پیر، 16 مئی، 2011

انبیاء کرام ہی معصوم عن الخطاء اور مقدس کیوں ؟

عصمت کا مطلب ہے گناہوں سے معصوم ہونا، اہلسنت کا اس پر اجماع  ہے کہ نبی  معصوم ہوتا ہے،  وہ ظاہر وباطن‘ قلب وقالب‘ روح وجسد ہراعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے‘ وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطرت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء ومشیتِ الٰہی کے تابع ہوتی ہیں‘ ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے‘ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہردم اس کی نگرانی کرتی ہے‘اس کی ہرحرکت وسکون پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ بٹھادیا جاتا ہے اور وہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتا ہے‘ ایسی شخصیت سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال وممتنع ہے‘ اسی کا نام عصمت ہے اور ایسی ہستی کو معصوم کہا جاتا ہے‘ عصمت لازمہٴ نبوت ہے۔
چونکہ نبوت کے لئے حق تعالیٰ جل ذکرہ  خودایک ایسی برگزیدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتاہے ،ظاہر ہے کہ جب حق تعالیٰ کا علم محیط نبوت ورسالت کے لئے کسی شخصیت کو منتخب کرے گا تو اس میں کسی نقص کے احتمال کی گنجائش نہیں رہ جاتی‘ اس منصب کے لئے جس مقدس ہستی پر حق تعالیٰ کی نظر انتخاب پڑے گی اور جسے تمام انسانوں سے چھانٹ کر اس عہدہ کے لئے چنا جائے گا‘ وہ اپنے دور کی کامل ترین‘ جامع ترین‘ اعلیٰ ترین اور موزوں ترین شخصیت ہوگی.

 مزید نبوت ورسالت محض عطیہٴ الٰہی ہے‘ کسب واکتساب سے اس کا تعلق نہیں کہ محنت ومجاہدہ اور ریاضت ومشقت سے حاصل ہوجائے‘ دنیا کا ہر کمال محنت ومجاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے ،لیکن نبوت ورسالت حق تعالیٰ کا اجتبائی عطیہ ہے ،وہ جس کو چاہتاہے اس منصب کے لئے چن لیتا ہے‘ قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ تصریحات موجود ہیں:
”اللہ یصطفی من الملائکة رسلاً ومن الناس“ ( الحج:۷۵)
یعنی اللہ چن لیتا ہے فرشتوں سے پیغامبر اور انسانوں سے

اگر ہم ایک منٹ کے لیے نبوت سے عصمت  کو  جدا کرتے ہیں تو اس کے  معنی یہ ہوئے کہ عین اس وقت نبی کی حیثیت ایک ایسی شخصیت کی نہیں ہوتی جو امت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو‘ اور جسے امین ومامون قرار دیا گیا ہو‘ اس وقت اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہوگی یا زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہئے کہ: عین اس حالت میں جبکہ نبی سے عصمت اٹھالی جاتی ہے وہ نبوت اور لوازم نبوت سے موصوف نہیں ہوتا ‘ ظاہر ہے کہ اگر یہ غلط منطق تسلیم کرلی جائے تو سارا دین ختم ہوجاتا ہے ۔نبی اور رسول کی ہر بات-- معاذ اللہ-- مشکوک ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی قول وعمل اور تلقین وتعلیم قابل اعتماد نہیں رہتی۔
جو لوگ بھول چوک اور ”معصیت“ کے درمیان فرق نہیں کرسکتے وہ ان نازک علمی مباحث میں الجھ کر ”ضلوا فأضلوا“ (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا) کا مصداق بنتے ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھول چوک اور خطا ونسیان خاصہٴ بشریت ہے‘ مگر گناہ ومعصیت مقتصائے بشریت نہیں‘ بلکہ خاصہٴ شیطانیت ہے‘ انسان سے گناہ ہوتا ہے تو محض تقاضائے بشریت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ شیطان کے تسلط واغوا سے ہوتا ہے‘ انبیا چونکہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتا ہے‘ اس لیے ان  سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن ہوتا  ہے۔،  یہاں ایک اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے کہ  اجتہادی خطا کا صدور انبیا سے بھی ممکن ہے، اب حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام کی غلطی، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق فیصلہ  اجتہادی غلطی تھی۔انبیا  پر چونکہ وحیِ الٰہی اور عصمت کا پہرہ رہتا ہے اس لئے انہیں خطاء اجتہادی پر بھی قائم نہیں رہنے دیا جاتا، بلکہ وحی الٰہی فوراً انہیں متنبہ کردیتی ہے۔
اللہ ہمیں ہدایت اور صحیح سمجھ  عطا فرمادے۔


1 comments:

گمنام نے لکھا ہے کہ

اللہ آپکی محنت قبول فرمائیں
محمد سعید پالن پوری

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔