جمعہ، 29 نومبر، 2013

عقیدہ حیات و نزول عیسی علیہ السلام قرآن کی روشنی میں

قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ 'اللہ نےانہیں اپنی طرف بلند کردیا 'وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ انکے درجات بلند کردیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلند ی کا یہ فیدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے، عیسی پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکی قبر کشمیر میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک محبوط الحواس بھینگے میٹرک فیل دجال و کذاب مرزاقادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔۔یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی پیشی کیساتھ غامدی صاحب کا بھی ہے ، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتے ہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے انکا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیااور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ غامدی اور قادیانی دونوں آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“سے ”موت“مراد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اس آیت کی تشریح کرنے والی متواترصحیح احادیث اور جید صحابہ کےاقوال کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ قادیانی انہی احادیث سے مسیح علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونےکا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرز ا قادیانی نے تو محض عیسی علیہ السلام کی سیٹ خالی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے عیسی کی وفات کا عقیدہ اور اسکی قبر کے قصے گھڑے، اسکی کذب، چال بازیوں ، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہوچکی ہے، آج ہم غامدی صاحب کی  اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ انکی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں ۔
" سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ انکی روح قبض کی گئی اور اسکے فورا بعد انکا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تاکہ یہود اسکی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک انکے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔ اس میں دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور "رفع" اسکے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے "۔( ماہنامہ اشراق، اپریل 1995، صفحہ 45) ایک اور جگہ لکھتے ہیں :حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے انکی روح ہی قبض نہیں کی انکا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اسکی توہین کرے۔"(اشراق جولائی 1994، صفحہ 32) 

القرآن یفسّر بعضہ بعضاً :۔

 قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور انکے شاگردوں کی تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ہم انکی پسند کے مطابق انکے اس عقیدہ کی بنیاد سورۃ ال عمران کی اس آیت کی ’’القرآن یفسّر بعضہ بعضاً (قرآن کے کچھ حصّوں کی قرآن کی دوسرے حصّے تفسیر کرتے ہیں) کےتحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات انکی (غامدی صاحب) اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث اور صحابہ و علمائے امت کا اجماع قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے؟
مسئلہ حیات عیسی اور قرآن:۔
 غامدی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے و مکرو ا و مکراللہ۔ واللہ خیر المکرین۔ اور ان کافروں نے (عیسی علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی صاحب ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں ' کی وضاحت سورۃ النساء آیت 157 یوں کرتی ہے :

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6)

ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158)
 آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ " بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف"۔ یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے'الیہ' یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔
 لفظ' توفی' کی قرآن سے وضاحت:.
منکر حدیث، قادیانی اور غامدی آیت ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“ سے مطلق ”موت“مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئےتھے۔ ۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ کی ہی رہی'۔ لفظ'توفی' کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔

1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ) الزمر 42 پارہ 24(

ترجمہ : اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں ، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔
 اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”توفی“بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ ”توفی“موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہےتو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور”حِينَ مَوْتِهَا “کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”توفی“ موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو "توفی" دیتا ہےاور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام "توفی" کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔

2. وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ الخ (الانعام 60 پارہ 7 )

ترجمہ:وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اس مقام پر بھی ”توفی“موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ۔ 
اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔

3. حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ الخ (النساء15 پارہ 4)

ترجمہ : یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔
 اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ 'موت' لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ ”توفی “ کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ ”توفی “سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ الخ ( السجدة 11 پارہ 21)

ترجمہ : تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے ”توفی “سے مرادموت لی جائے گی ۔
اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ نبی علیہ السلام کے لیے انک میت وانہم میتون، افائن مت فہم الخالدون اسی طرح سلیمان علیہ السلام فلما قضینا علیہ الموت ما دلھم علی موتہ ۔ ۔ جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہےجہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی صاحب کے عقیدہ کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔
 غامدی صاحب محض ایک ذومعنی لفظ کی بنیاد پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں پھر جسم اوپر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی اشارہ نظر آتا ہے تو لاش کو بھی آسمانوں پر اٹھانے لینے کی وجہ گھڑ لیتے ہیں کہ جی سرپھری قوم کہیں اسکی توہین نہ کریں اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ ۔ شاید انکے علم میں نہیں کہ یہود نے زکریا ، یحیی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے ہزاروں نبی کس بے دردی سے شہید کیے تھے ، حیرت ہے اس اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا ؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کر عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ نے اسکو ناکام بناتے ہوئے عیسی کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھالیا۔ غامدی صاحب نے اپنے تفرد میں اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔
مسئلہ نزول عیسی اور قرآن:۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں : " ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہوسکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے"۔ (میزان، ص 178، طبع سوئم ) غامدی صاحب نے لفظ توفی سے حیات عیسی کے انکار کا عقیدہ تیار کیا پھر اس عقیدہ کے دفاع میں نا صرف انہیں اس متعلق تمام احادیث کا انکار کرنا پڑا اور ساری امت کی مخالفت کرنی پڑی بلکہ نزول عیسی کا منکر بھی ہونا پڑا۔اپنے نزول عیسی کے انکار کے عقیدہ کی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس متعلق قرآن میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ۔ ۔ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ جب تمہاری تحقیق کے مطابق قرآن نزول عیسی کے حق یا خلاف میں کچھ نہیں بتا رہا تو پھر تم صحیح احادیث کو کیوں رد کررہے ہو؟۔ یہاں تمہارے پاس کونسی نص قطعی ہے جسکی ان احادیث کو صحیح مان لینے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ؟ پرویز ی تو چلیں حدیث کے صریح منکر ہیں وہ ایسا عقیدہ رکھ بھی سکتے ہیں تم تو اپنی کتابوں اور سائیٹس پر" قرآن و سنت کی روشنی میں " کے الفاظ سجا سجا کر لکھتے ہو ۔! اس سنت سے کس کی سنت مراد ہے؟ جب تمہیں اتنی متواتر اور صحیح احادیث قبول نہیں اور صرف قرآن ہی تمہاری ساری شریعت کا ماخذ ہے تو پھر اس سنت کے لفظ کوقرآن کے ساتھ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے تاکہ لوگوں کا واضح پتا چل جائے کہ یہ بھی اہل قرآن ( منکر حدیث ) ہیں۔۔پھر تمہیں ان لوگوں پر اعتراض کیوں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر صرف اسی صحیح یا ضعیف حدیث کو مانتا ہے جو انکی بات کی تائید کرتی ہو یا جس سے انکو اپنے موقف کی دلیل مل سکتی ہو، اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں بھی صحیح سے صحیح حدیث کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔!! حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔

وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔

اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ۔) سورۃ الزخرف آیت 61(

اور یقین رکھو کہ وہ (عیسی علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟

’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الخ النساء 158

اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے،۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے۔"(البحر المحیط ج 3 ص 392) (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)
غامدی مکتبہ فکر عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہے۔ اگر انکے اس عقیدہ کے عیسی علیہ السلام کو مردہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا کو صحیح بھی مان لیا جائے تو سوال یہ  ہے کہ اگر انکے عقیدہ کے مطابق واقعی عیسی علیہ اسلام کی لاش آسمانوں پر اٹھائی گئی ہے تو وہ دنیا میں کب آئے گی ؟ حشر کا میدان تو زمین پر لگے گا، اس دن خاتم الانبیاء سمیت سب انسان اپنی انہی قبروں سے اٹھیں گے، کیا عیسی آسماں پر زندہ کیے جائیں گے اور اللہ اور فرشتوں کیساتھ آسمان سے نازل ہوں گے ؟؟؟ قرآن میں اسکی تصریح یا اشارہ کہاں ہے؟ عقیدہ حیات و نزول عیسی کو عیسائیوں سے درآمد شدہ کہنے والے خود ناصرف حیات عیسی کے متعلق نصاری کے عقیدہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ انہیں الوہیت عیسی کےبھرپور دلائل بھی فراہم کررہے ہیں۔'سکالر اسلام 'کی دورخی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف صاحب پرانے صحائف میں موسیقی کے تذکرے کی آیات کی تصدیق قرآن میں موجود داؤد علیہ السلام کے زبور پڑھنے کی آیات سے کرتے ہیں اور انہیں قرآن سے موسیقی کا اشارہ کہتے اور پرانے صحائف میں موجود موسیقی کے متعلق آیات کو انکی وضاحت کہہ کر موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں، دوسری طرف نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن میں موجود واضح دلائل کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :’’اورجب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہاہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار!کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی۲۴ :۳۔۵)
 اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ۔
منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے :۔
ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے ذیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ نے قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انتظام کیا ، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ مرزا قادیانی چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔ خطرہ کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب قادیانیوں، پرویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی، جدت پسندی اور تفرد کی وجہ سے نہ صرف خود کفر کی طرف جارہے ہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو  بھی اپنے ساتھ لیے جارہے ہیں ۔ ۔ ۔

66 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے کہ

اللہ سبحانہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر دے۔ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اور نزول سے متعلق تمام احادیث سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو قرآنی آیات ہی نزول عیسیٰ علیہ السلام کی صاف صاف گواہی دے رہی ہیں۔ خاص طور پر پر سورۃ زخرف اور سورۃ النساء کی آیات مبارکہ صاف طور پر نزول عیسیٰ علیہ السلام پر دال ہیں۔
کاش غامدیوں کو اللہ عقل سلیم عطا فرمائے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ ۔ اچھی وضاحت فرمائی ہے آپ نے۔
موسمی خود پسند اور خود ساختہ عالم تو ٹر ٹراتے ہی رہیں گے۔
جو شئے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
حشام احمد سید

فاروق درویش نے لکھا ہے کہ

جو عیار و مکار مغربی کٹھ پتلا خود کو مہدی ہونے کے ساتھ ساتھ ٹو ان ون بنکر مسیح علیہ السلام ہونے کا دعویِ کاذب کرے اور اپنی کتاب کشتیِ نوح ۔۔۔ ص ۶۸ ۔ ۶۹۔۔۔ میں لکھے کہ میں خود مریم بنا رہا اور مریمیت کی صفات کے ساتھ نشو و نما پاتا رہا اور جب دو برس گزر گئے تو دعوی نمبر عیسیٰ کی روح میرے پیٹ میں پھونکی گئی اور استعاراً میں حاملہ ہو گیا اور پھر دس ماہ لیکن اس سے کم مجھے الہام سے عیسیٰ بنا دیا گیا ۔۔۔اس دجالی فتنہ گر کے زندیق حواری کیا مانیں گے ۔۔اللہ سبحان تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔

فاروق درویش نے لکھا ہے کہ

برادر آپ اجازات دیں تو آپ کی یہ تحریر آپ کے نام سے اپنے بلاگ اور دوسری سائیٹس پر شائع کرنا چاہوں گا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ


فاروق درویش @ ضرور ، میرا بلاگ پر لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے ۔ حق کی بات کی اشاعت ہو اور ذیادہ سے ذیادہ ہو، اللہ آپ کو جزا دے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

.Please send your email address to me at : heshamasyedapd@gmail.com

Unknown نے لکھا ہے کہ

ایک اور سوال اٹھتا ہے نزول کے حوالہ سے کے عیسیٰؑ شریعت محمدیہ کی پیروی کرینگے تو آپ آکر جزیہ کو کیسے ختم کرسکتے ہیں۔ذیادہ سے ذیادہ آپ نصاری سے جزیہ لے سکتے تھے جو قرآن نے بیان کیا ہے لیکن آپ تو گردن ہی اتارینگے سب کی۔کیا یہ قرآن کی صریح مخالفت نہیں؟یا کہیں قرآن نے عیسی ٰ ؑ کے وقت کا بیان کیا ہے کہ انکو استثنا حاصل ہوگا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

یہ سوال بہرحال ویلڈ ہے کہ قرآن قیامت سے قبل کے واقعات بیان کر رہا ہے۔پیشگوئیوں کا ذکر کر رہا ہے لیکن نزول مسیح کے حوالہ سے خاموش ہے۔پھر امام مالک کا جامعہ العتبیہ میں عیسی ؑ حوالہ سے مؤقف بیان کیا گیا ہے کہ قال مالک مات۔ بظاہر لگتا تو یہی ہے کہ وہ بھی وفات کے قائل تھے۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

حنان طاہر صاحب یہاں صرف قرآن سے عیسی علیہ السلام کے مسئلہ پر بات چیت کی اجازت ہے، یہ فرقہ باطلہ کا طریقہ بحث ہے کہ انکے سامنے احادیث پیش کی جائیں تو وہ قرآن کی آیات اٹھا لاتے ہیں، اور قرآن کی آیات پیش کی جائیں تو احادیث سے اپنی مرضی کی تاویلات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں ، ہم نے قرآن سے بات کی ہے اس لیے آپ بھی قرآن سے ہی بات کریں۔ آپ نے جو دو اشکالات پیش کیے میں ان کے جوابات دے دیتا ہوں۔

عیسی علیہ السلام کے دور میں باقی تمام مذاہب دنیا سے ختم ہوجائیں گے، یہودیت تو دجال کیساتھ ختم ہوجائے گی، عیسائی جیسا کہ اوپر قرآن کی آیت بیان کررہی ہے وہ ایمان لے آئیں گے ، اب جب دنیا میں کافر ہی نہیں رہیں گے تو عیسی جزیہ کس سے لیں، جزیہ کے ختم ہونے سے یہ مراد ہے۔

آپ کا دوسرا اشکال آپ نے امام مالک کی کتاب کا نامکمل حوالہ دے کر انکا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اسکو مکمل پیش کریں، ہم پھر اس بھی بات کرلیں گے ۔ امام مالک کا عقیدہ کیا تھا، العتیبہ سے ہی پیش کرتا ہوں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کسی نوجوان سے ملتے تو اس فرمایا کرتے تھے کہ بھتیجے : شاید تم عیسی بن مریم علیہ السلام سے ملو تو آپ کی خدمت میں میرا سلام کہہ دینا۔ (حوالہ بالا، جلد 1، صفحہ 265)
امام مالک " العتیبہ " میں دوسری جگہ فرماتے ہیں :
دریں اثنا کہ لوگ کھڑے نماز کی اقامت سن رہے ہوں گے ، اتنے میں انکو ایک بدلی ڈھانک لے گی ، کیا دیکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نازل ہوچکے ہیں"(شرح مسلم للابی جلد 1، ص: 266)
اس کے علاوہ امام مالک میں موطا ص 368 پر ایک باب قائم کیا ہے : صفۃ عیسی بن مریم و الدجال"اور اس میں عیسی علیہ السلام اور دجال دونوں کے حلیے کی حدیث نقل کی ہے ، ٹھیک وہی حلیہ ہے جو بوقت خروج دجال کا اور بوقت نزول حضرت عیسی علیہ السلام کا احادیث طیبہ میں بیان کیا گیا ہے، ان سب باتوں سے واضح ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو پوری امت کا کہ آخری زمانہ میں دجال نکلے گا تو اسکو قتل کرنے کے لیے عیسی علیہ السلام نازل ہونگے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جناب جزاک اللہ آپ نے امام مالک کے حوالہ سے جو بات بیان کی ہے اس کے حوالہ تو عنایت فرمائیے کہ جدھر انہوں نے اپنا نزول مسیح کا مؤقف بیان کیا ہے۔یہ حوالے تو مہربانی فرماکر پیش فرما دیں۔خواہ لنک ہی دے دیں۔
جہاں تک میں نے امام مالک کا مؤقف بیان کیا ہے وہ تفسیر التحریر والتنویر سے بیان کیا ہے
۔ابن عباس ، ووهب بن منبه : إنها وفاة موت وهو ظاهر قول مالك في جامع العتبية قال مالك : مات عيسى وهو ابن إحدى وثلاثين سنة
یہ لنک بھی پیش خدمت ہے
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=61&ID=397

Unknown نے لکھا ہے کہ

توفی کا لغوی معنی پورا پورا لے لینا ہے مگر یہ فعل ان افعال میں سے ہے جو اصلا مجازی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اردو میں انتقال کا لفظ جب کسی انسان کے لیے بولا جائے گا تو اس سے مراد اس کا مر جانا ہے۔ لہذا بولنے اور لکھنے والے جب انسانوں کے لیے اس لفظ کو کسی دوسرے معنی میں استعمال کریں گے تو کلام میں ایسے واضح قرائن لاتےہیں جن سے اس کا مدعا واضح ہو۔ اسی طرح توفی کا فعل موت کے لیے ایسا معروف ہے کہ اسے لغوی معنی میں لینا بعید از قیاس ہے۔ اگر ہم کسی کلام میں یہ کہتے ہیں کہ یہ لغوی معنی میں آیا ہے تو اس کے دلائل لانا پڑیں گے۔

دلائل سے مراد یہ ہے کہ کلام اپنے اندر ایسے وہ اشارات رکھتا ہو جو لفظ کو اس کے مجازی کے بجائے لغوی معنی لینے پر مجبور کر دے ۔ مثلا عبداللہ صاحب لاہور سے کراچی انتقال کر گئے ہیں اور یہ جملہ بھی اصل میں سنجیدہ جملہ نہیں ہے ایسی بات شرارت کے طورکہی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نہ ہوتیں تو اس آیت کا وفات کے علاوہ کوئی مطلب نہ کیا جاتا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

ابن جریر نے درج ذیل آرا نقل کی ہیں:
نیند طاری کر دینا مراد ہے اور اسی نیند کی حالت میں اوپر اٹھا لیا گیا۔
قبض کر لینا معنی ہیں، لیکن اس سے موت مراد نہیں ہے۔ یہ اس معنی میں ہے، جیسے زمین سے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑ کر اٹھا لیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی راے میں توفی اور رفع مترادف استعمال ہوئے ہیں۔
ابن عباس کی راے انھوں نے یہ نقل کی ہے کہ 'مُتَوَفِّيْكَ' کے معنی 'مُمِيْتكَ' کے ہیں۔ بعض کی راے یہ ہے کہ یہ وفات تین ساعت کے لیے ہوئی تھی اور بعض کی راے میں سات ساعت کے لیے وفات ہوئی تھی اور اس کے بعد زندہ کرکے آپ کو اوپر اٹھا لیا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کی راے یہ ہے کہ 'مُتَوَفِّيْكَ' کا عمل حضرت عیسیٰ کے دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد ہو گا۔ ابھی رفع کا عمل ہوا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس آیت کے ایک ہی معنی کیے گئے ہیں۔ قدیم سے اس کے بارے میں مختلف آرا رہی ہیں۔ ابن جریر تیسری صدی ہجری کے مصنف ہیں۔ ان کے زمانے میں علما یہ سب معنی بیان کر رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ قبول عام قبض کر لینے کے معنی کو حاصل ہوا ہے۔
توفی کا لفظ اردو کے لفظ انتقال کی طرح فرد کے لیے وفات دینے ہی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کی مختلف توجیہات کرنی پڑی ہیں۔ ان توجیہات کی ضرورت صرف اس لیے پیش آرہی ہے کہ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر بعض روایات میں دی گئی ہے۔


Unknown نے لکھا ہے کہ

حنان صاحب میں نے امام مالك رحمه الله كی موطا اور العتیبہ كا شرح مسلم للابی سے مكمل حوالہ دیا ہوا ہے۔ نیٹ سے اسکا لنک ڈھونڈنے کے لیے ٹائم چاہیے ہوگا۔ فی الحال معذرت ۔ ویسے آپ نے امام مالک کا جو حوالہ پیش کیا ہے " ابن عباس ، ووهب بن منبه : إنها وفاة موت وهو ظاهر قول مالك في جامع العتبية قال مالك : مات عيسى وهو ابن إحدى وثلاثين سنة " اگر آپ اسکا کسی سے ترجمہ کروالیں تو میرا خیال ہے آپ کو میرے حوالوں کی حقیقت چیک کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ یہی بات صاحب تفسیر آگے ابن رشد کے حوالے سے بھی بیان کررہے ہیں کہ " قال ابن رشد في البيان والتحصيل : يحتمل أن قوله : مات وهو ابن ثلاث وثلاثين على الحقيقة لا على المجاز . "
باقی آپ نے المورد سے غامدی صاحب کے شاگرد طالب محسن صاحب کی تحریروں سے جو اقتباس پیش کیے ہیں ۔میں نے اصل میں ان سب کو پڑھنے کے بعد اپنی تحریر لکھی تھی اس لیے یہ میری نظر میں ہے ۔ ان پر تبصرہ کرنے سے پہلے طالب محسن کا تذکرہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ میں آپ کی علمی کمزوری بیان کرنے کے بجائے جس نے یہ تحریر لکھی ہے اسکی علمی و اخلاقی کمزوری بیان کرنا چاہ رہا ہوں۔ آپ نے جو پہلا حوالہ پیش کیا اس کے متعلق صرف اتنا عرض کروں گا کہ شاید آپ نے میری اوپر تحریر پوری نہیں پڑھی ورنہ آپ کو اسے پیش کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ میں نے اپنی تحریر میں لفظ توفی پر حدیث سے نہیں بلکہ قرآن سے بحث کی ہوئی ہے ۔ طالب محسن صاحب بھی اسکو پڑھ لیں تو انہیں سمجھ آجائے گی کہ توفی کا مطلب حدیث سے پورا پورا لے لینا نہیں لیا جارہا ہے بلکہ قرآن اس معنی کی خود گواہی دے رہا ہے اورقرآن یہ بھی بتا رہا ہے کہ توفی مجازی معنی میں قرآن کب لیتا ہےا ور حقیقی معنی میں کب ۔
دوسری طالب محسن صاحب نے ابن جریر کے حوالے سے جو رائے نقل کی ہیں ان میں ایک ہی رائے ہمارے موقف کے خلاف لگتی ہے وہ ہے ابن عباس رحمہ اللہ کی رائے ۔ باقی سب باتوں کا ایک ہی مطلب ہے وہ یہ ہے کہ عیسی زندہ ہیں اور قیامت کے قریب انکا نزول ہوگا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے اور باقی کی رائے میں فرق یہ ہے کہ باقی نے توفی کے لغوی اور اصطلاحی معنی سے اس کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رافعک اور متوفیک کے الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے اسکو بیان کیا ہے، یہ حوالہ غامدی صاحب کے مکتبہ فکر کے لوگ بیان کررہے ہیں حالانکہ ابن عباس ہی کی کی گئی تفسیر وہ واحد تفسیر ہے جو اس غلطی فہمی کا ازالہ کررہی ہے جو غامدی صاحب کو لگی ہوئی ہے کہ متوفیک کا لفظ پہلے اور رافعک کا بعد میں اس لیے پہلے وفات دی پھر اٹھا لیا ۔ اگر وہ خود انکا مکمل موقف ملاحظہ فرمائیں توابن عباس کا یہ حوالہ خود انکی اپنی اصلاح کے لیے کافی ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متوفیک کا معنی موت دینا منقول ہے، اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ توفی کے معنی موت ہی کے ہیں مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے۔ رافعک کا پہلے اور متوفیک کا وقوع بعد میں ہوگا اور اس موقع پر متوفیک کو مقدم ذکرکرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے آنے والا ہے ، یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لیے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر آپ اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے اور بعد میں طبعی طور پر آپ کو موت واقع ہوگی ، اسی میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی ہے۔ عیسی علیہ السلام کے آسمان پر زندہ چلے جانے سے انکا یہ عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کی طرح حی القیوم ہے اس لیے اللہ نے متوقیک کو پہلے ذکر کر کے ان تمام خیالات کا ابطال کردیا اور پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا۔امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ یہ تقدیم وتاخیر قرآن میں اسی مصالح کے ماتحت بکثر ت آئی ہے کہ جو واقعہ بعد میں ہونے والا تھا اسکو پہلے اور پہلے ہونیوالے واقعہ کو بعد میں بیان فرمایا۔(تفسیر کبیر، ص 481۔ جلد2)
اسی لیے حضرت ابن عباس ہی سے صحیح سند کے ساتھ آیت کے یہ معنی بھی منقول ہیں کہ حق تعالی نے اس وقت جب کہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لیے دو لفظ ارشاد فرمائے ، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی ، دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگو ں کے نرغہ سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھا لیں گے ۔ وہ در منثور میں یہ تفسیر اس طرح منقول ہے۔
" اسحق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت انی متوفیک و رافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کیے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور پھر آخری زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا۔(درمنثور ص 36، جلد 2)
ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن عباس اردو کے اس آیت کے پیجز
http://hafiz.minus.com/mNHoOIWZjVcm3

Unknown نے لکھا ہے کہ

اس مسئلہ پر کافی تفصیل پیش کی جاسکتی ہے لیکن میں فی الحال وقت کی کمی کی وجہ سے لکھنے سے قاصر ہوں۔ اگر آپ اس تفصیل کو ملاحظہ فرمانا چاہتے ہیں تو تفسیر معارف القرآن سے ان آیات میں کی گئی اس مسئلہ پر بحث کا لنک پیش کررہا ہوں۔ آپ انکو ملاحظہ فرمالیں۔
تفسیر معارف القرآن
http://hafiz.minus.com/mcaMUIOju2XRy
یہ پیجز ڈیسینڈنگ آرڈر میں ہیں آپ کو آخر سے اوپر کی طرف پڑھنی پڑیں گیں۔
آپ طالب محسن صاحب کی سینہ زوری ملاحظہ فرمائیں کہ صرف ایک حوالہ اپنی طرف سے ایسا دیا جس میں توفی انکے نزدیک قبض کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ بھی حقیقت میں ایسا نہیں ہے جیسا وہ لکھ رہے ہیں ' پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ "یہ بات درست ہے کہ قبول عام قبض کر لینے کے معنی کو حاصل ہوا ہے۔" معلوم نہیں یہ قبول عام کہا حاصل ہوا ہے؟
آگے فرماتے ہیں توفی کی مختلف "توجیہات کی ضرورت صرف اس لیے پیش آرہی ہے کہ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر بعض روایات میں دی گئی ہے۔" محسن صاحب فرما رہے ہیں کہ توفی کا مطلب تو ایک ہی تھا یہ توجیہات یا تاویلات لوگوں کو حدیث کی وجہ سے کرنی پڑی ہیں، دوسرے لفظوں میں لوگوں کو حدیث کے دفاع میں حقیقت کا انکار کرنا پڑا۔ نعوذ بااللہ
اوپر خود ہی لکھا کہ " اگر ہم کسی کلام میں یہ کہتے ہیں کہ یہ لغوی معنی میں آیا ہے تو اس کے دلائل لانا پڑیں گے۔" اور اب خود کیا دلائل دیے اور ان کی بنیاد پر کیا بہتان لگایا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں ، قادیانیوں اور پرویزیوں کے علاوہ تاریخ میں کوئی ایسا نہیں گزرا جس نے عیسی علیہ السلام کی حیات کا انکار کیا ہو، ہر دور میں ساری امت کا اس عقیدہ پر اجماع چلا آرہا ہے۔ غامدی صاحب نے محض اپنے تفرد میں ایک لفظ متوفیک کے ظاہری معنی مراد لیے ہیں اور اب انکے یہ شاگرد حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے مکھی پر مکھی جارہے اور اسکے لیے تاویلات گھڑتے اور جھوٹ بولے جارہے ہیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ آپ نے تفصیل سے بات بیان کی اور یقیناً میرا علم بہت کمزور ہے اور حد درجہ تک فی الوقت محدود ہے۔میں نے محسن صاحب کے دو اقتباس اس لیئے نقل کی تھے تا صرف یہ بات کی حقیقت جان سکوں کے قرآن میں بیان کردہ آل عمرآن کی اس آیت میں توفی کے لفظ پر اجماع ہے کہ نہیں۔جو یقیناً واضح ہوگیا ہے کہ نہیں ہے کیونکہ کوئی توفی سے موت ہی لیتا ہے جیسے وهب بن منبه : توفاه الله ثلاث ساعات۔پھر کچھ لوگ مزید وقت بڑھا کر موت ہی کے معنی میں لیتے ہیں جیسے وقال بعضهم : توفي سبع ساعات۔ جس سے یہ مقدمہ تو ثابت ہے کہ توفی کا لفظ موت کے معنوں میں ہی لیا جاسکتا ہے اور لیا گیا بھی ہے اور بیشک بعض نے پورا پورا لینے کے حوالہ سے بھی لیا۔ادھر موت کے معنی کیئے جاسکتے ہیں مختصرا بات میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔اور کیا طالب صاحب کی یہ بات غلط ہے کہ قدیم سے اس کے بارے میں مختلف آرا رہی ہیں؟
آنحضور ؐ کے لیئے لفظ نتوفینک میں کونسا قرینہ موت کا ساتھ بیان ہوا ہے؟میرے نذدیک تو متوفیک اور نتوفینک میں دونوں جگہ کوئی قرینہ بیان نہیں ہوا جو موت کے علاوہ کسی اور معنی میں لیا جاسکے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

محترم اس ذہنی الجھن کو بھی جواب دیکر دور فرما دیں کہ قرآن قیامت تک کے واقعات کو بیان کرتا ہے۔زمین و آسمان کی حالت کیا ہوگی،جبال ریزہ ریزہ ہوجائینگے۔ وحشی جانور اکٹھے ہو جائنگے۔لیکن مسیح ؑ کے نزول کے تذکرہ سے کیوں خالی ہے؟آخر ایک عظیم الشان پیغمبر کی اس دنیا میں دوبارہ زمین پر عدالت و دینونت کو بیان نہیں کیا حالانکہ عیسی ؑ کا بیشمار جگہ تذکرہ ہوتا ہے اور اللہ پورا پروگرام بھی بیان کرتے ہیں۔ گو کہ صرف یہ عقلی استدلال ہئ لیکن ہے تو بہرحال ویلڈ اور علم کے ذہن میں ضرور اٹھتا ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

ایک اس بات کا بھی جواب بیان کردیں کہ سورۃ المائدۃ میں جو مسیح ؑ کا قیامت کے روز مکالمہ نقل ہے اس کا یہ جواب کیسے درست بن سکتا ہے کہ مجھے شرک کا پتہ نہیں چلا میرے بعد ہی پھیلا ہے حالانکہ نزول فرما کر آپ ؑ انکی تصیح اور اتمام حجت کرچکے تھے اور خدا کی عدالت آپ لگا چکے تھے۔؟
ادھر ویسے توفیتنی کا معنی موت لینگے یا پھر جسم سمیت آسمان پر اوپر اٹھانا؟کیونکہ مکالمہ تو بہرحال قیامت کا نقل ہے تو عیسیٰ کے آنیکے بعد دوبارہ آسمان پر صعود تو شاید کسی روایت میں بھی نہیں ہے۔بہرحال جو بھی صورت ہو لیکن مسیح کا جواب حیرت میں ضرور ڈالتا ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں اور میں ان پر اس وقت تک نگران تھا جب تک میں ان میں موجود رہا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ


بھائی آپ اپنی مرضی سے ایک بات پر اجماع ثابت کررہے ہیں " یہ مقدمہ ثابت ہے کہتوفی سے موت ہی مراد ہی لیا جاسکتا ہے اور لیا گیا ہے بعض نے پورا پورا لینا مراد لی ہے"، حالانکہ حقیقت بالکل الٹ ہے ،جو بعض موت مراد لے رہے ہیں آپ ان سب کی تفصیل پیش کردیں تو حقیقت واضح ہوجائے گی کہ وہ کون ہیں اور کتنے لوگ ہیں۔ابن اسحاق اور وہب بن منبہ نے عیسی کا تین ساعت یا تین دن مردہ رہ کر زندہ ہونے کا قول نقل کیا ہے یہ قول خود ضعیف ہے اور اس وجہ سے توجیہ میں بھی ضعف ہے اس لیے علمائے امت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ یہ ان بعضھہم کے حقیقت ہے جن کی بنیاد پر توفی کو ذیادہ تر موت کے معنی میں لینا ثابت کیا جارہا ہے ۔ چودہ سو سال کے سارے بڑے مفسرین اسکو پورا پورا لینے کے معنی میں لیتے آرہے ہیں، پھر بھی آپ فرما رہے ہیں کہ بعض پورا پورا لینا مراد لے رہے ہیں ذیادہ تر موت ہی مراد لے رہے ہیں ۔ یہ تو سینہ زوری والی بات ہوگئی ۔ یہاں ایک اور بات مجھے عجیب لگ رہی ہے کہ ایک طرف آپ رفع، حیات و نزول مسیح کے مسئلہ میں صحیح اور متواتر احادیث کو اہمیت نہیں دے رہے دوسری طرف توفی کے معنی میں علماء کی رائے پر اعتبار کررہے ہیں اور اجماع کو دیکھنا چاہ رہے ہیں ۔!!! حالانکہ حدیث وہ بھی متواتر صحیح احادیث اقوال صحابہ و علماء سے ذیادہ حیثیت رکھتی ہیں۔ ۔ !!اس سے ہم پھر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر کے لوگ اپنی پسند کی جگہ پر کسی کم درجہ کے قول کو بھی اہمیت دے دیتے ہیں اور جہاں بات مرضی کی نہ ہو بڑھیا سے بڑھیا دلیل کو بھی اہمیت نہیں دیتے ۔ !! آپ لوگ حدیث کی بات کو صحیح تسلیم کرلیں تو یہ لفظوں کی ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔
میں بات کی طرف واپس آتا ہوں حدیث کی وضاحت ، اقوال صحابہ و مفسرین کے علاوہ خود قرآن توفی کے معنی صرف موت لینے کی مخالفت کررہا ہے۔ جیسا کہ اوپر تحریر میں میں نے تین مثالیں دیں جہاں توفی کا ذکر ہے ، ان میں واضح ہے کہ وہاں اسکا معنی موت کسی صورت میں نہیں لیا جاسکتا ۔اب آپ توفی کا معنی موت ہی کے معنی میں ذیادہ تر لینے کا دعوی کرتے ہیں تو قرآن تو ذیادہ تر اسے پورا پورا لینے کے معنی میں لے رہا ہے۔آپ اس نظر سے قرآن میں سرچ کرسکتے ہیں۔ صرف وہاں توفی سے موت مراد لی گئی ہے وہاں اسکا اشارہ، قرینہ ضرور موجود ہیں، قرینہ کی دومثالیں تو میں نے اوپر ذکر کی ہے ، آپ نے اس آیت کے متعلق پوچھا ہے ۔
وَإِن مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ.
اور جس بات کی دھمکی ہم ان (کافروں) کو دیتے ہیں، چاہے اس کا کوئی حصہ ہم تمہیں (تمہاری زندگی ہی میں ) دکھادیں ، یا (اس سے پہلے ہی) تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ، بہرحال تمہارے ذمے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینے کی ذمہ داری ہماری ہے۔
اس آیت میں کفار پر عذاب کی دو صورتوں کی طرف اشارہ ہے اول یہ کہ یا تو اے نبی ہم آپکو وہ عذاب آپکی زندگی میں ہی دکھا دیں یا اس سے پہلے آپ کو دنیا سے اٹھا لیں اور آپ اس کو نا دیکھ سکیں۔ اب لازما اس زندگی میں دکھانے والی بات کے مد مقابل جو نتوفینک ہے اس سے موت مراد ہو گی کیوں کہ اس میں عذاب کا نہ دیکھناموت ہی کی صورت میں ہوگا۔ آسان الفاظ میں یہاں نرینک قریبی اور زندگی کا قرینہ ہے اس کے مقابل میں لفظ نتوفینک بعید کا قرینہ آرہا ہے اس لیے مطلب موت ہی لیا جائے گا۔امید ہے آپ کو بات سمجھ آگئی ہوگی۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

حنان صاحب عیسی علیہ السلام کے نزول کے متعلق قرآن میں اشارے کافی موجود ہیں، مثلا کہولت کی عمر میں کلام کرنا، اس طرح رفع کی آیات میں بھی اشارہ موجود ہ، ان کے علاوہ جن آیات کو خصوصی طور پر مفسرین نے نزول کی دلیل کے طور پر لیا ہے انکا میں نے اوپر تحریر میں تذکرہ کیا ہوا ہے، شاید آپ نے تحریر سرسری ہی دیکھی تھی۔ ادھر بھی لکھ دیتا ہوں۔
یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)
اس آیت کے متعلق ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول یہی ہے اور مفسرین نے انہیں صحیح تسلیم کیا ہے۔اسی طرح دوسری آیت ہے
"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"(النساء 159)
اس کا یہ ترجمہ ابن عباس، ابن کثیر، ابن جریر ، ابن سیرین وغیرہ رحمہ اللہ نے ہی کیا ہے۔یہ آیات اس مقصد میں ظاہر الدلالۃ ہیں لیکن ساتھ نزول کے متعلق احادیث صحیحہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں اور تواتر مفید قطعیت ہے اس حیثیت سے یہ آیات بھی مفید قطعیت ہوں گی۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ نے جو آیت پیش کی ہے یہ آیت تو خود حیات و نزول عیسی کی گواہی دے رہی ہے۔ اس آیت میں توفی سے موت مراد لینا کسی طرح سے بھی صحیح نہیں ہے اس لیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دین کو پولوس نے بگاڑا ہے اور تاریخ کے مطابق اسکی وفات 60 ء میں ہوئی تھی۔ گویا 60ء تک دین مسیحی بگڑ کر مشرک مذہب بن چکا تھا ۔ معلوم ہوا عیسی علیہ السلام کی قوم کا شرک میں مبتلا ہونا انکی موت کے بعد نہیں بلکہ توفی یا رفع آسمانی کے بعد ہوا ہے۔ اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ میں انکے حالات کو اپنی موجودگی میں تو دیکھ رہا تھا ، لیکن جب آپ نے مجھے آسمان پر زندہ اٹھا لیا ، اس وقت وہ میری نگرانی سے خارج تھے اور آپ ہی ان پر نگہبان تھے۔ مفسرین نے بھی اسی طرح اس کو بیان فرمایا ہے۔سیدنا ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
“عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ: الٰہی! یہ تیرے بندے ہیں (مگر انہوں نے میری غیرحاضری میں مجھے خدا بنایا اس لئے) واقعی انہوں نے اپنے اس عقیدے کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنالیا ہے اور اگر آپ بخش دیں، یعنی ان لوگوں کوجن کو صحیح عقیدے پر چھوڑ کر گیا تھا اور (اسی طرح ان لوگوں کو بھی بخش دیں جنہوں نے اپنے عقیدہ سے رجوع کرلیا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر لمبی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخری زمانے میں دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے زمین کی طرف اتارے جائیں گے، تب عیسائی لوگ اپنے قول سے رجوع کرلیں گے، تو جن لوگوں نے اپنے قول سے رجوع کیا اور تیری توحید کے قائل ہوگئے اور اقرار کرلیا کہ ہم سب (بشمول عیسیٰ علیہ السلام کے) خدا کے بندے ہیں پس اگر آپ ان کو بخش دیں جبکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہے تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔” (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۳۵۰)

Unknown نے لکھا ہے کہ

آخر میں ایک اصولی بات کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دوبارہ تشریف آوری کا مسئلہ بالکل اختلافی یا نزاعی مسئلہ نہیں اور نا آج پہلی بار میرے اور آپ کے سامنے نہیں آیا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے لے کر آج تک یہ امتِ اسلامیہ کا متواتر اور قطعی عقیدہ چلا آتا ہے، امت کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہ رہا ہو، اور امت کے اکابر صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اس عقیدے کا قائل نہ ہو، (اسکی تفصیل آپ دیکھنا چاہیں تو مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی کتاب تحفہ قادیانیت جلد اول میں موجود ہے)، اسی بنیاد پر اس عقیدہ کے انکار پر کفر کا فتوی بھی موجود ہے۔ فتاوی شامی میں ہے" رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ متواتر احادیث سے ثابت ہے اجماع امت بھی اس کا مؤیّد ہے اور تواتر کا انکار کفر ہے۔ (فتاویٰ شامی، جلد ۴، ص۳۲۲)
جس طرح نمازوں کی تعداد رکعات قطعی ہے، اسی طرح اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور آمد کا عقیدہ بھی قطعی ہے، جیسا کہ میں تحریر میں ذکر کیا کہ اس کے متعلق جو احادیث آئی ہیں وہ نماز کے متعلق بیان کی گئی احادیث سے بھی ذیادہ ہیں۔ آپ کی انفارمیشن کے لیے یہ بھی عرض کردیتا ہوں کہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ۱۰۱ احادیث کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کا نام ہے’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ‘‘ اس کی تعلیقات شیخ ابو فتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے لکھی ہیں یہ کتاب ہندوستان، پاکستان، بیروت و غیرہ سے بار ہا شائع ہو چکی ہے نیز اسی سلسلہ کی ایک مصر کے ممتاز محدث علامہ زاہد الکوثری کی کتاب ’’العبرۃ الناظرۃ فی نزول عیسیٰ علیہ السلام قبل الآخرۃ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں شیخ کوثری نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع و نزول قرآن و احادیث سے ثابت کیا ہے اور متعلقہ شبہات کا شافی جواب تحریر کیا ہے۔
غامدی مکتبہ فکر پرویزیوں اور قادیانیوں کی طرح اسکا انکار کرکے کفر کی طرف جارہا ہے، اس سے بچنا ضروری ہے

Unknown نے لکھا ہے کہ

محترم بھائی پہلے تو معذرت میں نے لکھنا تھا کہ موت کا بھی لیا جاسکتا ہے جو کہ موت کا ہی لکھ دیا۔خیر ویسے میں نے آپکا آرٹیکل بھی تفصیل سے پڑھا ہے اور حیات مسیح اور وفات کے قائلین دونوں طرفین کے دلائل کم از کم ۵ سال ان پر غور کرنے کی کوشش کی ہے۔میرا بحث کا مقصد نہیں ہے کہ لفظ توفی پر ہی کرتا رہوں۔ابن عباس نے لفظ متوفیک کے معانی ممیتک لیئے ہیں تو لغت کی رو سے اور نظم کلام کی رو سے بنتے ہیں تو ہی کیئے ہیں ۔تقدیم و تاخیر والی بات امام سیوطی کی اپنی جگہ لیکن بات تو لفظ توفی کی ہو رہی ہے ۔باقی یہ بات علمی تجزیہ کے طور پر درست معلوم ہوتی ہے کہ احادیث اور قرآن میں جدھر بھیاانسان کے لیئے وفی کا مادہ باب تفعل میں استعمال ہوتا ہے ادھر حقیقی موت ہی لیا جاتا ہے سوائے جدھر قوی قرینہ ہو کہ موت کے معنی مراد نہیں لیئے جاسکتے جیسا کہ آیت ھو الذی یتوفاکم باللیل اور اللہ یتوفی الانفس حین موتھا میں اور ادھر قرینہ بیان کر رہا ہے کہ موت کے معنی سرے سے لیئے ہی نہیں جاسکتے ۔
۱۔ابن عباس کا اگر عقیدہ نزول کا ہی ہے تو یہ بات اپنی جگہ لیکن انہوں نے متوفیک کے معنی پورا پورا لینے کے نہیں بلکہ موت کے لیئے ہیں خواہ وہ نزول کے بعد ہو۔
۲۔جو آیات آپ بیان کر رہے ہیں انہیں آیات پر مفسرین کی بحث کافی دفعہ پڑھ چکا ہوں اور ان آیات سے ہرگز نزول مسیح پر اجماع نہیں ہوا۔
۳۔اگر پورا پورا لینے کے برخلاف ابن عباس کے معنی کرنے ہی ہیں تو میرے نذدیک اس میںبھی کوئی قباحت نہیں لیکن پھر بھی نزول مسیح ان آیات سے ثابت نہیں ہوتا ۔مطلب آیت کی ترتیب سے پورا پورا لینا،اوپر اٹھانا،تطھیر اور منکرین پر متبعین کا غلبہ۔یہ چار خدا کے وعدے تھے اور پورے ہوئے ہیں۔
۴۔اجماع کا لفظ بولنا بہت آسان ہے اور یہ اچھا قرآن و سنت پر بولتے ہی لگتا ہے ۔۱۵۰۰ سال کے مسلمانوں کا اجماع دور کی بات گذشتہ دو صدی میں ہی بہت سے نامور لوگ وفات مسیح کے قائل رہے ہیں بشمول سرسید احمد خان،مولانا عبیداللہ سندھی،مولوی چراغ علی،عرب عالم عبدالکریم الخطیب،ابوالخیر الاسدی،علامہ اقبال،تمنا عمادی،رشید رضا و علامہ شلتوت مفتیان مصر وغیرہ ۔ میرے لیئے تو بہت مشکل ہے ان سب پر کفر کو فتوی عائد کروں۔باقی آج کے دیوبندی مولوی صاحب یا ماضی کے لوگ حیات مسیح کے انکاری پر کفر کا فتوی دیتے ہیں تو میں اس فعل کو حجت نہیں سمجھتا بلکہ انکے فتوی کو غلط سمجھتا ہوں۔آپ میں میرے بھائی کافر کہنے کی ہمت ہے تو کہ لیں اور اس میں شاید مجھ پر بھی فتوی لگے گا کیونکہ میں دین کو سمجھنے کے ایام میں میرا دل ابھی تک مطمئن نہیں کہ یہ اتنا بڑا ایشو ہے کہ کفر جیسا فتوی لگادیا جائے۔کافر کے لیئے جہنم ہے۔کافر کے متعق قرآن کیا کچھ نہیں کہتا۔اس لیئے اپنے قریبی دور کے مذکورہ بالا اشخاص کو میں مسیح کی وفات کے قائل ہونیکے باوجود مسلمان ہی سمجھتا ہوں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

باقی میرے نذیک ذیادہ سے ذیادہ یہ پیشگوئی ہے اور پیشگوئی وقت پر پوری ہوکر ہی مبرہن ہوا کرتی ہے۔اگر یہ سب صاحب غلطی پر تھے اور مسیح ہمارے دور میں، جس کہ فی الوقت روایات کی رو سے امکان نہیں ،نزول فرماتے ہیں یا بعد کے دور میں تو خود ہی سب کو پتہ لگ جائیگا کیونکہ قیامت سے پہلے نزول ہونا ہے ۔تو کہہ دینگے کے ان کا اجتہاد غلط نکلا اور یقیناً باقی حضرات کی بات درست ہوئی بلکہ میرا دل تو کہتا ہے کہ ضرور نزول ہو تاکہ کوئی منکر ہی نہ رہے آخر آسمان سے نازل ہونا وہ بھی دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور پھر مینار پر پہنچنے کے بعد سیڑھی لگائی جائیگی ۔اس سے تو اذدیاد ایمان ہوگا۔زندگی میں جنہوں نے ایک فرشتہ کبھی نہیں دیکھا ،وہ دو دو فرشتے آسمان سے اترتے دیکھ لینگے۔ واللہ اعلم کہ معاملہ کیا ہوگا۔لیکن جب تک یہ واقعہ رونما نہیں ہوا اس سے پہلے کفر کا فتویٰ لگانا کونسی عقلمندی ہے؟

Unknown نے لکھا ہے کہ

حنان بھائی تبصرہ کرنے سے پہلے ایک بات واضح کردوں کہ میں آپ کے ساتھ کوئی مناظرہ نہیں کررہا ، بلکہ یہ صرف ایک مذاکرہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بحث برائے بحث نہ بنے ، نہ ایسے رخ کی طرف جائے جس سے قارئین کے ذہن منتشر ہوں اور بات کا فائدہ کسی کو بھی نہ ہوسکے۔ میں بہت لمبی ابحاث جو کئی صفحوں پر جائے 'کے حق میں بھی نہیں ہوں نا میں اپنے پاس اتنا ٹائم فارغ پاتا ہوں ۔ امید ہے آپ بھی اس بات کو سامنے رکھیں گے اور بحث برائے بحث سے بچیں گے۔
آپ نے پہلی بات جو لکھی اس کے متعلق یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ جب آپ توفی کے لیے موت بھی ماننے کے لیے تیار ہیں تو پھر اس ایک لفظ کے معنی میں امت کے نوے فیصد علماء کے موقف کو چھوڑ کر آج کے چند متجددین کے موقف کو ترجیح دینا کیا عقل و فہم کے خلاف نہیں ہے؟
آپ نے لکھا "جو آیات آپ بیان کر رہے ہیں انہیں آیات پر مفسرین کی بحث کافی دفعہ پڑھ چکا ہوں اور ان آیات سے ہرگز نزول مسیح پر اجماع نہیں ہوا"۔
میں نے اوپر تحریر میں غامدی صاحب کا اس متعلق قول نقل کیا تھا وہ فرماتے ہیں کہ اس متعلق قرآن میں کوئی اشارہ موجود نہیں اس کے جواب میں میں نے یہ لکھا تھا کہ جب آپ کے نزدیک قرآن مخالفت نہیں کررہا تو پھر حدیث کے اثبات کو رد کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ا س کے ساتھ میں نے وہ آیات نقل کیں تھیں جو اشارہ پیش کررہی ہیں، یہی بات پھر آپ نے اوپرکی تو آپ کو بھی میں ان آیات میں موجود اشارے دکھا دیے ، اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان آیات کی وجہ سے کوئی اجماع نہیں ہوا۔ بھئی میں نے ان آیات سے نزول مسیح کے اجماع کی بات ہی نہیں کی آپ اب زبردستی اپنی بات تو میرے منہ میں نہ ڈالیں نا ۔مفسرین کی ان آیات کے متعلق کیا رائے ہے آپ اس لنک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
http://banuri.edu.pk/ur/node/538
ایک اور بات جو میں نے غامدی صاحب سے پوچھی وہی میں آپ سے بھی پوچھتا ہوں کہ قرآن نزول عیسی کے متعلق آپ کے خیال میں کوئی اشارہ نہیں کررہا تو پھر آپ کے ان صحیح احادیث کو ماننے میں کیا امر مانع ہیں جن میں نزول عیسی کا بتایا گیا ہے اوران میں بہت سی احادیث انہی اشارہ کرنے والی آیت کی تشریح میں بھی ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ یہاں آپ کے پاس کونسی نص قطعی ہے۔ ؟ان احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کتنے اور کون سے اس تصویر میں ملاحظہ فرمائیں۔
http://i5.minus.com/j8CQ7J2zqXzgU.jpg

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ نے ساری بحث ہوجانے کے بعد جو دوبارہ ابن عباس کی 'ممیتک' والی روایت پر آکر انگلی رکھی ہے ، اللہ آپ لوگوں کو ہدایت دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عقیدہ متعلق صحیح روایات کو تسلیم نہیں کرتے اور یہاں ایک ضعیف راویت کو لے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس روایت کے متعلق عرض ہے کہ اس روایت میں ایک راوی علی بن ابی طلحہ ہے جو ضعیف ہے اور اسکا سماع بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، روایت ضعیف اور منقطع ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح جو روایت مروی ہیں ان میں سے ایک کا تذکرہ درمنثور کے حوالہ سے میں نے اوپر بھی پیش کیا ، اس کے اور اک اور کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں " قال انی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان"۔ اللہ نے فرمایا : اے عیسی تجھے سروست اٹھانے والا ہوں، پھر آخر زمانے میں تجھ کو وفات دوں گا"۔
یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ مفسرین نے توفی کے مفہوم میں جو متعدد توجیہات کی ہیں جن میں سے آپ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو لے رہے ہیں ،' اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ہر معنی سے اسکی تفصیل بیان کرلی جائے ، توفی کو خواہ بمعنی قبض لیا جائے یا استیفا، نوم یا موت کے معنوں میں ، بہر صورت وہ رفع جسمانی اور حیات سے ہی ہم آہنگ ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ توفی کے مفہوم میں کوئی ایسا احتمال نہ رہنے دیا جائے جس کی تطبیق رفع جسمانی الی السماء و حیات کے ساتھ نہ کر دکھائی جائے تاکہ کل کسی ملحد کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ کوئی احتمال نکال کر رفع جسمانی کی نفی پر آمادہ ہو جائے ۔ آخری بات ابن عباس کی بات ہے انہوں نے توفی کے معنی موت کے جو لیے ہیں اسکی توجیہ یہ کی ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی موت کا وعدہ اگرچہ ایک خاص نکتے کی وجہ سے ذکر کیا ۔ اللہ نے اسے پہلےذکر کیا ہے لیکن وقوع اسکا آخری زمانے میں ہوگا ۔
آپ نے فرمایا "۴۔اجماع کا لفظ بولنا بہت آسان ہے اور یہ اچھا قرآن و سنت پر بولتے ہی لگتا ہے ۔۱۵۰۰ سال کے مسلمانوں کا اجماع دور کی بات گذشتہ دو صدی میں ہی بہت سے نامور لوگ وفات مسیح کے قائل رہے ہیں۔"

اس متعلق عرض ہے کہ اسلامی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ وفات مسیح کے قائل دور قدیم میں صرف ملاحدہ و فلاسفہ تھے اور دور جدید میں نیچری اور ملحد ۔ آپ نے اس عقیدہ کے متعلق اجماع کو محض ایک دعوی قرار دیا اور دلیل میں موجودہ دو ر کے چند مجددین کے نام گنوائے ۔ حنان بھائی میں یہاں چودہ سو سال کے ہردور کے بڑے عالم کا قول پیش کرسکتا ہوں ، انکی تعداد سو سے زائد ہے اور وہ ایک تحریر میں سما بھی نہیں سکیں گے۔ شاید آپ نے اجماع کی بات کو محض ایک دعوی سمجھا ہے، میں جذباتی بات نہیں کروں گا، میرا منکرین حیات و نزول عیسی کو یہ چیلنج ہے کہ وہ اکابرین امت، آئمہ اسلام میں سے کسی ایک مشہور عالم کا نام بھی نہیں پیش کرسکتے جو انکی طرح اس عقیدہ کا منکر ہو۔!!
میں نے جو اجماع کا ذکر کیا ہے اس اجماع کا دعوی میں نہیں کررہا بلکہ یہ علماء کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ امام سفارینی بارہویں صدی کے اکابر محدثین میں ہیں‘انکی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
”واما الاجماع فقد اجتمعت الامة علی نزولہ ولم یخالف فیہ احد من اہل الشریعة وانما انکر ذلک الفلاسفة والملاحدة مما لایعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامة علی انہ ینزل ویحکم بہذہ الشریعة المحمدیة اھ“۔ (شرح عقیدہ سفارینی ج:۲‘ ص:۹۰)
ترجمہ:․․․”رہا نزول عیسیٰ علیہ السلام میں اجماع: تو امت محمدیہ کے کل اہل علم کا اجماع ہے کہ وہ نازل ہوں گے اور شرع محمدی پر عمل کریں گے‘ بجز فلاسفہ اور ملاحدہ کے کسی نے خلاف نہیں کیا اور ان کا خلاف قابل اعتبار نہیں“۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ نے جن لوگوں کا نام لیا کہ وہ منکر حیات عیسی تھےاس پر مختصر تبصرہ کرتا ہوں ۔
مولانا عبیدا اللہ سندھی سے منسوب تفسیر" الہام الرحمن " کے بہت سے مضامین انکے نہیں ہیں، جن لوگون نے اس کا مطالعہ کیا ہے وہ اسکو سمجھ سکتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم حیات عیسی علیہ السلام کے منکر نہیں تھے، یہ بات بلاوجہ ان سے منسوب کی جاتی ہے ۔ مولانا مرحوم کے استاد شیخ الہند ہیں ، ان کے ہم مکتب سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ ہیں ،ان سے انکے حوالے سے کوئی ایسی بات منقول نہیں، خود مولانا عبید اللہ سندھی اپنے رسالہ" رسالہ محمودیہ" میں لکھتے ہیں :" امام ولی اللہ تفہیمات الہییہ میں فرماتے ہیں کہ " مجھے میرے رب نے الہام فرمایا ہے کہ تجھ میں دو جامع اسموں کا نور منعکس ہے ، ایک نور مصطفوی اور دوسرا نور عیسوی ۔ پس توقع ہے کہ تو افق کمال کو ابھرنے والا اور اقلیم قرب کو ڈھانکنے والا ہوگا۔ پس تیرے بعد جو شخص بھی ہوگا اسکی ظاہری و باطنی تربیت میں تیرا دخل ہوگا۔ یہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوجائیں گے"(رسالہ محمودیہ ، ص 24)
مولانا سندھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شارح ہیں اور وہ حضرت شاہ صاحب کی تحقیقات سے سر موتجاوز نہیں کرت، حضرت شاہ صاحب عقیدہ حیات و نزول مسیح کے مناد ہیں ۔اس لیے جن ملاحدہ نے مولانا سندھی کی جانب غلط عقائد منسوب کئے ، ان کی کوئی ذمہ داری مولانا مرحوم پر عائد نہیں ہوتی ۔
علامہ اقبال کے متعلق جو آپ نے دوسری تحریر میں کتابی لنک دے ہیں وہ پہلی دفعہ میرے سامنے آئے ہیں ، میں ان پر تحقیق کرکے ہی کچھ لکھ سکوں گا ۔ آپ نے وہاں تمنا عمادی کا ذکر کیا تھا اور لکھا تھا کہ اقبال کے کہنے پر علامہ تمنا عمادی نے " انتظار مہدی و مسیح لکھی تھی ۔میں اسی کتاب سے تمنا عمادی کی 'علمی تحقیقات کے چند نمونے نقل کرتا ہوں ان سے یہ واضح ہو جائے گا کہ علامہ نے یہ کتا ب لکھ کر خود اپنی علامی کو بٹہ لگایا ہے ۔ امام زہری کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں " الامام العلم حافظ زمانہ" (سیر اعلام النبلاء جلد 4 ص161) تمنا عمادی لکھتے ہیں یہ واضع حدیث تھا۔ (ص:181) ایک جگہ لکھتے ہیں " یعقوب کی وفات کے وقت اگرچہ ابن راہویہ تیس برس کے تھے، مگر یہ اس وقت غالبا مرو سے نیشا پور بھی نہ ائے ہوں گے" (ص :175) جی ہاں ! تیس سال کا دودھ پیتا پچہ مرو سے ستر میل کے فاصلے نیشاپور کہاں جاسکتا ہے ؟ صحیح مسلم کی ایک حدیث جس کے آخر میں ہے کہ حضرت عیسی کے ہاتھ سے اللہ تعالی دجال کو قتل کرائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ثبو ت و اطمینان کے لیے اپنے حربے میں لگا ہوا خون لوگوں کو دکھائیں گے ۔تمنا عمادی نے اس حدیث کے آخری فقرے کا ترجمہ اس طرح کیا ہے " لیکن اسکو اللہ تعالی اپنے ہاتھ سے قتل کرلے گا ، تو مسلمانوں کو اپنے حربے میں خون دکھائے گا"۔ یہ کسی عربی کے طالب علم سے بھی پوچھ لیں وہ بھی بتائے گا کہ عمادی کا یہ ترجمہ کتنا صحیح ہے۔ اس پر تمناعمادی مزید سینہ زوری دکھاتے ہیں اور اپنے غلط ترجمے کا الزام حدیث رسول پر دھرتے ہوئے لکھتے ہیں" یہ ہے جس کو حدیث رسول کہا جاتا ہے ، جس کی تہمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائی جاتی ہے" اللہ خود اپنے ہاتھ سے مسیح دجال کو قتل کرے گا اور اپنا خون آلود حربہ مسلمانوں کو دکھائے گا۔ معا ذ اللہ من تلک الھفوات "(ص:252) آپ فرمائیے ! جن ہفوات سے تمنا عمادی پناہ مانگ رہے ہیں وہ حدیث رسول میں ہیں یا خود تمنا عمادی کے نہاں خانہ دماغ میں ؟ اس طرح کے مزید حوالے میں نقل کرسکتا ہوں جو دکھائیں گے کہ انکی علمی حیثیت کیا تھی۔۔ آپ نے سرسید احمد خان کا تذکرہ کیا اس متعلق عرض ہے کہ وہ منکر حدیث تھے ان پر تبصرہ میں انکے متعلق تحریر میں کرچکا ہوں ، یہی حال مفتی عبدہ اور انکے شاگردوں کا ہے۔حیرت ہے آپ لوگ سرسید احمد خان جیسے لوگون کے قول کو اہمیت دے رہے ہیں لیکن فہم القرآن میں جن کا ارشاد لائق استناد ہے حضور، صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، سلف صالحین انکی رائے سے اتفاق نہیں کررہے۔!!! آپ نے فرمایا پندرہ سو سال کے اجماع کے تو دور کی بات یہ چند بھی متفق نہیں ۔ جن چند کی بات آپ نے کی وہ اور انکا نا ماننا کیا حیثیت رکھتا ہے اس پر تو میں تبصرہ کرچکا آپ کو میں چیلنج دیتا ہوں آپ ہر دور کے عالم کا قول پیش نہیں کرسکتے نہ کریں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل ، امام غزالی، عبد القادر جیلانی، ابن تیمیہ، ابن القیم، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو منکر حیات و نزول مسیح ثابت کردیں ،میرے نزدیک تو ان لوگوں کا ایک مسئلہ پر متفق ہوجانا بھی اجماع کے لیے کافی ہے۔کا ش آپ لوگ موجودہ دور کے ان چند مجددین، ملحدین کے مقابلے میں حضور کی حدیث اور سلف صالحین کی رائے کو نہ ٹھکراتے ۔!!

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ کفر کے فتوی کے ذکر پر غصہ کرگئے ہیں حالانکہ یہ کفر کا فتوی کسی ذاتی ضد، مخالفت و تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ اصول کی بنیاد پر ہے،دوسری بات علماء کسی کو کافر بناتے نہیں اس کے کفر یہ عقائد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کفر کا فتوی کس بنیاد پر لگتا ہے اور لگا ہے میں اسکی وضاحت کردیتا ہوں۔ دیکھیں جو باتیں قطعی ثبوت کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں ، ان کا ماننا شرط ایمان ہے اور ان میں سے کسی کا انکار کردینا کفر ہے۔اب کسی چیز کا قطعی یقین ہونے کے دو طریقے ہیں اک یہ بندہ خود دیکھ سن لے دوسرا خبر متواتر کے ذریعے وہ بات اسے پہنچ رہی ہو، یعنی کسی بات کواس قدر کثیر التعداد لوگوں نے نقل کیا کہ عقل یہ تسلیم نہیں کرتی کہ ان سب لوگوں نے جھوٹ پر اتفاق کرلیا ہوگا۔ پہلی بات صحابہ کے لیے ہے کہ خبر کو انہوں نے خود حضور سے سنا دوسری ہمارے لیے کہ ہمارے پاس وہ خبریں تواتر کیساتھ پہنچیں، جس طرح حضور کے قول پر صحابہ کے دور میں ایمان لانا فرض تھا اسی طرح اس دور میں بھی فرض ہے، اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ قرآن سے دلیل دکھائیں گے تو ایمان لائیں گے ورنہ نہیں!!مختصر یہ کہ دین اسلام کی جو باتیں نقل متواتر کے ذریعے ہم تک پہنچیں ، وہ ہمارے لیے اتنی ہی قطعی و یقینی ہیں گویا ہم نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی سے انکو سنا ہے، ایسی تمام چیزیں جو نقل متواتر کے ذریعے ہمیں پہنچی ہیں انکو 'ضروریات دین' کہا جاتا ہے۔ ان تمام ضروریات دین کو ماننا شرط ایمان ہے اور ان میں سے کسی ایک بات کا انکار کردینا کفر ہے۔اب اگر کوئی تواتر کا انکار کرتا ہے تو اسے قرآن کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیونکہ قرآن بھی نقل متواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے یہی حال دیگر'ضروریات دین' کا بھی ہے۔ اگر اہل تواتر قرآن کے نقل کرنے میں سچے ہیں تو لامحالہ دیگر'ضروریات دین' کے نقل کرنے میں بھی لائق اعتماد ہوں گے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے وہ'ضروریات دین' میں سے کسی ایک بات کے نقل کرنے میں لائق اعتماد نہیں تو نعوذ بااللہ وہ قرآن کے نقل کرنے میں بھی لائق اعتماد نہیں رہتے۔ عقیدہ حیات و نزول مسیح کے متعلق احادیث بھی تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اس لیے فتاوی شامی میں بھی کسی فرد پر کفر کا فتوی لگانے کے بجائے تواتر کے انکار پر کفر کا فتاوی لگایا ہے یہ امت کا شروع سے اصول اور معمول چلا آرہا ہے۔ یہاں مزید ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر کا فتوی صرف کسی کے ایک رائے کے اظہار کردینے پر نہیں لگایا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا اسکو شریعت کےتمام دلائل پہنچے، اسکی غلطی کی تصحیح کی کوشش کی گئی، اگر سب کچھ جان لینے،کے بعد بھی وہ اپنی رائے پر قائم رہا تو اس کے اس قول و عقیدہ کو کفریہ کہا جائے گا۔
آپ نے اسکو پیشن گوئی یا اجتہاد کے درجے میں لیا میرے بھائی یہ بالکل اجتہاد کا مسئلہ نہیں ہے ۔ آپ فرما رہے ہیں " جب تک یہ واقعہ رونما نہیں ہوا اس سے پہلے کفر کا فتویٰ لگانا کونسی عقلمندی ہے؟" میں آپ سے پوچھتا ہوں آخرت پر ایمان اصول دین میں سے ہے ، منکر ین قیامت و آخرت پر کفر کا فتوی کیوں لگایا گیا ہے حالانکہ وہ تو دنیا میں انکے سامنے رونما نہیں ہوئی؟!!
وما علینا الا البلاغ المبین۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

محترم بھائی چلیں میں اس کے متعلق ذیادہ مزید بحث میں نہیں پڑتا کیونکہ بیشک جو احادیث ہمیں پہنچیں ہیں ان میں نزول کی بات بیان ہوئی ہے لیکن جو آخرت و وقیامت پر جو کفر کا فتوی لگایا گیا ہے تو اس معاملہ میں تو ارکان ایمان میں یہ بات شامل ہے اور قرآن جگہ جگہ منکرین کو مطعون کر رہا ہے لیکن اس چیز کو نہ ہی احادیث و قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ جو مسیح کے نزول پر ایمان و اعتقاد نہیں رکھیگا وہ کافر ہے۔اور نہ ہی کسی صحابی کا بیان ہے کہ جو اسکا منکر وہ کافر ہے۔ آخرت جو کہ بنیادی اراکین میں سے ہے اسکو نزول مسیح کے ساتھ قیاس کرنا کوئی صحت مندانہ تجزیہ نہیں۔
۱۔باقی کفر کے متعلق میں نے عرض کیا ہے کہ کسی صحابی کا قول نہیں اس حوالہ سے اور میں ذاتی طور پر صحابہ کے بعد کسی اجماع کو نہیں مانتا خواہ بڑے سے بڑا آدمی دعوی کرے اور میں قرآن و سنت کو صحابہ کے اجماع سے منتقل مانتا ہوں اور اس میں یہ عقیدہ کا انکار کفر نہیں پاتا۔
۲۔تمنا عمادی صاحب کی کتاب سے آپنے حوالہ پیش کیئے ہیں ۔مہربانی فرما کر مجھے آُپ یہ کتاب بھیج سکتے ہیں یا اس کا کوئی لنک۔؟کافی عرصہ سے اس کتاب کو ڈھونڈ رہا ہوں ۔
۳۔عبیداللہ سندھی صاحب کی الہام الرحمن کی بنیاد پر ہی صرف میں انسے یہ بات منسوب نہیں کر رہا بلکہ انکی ایک کتاب عقیدہ انتظار مسیح و مہدی ہے جس میں انہوں نے اپنی تحقیق کا خلاصہ بیان کیا ہے اسکو دیکھ لیجئیگا۔بیشک وہ نزول مسیح کے قائل رہے ہیں لیکن آخر انہوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ یہ عقیدہ قرآن کے موافق نہیں۔
۴۔یہ عبیداللہ سندھی صاحب جیسے جلیل القدر عالم کا بیان ہے کہ قرن اول میں حیات مسیح کے حوالہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا اور امام مالک کے حوالہ سے بھی انہوں نے بیان کیا ہے کہ خواب کی حد تک بات تھی اور خواب تعبیر طلب ہوتا ہے ۔امام مالک نے موطا میں نزول کا ذکر نہیں کیا وغیرہ۔۔۔
باقی اللہ ذیادہ بہتر جانتا ہے میں تو مسیح کی آمد کے متعلق مولاناصاحب کے الفاظ میں ہی کہتا ہوں کہ آگئے تو اچھا ہے ورنہ نہیں آئے تو کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔
مشکور ہونگا کہ آپ تمناعمادی کی کتاب اگر آپکی ایلکٹرانک لائبریری میں ہے یا کہیں سے لنک لیکر جہاں سے پڑھی ہے مجھے
rockyhannan@hotmail.com پر بھیج دیجئے۔ عبدالحنان

Unknown نے لکھا ہے کہ

بھائی آپ کفر کے لیے صحابہ کا اجماع مانگ رہے ہیں ، حیات و نزول مسیح کے سلسلے میں موجود صحابہ کے اجماع کو تسلیم کیوں نہیں کررہے؟ یہ تو پسند کی شریعت ہوئی۔ ۔ ۔ مزید میں نے کفر کے سلسلے میں کسی کے اجماع کو نقل نہیں کیا اصول کی بات کی ہے کہ کفر کا فتوی کب لگتا ہے، اس کے لیے کسی صحابی کے اجماع کا مطالبہ ایک بچگانہ بات ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے کہ مرزاقادیانی کے خلاف صحابہ کا اجماع دکھاؤ کہ انہوں نے قادیانی کو کافر کہا ہے تو میں مانوں گا ۔!!!
عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کے متعلق میری اور میرے اکابر کی تحقیق یہی ہے جس میں سے کچھ کا میں نے اوپر تذکرہ کیا، اسی کی انکی مستند تحاریر اور انکے احباب گواہی دیتے ہیں ، باقی جو کچھ ملحد لوگوں نے ان سے منسوب کیا ہے اسکی کوئی سند موجود نہیں۔
تمنا عمادی صاحب کی کتاب کی سکین کاپی میرے پاس موجود نہیں ہے، اگر ہوتی تو ضرور بھیج دیتا۔
آخری بات آپ کے تبصرے سے مجھے یہی لگ رہا ہے کہ آپ اپنا موقف چھوڑنا نہیں چاہتے۔ یہ آپ کی پسند ہے آپ قائم رہیے۔ میں بے تکلف ہوکر میں یہ کہوں گا کہ غامدی مکتبہ فکر دلیل مانگتا ہے لیکن خود اس مسئلے میں اندھی تقلید کررہا ہے، انکے پاس حیات و نزول مسیح کے انکار کے لیے کوئی شرعی دلائل موجود نہیں ہیں، محض ضد میں غامدی صاحب کے تفرد کی اندھی تقلید کیے جارہا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے آپ میری اس بات کو انا کا مسئلہ بنائیں اور آپ اوپر کی گئی ساری بحث کو نظر انداز کرکے دوبارہ الف سے بحث شروع کردیں یا جو کچھ لکھا گیا اس پر غور کریں۔
السلام علیکم

Unknown نے لکھا ہے کہ

۱۔آپسے عرض کیا تھا یہ اپنی شریعت بنانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اصول کی بات ہے۔صحابہ سے ہمیں قرآن و سنت اجماع کے طور پر ملے ہیں اور عقیدہ نزول مسیح سنت کی چیز تو ہے نہیں اور نہ ہی قرآن میں ان من اھل الکتاب سے مسیح کی حیات و نزول پر اجماع ہوا ہے جیسا کہ آپکے علم میں تفاسیر میں ضمیر کا اختلاف موجود ہےباقی آپ دھکے سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ نص صریح گویا کہ موجود ہے مسیح کے نزول کی قرآن مجید میں۔آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ مؤقف چھوڑنا نہیں چاہ رہے بلکہ میں نے عرض کی ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی کے الفاظ میں یہ کہتا ہوں''حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنیکے مسئلہ میں ہماری رائے یہ ہے کہ آگئے تو اچھا نہیں تو کوئی مصیبت نہیں آئیگی،ہم اسکو عقیدہ بنانے کے مخالف ہیں"
آپ معذرت کے ساتھ مجھ سے ذیادہ مصر ہیں کہ نہیں تکفیر کے بنا گزارا نہیں اور یہ گمراہی ہے وغیرہ جبکہ دوسری طرف مولانا عبیداللہ سندھی صاحب کی طرف یہ بات بیان کر رہے ہیں کہ آپکی اور آپکے اکابر کی تحقیق درست ہے بس۔مولانا کو ۷۰۰ سال پرانے نہیں ہیں۔انکی تصنیف کا بھی حوالہ دیا ہے پر آپ ہیں کہ نہیں آپکا عقیدہ ہے تو بس انکا بھی ہونا چاہیئے۔اس سے ذیادہ فرقہ پرستی والی بات اور کیا ہوگی میرے بھائی۔
۲۔آپ اجماع کا کہہ رہے ہیں کہ نزول پر سب صحابہ کا اجماع ہوا ہے۔نبوت کے متعلق تو متفق ہیں اور قرآن خاتم النبین کہہ رہا ہے تو مرزا غلام،ابن عربی،یا کوئی بھی مقامات نبوت یا منصب کا دعوی کریگا تو وہ دجال ہی کہلائیگا۔مرزا غلام نے کوئی نہیں بات تو بہرحال نہیں کی وہی ابن عربی ،مکتوبات وغیرہ سے حوالہ بیان کیئے ہیں۔مجھے آپ اجماع چھوڑ کر ایک خبر واحد ہی بتا دیں کہ جدھر نزول مسیح پر اعتقاد نہ رکھنے پر زجر و توبیخ کا ہی لہجہ ہو یا کوئی ایمانیات میں اسکا شمار کیا گیا ہو۔
http://ebooks.rahnuma.org/religion/
اس ویب سائٹ پر عبیداللہ صاحب کی الہام الرحمن کے بعد کی ذاتی لکھی ہوئی کتاب ''عقیدہ انتظار مسیح و مہدی '' موجود ہے۔اسکو پڑھنے کی زحمت کیجئیگا خواہ بس تردید ہی کرنے کا ارادہ رکھ کر کرلیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

میں نے تکفیر کی بات اپنی طرف سے نہیں کی تھی۔ نہ میں نے اس تحریر میں کسی کو کافر قرار دیا ہے نہ یہ میرا منصب ہے، میں نےصرف ایک اصول بیان کیا تھا کہ اسلاف کے نزدیک ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔ آپ یہ اصول اسلاف کی معیار تکفیر کے متعلق تحریروں، کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو سلف صالحین کا اصول ہے ذرا تکفیر کے متعلق خود مولانا سندھی کا اصول ملاحظہ فرمالیں اور بتائیں کہ آپ اس سے بھی اتفاق کرتے ہیں ؟ "جو لوگ موجودہ سامراج کے خلاف ہمارے ساتھ مل کر لڑرہے ہیں، خواہ وہ ہمارے ہم مذہب نہ بھی ہوں ' ہم انہیں اپنا ساتھی سمجھیں گے۔ اور ان کے بارے میں کفر کی اصطلاح نہیں برتیں گے۔ جو سامراج کے حامی ہوں گے۔ خواہ وہ ہمارے ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو، ہم انہیں مسلمان کہنے کو تیار نہ ہوں گے"۔(افادات و ملفوظات مولانا عبیداللہ سندھی، صفحہ 186)
دوسری بات اس عقیدہ کے متعلق میں نے یہ نہیں لکھا کہ اس کے متعلق کوئی قرانی نص موجود ہے، میں نے آپ کی خواہش پر قرآنی آیات میں موجود اشاروں کی طرف آپکی توجہ دلائی تھی، یہ تو غامدی مکتبہ فکر کے ذمہ ہے کہ وہ عموما امت مسلمہ کے متفقہ موقف سے بالکل ہٹ کرپیش کی گئی اپنی مسائل کی تشریحات کے دفاع میں یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ اس مسئلے میں ان احادیث کے خلاف قرآنی نص موجود ہے اس لیے ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے، وہ یا آپ اس عقیدہ کے متعلق موجود متواتر احادیث کے انکار کے لیے بھی قرآن سے کوئی نص پیش کردیں۔؟ یہ اس مسئلہ پر انکی پوزیشن ہے پھر بھی آپ ہمیں فرقہ پرستی کا طعنہ دے رہے ہیں، فرقہ پرستی تو آپ کررہے ہیں کہ سلف صالحین کے موقف کو چھوڑ کر آج کے چند لوگوں کے نظریات پر جمے ہوئے ہیں۔ آپ نے لکھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے کوئی نئی بات نہیں کی اس بات کو میں اب آپ کی لاعلمی ہی کہہ سکتا ہوں۔ ۔ خیر بھائی میرا خیال ہے جتنی بحث ہوچکی میرا خیال ہے، وہ کافی ہے۔
اللہ ہمیں ہدایت دے اور حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہت مناسب ہے کہ اس بحث کو ختم کرتے ہیں اور اللہ سے اپنی ہدایت کا ہمیشہ طلب گار ہوں اور اس کے ساتھ پر کسی مسلمان کی تکفیر کرنے سے بھی بری ہوں۔جہاں تک غیر مسلم قرار دینا اور مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے حق میں قرار دینا اور انکے ذمہ سے بری ہونا اسکو ہرگز برا نہیں سمجھتا کیونکہ یہ معاشرے کو قائم رکھنے کی ناگزیر صورت حال ہے۔باقی قرآن میں کافر کی سزا ابدی جہنم ہے،کافر کے لیئے عذاب مہین ہے،کافر پر اللہ کی لعنت ہے،کافر شیطان ہے جس نے جان بوجھ کر حق کا انکار کردیا ہو،کافرین اور منافق کو اللہ جہنم میں جمع کرنیوالا ہے،کافر کے لیئے جنت کے کا رزق حرام ہے،کافر کے کو اللہ ہدایت نہیں دیتا اور بیشمار قرآن کی آیات یہ مضمون بیان کر رہی ہیں اس لیئے یہ اصطلاح ایک مسلمان کے لیئے اور اپنے علم کی حد تک کسی کے لیئے استعمال کرنے بھی خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔دوسروں کو کافر کہنے سے پہلے اپنے آپکو دیکھتا ہوں کہ کیا میں نے اس پر ہر طرح سے اتمام حجت کردیا ہے جو کہ مجھے نہیں لگتا دعوٰی سے کہا جاسکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہم پاتے ہیں کہ اگلے کی تکفیر کریں۔اس لیئے ادب سے اسلاف سے اس بنیاد پر ایک مسلمان کو کافر کہنے پر راضی ہوجانے سے اختلاف کرتا ہوں اور اللہ مغفرت کرے میری اگر غلطی پر ہوں۔
۲۔دوسری بات محترم بھائی میرے احمدیت میں ۲۲ سال گزرے ہیں اور میں نے دیانتداری سے مرزا غلام کی کتابوں اور احمدیت لٹریچر کو پڑھا ہے اور مرزا غلام کی روحانی خزائن میں جمع کردہ کتب و ملفوظات کو ترتیب سے تلاش حق کی خاطر کافی عرصہ لگا کر پڑھا ہے اس لیئے میں انکے طرز استدلال اور حوالہ جات اور اشارات سے واقف ہونیکا دعوٰٰی کسی حد تک کرسکتا ہوں۔کوئی ایک تین یا چار سال کا صرف احمدیت کے متعلق کورس نہیں کیا ۔نبوت کے متعلق لاہوری جماعت کے دلائل کا بھی کافی عرصہ دلائل پڑھنے اور ڈسکس کرنیکا موقع ملا ہے اسلئے قادیانی تو تھا ہی لاہوری حضرات کی روش بھی اپنے تجربہ کی حد تک جانتا ہوں۔خیر آپ لاعلمی کہنا بھی کہہ سکتے ہیں اور اس میں حقیقت بھی ہونیکا یقیناً ۹۹ فیصد چانس ہے۔
۲۔دوسرا میں اس لیئے کافر نہیں کہہ سکتا کسی کو کیونکہ کل تک میں آپکے اور باقی علمائے کرام کے نذدیک کافر تھا اور اللہ نے ہدایت بخشی اور مجھے پتہ ہے کہ میں ہرگز جان بوجھ کر حق کا انکار یا اغماض نہیں کر رہا۔دور سے تو نظر یوں ہی آتا ہے کہ شاید جان کر انکار ہو رہا لیکن حقیقت یہ ہوتی ہم اپنی کوشش کو بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کتنے حد تک پیغام پہنچا دیا ہے،کس درجہ میں خود کو مومن ثابت کردیا ہے جس کا جواب انسان نفس سے پوچھ کر ہی دے سکتا ہے۔اس لیئے خاتمہ کلام اس بات سے ہی کرتا ہوں کہ اللہ ہمیں تکفیر سے پہلے حجت تمام کرنیکی توفیق دے۔آمیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

بھائی آپ کی بات اپنی جگہ میں بار بار یہی کہتا آرہا ہوں کہ میں نے اہل سنت کے معیار تکفیر اور اصول تکفیر کا تذکرہ کیا تھا کہ اہلسنت کے نزدیک تواتر اور ضروریات دین کا منکر کافر ہے۔ دوسری بات میں نے اوپر یہ بھی لکھا تھا کہ شخصی تکفیر کرنے سے پہلے کیا کیا جاتا ہے ۔ ؟ تکفیر کے معاملے میں میرے اکابر سب سے ذیادہ حساس ہیں، ایک فیصد شک بھی ہو تو کفر کا فتوی نہیں لگاتے، مرزا قادیانی کو ایک فیصد شک کا فائدہ بھی نہیں دے سکے، اب آپ اتنے سال احمدیت میں رہ کر بھی یہ کہیں کہ انہوں نے ابن عربی والی باتیں ہی کیں ہیں کوئی نئی بات نہیں کی تو ہم یہی کہیں گے کہ آپ نے اسکےدعووں اور دجل کو پڑھا ہی نہیں، جانا ہی نہیں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

تو پھر ابن عربی کو بھی کافر قرار دیں نا جناب! ان دونوں حضرات میں فرق یہ ہے کہ مرزا نے منوانے کی کوشش کی اور ابن عربی نے صرف لکھ دیا۔ باقی کوئی فرق نہیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جہاں تک ابن عربی اور مرزا غلام احمد قادیانی کی بات ہے تو اس میں بھائی کو لگتا ہے کہ میں زیادہ تفریق نہیں کر رہا تو میں نے تفصیل سے مرزا کے دعاوی اور دجل کو پڑھا نہیں۔حقیقت میں مجھے یہ لگتا ہے کہ کبھی تسلی سے مرزا غلام احمد کی کتب اور ملفوظات کا مطالعہ نہیں کیا گیا اور سنی سنائی باتوں اور تاثر پر رائے قائم کر رہے ہیں ۔میں بیشمار مرزا غلام کے اقتباس اور اقوال نقل کر سکتا ہوں جدھر ان صاحب نے حد درجہ کی معاملہ نبوت میں احتیاط کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً ابن عربی کی اس حدیث ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدي کو ہی لے لیجیئے۔ رقمطراز ہیں ''چنانچہ جو نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی، وہ محض تشریعی نبوت ہے۔ نبوت کا مقام ابھی باقی ہے، اِس وجہ سے بات صرف یہ ہے کہ اب کوئی نئی شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہ منسوخ کرے گی اور نہ آپ کے قانون میں کسی نئے قانون کا اضافہ کرے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نبوت و رسالت ختم ہو گئی، اِس لیے میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہ ہو گا، درحقیقت اِسی مدعا کا بیان ہے۔ آپ کے اِس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جس کی شریعت میری شریعت کے خلاف ہو، بلکہ وہ جب ہو گا تو میری شریعت ہی کا پیرو ہو گا۔''
اب اسی ابن عربی کی بات کی بات پر مرزا غلام احمد کا بیان بھی سن لیجیئے۔
"محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے مگر میرا اپنا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے۔صرف آنحضرت ؐ کے انعکاس سے جو نبوت ہو وہ جائز ہے"(۱۷ اپریل ۱۹۰۳ کی ملفوظات میں یہ بات لکھی ہے)
اور قادیانی حضرات ۱۹۰۲ میں کہتے ہیں کہ دعوٰی کیا نبوت کا لیکن لاہوری حضرات کہتے ہیں کہ محدث کا ہی دعوٰی تھا بس اور یہ تحریر بھی اپنے حق میں پیش کرتے ہیں۔بہرحال مرزا غلام قادیانی نے کھل کر نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ یہی بات ۱۹۰۵ میں بھی کہتا ہے جو پہلے بھی کہتا رہا کہ میں مجازی طور پر،استعاراتی طور پر نبی ہوں ،ظلی و بروزی طور پر ہوں،حقیقت میں نہیں ہوں وغیرہ۔مرزا کا اصل دور اپنی مسیحیت و مہدویت پر تھا نہ کہ نبوت کے معاملہ پر۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جہاں تک کسی اجماع اور اہل سنت کے اصول پر بات کر رہے ہیں تو فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر بھی لگائے گئے ہیں اور اپنوں ہی نے لگائے ہیں ۔میں نے جیسا کہ عرض کی تھا کہ اس دنیا اور معاشرے کی ضرورت کے مطابق ہم نظم اجتماعی کے مفاد کی خاطر یہ فیصلہ تو کرسکتے ہیں کہ ہم ان کے افعال اور عقائد سے بری ہیں اور ذمہ نہیں لیتے،شرک کرنے والے کا شرک عیاں کرنے کی کوششش کرینگے،دین میں بدعت پیدا کرنیوالوں کو انکی بدعت سے توجہ دلائینگے اور عوام کا آگاہ کرینگے لیکن تکفیر کا معاملہ ہے تو میں اس رائے سے بالکل متفق ہوں کہ دین کی اصطلاح میں کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس نے ضد ، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا ہے۔ دین کی کامل وضاحت جس میں غلطی کا کوئی شائبہ نہ ہو، صرف اللہ کا پیغمبر اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ ہی کر سکتے تھے ۔ اس وجہ سے اتمامِ حجت کے بعد تکفیر کا حق دین نے انھی کو دیا ہے ۔ ان کے بعددین کی کامل وضاحت چونکہ کسی فرد یا اجتماع کے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے اب تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ ہم لوگوں کو اب اس کی جسارت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم کسی کے عقیدے کو باطل یا کفر سمجھتے ہیں تو ہمیں پوری درد مندی کے ساتھ اسے نصیحت کرنی چاہیے اوردلائل اور حکمت کے ساتھ اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لیئے آپ پھر بھی تکفیر کے اصول بیان کردہ اصول درست سمجھتے ہیں اور کافر قرار دینا ایک لازمی صورت سمجھتے ہیں تو سو بسم اللہ سمجھیئے لیکن میرے نذدیک اس سے سوائے غصہ،بغض،قتل اور اشتعال انگیزی کے علاوہ معاشرے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کل تک میں احمدی تھا تو میرے پر قتل کے فتوے تھے کہ کافر ہے تو بس واجب القتل ہے۔مرتد ہے وغیرہ۔اگر اسکی جگہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ ان حضرات کے یہ غلط عقائد ہیں اور ہمارے بھائی ہم سے دور ہوگئے ہیں تو یقیناً ہمدردی کے ساتھ لوگ توجہ کرینگے،سمجھانے کی کوشش کرینگے۔لیکن جب کافر کہتے ہیں تو کافر کو اللہ کہتا ہے میں نے نہیں بخشنا تو لوگ اس دنیا میں ہی نہیں بخشنا چاہتے اور خدا سے زیادہ انکو فیصلے کی جلدی پڑی ہوتی ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

ایک اور بات جو گمنام بھائی نے کی ہے کہ فرق اتنا ہے کہ مرزا نے منوانے کی کوشش کی اور ابن عربی نے نہیں ۔ویسے اصول میں دیکھا جائے تو ایک بندہ کہتا ہے کہ میں خدا ہوں مجھے مانوں اور خدا کی صفات اپنے سے منسوب کرتا ہے لیکن دوسرا بندہ یہ تو نہیں کہتا کہ مجھے مانو بلکہ صرف خدا کی صفات اور الوہیت کی باتیں بس اپنی ذات سے منسلک کرتا ہے ۔معاملہ ایک ہی ہے اور کان کو دوسری طرف سے پکڑنے والی بات ہے۔اور میرے نذیک تو حدیث میں دعوٰی کرنیکی بات بیان نہیں ہوئی بلکہ اتنا بیان ہوا ہے کہ کلھم یزعم انہ نبی۔ کہ جو دجال،کذاب نکلیں گے ان میں سے ہر ایک یہ گمان کریگا کہ وہ نبی ہے۔جو بھی نبوت کا گمان کرتا ہے وہ بہرحال اس حدیث کی ضد میں آتا ہے خواہ وہ دعوی کرے مجھے نبی مانو یا نہ مانو۔ابن عربی صاحب تو اس حد تک جاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ میری کمر ٹوٹ جاتی ہے جب مجھے پتہ چلتا ہے کہ نبوت ختم ہوگئی۔اس سے بڑھ کر ختم نبوت کے حوالہ سے غیر محتاط جملہ شاید مرزا غلام نے بھی نہیں کہا جیسا کہ اوپر ابن عربی پر ہی میں نے تبصرہ نقل کردیا ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

حنان صاحب قادیانیت کا مسئلہ اتنا کچھ چھپا ہوا یا نیا نہیں ہے، اس پر ہزاروں کتابیں لکھی ہوئی اور ہزاروں ابحاث ہوچکی ہیں، یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے، اس لیے آپ یہ نہ کہیں کہ ہم نے سنی سنائی بات پر یقین کرلیا ہے، میں آپ سے پہلے بیسوں قادیانیوں سے بات چیت کرچکا ہوں اور بہت گہرائی میں کر چکا ہوں، میرا یہ دعوی ہے کہ قادیانیوں سے انکا اپنا لٹریچر چھپایا گیا ہے اور اسکی غلط تاویل کی گئی ہے، وہ اس کا کیا گیا رد نہ پڑھیں اگر مرزا کی اپنی تحریرات ہی پڑھ لیں تو ایک دن قادیانی نہ رہیں، مرزا کی تحاریر اتنی واھیات اور بکواس ہیں اور ان میں اتنے تضاد ات ہیں کہ ہے کوئی عادل اور نفیس طبیعت کا آدمی اسکی تحاریر کو پڑھ کرکبھی قادیانی نہیں سکتا، ایسی مسخروں والی باتیں اور دعوے ہیں کہ پڑھ کر ہنسی آنے لگتی ہے، اندازتحریر ایسا ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔ ۔ دوسری بات ابن عربی کا مرزا قادیانی کیساتھ کوئی جوڑ نہیں، مرزا کی کتابوں کے بیسوں حوالے اور انکی خود قادیانیوں کی طرف سے کی گئی تشریحات بتا رہی ہیں کہ مرزا نے دعوی نبوت، دعوی مسیح، دعوی مہدی سب کچھ کیا ہوا ہے جبکہ ابن عربی ایک صوفی ہے اور تصوف کی اپنی اصطلاحات ہیں، اب ابن عربی نے اگر کوئی بات کی ہے تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں استعمال کی گئی اصطلاحات کے صوفیاء کیا معانی لیتے ہیں دوسرا ابن عربی کی دوسری تحاریر اس کی کیسے تشریح کرتی ہے۔ میں ویسے اس موضوع پر باقاعدہ ایک تحریر بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری کتابوں میں باطنیہ نے کہاں اور کیسے آمیزیش کی، ابن عربی کی کتابوں میں تدسیس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ جہاں تک ابن عربی کی اس عبارت کا تعلق ہے عبارت کا ظاہر یہ بتارہا ہے کہ ابن عربی نبوت کے ختم ہونے کے قائل ہیں لیکن جو حضور سے پہلے سے نبی موجود ہیں 'حضرت عیسی' انکی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ وہ آئیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق چلیں گے، ایسی ہی بات انہوں نے اپنی تفسیر ابن عربی جلد صفحہ 114 پر کی ہے کہ عیسی قیامت کے نزدیک جسمانی صورت میں اتریں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کریں گے۔ میں انکی اس تحریر سے مرزا قادیانی پر بھی اچھا نقد کرسکتا ہوں۔۔ ایک اور فرق دیکھیں مرزا قادیانی یہ دعوی کرتا ہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے امر، الہام ہوتا ہے اور میرے اوپر وحی آتی ہے۔ جیسا کہ خزائن، جلد 17، صفحہ 436 پر بھی موجود ہے جبکہ ابن عربی لکھتے ہیں "جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا نے اسے کسی شے کا امر کیا ھے ، تو یہ صحیح نہیں بلکہ تلبیس شیطان ھے کیونکہ امر و نہی اقسام کلام میں سے ہیں اور اسکا دروازہ بند ہو چکا ھے ۔ پھر اگر کوی شخص اپنے الہام میں امر و نہی بیان کرے خواہ وہ ہماری شریعت کے موافق ھو یا مخالف وہ دراصل نئ شریعت کا مدعی ھے ۔لہذا اگر مکلف ھوگا تو ہم اس کو قتل کرینگے اور اگر پاگلوں جیسا ھو تا اس سے اعراض کرینگے ۔ (فتوحات ص ۳۴، جلد ۲) یہاں صاف ظاہر ہے کہ ابن عربی مرزا قادیانی جیسے لوگوں کو واجب القتل کہہ رہا ہے۔ حنان صاحب یہ موضوع متعلقہ بحث نہیں ہے ، آپ نے ابن عربی اور مرزا قادیانی کو اپنے دعوی میں ایک جیسا کہا اسی لیے میں نے یہ لکھ دیا۔ ان ابحاث کو کسی قادیانیوں کے متعلق تحریر تک چھوڑ دیں۔ یہاں اس مسئلے پر مزید بحث نہ کیجیے گا ۔شکریہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

جہاں تک تکفیر کے مسئلے کی بات ہے اس پر میں اصولی باتیں کرچکا ہوں آپ بلاوجہ ضد کررہے ہیں کہ تکفیر کا حق حضور کے بعد اب کسی کو حاصل نہیں ،وہی غامدی صاحب والی بونگی دلیل کے حجت تمام نہیں ہوسکتی، حنان صاحب آپ انکے یہ فضول دعوے دہرانے کے بجائے قرآن و سنت کی کوئی دلیل پیش فرماسكتے ہیں جس میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہو کہ اسلام سے پھر کر مرتد ہونے اور کفر و شرک اختیار کرنے والے کو کافر نہ کہا جائے؟ ایک بات یاد رکھیں دین غامدی صاحب سے شروع نہیں ہورہا نہ وہ حجت ہیں ، وہ محض ایک بی اے پاس پروفیسر ہیں اس سے ذیادہ کچھ نہیں ، اس لیے انکی باتیں دین کے مسئلے میں پیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ، دین کے مسئلےپر چودہ سو سال سے جو تنقیدات، پھر اسکے جواب میں تحقیقات، تشریحات ہوئی ہیں اس سے یہ اپنی کامل سطح تک پہنچ چکا ہے، اسکی ہر تشریح، ہر فیصلہ پر ہر قسم کے دلائل دیے جاچکے ہیں ، اب اگر چودہ سو سال بعد کا کوئی فلاسفر یہ دعوے کرے کہ فلاں بات کو غلط بیان کیا گیا ، فلاں مسئلہ کسی کو صحیح سمجھ نہیں آیا، فلاں مسئلے میں صحابہ و آئمہ امت کی رائے غلط ہے، تو اسے وہی کہا جائے گا جو میں نے اوپر لکھا ہے۔
دوسری بات آپ نے فضول رونا رویا ہے اور ایک لحاظ سے غلط بیانی کرنے کی کوشش کی ہے کہ قادیانیوں کو ہم سمجھاتے نہیں ، دلائل نہیں دیتے ، واجب القتل کہہ کر جان چھڑاتے ہیں، آپ بتائیں کس نے قادیانی کو واجب القتل کہا ہے ، مرتد کی سزاکا تو اب آپکے غامدی صاحب آکر انکار کررہے ہیں جس وقت قادیانیوں کو کافر تسلیم کیا گیا تھا اس وقت تو مرتد کی اس سزا پر سب کو اتفاق تھا کہ اسکو تین دن سمجھایا جائے پھر اسکی گردن اڑا دی جائے لیکن پھر بھی پاکستانی پارلیمنٹ اور علماء نے کیا کیا ؟ قادیانیوں نے اس واقعہ سے پہلے سٹیشن پر جومسلم جوانوں کیساتھ کیا تھا اور 1953 میں جو کیا تھا اسکی سزا تو انہیں یہ ملنی چاہیے تھی کہ ان سب کی گردنیں اڑا دی جاتیں لیکن علماء اور حکومت نےکیا کیا ، انکو عزت احترام سے اسمبلی میں بلایا، پندرہ دن تک ان کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی گئی ، انکے موقف کے علمی جوابا ت دیے گئے ، ان پر بحث کی گئی ، ان کا کفر خودبخود کھل کر سامنے آیا جسکی بناء پر انکو کافر مان لیاگیا ۔ یہ کافر نہیں مرتد تھے لیکن پھر بھی انکے ساتھ وہ نہیں کیا گیا جو مرتدوں کیساتھ مسلم تاریخ میں کیا جاتا رہا ہے، اگر آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے مسیلمہ اور اسکے حواریوں کیساتھ کیا تھا ؟ اور عباسی دور میں انکے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے لیکن یہاں ان کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دے کر انکو اقلیتوں والے سارے حقوق دے دیے گئے ہیں اور اگنور کردیا گیا کہ شاید یہ بعد میں سمجھ جائیں لیکن یہ اپنے آپ کو مسلمان اور اپنے کفر کو اسلام کہہ کر پیش کرتے اور مرتد سے نکل کر زندیق بنتے ہیں ۔ زندیق کے متعلقق بھی آپ نے پڑھا ہوگا کہ اسلامی لٹریچر کیا کہتا ہے ، اسلاف امت کے فتاوی موجود ہیں کہ اسکا کیا کرنا چاہیے لیکن پھر بھی انکو کچھ نہیں کہا جاتا، کیا اس سے بڑی ان پر کوئی مہربانی ہوگی ؟؟؟؟ وہ ریاست کے نظام اور مذہب کو کرپٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ریاست کے خلاف سازشوں میں شریک ہے اس کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن پھر بھی انکوشریعت اور ملک کے قانون سے ہٹ کر مراعات دی جارہی ہیں۔۔
اس موضوع پر جتنی بحث هوئی میرا خیال ہے وہ کافی ہے اب جزوی باتیں زیر بحث آرہی ہیں ان پر بحث سے آپ بھی بچنے کی کوشش کریں میں بھی کرتا ہوں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست صاحب کفر کا فتویٰ تو آپ پر بھی لگ چکا ہے۔ پرصغیر کے لوگ آپ کو گستاخ رسول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہت خوب جناب میں نے مرزا کی تحریر کی بات نہیں کی کے انداز تحریر کیسا تھا ۔متلی آتی ہے فلاں چیز آتی ہے تو اسکا علاج کریں اس سے کسی کا جرم ثابت نہیں ہوتا۔جن سے چھپایا گیا ہے انکا میں ذمہ دار نہیں میں تو اپنی بات کر رہا ہوں کہ میرا ہرگز احمدی لٹریچر کا سرسری مطالعہ نہیں جو مجھ سے چھپی بات ہو۔دیوبندی حضرات کے ڈبل سٹیینڈرز مجھے آج تک سمجھ نہیں آئے یا خواہ جو اپنے آپکو ہی اہل سنت ہونیکے دعوے کرتے ہیں۔ابن عربی کی نبوت ختم ہونے پر کمر ٹوٹ جائے تو اسکی تاویل اور کوئی اور بات بیان کردے وہ تو خرافات و کفر۔ قاسم نانوتوی صاحب کی تحذیر الناس والی تحریر کو اٹھا کر رضا خان صاحب لیکر جائیں اور کفر کا فتوی لگا دیں تو کافر تو یوں وہ بھی ہوگئے۔بریلویوں کے دیوبندیوں اور دیوبندیوں کے بریلویوں پر کفر کے فتوے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ اہل سنت دیوبندی ہیں یا بریلوی؟اجماع امت بریلویوں کا ہوتا ہے یا دیوبندیوں کا ؟معذرت کے بوگس دلیل آپ لوگ دیتے ہیں اور کٹر فرقہ پرستی والی باتیں کرتیں ہیں ۔آپ کہہ رہے ہیں کہ کفر و قتل کے فتوے نہیں ،جناب میں ربوہ جسکا نام چناب نگر رکھوایا گیا ادھر رہ کر مولوی حضرات کی تقاریر اور جلوس سنتا رہا ہوں۔میری آنکھوں کے سامنے کے واقعات ہیں اسلیئے مجھے پر غلط بیانی کا الزام نہیں لگ سکتا۔عبیداللہ سندھی صاحب پر مجھے کفر کا فتوٰی لگ ہوا دکھائیے ذرا،علامہ اقبال پر لگا ہوا دکھائیں جو نہ نزول مسیح و مہدی کو غیر اسلامی عقیدہ کہنے والے بلکہ مسیح ؑ کی پیدائش مع باپ مانتے تھے۔مفتی مصر شلتوت اور رشید رضا صاحب بھی مسیح کے نزول کو جزو دین کا عقیدہ نہیں سمجھتے اور مزے کی بات ہے ان مفتیان کو خود تکفیر کا اختیار بھی ہے لیکن وہ پھر بھی انکار کرتے ہیں۔اس لیئے تکفیر فیکٹری چلائیے رکھے،امید ہے کہ آپکی آنیولی نسلوں پر بھی کفر کے فتوے لگتے جائینگے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

بہرحال میں یہ آخری تبصرہ شائع کرتا ہوں ۔میری طرف سے معذرت کے دل آزاری ہوئی ہو لیکن جو محسوس ہوا وہ بیان کردیا۔اللہ درگز فرمائے اور جن غلطیوں پر چل رہے ہیں انہیں دور کردے۔خواہ وہ غامدی صاحب و احباب کریں،کوئی بریلوی مسلک کے کریں،دیوبندی مکتبہ کے لوگ کریں یا سلفی حضرات کریں۔ اصل مقصد یہی ہے کہ دین اسلام کو دلوں میں داخل کرنا وہ جو جماعت و مکاتیب فکر صحیح طور پر ادا کر رہے ہیں ،انہیں اللہ اجر عظیم دے اور رحمتوں کے سایہ میں رکھے۔والسلام
عبدالحنان

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ یہ بتائیں آپ کو مرزے کی توہین کرنے پر اتنا غصہ کیوں آیا ؟ مرزے نے جو اول فول بکی ہوئیں ہیں، حضور صحابہ، امہات، تابعین اور مسلمانوں کو جو گالیاں دی ہوئیں ہیں کیا میری باتیں اس سے بھی ذیادہ سخت تھیں؟ یہ بھی غصہ کی ایک نشانی ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں ہی نہیں آئی کہ آپ کیا لکھ گئے ہیں، ایک طرف کہہ رہے ہیں عبیداللہ سندھی اور اقبال وغیرہ پر کفر کا فتوی کیوں نہیں لگایا دوسری طرف کہہ رہے تکفیر کی فیکٹری چلا رہے ہو۔ ۔ جناب دو رنگی چھوڑ دیں یک رنگ ہوجائیں۔
تکفیر کے سلسلے میں میں شروع سے اہلسنت کے اصول کی بات کررہا ہوں اور میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ جب کوئی تواتر اور ضروریات دین کا منکر ہو تو اس کی تکفیر کرنے سے پہلے کیا کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ باتیں میں چار سے زائد دفعہ کرچکا ہوں، آپ شاید سرسری پڑھ کر کمنٹ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں یا شاید آپ کو یہ جملے سمجھ ہی نہیں آتے۔ میرا یہی جواب بریلویوں کے تکفیری فتوؤں اور اقبال پر فتوی نہ لگنے کے متعلق بھی ہے اسکی وضاحت کردیتا ہوں شاید آپ کو سمجھ آجائے۔ علمائے دیوبند پر جنہوں نے فتوے لگائے انہی لوگوں نے اقبال اور قائداعظم پر بھی کفر کے فتوے لگائے، انکی کتاب تجانب اہلسنت گواہ ہے۔ ان فتوؤں کو آپ تسلیم نہیں کرتے ہونگے لیکن دیوبند پر لگنے والا یاد ہے، یہ محض ضد میں لگائے گئے جھوٹے الزامات تھے اس لیےعرب والوں نے الٹا فتوی لگانے والوں اور انکی کتابوں کو ہی عرب میں بین کردیا، تحذیر الناس کی عبارات کو سمجھنے کے لیے کم از کم اردو پر عبور ضروری تھا۔ جو عربی تو دور کی بات اردو میں بھی کمزور تھے وہ اسکا مطلب سمجھ نہیں سکے کچھ ایسی ہی بات ابن عربی کے کلام میں بھی ہے، باقی مرزے کی ساری زندگی، ایک ایک بات سامنے ہے، اسکی تاویلات، عقائد و نظریات کا علمی محاسبہ جتنا ہوا ہے شاید دنیا میں کسی کا نہیں ہوا ہوگا، یہ سب ان کو سمجھانے کے لیے تھا جو مرتد ہوئے۔ قادیانی عبارات، وساوس، شبہات، دعووں کے جواب میں لکھے گئے پچاس ہزار صفحات سکین ہوئے نیٹ پر بھی موجود ہے۔ قادیانیوں کو یہ سب نظر نہیں آتے اپنے زندیقوں والے کام اور لوگوں کو مرتد بنانے کی سرگرمیوں اور غداریوں کیوجہ سے کوئی حکومت سے انکے قتل کا مطالبہ کردے تو وہ ضرور سنائی دیتی ہیں ۔ ۔ جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے ایک فلسفی تھے، عالم دین نہیں تھے، جن مسائل کی حقیقت انہیں پتا چلی، وضاحت ان تک پہنچی وہ انکے قائل ہوگئے مثلا مرزے کی تکفیر اور مرزائیوں کے اسلام اور وطن کے دشمن ہونے کے، جنکی نہ پہنچ سکی ان میں وہ منفرد رہے۔ اس لیے ان پر کفر کا فتوی بھی نہیں لگا۔
غیر متعلقہ بحث بہت ہوچکی، اس کے بعد میں موضوع کے غیر متعلقہ کمنٹ ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہونگا۔ بلاگ پر تشریف لانے اور کمنٹ کرنے کا شکریہ۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

بھائی سنا ہے آپنے عبدالحنان کو مزید کمنٹس کرنے سے بلاک کردیا تھا ؟

گمنام نے لکھا ہے کہ

بنیاد پرست صاحب السلام علیکم
غامدی صاحب کے سب سے سینیر رفیق نادر عقیل انصاری نے غامدی فکر سے رجوع کرلیا ہے جسے المورد والوں نے عرصہ تک چھپا کر رکھا۔ اب نادر انصاری صاحب نے سہ ماہی "جی" میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ شاید آپ کو بھی جی کے یہ شمارے دیکھ لینے چاہییں۔
رانا اخلاق احمد

گمنام نے لکھا ہے کہ

جناب بنیاد پرست صاحب، آپ کے آخری آخری کمنٹس نے آپ کا سارا امیج خراب کر دیا۔ اختلافات چاہے یہود و نصاری سے ہو، ہندوں سے ہو، احمدیوں سے ہو یا اہل تشیع سے۔ انسان کو اپنا اخلاق برقرار رکھنا چاہیئے۔ اس طرح کے الفاظ " متلی آتی ہے" ، " گھن آتی ہے " وغیرہ وغیرہ۔ یہ سراسر غیر مہذب طریقہ ہے کو کسی بھی باشعور کو زیب نہیں دیتا۔ احمدیوں پر آتے ہی جانے آپ بھائیوں کے اخلاق کہاں گھاس چرنے چلے جاتے ہیں۔ یہی رویہ لوگوں کو متنفر کر دیتا ہے بالاخر۔ خدا آپ کو اور ہم سب کو ہدایت دے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں مسلمان وفات مسیح کے ہی قائل ہیں خاص کر مالکی فقہ کے لوگ۔ کینیا میں علماہ کرام نے باقاعدہ فتوی جاری کیا ہے کہ مسیح وفات پا چکے۔ موروکو میں تو میری خود بات ہوئی لوگوں سے جہاں مالکی فقے کے مسلمانوں کی کثرت ہے۔ وہ بالکل بھی قائل نہیں حیات مسیح کے۔ پھر تو کروڑوں لوگ بھی ایمان سے خارج ہوئے۔ بہت خوب۔ آج کل اسلام کو دائرہ کار سکڑ کر شائد کچھ ہی کلو میٹر رہ گیا ہے جہاں سے ابھی بھی صرف خروج ہی خروج ہو رہا ہے، یہ طنز نہیں ہے المیہ ہے، میرے جیسے مسلمان تو بس یہ حالت دیکھ کر افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ اور آپ دونوں بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ علامہ اقبال پر بھی فتوی کفر لگ چکا ہے۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

گمنام صاحب جو ہماری حنان صاحب کے ساتھ بحث کو مکمل پڑھے گا وہ جان لے گا کہ اس بحث کو کلوز کرنے کی وجہ کیا تھی ۔۔ ؟ حنان صاحب ایک تو بلاوجہ اور بلادلیل اپنی بات پر اصرار کررہے تھے، کمنٹس میں تکفیر کے متعلق ہماری بار بار کی وضاحت سے یہ بات ظاہر ہے۔۔ دوسرا وہ بحث کو بلاوجہ پھیلاتے ہوئے قرآن سے علماء کے شاذ اقوال کی طرف لے جارہے تھے۔ ۔ یہ لوگ جب اس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں تو قرآن قرآن کرتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن اول ہے حدیث بعد میں ہے، ہمارے لیے اس موضوع پر قرآن کی نص کافی ہے۔۔۔۔ لیکن جب قرآن سے ہی انکے موقف کو غلط ثابت کردیا جائے تو پھر قرآن و حدیث کے بعد کی چیز علماء کے شاذ اقوال کو دلیل بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ۔ یہی حنان صاحب نے کیا اور معذرت بھی یہی کررہے ۔۔ تفصیل ہم نے قرآن سے پیش کی ہوئی اور آپ مجہول لوگوں کے حوالے دے رہے کہ فلاں نہیں مانتا فلاں نے فتوی دیا۔ ۔ بھائی بات اصول کی ہے اگر کوئی ضروریات دین کا انکار کرتا ہے تو وہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے کسی کے ماننے نا ماننے سے اصول پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ باقی مرزا کی تحاریر کے متعلق ہمارے الفاظ پر حنان صاحب نے بھی یہی بات کی تھی اور قادیانیوں سے ہمدردی رکھنے والا ہر شخص مرزا قادیانی کی بدزبانی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہی کہتا ہے ۔ ۔!

گمنام نے لکھا ہے کہ

مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے تتبع میں جاوید احمد غامدی صاحب نے نزولِ مسیح کا انکار کیوں کیا ہے؟ اس مسئلے پر گفتگو میں اس پہلو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یعنی سوال یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور جاوید احمد غامدی میں بظاہر فرق ہے - ایک تو دونوں میں ایک صدی کا فاصلہ ہے، دوسرے اب انگریزوں کا اقتدار نہیں رہا۔ مرزا غلام احمد اگر انگریزوں کا لگایا ہوا پودا تھے، تو جاوید احمد غامدی نے تو انگریزی عہد دیکھا ہی نہیں۔ یہ وہ الجھن ہے جو بہت سے لوگوں کو معاملے کو پوری طرح سمجھنے سے باز رکھتی ہے۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ انگریزی راج کے حکام ہوں یا آج مغربی قوت کے ترجمان، انہیں اس سے کیا غرض ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کو وبارہ تشریف لانا ہے یا نہیں؟ مغرب کو ہمارے عقائد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اس میں کچھ مستثنیات ہیں۔ ہر وہ عقیدہ جو مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو گرم رکھے یہ لوگ اس کے خلاف ہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام تشریف لائیں گے تو اسلام کا غلبہ ہو جائے گا اور "یضع الجہاد و الجزیہ" اور آپ جہاد و جزیہ کی ضرورت نہ رہے گی۔ اس صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک حضرت مسیح علیہ السلام تشریف نہیں لاتے، مسلمان جہاد کے بھی مکلف رہیں گے اور اپنے اقتدار میں اہل کتاب پر جزیہ بھی عائد کرنے کے پابند ہوں گے۔ اب مرزا غلام احمد اور جاوید غامدی صاحب کے اس اتفاق کی وجہ واضح ہو گئی۔ مرزا غلام احمد نے تو مسیح موعود بن کر جہاد و جزیہ کو ویسے ہی معطل کر دیا۔ لیکن جاوید احمد غامدی اس معاملے میں مرزا غلام احمد سے زیادہ شنیع غلطی کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عہدِ صحابہ کے بعد سے ہی شریعت میں جزیہ ختم ہو گیا۔ اب مسلمان جزیہ عائد نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ جہاد لاعلائے کلمۃ الحق بھی عہد صحابہ کے بعد نہیں کیا جا سکتا۔ اب واضح ہے کہ اگر وہ نزولِ مسیح بن مریم علیہما السلام کی روایات کو قبول کر لیں، تو اس سے تو ان کا جہاد اور جزیے کے بارے میں سارا نقطہ نظر ہی غلط ثابت ہو جائے گا۔ چنانچہ ان کے پاس راستہ نہ تھا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی کا موقف اختیار فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا۔ اگر آپ جاوید غامدی صاحب کی کتاب "میزان" اور مرزا غلام احمد کی کتاب فتح المرام وغیرہ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ جاوید احمد غامدی صاحب جب نزول مسیح کا انکار کرتے ہیں تو اس کے حق میں بعینہ وہی دلائل پیش کرتے ہیں جو مرزا غلام احمد نے دیے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور جاوید احمد غامدی دونوں کا بنیادی مسلک مغرب سے موافقت ہے، جس کے لیے جہاد و جزیے کے مسائل میں انہیں ڈیڑھ ہزار برس سے قائم امت کے اجماع کا انکار کرنا پڑا ہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے "اکفار الملحدین" میں فرمایا ہے کہ نزول مسیح بن مریم علیہما السلام کا منکر کافر ہے۔ اور یہی بات علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے "روح المعانی" میں ارشاد فرمائی ہے۔
احمد فیاض

Unknown نے لکھا ہے کہ

آپ سب کے لئے میرا پیغام ہے ۔۔۔
سب سے پہلے میرا تعارت۔میرا نام فیضان اکبر ہے،میں مسلمان ہوں ،کلمہ پڑھنے والاہوں اور نبی کریم ص آخری نبی ہیں، میں قادیانی نہیں،میں غامدی نہیں،میں فرقہ پرست نہیں۔ میں ہوں صرف اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو لوگوں تک پہنچانے والا اللہ تعالیٰ کا غلام بندہ۔میں ہوں مومن اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام رکھا ہے مسلم۔
آپ سب کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے میرا دل کیا کہ میں آپ کے سامنے کچھ ایسی حقیقت رکھوں جو آپ کو معلوم نہیں۔۔۔تو اب وضاحت محمد فیضان کی طرف سے ۔۔۔۔
پہلے ہم موت کو سمجھتے ہیں موت ہے کیا۔
موت کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک نیند کی موت اور ایک حقیقی موت ۔۔۔
موت کسی بھی قسم کی ہو جسم اس دنیا میں ہی رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے تمام پیغمبروں کا جسم بھی اسی دنیا میں ہے۔ حقیقی موت سے مراد ہے۔روح کا نکل جانا ۔ سانس بند ہو جانا ،دیکھنا بند ہو جانا،دل کی حرکت بند ہو جانا،سوچ سمجھ ختم ہو جانا، یعنی ہر طرح کی حرکت ختم ہو جاتی ہے اگر حقیقی موت آجائے تو۔تمام پیغمبروں پر حقیقی موت آئی۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قول کو نہیں بدلتا۔۔ ۔ یعنی ہر جاندار نے حقیقی موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ۔ ۔ اب جب موت واقع ہوتی ہے تو جسم سب کا اس دنیا میں رہ جاتا ہے آم سے لے کر نبی کریم ص تک یہی ہوا ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کی یہ جسم اس قابل نہیں کہ اس کو عرش پر لے کر جائیا جائے۔ ۔ ۔یہاں تک کہ جب قیامت آئے گی اور دوبارہ جو بھی جسم ہمیں ملے گا وہ اب جیسا جسم نہیں ہو گا وہ خاص ہو گا۔۔۔یعنی گندگی سے پاک اور موت نہیں آنی۔۔۔
اب حقیقی موت کے بعد ایک اور موت ہے جو کہ ہے نیند ۔۔۔نیند ایک عارضی موت ہے جس میں سانس بھی چلتا ہے،دل بھی حرکت کرتا ہے، انسان سوتے ہوئے کروٹ بھی لیتا ہے، لیکن وہ عارضی موت میں ہے ۔ ۔ ۔ اورعارضی موت میں بھی جسم اس دنیا پر ہی موجود ہے ۔ ۔ ۔
اب ظلم کی انتہا یہ ہے کہ موت حقیقی ہو یا عارضی جسم اسی دنیا میں رہتا ہے۔ جیسا کہ تمام پیغمبروں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کا قانون یہی ہے۔اور اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے خلاف نہیں کرتا۔۔
اب ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
عیسیٰ علیہ السلام ۔۔۔عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کیا تھی؟؟
ان کی تبلیغ یہ تھی کہ قیامت آنے والی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک مت کرو تمہیں قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔۔۔۔اس پر ان کی امت کا جواب یہ تھا۔۔کہ کیا تم ہم سے مزاق کرتے ہوتم یہ کیا بات کرتے ہو کہ جب ہم اس مٹی میں مل جائیں گے تو کیا ہم پھر زندہ ہوں گے ۔ ۔ ۔تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت واضح عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے۔سورۃ مالعمران اور سورۃ ائدہ میں۔
(3:49)میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ہوں۔میں تمہارےلئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوںتو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سےحقیقت میں زندہ پرندہ بن جاتا ہے۔۔۔
نوٹ۔ اب یہ آیت آج تک کسی نے نہیں کوڈ کی کیوں کے اس آیت سے صاف وضاحت ہوتی ہے ۔قرآن مجید کی حاکمیت کا علان ہے اس آیت میں ۔۔۔اس آیت سے مراد ہے کہ جب وہ لوگ انکار کرتے تھے کہ کیا کہتے ہو کہ ہم دوبارہ زندہ ہوں گے جب ہم مٹی میں مل جائیں گے ۔تو یہ ہے دلیل کہ قیامت کے دن بھی اسی طرح تم مٹی سے اکٹھے کر لئے جائو گے تم دیکھتے نہیں عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں وہ اس طرح کہ مٹی کو اکٹھا کرتے ہیں اور اللہ کے حکم سے یہ زندہ پرندہ بن جاتا ہے تم بھی قیامت کو اسی طرح زندہ کر کے اٹھائے جائو گے یہ ہے نشانی عیسیٰ علیہ اسلام ۔۔۔۔۔تمام مفسریں کے لئے لمحہ فکریہ۔۔۔۔۔شکریہ ۔۔۔۔ابھی میں دوبارہ اس پیج پر حاضر ہو کر بات کرتا ہوں۔۔۔ٹائم کی کمی کی وجہ سے ۔۔شکریہ اور باقی آیات پر بھی قرآن سے ہی بیان کروں گا۔۔اپنے عقیدے کو درست کریں ضد بازی سے نکلیں۔۔۔شکریہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

سورۃ العمران (3:49)اور سورۃ المائدہ (5:110)کو دیکھں اور سمجھیں قیامت کی نشانی عیسیٰ علیہ السلام ہیں بے شک لیکن وہ کیسے وہ اس طرح کے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے۔۔۔کوئی تفسیر میں نہیں لایا نہ ضرورت ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آیت (43:61)جس میں فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی میں سے ایک نشانی ہیں تم قیامت میں شک نہ کرو۔۔۔اس کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے سورۃ العمران اور سورۃ المائدہ میں ۔۔۔غور کریں شکریہ۔۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

اسلام علیکم ۔۔۔
آج میں آپ کے پاس پھر حاضر ہوا ہوں ۔۔۔کچھ ٹائم کے لئے۔
عام تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ’’توفی‘‘کے ساتھ الموت کا لفظ ہو تو یہ ہے حقیقی موت۔۔۔
جناب۔۔سورۃ النسائ4:15پر غور کریں پھر۔۔۔۔توفی کا لفظ استعمال کیا گیا لیکن ساتھ الموت کا لفظ بھی ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ۔۔۔توفی ۔’’عمر پوری کر دے ‘‘کے معنی میں استعمال کیا گیا۔۔ایسی طرح سورۃ غافر پر غور کریں ۔40:77اس کو بہت غور سے پڑھیں۔’’توفی‘‘کا لفظ ہےلیکن الموت کا لفظ نہیں لیکن سب نے یہاں معنی وفات کے کئے ہیں!!!!ہے کوئی غور کرنے والا۔
اگر آپ سب مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب حاکم کتاب ہے تو اگر ہم اس کا ترجمہ روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو کیا قرآن مجید کی حاکمیت رہے گی۔۔؟؟؟؟!!!جواب ضرور دینا انتظار رہے گا۔۔۔
قرآن مجید کی حاکمت کو ختم کرنے کے لئے جو بھی روایات پیش کی جائے اس کا رد کرنا لازمی ہے اگر نہیں کرتے تو ہم قرآن مجید کا انکار واضح کرتے ہیں ۔۔۔کفر و شرک سے بچو۔۔اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے جو ضد بازی نہیں کرتا ۔اور قرآن مجید پر غور وفکر کرتے ہیں۔عارضی موت کو بھی موت کہا گیا لیکن فرق یہ تھا کہ روح نہیں نکالی جاتی ۔۔۔لیکن اگر غور کیا جائے تو عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ان کا لوٹنا ممکن نہیں۔۔کیوں اس کی وضاحت اگلی پوسٹ میں اور مل جائے گی آپ سب کو۔۔شکریہ۔فیضان اکبر کو یاد رکھیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کا خالص ایمان والا بندہ۔۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

اسلام علیکم۔۔۔اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والاہے۔۔اللہ تعالیٰ مجھے اپنی پناہ میں رکھ اس شیطان مردود سے۔۔۔آمین۔
سورۃ مائدہ 5:117 پر غور کریں۔۔۔
یہاں قیامت کا ذکر ہے یعنی قیامت قائم ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا تو ان کو اپنی عبادت کی تبلیغ کرتا رہا۔۔۔
یہاں اس آیت میں مائدہ 117 میں جواب ہے عیسیٰ علیہ السلام کا غور وفکر کرنے والوں کے لئے ذہن اور آنکھیں رکھنے والوں کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔اس آیت کو آپ خود پڑھیں شکریہ۔
اس میں قیات کے دن کا ذکر ہے میرا سوال آپ سب سے کیا یہ عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے کے بعد ہے یا پہلے ۔۔۔جواب کا انتظار رہے گا۔۔۔
اگر ایسا ہوتا تو ان کا جواب ہوتا اے اللہ جب میں ان میں رہا تو میں گواہ تھا پھر تو نے اٹھا لیا پھر جب تو نے دوبارہ اس دنیا پر مجھے بھیجا تو میں نے ان کو دوبارہ غفلت سے نکالا۔۔۔۔جبکہ ان کا جواب ہے میں جب تک ان میں رہا میں گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو صرف تو ہی سب جاننے والا ہے۔۔یہاں لوگ اٹھا لینے کا ترجمہ کرتے ہیں جو غلط ہے قرآن مجید کے متن کے خلاف بھی ہے۔غور کریں اس پر۔۔۔اور جواب دیں مجھے۔۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

اصل اور درست ترجمہ ہے۔ سورۃ العمران آیت 55۔
عیسیٰ میں تمہاری زندگی پوری کرنے والا ہوں اور تیرے درجات کو بلند کرنے والا ہوں۔
ایسی طرح العمران آیت46۔
وہ گود میں اور بڑی عمر میں یکساں گفتگو کرے گا۔۔اس کو دلیل بنانا بہت بڑا ظلم ہے۔ اس آیت کا مفہوم ہے کہ وہ جب بچے اوربڑے ہو کر دونوں حالتوں میں بڑوں جیسی ہی گفتگو کریں گے معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے عنایت کیا عیسیٰ علیہ السلام کو۔۔۔شکریہ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

سورۃالزخرف 43:32
اس میں بلند کرنے کا ذکر ہے۔ یعنی ’’رفع‘‘
سورۃ مریم 19:57
اس میں ادریس علیہ السلام کا ذکر ہے’’رفع‘‘ بلند کیا۔تو کیا یہ بھی زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو زندہ نہیں اٹھایا تو عیسیٰ علیہ السلام کو ہی خاص کیوں یہ عقیدہ نصانیوں کا تھا جو کہ اب مسلمانوں میں آگیا ہے وہ صرف عیسیٰ علیہ السلام کو افضل مانتے ہیں اس وجہ سے ان کو دوبارہ اس دنیا میں آنے کو مانتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ۔۔۔یہ غافل مسلمان بھی ان کی جھوٹی روایات اور قصہ کہانیوں کو سچا مان چکا ہے اور ان کو سامنے رکھ کر قرآن مجید کے ترجمے کرتے ہیں اور اپنے اپنے مفہوم نکالتے ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ ہدایت دے ہر اس شخص کو جو ہدایت حاصل کرنے والا ہے ضد پرستوں کو کبھی ہدایت نہیں مل سکتی۔ شکریہ۔۔۔۔فیضان اکبر کو یاد رکھنا۔۔۔۔جواب کا منتظر۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

سورۃ الانبیائ21:7
پر غور کریں۔اور 8 پر جو بہت اہم ہے۔
ان کے ایسے جسم نہ تھے کہ ہمیشہ رہیں۔
سورة الأنبياء (21.34)
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ
آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مر گئے تو وہ ہمیشہ کے لئے رہ جائیں گے (١)۔
اب عیسیٰ علیہ السلام بھی نبی کریم ص سے پہلے گزرے ہیں۔یہاں کہا جاتا ہے انہوں نے ابھی موت کا مزہ نہیں چھکا دوبارہ اس دنیا میں آنا پھر موت آنی انہیں۔۔۔اور روایات ایسی ہیں کہ ایک دوسرے کے مخالف کوئی کچھ کہتی کوئی کچھ اے لوگو اس قرآن مجید پر ایمان لے آو جس طرح ایمان لانے کا حق ہے۔
سورة الأعراف (7.20)
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ
پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ (١) ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ (٢) کردے اور کہنے لگے کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

سورۃ العمران 3:55 کا عام ترجمہ کیا جاتا ہے۔
تجھے پورا پورا لینے والا ہوں۔۔۔بھائی یہ کیا ترجمہ ہے اس کا یہ کا مفہوم ہے جو واضح ہی نہیں ہے۔۔۔۔
یہاں درست ترجمہ ۔۔۔تیری زندگی پوری کر کے تیرے درجات کو بلند کرنے والا ہو۔۔۔یعنی تجھے عزت دینے والا ہوں۔۔۔یعنی تیرا مقام بلند کرنے والا ہوں۔۔۔غور کرو لوگو گمراہ مت ہو۔شکریہ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

@Faizan Akbar
آپ نے پہلی آیت جس کی طرف اشارہ کیا سورۃ النسائ4:15 وہ یہ ہے۔
وَٱلَّـٰتِى يَأۡتِينَ ٱلۡفَـٰحِشَةَ مِن نِّسَآٮِٕڪُمۡ فَٱسۡتَشۡہِدُواْ عَلَيۡهِنَّ أَرۡبَعَةً۬ مِّنڪُمۡ‌ۖ فَإِن شَہِدُواْ فَأَمۡسِكُوهُنَّ فِى ٱلۡبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّٮٰهُنَّ ٱلۡمَوۡتُ أَوۡ يَجۡعَلَ ٱللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً۬ (١٥)
اور جوعورتیں بیحیائی کا کام کریں تمھاری بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں پر چار آدمی اپنوں میں سے گواہ کر لو․سو اگر وہ گواہی دیدیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کردے یا الله تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرمادیں۔ (۱۵) ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

اور تمہاری عورتوں میں سے جوکوئی بدکاری کرے ان پر اپنوں میں سے چار مرد گواہ لاؤ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا الله ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے (۱۵) ترجمہ احمد علی

مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی)گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا خدا ان کے لئے کوئی اور سبیل (پیدا) کرے (۱۵) ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری

اس کے میں نے تین مشہور ترجمے پیش کیے ہیں ۔ تینوں میں موت مراد لی گئی ہے، ہمارا مقدمہ بھی یہی تھا کہ جہاں توفی کے ساتھ موت یا اسکے لوازمات کا ذکر ہوگا وہاں موت ہی مراد لی جائے گی۔۔۔ اسے آپ عمر پورا ہونا کہیں تو پھر بھی فرق نہیں پڑتا۔ آپ لوگوں نے ثابت اسکے الٹ کرنا ہے کہ ہر توفی موت ہے۔۔

آپ نے دوسری جس آیت کی طرف اشارہ کیا سورۃ غافر پر غور کریں ۔40:77
فَٱصۡبِرۡ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَۚقٌّ۬ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعۡضَ ٱلَّذِى نَعِدُهُمۡ أَوۡ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيۡنَا يُرۡجَعُونَ (٧٧)

اور جس بات کی دھمکی ہم ان (کافروں) کو دیتے ہیں، چاہے اس کا کوئی حصہ ہم تمہیں (تمہاری زندگی ہی میں ) دکھادیں ، یا (اس سے پہلے ہی) تمہیں دنیا سے اٹھا لیں ، بہرحال تمہارے ذمے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینے کی ذمہ داری ہماری ہے۔

اس آیت میں کفار پر عذاب کی دو صورتوں کی طرف اشارہ ہے اول یہ کہ یا تو اے نبی ہم آپکو وہ عذاب آپکی زندگی میں ہی دکھا دیں یا اس سے پہلے آپ کو دنیا سے اٹھا لیں اور آپ اس کو نا دیکھ سکیں۔ اب لازما اس زندگی میں دکھانے والی بات کے مد مقابل جو نتوفینک ہے اس سے موت مراد ہو گی کیوں کہ اس میں عذاب کا نہ دیکھناموت ہی کی صورت میں ہوگا۔ آسان الفاظ میں یہاں نرینک قریبی اور زندگی کا قرینہ ہے اس کے مقابل میں لفظ نتوفینک بعید کا قرینہ آرہا ہے اس لیے مطلب موت ہی لیا جائے گا۔

ان آیات کے حوالے کے بعد آپ نے لکھا
//
آپ سب مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب حاکم کتاب ہے تو اگر ہم اس کا ترجمہ روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو کیا قرآن مجید کی حاکمیت رہے گی۔۔؟؟؟؟!!!جواب ضرور دینا انتظار رہے گا۔۔۔
قرآن مجید کی حاکمت کو ختم کرنے کے لئے جو بھی روایات پیش کی جائے اس کا رد کرنا لازمی ہے اگر نہیں کرتے تو ہم قرآن مجید کا انکار واضح کرتے ہیں ۔۔۔کفر و شرک سے بچو۔۔اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے جو ضد بازی نہیں کرتا ۔اور قرآن مجید پر غور وفکر کرتے ہیں۔عارضی موت کو بھی موت کہا گیا لیکن فرق یہ تھا کہ روح نہیں نکالی جاتی ۔۔۔لیکن اگر غور کیا جائے تو عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں ان کا لوٹنا ممکن نہیں۔۔کیوں اس کی وضاحت اگلی پوسٹ میں اور مل جائے گی آپ سب کو۔۔شکریہ۔فیضان اکبر کو یاد رکھیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کا خالص ایمان والا بندہ۔۔۔۔
//
ہم نے ان آیات کا ترجمہ قرآن سے ہی کیا ، اور وہ آپ کے موقف کو غلط ثابت کررہا ہے، کیا اس سے بھی قرآن کی حاکمیت پر کوئی فرق پڑ رہا ہے یا نہیں ؟؟ حدیث تو ہم نے یہاں پیش کی ہی نہیں جسکے بارے میں آپ یہ کہیں کہ یہ قرآن کی حاکمیت کے خلاف ہیں ۔ آپ کی فرضیہ قرآنی حاکمیت کا رد خود قرآن کی آیات کررہی ہیں، آپ اب انکا رد بھی کرکے دکھائیں ۔۔۔
ہم تحریر میں بھی کئی حوالوں سے یہ ثابت کرچکے ہیں ، احادیث چونکہ قرآن ہی کی تشریح ہوتی ہیں اس لیے ان میں بھی یہی کچھ لکھا ہوا ہے ۔ آپ فضول مفروضے قائم کررہے ہیں

Unknown نے لکھا ہے کہ


آپ کے سارے کمنٹس میں سے صرف اس کمنٹ کا جواب اس لیے دیا کہ اس میں آپ نے دو آیات کو ہمارے موقف کے خلاف پیش کیا تھا، انکی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ باقی جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ آپ کی ذاتی رائے، مفروضے اور بچگانہ تاویلات ہیں انکا آپ نے قرآن و حدیث آثار سے کوئی ثبوت نہیں دیا نا موجود ہے، خود آپ نے ایک جگہ لکھا '۔کوئی تفسیر میں نہیں لایا نہ ضرورت ہے۔۔۔' ایسی باتیں شرعی مسئلے میں حجت نہیں بن سکتی، اس لیے ہم انکا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ تحریر اور کمنٹ میں پہلے سے ان پر تبصرہ موجود ہے۔۔آپ چاہیں تو انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
باقی جس کو 'رَفَعۡنَا' اور 'رفع اللہ الیہ' کے درمیان فرق نا پتا ہو وہ یہ کہے کہ ''تمام مفسریں کے لئے لمحہ فکریہ۔۔۔۔۔'' ہم اس کو سلام ہی کرسکتے ہیں۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

شکریہ بھائی بنیاد پرست صاحب۔۔۔جس طرح آپ نے سورۃ النسائ4:15 کے تمام ترجمے پیش کیئے ہیں اسی طرح سورۃ غافر 40:77 کے بھی پیش کریں شکریہ۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم،
غامدی صاحب کی علمی بددیانتی پر ایک کا لنک یہ ہے۔ یہ نادر عقیل انصاری نے سہ ماہی جی میں لکھا ہے۔ مصنف غامدی صاحب کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ہے اور بہت بڑا عالم ہے۔ اس کے بعد غامدی صاحب کی باتوں کو سنجیدگی سے پڑھنے اور سننے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مجھے صرف یہ مضمون ہی ملا ہے، ورنہ لگتا ہے کہ رسالے کے اس شمارے میں غامدی صاحب پر کچھ اور ٘مضامین بھی شامل ہیں۔ اگر کسی کو ان کی پی ڈی ایف کاپی کا لنک معلوم ہو تو ضرور بتائیں۔
https://archive.org/search.php?query=nadir%20ansari
ابھی تک غامدی گروہ میں سے کوئی اس کا جواب نہیں دے سکا۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

کیا قیامت میں یہ سوال کیا جایے گا کہ بتاؤ میں نے مسیح کو زندہ اپنے پاس اٹھایا تھا یا موت دے کر ؟ اگر نہیں تو بند کرو یہ ڈرامہ

awan نے لکھا ہے کہ

حیات عیسی کا مسئلہ میں کس کس کا انکار ہے ان کے نام بتا دیں

talim-ul-quran.blogspot.com نے لکھا ہے کہ

اسسلام علیکم .
جناب بنیادپرست صاحب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں علامہ تمنا عمادی نے جو کتاب لکھی ہے اپر بھی روشنی ڈالیں شکریہ

talim-ul-quran.blogspot.com نے لکھا ہے کہ

کیوں کہ مجھے ایک منکر حیات عیسی علیہ السلام سے واسطہ پڑا ہے اس نے تمنا عمادی کی کتاب مھجے دی ہے .
یاد رہے میں مسلک دیوبند جماعت اشاعت التوحید و السنہ سے وابسطہ ہوں .

گمنام نے لکھا ہے کہ

اگر کوئی بھی نزول مسیح کا قائل ہے تو وہ لمبی چوڑی بحث کے بجائے کوئی 1 آیت اور حدیث کو سامنے رکھ کر مقدمہ لائے تو اگر میں اس کے اشکال کو دور نہ کر سکوں تو میں بھی نزول مسیح کا مذید قائل ہو جاؤں گا۔۔۔کیونک میرا عقیدہ نزول مسیح ہی ہے لیکن تحقیق کے نتائج کچھ اور ہی ہیں۔تو اس سے مجھے اپنے عقیدہ میں بھی اطمینان ہو جائے گا اگر آپ اپنے موقف میں درست ثابت ہوتے ہیں لیکن بات صرف 1 ہی آیت یا 1 ہی حدیث پر ہوگی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔