بدھ، 20 جولائی، 2011

مسلمانوں تیاری پکڑ لو : نیکیوں کی لوٹ سیل لگنے والی ہے


  1. رمضان میں عبادت کے لیے کیسے ٹائم نکالا جائے ؟
  2. کن اعمال پر ذیادہ ٹائم لگایا جائے ؟
  3. رمضان کی برکات سے کیسے ذیادہ سے ذیادہ فاعدہ اٹھا یا جاسکتاہے ؟
  4. حرام آمدنی والے کیا کریں ؟

 اللہ اپنی صفت رحیمی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں بار بار ایسے مواقع فراہم کرتا رہتا  ہے کہ ہم اپنے گناہوں اور معصیتوں کی معافی تلافی  کرکے اور اپنے گناہوں کا بوجھ اتار کر جنت کے  مستحق اور جہنم سے بچ  جائیں ۔رمضان اور مضان کی عبادات اور  اس کی ساعتوں کی برکات سے انسان کے گناہوں کی غلاظت کا کس طرح صفایا ہوتا ہے؟  حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا:


”اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، ایسا مہینہ جس میں ایک ایسی رات ...شب ِ قدر... ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے...یعنی اس ایک رات میں عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ملتا ہے... اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے دنوں کا روزہ فرض اور راتوں کی عبادت نفل قرار دی ہے، جو شخص اس مہینہ میں ایک نیک عمل کے ذریعہ قربِ خداوندی کا طالب ہو، وہ ایسا ہی ہے جیسے دیگر مہینہ میں فرض ادا کرے ...یعنی نفل کا ثواب فرض کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے... اور جو شخص کوئی فریضہ بجالائے ،وہ ایسا ہے جیسے دیگر مہینوں میں ستر فرض ادا کرے...یعنی رمضان میں ایک فرض کا ثواب ستر گنا ہوتا ہے (مشکوٰة ۱/۱۷۴، البیہقی فی شعب الایمان ۳/۳۰۵

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم ذات، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رشک ملائک شخصیات اور اکابر صلحا رمضان کا بہت  اہتمام فرماتے تھے، ہمارے جیسے غرق عصیاں لوگوں کو تو اس کی زیادہ  ضرورت ہے کہ یہ مارے گناہوں کی غلاطت دھونے اور مغفرت الٰہیہ حاصل کرنے کا نادر و انمول تحفہ اور گوہر نایاب ہے۔اسی بنا پر فرمایا 

 حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے خود سنا ہے کہ: “یہ رمضان آچکا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنادئیے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔” جب اس مہینے میں بخشش نہ ہوئی تو کب ہوگی؟

(رواہ الطبرانی فی الأوسط، وفیہ الفضل بن عیسیٰ الرقاشی وھو ضعیف کما فی مجمع الزوائد ج:۳ ص:۱۴۳)

کیا سب کام چھوڑ کر مسجد سے جڑ جائیں  ؟
رمضان آنے سے پہلے اپنے نظام الاوقات بدل کر ایسا بنانے کی کوشش کریں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ جل شانہ کی عبادت میں صرف ہو۔  طریقہ نہایت آسان ہے، رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے یہ سوچو کہ مقدس مہینہ آرہا ہے، کس طرح میں اپنی مصروفیات کم کر سکتا ہوں۔ اس مہینے میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکلیہ عبادت کے لئے فارغ کر لے تو سبحان اللہ، اور اگر کوئی شخص بالکلیہ اپنے  آپ کوفارغ نہیں کر سکتا تو پھر یہ دیکھے کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لئے چھوڑ سکتا ہوں،ان کو چھوڑے۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہوں،  ان کو کم کرے، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک مئوخر کر سکتا ہے۔ ان مئوخر کرے۔اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کرے ۔

رمضان کی برکات سےکیسے ذیادہ سے ذیادہ فاعدہ اٹھا یا جاسکتاہے ؟
جب رمضان المبارک کو دوسرے مشاغل سے فارغ کر لیا، تواب اس فارغ وقت کو کس کام میں صرف کرے؟ جیسا کہ اوپر حدیث میں ذکر ہوا کہ اس ماہ میں  اعمال کاثواب ستر گناہ تک بڑھ جاتا ہے، اسی لیے خود کو ذیادہ سے ذیادہ عبادت میں، نماز میں، ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن اور توبہ استغفار میں مشغول کرلے۔ 
تلاوت قرآن کو اس مہینے سے خاص مناسبت ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، اس مہینہ میں تلاوت کریں اور اس کے علاوہ چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے زبان سے اللہ کا ذکر کریں۔ تیسرا کلمہ: سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر اور درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے، اس کی کثرت کا اہتمام کریں۔
 نوافل کی جتنی کثرت ہو سکے کریں۔ عام دنوں میں رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن رمضان المبارک میں چونکہ انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے، تھوڑا پہلے اٹھ جائے اور سحری سے پہلے تہجد پڑھنے کا معمول بنا لے۔ اور  نماز خشوع کے ساتھ اور با جماعت پڑھنے کا تو لازمی اہتمام ہو۔ مزید تفصیل

سب سے بڑا مجاہدہ
ان سب نفلی نمازوں، نفلی عبادات، نفلی ذکر و اذکار، اور نفلی تلاوت قرآن کریم سے زیادہ مقدم ایک اور چیز ہے۔ جس کی طرف توجہ نہیں  دی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس مہینے کو گناہوں سے پاک کرکے گزارنا کہ اس ماہ میں ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ کم از کم اس ماہ میں تو جھوٹ نہ بولو۔ اس میں تو غیبت نہ کرو۔ اس میں تو بد نگاہی کے اندر مبتلا نہ ہو۔ اس مبارک مہینہ میں تو کانوں کو غلط جگہ پر استعمال نہ کرو۔ اس میں تو رشوت نہ کھائو، اس میں تو سود نہ کھائو، کم از کم یہ ایک مہینہ اس طرح گزار لو۔اگر  گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچتے  ہوئے یہ مہینہ گزار دیا پھر چاہے ایک نفلی رکعت نہ پڑھی ہو اور تلاوت زیادہ نہ کی ہو اور نہ ذکر و اذکار کیا ہو لیکن تو آپ قابل مبارک باد ہیں۔ اور یہ مہینہ آپ کے لئے مبارک ہے۔

یہ کیسا روزہ ہوا؟
روزے میں جن تینوں چیزوں سے اجتناب ضروری ہوتا ہےیہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو فی نفسہ حلال ہیں، کھانا حلال، پینا حلال اور جائزطریقے سے زوجین کا نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا حلال، اب روزنے کے دوران ہم ان حلال چیزوں سے تو پرہیز کررہے ہیں ، نہ کھارہے ہیں ، نہ پی رہے ہیں ۔ لیکن جو چیزیں پہلے سے حرام تھیں، مثلا جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بد نگاہی کرنا، جو ہر حال میں حرام تھیں، روزے میں یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں۔ اب روزہ رکھا ہوا ہے اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے اور غیبت کر رہے ہیں۔  روزہ رکھا ہوا ہے اور بد نگاہی کر رہے ہیں۔روزہ رکھا ہوا ہے لیکن وقت پاس کرنے کے لئے گندی فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ کیا روزہ ہوا؟ کہ حلال چیز تو چھوڑ دی اور حرام چیز نہیں چھوڑی۔ اس لئے حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس لئے جب جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا جو پہلے سے حرام تھا تو کھانا چھوڑ کر اس نے کون سا بڑا عمل کیا۔          

اس ماہ میں رزق حلال
دوسری اہم بات کہ کم از کم اس ایک مہینے میں تو رزق حلال کا اہتمام کر لیا جائے، جو لقمہ آئے،وہ حلال کا آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ روزہ تو اللہ کے لئے رکھا، اور اس کو حرام چیز سے افطار کر رہے ہیں۔ سود پر افطار ہو رہا ہے یا رشوت پر افطار ہو رہا ہے یا حرام آمدنی پر افطار ہو رہا ہے۔ یہ کیسا روزہ ہوا؟ کہ سحری بھی حرام اور افطاری بھی حرام، اور درمیان میں روزہ۔ اس لئے خاص طور پر اس مہینہ میں حرام روزی  سے بچو۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے مانگو کہ یا اللہ! میں رزق حلال کھانا چاہتا ہوں۔ مجھے رزق حرام سے بچا لیجئے۔                                           
بعض حضرات وہ ہیں، جن کا بنیادی ذریعہ معاش.....الحمداللہ......حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے، البتہ اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے کچھ حرام آمدنی کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ایسے حضرات کے لئے حرام سے بچنا کوئی دشوار کام نہیں ہے، وہ کم از کم اس ماہ میں تھوڑاسا اہتمام کر لیں، اور حرام آمدنی سے بچیں۔

اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟     
بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر حرام ہے، مثلا وہ کسی سودی ادارہ میں ملازم ہیں، ایسے حضرات اس  ماہ میں کیا کریں؟ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

میں ایسے آدمی کو جس کی مکمل آمدنی حرام ہے۔ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو رمضان میں چھٹی لے لے، اور کم از کم اس ماہ کے خرچ کے لئے جائز اور  حلال ذریعہ سے انتظام کر لے۔ کوئی جائز آمدنی کا ذریعہ اختیار کر لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اس ماہ کے خرچ کے لئے کسی سے قرض لے لے۔ اور یہ سوچے کہ میں اس مہینہ میں حلال آمدنی سے کھائوں گا۔ اور اپنے بچوں کو بھی حلال کھلائوں گا، کم از کم اتنا تو کرلے۔      
                                     
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان المبارک کے انوار و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

3 comments:

عمران اقبال نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ سعد بھائی۔۔۔ اللہ آپ کے محنت کی جزا عطا فرمائے۔۔۔ اور مسلمان بہن بھائیوں کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین

Asma Khan نے لکھا ہے کہ

آمین

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ ۔۔ اللہ اور زور قلم عطا فرمائے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔