"تم نے وقت پر سکول کی بیل نہیں بجائی ، تم کام بھی کچھ نہیں کرتے تمهارے اوپر جرمانہ عائد کریں گے، جرمانہ نہیں دو گے تو ہم تمہیں ادھر سکول کے گراؤنڈ میں رسی سے باندھ دیں گے"۔
"جا اوئے بڑا آیا جرمانہ کرنے والا، کیوں جرمانہ کرو گے میں یہ کرسی اٹھا کر تمہارے سر پر ماروں گا، دیکھو ایڈمن صاحب یہ کہتا ہے میں تمہارے اوپر جرمانہ کرونگا، میں پرنسپل صاحب کو جا کراسکا بتاتا ہوں"
آج صبح میں جب اپنے آفس میں داخل ہوا تو سکول کا کلرک نواز ہمیشہ کی طرح نائب قاصد فرمان خان کو چھیڑ رہا تھا تھا، اور وہ اسکی باتوں سے غصہ سے پاگل ہوا جارہا تھا۔ "تم جس کو مرضی بتاؤ رات کو تمہیں دو سو کی روٹی کھلانی ہی پڑے گی"۔ نواز کا اتنا کہنا تھا فرمان نے جوتی اتاری اور اسکے پیچھے دوڑ پڑا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ شاید فرمان کوئی مینٹل آدمی ہے یا کوئی غریب بچہ ہے جو سکول میں پانی وانی پلانے کے لیے بھرتی ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں ہےیہ چالیس سال کا ایک آدمی ہے، چھے فٹ قد، موٹے تازے جسم کا مالک اور سابقہ فوجی ہے۔ اس میں کمی صرف یہ ہے کہ اسکا دماغ اسکے جسم کیساتھ بڑا نہیں ہوسکا۔ یہ بات میرے تجربے میں ہے کہ ایسے لوگ بہت محنتی اور تابعدار ہوتے ہیں ، فرمان کو جس کام کا کہو ، فورا کرتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو میرے منہ سے بات مکمل نہیں ہوتی ، فرمان وہ کام کرنے کے لیے کمرے سے نکل چکا ہوتا ہے، میں بڑبڑاتا رہ جاتا ہوں، پھر تھوڑی دیر بعد واپس آکر پوچھتا ہے ساب جی تسی کے آخیا سی ؟ پھر میں اسکو ساری بات سمجھا کر بھیجتا ہوں۔ شروع میں مجھے اس سے کام کرواتے بہت مسئلہ ہوتا تھا ، مثلا میں اسکو کہتا یہ فائل فلانی کلاس کے ٹیچر کو دے آؤ اور فلانی کلاس سے اس نام کے لڑکے کو بلا لاؤ، یہ فائل جس کلاس سے لڑکے کو بلانا ہوتا اس میں دے آتا اور دوسری کلاس سے کسی لڑکے کو پکڑ کے لے آتا۔ اب میں اسکو سمجھنے لگ گیا ہوں۔ اسکو ایک وقت میں ایک ہی کام کا کہتا ہوں۔
فرمان کی شادی بھی ہوئی ہوئی ہے اسکا ایک بچہ بھی ہے لیکن بیوی بچے سمیت دو سال سے اپنے میکے میں رہ رہی ہے ۔ یہ چوبیس گھنٹے سکول میں ہوتا ہے، صبح سکول میں کام کرتا ہے رات کو اسکی چوکیداری کے لیے سکول میں ہی سوتا ہے۔ اسکے حالات اور اسکے رویہ کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ تجسس رہتا تھا کہ اسکے ماضی کے بارے میں کسی سے پوچھوں، یہ پیدائشی ابنارمل لگتا نہیں ۔ اک دن مجھے ڈرائیور نے بتایا کہ نواز فرمان کا کزن ہے ۔ ۔ فراغت کے لمحات میں میں نے نواز سے فرمان کے ماضی کے حالات کے بارے میں پوچھ ہی لیا۔ اس نے مجھے اسکی زندگی کی جو کہانی سنائی وہ بڑی عجیب ہے۔:
نواز نے بتایا کہ فرمان جب سولہ سترہ سال کا تھا تو اسکی والدہ فوت ہوگئی تھیں، اسکا والد انتہائی سخت اور شکی طبیعت کا مالک آدمی تھا، ذرا ذرا سی بات پر بیوی اور بچوں کو مارنا، گھر میں چینخنا چلانا اسکا معمول تھا، فرمان کا ایک سگا بھائی اور ایک بہن ہے۔ ان تینوں کو گھر سے نکلنے کی بالکل اجازت نہیں ہوتی تھی، ہم سب لوگ گلی میں کھیلتے، کودتے، ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے اور یہ کھڑکیوں سے ڈرے سہمے ہمیں دیکھ رہے ہوتے تھے ، جوں ہی انکا والد گلی میں داخل ہوتا یہ کھڑکیاں بند کرکے کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ، اسکے والدین کی سوچ یہ تھی کہ سوسائٹی کا ماحول ٹھیک نہیں ہے ا س لیے بچوں کو باہر نہیں نکلنے دینا ، کہیں آوارہ نہ ہوجائیں، انہوں نے انہیں شہر کے اچھے سکول میں داخل کروایا ، ٹیوشن بھی گھر لگا کردی لیکن انہیں صرف سکول کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت تھی، نماز جب پڑھنی ہوتی تو انکا والد انہیں خود ساتھ لے کر جاتا تھا۔یہ بہن بھائی گھر کی چھت پر آپس میں ہی کچھ کھیلتے رہتے تھے یا گلی میں تاکتے رہتے تھے ۔
"خاندان میں ہونے والی شادی بیاہ یا عید وغیرہ پر کیا انکو اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی تھی" میں نے نواز سے پوچھا۔
" نہیں بالکل نہیں، انکو کسی کے ساتھ ادھر ادھر ہونے کی بالکل اجازت نہیں تھی، انکا والد خود انکو رشتہ داروں کے گھر لے کر جاتا، وہاں بھی یہ اسکے ساتھ ہی چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، ایک دن کیا ہوا کہ ہمارے گھر شادی تھی اسکی والدہ ہمارے گھر آئی ہوئی تھی اور اسکے والد آفس گئے ہوئے تھے، انکا شاید پیپر تھا یہ بہن بھائی سکول سے جلدی واپس آگئے، میں نے انہیں دیکھ لیا اور انکو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا لیکن یہ نہ مانے کہ ابو ماریں گے، میں نے انہیں سمجھایا کہ تمہاری والدہ بھی وہیں ہیں ، تم ادھر اکیلے کیا کرو گے ، بہت زور لگایا تو یہ تیار ہوگئے، ہم گلی میں نکلے تو میں نے ان کے چہرے پر پہلی دفعہ خوشی دیکھی، یہ اچھلتے ، کودتے میرے ساتھ دوڑنے لگتے ، پھرچلتے ہوئے ادھر ادھرایسے گھوم گھوم کر دیکھتے ، جیسے کوئی طوطا پنجرے سے آزاد ہوگیا ہو۔ ہم گھر گئے لیکن کوئی کام تو ہم نے کرنا نہیں تھا، اس لیے جہاں دیگیں پک رہی تھیں، وہاں چلے گئے ۔وہ ایک کھلا میدان تھا ہم نے وہاں کھیلنا شروع کردیا، شادی کا موقع تھا سارے کزن آئے ہوئے تھے ، ہم نے خوب کرکٹ کھیلی، اتنے میں انکے والد آگئے انہوں نے فرمان اور اسکے بھائی کو بلایااور ہم سب کے سامنے انکے منہ پر تھپڑ مارے اور انکو اسی طرح مارتے مارتے گھر لے گئے ۔ ۔ ۔ ۔
پہلے انکے والدین نے انہیں گھر میں بند کیے رکھا، کسی سےملنے، بات کرنے نہیں دی جس سے یہ اندر ہی اندر گھٹن کا شکار ہوگئے، اپنی مرضی سے کچھ کرنے نہیں دیا جس سے ان میں قوت ارادی، فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہی نہیں ہوسکی اب سب کے سامنے انکی عزت نفس کو بھی بری طرح مجروع کردیا !!ان تینوں بچوں کے اس دن جذبات کیا ہونگے ؟ نواز آگے بھی کچھ بولے جارہا تھا لیکن میرا تخیل ان بچوں کے اس دن کے اترے ہوئے سرخ چہروں کو دیکھے جا رہا تھا۔
" اچھا نواز ۔یہ تو اتنے اچھے سکولوں میں پڑھتے رہے، تمہارے بقول سکول میں انکی پوزیشن بھی آتی تھی پھر یہ اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ، کوئی اچھاعہدہ کیوں نہیں حاصل کرسکے؟ ؟اپنا یہ سوال مجھے خود ہی غیر معقول سا لگا کہ انکے اندر کے ساری صلاحیتوں کو تو بچپن میں ہی روند دیا گیا اب یہ کس عہدے کے لیے اہل تھے جو تم یہ پوچھ رہے ہو ؟ انکا اچھے سکول سے پڑھنا ، اچھا تعلیمی بیک گراؤنڈ کچھ دیر کے لیے مجھے بھی فرمان کے والد کی طرح ایک اچھے عہدے کا ضامن لگا تھا، اس لیے میں نے پوچھ ہی لیا۔
"سر جی یہ جب میٹرک کے پیپر دے رہا تھا تو اسکی والدہ فوت ہوگئی ، بغیر پڑھے پیپر دیتا رہا لیکن پاس ہوگیا۔انکی والدہ کے مرنے کے بعد ان کے حالات مزید خراب ہوگئے، ایک سال تو انکوکوئی کپڑے دھو کر دینے والا نہیں تھا، فرمان کو کسی رشتہ دار نے فوج میں اپلائی کروایا، جسامت کے لحاظ سے یہ ٹھیک تھا ، بیٹ مین بھرتی ہوگیا، تقریبا دس سال اس نے نوکری کی لیکن پھر اسکو وہاں سے فارغ کردیا گیا، اسکے بڑے بھائی نے ابھی ایک سرکاری محکمے سے پنشن لی ہے ،وہ بھی نائب قاصد بھرتی ہوا تھا۔
اس کی والدہ کے مرنے کے بعد اسکے والد نے ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی بھی جو ابھی انکی ماں ہے ، اس کے بھی دو بچے ہیں ایک بائیس سال کا ہے اور ایک شاید پچیس سال کا ہے۔
"کیا وہ بھی ان جیسے ہی ہیں " میں نے نواز کی بات کاٹتے ہوئے اس سے پوچھا۔
" نہیں جی وہ انکے بالکل الٹ ہیں، پڑھائی کے لحاظ سے تو بالکل نل ہیں لیکن بہت تیز طراز ہیں" نواز بولا۔
"یہ کیوں انکے والد نے ان پر سختی نہیں کی؟؟ "
" نہیں جی ، ایک تو انکی والدہ خود بڑی سخت مزاج اور اپنی مرضی کرنے والی عورت ہے اس نے اسکے والد کی بات کو ذیادہ چلنے نہیں دیا، دوسرا انکا والد جب یہ پندرہ سال کے تھے تو فوت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد فرمان اور اسکے بھائی کی تنخواہ سے انکے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ ان لڑکوں کو بھی سکولوں میں داخل کروایا گیا لیکن انہوں نے پڑھا وڑھاکچھ بھی نہیں، کرکٹ ہی کھیلتے رہے۔ ابھی بھی انکا حال یہ ہے کہ فرمان کے بھائی کو جو پنشن ملی اس سے ایک کو دوبئی بھیجا گیا وہ دو مہینے بعد واپس آگیا، دوسرے کو ایک کیری ڈبا خرید کر دیا گیا وہ اس پر دوستوں کو لے کر گھومتا رہتا ہےاور انکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چرس پیتا ہے۔ فرمان کا بھائی صرف اس وجہ سے خوش ہے کہ اس کیری ڈبے کے پیچھے والے شیشے پر اس لڑکے نے فرمان خان جدون اور خرم خان جدون بڑا سا کرکے لکھوا یا ہوا ہے۔ اس سے یہ دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ گاڑی انکی ہے"۔ فرمان کمرے میں داخل ہورہا تھا اسکو چھیڑنے کے لیے نواز نے قدرے اونچی آواز میں یہ جملے کہے ۔ وہ اسے گھورتے ہوئے باہر نکل گیا۔
میں سوچنے لگا یہ ہمارے معاشرے کے والدین کی سوچ کی دوسری انتہاء ہے ، ایک انتہاء وہ تھی کہ اپنے ذہن کے مطابق اپنے بچوں کا اتنا 'خیال' رکھا ، ان پر اتنی توجہ دی کہ بچوں کو اپنی مرضی سے کھل کر سانس بھی نہیں لینے دیا، دوسری انتہاء یہ ہے کہ بچوں سے اتنی بے پرواہی برتی اور انہیں اتنی آزادی دی کہ انکی سانسیں گندی ہونے لگی ہیں۔
اچھا فرمان کی شادی بھی ہوئی، اب اسکی بیگم کیوں ناراض ہے؟ میں نے نواز سے پوچھا
"اسکی بیوی ایک اچھے گھرانے کی انتہائی شریف لڑکی ہے، یہ شادی بھی اسکے ماموں نے جو کہ علاقے کاناظم رہا ہے' کسی کو پتا نہیں کیسے راضی کرکے کروائی تھی۔ ورنہ اسکے تو جو حالات ہیں اسکو کوئی بکری بھی نہ دیتا"۔ نواز نے بات میں سے مزاح کا پہلو نکالنے کی کوشش کی۔
" وہ تین سال اسکے ساتھ رہی، حالت اسکی یہ تھی کہ وہ سارا دن اکیلے ان سب بھائیوں کےکپڑے دھوتی،استری کرتی، کھانا پکاتی ، اسکا بچہ پیدا ہوا پھر بھی اسی طرح دن رات انکے کام میں لگی رہتی تھی ۔ اسکو دیا کیا جاتا تھا اسکی والدہ گلی کی کونے والی کپڑوں کی دکان پر لگنے والی سیل سے عید پر اسے ایک جوڑا خرید کر دے دیتی تھی، خود اسکے بھائی عیاشیاں کرتے اور بچے کو دودھ کی جگہ پانی میں چینی ملا کر پلائی جاتی تھی"۔
" اچھا نواز، اس فرمان کا اسکے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ میں نے کچھ سوچتے ہوئے ایک دم اسکی بات کاٹی۔
" یہ گھر ہی نہیں جاتا تھا جی ، سکول سے چھٹی ہوتی یہ کھانا کھا کر کپڑے بدل کر دوبارہ سکول میں آجاتا تھا، اس کے ساتھ یہ شاید ہی کبھی گھنٹہ بھی بیٹھا ہو، رات یہیں گزارتا تھا ، اسکے علاوہ کبھی ہم نے اسے اپنا بچے کو اٹھائے اور پیار کرتے بھی نہیں دیکھا۔ وہ لڑکی اتنی اچھی تھی کہ اس نے کبھی اپنے گھر میں نہیں بتایا کہ اسکے ساتھ یہاں کیا ہورہا ہے۔ ایک دن بیمار تھی ، اچانک اس کا بھائی انکے گھر آگیا وہ دوبئی میں ہوتا ہے اس نے اسے اس حال میں دیکھا تو اسکو لے کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب انکی یہ شرط ہے کہ فرمان اسکو علیحدہ رکھے تو وہ اس لڑکی کو بھیجیں گے ۔ لیکن فرمان کی ماں اسکو کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ فرمان کے ذریعے تو اسے چھے ہزار روپے ملتے ہیں ۔ تنخواہ ملتے ہی یہ دوڑ کر پیسے اسکے ہاتھ میں تھما آتا ہے"۔
" یار نواز سارا مسئلہ یہی نہیں ہے، خود اس کے اپنے حالات بھی تو ٹھیک نہیں ہیں ،اپنے اوپر اعتماد اس میں نہیں ہے، ذہن اسکا کام نہیں کرتا، کوئی مرد اسکو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے تو یہ شرمانے لگتا ہے ،فیصلہ کرنے کی قوت اس میں نہیں ہے، لکیر کا فقیر ہے، یہ اس لڑکی کو اکیلے کیسے سنبھال سکے گا؟
اتنے میں نواز کو پرنسپل صاحب نے آواز دی ،وہ انکی بات سننے چلا گیا اور میں ظہر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف چل پڑا ، سارے راستے اور نماز میں بھی میرے ذہن میں یہی باتیں گھومتی رہیں کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں اس افراط وتفریط سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اپنے بچوں کے بارے میں انتہائی حد تک حساس رہنے والے ان والدین کو کیسے سمجھایا جائے کہ صر ف اچھی تعلیم دلا دینے میں ہی بچوں کی کامیاب زندگی کی ضمانت نہیں ہے؟؟ بچوں کو ہر وقت پابند کیے رکھنے سے انکی تربیت نہیں ہوتی بلکہ انکے اندر کی صلاحیتیں مرجاتی ہیں ، انکی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے ۔ ۔ انکو سب کے سامنے مارنے سے انکے غلط کاموں کی اصلاح نہیں ہوجاتی بلکہ انکی سیلف ریسپیکٹ ختم ہوجاتی ہے ، وہ باغی ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ انکو ضرور پڑھائیے ، بری صحبت سے بھی بچائیے لیکن خدارا انکی معصوم خواہشوں کا گلا نہ گھوٹیے ۔۔ ان کلیوں کو کھلنے دیجیے ، انکو اپنے بچپنے کا اظہار کرنے دیجیے ۔ ۔ ۔ اپنی نظروں کے سامنے ہی سہی لیکن انکو اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیجیے ۔ ۔۔ انہیں اپنی مرضی سے گھومنے پھرنے دیجیے ۔ ۔ ۔انکو رشتہ داروں میں بیٹھنے کی اجازت دیجیے تاکہ ان کو بات کرنے کا، ملنے ملانے کا سلیقہ آئے ۔ ۔ خدارا آپ اپنی زندگی جیسی کیسی گزار چکے انکو زندگی کی تنہاء گلی میں نہ دھکیلیں ۔ ۔ انکو بولنے دیجیے کہ انکے اندرکی گھٹن ختم ہو۔ ۔ انکو غلطیاں کرنے دیجیےکہ انکو ان سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے ، اور یہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں۔ ۔ ان پر اعتبار کیجئے، انکے اچھے کاموں پر انکی تعریف کیجئے، انکو اپنی مرضی کرنے، اپنے قدموں پر کھڑا ہونے دیجیے تاکہ انکے اندر خود اعتمادی پیدا ہو ۔ ۔ ۔
6 comments:
یہ آپ نے بہت اچھا کیا جو لکھ دیا، یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا حال ہے، ہمارے یہاں کردار کی تعمیر پر اور شخصی آذاد پر توجہ ہی نہین دی جاتی، ایسے ہی اقوام کے روئیے بھی ہیں جہاں قوموں کے اندر خود اعتمادی پیدا نہین ہونے دی جاتی
بہت اچھا کیا کہ آپ نے یہ لکھ دیا ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ یہ سب کچھ شادی سے قبل ہی میرے دماغ میں ڈال دیا تھا ۔ میں نے اپنے بچوں کو کبھی اتنا بھی نہ کہا تھا کہ بیٹھ کے پڑھو ۔ کبھی کبھی صرف اتنا کہہ دیتا ”سکول کا کام کر لیا “۔ اگر نہ کیا ہو تو کہہ دیتا ”بیٹا ۔ سکول کا کام کر لو پھر کھیلو”۔
ویسے ایک دوسری انتہاء بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے کہ بچے کو سرکاری سکول میں نہیں پڑھانا کہ وہاں عام لڑکے ہعتے ہیں اسلئے اس پر بُرا اثر پڑے گا اور بچہ جو چاہے بگاڑے ۔ کسی بچے کا سر پھوڑ دے ۔ کسی کے گھر جا کے اس کی قیمتی چیز توڑ دے ۔ اُسے کچھ نہیں کہنا کہ بچے میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہو گی
راجہ صاحب اور افتخار اجمل صاحب بالکل ایسا ہی ہے افراط و تفریط اتنی ہے کہ نسل کا بہت نقصان ہوجانے کے بعد والدین کو سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے کیا غلطیاں کیں تھیں لیکن پھر ان غلطیوں کو ازالہ ہو نہیں سکتا، میں اسکی کئی مثالیں دیکھ چکا ہوں، ایک دفعہ ایک دوست کے گھر بیٹھا ہوا تھا اسکی والدہ آئیں اور مجھے کہنے لگیں دیکھو یہ نہ کسی سے ملتا ہے نہ کسی کے پاس بیٹھتا ہے، آج کچھ رشتہ دار آئے یہ دو منٹ انکے پاس نہیں بیٹھا، تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ، میرے بولنے سے پہلے وہ خود ہی پھٹ پڑا کہ امی جان آپ نے ہمیں شروع سے کسی سے ملنے دیا کہ اب ہمارا دل سے ملنے کا کرے؟ کبھی کسی سے بات کرنے دی کہ ہمارا دل کسی سے بات کرنے کو کرے؟آپ نے ہمیں اسی ڈربے میں بند رکھا ، ہمیں زندگی میں تنہاء کیا ہے، اب تو یہ عادتیں نہیں بدل سکتیں، آپ کیوں ہمیں بدتمیزی کرنے پر اکساتی ہیں؟
اس کے علاوہ کئی مثالیں میرے سامنے ہیں لڑکے کو سوسائٹی کے خراب ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ گھر میں بہنوں کیساتھ کھیلو، اب جب وہ بڑا ہوتا ہے تو بہنوں کی طرح ہی بات کرتا، چلتا اور نخرے کرتا ہے، بقول عمر شریف ایسے لڑکوں کے لیے بس میں بھی جگہ نہیں ہوتی مردوں کے خانے میں جاتے ہیں وہ عورتوں کی طرف بھیج دیتے ہیں کہ تمہاری جگہ اس طرف ہے، عورتوں کے خانے میں جاتے ہیں تو وہ مار کر نکال دیتی ہے کہ مرد ہو کر عورتوں میں گھس رہا ہے، یہی کچھ پھر سوسائٹی بھی اسکے ساتھ کرتی ہے۔
افتخار اجمل صاحب آپ نے بالکل صحیح فرمایا ایک تیسری انتہاء بھی ہے جو مغرب سے آئی ہے کہ بچے کو خود اعتمادی کے نام پر بدتمیز اور خود سر بنا دیا جاتا ہے، بے حیائی، بے غیرتی کو کانفیڈینس کا نام دیا جارہا ہے، اسکی تعریف بھی کی جاتی ہے کہ دیکھو اس میں کتنا کانفیڈینس ہے کہ اس نے سب کے سامنے ناچ گا کے دکھایا، فلانے لڑکے نے ٹیچر کو کلاس میں ایسی ایسی سنائیں کہ اسکی بولتی بند ہوگئی ۔ فلاں لڑکی میں اتنا کانفیڈینس ہے کہ کسی سے بھی آزادانہ بات کرلیتی ہے اور کہیں بھی اکیلے چلی جاتی ہے۔
اسی طرح کئی جگہ دیکھا اپنی آمدن، استطاعت سے بڑھ کر بچوں کو مہنگے مہنگے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے، انکو آسائشیں، آسانیاں دی جاتی ہیں تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، والدین اپنی ساری خواہشیں چھوڑ کر، کمائیاں کرکر کے،قرضے لے لے کر ہلکان ہوجاتے ہیں لیکن اولاد کی احساس کمتری نہیں جاتی، وہ پھر بھی انہیں طعنے دیتے ہیں کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ انکا کچھ کرنے کا معیار وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ پڑھتے رہے تھے۔
اس معاشرتی رویئے پر آپ نے بہت اچھا لکھا۔ بلاگ میں ایک طرف نظر آئی تھی جس کی کمی آپ نے اپنے آخری تبصرے میں پوری کر دی ہے ۔ شکریہ
خوب است سائیں ۔
ہر طرع کے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں
والدیں کا اپنے بچو پر سختی کا حق ضرور بنتا ہے لیکن بےجا سختی اور پابندی زیادہ طر نفسیاتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔