بدھ، 9 نومبر، 2011

اسلامی ذخائر کتب میں باطل نظریات کی ملاوٹ پر ایک تحقیق

 قرآن پاک نے علمائے یہود کی ایک نشانی یہ بتلائی ہے کہ (من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ) یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلام کو اس کے موقعوں سے پھیرتے رہتے ہیں۔ یہود نےاپنی اسی عادت پرنا صرف اپنی  مذہبی کتابوں کو بدل ڈالا، بلکہ اپنے ایجنٹ دوسرے مذاہب میں داخل کرکے ان کی مذہبی کتابوں کو بھی بدلنے کی کوشش کی ۔ چنانچہ  پولس جسے عیسائیت کا بانی کہا جاتا ہے حقیقت میں یہودی تھا، اس نےخود کو عیسائی مخلص باور کروا کر  بائبل اور عیسائی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، عیسائیت  میں تثلیت کا عقیدہ ڈال کر اسے مشرک مذہب بنادیا ، اسی روش پر  یہودیوں نے اسلام کا تاروپودبھی  بکھیرنے کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی سازش کی ۔ اسلام جب اپنے محسنین تلامذہ نبوت (ص)، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ انداز میں  اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا ۔عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب باور کرایا۔ ۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین رضوان اللہ علیہن اجمعات، بنات طاہرات رضوان اللہ علیہن اجمعات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ’’مقام اہل بیت‘‘ کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا۔عبداللہ بن سباء نے عوام کو  وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں اور ان کے قالب میں خداوندی روح ہے اور گویا وہی خدا ہیں۔
شیعیت  حقیقت میں مجوسیت  تھی اس لیے  شیعیت کو مجوسیوں کے ملک  ایران میں جو عروج و ترقی حاصل ہوئی وہ انہیں کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکی اور وہ ابھی تک چلی آرہی ہے ۔
اسماعیلیہ قرامطہ
حضرت جعفر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد شیعہ کے  دو گروہ پیدا ہوئے ۔جس نے ان کے چھوٹے بیٹے حضرت موسی کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوا۔جنہوں نے ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسمعیلیہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ یہ اگرچہ شیعت ہی کی شاخ تھی لیکن  بعد میں یہ تحریک اپنے معتقدات اور اعمال کے لحاظ سے شیعت سے بھی کوسوں دور نکل گئی ، تاریخ میں اسے ملاحدہ، باطنیہ، تعلیمیہ اور قرامطہ جیسے رسوائے عالم القاب سے یاد کیا گیا۔ حمدان قرمط ایک عراقی کاشتکار تھا ، چونکہ اس کی ٹانگیں چھوٹیں تھیں اس لیے اسے قرمط کہتےتھے۔ ا س نے اسمعیلی مذہب کو باطنی تحریک میں تبدیل کردیا، اسی کے نام سے اسماعیلی فرقہ قرامطہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔
اس باطنیہ اسمٰعیلیہ فرقہ کے ذریعے یہود نے ملت اسلامیہ کے اندرجہاں بغض و عداوت اور نفاق و تفریق کے بیج بوئے ، وہیں شیعہ آئیڈیالوجی کو کو بالواسطہ طور پر بھی عامۃ المسلمین کے مختلف طبقات و عناصر میں پوری قوت کے ساتھ پیوست کرنے کی اپنی شیطانی کوشش  میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چنانچہ انہوں نےمسلمانوں کے تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، معاشرت، عبادات، تفسیر، احادیث، اسلامی علوم و فنون غرض ہر شعبہ زندگی میں  اپنا اثر ڈالا ۔

اس فرقہ نے اپنی  عیاری اور معاندانہ سرگرمیوں  سے اسلامی کتابوں میں جو گمراہ کن تدسیس (اپنی باتوں کو دوسروں کی باتوں میں ملا کر چھپانا) کرنے کی کوشش  کی اگر ان سب  کو جمع کیا جائے تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ، مگر ہم مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے صرف چند بڑی مثالوں پر اکتفا کریں گے۔

قرآن میں تدسیس کی کوششیں 
یہود نے بائبل  کی طرح قرآن میں  بھی تبدیلی کی بھرپور کوششیں کیں لیکن قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری چونکہ  اس کے اتارنے والے نے خود اٹھائی تھی اس لیے ان کو منہ کی کھانی پڑی، قرآن کی حفاظت کے لیے حضرات تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ  سلسلہ رہا کہ ایک ہی شخص حافظ قرآن، مفسر قرآن اور علم قراء ت کا ماہر ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے صلاحیتوں میں کمزوری آتی گئی ویسے ویسے حفاظت قرآن کی خدمت امت مسلمہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی رہی ، چناں چہ حضرات علمائے مفسرین نے قرآن کریم کے معانی ومطالب، تفسیر وتشریح او رمراد خداوندی کی حفاظت فرمائی۔ حضرات قراء ومجودین نے اس کی مختلف  قراءت ، ادائیگی حروف او رمخارج وصفات کی حفاظت کی او رحضرات حفاظ نے اس کے الفاظ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے یہ خدمت انجام دی ۔ یوں متن کی حفاظت،  معنی ومفہوم کی حفاظت، زبان کی حفاظت،  الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت، شانِ نزول کی حفاظت، سیرت نبوی کی حفاظت ، قرآن کے اولین مخاطب کے حالات کی حفاظت ، تابعین کے حالات کی حفاظت وغیرہ وہ چیزیں  ہیں جن کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنی کامل قدرت کا مظاہرہ کیا۔
اسلام کے دشمنوں نے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے ، پھر انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ، اور ہیں ، قران کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل اور رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال رائج کیا گیا  اوراُمت مسلمہ کے ہر کس و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرکے یہ کج روی سُجھائی جانےلگی کہ احادیث کو چھوڑ کر اپنی سوچ و فکر کی بنا پر قرآن کو سمجھے اور سمجھائے ،  چنانچہ آج ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد جانتے ہوں ، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔

احادیث میں ملاوٹ کی کوششیں
قرآن کے بعد شیعہ نما یہود کا دوسرا بڑا وار  احادیث   میں تدسیس کی کوششیں تھیں، چنانچہ ملا علی قاری کے ایک قول کے مطابق  باطنیہ نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تین  لاکھ کے قریب روایات گھڑ کے پھیلائی ہیں۔ کچھ گھڑی گئی روایتوں کی مثالیں دیتا ہوں جنہیں قرامطہ نے ذخیرہ احادیث میں داخل کرنے کی کوشش کی اور علما  نے انکی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔

روایت "انا مدینۃ العلم" یا " انا دادالحکمۃ وعلی بابھا"
قرامطہ اور ان کے ہم خیالوں نے  اس قدر جسارت کی کہ اپنے  مزعوماتِ باطلہ احادیث نبوی کے لباس میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردیے، منجملہ  ان کے یہ حدیث ہے جو ترمذ ی میں بھی موجود ہے۔
 قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنا دار الحكمة وعلي بابها " . رواه الترمذي 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : میں حکمت ودانائی کا گھر ہوں اورعلی اس گھر کا دروازہ ہیں ''

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ    اپنے مکتوب  میں  صفحہ ۷۵، ۱۷۹،۱۸۰ پر تحریر فرماتے ہیں۔
" یہ روایت  نہ تو صحیحین میں ہے اور نہ روایت کا ذکر کرنیوالے اس کی تصحیح فرماتے ہیں۔ تر مذی نے بھی روایت کے بعد کلام کیا ہے کہ بعض علما نے یہ حدیث  شریک تابعی سے روایت کی ہے مگر علمائے حدیث اس کو ثقات میں سے نہیں پہچانتے۔ سوائے شریک کے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات  میں اس کے جملہ طرق پر یقین کے ساتھ باطل ہونے کا حکم دیا ہے ۔ ایک جماعت محدثین کی اس کے موضوع ہونے کی قائل ہے۔امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ صاف فرماتے ہیں  کہ اس روایت کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے۔ طاہر پٹنی نے بھی اس کی صحت کا انکار کیا ہے۔ ۔ ۔ امام العصر علامہ انور شاہ  کشمیری  بھی روایت  کی صحت کو تسلیم نہیں  فرماتے"۔
( مکتوبات شیخ الاسلام حصہ اول، اردو بک سٹال لاہور) ( حاشیہ از مولانا نجم الدین صاحب اصلاحی مرتب مکتوبات شیخ الاسلام) ۔

ناد علی کی روایت :۔
قرامطہ کے سلسلے میں یہ روایت بہت مقبول ہے اور کم علم صوفیا کے ہاں بھی نقل ہوتی آرہی ہے ۔ جب جنگ احد میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم  زخمی ہوگئے اور جسم سے خون بہنے لگا تو جبریل نے آکر آپ سے کہا کہ نادِ علیاَ  والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو، جب آپ نےیہ دعا پڑھی تو علی رضی اللہ عنہ فورا آپ کی مدد کے لئے آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔
( درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ مصنفہ ڈاکٹر برج صفحہ ۱۳۸)
 اہل علم جانتے ہیں کہ حضور نے ایسی کوئی دعا نہیں پڑھی اور نہ  تاریخ یا سیرت کی کسی کتاب میں یہ دعا مرقوم ہے، پھر بھی یہ روایت اہل سنت کی کتابوں میں راہ پاگئی اور ایک سنی صوفی سید مظفر علی شاہ چشتی نے اپنی کتاب جواہر غیبی میں اسے ذکر کیا۔ 

 اس کے علاوہ بھی بہت سی گھڑی ہوئی احادیث ہے جن کی ہمارے علما نے تحقیق کے بعد نشاندہی کی ہے لیکن یہ روایات پھر بھی اس تحقیق سے لا علم لوگوں کی تحریرات میں نقل ہوتی آرہی ہیں۔ حدیث چونکہ وحی کی ایک قسم تھی  اس لیے اللہ نے اس کی حفاظت  کا ایک نظام بنایا ۔جھوٹی احادیث وضع کرنے کا سلسلہ   صحابہ کے دور سے سبائیوں نے شروع کردیا تھا اس لیے اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے۔ بعد میں باقاعدہ علم حدیث میں اسناد و متن کی تحقیق کے اصول  مرتب  ہوئے اور  اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا   جس سے ہر حدیث  کی سند اور متن کی تحقیق با آسانی ہوجاتی ہے۔

تاریخ اسلام میں ملاوٹ 

دشمنان اسلام نے قرآن و حدیث کے بعد تاریخ اسلام کو خصوصی طور پر تدسیس وتحریف کا ہدف بنایا اور اسکا خاص مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ کی تنقیص و توہین وتحقیر ہے۔  سیرۃ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ مولفہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مولانا لکھتے ہیں :۔

" بعض شیعہ مورخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ سپاہیوں کے ساتھ ایک سپید خچر پر سوار ہوکر  اما م حسن رضی اللہ عنہ کے جنازے کو روکنے کے لیے نکلیں، یہ روایت  تاریخ طبری کے ایک پرانے(نسخے) فارسی ترجمے میں، جو ہندوستان میں بھی چھپ گیا ہے،  میں نظر سے گذری، لیکن جب اصل متن عربی مطبوعہ یورپ کی طرف رجوع کیا تو جلد ہفتم کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے بعد بھی یہ واقعہ نہ ملا، طبری کے اس فارسی ترجمہ میں درحقیقت بہت سے حذف و اضافے ہیں "۔

قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ‘ احادیثِ ثابتہ اور اہل حق کا اجماع صحابہ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں‘ ان قطعیات کے مقابلہ میں تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں‘ تاریخ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی ہیں‘ اس لیے ہر کسی نے اپنی سمجھ  کے مطابق تاریخ کو بیان کیا۔ چنانچہ صحت کا جو معیار ”حدیث“ میں قائم رکھا گیا ہے‘ تاریخ میں وہ معیار نہ قائم رہ سکتا تھا‘ نہ اسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس لئے حضرات محدثین نے ان کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے‘ حافظ عراقی فرماتے ہیں:
ولیعلم   الطالب   ان السیر
یجمع ما قد صح وما قد انکرا
یعنی علم تاریخ وسیر صحیح اور منکر سب کو جمع کرلیتا ہے۔ اب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات  سے استدلال کرنا چاہتا ہے اسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے‘ بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟  رسول اللہ کا یہ ارشاد یاد رکھیں۔
”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم“  (ترمذی)
ترجمہ:”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے اور انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت 

اکابر علما، اولیا سے منسوب کتابیں اور انکے ملفوظات میں تدسیس

امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ   الیواقیت والجواہر صفحہ ۷ میں لکھتے ہیں 
" باطنیہ ، ملاحطہ اور زنداقہ نے سب سے پہلے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  پھر امام غزالی رحمہ اللہ کی تصانیف میں اپنی طرف سے تدسیس کی ، نیز اس فرقہ باطنیہ نے ایک کتاب جس میں اپنے عقائد کی تبلیغ  کی تھی، میری زندگی میں میری طرف منسوب  کردی اور میری انتہائی کوشش کے باوجود یہ کتاب تین سال تک متداول رہی"

امام غزالی سے منسوب  ایک کتاب :۔
مولانا سعید احمد جلالپوری شہید جو کہ روزنامہ جنگ کے اقرا صفحہ پر اسلامی سوالات کا جواب دیتے تھےْ  کو  ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے سوالہ نامہ میں یہ تحریر بھیجی جس میں  شیعی موقف کو امام غزالی  رحمة الله عليہ کی کتاب اور ان کی جانب منسوب کیا  گیا تھا۔

امام غزالی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”سر العالمین“ کے صفحہ :۹ پر لکھتے ہیں کہ:
” غدیر خم میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ”من کنت مولاہ“ فرمانے کے بعد اور اس موقع پر مبارک باد دینے کے بعد جب لوگوں پر خلافت کی ہوأ و ہوس غالب آگئی تو انہوں نے غدیر خم کی تمام باتیں بھلادیں۔“
اس پر مولانا  سعید احمد جلالپوری رحمہ اللہ نے ایک تحقیق،  تفصیلی و وقیع علمی مقالہ لکھا  جو ماہنامہ بینات میں چھپا۔ مولانا نے  تحقیق کے لئے اکابر متأخرین اور اربابِ تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو پتا چلا کہ غدیر خم میں خلافت ِعلی رضى الله عنه (بلافصل) سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب یہ کتاب”سر العالمین“  سرے سے امام صاحب کی ہیں ہی نہیں اور روافض نے خود لکھ کر بعد میں ان سے منسوب کی۔اور تحریر امام صاحب پر جھوٹ اور بہتانِ عظیم ہے اور  امام رحمہ اللہ کی دوسری کتابیں اس  تحریر کے موقف کو بری طرح رد کرتیں ہیں۔ مولانا  نے اس سلسلہ میں مسند الہندحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شہرئہ آفاق تصنیف ”تحفہ اثنا عشریہ“ کا حوالہ بھی دیا ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں :۔
ترجمہ : روافض کوئی کتاب لکھ کر اس کو اکابر اہل سنت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، اور اس میں حضرات صحابہ کرام کے خلاف مطاعن اور مذہب اہل سنت کے بطلان کو درج کرتے ہیں اور اس کے خطبہ یا دیباچہ میں اپنے بھید اور راز کے چھپانے اور امانت کی حفاظت کی وصیت کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے، یہی ہمارا دلی اور پوشیدہ عقیدہ ہے، اور ہم نے اپنی دوسری کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ محض پردہ داری اور زمانہ سازی تھا، جیسا کہ کتاب ”سرالعالمین“ خود سے لکھ کر انہوں نے اس کی نسبت حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کی طرف کردی ہے، علیٰ ہذا القیاس انہوں ...اہل تشیع ... نے بھی بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان پر اکابر اہل سنت اور قابل اعتماد بزرگوں کا نام لکھ دیا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے افراد بہت کم ہیں جو کسی بزرگ کے کلام سے واقف و آشنا ہوں اور اس کے مذاق سخن یا اس کے اور دوسروں کے کلام میں فرق وامتیاز کرسکتے ہوں، لہٰذا ناچار سیدھے سادے لوگ ان کے اس مکر سے متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے حیران و پریشان ہوتے ہیں․․․․ بلکہ بہت سے لوگ اس کو ایک مستند بزرگ یا اہل سنت کے امام کا کلام سمجھ کر اس کو اپناکر اپنا ایمان و عقیدہ غارت کر تے ہیں․․․․۔“ (تحفہ اثنا عشریہ فارسی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفیٰ ۱۲۳۹ھ)
مولانا جلالپوری شہید کا وہ مقالہ جامعہ العلوم الااسلامیہ، بنوری ٹاؤں ، کراچی کی سائیٹ پریہاں اب بھی موجود ہے۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/971

 امام شعرانی کی تصنیف الطبقات الکبری :۔
اس کتاب کے اردو ترجمہ صفحہ 468 پر روایت ہے :

بضمن ظاہروباطن عارف۔ علی ابن ابی طالب اسی طرح اٹھائے گئے ہیں جس طرح عیسی اور عیسی کی طرح عنقریب نازل ہوں گے۔ میں کہتا ہوں  کہ سید علی خواص بھی اس کے قائل تھے ۔ چنانچہ میں نے  ان کو کہتے سنا کہ نوح نے کشتی میں سے ایک تختہ علی کے نام اٹھا کر رکھا، وہ تختہ محفوظ رہا، چنانچہ علی اسی تختہ پر اٹھائے گئے۔
اس روایت کا مضمون بتا  رہا ہےکہ یہ کسی ایسے شخص کی گھڑی ہوئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ رکھتا تھا اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ سب سے پہلے عبداللہ ابن سبا نے شائع  کیا تھا۔

رومی کے ملفوظات میں الحاق :۔
رومی کے ملفوظات فیہ مافیہ سے صفحہ نمبر ۹۹  پر یہ روایت رومی سے منسوب ہے، پڑھیے سر دھنیے :
" ایک شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ  کے ساتھ کسی غزوے سے واپس آئے تو آپ نے فرمایا :ببانگ دہل اعلان کردو کہ آج کی رات ہم  ثہر کے دروازے کے پاس بسر کریں گے اور کل صبح شہر میں داخل ہوں گے، یہ سن کر صحابہ نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ تم اجنبی لوگوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ مباثرت میں مشغول پاؤ اور یہ دیکھ کر تمہیں بہت صدمہ ہوگا اور ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا، لیکن ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل نہ کیا اور گھر چلا گیا، چنانچہ  اس نے اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول پایا"۔
اس لغوروایت پر تنقید کرنے کو دل نہیں چاہتا  تا ہم دل پر جبر کرکے اتنا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ روایت کسی سبائی کے خبث باطنی کا مظہر ہے۔  غور کریں اس خبیث سبائی نے ایک تیر سے کتنے شکار کیے ہیں۔
1 -  حضور کو علم غیب سے  معلوم ہوچکا تھا کہ صحابہ  کی بیویا ں نعوذ بااللہ زنا کروارہی ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر چشم پوشی کی، اور اس زنا کو روکنے سے صحابہ کو منع کیا۔ نعوذباللہ
2 - بعض صحابہ حضور کے نافرمان تھے ، حضور کے منع کرنے کے باجود نہیں سنی اور گھر چلے گئے۔ نعوذباللہ
3 -  صحابہ کی بیویاں زنا کار تھیں۔ نعوذباللہ
کیا مولانا روم یہ روایت بیان کرسکتے ہیں ؟

شیخ محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ :۔
شیخ جیسا کہ فتوحات مکیہ کے مطالعے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ نہایت راسخ العقیدہ اور متبع شریعت بزرگ تھے، اسی کتاب کی پہلی فصل میں انہوں نے اپنا عقیدہ بیان کیا ہے اسے غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عقائد نسفی کی شرح پڑھ رہے ہیں۔ انکی  تصانیف میں بھی  سبائیہ قرامطہ نے تدسیس کی ۔ چنانچہ  امام شعرانی اپنی تصنیف الیواقیت والجواہر صفحہ 7 پر لکھتے ہیں :
" انکی تصنیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے متعارض(ٹکرانے والی) ہیں  وہ سب مدسوس(گھسائی ہوئی) ہیں۔ مجھے اس حقیقت سے  ابو طاہر المغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے کیا تھا، اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان فقروں کی صحت پر شک کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔"
پھر لکھتے ہیں کہ زناوقہ نے امام احمد بن حنبل کے مرض الموت کے زمانے میں ایک کتاب جس میں اپنے باطنی عقائد بیان کیے تھے، پوشیدہ طور پر ( ان کا شاگرد بن کر) ان کے سرہانے تکیے کے نیچے رکھ دی تھی اور اگر امام مرحوم کے تلامذہ ان کے عقائد سے بخوبی واقف نہ ہوتے تو جو کچھ انہوں نے تکیے کے نیچے پایاتھا اسکی وجہ سے وہ لوگ بہت بڑے فتنے میں مبتلا ہوجاتے۔

حضرت فرید الدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ سےمنسوب کتابیں :۔
 شیخ عطار سنی عالم اور سلسلہ کبیرویہ سے متعلق تھے اور شیخ نجم الدین کبری کے متعقد  تھے، ان سے بائیس کتابیں منسوب ہیں حالانکہ وہ صرف  دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان سے منسوب کتابوں میں بڑی کتابین جواہرالذات، حلاج نامہ، لسان الغیب وغیرہ ہیں ، ان کتابوں میں مصنف نے جگہ جگہ اظہار تشیع کیا ہے۔ مشہور ایرانی محقق پروفیسر سعید نفیسی نے بھی فرید الدین عطار کی زندگی اور کتابوں پر تحقیق " جستجو دراحوال و آثار ِفریدالدین عطار نیشاپوری" میں پیش کی ہے۔ہم  نسخہ جواہر الذات سے دو شعر پیش کرتے ہیں جن سے پوری کتاب کا اندازہ ہوجائے گا اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ شعر شیخ فریدالدین عطار نیشاپوری رحمہ اللہ اپنے قلم سے ہرگز نہیں لکھ سکتے تھے۔

محمد راشناس ایں  جا خدا تو                          وگرنہ اوفتی     اندر بلا تو
علی      بامصطفی ہردو خدا  یند                        کہ دم دم راز برمامی کشانید

 ان شعروں کے مضمون  سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے کہنے والا عبد اللہ ابن سبا کا مخلص پیرو اور باطنیہ یا قرامطہ سے تعلق رکھتا تھا۔


اسلامی تصوف میں آمیزش کی کوششیں
جس زمانہ میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں، مسلمانوں میں تصوف کا آغاز ہوچکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہوچکے تھے۔قرامطہ نے تقیہ کرتے ہوئے " جیسا دیس ویسا بھیس" کے اصول پر عمل کیا اور  صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا اور تصوف کے لباس میں صوفیوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی اس طرح آمیزش کی کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز عوام کے لیے ناممکن ہوگیا۔ جب یہ لوگ ہندوستان آئے تو انہوں نے ہندو صوفیوں اور جوگیوں  اور پیروں کے طور طریقے اختیار کیے اور ہندوؤں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وشنو کے دسویں اوتار کے روپ میں پیش کیا۔ عوام میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے ناموں سے پہلے " پیر" کے لقب کا اضافہ کیا۔
پیر صدرالدین نے گجرات اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر جے این ہالسٹر کی تالیف " شیعان ہند" سے بھی بخوبی ہوسکتی ہے۔ مولف اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں۔
" اسمعیلی سیدوں کا قافلہ قاہرہ سے چل کر سبزوار آیا۔  پیر شمس الدین سبزواری یہیں سے ملتان آیا تھا، اور اس نے صوفیوں کے لباس میں اسمعیلیت کی تبلیغ کی۔ بعض لوگوں نے شمس الدین سبزواری کو غلطی سے شمس تبریز سمجھ لیاہے جو جلال الدین رومی کے مرشد تھے، جبکہ یہ ملتان کا پیر شمس الدین اسمعیلیہ نزار فرقہ کا داعی تھا"

رباعی ازخواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ :۔
قرامطہ نے  فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، مثنوی مولانا روم، احیا ءالعلوم اور دوسری بہت سی کتابوں میں عبارتیں اور اشعار داخل کیے  اور بہت سی کتابیں خود لکھ کر بعض سنی بزرگوں کے نام منسوب کیں، بہت سی رباعیات مختلف صوفیوں سے منسوب کردیں ، مثلا یہ مشہور رباعی خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ سے منسوب کی جو آج تک سنی اور کتابوں میں بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے۔
شاہ است حسین  بادشاہ  ہست حسین                                             دین است حسین         دیں پناہ ہست حسین
سردادنداو      دست  در دست یزید                                               حقا کہ بنائے       لا   الہ      ہست حسین

دیوان شمس تبریز :۔
 قرامطہ نے بہت سے اشعار مولانا رومی کی کتابوں میں داخل  کئے، دیوان شمس تبریز  میں داخل کی گئی ایک  پوری غزل سے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
ہم اول و ہم آخر وہم ظاہر وباطن                                  ہم موعد و ہم وعدہ   و موعود علی بود                                                     
جبریل کہ  آمد  زبرِ خالقِ    بیچوں                                درپیش محمد     شدوتابود  علی بود               
اور
اے رہنمائے مومناں، اللہ مولا علی                     اے عیب پوش و غیب دان اللہ مولانا علی

فارسی سمجھنے والے  باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ مولان روم جیسا سنی عالم   یہ مصرے نہیں لکھ سکتا۔ کیونکہ یہ اشعار تو واضح شیعہ ذہن کی عکاسی کررہے ہیں اور  نص قرآنی کے خلاف ہیں  جیسا کہ پہلے شعر  کےپہلے مصرع میں   قرآنی آیت میں مذکور اللہ کی صفات  " ہو  الاول والاخر والظاہر والباطن" کو علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ دیوان  شمس تبریز پر جلا ل ہمائی  نے جو مقدمہ لکھا اس میں  ان اشعار کو الحاقی قرار دیا۔

سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رحمہ اللہ کے ملفوظات:۔
سلطان المشائخ  نے اپنے مرشد شیخ فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات کو راحتہ القلوب کے نام سے مرتب کیا تھا، اس کے صفحہ ۸۵  سے ایک واقعہ نقل کرتا ہوں :
" ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باجمیع صحابہ کبار بیٹھے ہوئے تھے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  یزید پلید کو اپنے کاندھے پر بٹھائے سامنے سے گذرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور کہا سبحان اللہ، ایک دوزخی ایک جنتی کے کاندھے پر سوار ہو کرجارہا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر کہا، یارسول اللہ یہ تو معاویہ کا بیٹا ہے۔ دوزخی کجا است ؟ حضور نے فرمایا:   یا علی یہ یزید بدبخت وہ ہے  جو حسن حسین اور میری تمام آل کو شہید کرے گا۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے تلوار نیام سے نکالی کہ ایشاں را بُکُشَد مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مانع ہوئے کہ اے علی ایسا مت کر کہ اللہ کی تقدیر یہی فیصلہ کرچکی ہے، یہ سن کر علی رونے لگے۔"
حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بلاشک وشبہ گیارہ ہجری میں ہوگئی تھی جبکہ یزید کی ولادت پندرہ سال بعد  ۲۶ ہجری میں ہوئی تھی، ثابت ہوا کہ یہ افسانہ سراسر جھوٹا ہے اور کسی سبائی نے  یہ لغو اور من گھڑت داستان ملفوظات میں شامل کردی ہے۔

سوال :کوئی یہاں یہ  سوال کر سکتا ہے  کہ قرامطہ ، باطنیہ، روافض کو  اسکی جرات کیسے ہوتی تھی کہ وہ اپنی باتیں ان بزرگوں کی کتابوں میں ملا دیا کرتے تھے
 جواب :در اصل تمام صوفی سلسلے اور انکے افراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہایت مکرم اور لائق توقیر سمجھتے ہیں اور تین سلسلے تو حضرت علی رضی اللہ پر ختم ہوتے ہیں۔ صوفی شعرا نے جہا ں خلفائے ثلاثہ کی منقبت میں زور قلم صرف کیا ہے وہاں علی رضی اللہ عنہ کی منقبت میں  بھی اپنی عقیدت کا مظاہر ہ کیا ہے،اس لیے روافض اور قرامطہ کو مبالغہ آمیز اور شرکیہ اشعار کو شامل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔باطنیہ، قرامطہ اور اسمعیلیہ حضرات نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اپنے عقائد مسلمانوں میں شائع کردیے ، بعد میں آنے والے  صوفیوں نے اسلاف پر تنقید کو سو ادب سمجھا اس لیے قرامطہ کے عقائد کو من وعن تسلیم کرلیا اور رفتہ رفتہ ان باطنیہ کے ہم عقیدہ بن گئے۔، یہ انہی روایات کا کرشمہ ہے کہ آج چودھویں صدی ہجری میں حیدرآباد دکن ،  بریلی، دہلی، اجمیر، داتا دربار، پاک پتن، ملتان، اچ، سیہون اور تمام بڑے بڑے مزارات سبائیت اور باطنیت کے فروغ و شیوع کے مرکز بن گئے ہیں۔
اسلامی تصوف جو دین اسلام کی روح اور جان ہے، میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش سے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ نفس تصوف ہی سے بدظن ہوگیا دوسری طرف خود یہ غیر اسلامی تصوف اپنی ساری افادیت کھو بیٹھا بلکہ جہلا کے حق میں تو افیون بن گیا اور اہل خانقا کے حق میں بے عملی کا بہانہ بن گیا ۔ یہ اسی آمیزش کا نتیجہ ہے کہ وہ خانقائیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئیں شاید اقبال نے اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
اس  غیر اسلامی نظریات کی آمیز ش سے تصوف کو نقصان ضرور پہنچا  ،    لیکن اسلامی تصوف بالکل ختم نہیں ہوا۔علمائے حق کےتصوف  کے ایسے مراکز اب بھی موجو د ہیں جہاں  صوفیا   بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کو اصلاح فرمارہے ہیں۔

ان چند مثالوں سے یہ دکھلانا مقصود تھا   کہ زمانہ قدیم سے روافض اور اہل تشیع کی یہی عیاری، مکاری اوررَوِشِ بد رہی ہے کہ وہ اپنے فاسد و باطل عقائد اور نظریات کی ترویج کی خاطر اپنی جانب سے کوئی کتاب لکھ کر اہل سنت کے کسی نامی گرامی بزرگ، بڑے عالم دین اورمحقق کی وفات کے بعد اس کی طرف نسبت کرکے شائع کردیتے ہیں اور سیدھے سادے مسلمانوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اہل سنت کا فلاں بڑا عالم اور محقق بھی وہی عقیدہ رکھتا تھا جو ہمارا ہے۔اللہ ہمارے  علما کو جزائے خیر دے انہوں  نے ہر دور میں انکے حملوں کو ناکام بنا کر امت کو گمراہی سے بچایا ہے۔
اوپر دی گئی مثالوں سے یہ بات واضح  ہے کہ کس مکاری کے ساتھ باطل نے ہماری دینی کتابوں میں اپنے گمراہ نظریات کو داخل کیا اور بڑے بڑے علما کی زندگی میں انکی کتابوں میں آمیزش کردی ، آج کل تو ا ن کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ کسی پرانے عالم کی کتاب کو اٹھا کر اس میں جگہ جگہ اپنے نظریات کو داخل کرکے خوبصورت سٹائل اور پرنٹ میں  چھاپ کر  مارکیٹ میں دے  دیں۔یہ حقیقت ہے کہ آج کل کئی ایسےگمنام  کتب خانے موجو د ہیں جو کہ مختلف اسلامی  موضوعات پرعلما کی  کتابیں چھاپ رہے ہیں انکی کتابیں اصل پبلشر کے مقابلے میں ذیادہ جاذب نظر ، کوالٹی پیپر لیکن   کم قیمت پر دستیاب ہوتیں ہیں۔  اب  اسلامی کتابوں باطل نظریات کی آمیزش کے شر سے وہی قاری بچ سکتا ہے جس کا علما ئے حق کے ساتھ تعلق ہو۔
ممتاز عالم دین مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” مطالعہ کووسیع کیجیے اور اس کے لیے اساتدہ سے ، خاص طور پر مربی اصلاح سے اور ان اساتذہ سے جن سے آپ کا رابطہ ہے ، ان سے مشورہ لیجیے۔“ مولانا ندوی مزید فرماتے ہیں :
 یہ ایک پل صراط ہے، اس پر سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ جیسے عظیم شخص کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے توریت جیسی عظیم المرتبت آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرما دیا تھا۔
استفادہ تحریر :اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات، پروفیسر سلیم چشتی 

16 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

آپ تو آدمی بڑے کام کے ہيں
ميرے خيال کے مطابق اس دور ميں بھی مسلم نما يہود مسلمانوں ميں علماء کے لبادہ ميں گھُسے ہوئے ہيں اور بہت پيروکار اکٹھے کئے ہوئے ہيں

UncleTom نے لکھا ہے کہ

جناب بنیاد پرست صاحب ۔ آپ نے بہت کوشش اور محنت سے یہ مضمون تیار کیا ہے جس پر آپ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ جب سے آپ نے بلاگ شروع کیا ہے آپ کا بلاگ تحقیقی مضامین ہی شائع کرتا آیا ہے جو کہ آپ کی علمی طبیعت کی دلیل ہے ۔ بلاگستان کے ماحول میں آپ کا علمی بلاگ یقیناً ایک بہترین جگہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔

Talksaqib نے لکھا ہے کہ

آپ بڑا اچھا تحقیقی کام کررہے ہیں۔ جزاک اللہ
http://www.colourislam.blogspot.com/

درویش خُراسانی نے لکھا ہے کہ

ماشاء اللہ بہت ہی تحقیقی مقلہ لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس محنت کو قبول فرمائے۔

بعض کالم ایسے ہوتے ہیں کہ انکی کاپی ضرور رکھنی پڑتی ہے۔

تاکہ مستقبل میں کام آسکتے

م بلال م نے لکھا ہے کہ

”کونسا فرقہ یا کون لوگ اسلامی تعلیمات میں باطل نظریات کی ملاوٹ کر رہے ہیں۔” اس بات کو چھوڑ کر آپ کی تحریر بہت ہی پسند آئی ہے۔ یعنی میں کسی خاص فرقہ پر الزام لگانے کا قائل نہیں۔ یہ میری سوچ ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ باقی آپ کی تحریر پسند آنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی بارے میں جاوید چودھری کا ایک کالم ”ویری سمپل“ پڑھا تھا۔ اب تو ڈر آتا ہے کہ کہیں سالوں تک ہمارے درمیان رہنے والا دشمن کا ایجنٹ ہی نہ ہو۔
دشمنان اسلام بہت حد تک مسلمانوں میں گھس آئے ہیں اس لئے ہمیں اندھی عقیدت کی بجائے بڑے دھیان سے چلنا ہو گا۔ اسلام تو وہ سچائی ہے جس کو آج تک نہ کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہو گا۔ اگر کوئی نقصان ہوا ہے تو وہ مسلمانوں کو ہوا ہے اور وہ بھی اپنے اعمال کی وجہ سے۔

میں بھی پاکستان ہوں نے لکھا ہے کہ

بہت زبردست ہے جناب ، بہت ہی اعلٰی تحقیق ہے آپ کی، اللہ تعالٰی ہم سب کو ان اندرونی دشمنوں اور فتنوں سے محفوظ فرمائے، آمین ثم آمین

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

اس محنت اور عرق ریزی کی داد نا دینا ناانصافی ہوگی۔
قرامطہ کے کارنامے اس کا عشر عشیر بھی نہیں جنہیں یہاں بیان کیا گیا ہے وقت اور جگہ کی کمی ضرور آڑے آئی ہوگی۔ اگر ہوسکے تو ایک تحقیق تحریر قرامطہ پر ضرور لکھیے گا۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ آپکی محنت کو قبول فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

JazakAllah khair!

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ راشد ادریس بھائی، جواد بھائی اور عائشہ بہن۔
جواد بھائی آپ نے صحیح سمجھا، اس تحریر کے لیے کافی ٹائم نکالنا پڑا اور اصل تحریر تقریبا بیس صفحات پر آئی تھی، لیکن بلاگ ویور کے ذہن کو دیکھتے ہوئے کہ لوگ میری طرح لمبی تحریر پڑھنے سے کتراتے ہیں ' ہر شعبہ میں تد سیس کی صرف بڑی مثالیں ہی پیش کیں۔
اللہ نے توفیق دی تو قرامطہ پر اگلی فرصت میں لکھنے کی کوشش کروں گا۔
دعا کریں اللہ مجھے عمل والا اور اخلاص والا بنا دے۔

بےباک نے لکھا ہے کہ

میں کئی دن سے آپ کی سب تحریریں توجہ سے پڑھ رہا ہوں ، امید کرتا ہوں کہ آپ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے ، بار بار مطالعہ کے بعد ایک نیا سبق ملتا ہے ،جزاک اللہ
آپ مزید لکھیے اور اسی طرح اخلاص سے بھرپور تحریریں لکھیے
کیا آپ کی تحریریں میں اپنے فورم پر لگا سکتا ہوں ،
آپ کا بھائی ۛ بےباک

Unknown نے لکھا ہے کہ

پسند کرنے کا شکریہ جی۔
آپ میری تحریرں کسی تبدیلی کے بغیر کہیں بھی لگا سکتے ہیں، اگر تحریر کے آخر میں میرے بلاگ کا لنک بھی دے دیں تو تحریر کا ریفرینس برقرار رہے گا۔
دعاؤں کی درخواست ہے۔

Zeeshan نے لکھا ہے کہ

جناب پیر شمس الدین سبزواری الگ سے کوئی شخصیت نہیں ہے ۔۔۔۔ شمس تبریز اور شمس الدین سبزواری ایک ہی شخص تھا اور اسماعیلی تھا اور ملتان میں مدفون ہے ۔۔۔۔ سورج کو سوا نیزے پر لانے والی کہاوت بھی اسی سے منسوب ہے اور جلال الدین رومی کا مرشد بھی یہی صوفی تھا ۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

ذیشان صاحب شمس تبریز اور شمس الدین سبزواری اک ہی بندے کے دو نام نہیں ہیں، یہ اک غلط فہمی ہے۔ میں ان دونوں کے فرق اور اختلاف پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں۔ آپ شمس تبریز کو نیٹ پر سرچ کرکے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وکی پیڈیا کا لنک چیک کریں۔ اس میں شمس تبریز کی قبر بھی دکھائی گئی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Shams_Tabrizi

محمد صلاح الدین نے لکھا ہے کہ

محترم جناب
آپ نے ذیشان صاحب کے جواب میں لکھا کہ شمس الدین سبزواری اور شمس تبریز دو الگ الگ شخصیات تھیں ،مگر کوئی ٹھوس حوالہ یا گفتگواس موضوع پرنہیں کی۔وکی پیڈیا ایک آزاد دائرہ معارف ہے جہاں جو بھی چاہے آکر لکھ سکتا ہے ۔اس لیے ذرا تفصیل سے بتا دیں توآنجناب کی نوازش ہوگی۔۔۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

صلاح الدین صاحب اوپر 'اسلامی تصوف میں آمیزش کی کوششیں' کے تحت لکھا تھا کہ پیر صدرالدین نے گجرات اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر جے این ہالسٹر کی تالیف " شیعان ہند" سے بھی بخوبی ہوسکتی ہے۔ مولف اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۳ پر لکھتے ہیں۔
" اسمعیلی سیدوں کا قافلہ قاہرہ سے چل کر سبزوار آیا۔ پیر شمس الدین سبزواری یہیں سے ملتان آیا تھا، اور اس نے صوفیوں کے لباس میں اسمعیلیت کی تبلیغ کی۔ بعض لوگوں نے شمس الدین سبزواری کو غلطی سے شمس تبریز سمجھ لیاہے جو جلال الدین رومی کے مرشد تھے، جبکہ یہ ملتان کا پیر شمس الدین اسمعیلیہ نزار فرقہ کا داعی تھا"
تصوف کی تاریخ میں چار شمس الدین گزرے ہیں ایک شمس تبریز جو مولانا رومی کےا ستاد اور صحیح العقیدہ اور اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے، دوسرے یہ شمس سبزواری جو پیر صدرالدین اسمعیلی کے رفیق تھےاور اسمعیلی شیعہ تھے، ملتان میں اب بھی انکے پیروکار موجود ہیں اور انکے مزار کے کنٹرول شروع سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ہیں،
http://urdu.sahartv.ir/news/15701
تیسرے ایک شمس الدین نور بخشی سلسلےکے بھی تھے، یہ ایران سے آیا اور ملتان سے ہوکر کشمیر اور بلتستان آئے اور وہاں تبلیغ کی، نوربخشی سلسلہ بھی قرامطہ کا ہی ایک فرقہ تھا، جو جوگیوں صوفیوں کےر وپ میں جیسا دیس ویسا بھیس کے تحت تبلیغ کرتے تھے ۔ اسکی تبلیغ سے وہاں کا حکمران خاندان نوربخشی سلسلہ میں داخل ہوا۔ اسی طرح ایک اور شمس الدین تھا جس کا مزار اوچ میں ہے، یہ اسمعیلیہ نزاریہ فرقے کا داعی تھا اس نے بھی کشمیر میں تبلیغ کی اور ہندوں کے لیے 'گربا' گیت لکھ لکھ کر انکا اعتماد جیتا اور پھر بہت سوں کو اپنے امام الزمان قاسم شاہ نزاری کا پیروکار بنایا۔ یہی شمس الدین کشمیر سے پھر اوچ آیا اسکے مرید شمسی کہلائے۔ اس کی تفصیل بھی مذکورہ کتاب کے صفحہ 353 پر موجود ہے۔اس خبر میں دو جملے ملاحظہ فرمائیں ۔
http://www.islamtimes.org/vdcgzz9xqak9uu4.,0ra.html
'حضرت شاہ شمس تبریز سبزواری' ( تاریخی کتابوں میں شمس تبریز کے ساتھ کہیں بھی بھی سبزواری لکھا نہیں ملتا ) اور دوسرا 'دربار کے سجادہ نشین مخدوم زادہ طارق عباس شمسی'( یہ شمس الدین اوچ والے کے مرید ہیں)۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

میرا خیال ہے کہ آپ نے کتب احادیث کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ رومی کے ملفوظات سے جس واقعہ کے الحاقی ہونے کا آپ نے اعلان کیا ہے وہ نہ کرتے، بلکہ کتب احادیث میں الحاقی واقعات کی نشاندہی کرتے، پہلے بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث اور اس پر حافظ ابن حجر کی تشریح پڑہئیے، اور پھر اسی شدو مد سے بلکہ اس سے زیادہ شدت سے اس بات کا رد کیجئے کیونکہ جو واقعہ مولانا روم بیان نہیں کر سکتے وہ محدثین کیسے بیان کر سکتے ہیں ( آپ کا محدثین اور کتب حدیث پر اعتقاد داؤ پر ہے)
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا طال أحدكم الغيبة فلا يطرق أهله ليلا ( بخاری ومسلم )
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی غیر حاضری کا عرصہ طویل ہو جائے ( یعنی اس کو سفر میں زیادہ دن لگ جائیں ) تو وہ ( سفر سے واپسی کے وقت ) اپنے ( گھر میں ) رات کے وقت داخل نہ ہو ۔ " ( بخاری ومسلم )
اس کی تشریح میں ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں
وقد صرح بذلك ابن خزيمة في صحيحه ، ثم ساق من حديث ابن عمر قال " قدم النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة فقال : لا تطرقوا النساء ، وأرسل من يؤذن الناس أنهم قادمون " قال ابن أبي جمرة نفع الله به : فيه النهي عن طروق المسافر أهله على غرة من غير تقدم إعلام منه لهم بقدومه ، والسبب في ذلك ما وقعت إليه الإشارة في الحديث قال : وقد خالف بعضهم فرأى عند أهله رجلا فعوقب بذلك على مخالفته اهـ . وأشار بذلك إلى حديث أخرجه ابن خزيمة عن ابن عمر قال " نهى رسول الله صلىوسلمإ أن تطرق النساء ليلا ، فطرق رجلان كلاهما وجد مع امرأته ما يكره " وأخرجه من حديث ابن عباس نحوه وقال فيه " فكلاهما وجد مع امرأته رجلا "
ابن خزیمہ نے صراحت سے اپنی صحیح میں ابن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ ایک غزوہ سے پلٹ کر آئے توکہا کہ "اپنی عورتوں پر داخل مت ہو اور ایک شخص کو اپنے آنے کی اطلاع دینے کے لئے آگے بھیجا" ، ابن ابی جمرہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کو رات کے وقت بے خبر اپنے گھر والوں کے پاس آنا منع ہے، جب کہ پہلے ان کو آنے کی خبر نہ کی ہو اور سبب اس کا وہ ہے جس کی طرف حدیث میں اشارہ ہوا ہے، اور بعض نے اس کے خلاف کیا یعنی بے خبر رات کو اپنے گھر آئے سو اپنی عورت کے ساتھ اجنبی مرد کو پایا، سو اس کو مخالفت کی سزا ملی، چنانچہ ابن خزیمہ نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ "دو مرد رات کو اپنے گھر آئے تو دونوں نے اپنی عورت کے ساتھ مردوں کو پایا جس سے وہ کراہت کرتے تھے"، اور اسی طرح کی روایت ابن عباس سے بیان کی اور کہا کہ "دونوں نے اپنی عورت کے ساتھ مردوں کو پایا "
شرح السنۃ میں بھی یہی روایت منقول ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس ممانعت کے بعد ( کا واقعہ ہے کہ ) دو آدمیوں نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور ) اپنے سفر سے واپسی پر گھر میں داخل ہونے کے لئے رات ہی کا وقت اختیار کیا تو ( جب وہ اپنے اپنے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں ) ان میں سے ہر ایک نے اپنی بیوں کے ساتھ غیر مردوں کو پایا ۔

آپ کی دیانت علمی کا تقاضا ہے کہ اب مزید سختی سے ان واقعات کا رد کیجئے، آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔