پیر، 18 جولائی، 2011

مدارس کی تصویر کا دوسرا رخ

وہ تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ ملک کے ایک ممتاز صنعت کار مجھے بتا رہے تھے کہ مغربی میڈیا میں پاکستان کے دینی مدارس کے متعلق جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ اصل حقیقت نہیں۔ انہوں نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگلے دس سال میں پاکستان کی سیاست، معیشت اور تعلیمی میدان میں دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات نہایت اہم کردار ادا کریں گے بلکہ ممکن ہے کہ یہ طلبہ و طالبات آپ کو زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ میرے چہرے پر حیرتوں کے سائے لہراتے دیکھ کر صنعت کار نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگے کہ گھبرایئے نہیں دینی مدارس سے پاکستان کو نقصان نہیں بلکہ بہت فائدہ ہوگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگلے دس سال کے دوران پاکستان میں دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی تعداد دوگنی ہوجائے گی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ پاکستان کے انگلش میڈیم اسکولوں کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ جبکہ سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں معیار تعلیم نہایت ناقص ہے۔ پہلے تو صرف غریب طبقے کے بچے دینی مدارس میں جاتے تھے لیکن کچھ عرصے سے متوسط طبقے اور امیر طبقے کے بچوں کو بھی قابل ذکر تعداد میں دینی مدارس میں بھجوایا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے دینی مدارس میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے بھی کروایا جانے لگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا اپنا بیٹا گریجویشن کے بعد علوم شریعہ کا چار سالہ کورس کررہا ہے اور دینی مدرسے کے ماحول نے ان کے بیٹے کی شخصیت میں جو مثبت تبدیلیاں پیدا کیں، انہیں دیکھ کر خاندان کے کئی لوگوں نے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں سے نکال کر دینی مدارس میں بھیج دیا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم کاروباری لوگ ہیں، گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ انگلش میڈیم اسکولوں کی تعلیم نے تین میں سے دو بیٹے مجھ سے چھین لئے۔ دونوں بڑے بیٹے لڑ جھگڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ چھوٹے بیٹے نے بھی کچھ عرصہ بیرون ملک گزارا۔ دو سال پہلے چھٹیوں میں پاکستان آیا تو ایک دوست کے ساتھ جامعة الرشید گیا۔ واپس آیا تو اس نے اعلان کیا کہ وہ شریعہ کورس میں داخلہ لے رہا ہے۔ یہ سن کر گھر والے بہت پریشان ہوئے کہ بیٹا مولوی بننا چاہتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ جامعة الرشید نے ہمیں ہمارا بیٹا واپس لوٹا دیا ہے۔ اس صنعت کار سے میری ملاقات گزشتہ ہفتے جامعة الرشید احسن آباد کراچی کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد میں ہوئی۔ جامعة الرشید میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔ یہاں بی اے اور بی بی اے کے علاوہ ایم اے معاشیات اور ایم بی اے بھی کروایا جا رہا ہے۔ حفاظ قرآن کیلئے ایک سالہ عربی اور ایک سالہ انگلش کورس شروع کیا گیا ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ دیگر مدارس میں جا کر انگلش پڑھا رہے ہیں۔

جامعة الرشید کی سالانہ تقریب میں مولانا حسین احمد مدنی کی ایک کتاب پربنائی گئی ڈاکومنٹری فلم پیش کی گئی۔ اس فلم میں بتایا گیا تھا کہ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کو کیسے لوٹا تھا۔ اس فلم میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی ایک نظم کے کچھ اشعار بھی شامل کئے گئے۔ مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کو ڈاکو منٹری میں یکجا کرنے پر میں نے جامعة الرشید کے نگران مفتی عبدالرحیم صاحب کو مبارک باد دی۔ ہمارے ان بزرگوں نے اپنی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھل کر اختلاف کیا تھا لیکن اس ڈاکو منٹری میں ان دونوں کے مشترکات کو سامنے لایا گیا تھا جو جامعة الرشید کے طلبہ کی حب الوطنی، رواداری اور روشن خیالی کا بھر پور مظاہرہ تھا۔ تقریب ختم ہونے کے بعد مہمان خانے میں جامعة الرشید کے نوجوان طلبہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے۔ یہ طلبہ باری باری ڈاکٹر صاحب کے پاؤں دبانے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں منع کر رہے تھے لیکن ان بچوں نے پاؤں دبانے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ قطار بنا لی تھی۔ میں اور جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان صاحب اس منظر کو دیکھ کر بڑے محظوظ ہو رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج میرے وطن کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے جو بزرگوں کی بے لوث خدمت کو سب سے بڑی سعادت سمجھیں لیکن کیا سب دینی مدارس میں ایسی سعادت مندی کی تعلیم دی جاتی ہے؟
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سے دینی مدارس ابھی تک انگلش کو حرام سمجھتے ہیں۔ ان دینی مدارس میں دنیاوی علوم کا داخلہ بند ہے اور کئی اساتذہ کھلم کھلا فرقہ وارانہ نفرتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن سب دینی مدارس میں ایسا نہیں ہوتا۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جب ہزاروں دینی مدارس کے لاکھوں طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو کہیں پر بھی پولیس تعینات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، نہ کوئی ہنگامہ ہوتا ہے، نہ نقل کی شکایت آتی ہے۔ دینی مدارس کا نظم و ضبط مثالی ہے۔ یہ مدارس حکومت سے امداد لئے بغیر لاکھوں طلبہ و طالبات کو تعلیم دے رہے ہیں اگر ان مدارس میں جامعة الرشید کی طرز پر اصلاحات کو فروغ دیا جائے تو یہ ایک قومی خدمت ہوگی۔ اس ادارے کے علاوہ دارالعلوم کراچی میں اے لیول کے کئی مضامین پڑھائے جانے لگے ہیں، دارالعلوم اسلامیہ اسلام آباد اور جامعة الحجت اسلام آباد کے طلبہ فیڈرل بورڈ میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کر رہے ہیں، جامعہ نعیمیہ لاہور اور جامعہ قادریہ رضویہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے علاوہ منہاج یونیورسٹی اورمحی الدین اسلامک یونیورسٹی آزادکشمیر میں بھی دینی و دنیاوی علوم کو یکجا کیا جاچکا ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے زیر انتظام اشرفیہ گرلزکالج اور دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے زیرانتظام غوثیہ گرلز کالج میں طالبات کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جا رہی ہے۔

مفتی محمد نعیم کے جامعہ بنوریہ کراچی کی ویب سائٹ اس ادارے کی جدت پسندی کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ ابو ہریرہ اکیڈمی لاہور کی ویب سائٹ بھی بہت دیدہ زیب ہے لیکن مغربی میڈیا میں ہمیں ان مدارس کا ذکر نہیں ملتا۔ مغربی میڈیا میں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ ان درس گاہوں کو دہشت گردی کے اڈوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان دونوں درس گاہوں کا ماحول یکسر مختلف ہے۔ انور غازی صاحب کی کتاب ”دہشت گردی کے اڈے یا خیر کے مراکز“ میں دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈے کا بڑا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ پاکستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی اصل وجہ دینی مدارس نہیں بلکہ ظلم، نا انصافی، غربت، بے روز گاری اور کرپشن ہے۔ دینی مدارس نے لاکھوں غریب و نادار طلبہ کو سنبھال رکھا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ بورڈز ہیں۔ سب سے بڑے بورڈ وفاق المدارس العربیہ کے ساتھ نوہزار مدارس وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم المدارس اہل سنت، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس شیعہ اور جماعت اسلامی کے رابطہ المدارس الاسلامیہ کے ساتھ وابستہ 13/ہزار سے زائد مدارس میں کم از کم 30 لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان پانچوں مدارس کے اوپر اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے طور پر ایک چھتری بھی موجود ہے۔ اس اتحاد کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اتحاد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے علاوہ دینی مدارس میں اصلاحات کیلئے ایک ٹھوس حکمت عملی وضع کرسکے۔ برطانیہ میں چرچ آف انگلینڈ کی نگرانی میں اڑھائی ہزار اور امریکا میں رومن کیتھولک چرچ کی نگرانی میں 8500 اسکول چل رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں مذہبی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے لیکن یہ اسکول تیزی سے بند ہو رہے ہیں۔پاکستان کے دینی مدارس کو برطانیہ و امریکا کے ان اسکولوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے آپ کو بہتر بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اگر تمام دینی مدارس خود کو جامعة الرشید کراچی جیسا بنا لیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا روشن مستقبل انہی دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کا مرہون منت ہوگا۔

(کالم : حامد میر 18 جولائی، 2011)۔))

7 comments:

گمنام نے لکھا ہے کہ

اگرسارے مدرسے ایسے ہوجائیں تو کیابات ہے،
اسلا م روشن خیال مذہب ہے،یہ دنیا پر ثابت کرنا ہے،اور اسی وقت کے لیئے پیشن گوئی ہے کہ اسلام زمین پر اپنی گردن ڈال دےگا،انشاءاللہ!

Abdullah

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

جو کوئی بھی مدارس کا مطالعاتی دورہ کرے گا وہ يہی خيال لے کر لوٹے گا ۔ ميں نے يہ دورے 25 سال قبل اللہ کے فضل سے مکمل کر لئے تھے

noor نے لکھا ہے کہ

بہت بہترین ۔ ۔ ۔ جزاک اللہ

خالد حمید نے لکھا ہے کہ

مختلف ممالک کے سفیر بھی مدارس کے دورے کرتے رہتے ہیں۔اور وہ سب جانتے ہیں کہ کیا سہی ہے اور کیا غلط۔
بھائی مسئلہ یہ ہے ان کے ساتھ کے وہ ان مدارس کے ماحول کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر یہ ختم نہ ہوئے تو ان کے معاشرے جو ختم ہور ہے ہیں ، وہ اس مذہب کی طرف یک دم پلٹ جائیں گے۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر وہ مدارس کے خلاف پرپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اور ہمارے لوگ اس کو سچ سمجھتے ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

مدارس کے خلاف جہاں امریکہ و مغرب کے تنخواہ دار اور مراعات یافتہ طبقہ رزیل اور زہریلا پروگنڈا کرنے کا کوئی موقعہ خالی نہیں جانے دیتا وہیں ہمارے حکومتیں بھی امریکہ سے خیرات کے بدلے میں اس کار شیطان میں شامل ہیں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

مشکل یہ ہے کہ ایسے مدارس کی تعداد بہت کم ہے اکثریت میں جو مدارس ہیں وہ ایسے نہیں ہیں !!!!!

Abdullah

گمنام نے لکھا ہے کہ

جبکہ اب سب کو ایسا ہی ہونا چاہیئے بہترین دینی اوردنیاوی تعلیم دونوں ایک ساتھ،
پھر دنیا میں کسی کو ان پر اعتراض نہیں ہوگا،اور وہ خود بخود قابل تقلید بن جائیں گے!!!!

Abdullah

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔