قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ 'اللہ نےانہیں اپنی طرف بلند کردیا 'وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ انکے درجات بلند کردیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلند ی کا یہ فیدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے، عیسی پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکی قبر کشمیر میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک محبوط الحواس بھینگے میٹرک فیل دجال و کذاب مرزاقادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔۔یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی پیشی کیساتھ غامدی صاحب کا بھی ہے ، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتے ہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے انکا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیااور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ غامدی اور قادیانی دونوں آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“سے ”موت“مراد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اس آیت کی تشریح کرنے والی متواترصحیح احادیث اور جید صحابہ کےاقوال کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ قادیانی انہی احادیث سے مسیح علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونےکا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرز ا قادیانی نے تو محض عیسی علیہ السلام کی سیٹ خالی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے عیسی کی وفات کا عقیدہ اور اسکی قبر کے قصے گھڑے، اسکی کذب، چال بازیوں ، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہوچکی ہے، آج ہم غامدی صاحب کی اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ انکی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں ۔
" سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انکی روح قبض کی گئی اور اسکے فورا بعد انکا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تاکہ یہود اسکی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک انکے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔ اس میں دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور "رفع" اسکے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے "۔( ماہنامہ اشراق، اپریل 1995، صفحہ 45) ایک اور جگہ لکھتے ہیں :حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے انکی روح ہی قبض نہیں کی انکا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اسکی توہین کرے۔"(اشراق جولائی 1994، صفحہ 32)
" سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انکی روح قبض کی گئی اور اسکے فورا بعد انکا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تاکہ یہود اسکی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک انکے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔ اس میں دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور "رفع" اسکے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے "۔( ماہنامہ اشراق، اپریل 1995، صفحہ 45) ایک اور جگہ لکھتے ہیں :حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے انکی روح ہی قبض نہیں کی انکا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اسکی توہین کرے۔"(اشراق جولائی 1994، صفحہ 32)
القرآن یفسّر بعضہ بعضاً :۔
قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور انکے شاگردوں کی تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہم انکی پسند کے مطابق انکے اس عقیدہ کی بنیاد سورۃ ال عمران کی اس آیت کی ’’القرآن یفسّر بعضہ بعضاً (قرآن کے کچھ حصّوں کی قرآن کی دوسرے حصّے تفسیر کرتے ہیں) کےتحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات انکی (غامدی صاحب) اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث اور صحابہ و علمائے امت کا اجماع قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے؟
مسئلہ حیات عیسی اور قرآن:۔
غامدی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے و مکرو ا و مکراللہ۔ واللہ خیر المکرین۔ اور ان کافروں نے (عیسی علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی صاحب ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں ' کی وضاحت سورۃ النساء آیت 157 یوں کرتی ہے :
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6)
ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158)
آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ " بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف"۔ یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے'الیہ' یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔
آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ " بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف"۔ یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے'الیہ' یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔
لفظ' توفی' کی قرآن سے وضاحت:.
منکر حدیث، قادیانی اور غامدی آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“ سے مطلق ”موت“مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئےتھے۔ ۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ کی ہی رہی'۔ لفظ'توفی' کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔
1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ) الزمر 42 پارہ 24(
ترجمہ : اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں ، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”توفی“بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ ”توفی“موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہےتو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور”حِينَ مَوْتِهَا “کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”توفی“ موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو "توفی" دیتا ہےاور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام "توفی" کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔
2. وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ الخ (الانعام 60 پارہ 7 )
ترجمہ:وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔
اس مقام پر بھی ”توفی“موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ۔
اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔
3. حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ الخ (النساء15 پارہ 4)
ترجمہ : یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔
اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ 'موت' لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ ”توفی “ کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ ”توفی “سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ الخ ( السجدة 11 پارہ 21)
ترجمہ : تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے ”توفی “سے مرادموت لی جائے گی ۔
اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ نبی علیہ السلام کے لیے انک میت وانہم میتون، افائن مت فہم الخالدون اسی طرح سلیمان علیہ السلام فلما قضینا علیہ الموت ما دلھم علی موتہ ۔ ۔ جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہےجہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی صاحب کے عقیدہ کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔
غامدی صاحب محض ایک ذومعنی لفظ کی بنیاد پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں پھر جسم اوپر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی اشارہ نظر آتا ہے تو لاش کو بھی آسمانوں پر اٹھانے لینے کی وجہ گھڑ لیتے ہیں کہ جی سرپھری قوم کہیں اسکی توہین نہ کریں اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ ۔ شاید انکے علم میں نہیں کہ یہود نے زکریا ، یحیی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے ہزاروں نبی کس بے دردی سے شہید کیے تھے ، حیرت ہے اس اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا ؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کر عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ نے اسکو ناکام بناتے ہوئے عیسی کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھالیا۔ غامدی صاحب نے اپنے تفرد میں اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔
مسئلہ نزول عیسی اور قرآن:۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں : " ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہوسکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے"۔ (میزان، ص 178، طبع سوئم )
غامدی صاحب نے لفظ توفی سے حیات عیسی کے انکار کا عقیدہ تیار کیا پھر اس عقیدہ کے دفاع میں نا صرف انہیں اس متعلق تمام احادیث کا انکار کرنا پڑا اور ساری امت کی مخالفت کرنی پڑی بلکہ نزول عیسی کا منکر بھی ہونا پڑا۔اپنے نزول عیسی کے انکار کے عقیدہ کی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس متعلق قرآن میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ۔ ۔ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ جب تمہاری تحقیق کے مطابق قرآن نزول عیسی کے حق یا خلاف میں کچھ نہیں بتا رہا تو پھر تم صحیح احادیث کو کیوں رد کررہے ہو؟۔ یہاں تمہارے پاس کونسی نص قطعی ہے جسکی ان احادیث کو صحیح مان لینے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ؟ پرویز ی تو چلیں حدیث کے صریح منکر ہیں وہ ایسا عقیدہ رکھ بھی سکتے ہیں تم تو اپنی کتابوں اور سائیٹس پر" قرآن و سنت کی روشنی میں " کے الفاظ سجا سجا کر لکھتے ہو ۔! اس سنت سے کس کی سنت مراد ہے؟ جب تمہیں اتنی متواتر اور صحیح احادیث قبول نہیں اور صرف قرآن ہی تمہاری ساری شریعت کا ماخذ ہے تو پھر اس سنت کے لفظ کوقرآن کے ساتھ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے تاکہ لوگوں کا واضح پتا چل جائے کہ یہ بھی اہل قرآن ( منکر حدیث ) ہیں۔۔پھر تمہیں ان لوگوں پر اعتراض کیوں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر صرف اسی صحیح یا ضعیف حدیث کو مانتا ہے جو انکی بات کی تائید کرتی ہو یا جس سے انکو اپنے موقف کی دلیل مل سکتی ہو، اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں بھی صحیح سے صحیح حدیث کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔!!
حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔
اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ۔) سورۃ الزخرف آیت 61(
اور یقین رکھو کہ وہ (عیسی علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔
بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟
’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الخ النساء 158
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے،۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے۔"(البحر المحیط ج 3 ص 392) (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)
غامدی مکتبہ فکر عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہے۔ اگر انکے اس عقیدہ کے عیسی علیہ السلام کو مردہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا کو صحیح بھی مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اگر انکے عقیدہ کے مطابق واقعی عیسی علیہ اسلام کی لاش آسمانوں پر اٹھائی گئی ہے تو وہ دنیا میں کب آئے گی ؟ حشر کا میدان تو زمین پر لگے گا، اس دن خاتم الانبیاء سمیت سب انسان اپنی انہی قبروں سے اٹھیں گے، کیا عیسی آسماں پر زندہ کیے جائیں گے اور اللہ اور فرشتوں کیساتھ آسمان سے نازل ہوں گے ؟؟؟ قرآن میں اسکی تصریح یا اشارہ کہاں ہے؟ عقیدہ حیات و نزول عیسی کو عیسائیوں سے درآمد شدہ کہنے والے خود ناصرف حیات عیسی کے متعلق نصاری کے عقیدہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ انہیں الوہیت عیسی کےبھرپور دلائل بھی فراہم کررہے ہیں۔'سکالر اسلام 'کی دورخی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف صاحب پرانے صحائف میں موسیقی کے تذکرے کی آیات کی تصدیق قرآن میں موجود داؤد علیہ السلام کے زبور پڑھنے کی آیات سے کرتے ہیں اور انہیں قرآن سے موسیقی کا اشارہ کہتے اور پرانے صحائف میں موجود موسیقی کے متعلق آیات کو انکی وضاحت کہہ کر موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں، دوسری طرف نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن میں موجود واضح دلائل کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی۲۴ :۳۔۵)
اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ۔
منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے :۔
ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے ذیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ نے قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انتظام کیا ، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ مرزا قادیانی چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔ خطرہ کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب قادیانیوں، پرویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی، جدت پسندی اور تفرد کی وجہ سے نہ صرف خود کفر کی طرف جارہے ہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو بھی اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ۔ ۔ ۔
اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ۔
منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے :۔
ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے ذیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ نے قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انتظام کیا ، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ مرزا قادیانی چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔ خطرہ کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب قادیانیوں، پرویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی، جدت پسندی اور تفرد کی وجہ سے نہ صرف خود کفر کی طرف جارہے ہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو بھی اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ۔ ۔ ۔