جمعرات، 26 مئی، 2011

کیا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بتوں کی پوجا کرنے کی طرح ہے ۔؟

وساوس
مسلمانوں اور ہندوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان کعبہ کی۔ 
کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بھی   بتوں کی پوجا کرنے  کی طرح ہے ۔
ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟ 

جواب :
یہ غلطی فہمی جس کو مختلف وساوس کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ’ہندوستان میں مسلمانوں کے قبضہ اور اقتدار کے پہلے دور سے چلی آرہی ہے۔   ہندوؤں کی طرف سے پیدا کیے گئے ان وساوس کا جواب اسی  دور کے علما نے دے دیا تھا، لیکن  دینی علم اور علما سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ابھی بھی لوگ اس وسوسہ کا شکار ہے اور کچھ لوگ جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں وہ اس کو باقاعدہ اسلام کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔  

اس وسوسہ کے جواب کے لیے ان  چند پوائنٹس پر غور کر لیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

1. اسلام میں اصل  اہمیت اللہ کے  حکم کی ہے۔ وہ جو چاہیے، جیسے چاہے اپنی حکمت کے مطابق انسانوں کے لیے مقرر کردے، میں اس کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں

پہلی مثال :

ہجرت مدینہ سے سولہ سترہ مہینے تک  مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ پھر  جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا تو اسی کی طرف رخ کرنا عبادت ہوگیا۔ قرآن میں دوسرے سپارے کی پہلی آیات میں تحویل قبلہ کا ذکر ہے۔

"بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے کہہ دو مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے، اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔" (سورۃ البقرہ، آیت 142،143)

حکمت خداوندی واضح  ہے  کہ قبلہ کی حیثیت محض ایک سمت کی ہے  اصل چیز تو حکم خداوندی ہے’ ۔  اسی کا اللہ نے اوپر آیت میں ذکر بھی کیا کہ سب سمتیں  خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب اللہ ہی کی ملک ہیں ، اسے اختیار ہے جس سمت کو چاہے مقرر فرمادے۔  ہم دیکھیں گے کہ   کون ہمارے حکم کی پیروی کرتا اور  پیغمبر کے تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔


دوسری مثال :



حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : 
میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا ۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا " (اے پتھر!) اگر تجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا " اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں تعظیم پتھر کی نہیں بلکہ نبی کے فرمان کی ہورہی ہے۔ یہی بات شیطان کو سمجھ نہ آئی اور راندہ درگاہ ہوا۔


2. استقبال قبلہ کا ایک  راز یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا گیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی گئی ہے, ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا.  ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں  عبادت کی روح’  دلجمعی اور یکسوئی ہے ،  مطلب دلجمعی اور یکسوئی کے بغیر  عبادت کی صورت ہی رہ جاتی ہے، اس میں روح نہیں پائی جاتی ، اب اگر نماز میں ایک خاص جہت/سمت  مقرر نہ ہوتی تو کوئی کسی طرف منہ کرکے کھڑا ہوجاتا ، کوئی کسی طرف، اس اختلاف جہات  و ہیئات سے تفرق قلب ہوتا ۔ اس خاص سمت کو مقررکرنے  نے اس فساد اور تفریق کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور مسلمانوں کو ایک اللہ ، ایک قرآن کے ساتھ ایک کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے پر جمع کردیا ہے۔

3. کسی کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے  کہ کعبہ ہی کو  سمت کے لیے کیوں مقرر کی گیا کسی اور کو کیوں نہیں  ؟  اسکی اور بہت سی  جغرافیائی  وجوہات کے علاوہ  ایک طالب علم کے لیے کعبہ  ہی کے تعین کے پیچھے یہ ہے کہ  تجلیات  الہی  روح کعبہ اور حقیقت کعبہ ہیں۔ اللہ  کی توجہ کعبہ کی طرف ذیادہ ہے  یعنی اللہ نے اپنی تجلیات کا مرکز کعبہ کو بنا کرخود انسانوں کو اس طرف رخ کرکے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ آسان الفاظ میں حقیقت میں  مسلمان  کعبہ کی دیواروں کا استقبال نہیں کرتے ، بلکہ تجلی الہی کا استقبال کرتے ہیں ۔ اگر کعبہ کی دیواروں  کا استقبال، طواف ، عبادت ہوتی تو  کعبہ کی چھت پر نماز  جائز نہ ہوتی ۔ 

4. مسلمان خود کعبہ کی معبودیت کی نفی کرتے ہیں ،کوئی بت پرست اپنے معبود کی معبودیت کی نفی نہیں کیا کرتا۔

5. بت پرست اپنی عبادت میں بت کی طرف متوجہ رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو نماز کے دورا ن  کعبہ کی عبادت  کا خیال بھی نہیں آتا۔

6. بت پرست  بت کے بغیر عبادت نہیں کرتا،  جبکہ  مسلمانوں پر نماز کعبہ کے بغیر بھی فرض رہے گی ، نماز کے ٹائم اس طرف منہ کرلیا جائے گا، مطلب مسلمان  پتھر یا اینٹ کو نہیں پوجتے  ورنہ انہدام کعبہ کے بعد نماز موقوف ہوجاتی ،۔

7. مسلمان کعبے کے اوپر چڑھ کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ، جبکہ پت پرستوں کے ہاں ایسے عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہ گستاخی اور  بے ادبی ہے۔

 ان  پوائنٹس سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کا اللہ کی عبادت کے لیے  کعبہ کی طرف رخ کرنے نماز پڑھنا اور کسی بت پرست کی بت کی پوجا آپس میں کسی قسم کی  کوئی مماثلت  نہیں رکھتے ۔ اللہ ہمیں شرح صدر عطا فرمادے۔



18 comments:

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ۔

اللہ خوش رکھے

شازل نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ بھائی
بہت خوبصعورت مثالیں دی ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ خيراٌ
اللہ علم ميں مزيد اضافہ فرمائے

خالد حمید نے لکھا ہے کہ

بہت خوب،
اللہ مزید ہمت دے، اور علم میں اضافہ فرمائے

احمد عرفان شفقت نے لکھا ہے کہ

بہت شکریہ جناب

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

جزاک الله ...نہایت محکم دلائل سے اس وسوسے کا پردہ چاک کیا ہے.

فخرنوید نے لکھا ہے کہ

جناب اس کا جواب ذاکر نائیک کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دیا گیا۔ آپ کی کاوش اچھی ہے۔

وسلام

درویش خُراسانی نے لکھا ہے کہ

اچھی تحریر ہے ۔ماشاء اللہ ۔اللہ تعالیٰ آپکی سعی کو قبول فرمادے۔
جزاک اللہ خیرا

میں بھی پاکستان ہوں نے لکھا ہے کہ

میرے خیال میں تو جو مسلمان یہ سوال سن کر کسی شک میں مبتلا ہو گاوہ ایمان کی کمزوری کا شکار ہے، کیوں کہ سیدھی بات ہے متحد ہونا، اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے اتحاد کے لیئے ایک جگہ ایک سمت متعین کردی تاکہ کسی کو کوئی اختلاف نا ہو۔ ایک زبان (عربی) میں قرآن پاک اتارا گیا تا کہ ایک زبان پر متفق رہیں، اور کوئی اختلاف نا ہو۔

سیدھا جواب خانہ خدا ہمارا نقطہ انجماد ہے نا کہ کوئی عمارت یا پتھر۔

بہرحال جزاک اللہ !!!!!!!!!!
بہت خوبصورت تحریر ہے، اور وہ نوجوان جو مغربی ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر شکوک شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان کے لیئے بہت موثر تحریر ہے۔

شکریہ :::::::::::::

noor نے لکھا ہے کہ

بہت بہترین


جزاک اللہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

اللہ آپ کو اجز دے آپ نے اس تحریر کو پڑھنے کےلیے ٹائم نکالا اور میری اس تحریر پر حوصلہ افزائی کی۔

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند قدس اللہ سرہ نے خاص اس موضوع پر قبلہ نما کے نام سے ایک مستقل تحریر لکھی ہے، جو علم لَدُنّی کے حقائق ومعارف کا گنجینہ اور اسرار ولطائف کا ایک خزینہ ہے، اس کو نہایت اختصار کے ساتھ کے پیش کرتا ہوں۔

حق جل شانہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کے سامنے اپنے عجز ونیاز کا اظہار کرے اور آدابِ عبودیت بجالائے، اس لئے ضروری ہوا کہ عابد اور معبود میں آمنا سامنا ہو، اور آمنا سامنا ہونے کے لئے بظاہر مکان اور جہت درکار ہے اور اللہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک اور منزہ ہے، کیونکہ وہ تو خود جہت اور مکان اور زمان کا خالق ہے، اور انسان جسم اور روح سے مرکب ہے، سو عبادتِ روحانی کے لئے تو کسی جہت اور مکان کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ روح مکانی نہیں۔ روح خداوند ذوالجلال کی بے چونی اوربے چگونی کا نمونہ ہے، جیساکہ حدیث میں ہے:” خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ“، اس لئے روح کی عبادت کے لئے قلبی اور معنوی توجہ کافی ہے، کسی قبلہ اور جہت کی ضرورت نہیں۔
البتہ عبادتِ جسمانی بدون تقابلِ جہت متصوّر نہیں اور انسان چونکہ مقیّد فی الجہة ہے، اس لئے اس کو یہ حکم دینا کہ جہت سے علیحدہ ہوکر عبادت کیا کرو تو یہ تکلیف مالایطاق ہے اور فقط روحانی عبادت کافی نہیں، بلکہ روح اور جسم دونوں ہی مکلف ہیں۔
روحانی عبادت کی طرح جسمانی عبادت بھی فرض اور لازم ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ روح تو عبادت کی مخاطب ہو اور جسم معطل رہے؟ اور یہ بھی مناسب نہیں کہ ہرشخص جس طرف چاہے سجدہ کرلیا کرے اور ہرایک اپنا قبلہ بنائے، اس لئے خداوند کریم نے ایک جہت مقرر فرمادی، تاکہ ایک سمت متعیّن ہوجائے اور ملت کے انتظام میں فرق نہ آئے، کیونکہ جو جہت اللہ کی طرف سے مقرر ہوگی، اس میں کسی کو ردّ وبدل کی گنجائش نہ ہوگی۔ باقی رہا یہ امر کہ اس خاص سمت کی تعیین کی وجہ کیا ہے؟ سو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اور اگر یہ اجازت ہوتی کہ جس طرف کو جس کاجی چاہے وہ سجدہ کرلیا کرے تو اس میں انتظام اور اتفاق کی کوئی صورت نہ تھی اور ظاہر ہے کہ اتفاق ایک نہایت محمود اور پسندیدہ چیز ہے۔

حق جل شانہ کی ذات چونکہ بے چون وچگون ہے، اس لئے وہ کسی حد میں محدود اور مقید نہیں، البتہ اس کی کوئی تجلی اور کوئی پر تو کسی محدود اور مقیّد پر پڑسکتا ہے، جیسے آفتاب کا عکس اور پرتو آئینہ پر پڑتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آئینہ فقط ایک مظہر اور نمائش گاہ ہے، محل قید نہیں۔ آئینہ کا آفتاب کو اپنے آغوش میں لے لینا قطعاً محال ہے، البتہ آفتاب آئینہ میں جلوہ گرہوسکتا ہے، جیسے آسمان آنکھ کی پتلی میں جلوہ گرہوتا ہے، مگر انعکاس کی ایک شرط تو یہ ہے کہ آئینہ صاف وشفاف ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آئینہ آفتاب کے مقابل ہو، بغیر تقابل کے انعکاس ممکن نہیں۔ اسی طرح حق جل شانہ کی ذاتِ بے چون وچگون کو سمجھو کہ وہ حدود اور قیود سے پاک اور منزّہ ہے، مگر کسی جہت اور مکان اور کسی محدود شئ میں اس کی تجلّی ممکن ہے۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ خيراٌ

Clone of Mirza نے لکھا ہے کہ

nice

گمنام نے لکھا ہے کہ

خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے

گمنام نے لکھا ہے کہ

اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج تم بھی بھگوان بنے بیٹے ہوں مندر میں

وہ پتھروں سے مانگتے ہیں اپنی مراد
ہم تو اسکے ماننے والے ہیں
جس کے محبوب کو دیکھ کر پتھر بھی کلمہ پڑھتے ہیں

Sajid Khan نے لکھا ہے کہ

is mozo pr hazrat nanotvi r.a ki zakheem kitab QIBLA NUMA hay ager smajh may ajay to us ka mutala bohat mufeed rahay ga

دعا نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ بہت اچھا لکھا ہے۔ ماشاء اللہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشااللہ علیک

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔