانکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے ، ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں " جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے ان کے بانی سب اہل علم ہیں ، لیکن سب کے سب بغیر استاد اور رہبر والے ، پس شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے ہیں ، لیکن جب موڑ یا چورا ہاآتا ہے ، وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب وکبر میں مبتلا ہوکر کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں ۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷) ایک اور جگہ لکھتے ہیں " ہر فتنے کے بانی پر غور کیجئے تو یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال کے فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے، مولاناایک ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا ایک جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی اورمفسر قرآن تھے۔ کالج کے زمانے میں اسی آزاد اور بے لگام مطالعہ کی عادت میں کسی لائبریری میں موجود مستشرقین کی چند مشہور کتابیں پڑھ بیٹھے ، پھر ایسے ملحد بنے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخیاں کرتے رہے، قابل گردن زنی قرار پائے، سالوں مذہب کے خلاف لکھا اور کھل کر لکھا۔ پھر مولانا شبلی نعمانی ، مولانا سید سلیمان ندوی جیسے علم و عمل والے دوستوں کی صحبت اور کتابوں سے روشنی ملنی شروع ہوئی ۔ ایک دوست نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے “مواعظ”پڑھنے کو دیئے ،ان کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے ۔ تھانوی رحمہ اللہ سے مراسلات شروع ہوئے ، ایک سال تک مراسلات پر راہنمائی لیتے رہے ، پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔طویل نشستیں رہیں، بیعت کے لیے درخواست کی لیکن حضرت تھانوی نے انکا میلان دیکھتے ہوئےمولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو کہا کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں، آپ دیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ۔ (مولانا کے دہریہ ہوجانے کی مکمل داستان اگلی تحریر میں پیش کی جائیگی۔ انشاء اللہ)
آپ نوٹ فرمائیں ایک جید عالم کو اپنی اصلاح کے لیے مستقل بیعت ہونا پڑا، عوام کو اس کی کتنی ضرورت ہوگی، حالانکہ یہ تو آج سے ستر اسی سال پہلے کی مثال ہے۔ اب تو حالات مزید بدتر ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی آزاد خیالی اور فتنے نہیں تھے، مطالعہ اور دینی تعلیم و تربیت کا رواج تھا جبکہ آج کے دور میں ! نہ دینی تربیت کا کوئی نظام ہے اور نہ مطالعہ کا کوئی رجحان ، لوگ علمی لحاظ سے بالکل کورے اور کھوکھلے ہیں دوسری طرف کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ایسے فتنے سامنے آرہے ہیں جو علماء کو بھی پریشان کردیں، ایسے ماحول میں تو عوام کو خصوصی طور پر پڑھنے ، سنے میں بہت احتیاط اور بڑوں سے مشورے کی ضرورت تھی ، لیکن افسوس پہلے سے بھی ذیادہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے،۔ ایک عالم شیخ جمال زرابوزو لکھتے ہیں کہ
" آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی ۔یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کئے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بے ضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسااوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔"
" آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی ۔یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کئے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بے ضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسااوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔"
اس دور میں علم و عمل والوں کی صحبت کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے ذیادہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں انہیں ، بیعت، اصلاح، تصوف کے الفاظ سے ہی سخت چڑ ہے، وہ صوفیاء کی کرامات، شطحیات، جعلی صوفیاء کے واقعات اور تصوف کی مخصوص اصطلاحات کو اپنی مرضی کے مطالب اور معانی کے ساتھ پیش کرکے تصوف کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد و نظریات کی آمیزش ہوئی اور جعلی خانقاہوں اور پیروں کی آمد سے بہت نقصان ہوا ، بہت سی خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں، شاید اقبال نے بھی اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
لیکن دوسری طرف ہمیں یہی اقبال مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا روم کے متعقد بھی نطر آتے ہیں اور انکی شاعری میں بھی تصوفانہ رنگ آتا ہے ۔ ۔اصل میں ضرورت افراط و تفریط سے بچنے کی ہے۔ سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا جعلی ڈاکٹر وں کی وجہ سے کسی نے ڈاکٹروں کے پاس جانا اور علاج کروانا چھوڑا ؟ جس طرح روحانی علاج کے شعبے میں ہزاروں جعلی ڈاکٹر موجود ہیں اس طرح جسمانی علاج کے شعبے میں بھی ہیں، جنہیں علاج یا اصلاح کی طلب ہوتی ہے انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ اپنامعالج ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مزید جب دین کے کسی دوسرے شعبہ پر غلط لوگوں کے قبضےاور کمیوں کوتاہیوں کی وجہ سے اس شعبے کو نہیں چھوڑا جاسکتا ،تزکیہ واحسان یا تصوف و سلوک تو دین اسلام کی روح اور جان ہے ' اسکو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ اسکی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جسکی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل تھی' اسکا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے ۔؟ اس گئے گزرے دور میں بھی ایسی خانقاہیں اور مراکز موجو د ہیں جہاں اہل علم وعمل بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کی اصلاح فرمارہے ہیں۔
یہ اللہ کی سنت بھی ہے جب بھی کوئی کتاب بھیجی ساتھ ایک رسول لازمی بھیجا جو لوگوں کو اسکی تعلیم دیتا اور انکا تذکیہ کرتا۔اسی طرح لوگ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ بن گئے او ر جو صحابہ کی صحبت میں رہے تابعین بن گئے ۔ تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے ، یہ سلسلہ علم و دین ابھی تک چل رہا ہے۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں ۔ لکھتے ہیں
" ہرشبہہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے ، تم منشاء کا علاج کرو۔۔جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں چوہے، چھچھوندر کودتےپھرتے تھے۔ گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ روشن کردو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے ، چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں ، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو ۔ وہ نور نورمحبت ہے ۔یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ و سوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہوجائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سربازار کپڑے اتار کرآو تو میں تم سے بات کروں گی ، ورنہ نہیں !ً تو فلسفی صاحب اس کے لیے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے ؟ اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
عشق مولی کے کم از لیلی بود
گوئے گشتن بہر او اولی بود
میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیداہوتے ہیں ، انکے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، انکو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے ۔ تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے ، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا ، یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔
(اشرف الجواب از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 561، 562)
10 comments:
یہ بے لگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حالانکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے
آپ نے مسئلے کی اصل جڑ بیان کردی، اِس موضوع پر تواتر سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ بھلا کرے۔
بہت دونوں بعد کوئی ڈھنگ کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ اللہ سبحانہ و تعالی خوب خوب جزائے خیر دیں آپکو مرض کی تشخیص پر
سعید
آخر کار طویل مطالعہ کے بعد آپ الحاد کے موضوع ، جو کے وقت کا اہم ترین موضوع ہے پر ایک شاہکار تحریر لے آے ...!!
بیعت، اصلاح کا نسخہ میرے ذھن میں بھی تھا آپ نے دل کی ترجمانی کر دی ..
امید کی جاتی ہے کے آپ اس موضوع پہ ہم عامی لوگوں کی پیاس بجھایں گے ..!!
جزاک الله نہایت عمدہ ..
الله علم اور تقویٰ میں اضافہ فرمایں
آمین
اچھا مضمون ہے ۔۔ شکریہ جزاک اللہ خیر ۔۔۔ حشام احمد سید
آپ کی اگلی تحریر (عبدالماجد دریا آبادی پر ) کا انتظار رہے گا۔
بھائی بیعت کی جس چیز سے مجھے چڑ ہے وہ ہے سوال نہ کرنے کی عادت، بس آپ نے ہر حال میں چپ رہنا ہے۔
اللہ مصنف کو اجر کثیر عطا فرمائیں!
غاللباً حضرت علی رضی الله عنہ کا قول ہے کہ "یہ مت دیکھو کہ کون که رہا ہے - بلکہ یہ دیکھو که کیا که رہا ہے" -مجھے مولانا اشرف علی تھانوی رح اور اکثر دیوبندی علماء کے عقائد سے شدید اختلاف ہے - لیکن ان کی وہ بات جو قرآن و سنّت و سلف و صالحین کے نظریات کے موافق ہو اس کو قبول کرنا میں اپنا فرض سمجھنتا ہوں-
۔میرے مطابق یہ بات طے ھے کے عالمی طور پہ الحاد یعنی خالق کا انکار و تمام مذاہب و انبیاہ کے انکار کی تعلیمات و فحاشی کا فروغ عالمی طاقتوں و ان ممالک کے حکمران و پالیسی سازوں کی اعلانیہ و پوشیدہ کوشش کا نتیجہ ھے سمھنے کی بات یہ کے الحاد و ملحد فلسفے کو پانی اور کھاد کدھر سے مل رھی ھ ؟ مادہ پرستی جی ھاں مادہ پرست سوچ الحاد و خدا کے انکار کی جڑ ھ یہ سوچ و نظریہ نیا نہیں قدیم یونان میں اس کی جڑ ملتی ھ بدقسمتی سے موجودہ دنیا میں گمراہ سائںس و عالمی حکمرانوں نے نے اس کی ترویج کی۔ میں آپ اور تمام بھائی ہم ان عالمی حکمراانورں کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے پر اس چڑیا کی مانند کوشش کر سکتے ھ جو قطرہ قطرہ پانی سے آتش نمرود بجھانا چاھتی تھی اس سلسلے کی ابتدا اپنے گھر سے کرتے ۔ انٹرنیٹ ایسی دو دھاری تلوار ھ جس سے مدد لے کر ملحدین کو جواب دیا جاسکتا ھ او ر گمراہ کن تصویریں و فلمیں شئر کر کے دیگر بچوں کو گنہگار بھی کیا جاسکتا ھ ۔ بہرحال تمام بھائی و والدین اپنے بچو ں کے سمارٹ موبائیل اگر لیں نہیں سکتے تو ان کو چیک کرتے رھے براوزر ہسٹری دیکھے اور V .P.Nھاٹ سپاٹ شیلڈ کی موجودگی اس سلسلے میں الارم ھ کہ آپکا بھائی و فرزند مشکوک سائیڈ کا وزیٹر ھ موبائیل کارڈ ڈیٹا چیک کرتے رھے ۔ جو سمجھدار بھائی انٹرنیٹ یوزر ھ کسی بھی مسلک و فرقہ اسلام کی منفی پوسٹ تحریر و تصویر پہ مشتمل ھ جو کہ فیس بک و دیگر سائیڈ پر اپلوڈ ھوتی ھ ان کو شئر و لاییک کر کے اپلوڈ کرنے والے کا پروپیگنڈا سیکرٹری نہ بنے۔ یاد رھے یہ لوگ ہم بڈھے طوطو کو نہیں ہمارے بچو کو گمراہ کرنا چاھتے ھ۔
آپ کی تحاریر پسند آتی ہیں،مگر تصوف کے جو سلسلے آج رائج ہیں اس کو عین اسلام نہی کہہ سکتے۔اس کی تائید کرنا شرک و بدعت کو مزید بڑھاوا دینا ہوگا ۔ ملت اسلامیہ کے زوال کے مختلف اسباب میں بھی تصوف کا بڑا حصہ رہا ہے اور وہ ہے ترک دنیا کی تعلیمات۔آپ محققق ہیں اس سلسلے میں مزید رہنمائی کر دیں۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔