اتوار، 27 مئی، 2012

نورانی جال

 ڈاکٹر سرفراز صاحب  ہمارے کالج میں کے سینئر ٹیچر ہیں ، ان  کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کا  سلیقہ  آتا ہے اور انکے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے،عام سی بات بھی اپنی مخصوص انداز میں اس طرح کرتے ہیں کہ سننے والے کو مزا آتا ہے۔  اکثر سٹوڈنٹ فارغ اوقات میں ان کے گرد ہجوم لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور انکی مکس قسم کی  باتوں سے معزوز ہوتے رہتے ہیں ،   ڈاکٹر صاحب   امیر فیملی  سے ہیں اور امریکہ میں ساری تعلیم مکمل کی ہے  اس لیےانکی  تہذیب کا بھی بہت اثر ہے، موسیقی کے بہت شوقین ہیں ،  شراب بھی پیتے ہیں  اور نماز روزے کی پراہ نہیں کرتے. . ایک دن بریک ٹائم ہم بھی ان کے ٹھیے پر جا پہنچے،  وہ  مسلمانوں کی معاشرتی خرابیوں پر گفتگو فرما تے ہوئے کافروں کو مسلمانوں سےہر لحاظ سے  بہترقرار دیتے ہوئے اپنے موقف پر دلیلیں دے رہے تھے کہ انگریز  کتنے انصاف پسند اور سلجھے ہوئے ہیں اور یہ  مسلمان  کس طرح ہر  لحاظ سے تباہی کا شکار ہیں، مسلمانوں کی  ہر برائی کا تذکرہ کیا، مسلمانوں کی مختلف  کمزوریوں پر دل سوز انداز میں تبصرہ کرنے کے بعد انہوں نے سیاست کی طرف رخ کیا اور سب بڑے سیاستدانوں کی مٹی پلید کرنی شروع کردی اور پاکستان کی اسلامی  سیاسی جماعتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے چہرے سے غصہ عیاں تھا۔ ایک باریش  لڑکے نے کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب یہ سب تو اللہ کا عذاب ہے جو ہمارے اوپر ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے اور ہم  میں سے ہر بندہ اس کا ذمہ دار ہے، ہم لوگ خود سوچیں ہم اللہ کی کتنی اطاعت کرتے ہیں اور اسکے کتنے حقوق پورے کرتے ہیں،    ڈاکٹر صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکی  بات کو کاٹا  اور بولے   بھئ  اللہ نے اپنے حقوق کے بارے میں فرما دیا ہے کہ میں انہیں  معاف کردو گا ،حقوق العباد  معاف نہیں کرو نگا،  ایک تو  تم مولوی لوگ حقوق اللہ کی ہر جگہ بات کرتے رہتے ہو ، حقوق العباد کے بارے میں بولتے ہی نہیں، بھئی حقوق العباد پورے کرو جنت میں کوئی بھی اپنے  نماز روزے  کی وجہ سے نہیں جائے گا  بلکہ اللہ کی رحمت سے جائے ، پھر  (مشکوۃ کی )حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ  کہ  ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں  پہنچا ئے گا۔غرض کیا گیا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے؟ فرمایا  ہاں، میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک  اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے۔۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی 'اعمال' کا بھی بڑے فخریہ انداز سے تذکرہ کیا  کہ میں یہ یہ گناہ کرتا ہوں لیکن  کسی کا حق نہیں مارتا، کسی کے ساتھ ظلم نہیں  کرتا۔ یہ بات کرکے ڈاکٹر صاحب اٹھ کر کلاس میں چلے گئے  اور مجھے عجیب     حیرانگی کی کیفیت میں  مبتلا کر گئے،   مجھے سارا دن افسوس رہا  کہ مجھے وہاں اس پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا ،دن اسی بے چینی میں کٹ گیا کہ کیسے ان لوگوں کو سمجھاؤں ۔ ۔ ۔ ان سے تو بات کرنے کا موقع نہیں ملا  ،  گھر آکر اپنے دل  کا  غبار  بلاگ پر نکال دیا کہ 

نغمہ ہائے غم کو بھی اےدل غنیمت جانئے
بےصد ا ہوجائےگا یہ ساز ہستی ایک دن

   اللہ  یہ باتیں  اپنے فضل سے ان لوگوں تک پہنچا دے جو  اپنے خالق  کی  عفو وکرم  کے وعدوں کو سامنے رکھ کر  ناصرف اس کے  ہر حق کو ترک کیے بیٹھے ہیں بلکہ میری طرح  جرت سے    اس کی نافرمانیاں اور گناہ  بھی   کرتے ہیں،  وہ اس بات  کو بھولے بیٹھے ہیں کہ جہاں  اللہ   کی صفت رحمان  اور رحیم بھی ہے وہاں  قہار و جبار بھی ہے، اس  نے جنت مسلمانوں کے لیے بنائی ہوئی ہے ، ایک مخصوص جہنم ایمان والے گناہگاروں کے لیے  بھی بنائی  ہوئی ہے ۔ جن اعمال    نماز روزہ ، حج ، زکواۃ کو لوگ  حقوق العباد کا نعرہ لگا کر بھول چکے ہیں اگر انہیں   اسلامی شریعت سے نکال دیا جائے  تو باقی  کچھ بھی نہیں بچے گا،  اعمال کے تذکرے اور  جزا و سزا پر قرآن کی ہزاروں آیات   اور  حضور کی ہزاروں حدیثوں کو بھی نکالنا پڑے گا،  یہی نہیں مسلم معاشرے کا وصف،  امتیاز اور پہچان بھی بالکل ختم ہوجائے گی ، کیونکہ حقوق العباد تو کافر بھی پورے کررہے ہیں, ، مسلمانوں کی پوری دنیا میں ظاہری  شناخت  تو  یہی اعمال ہیں ۔  ڈاکٹر صاحب نے  اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے حدیث  کے اس حصے   کو بیان ہی نہیں کیا  کہ اللہ چاہےگا تو اپنا حق معاف کردے  اور یہاں یہ تاثر دے گئے  کہ نعوذ بااللہ اللہ  پابند  ہے کہ  وہ  لازمی اپنے حقوق معاف کردے گا  ،   میری ان باتوں کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ حقوق العباد کی کوئی حیثیت نہیں  یا اللہ مسلمانوں کی   بد اعمالیوں کوکسی صورت  معاف نہیں کرے گا، مسئلہ اعتدال اور ضابطے کا ہے۔ حقیقت میں جو  لوگ حقوق العباد  کو چھوڑ کر صرف حقوق اللہ کے کی ادائیگی پر زور دے رہے  ہیں وہ   بھی   اتنی   ہی  گمراہی اور  افراط وتفریط کا شکار ہیں جتنی حقوق اللہ کو چھوڑ کر حقوق العباد میں لگےہوے لوگ۔۔اسلام نے حقوق العباد کو  اہمیت دی ہے لیکن حقوق اللہ کی قربانی پر نہیں ،   حضور صلی للہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی ایک حدیث ہے  کہ  لا طاعة لمخلوق في معصية . (متفق عليه) ،جہاں خالق کی نافرمانی کرنی پڑے، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ 
اللہ کی عبادت کرنا اللہ  کا سب  سے بڑا حق ہے جو کوئی اللہ کے  علاوہ کسی اور کو معبود بنا لے   اللہ اسے کبھی معاف نہیں فرمائے گا (ِانَّ اللّٰہَ لَا یَغفِرَ اَن یُشرِکَ بِہِ۔۔۔) ۔ ہم لوگ اسی شرک خفی میں پڑے ہوئے ہیں، کسی دوکاندار کو نماز کا کہین تو کہتا ہے بچوں کے لیے رزق کمانا بھی عبادت ہے نہ جی، کسی نوجوان کو داڑھی کا کہیں تو کہتا ہے والدین، بیوی ناراض ہوجائے گی ۔ ۔اسی طرح ہر کسی نے  اپنے ہزاروں خدا بنائے ہوئے ہیں جن  کے حکم کو وہ اپنے اصلی خالق و مالک کے حکم پر فوقیت دیتا ہے ، حالانکہ قرآن میں  عبادت  کے اس حق کو ماں باپ کے حق پر بھی فوقیت دیتے ہوئے پہلے لایا گیا  ہے۔ وقضى ربك الا تعبدوا الا اياه وبالوالدين احسانا
 ڈاکٹر صاحب نے  اللہ کی رحمت پر بھی حدیث پیش کی  کہ حضور نے فرمایا کہ سب لوگ اللہ کی رحمت  سے جنت میں جائیں گے۔  اس  پر ایک آیت پیش کرتا ہوں ۔
  والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر ويقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة ويطيعون الله ۔ورسوله أولئك سيرحمهم الله إن الله عزيز حكيم ۔(9:71 )۔
 اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحمت نازل کرے گا۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
اللہ نے اس آیت  میں  رحمت کے حقدار   امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والوں، نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور سنت پر چلنے والوں کو ہی  ٹھہرا یا ہے ،سوچنے کی بات ہے  جو لوگ ان اعمال کو چھوڑ کر صرف اپنی مرضی کے حقوق العباد پورے کرنے میں لگے بیٹھے ہیں وہ کیسے اللہ کی اس رحمت سے مستفید ہوں گے جس کا تذکرہ اس حدیث میں ہے ۔ بزرگوں سے سنا کرتے تھے  کہ شیطان کےشیطانی جالوں کے علاوہ  نورانی جال بھی ہوتے  ہیں جن کے ذریعے وہ لوگوں کو عبادت کے رنگ میں  گمراہ کرتا ہے آج ان کا تجربہ ہوا کہ کس طرح لوگوں کو شیطان نے اپنے  ان نوارنی جالوں  میں پھنسایا ہوا ہے اور  وہ اپنی بد اعمالیوں کا حدیث کے ذریعے  دفاع کررہے ہیں  ۔ اللہ ہمیں افراط و تفریط سے بچائے۔     

6 comments:

Behna Ji نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم
یہ وہی سرفراز صاحب تو نہیں جو لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور انکے مسائل کا حل بتاتے ہیں اور مسقبل کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ؟ وہ سید سرفراز شاہ ہیں اور لاہور میں رہتے ہیں -

بالکل ٹھیک کہا آپ نے بنیاد پرست بھائ، شیطان انسان کو ہر طرح سے ورغلاتا ہے اور اسکو گمراہی کے لئے اسکے اپنے زہن سے دلیلیں گھڑ کر دیتا ہے اور قرآن حدیث کا حوالہ بھِی دلواتا ہے- اللہ ہم سب کو اپنی نفس پرستی اور شیطانی ہتھکنڈوں سے بچائے آّمین-اس فتنے کا زیادہ شکار عقلیت پسند اور 'پڑھے لکھے'' لوگ ہی ہوتے ہیں عموماً-
اور تارک نماز کے لئے جہنم کی سزا ہے جو کہ اس آیت سے بھِی واضح ہے:

40 (وہ) باغات میں ہوں گے، اور آپس میں پوچھتے ہوں گے،

41 مجرموں کے بارے میں،

42 (اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی،

43 وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے،

( سورة المدثر )

ام عروبہ

گمنام نے لکھا ہے کہ

"ایک تو تم مولوی لوگ حقوق اللہ کی ہر جگہ بات کرتے رہتے ہو ، حقوق العباد کے بارے میں بولتے ہی نہیں"

واقعی يہ بات تم مولوی لوگوں کو بہت کھٹکتی ہے، دھشت گرد جو ہوئے

انکل ٹام نے لکھا ہے کہ

مین نے بھی کچھ عرصہ پہلے اس بارے لکھا تھا

عطاء رفیع نے لکھا ہے کہ

شاید آپ بھول گئے ہیں کہ مولویوں کی اصلاح ہر پروفیسر کا پیدائشی فریضہ ہے، جاب کے دوران تو وہ کرتے ہی ہیں۔ اصل کام ریٹائرمنٹ کے بعد سر انجام دیتے ہیں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست صاحب نے بہنا جی کے استفسار کا کوئی جواب نہیں دیا حالانکہ یہ اسان سا سوال تھا۔ ویسے بہنا جی جمع خاطر رکھیے یہ سید سرفراز شاہ صاحب نہیں ہیں۔

دعا نے لکھا ہے کہ

یہ سارے نفس کے دھوکے ہیں جبکہ اسلام کی بنیاد ہی نماز روزہ حج زکوتہ ہیں۔
ماشاء اللہ بہت اچھا لکھا آپ نے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔