بدھ، 6 نومبر، 2013

اجتہاد کی اجازت

’روشن خیال‘ لبرل اور سیکولر طبقہ کے   لوگ قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں  گھٹن محسوس کرتے اور اسےمذہبی  جمود کا نام دیتے ہیں، انکے خیال میں   امت مسلمہ کی  زبوں حالی، پس ماندگی  اور  ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہنے  کی وجہ  بھی  یہی  مذہبی جمود ہے  اوراس  كا ذمہ دار وه علمائے كرام كو ٹھہراتے ہیں کہ علمائے کرام  اجتہاد کے راستے میں رکاوٹ بن کر بیٹھ گئے  ہیں  اور اس  اجتہاد کے رک جانے کی وجہ سےمسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ان ترقی پسند بقراطوں  سے  کوئی پوچھے کہ  مسلم اسپین (اندلس) جسے یورپ سے بھی پہلے ترقی  نصیب ہوئی، کیا اس نے صرف علماء کے  اجتہادات کی بدولت ترقی کی تھی ؟ جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے  تو  کیا ہمیں یہ تحقیق کرنے اور پھر اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہاں کے مسلمانوں نے  آخر وہ  کیا طریقہ اختیار کیا تھا کہ سپن' جیول آف دی ورلڈ' بنا اور  پھر وہ کیا  کمزوریاں تھیں جنکی وجہ سے اپنی تمام تر  سائنسی ومادی ترقی اپنی تمام تر شان وشوکت کے باوجود اندلس  زوال پذیر ہو گیا  تھا ؟ !!  تاریخ  سے سبق سیکھنے  کے بجائے  آج ان روشن خیالوں کے سامنے یورپ کے مذہب کو دفن کرنے کی واحد مثال ہی ترقی کی بنیاد ہے یہ اس بات کو بالکل نظر انداز کیے بیٹھے ہیں  کہ اس ترقی کی عمارت محکوم اقوام کے ریسورسز  ہتھیا کر تعمیر کی گئی  اور اس ترقی کی  پہلی سیڑھی نو آبادیاتی لوٹ مار اور  دو عالم گیر جنگیں  تھیں   جس میں کم از کم چار کروڑ افراد لقمہ اجل بنے اور  وہی نوآبادیاتی نظام  آج بھی سرمایہ دارانہ نظام  کی آڑ میں کام کرہا ہے، انکو یہ بھی بالکل نظر نہیں آرہا کہ آج مغربی ممالک کے عوام  مذہب کی  غلامی سے آزاد ہو کر سرمائے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام اور  ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظم لوٹ مار اسی  ترقی کا ایک الم ناک باب ہے۔اقبال نے اسکی خوب منظر کشی کی تھی ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی                 یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے                       ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو                  ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
  جدیدیت پسندوں کے  منہ  سے  یہ دلیلیں  عام سننے کو ملتی   ہیں  کہ آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے،تقاضے بدل گئے ہیں ، چودہ سو سال پرانے اسلام پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ،  لہذا   اجتہاد کیا جانا چاہیے۔عام لوگوں کو  بھی  یہ نعرے خوشنما لگتے ہیں کہ جی  ٹھیک ہی  کہہ رہے ہیں صحابہ کے دور کے مسائل اور آج کے دور کے مسائل میں فرق ہے ، اجتہاد کی اجازت ہے اس لیے  جدید دور کے مسائل کا قرآن و سنت  کی روشنی میں حل نکالا جانا چاہیے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہےیہ طبقہ ہرگز اس  قسم  کے اجتہاد کی  آواز نہیں لگارہا،اس  کو  اس اجتہاد کی  آواز لگانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ  یہ اپنی ذاتی زندگی  میں  جدید معاملات تو درکنار  پرانے معاملات میں بھی نہ شرعی نقطہ نظردیکھتا ہے اور نہ  دیکھنا پسند کرتا ہے ، دوسری بات   یہ کام غیر محسوس طریقے سے ہر دور کے علماء کرتے آرہے ہیں،  تسلی بخش تحقیق اور فقہی ابحاث کے بعد   اس جدید دور کے بھی ہر مسئلہ میں  راہنمائی کردی گئی ہے۔ حقیقت میں  جدت پسندوں کی طرف سے جس اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے  وہ ایسا اجتہاد ہے جو  انکے فکری و عملی انحرافات کو مذہبی جواز فراہم کردے ، اسلام کے جو احکام  انہیں 'اوکھے ' لگتے ہیں اور  جو عیاشی کے کام اسلام نے حرام قرار دیے  ہوئےہیں انہیں حلال نہیں تو کم از کم مستحب یا مکروہ ہی تسلیم کرلیاجائے، اجتہاد   ایسا  ہو جو انکے ساتھ  پورے معاشرے کو   بھی مغربی لوگوں کی طرح ہر مذہبی پابندی  سے آزاد کردے۔اسی لیے یہ  دین کی موجودہ شکل کی پیروی کو روایت پسندی کہتے ،  اسلامی حدود  کو سخت اور انسانی حقوق کے خلاف کہتے نظر آتے ہیں   ، مزید  گہرائی میں انکی   بات کو سنا  اور پرکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انکا مطالبہ اجتہاد کا نہیں بلکہ  تجدید  دین کا ہے  وہ بھی  اس طریق پر کہ اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کوبالکل  چھوڑ کر  ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور   دین کو سمجھنے کے لیے  نئے سرے سے قانون سازی کی جائے۔اس کا ایک طریقہ  جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب یہ  بیان کرتے ہیں کہ  ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے‘ جس میں امامیہ‘ حنفی ‘ مالکی وغیرہ سب مکاتب فکر شامل ہوں‘ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔ !! کچھ مفکرین  یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ   عقائد ہوں یا نظریات سب وقت کے ساتھ expire ہو جاتے ہیں، اس لیے ان فرسودہ تعلیمات سے جان چھڑائی جائے ۔ اس کے لیے  کوئی  ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ      دین کا نام  تو اسلام ہی  رہے اور ہمیں بھی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور مسلمان کہیں  بس (یہودیت او ر عیسائیت کی طرح) اسلام کی اصل  تعلیمات و تشریحات کو  کہیں دفن کرکے  اسلام کا ایک جدید ورژن متعارف کروایا جائے ۔ اس کا طریقہ جاوید   غامدی صاحب  یہ تجویز فرماتے ہیں  کہ  دین کی تشریح قرآن و سنت واجماع  صحابہ و امت  کے بجائے  عقل و اصول  فطرت  کی روشنی میں کی جانی  چاہیے،  جو چیز بندے کی فطر ت سے مناسبت رکھتی نظر آئے  اسے جائز ہونا چاہیے، جو عقل میں آئے اسے دین ہونا چاہیے  ۔۔  معروف و منکر،  حلال و حرام  کی پہچان اور تمیز کے  جو قوانین اسلام نے بتائے ہیں ان کو چھوڑ کر  انسانی  فطرت کو سامنے رکھ کر انکا  فیصلہ کیا جانا چاہیے ،  مغرب کی طرف سے اسلام کی جن جن باتوں پر اعتراض آرہے ہیں انکا جواب دینے میں ٹائم ضائع کرنے بجائے ان  باتوں کو   ہی بدل دیا جائے ،  دین  کو موم کی طرح ادھر ادھر مروڑتے  ہوئے  بالکل ایسے زاویے پر فٹ کردیا جائے  کہ یہ  نہ  کسی باطل  کو ہٹ کرے نہ کسی مخالف کو برا لگے۔ یہی  انکا نظریہ جہاد ،  نظریہ اتحاد و رواداری مذاہب  اور یہی انکے اسلامی حدود و قوانین پر اٹھائے گئے  اعتراضات کی بنیا د بھی ہے۔ جو سوچ ہمارے آج کے جدت پسندوں اور متجددین کی ہے وہی  سر سید اوران کے رفقاء  کی تھی کہ  انگریر سر کار   کو سجدہ کیے اور اسکی تہذیب کو اپنائے بغیر  مسلمانان ہند  کبھی ترقی نہیں کرسکتے،سرسید  ایک جگہ لکھتے ہیں:
”جو شخص قومی ہمدردی سے اور دور اندیشی سے غو رکرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا عملی اور کیا اخلاقی، صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک بھول جائیں، تمام مشرقی علوم کو نسیا منسیا کردیں، ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہوجائے ، یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست وپاہوں، ہمارے دما غ یورپین خیالات سے (بجز مذہب کے) لبریز ہوں، ہم اپنی قدر ، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں، ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیرخواہ رہیں اور اس کو اپنا محسن ومربی سمجھیں۔“ ( مقالات سرسید ج5، ص:66)
  یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند    میں    ان دو صدیوں میں جس  نے بھی  الحاد و  تجدید دین کی آواز لگائی اگر  اسکے کے علمی وفکری نسب کو دیکھا جائے تو اسکی کڑی کہیں نہ کہیں سرسید احمد خان سے جا ملتی ہے ۔ ان کی پیروی میں دوبڑے  فکری سلسلوں نے اس فتنے کو پروان چڑھایا۔ ایک سلسلہ عبداللہ چکڑالوی اور اسلم جیراج پوری سے ہوتا ہوا غلام احمد پرویز تک پہنچا ،  دوسرا سلسلہ حمید الدین فراہی اور امین احسن اصلاحی سے گزرتا ہوا جاوید احمد غامدی تک آیا۔ ان میں سے پرویزی سلسلہ نے اپنے عقائد و نظریات کی اشاعت میں تقیہ کرنے کے بجائے صاف گوئی اور   بے باکی  سے کام لیا ، اسی وجہ سے انکے نظریات کا  پوری طرح نقد بھی   ہوسکا  اور انکا کفر و اعتزال عوام کے سامنے واضح  ہوا۔ غامدی  مکتبہ  فکر نے اس  سلسلے کے لوگوں کیساتھ ہونے والے سلوک کو  دیکھتے ہوئے   بیچ کی راہ اختیار کی ہےوہ یہ کہ یہ      ”صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں“ ۔ یہ   دین   پر ہونے والی  چودہ سو سالہ تحقیقات،  تشریحات اور ان گہری تحقیقات کے نتیجے میں بننے والے اصول و قوانین    کے مقابلے میں اپنی تشریحات اور اصولوں کو اس طریقہ  سے متعارف کروانے کی کوشش میں  ہیں  کہ انکا  انکار شریعت واضح  نہ ہو جسکی بنیاد پر    کوئی  ان پرصریح  فتوی بھی نہ لگایا جاسکے جس طرح غلام قادیانی اور غلام پرویز پر لگا یا گیا۔!!  مثلا جناب غامدی صاحب  وحی، کتاب، سنت، تواتر، فطرت، اجماع، معروف، منکر اور عرف جیسی بہت سی اسلامی اصطلاحات  کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم انکو مانتے ہیں  لیکن  ان کے مفاہیم اپنی طرف سے بیان کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ  کوشش کرتے ہیں کہ  عام چھوٹے مسائل میں  سلف سے ہی رابطہ استوار رکھا جائے تا کہ کوئی بالکل یہ نہ سمجھ لے کہ یہ پرویزیوں کی طرح  بالکل کوئی نیا دین متعارف کروانے جارہے ہیں ۔   جن مسائل  میں   انکے لیے اسلاف کے دیے گئے قرآن و حدیث پر مبنی   دلائل  کا انکار ممکن نہیں ہوتا  ان مسائل  میں  اپنے قائم کیے گئے موقف کی   دلیل عموما   قرآن و حدیث کے  بجائے لغت، فطرت انسانی، پرانے صحائف وغیرہ سے لاتے  ہیں ، موقف پر کوئی اعتراض آجائے تو  پہلے پورا زور لگا کر اسکا دفاع کرتے ہیں، قرآن کی بات ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ اس زمانہ کے ساتھ  مخصوص تھی، حدیث کی بات ہو تو  کسی دوسری حدیث کے ذومعنی لفظ  کو لے کر تاویل کرجاتے ہیں یا اسکے  قرآن کے خلاف ہونے کا دعوی کردیتے ہیں ،  ایک طرف  مسئلہ رجم، حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و آمد ثانی، عورت  کے پردے، موسیقی، مجسمہ سازی، مرتد کی سزا،  قرات قرآنیہ کے بارے میں احادیث کے ساتھ   فقہاء کے فہم  کو بھی ٹھکراتے نظر ہیں  ،  دوسری طرف اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہیں پھنس جائیں  ہیں تو فقہاء کی ہی  شاذ آر اء کو  اپنے موقف کی تائید کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگر   پھر بھی بات نہ  بنے   تورسالہ یا  کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اپنا موقف ہی بدل دیتے ہیں  اور اسکو اپنی  سوچ کے ارتقاء کا نام دیتے ہیں ، اسی 'ارتقاءئی' سفر میں جناب غامدی صا حب    78ء سے 2005ء تک  صرف سنت پر چودہ موقف بدل چکے ہیں۔ کبھی عورت کی ختنہ، ڈاڑھی ، طلاق ، تیمم، نماز عید، نماز جمعہ سنت تھی اب نہیں رہی، پہلے نماز، روزہ، زکوۃ سنت تھی پھر فرض بن گئی ، اسی طرح  پہلے جمہوریت نظام کفر و شرک تھا آج دنیا کا عظیم ترین بلکہ الہامی نظام ہوگیا۔ ۔ چلے تو تھے  چودہ سو سال سے اسلام پر ہونے والی تنقیدات اور پھر انکے ردعمل میں ہونے والی  تحقیقات اور   اصلاحات   کے بعد اپنی مچور سطح تک پہنچ جانے والے شرعی مسائل کے مقابلے میں نئے سرے سے  پورے  دین  کا  ایک نیا ایڈیشن متعارف کروانے ،  لیکن تیس  سال  سنت اعمال کا تعین کرنے میں ہی  لگ گئے۔   ایک طرف جناب کا  علم اور تحقیق  اتنی  نابالغ  ہے  کہ  بنیادی تصور دین  میں ہی  ہر نئے دور کے ساتھ  تبدیلی در آتی ہے  دوسری طرف ناصرف  ہر ترمیم پر  دعوائے  قطعیت کرتے ہیں  بلکہ  جید صحابہ  و فقہاء کے فہم پر اعتراض اور پھر   اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کے لیے انکے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے سے بھی نہیں ڈرتے۔
 شرعی اجتہاد کی تعریف اور  حدود:
اجتہاد کے بارے میں ہمارے ان  تجدد پسند سکالروں  نے کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں ۔ ایک بنیادی غلط فہمی انکی طرف سے   اسکی تعریف  میں پھیلائی گئی  ہے۔  انکے نزدیک  لفظ ” اجتہاد“ کے معنی کوشش کرنا او ر مفہوم آزادرائے دینا ہے۔ یہیں سے غلطی کا آغاز ہوتا ہے ا وراس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وہ بھی غلطیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ شرعی اجتہاد محض کوشش کرنے اور رائے زنی کا نام نہیں، نہ اجتہاد کا مطلب کسی  پرانے حکم کو منسوخ کرکے نیا حکم گھڑناہے بلکہ  شریعت کے ایک حکم سے دوسرا  حکم نکالنا ہوتا ہے۔ کسی بھی  درپیش مسئلہ، جس کے بارے میں واضح حکم شرعی کتاب وسنت میں موجود نہیں، اس کا حل مآخذ شریعت کی چھان پھٹک کرکے، نظائر وامثال پر غور وفکر کے بعد پیش کرنا ” شرعی اجتہاد“ کہلاتا ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ پھیلائی گئی ہے  کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں  حالاں کہ جن مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں ، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص (وہ احکام جو  واضح طور پر قرآن یا حدیث میں بیان کیے  گئے ہوں)ہوں نہ اجماعی(جنکے ایک  حل اور تشریح پر ہر دور کے علمائے امت تحقیق کے بعد متفق چلے آرہے ہیں )۔ آسان لفظوں میں  قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جو واضح اور  منصوص احکام شرعیہ آگئے ہیں ،وہ امت کے لئے ہرحالت میں واجب الاطاعت ہیں اور اجتہاد کے دائرے سے بالاتر ہیں۔ہاں  اگر احادیث میں کچھ تعارض ہے یا قرآن کریم کی دلالت قطعی موجود نہیں ہے ، نہ علمائے امت کا ایسے مسائل میں کوئی اجماع موجود ہے  جیسے وہ مسائل جو جدید تمدن نے پیدا کئے ہیں اور  سابقہ فقہ اسلامی کے ذخیرہ میں ان کا ذکر نہیں ہے، نہ نفیاً نہ اثباتاً، یا  وہ  مجتہد فیہ مسائل  ہیں  ( وہ عملی اور فروعی احکام جن میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو) ان میں اجتہاد کی اجازت ہے ۔ شریعت کی روشنی  میں ان مشکلات کو حل کرنا اور جدید تقاضوں کو پورا کرنا دور کے اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے  علماء کا فریضہ ہوتا ہے اور وہ ان مسائل کا قیاس واجتہاد سے قدیم ذخیرہ کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔
شرائط مجتہد  و اجتہاد:
عہدِ رسالت میں مسائل کا حل قرآن تھا یا فرمان نبوی ، دورنبوت کے بعد فتوحات اسلامیہ کے ساتھ نئے مسائل نے سر اُٹھایا تو ان کے حل کے لیے فقہاء نے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے قواعد وضوابط مرتب کیے اور نئے مسائل کے” اجتہادی“  حل تجویز کیے ، ان میں سے چار فقہی مذاہب مستقل  مدون ہوئے اور   فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور  فقہ حنبلی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ تشریع اسلامی کی تاریخ،  فقہی دور کی تکمیل اور ہر زمانے میں جدید مسائل پر کتابوں کی تصنیف اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ جن مسائل میں کتاب سنت کے نصوص موجود نہیں ان میں اجتہاد کا دروازہ ہر وقت کھلاہےچنانچہ امت اسی اصول پر کار بند رہی اور یہی آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے۔ ۔ دوسری بات جدیدیت پسندوں کی طرف سے جو اجتہاد پر اصرار کیا جاتا ہے اور جس طرح عام لوگوں کو اجتہاد کی رغبت دلائی جاتی ہے  اس  سےبعض  اوقات  یہ محسوس ہوتا ہےکہ شاید اجتہاد کوئی عبادت ہے  جسکا یہ لوگوں کو شوق دلارہے ہیں،  حالانکہ کہ اجتہاد ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اسکی سخت شرائط ہیں ۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں اجتہاد کی چند  شرائط کا ذکر کیا ہے جنکاایک  مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے ۔
1. عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔
2. قرآن وحدیث سے ماخوذ ان علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔
3. قرآن ، حدیث ،  اجماع امت اور  امت کے اجماعی واجتہادی مسائل جو پہلے سے طے کیے جاچکے انکا مکمل علم  ہو۔
4. فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ایک قدم بھی  آگے نہیں چلا جاسکتا ۔
5. ان آیات و روایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ تقریبا پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔
6. اجتہاد کے اصول وقواعد، احکام شرع کے مصالح ومقاصد،  ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔
7. بالغ نظری اور دقیقہ رسی کے ساتھ تقوی،خشیت الہیہ اور دین خداوندی کے ساتھ کامل اخلاص موجود ہو ۔
8. دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔
9. ایسے یکتا اشخاص کا وجود جو ان مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ، موجود دور میں  بیحد مشکل ہے ،اس لیے ”شخصی رائے “کی کمی کو جماعت کی آراء سے پورا  کرنے  کے لیے شورائی اجتہاد کا اہتمام ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی  امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جدید مسائل میں انفرادی رائے کی بجائے ”فقہاوعابدین“سے مشورہ کیا جائے ” (کنزالعمال حدیث نمبر: ۴۱۸۸)۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقیہہ الامت ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا جیسا کے الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ “میں ذکر کیا ہے ۔)حجۃاللہ البالغہ باب الفریق بین المصالح و الشرائع، عقد الجید ) 
یہ  چند شرائط  ہیں   جنکا ایک مجتہد میں پایا جانا ضروری ہے اب اگر انکو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے  ان سیلف میڈ عظیم  مجتہدین یا مجددین   کی  علمی حالت چیک کی جائے اور یہ دیکھا  جائے  کہ  کیا  ان میں  اجتہاد کی صلاحیت یا  مجتہد  کی کوئی شرط پائی جاتی ہے  تو  تحقیق کرنے کے بعد پتا چلتا ہے  کہ  علوم شریعہ  میں رسوخ تو دور کی بات  کسی نےدین کی باقائدہ تعلیم بھی  حاصل نہیں کی ہوئی،  اکثر  صرف بی اے ، ایم اے کرکے ڈاکٹر کا سابقہ  لگا کر عینک اور واسکٹ  پہن کر ٹی وی پر آبیٹھے ہیں  اور انکی تحقیق کیا ہیں بھان متی کا کنبہ ہیں،  سارے ماخذ دین   کو سامنے رکھتے ہوئے نئے مسائل کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم  کرنے کی صلاحیت تو  درکنار اکثر اتنی قابلیت بھی نہیں رکھتے کہ  بغیر ترجمہ کے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرسکیں، یا دو سطریں عربی میں صحیح لکھ سکیں پھر  بھی جرات اختلاف   اتنی ہے کہ   فقہائے امت اور صحابہ کے فہم  کو غلط قرار دے جاتے  ہیں ، اجتہادی کوششیں صرف   فروعی یا  اجتہادی مسائل  میں  بھی  نہیں کہ انکو کسی درجہ  میں  اختلاف کی اجازت دی جاسکے    بلکہ متفقہ و منصوص مسائل کو  اختلافی بنانے کے لیے  ہیں  ۔ سارے اختلاف کی وجہ کیا ہے ؟  محض جدت پسندی ، احساس کمتری اور تن آسانی۔ اس کے لیے مذاہب فقہا سے چھانٹ چھانٹ کر رخصتیں تلاش کرتے  اور قرآن و حدیث کی معنوی تحریف کرتے ہیں ۔ اجتہاد کی علمی بنیاد کیا ہے  ؟ دو ڈھائی سو  اردو میں لکھی ہوئی یا  اردو انگریزی میں   ترجمہ شدہ کتابیں، چار پانچ ڈکشنریاں  اور ایک بہکا ہوا نفس اور عقل ۔عموما ساری جرات اور اجتہاد  کا  انحصار صرف  عقل  پر ہوتا ہے۔ ہم مانتے ہیں   بلاشبہ عقل نور فروزاں ہے مگر اس کے لیے ایک خاص دائرہ ہے ۔ عقل ان امور کا ادراک نہیں کر سکتی جو وحی کی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔ عقل کے لیے یہی فخر  کافی ہے کہ وہ وحی کےبیان کردہ حقائق کا ٹھیک ٹھیک ادراک کر لےاور ان حقائق کی بلندحکمتوں ،گہری مصلحتوں اور باریک اسرار و علل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائے ۔ جس طرح  نصوص وحی کے نہ ہونے کی صورت میں بھی عقل  سےکا م نہ لینا نری حماقت اور کوتاہی ہے اسی  طرح منصوص وحی کے ہوتے ہوئے بھی عقل کو ہر چیز میں مقدم رکھنا بڑی گھناؤنی جسارت ہے۔ صحیح راستہ ان دونوں کے درمیان سے گزرتا ہےاور وہی صراط مستقیم ہے ۔

19 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

اجتہاد کی گنجائش وہاں ھوتی ھے جہاں بات سننے سمجھنے اور اس پر غور کرنے والے افراد ھوں۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے کیا میں اپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ ،
کیا پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کو اجتہاد کی ذمہ داری دے دی گئی ہے؟؟

Unknown نے لکھا ہے کہ

منیر عباسی صاحب کسی زمانہ میں جب مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ جیسے لوگ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے یہ واقعی اسلامی نظریات کی کونسل تھی اور اس کے فیصلے یا تجاویز کو اجتہادی قرار دیا جاسکتا تھا، پچھلے دور میں جو لوگ اس کے رکن رہے اور اب جو ہیں اور جو وہ فیصلے کررہے ہیں میرے خیال میں انکو ایک قانونی و شرعی رائے ہی قرار دیا جاسکتا ہے جیسے کل کی خبر میں جو مولانا شیرانی نے انسانی کلوننگ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی اورتبدیلی جنس کے متعلق بیان دیا ہے اسی طرح ڈی این اے کے متعلق جو موقف پیش کیا گیا۔ ۔ میرے خیال میں یہ واضح مسائل ہیں انکی شرعی حیثیت بھی واضح ہیں اس لیے ان کے متعلق پیش کیے گئے فیصلے کو کلی طور پر اجتہادی نہیں قرار دیا جاسکتا، کچھ مسائل لازمی ایسے ہیں جن پر مزید فقہی بحث کی ضرورت ہے۔ ۔ باقی انکو اجتہاد کی اجازت شاید قانون کی طرف سے دی گئی ہے۔ شاید کونسل بنی ہی ان مسائل میں تجاویز پیش کرنے کے لیے ہے۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

اجتہادی رائے اور ایک قانونی اور شرعی رائے میں کیسے فرق کیا جا سکتا ہے؟

Unknown نے لکھا ہے کہ

میرا مطلب اس سے ایسی رائے تھا جس کے لیے عموما اجتہادی قابلیت یا مجتہدانہ صفات کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی بھی عالم چند منٹوں میں ایسے مسائل پر اپنی شرعی نقطہ نظر پیش کردیتا ہے، روز سینکڑوں دارالافتاء سے ایسے سوالوں کے جواب دیے جاتے ہیں، جبکہ اجتہادی مسائل پر ایک اجتہادی رائے دینے کے لیے عموما مجتہدانہ صفات اور پھر گہری تحقیق اور نظر کی ضرورت ہوتی ہے جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنے فقہی مقالات میں مکمل تحقیق کے بعد مختلف جدید مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہوا ہے ۔ ۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

آپ کا مضمون "اجتہاد کی اجازت" واللہ نہائت موزوں اور درست ہے ۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی پشین گوئی کے مصداق جدید یوروپ ڈوب چکا۔ اخلاقی و مزہبی طور پہ تو صدی ڈیڑہ صدی قبل ہی ڈوب گیا تھا۔ اور جس معاشی و مادی ترقی کے لئیے یوروپ نے اخلاقیات اور مذہب سے ہاتھ کینچھا تھا، آج یوروپ معاشی و اقتصادی کے طور بھی ڈوب رہا ہے۔
جاوید گوندل۔ بآرسیلونا ، اسپین

گمنام نے لکھا ہے کہ

میں آجکل ایک اور نئی جہت پہ حقائق اکھٹے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ کہ کم از کم پاکستان میں روشن خیالی یا روشن خیال ۔ اسیکولرز و لبرلز۔ نام نہاد لوگ کسی ازم سے تعلق نہیں رکھتے ۔ بلکہ یہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو اپنے مفادات کے لئیے رنگ برنگا چولا بدلتا رہتا ہے۔ اور ان میں سے اکثریت اخلاقی و ذہنی آوارگی کی وجہ سے اسلام کی جائز اخلاقی پابندیوں سے گھبراہتے ہیں اور نتیجتا یہ لوگ وقتا فوقتا مختلف ازموں کا سہارا لے کر جہاں اپنے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ وہیں اسلام سے بھی اپنا بغض نکالتے رہتے ہیں ۔ جبکہ در حقیقت ان کے سامنے کوئی مخصوص ازم یا نظریہ نہیں ہوتا۔ یہ ایسے نظریوں کو بطور سیڑھی استعمال کرتے ہیں ۔ مگر ان کے اس لچر پن سے نئے لوگ مختلف ابہام کا شار البتہ ضرور ہوتے ہیں۔ ایسے نام نہاد روشن خیالوں ۔ وغیرہ کی گروہی مفادات سے ریاست اور مسلمانوں کے مفادات عامہ کہ جہاں نقصان پہنچتا ہے وہیں یہ لوگ محض اپنے گھٹیا مادی مفادات کی خاطر عام آدمی کو ورغلانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے روشن خیالوں کا کسی نظریے اور اخلاقایات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور جب بھی ناگہانی یا جمہوری طور پہ حکومتیں بدلتی ہیں تو یہ طبقہ ایسے گُم ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اور جونہی انکے مطلب براری کا موسم بنتا ہے یہ موسمی کھمبیوں کی دوبارہ اُگ آتے ہیں۔ یعنی پاکستان کے نام نہاد روشن خیال نامی فصل صرف مفادات حاصل کرنے کے موافق موسم میں ہی پائی جاتی ہے۔کٹھن اور مشکل حالات میں پاکستان کے یہ نام نہاد روشن خیال وغیرہ اپنے اپنے خود ساختہ نظریوں سمیت سابقہ دور کے کمائے مال مفت سے انصاف کرنے اور نئے مواقع کے انتظار میں دبیز پرودوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ جہاں سے انہیں نا انکی روشن خیالی مشکل موسموں سے مقابلے کے لئیے باہر آنے پہ آمادہ کرتی ہے اور نہ ہی انکے نظریات کا پرچار کہیں نظر آتا ہے۔ واہ کیا طریقہِ واردات ہے۔
جاوید گوندل۔ بآرسیلونا ، اسپین

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ جاوید بھائی
اقبال نے مغربی تہذیب، فکر و فلسفہ پر اردو اور فارسی میں واقعی بہت زبردست لکھا ہے۔ اقبال حقیقت میں مغرب کے نبض شناس تھے، انکا ایک ایک شعر دوسرے موضوعات کی طرح اس موضوع پر بھی اپنے اندر سمندر کو بند کیے ہوئے ہے۔ اس آرٹیکل میں انکے اور بھی بہت سے اشعار پیش کرسکتا تھا لیکن طوالت کے ڈر سے یہ چند ہی پیش کیے۔ مغرب پر اقبال کی اردو اور فارسی میں موجود شاعری کی شرح بہت سے لوگوں نے لکھی ہے، لیکن میرے نزدیک سب سے بہترین ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی ہے۔ وہ اتنی جامع ہے کہ مغرب اور اس سے متعلقہ ہر طبقہ کی فکر ونظریات اور ان کی حقیقت کو سامنے لاتی ہے۔ اس متعلق انکے آرٹیکل کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔
http://mahmoodghazi.files.wordpress.com/2012/01/allamah-iqbal-ki-tanqeed-e-maghrib.pdf
آپ نے پاکستانی روشن خیالوں سیکولر لبرل پر بالکل درست تجزیہ پیش کیا۔ یہ مغرب سے مرعوب اور احساس کمتری کا شکار طبقہ ان جیسا بننے کے لیے اپنے دین و مذہب، ملک وملت سمیت سب کچھ قربان کرسکتا ہے۔ مجھے بعض اوقات ان روشن خیالوں پر ترس آتا ہے کہ اس ترقی کے سراب کے پیچھے بھاگنے نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، انہیں اسلامی روایت سے بالکل بے گانہ کردیا، لیکن ترقی انکے پھر بھی ہاتھ نہیں آرہی۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

تو آپ نے مفتی تقی عثمانی صاحب کو بھی مجتہد کے درجے پر فائز کر دیا۔
سبحان اللہ ۔
پھر اگر کوئی مولانا احمد رضا خان صاحب کو مجتہد کہے تو غلط نہیں کرے گا۔ میرا نہیں خیال جناب عثمانی صاحب آپ کی بیان کردہ مجتہد والی شرائط پر پورا اترتے ہوں گے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

عباسی صاحب پتا نہیں آپ کیوں میری ہر بات کو منفی لے جاتے ہیں، شاید کوئی کمزور پہلو ڈھونڈنا چارہے ہیں۔:ڈ خوش رہیں ۔
میں نے اپنے اوپر والے کمنٹ میں کسی کو مجتہد کے درجے پر فائز کیا نہ کسی عالم کے مجتہد ہونے کی مخالفت کی ہے، کوئی احمد رضا خان کو مجتہد مانے اسکی پسند ہے، وہ پھر ایک عالم تھے آج کل تو لوگ بی اے فلسفہ کیے بندے کو بھی مجتہد سمجھ بیٹھے ہیں۔
میں نے اوپر کمنٹ میں مفتی صاحب کے فقہی مقالات میں انکے تحقیقی انداز پر بات کی تھی کہ وہ تحقیق کا ایک اجتہادی انداز ہے۔ باقی میرا نہیں خیال کہ مجتہد کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں تقی صاحب اس میں سے کسی شرط پر پورا نہیں اترتے، ان میں اجتہادی صفات موجود ہیں ، میرے نزدیک تقی صاحب امام ابو حنیفہ کی طرح کے مجتہد کامل یا امام ابو یوسف کی طرح مجتہد فی المذہب تو نہیں، انہیں مجتہد فی المسائل ضرور کہا جاسکتا ہے، انکی علمی کاوشوں سے استفادہ کرنے والا یا ان سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی غیر جانبدار شخص بھی یہی کہے گا کہ وہ موجودہ دور میں علمائے احناف میں سے سب سے بڑے متبحر عالم ہیں۔ موجودہ دور کے اجتہادی مسائل میں ناصرف پاکستان، ہندوستان بلکہ پوری اسلامی دنیا میں انکی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

جناب میں تو دیکھنا چاہتا ہوں کہ جب ہر اس آواز پر تنقید کی جاتی ہے جو دین کے چاہنے والوں کی اصلاح کے لئے اٹھتی ہے تو ہمارے علما اور ان کے محبین کیوں اتنی تنقید کرتے ہیں۔ آپ اتنی دھڑلے سے تنقید کر رہے ہیں، میرے سادہ سے سوالوں سے گھبرا اٹھے ہیں؟؟
برادرم میں آپ کا دشمن ہر گز نہیں، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون کس درجے پر کیوں فائز کیا جاتا ہے۔ ایک طرف آپ مجتہد کے لئے درکار شرائط کو گنوا کر ان لوگوں کے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بچو ! مجتہد بننا اتنا آسان کام نہیں، یہ سب کر کے دکھاو۔ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب شرائط اتنی سخت ہیں کہ ہمارے پاکستان میں کوئی بھی عالم اس شرط پر پورا نہیں اتر سکتا۔
دوسری طرف آپ مجتہد فی المذہب اور مجتہد فی المسائل جیسی اصطلاحات کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ کیا چیزیں ہیں۔ ان کا ریفرنس کیا ہے۔ آپ سے پہلے کس نے ان اصطلاحات کا استعمال کیا ۔ سب سے پہلا مجتہد فی المسائل کون تھا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب سے پہلے کون مجتہد فی المسائل کے درجے پر فائز تھا۔ اور ان سے پہلے کون تھا۔ سب سے آخری مجتہد فی المذہب کون تھا۔ اور وہ مجتہد فی المسائل کیوں نہیں تھا۔

آپ نے دیکھا؟ آپ کی ذرا سی بے پرواہی نے اتنے سوالات اٹھا دئے؟ آپ کو ایک طرف ہونا پڑے گا۔ اپ کو صاف بات کرنی ہو گی۔ اگر صاف بات نہیں کریں گے تو مجھ جیسے کم علم جو کہ حقیقتا جاننا چاہتے ہیں کہ سچ کیا ہے وہ تو اور زیادہ بھٹک جائیں گے۔ اگر اجتہاد کا دروازہ کُھل گیا تو کیا ضروری ہے کہ وہی ہوگا جس کا خدشہ آپ نے ظاہر کیا ہے؟

پس نوشت : میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل لاعلمی میں ہی سہی، مگر در حقیقت ایک مجتہد کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ اور اس کونسل کے زیر غور جو مسائل ماضی قریب میں رہے ، ان پر اس کونسل کا فیصلہ دراصل اجتہاد ہی تو ہے۔
یہ اور بات ہے کہ سرکاری اجتہاد ہے اور بہت سوں کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔

منیر عباسی نے لکھا ہے کہ

جناب میں تو دیکھنا چاہتا ہوں کہ جب ہر اس آواز پر تنقید کی جاتی ہے جو دین کے چاہنے والوں کی اصلاح کے لئے اٹھتی ہے تو ہمارے علما اور ان کے محبین کیوں اتنی تنقید کرتے ہیں۔

کو یوں پڑھا جائے:
جناب میں تو یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ جب ہر اس آوا ز پرجو دین کے چاہنے والوں کی اصلاح کے لئے اٹھتی ہے علما اور ان کے محبین کی طرف سے تنقید کیوں کی جاتی ہے۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

منیر عباسی صاحب آپ کو یہ کیسے محسوس ہوا میں آپ کے سوالوں سے گھبرا گیا ہوں، ہاں آپ کا فیس بک سٹائل میں اتنے بیسک قسم کے سوال کرنا مجھے عجیب ضرور لگا تھا، آپ ایک علم والے آدمی ہیں اس لیے مجھے ان سے ایسا محسوس ہوا جسکا اظہار میں نے گزشتہ کمنٹ میں کیا ۔
آپ نے اپنا مقصد بتایا اس پر شاید میں آپ سے پہلے بھی بات کرچکا ہوں کہ اصلاح کی بات کیسے کی جاتی اور یہ کرنے والے کیسے کررہے ہیں۔؟ میرے نزدیک یہ اصلاح کا کوئی نیا انداز نہیں بلکہ نیچریوں کا ہی تسلسل ہے، اسکی تفصیل میں اسی تحریر میں لکھ چکا ہوں۔ باقی اپنی پیش کی گئی شرائط کی نبیاد پر اس دور میں مجتہد کے ہونے کا میں نے انکار نہیں کیا نہ اجتہاد کے دروازے کی بند ہونے کی کوئی دلیل پیش کی، یہ تو ایک اچھے مجتہد کی صفات تھیں جو میں نے لکھیں، سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں کسی ایک عالم میں ان صفات کا اکٹھا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اس بناء پر بھی اجتہاد کی مخالف نہیں کی بلکہ اس کمی کو شورائی اجتہاد سے پورا کرنے کی نکالی گئی گنجائش کا آخری شرط میں تذکرہ کیا ، آج کل مختلف جدید مسائل میں اجتہاد اسی طریقے سے کیا جارہا ہے۔ ۔ ۔ باقی مجتہد کامل ، مجتہد فی المذہب وغیرہ یہ مجتہد کے طبقات ہیں۔ اجتہاد پر لکھی گئی کسی بھی کتاب میں ان اقسام پر تفصیل دیکھی جا سکتی ہے، اسلاف کی کتابوں میں طبقات فقہاء میں ان پر بات کی گئی ہے، میں نے جن کا ذکر کیا میں صرف انکی وضاحت کردیتا ہوں
۱. مجتہد کامل : انہیں مجتہد مطلق اور مجتہد فی الشرع بھی کہا جاتا ہے یہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کیے بغیر براہ راست قرآن وسنت سے اصول وقواعد ترتیب دے سکتے ہیں اور پھران کی روشنی میں مسائل کی تخریج بھی کرسکتے ہیں۔ انہی لوگوں نے اجتہاد کے قوائد بنائے، جیسے فقیہہ صحابہ و تابعین ، امام ابو حنیفہ ، امام شافی ، امام مالک ، احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ ۔
۲. مجتہد فی المذہب: جو اصولوں میں تقلید کرتے ہیں اور ان اصولوں کی روشنی میں مسائل خود استنباط کرسکتے ھیں. جیسے امام ابو یوسف، امام محمد وغیرہ ۔ یہ اصول و قواعد میں حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مقلد ھیں اور مسائل میں خود مجتہد.
۳. مجتہد فی المسائل : جو قواعد اور مسائل دونوں میں مقلد ہیں. لیکن جن مسائل میں امام کی تصریح نہیں ملتی جیسے جدید دور کے مسائل' یہ انکا شریعت کی روشنی میں حل نکال سکتے ہیں۔ ان میں میں نے مفتی تقی عثمانی صاحب کا تذکرہ کیا۔
باقی جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل کی بات ہے میں نے خود پہلے کمنٹ میں آپکی اس لکھی گئی بات کو تسلیم کیا تھا، آپ کمنٹ دوبارہ دیکھ سکتے ہیں، آپ نے ان کے حال میں کیے گئے فیصلے کے متعلق پوچھا تھا میں نے ا س کے اجتہاد ہونے کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اسے ایک ایسا اجتہاد قرار دیا تھا جو عام فتاوی میں ملتا ہے، مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی ایسا اجتہاد نہیں جو وہی کرسکیں، یا اس کے لیے بہت اچھی اجتہادی صفات کی ضرورت ہے یہ ہر عالم کرسکتا ہے، پھر اسکی وضاحت بھی آپ نے میرے سے کروا لی تھی، اس سے بھی اجتہاد کا انکار مقصود نہیں تھا۔ ۔
میری کوئی بات بری لگی ہوتو معذرت۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

علامہ اقبال اور اجتہاد

http://www.sadaemuslim.com/2012/07/allama-iqbal-and-ijtihad.html

ایک دفعہ ٢٠٠٥ء میں روزنامہ جنگ نے ملک بھر میں فورمز کا اہتمام کیا جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی پر تبصرے اور تجاویز پیش کی گئیں، مختلف تبصرہ جات جو تائید و تنقید پر مبنی تھے ان میں سے ایک تنقیدی تبصرہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے. ملاحظہ ہو.
ہمارا نظام تعلیم ایسے جید علماءتیار کرنے سے قاصر ہے، جو دور جدید کی
ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں . یہ نظام تعلیم تقلید جامد کے اصولوں پر قائم ہے ، اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علماء کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے ، ان کے کام کی تفہیم اور شرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں. دور اول کے فقہاء نے جو اصول و قوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں ، اس ضمن میں تحقیق و اجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب پر فائز ہو سکے. ہمارے علماء اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں، چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح و وضاحت کر سکیں ، یہی علماء اسلامی نظریاتی کونسل کا حصہ ہیں . لہذا اس ادارے یا اس طرح کے کسی دوسرے ادارے سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے کہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکیں ، جو زہین مسلمان عناصر کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں اور ان شکوک و شبہات کو رفع کر سکیں، جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے. اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی کا جائزہ اگر اس پہلو سے پیش نظر ہے کہ آیا اس نے ایسے قوانین مرتب کیے ہیں ،جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہیں اور دور حاضر کی ضرورتوں کو ہر لحاظ سے پورا کرتے ہیں، تو اس کی کارکردگی صفر ہے ، لیکن اگر اس زاوئیے سے دیکھا جاۓ کہ اس نے موجودہ زمانے کے مسائل سے قطع نظر روایتی مذہبی افکار کی روشنی میں قوانین کی تدوین کےلیے اپنی شفارشات پیش کی ہیں ،تو اس کی کارکردگی سو فیصد ہے.

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسے ایک مؤثر ادارہ کیسے بنایا جاۓ تو اس کے لیے تین اقدامات نہ گزیر ہیں.
١. مذہبی نظام تعلیم کی اصلاح کی جاۓ تاکہ وہ ایسے علماء پیدا کر سکے ، جو حقیقی معنوں میں اسلامی قانون کی تدوین کا فریضہ انجام دے سکیں.

٢. کونسل کی رکنیت کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جاۓ.

٣. پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند کیا جاۓ کہ وہ اس کی شفارشات پر بحث کر کے ان کے رد و قبول کا فیصلہ کرے.

Unknown نے لکھا ہے کہ

صاحب میرے خیال میں ڈسکشن کا بہتر انداز یہ تھا کہ آپ میری تحریر کے وہ نکات جن سے آپ متفق نہیں ان پر تبصرہ کرتے اور ان میں موجود غلطی کی نشاندہی کرتے ۔ ۔آپکے دیے گئے لنک کے بہت سے پوائنٹس پر میری تحریر میں تبصرہ موجود ہے، کچھ باتیں دوہرانا چاؤں گا پہلے تو ہمیں اس بات کا تعین کرلینا چاہیے کہ اجتہاد کن مسائل پر کرنا ہے اور جنہوں نے کرنا ہے انکی قابلیت کیا ہونی چاہیے؟ اس دور میں بہت سے اجتہاد کی آواز لگانے والے ان دونوں باتوں میں اپنی مرضی کا کرائیٹریا بنائے ہوئے ہیں اس لیے انکا اجتہاد شرعی اجتہاد کہلانے کے لائق ہی نہیں کیونکہ اجتہاد اور مجتہد کی شرائط موجود ہیں انکے مطابق کیا جانے والا اجتہاد ہی شرعی اجتہاد سمجھا جائے گا۔ ۔ ہمارے ہاں ذیادہ تر اٹھنے والی اجتہاد کی آوازیں خواہش نفس کے تابع ہیں، علامہ اقبال نے ایسے دور کے متعلق فرمایا تھا۔
اجتہاد اندر زمان انحطاط
قوم را برہم ہمی پیچد بساط
ز اجتہاد عالمان کم نظر
اقتدا بر رفتگان محفوظ تر
” انحطاط کے زمانے میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے اور اس کی بساط لپیٹ دیتا ہے۔ کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ ہے۔ “ (کلیات اقبال فارسی)
آپ نے جو جنگ فورم میں اسلامی نظریاتی کونسل پر کیا گیا تبصرہ پیش کیا ہے میرے نزدیک فی الحال پاکستان میں ایسا ہونا ممکن نہیں، یہاں انکی مرضی کے علماء پیدا کرنے والے ادارے موجود ہیں نا پارلیمنٹ تک پہنچنے والے افراد فی الحال اتنی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ نظریاتی کونسل کے اجتہاد یا سفارشات پر بحث کرکے انکے رد و قبول کا فیصلہ کرسکیں۔ ۔ ہمیں تھوڑا حقیقت پسند بننے کی ضرورت ہے۔ اسی تبصرہ میں لکھا ہے کہ
"ہمارے علماء اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں، چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح و وضاحت کر سکیں ، یہی علماء اسلامی نظریاتی کونسل کا حصہ ہیں . لہذا اس ادارے یا اس طرح کے کسی دوسرے ادارے سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے کہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکیں ، جو زہین مسلمان عناصر کی جانب سے اٹھائے جا رہے ہیں اور ان شکوک و شبہات کو رفع کر سکیں، جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے. "مبصر اسی غلطی کا شکار ہے جس کا میں نے پچھلے کمنٹ میں ذکر کیا۔ ۔ انہیں اجتہاد کا مطلب جاننے کی ضرورت ہے کہ اجتہاد کہتے کسے ہیں، انکے نزدیک بھی شاید اجتہاد“ کے معنی تحقیق کرنے، ٍ کوشش کرنے او ر آزاد رائے دینے کے ہیں، میرے خیال میں انہوں نے آگے جو کچھ لکھا ہے وہ اسی غلطی کی وجہ سے ہے کہ اسلام پر اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب علماء نہیں دے سکتے۔ شاید مبصر کے نزدیک شکوک وشبہات کا جواب دینا بھی اجتہاد کہلاتا ہے۔ ۔ ۔ ! محترم نے اجتہاد کے موضوع پر گزشتہ تحریر اقبال کی تحریروں سے اقتباس نقل کرتے ہوئے ترتیب دی اور اس تبصرہ میں مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کی اجتہادی صلاحیت پر اعتراض اٹھایا ، میں دوبارہ عرض کروں گا کہ اقبال نے جس اجتہاد کی بات کی تھی وہ اجتماعی اجتہاد تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں بھی اس کام کے لیے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم سے فارغ ہونے والے 'علماء' کو منتخب نہیں کیا، بلکہ انکی اسی مدرسے کے دو طالب علموں مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کو اپنے ساتھ ملا کر کام کرنے کی خواہش تھی لیکن اس وقت علماء کی طرف سے ایسی کوئی ترتیب بن نہیں سکی تھی۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

اس فقرہ ------------شاید مبصر کے نزدیک شکوک وشبہات کا جواب دینا بھی اجتہاد کہلاتا ہے۔ ۔ ---- کے جواب میں ،میرے خیال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ، یہ درپیش مسائل میں سے ایک مسلہ ہے جسے فی نفسه اجتہاد تو نہیں کہا جاسکتا.مگر اس قبیل کے سوالات کا جواب دینا بھی کچھ کم نہیں . مدراس کے نظام تعلیم میں اگر اصلاح کا کہا گیا ہے تو وہ استعداد بڑھانے کے لیے کہا گیا ہے ، تو اس کا یہ مطلب نہیں کوئی عبقری یا موزوں شخص پیدا ھی نہیں ہو رہا اور یہ میدان خالی پڑا ہے . اس کو میرے خیال میں تاکیدسمجھنا چاہیے .پہلے کسی پر تنقید نہیں کی گئی بلکہ جو کچھ لکھا گیا ہے کسی سے اختلاف نہیں کیا گیا. بھر حال مجتہد کے لیے علمی اور عملی صلاحیتوں اور بیان کردہ شرائط میں اسلامی سکالرز /علماءمیں اختلاف راۓ پائی جاتی ہے ، جس کا ذکر بہت سی ایسی کتابوں / لٹریچر میں ملتا ہے . ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا جو مفہوم یہاں لیا گیا ہے اسے "قیاس " کے معنوں میں لیا جاتا ہے . حضرت معاذ بن جبل والی حدیث مبارکہ سے یہی معنی اخذ کیے جاتے ہیں . نظائر سے فائدہ اٹھانا ایک روشنی لینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے . مجاز ادرہ مجتہد کے علمی اور عملی درجہ کی عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر تحدید کر سکتا ہے ، یہ بھی ایک قسم کا اجتہاد ہو گا.
میرے نزدیک یہ دورِ حاضر کا سنگین مسئلہ ہے ۔ مسئلہ اجتہاد میں مجتہد کو سخت شرائط کا پابند کر دینا اسلام کت نظام حرکت کا فلسفہ کی راہ میں رکاوٹ ہو گا ۔ اس مسئلہ کا مسلکی تناظر سے بالاتر ہو کر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے ۔۔
آپ نے مضمون میں تحریر فرمایا :
"دوسری غلط فہمی یہ پھیلائی گئی ہے کہ شاید آزادانہ اجتہاد کی حدود میں تمام مسلمات شریعت بھی داخل ہیں حالاں کہ جن مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں ، اجتہاد صرف ان مسائل تک محدود ہے جو نہ منصوص (وہ احکام جو واضح طور پر قرآن یا حدیث میں بیان کیے گئے ہوں)ہوں نہ اجماعی(جنکے ایک حل اور تشریح پر ہر دور کے علمائے امت تحقیق کے بعد متفق چلے آرہے ہیں )۔ "
اقتباس میں میری رہنمائی کیجئے گا کہ آپ نے فرمایا "مسائل میں نصوص قطعیہ موجود ہوں وہ ہر دور میں دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں " سود اور دورحاضر میں اس کے مسائل ، نظام بینکاری،انشورنش(بیم)، تکافل سسٹم کیا یہ اجتہاد کے دائرے میں نہیں آتے ؟؟

Unknown نے لکھا ہے کہ


گمنام صاحب آپ کے جس تبصرہ سے میں نے اقتباس پیش کیا تھا اس سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے جیسا میں نے لکھا خیر آپ نے اب اپنی بات کی خود وضاحت کردی ہے یہ کافی ہے۔
باقی اجتہاد و مجتہد کے لیے رکھی گئی شرائط کسی کو اجتہاد سے روکنے کے لیے بالکل نہیں ہیں نہ کوئی رکتا ہے یار لوگ تو اپنے اندر ایسی کوئی شرط موجود نہ ہونے کے باوجود بھی ' اجتہاد' کیے جارہے ہیں۔ ۔ ۔ اجتہاد کی شرائط اصل میں ایک صحیح اجتہاد، تحقیق و تشریح تک پہنچنے کے لیے رکھی گئی ہیں، اجتہادی فیصلے شریعت کا نچوڑ ہوتے ہیں ، آبویسلی ایسے فیصلے کرنے والے کے لیے متعلق تمام شرعی علوم میں ماہر ہونا ضروری ہونا چاہے، کیونکہ اس مہارت اور ان صفات کا حامل ہی صحیح اجتہاد کرسکتا ہے، مثلا
1.عربی لغت سے اتنی واقفیت ہو کہ کسی بھی عربی کلام کے معنی بخوبی سمجھ سکے۔
2. قرآن وحدیث سے ماخوذ ان علوم سے واقفیت ہو جن کے بغیر عربی کلام کے معنی سمجھ نہیں آسکتے۔
3. قرآن ، حدیث ، اجماع امت اور امت کے اجماعی واجتہادی مسائل جو پہلے سے طے کیے جاچکے انکا مکمل علم ہو۔
4. فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جاسکتا ۔
5. ان آیات و روایات کا علم ہو جن میں احکام کا بیان ہے، یہ تقریبا پانچ سو آیات اور تین ہزار احادیث ہیں۔
6. اجتہاد کے اصول وقواعد، احکام شرع کے مصالح ومقاصد، ماحول ومعاشرے اور زمانے کے حالات وضروریات کا علم ہو۔
7. بالغ نظری اور دقیقہ رسی کے ساتھ تقوی،خشیت الہیہ اور دین خداوندی کے ساتھ کامل اخلاص موجود ہو ۔
8. دلائل پر غور وفکر کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ بھی ہو، اسے ”فقہ النفس“ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ شرائط خود مجتہدین نے مرتب کیں اور یہ شرائط تمام بڑے فقہاء و مجتہدین میں موجود تھیں، آپ فرمائیں ان میں سے میں سے کونسی ایسی شرط ہے جو فضول اور بلاوجہ ہے، اس میں سے ہر شرط یا صفت ایسی ہے جس سے مسئلہ کی تحقیق پر اثر پڑ سکتا ہے۔۔
یہ بات درست ہے کہ موجود دور میں ان تمام شرائط کا ایک شخص میں پایا جانا مشکل ہے، اب اس بنیاد پر انکا شرائط کا ہی انکار کردینا کہ یہ اجتہاد کے راستے میں فلسفہ حرکت کی راہ میں رکاوٹ ہیں' ٹھیک نہیں، علماء کے ہاں بھی اس بنیاد پر اجتہاد کا دروازہ بند کیا گیا نا اس کمی کی وجہ سے اجتہاد کرنے سے ہی گبھی روکا گیا، بلکہ ایسی صورتحال میں ”شخصی رائے “کی کمی کو جماعت کی آراء سے پورا کرنے کے لیے شورائی اجتہادکے اہتمام کی تلقین کی گئی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جدید مسائل میں انفرادی رائے کی بجائے ”فقہاوعابدین“سے مشورہ کیا جائے ” (کنزالعمال حدیث نمبر: ۴۱۸۸)۔ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی فقیہہ الامت ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا د کی جما عت تشکیل تھی، علامہ اقبال کے اجتہاد متعلق نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو وہ بھی جگہ جگہ شورائی اجتہاد کی تلقین ہی کرتے نظر آتے ہیں۔
آپ نے سود، انشورنس وغیرہ کے متعلق اشارہ کیا، بالکل یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ سود پر تو نص قطعی موجود ہے پھر اس پر اجتہاد کیسا ؟ اس متعلق عرض ہے کہ سود کے متعلق جو اجتہاد کیا جارہا ہے وہ اس بات پر نہیں کہ سود حرام ہے یا حلال، بلکہ اس کی موجودہ نئی شکلوں پر تحقیقات کی جارہی ہے اور شریعت کے اس متعلق دیے گئے احکامات کی روشنی میں انکی جائز تشریح اور جائز متبادل کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ یہی بات ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ بھی فرمایا کرتے تھے اور مفتی تقی عثمانی صاحب کی بھی ساری محنتیں اس میدان میں اسی لیے ہیں کہ بجائے کیپٹل الزم کو ہی اپنا لینے کے ، ہم اجتہاد کی راہ سے اپنا معاشی نظام ایسا کیوں نہ بنائیں جو ہمیں سود میں ملوث ہونے سے بھی بچائے اور جدید دور کی انسانی ضروریات کو بھی اچھے طریقے سے بورا کرے۔

مبشریات نے لکھا ہے کہ

بہت زبردست تحریر ہے ماشاء اللہ۔۔۔۔اللہم زد فزد

Unknown نے لکھا ہے کہ

شکریہ مبشر بهائی. نوازش

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔